پاکستان میں تعلیمی مسائل پر اردونامہ فورم کی جانب سے لکھا گیا ایک مضمون جس میں اردونامہ فورم انتظامیہ نے پاکستان میں تعلیمی مسائل کے مختلف پہلووں کا نہ صرف احاطہ کیا گیا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان مسائل کے حل کے لئے تجاویز بھی موجود ہیں۔
تعلیم و تربیت سیکھنے اور جاننے کا سیدھا سیدھا طریقہ ہے، یہ صرف اسکولوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تربیت ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے۔ سرپرست اور اہل خانہ بچے میں ابتدائی عادات و اطوار سنوارنے میں مدد دیتے ہیں تاکہ وہ معاشرے میں اپنا مقام بنا سکے۔
گھر کو نوجوانوں کا پہلا اسکول کہا جاتا ہے ، تاہم مناسب تعلیم و تربیت اسکول سے شروع ہوتی ہے ، جہاں انہیں پڑھایا جاتا ہے سکھایا جاتا ہے کہ ان کے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس پر عمل اور ان کا اندازہ کیسے کیا جائے۔
بقول ڈائیجنیس لارٹیئس: "ہر ریاست کی بنیاد اس کے نوجوانوں کی تعلیم ہے”۔
یہ اندازہ کرنے کے لئے کہ ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے اور ہمیں ان حالات میں کیا اقدامات اختیار کرنے چاہیں تعلیم و تربیت ہر فرد کے لئے اہم ہے ۔ ایک ایسا شخص جو تعلیم یافتہ ہے صرف وہی حالات کے مطابق بہترین انتخاب کرسکتا ہے اور صحیح وقت پر صحیح اقدامات اٹھا سکتا ہے۔
بغیر کسی تعلیم و تربیت کے انسان کی موجودگی بنجر زمین کی طرح ہی ہے۔تعلیم لوگوں کو نہ صرف یہ صلاحیت دیتی ہے کہ وہ مستقبل میں آنے والے حالات کے عین مطابق اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور ان کے مطابق بہترین فیصلوں تک پہنچ سکے، یہ ہر فردکے لئے ضروری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور اس کے بعد معاشرے کے لئے ایک اپنا کردار نبھائے۔
پاکستان میں تعلیمی مسائل کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیم کے لحاظ سے پاکستان میں تعلیم کے حالات دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح نہیں ہیں، لازمی تعلیم کی سطح پر داخلہ کی کم شرح، صنفی امتیاز، معاشی تضادات، اساتذہ کی عدم موجودگی اور مناسب سازو سامان کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں تعلیمی مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
طبقاتی تضاد کا عالم یہ ہے کہ اپر کلاس لوگ اپنے بچوں کو پاکستان سے باہر پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں اور مڈل کلاس لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بہترین سکولوں سے تعلیم حاصل کریں۔
اور ان کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مختلف پرائیویٹ سکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجیں جبکہ غریب لوگ سرے سے اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے اسے اپنے ساتھ کوئی کام سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وہ ان کا دست راست بن کر روٹی کمانے کے قابل ہو سکے۔
اور اگر یہ اپنے بچوں کو سکول بھیجتے بھی ہیں تو سرکاری سکولوں میں یہی سب سے نچلا طبقہ جاتا ہے جہاں مناسب ضروریات کے فقدان کے ساتھ ساتھ اداروں کے نامناسب رویوں کی وجہ سے دن بدن حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔
اسی طبقاتی امتیاز کا نتیجہ ہے کہ انگریزی میڈیم اسکولوں میں بہت کم طلباء اسلام کے بارے میں سیکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بیرونی دنیا سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔
مذکورہ بالاتدریسی فریم ورک کے علاوہ ایک اور فریم ورک اسی طرح چلایا جارہا ہے یعنی مذہبی اسکول کا فریم ورک جو خصوصی طور پر بچوں کو سخت تربیت فراہم کرتا ہے لیکن اس فریم ورک کی اکثریت مذہبی تعلیم کو اچھا خیال کرتے ہیں لیکن آج کل کی بنیادی تعلیم سے انکاری ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی نظام چلانے کا کام وزارتِ تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں، جبکہ فیڈرل گورنمنٹ کا کام تعلیم کے حوالے سے ان دونوں حکومتوں کی مدد اور ریسرچ کی فراہمی کا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم بنیادی طور پرپانچ ادوار پر مشتمل ہے:
پرائمری پہلی سے پانچویں جماعت تک
مڈل چھٹی سے آٹھویں جماعت تک
سیکنڈری نویں اور دسویں جماعت
انٹرمیڈیٹ گیارہویں اور بارہویں جماعت
ہائیر ایجوکیشن تیرہویں سے سولہ سالہ اور اس سے اوپر کی تعلیم
اوپر بیان کردہ تمام مراحل میں طلباٗ شدید مشکلات محسوس کرتے ہیں۔البتہ حکومت کا یہ اقدام نہایت تحسین آمیز ہے جس میں حکومت کی طرف سے پرائمری سکول کی سطح تک تعلیم مفت فراہم کرنے کے لئے اقدام کئے ہیں جو پاکستان میں تعلیمی مسائل کم کرنے کی طرف ایک اچھا قدم ہے۔
جس میں کتابوں کی مفت دستیابی، فیس معافی وغیرہ کے ساتھ تعلیم فراہم کی جار ہی ہے لیکن اس کے اثرات بھی شہری حلقوں میں دکھاوے کی حد تک زیادہ ہیں جبکہ پسماندہ علاقوں جہاں ان اقدامات کی زیادہ ضرورت ہے وہاں ان کا فقدان ہے اور ان سہولیات کا اثر اکثر اوقات وہاں تک نہیں پہنچ پاتا۔
دوسری طرف ہمارے اکثر علاقوں میں آج بھی لڑکے اور لڑکیوں میں فرق کیا جاتا ہے اور یہی فرق ان کی تعلیم میں بھی روا رکھا جاتا ہے اور لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے، گو کہ اب صورتحال شہروں کی حد تک کسی صورت بہتر ہوتی جا رہی ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ فرق آج بھی اتنا ہی زیادہ ہے جتنا آج سے پچاس سال پہلے تھا یہ سوچ پاکستان میں تعلیمی مسائل میں اضافہ کرتی ہے۔
دوسری طرف کالجز کی حد تک سٹوڈنٹ تنظیمیں باوجود پابندیوں کے اس قدر فعال ہیں کہ بلا شبہ مقامی سیاست دانوں کی آشیرباد کی وجہ سے یہ درس گاہیں سیاسی اڈوں میں تبدیل ہو چکی ہیں جہاں نہ اساتذہ کرام کو عزت حاصل ہے اور نہ ہی انہیں مناسب تعلیمی تسلسل جاری رکھنے دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں تعلیمی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں قابل اساتذہ کی بے حد کمی ہے اور اساتذہ اور مناسب سازوسامان کی اس کمی کے نتیجے میں جو جنریشن پروان چڑھ رہی ہے وہ آنے والے دور میں خود استاد کے عہدے پر فائز کو کر معیار تعلیم کا جو حال کرے گی اس کا تصور ہی ہوش ربا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی مسائل پر اثر انداز ہونے والے عوامل
اساتذہ کرام
اساتذہ کا معیار تعلیم میں سب سے اہم کردار ہے اگر آپ کا استاد اچھا نہیں ہے تو پھر آپ چاہے کچھ بھی کر لیں جو بھی ریسورسز فراہم کر دیں وہ کارگر نہیں ہو پائیں گی۔ پاکستان میں سب سے پہلے تو اساتذہ کی مناسب تعداد ہی موجود نہیں ہے۔
اور ایک کلاس جس میں عموم سو یا اس سے بھی زیادہ بچے موجود ہیں انہیں پڑھانے کے لئے صرف ایک استاد موجود ہے۔ دوسری طرف جو اساتذہ موجود بھی ہیں اگر ان کا لگاؤ پڑھانے کی طرف نہیں ہو گا تو وہ طلبہ کو اچھی تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔
اساتذہ کے اچھی پروفارمنس نہ دینے میں بے شمار فیکٹرز ہیں جیسا کہ ان کی مناسب ٹریننگ نہ ہونا، پڑھانے کے جدید طریقوں سے ہم آہنگ نہ ہونا،
ان کے لئے اپنے گھر سے دوری، گھریلو مسائل، معاشی مسائل، سکول گھر سے دور ہونے کی وجہ سے موسمی حالات اور راستے کے حالات یہ سب فیکٹرز مل کر ایک استاد کی تعلیمی استعداد کو متاثر کرتے ہیں۔
نصاب تعلیم
پاکستان میں تعلیمی مسائل کے دوسرے عوامل میں سب سے بڑا نصاب تعلیم کا جدید زمانے کے حساب سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے، ہمارے نظام تعلیم میں نصاب عموما جدید زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔
اور ہم بچوں کو رٹی رٹائی چیزیں پڑھا کر انہیں بھی اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ انہیں چیزوں کو رٹا لگائیں اور زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کر لیں، جس سے بچہ ڈگری تو لے لیتا ہے لیکن معاشرے کے لئے ایک مفید شہری نہیں بن پاتا۔
دوسری طرف نصاب تعلیم کا یکساں نہ ہونا ایک بہت اہم فیکٹر ہے جو ہمارے بچوں میں شروع دن سے طبقاتی تضاد پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ایک بچہ جو اچھے پرائیویٹ سکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اس بچے سے کہیں زیادہ بہتر مواد پڑھ رہا ہوتا ہے جو ایک گورنمنٹ سکول میں پڑھنے والا بچہ پڑھتا ہے اس سے نہ صرف طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ دونوں سکولوں کے بچے معاشرے کے لئے بے کار ثابت ہوتے ہیں۔
والدین کی پسند
پاکستان میں تعلیمی مسائل میں والدین کی ذاتی پسند نہ پسند بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، بجائے اس کے کہ بچے کے رجحانات کے مطابق اسے تعلیمی عمل سے گزارا جائے ہم لوگ بچوں پر اپنی مرضی تھوپتے ہیں میرا بچہ پڑھ کر پائلٹ بنے گا،
میں اسے ڈاکٹر بناؤں گا میرا بیٹا تو انجئنیر ہی بنے گا، ایسے میں اکثریت نہ تو ڈاکٹر بنتی ہے نہ انجئنیر نہ پائلٹ بلکہ ان کا پڑھائی سے ہی دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔
معاشی و سماجی حالات
ملک کے معاشی و سماجی حالات اور رویئے بھی پاکستان میں تعلیمی مسائل میں اضافہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
ملک میں پائے جانے والے سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ہونے والی ہڑتالیں، جلسے جلوس ہنگامے، طلبہ تنظیموں کی طرف سے کلاسز کا بائیکاٹ، اساتذہ کا اپنے مسائل کے حل کے لیے تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دینا،
رشوت ستانی، سفارشی کلچر جیسے عوامل ایسے ہیں جو نہ صرف طلبہ پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ اساتذہ کی توجہ بھی تعلیم دینے سے ہٹانے کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی مسائل کے حل کے لئے تجاویز
دیہی اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے کی طرف خاص توجہ دی جائے اور تمام علاقوں میں لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان کے لئے حصول علم کے ذرائع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے بنیادی تعلیم لازمی کی جائے۔
اور ان علاقوں میں جہاں معیار تعلیم گر رہا ہے وہاں ان قابل ترین اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں جو ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں ۔ اس کے علاوہ اساتذہ کرام کے کم کی بہتر نگرانی اور فیڈ بیک کے سسٹم سے اس میں مزید بہتری کی ہر وقت گنجائش رکھی جائے۔
معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ اساتذہ کرام کو بھی جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لئے مناسب اقدامات کیئے جائیں انہیں نئے طریقوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے
ان کی ٹریننگ کا انعقاد کیا جائے اور سالانہ بنیادوں پر ان کے پڑھانے کے انداز کو جانچا جائے اور اس کی بنیاد پر ان کی ترقی کا سسٹم بنایا جائے۔
بار بار تعلیمی نصاب میں تجربات کرنے کی بجائے نصاب کو یکساں کرنے پر توجہ دی جائے ، پورے پاکستان میں ایک ہی نظام تعلیم اور ایک ہی نصاب تعلیم مقرر کیا جائے اور مہنگے ترین سکولوں سے لے کر گورنمنٹ سکولوں تک سب کو اس نصاب تعلیم کو اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ طبقاتی تقسیم کے عمل کو روکا جا سکے۔
نصاب تعلیم کو جدید دور سے ہم آہنگ کیا جائے اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی نصابی سرگرمیوں میں مدد لی جائے تاکہ طلبہ ان چیزوں کے منفی کی بجائے مثبت استعمال کو سیکھ سکیں اور کل جب وہ بہترین تعلیم یا روزگار کے حصول کے لئے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کریں تو جدید آلات سے پہلے سے آگاہ ہوں۔
روائیتی مضامین کے ساتھ ساتھ ان مضامین کو بھی فروغ دیا جائے جو طلبہ کو معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکے جیسا کہ فیشن انڈسٹری، تعمیراتی انڈسٹری اور اسی جیسے علوم جن میں طلبہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی حاصل کریں۔
تعلیمی اداروں سے سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی عائد کی جائے تاکہ ان اداروں سے سیاست کا خاتمہ ہو سکے اور طلبہ یکسوئی سے صرف اپنے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
اور ایسے عناصر جو ان سرگرمیوں کو درہم برہم کرنا کی کوشش کریں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لاتے ہوئے ان عناصر کو درسگاہوں سے نکال باہر کیا جائے۔
ان تجاویز کو لاگو کر کے پاکستان میں تعلیمی مسائل پر خاطر خواہ قابو پایا جا سکتا ہے۔