فہرست
ماں کے چور
ایک تھے بزرگ ٹھیکیدار، سرکار کے ٹھیکوں سے جو چرا سکتے تھے چراتے تھے۔ سیمنٹ، سریا، پیٹرول، چوکیداروں کی تنخواہیں چراتے تھے، ہوا میں سڑکیں اور سکول بنا کر خوب مال بناتے تھے اور ایسے تمام ٹھیکیداروں کی طرح جب اپنی کوٹھی بنائی تو اس پر بڑے خوش خط الفاظ میں ہذا من فضل ربیّ لکھوایا۔
راقم کو اس وقت کرپشن اور بدعنوانی جیسے بھاری بھرکم الفاظ نہیں آتے تھے۔ میں نے جب ایک دفعہ انہیں پائپوں کے ٹرک فیکٹری سے نکلوا کر شہر میں بچھانے کی بجائے بازار میں بیچتے پایا تو ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ یہ تو چوری لگتی ہے۔
بزرگ ٹھیکیدار نے مجھے بڑی شفقت سے پوچھا کہ بیٹا کیا کوئی اپنی ماں سے چرا سکتا ہے؟ راقم کی سٹپٹاہٹ دیکھنے کے بعد انہوں نے مزید شفقت فرمائی اور سمجھایا کہ بیٹا حکومت ہماری ماں کی طرح ہے جو اس کا ہے وہ ہمارا ہے، تو اگر میں نے ماں کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چار آنے نکال لیے تو اسے چوری سمجھنا زیادتی ہے۔
یونس حبیب نے اپنی وہیل چیئر سے سیاست دانوں، جرنیلوں اور صحافیوں کی فہرست پڑہ کر سنائی تو مجھے لگا یہ سب لوگ بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ اپنی والدہ ماجدہ کا پلوّ کھول کر اس میں سے چار چار آنے نکال رہے ہیں اس میں چوری ، بدعنوانی، جرم و سزا جیسے الفاظ کہاں سے آگئے۔ آخر اعلیٰ عدلیہ اس معمولی سے گھریلو تماشے پر اپنا وقت کیوں برباد کر رہی ہے؟