فہرست
امجد خان تجوانہ بورے والا کا سپوت
آج اردونامہ فورم تعارف لے کر آیا ہے امجد خان تجوانہ کا جو جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر بورے والا کا رہائشی ہے جو نہ صرف ایک نفیس انسان ہیں ساتھ ہی ساتھ ایک اچھے شاعر اور منجھے ہوئے کوہ پیما کے طور پر اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ انسان کے جذبے جواں ہوں تو بلند و بالا پہاڑ اور برف پوش چوٹیاں بھی اس کے لئے اپنی منزل کے حصول میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتیں۔ کوہ پیمائی جنون اور بے پناہ لگن سے عبارت ایک ایسا شوق ہے جسے پورا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں جہاں ایک طرف آسمان سے ہم کلام ہوتے بلند و بالا پربت انسان کو چیلنج کرتے ہیں تو دوسری طرف انسان بھی یہ چیلنج قبول کرنے سے نہیں گھبراتا۔
بورے والا کے سپوت امجد خان تجوانہ بھی ایک ایسے ہی کوہ پیما ہیں جنہوں نے ایک بار جس چوٹی کو سر کرنے کا عزم کر لیا تو پھر ان کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ ان کے بلند حوصلے کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتی چلی گئی۔ اپنے کوہ پیمائی کے شوق کا آغاز کیئے ہوئے امجد خان تجوانہ کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں لیکن اپنے بلند حوصلے اور ہمت کی بدولت انہوں نے کوہ پیمائی کی دنیا میں کئی ریکارڈ بنا ڈالے۔
حال ہی میں جشن آزادی اور سیاحت کے فرو غ کے سلسلہ میں پاکستانی اور کشمیری کوہ پیماء ٹیم نے 16ہزار 5 سو فٹ بلندی پر 200 فٹ لمبے اور 20 فٹ چوڑے پرچم لہرائے۔ شہدائے پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مائی ناردہ جھیل پر شمعیں روشن کیں۔پاکستان آرمی / SCO اور گیسٹ ہاؤسسز ایسوسی سیاحتی مقام مائی ناردہ کوسرکیا اور ولڈریکارڈ بنایا۔
مائی ناردہ کو دنیا کے سامنے لانے کیلئے کوہ پیماء ٹیم نے ضلع نیلم کی تاریخ میں 200 فٹ لمبے اور 20 فٹ چوڑے پاکستان ,آزادکشمیر اور آئی ایس پی آر کا پرچم لہرائے۔کوہ پیماء ٹیم نے پاکستان کے شہداء اور غازیوں کو 16500 فٹ بلندی پر پرچم لہرااور شمعیں روشن کرکے خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستانی کوہ پیماء ٹیم نے مملکت پاکستان کی حفاظت کے لیے کھڑے فوجی جوانوں کوبھی سلام پیش کرتے ہوئے کشمیری قوم کے ملی جذبات کو سراہا۔
اس مہم میں امجد خان تجوانہ نے نہ صرف کلیدی کردار ادا کیا بلکہ بورے والا جیسے چھوٹے شہر کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کا نام پوری دنیا میں روشن کیا، پاکستانی کوہ پیماء ٹیم، ،امجد خان تجوانہ، محمد بلال اکبر، ثاقب الرحمن ۔ سید سرمد علی،ذوالفقار لودی،میڈم سمانہ رحیم، عمارہ خان، کوثرعلی سواتی، عباس خان سواتی،عامر مغل،ثاقب الرحمن، سردار اورنگزیب، پروایویٹ گیسٹ ہاوسزآزاد کشمیر کے چیرمین عبدالرزاق مغل پر مشتمل تھی۔
مائی ناردا چوٹی کو ہی سر کرنے کی وجہ کیا ہے
امجد خان تجوانہ نے اردونامہ انتظامیہ سے بات کرتے ہوئے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ آیا مائی ناردا چوٹی کو ہی سر کیوں کیا گیا جبکہ بہت سارے لوگوں نے تو اس کا نام ہی نہیں سنا ہوا انہوں نے بتایا کہ اصل مقصد اس علاقے کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانا تھا کیونکہ شاردا پیٹھ (Sharada Peeth) کے نام سے مشہور یہ جگہ ایک انتہائی قدیمی درسگاہ کے طور پر دنیا کے عجائبات میں شامل ہے۔
شاردا پیٹھ: قدیم تعلیمی مرکز
شاردا پیٹھ کا علاقہ آزاد جموں و کشمیر، پاکستان میں واقع ہے۔ 6 ویں سے 12 ویں صدی تک اس علاقے کے ہندو مندر کو ایک انتہائی مقبول یونیورسٹی سمجھا جاتا تھا۔ دور دراز کے لوگ یہاں علم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ 11ویں صدی میں تقریباً 10,000 زائرین اس جگہ کو جاتے تھے۔ مزید یہ کہ مورخین نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ جگہ اصل میں بدھوں کی تھی۔ ہندوؤں کے قبضے میں آنے سے پہلے یہ ان کے لیے سیکھنے کی جگہ تھی۔ مسلم دور میں بھی 13ویں اور 14ویں صدی کے مسلمان بادشاہ اس جگہ کا دورہ کرتے تھے اور اس کی عظیم تاریخ کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔
یہ جگہ آزاد جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ لائن آف کنٹرول سے صرف 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جو کہ پاکستان اور بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کے دو مختلف علاقوں کو الگ کرنے کے لیے بنائی گئی سرحد ہے۔ یہ جگہ سطح سمندر سے 6,499 فٹ بلند ہے۔ اس کے قریب دریائے نیلم بہتا ہے۔
اس مقام کو مقدس سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہندو مانتے ہیں کہ یہ ایک خاص وقت کے لیے بھگوان شیو کا گھر ہے۔ یہ مقام خوبصورت ناردا چوٹی کے بہت قریب ہے، جو شاردا کے داخلی دروازے سے پہلے ہے۔ ہندو افسانوں کے مطابق اس چوٹی کی شکل دراصل دیوی سرسوتی کی ہے، جو ہندو مذہب میں علم کی دیوی تھی۔ اس چوٹی کے ارد گرد تین جھیلیں ہیں: نردا جھیل، سرسوتی جھیل، اور نریل جھیل۔
مندر میں بنگال اور دیگر دور دراز مقامات سے عقیدت مند اس جگہ پر آتے تھے۔ اسے آٹھویں صدی تک ایک مندر کے طور پر جانا جاتاتھا۔ جلد ہی یہ جگہ 11 ویں صدی تک ہندو عبادت کے لیے ایک مرکزی مقام بن گیا۔ یہاں تک کہ غیر ہندو بھی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اس جگہ جایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، ایک مسلمان بادشاہ نے ایک ہندو دیوی کی رحمت کی تلاش میں اس جگہ کا دورہ کیا، جو اسے خواب کی صورت میں نظر آئی۔ لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہر مہینے کے وسط میں یہ جگہ انوکھے انداز میں ہلا کرتی تھی۔
امجد خان تجوانہ کے اعزاز میں انتظامیہ اردونامہ کا پروگرام
امجد خان تجوانہ کے اس کارنامے کو سراہنے کے لئے بورے والا شہر میں ان کے اعزاز میں کئی پروگرام منعقد کیئے گئے، اسی سلسلہ میں انتظامیہ اردونامہ نے بھی امجد خان تجوانہ کے اعزاز میں ریسرچ اسکول انٹرنیشنل بورے والا کمپس میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا جہاں ان کی ان کاوشوں کو سراہا گیا اور بورے والا شہر کا نام روشن کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔
اردونامہ سے بات کرتے ہوئے امجد خان تجوانہ نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبہ کی ترقی اور فروغ کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ امید ہے کہ امجد خان تجوانہ اپنے اس خواب کو تعبیر دینے میں کامیاب رہیں گے ، یہ وہ خواب ہےجس کی تعبیر ہر پاکستانی کوہ پیما چاہتا ہے۔
یہاں یہ بتانا سیاق و سباق سے ہٹ کر بالکل نہیں ہو گا کہ امجد خان تجوانہ صرف ایک کوہ پیما ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک بہترین شاعر کے طور پر بھی اردو کمیونٹی میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں ان کی شاعری کی پہلی کتاب مرے ساتھ نہ چل 2018 میں شائع ہوا اور ان کی دوسری کتاب مرشد 2022 میں شائع ہوئی awr
امجد خان تجوانہ کے اس کارنامے کی بہت ساری تصاویر اور ویڈیوز ان کے فیس بک صفحہ پر موجود ہیں چونکہ سب یہاں شئیر کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے اردونامہ انتظامیہ اپنے قارئین کے ساتھ ان کا فیس بک صفحہ شئیر کر رہی ہے تاکہ آپ وہاں سے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکیں۔ ان کے فیس بک صفحہ تک رسائی کے لئے یہاں کلک کیجئے۔