فہرست
ڈاکٹر فریاد آزر کے سہہ ماہی ادب عالیہ کے اجراء کے موقع پر ہونے والی تقریب کا احوال
نئی دہلی۱۶/ اکتوبر، جامعہ نگر کے تسمیہ آڈیٹوریم ایک بین اقوامی ادبی رسالے ادبِ عالیہ کے پہلے شمارہ کے افتتاح کے موقع پر مشہور و معروف عاشقِ اردو ڈاکٹر سید فاروق صاحب نے ڈاکٹر فریاد آزر کے عالمی اردو جریدے ادبِ عالیہ کا افتتاح کیا۔ اردونامہ اپنے قارئین کے لئے اس تقریب کا احوال یہاں پیش کر رہا ہے تاکہ جو لوگ اس کے بارے میں علم نہیں رکھتے ان سے ادبِ عالیہ کا تعارف کروایا جا سکے۔
اس موقع پر انہوں نے فرمایا کہ اس عہد میں ایک نہایت شاندار ادبی رسالہ نکالنا وہ بھی اردو میں، بڑے دل گردے اور حوصلے کی بات ہے، خدا اس رسالے کو کامیاب بنائے اور یہ رسالہ جیسا کہ اس کے مشمولات سے ظاہرہوتا ہے۔ واقعی عالمی اردو ادب کا میعاری رسالہ ہے، اردو عوام و خواص کو چاہئے کہ اس رسالے کی اور اس کے مدیر ڈاکٹر فریاد آزر کی حوصلہ افزائی کریں۔ پروفیسرابنِ کنول نے ڈاکٹر ڈاکٹر فریاد آزر کو اس اہم کارنامہ پر مبارک باد پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ اردو ادیب اسے اپنائیں گے اور ادبِ عالیہ میں شائع ہونا فخر کی بات محسوس کریں گے۔
پروفیسرموصوف نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ادبِ عالیہ کے ہر شمارے میں تازگی محسوس ہونی چاہئے ،ایسا نہ ہو کہ پرانے مضامین اس میں شامل ہوں۔ پروفیسر شہپر رسول نے رسالے کواردو ادب کا ایک نیا باب قرار دیا،انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے رسالے ایک طرف دم توڑتے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف ڈاکٹر فریاد آزر جیسے اردو کے جنونی عاشق ادب کے بنجر زمین کو ہریالی بخشنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مشہور معروف ادیب حقانی القاسمی نے ادبِ عالیہ کی اصطلاح کو کلاسیکی ادب کا ہم معنی قرار دیا، پھر بھی انہوں نے ادبِ عالیہ نامی اس رسالے کو اردو ادب کے لئے نیک شگون قرار دیا۔
ڈاکٹر خالد مبشر نے اسے اردو رسائل میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا نامور ماہرِ ادبیاتِ اطفال جنا ب سراج عظیم نے یہ خوشی ظاہر کی کہ اردو کے کسی بھی ادبی رسالہ میں ادبِ اطفال کو جگہ نہیں دی جاتی لیکن ادبِ عالیہ نے بچوں کے ادب پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔
ڈاکٹر ایم آر قاسمی نے ادبِ عالیہ کو اس دور کا اہم ادبی رسالہ بتایا جو عالمی طور پر مقبول ہو رہا ہے۔اس خصوصی محفل میں ادبِ عالیہ کے مدیر، نامور شاعر اور ادبی صحافی ڈاکٹر فریاد آزر نے اردو کی اہم ترین شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے سبھی کا شکریہ ادا کیا لیکن اردو کے زوال کا ذمہ دار خود اہلِ اردو کو قرار دیا ۔ ان کے مطابق اردو عوام اپنی نئی نسل کو اردو سے ناآشنا رکھ رہے ہیں اور اس میں انہیں کوئی تکلیف بھی نہیں ہو رہی ہے۔
دوسری طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز اہلِ اردو حضرات اپنی نئی نسل کو عام طور پر انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں جہاں اردو زبان پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔اس کے علا وہ لوگ اردو کے اخبارو رسائل خریدنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
عام طور پر اردو کے ادیب و شاعر اردو کے رسائل اس لئے نہیں خریدتے کہ ہمیں ادیب و شاعر ہونے کے ناطے رسالہ مفت میں ملنا چاہئے جس کے نتیجے میں بڑے بڑے ادبی رسائل بند ہو گئے اور بند ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ اردو کے عاشق اپنے ذاتی طور پر نیا رسالہ شروع کرتے ہیں لیکن کوئی خریدار نہ ملنے پر یا فقط گنتی کے خریدار ملنے کی وجہ سے یہ رسالے بھی چند شماروں کے بعد دم توڑ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر آزر نے سوشل میڈیا پر بھی اردو والوں کی بے حسی کے مظاہرے کو محسوس کیا ہے۔ ان کے بقول اردو کے زیادہ تر شعرا اپنے کلام پر زیادہ لائک پانے کی دھن میں یا تو اپنا کلام ہندی میں پوسٹ کرنے لگے ہیں یا پھر اردو کے ساتھ ہندی ضرور لگا دیتے ہیں۔ وہ انجانے میں یا جان بوجھ کر یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ ہندی خط کے بغیراردو کا کوئی وجود نہیں، اس کام میں اردو عوام ہی نہیں بلکہ کچھ نادان پروفیسر بھی آگے آگے ہیں۔اگر انہیں ٹوکا جاتا ہے تو برا مان جاتے ہیں اور کچھ تو باقاعدہ لڑ نے لگ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فریاد آزر کے ادب عالیہ کے اجراء کے پروگرام کے دوسرے حصے کا احوال
مسائل سے کہو اتنا نہ اب مجھ کو نچائیں ٭ کہ میں نے زندگی بھر تاتا تھیا کر رکھا ہے
پروگرام کا دوسرا حصہ ایک مشاعرہ پر مبنی تھا، جامعہ نگر کے تسمیہ ا ٓدیٹوری میں عالمی اردو ادب کے ترجمان ادبِ عالیہ کے اجرا کے موقع پر ادارہ ادبِ عالیہ کی جانب سے ایک شاندارمشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر شہپر رسول نے کی اور نظامت کے فرائض جناب حامد علی اختر نے بڑی کامیابی سے انجام دیئے ۔قارئین کی دلچسپی کے لئے شعرا کے منتخب اشار پیش کئے جا رہے ہیں۔
یہ پھول پھل جو نظر آ رہے ہیں شاخوں پر
لہو بدن کا نچوڑا ہے تب لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ شہپر رسول
اس قدر زار زار میں رویا
ماں کی تصویر بات کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسر ابنِ کنول
مسائل سے کہو اتنا نہ اب مجھ کو نچائیں
کہ میں نے زندگی بھر تاتا تھیا کر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر فریاد آزر
یہ حشراور نشر سماوی کشش نہیں
محشر کا خلفشار ہے میرے وجود میں۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر خالد مبشر
چہرہ تقدیر کا زرد ہونے لگا
اپنی تدبیر کو سرخ رو کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسد رضا
میں جنہیں غیر سمجھتا مرے کام آئے
مرے اپنے مری رسوا کا سامان بنے۔۔۔ڈاکٹربرقی اعظمی
مٹا دے تیرگی قلب و نظر کی
تجلی وہ ردا سے چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ایم آر قاسمی
کچھ بات وات بننے کے آثار بھی نہیں
یہ اور بات ہے ابھی انکار بھی نہیں۔۔۔۔۔حامد علی افسر
مرا تعارف کرائو اس سے
وہ مجھ کو پہلے سے جانتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ رخ عبیر
پائوں بچا کر رکھنے سے یہ بہتر تھا
تو رستے سے خار ہٹا کر رکھ دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔احتساب انشا
اس نے چومی تھی میری پیشانی
پھول اگنے لگے ہیں سینے پر ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔علی ساجد
تاریخوں پر لگتی ہیں بس تاریخیں
تاریخوں سے ڈائریاں بھر لیتے ہیں
ناداں ہی بھرتے ہیں فیس وکیلوں کی
دانش مند تو سیدھا جج کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمد علوی
تم سے ٹکرائے تو ہوا معلوم
حادثے خوش نما بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاکر دہلوی
حیرت ہے کہ اڑنا ابھی سیکھا نہیں جس نے
وہ بھی مرے بازو،مرے پر کاٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔اعجاز انصاری
گر کوئی مقصدِ حیات نہیں
پھر تو وہ آدمی کی ذات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وحید عازم
زمیں پہ بیٹھ کے یہ سوچتا ہوں میں اکثر
پرندے سوچتے ہیں کیا اڑان بھرتے ہوئے۔۔۔۔۔خالد اخلاق
کسی پہ نظرِ کرم کی اس نے کسی پہ اپنا جلال ڈالا
کہیں زمینیں پلٹ کے رکھ دیں کہیںسمندر اچھال ڈالا۔۔۔۔۔عمران راہی
اداس ہیں جو حسین چہرے میں ان کو ہنسنا سکھا رہا ہوں
میں جب مروں گا مرے کفن سے بھی پھول نکلیں گے دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انس فیضی
مشاعرہ بہت ہی کامیاب رہا جس کے اختتام کے بعد ڈاکٹر سید فاروق صاحب کی طرف سے ایک پرتکلف عشائیے کا ہتمام کیا گیا پھرسبھی شرکا کو ہمالیہ پروڈکٹ کے گفٹ پیک سے نواز کر رخصت کیا۔
مدیر ادبِ عالیہ ڈاکٹر فریاد آزر کے بارے میں
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا میں
زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا
اردو غزل میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس کے واضح نقوش بہت کم شاعروں کے یہاں نظر آتے ہیں۔ اپنے عہد کی ستم ظریفیوں ور عیاریوں کو آئینہ دکھانے کی ہمت ہر شاعر میں نہیں ہوتی۔ اس کام کے لئے صفائے باطن اور شعورِ فن کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت چاہئے۔ ڈاکٹر فریاد آزر ایک ایسے شاعر ہیں جو ۱۹۸۰ کے بعد کی ادبی نسل میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں فرد کی بے ضمیری اور معاشرے کی بے مروتی دیکھی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزر اس دور کے شاعر ہیں لہٰذا س عہد کے کرب کو انھوں نے سمجھا ہے، محسوس کیا ہے معاملہ چاہے ذاتی ہو، سماجی ہو یا بین اقوامی، ان کی نگاہ ہر اہم موضوع پر ضرور پڑتی ہے۔ چاہے معاملہ سائنسی ترقیات اور خلائی سیارچوں کا ہو جس کے ذریعہ آج نہیں تو کل اسٹار وار ہونا ہی ہونا ہے، یا پھر زمینی، فضائی یا خلائی آلودگی کا ہو یا بین اقوامی دہشت گردی اور اس کو بہانہ بنا کر پوری دنیا میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی جگہ جگہ نسل کشی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اس کو بغور دیکھ رہا ہے اور اس پر آنسوبہا رہا ہے۔
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
تنہائی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی دنیا چھینی جائے گی ہم سے
مجبوری سنیاس لکھے گی اب کے برس بھی
آس کے سورج کو لمحہ لمحہ ڈھونڈیں گے
اور تاریکی یاس لکھے گی اب کے برس بھی
پہلے بھی دریا دریا برسی تھی برکھا
صحرا صحرا پیاس لکھے گی اب کے برس بھی
جس میں وش کا واس ہوا کرتا ہے آذر
جان وہی وشواس لکھے گی اب کے برس بھی
مدیر ادبِ عالیہ ڈاکٹر فریاد آزر کے بارے میں مزید جاننے کے لئے دیکھیں۔
اردو وکیپیڈیا پر ڈاکٹر فریاد آزر کا تعارف
مشہور اردو ویب سائیٹ ریختہ پر ڈاکٹر فریاد آزر کی تمام تحریریں
اردو یوتھ فورم پر ڈاکٹر فریاد آزر کی تحریریں
ڈاکٹر فریاد آزر کے ورڈپریس اور بلاگر پر بلاگز
ڈاکٹر فریاد آزر کی شاعری اردو پوائنٹ پر