میں بابا نذیر کو جب بھی دیکھتا ہوں، رنج اور کرب کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہوں اور جب سے اس کی زبانی اس کے حالات سے آگاہ ہوا ہوں، اس کیفیت میں عبرت اور خوف کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔ بابا نذیر کو میں برسو سے جانتا ہوں، کبھی کسی دکان پر بیٹھے ہوئے، کبھی کسی شخص سے گپ شپ کرتے ہوئے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ چار پانچ سال پہلے وہ مذہب اور مذہبی لوگوں سے بہت بیزار تھا۔ بہت قابل احترام علماء کے بارے میں بھی ناگواری اور بدگمانی کا اسلوب اختیار کرتا اور دینی شعار کے معاملے میں استہزا کا انداز اختیار کرتا، لیکن اب اس کی کنوتیاں خاصی ڈھیلی ہو گئی ہیں۔
پڑھناجاری رکھئے۔۔۔
44
/ 100