عید گاہ

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

عید گاہ

Post by سیدتفسیراحمد »

عید گاہ

(منشی پریم چند)

تین پیسے حامد کی جیب میں اور پانچ امینہ کے بٹوے میں۔ یہی بساط ہے۔ اللہ ہی بیڑا پار کرے گا۔ دھوبن، مہترانی اور نائن بھی تو آئیں گی۔ سب کو سوّیاں چاہیے۔ کس کس سے منھ چھپائے؟ سال بھر کا تہوار ہے۔ زندگی خیریت سے رہے۔ انکی تقدیر بھی تو اس کے ساتھ ہے۔ بچے کو خدا سلامت رکھے، یہ دن بھی یوں ہی کٹ جائیں گے۔ گاوں سے لوگ چلے اور حامد بھی بچوں کے ساتھ تھا۔ سب کے سب دوڑ کر نکل جاتے۔ پھر کسی درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ساتھ والوں کا انتظار کرتے۔ یہ لوگ کیوں اتنے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں؟
شہر کا سرا شروع ہو گیا ۔ سڑک کے دونوں طرف امیروں کے باغ ہیں۔ پختہ چہار دیواری بنی ہوئی ہے۔ درختوں میں آم لگے ہوئے ہیں۔ حامد نے ایک کنکری اُٹھا کر ایک آم پر نشانہ لگایا۔ مالی اندر سے گالی دیتا ہوا باہر آیا۔ بچے وہاں سے ایک فرلانگ پر ہیں۔ خوب ہنس رہے ہیں۔ مالی کو خوب الّو بنایا۔
بڑی بڑی عمارتیں آنے لگیں۔ یہ عدالت ہے۔ یہ مدرسہ ہے۔ یہ کلب گھر ہے۔ اتنے بڑے مدرسہ میں کتنے سارے لڑکے پڑھتے ہوں گے۔ لڑکے نہیں ہیں جی بڑے بڑے آدمی ہیں۔ سچ انکی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔ اتنے بڑے ہوگئے اب تک پڑھنے جاتے ہیں۔ آج تو چھٹی ہے لیکن ایک بار پہلے آئے تھے تو بہت سے داڑھی مونچھوں والے لڑکے یہاں کھیل رہے تھے۔ نہ جانے کب تک پڑھیں گے اور کیا کریں گے اتناپڑھ کر۔ گاوں کے دیہاتی مدرسے میں دو تین بڑے بڑے لڑکے ہیں۔ بالکل کووں جیسے، کام سے جی چرانے والے۔ یہ لڑکے بھی اس طرح کے ہوں گے جی۔ اور کیا نہیں.... کیا اب تک پڑھتے ہوتے۔ وہ کلب گھر ہے۔ وہاں جادو کا کھیل ہوتا ہے۔ سنا ہے مردوں کی کھوپڑیاں اُڑتی ہیں۔ آدمی کو بے ہوش کر دیتے ہیں۔ پھر اس سے جو کچھ پوچھتے ہیں، وہ سب بتلا دیتے ہیں۔ اور بڑے بڑے تماشے ہوتے ہیں اور میمیں بھی کھیلتی ہیں۔ سچ! ہماری امّاں کو دے دو، کیا کہلاتا ہے، ”بیٹ“ تو اسے گھماتے ہی لڑھک جائیں۔
محسن نے کہا، ”ہماری امّی جان تو اسے پکڑ ہی نہ سکیں، ہاتھ کانپنے لگیں۔ اللہ قسم“
حامد نے اس سے اختلاف کیا، ”چلو!‘ منوں آٹا پیس ڈالتی ہیں۔ ذرا سی بیٹ پکڑ لیں گے تو ہاتھ کانپنے لگے گا؟سینکڑوں گھڑے پانی روز نکالتی ہیں۔ کسی میم کو ایک گھڑا پانی نکالنا پڑے تو آنکھوں تلے اندھیرا آ جائے۔“
محسن: لیکن دوڑتی تو نہیں، اچھل کود نہیں سکتیں۔
حامد: کام آ پڑتا ہے تو دوڑ بھی لیتی ہیں۔ ابھی اس دن تمہاری گائے کھل گئی تھی اور چودھری کے کھیت میں جا پڑی تھی تو تمہاری
اماں ہی تو دوڑ کر اسے بھگا لائی تھیں۔ کتنی تیز ی سے دوڑی تھیں۔ ہم تم دونوں ان سے پیچھے رہ گئے۔“
پھر آگے چلو۔ حلوائیوں کی دُکانیں شروع ہو گئیں۔ آج خوب سجی ہوئی تھیں۔ اتنی مٹھائیاں کون کھاتا ہے؟ دیکھو نا! ایک ایک دُکان پر منوں ہوں گی۔ سنا ہے رات کو ایک جن ہر ایک دُکان پر جاتا ہے۔ جتنا مال بچا ہوتا ہے وہ سب خرید لیتا ہے اور سچ مچ کے روپے دیتا ہے۔ بالکل ایسے ہی چاندی کے روپے۔
محمود کو یقین نہ آیا۔ ایسے روپے جنّات کو کہا ں سے مل جائیں گے؟
محسن: جنّات کو روپوں کی کیا کمی؟ جس خزانہ میں چاہیں چلے جائیں، کوئی انہیں دیکھ نہیں سکتا۔ لوہے کے دروازے تک نہیں روک
سکتے جناب! آپ ہیں کس خیال میں؟ ہیرے جواہرات ان کے پاس رہتے ہیں، جس سے خوش ہو گئے اسے ٹوکروں
جواہرات دے دیے۔ پانچ منٹ میں کہو کابل پہنچ جائیں۔
حامد: ”جناب بہت بڑے ہوتے ہوں گے۔“
محسن: ”اور کیا....ایک ایک آسمان کے برابر ہوتا ہے۔ زمین پر کھڑا ہو جائے تو اس کا سر آسمان سے جا لگے۔ مگر چاہے تو ایک لوٹے میں گھس جائے۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سمیع: سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے۔ چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے۔ اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آکر انہیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔
اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنات آکر انہیں روپے دے جاتے ہیں ۔ آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔
نوری نے تصحیح کی، ”یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔ رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا،ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔
حامد نے تعجب سے پوچھا، ”یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتانہیں؟ “ نوری نے اس کی کوتاہ فہمی پر رحم کھاکر کہا، ”ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو یہ خود ہیں۔ لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔“
بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمع نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اُڑتی تھی۔
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سرو سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شاکر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے ۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے۔ اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں۔ جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رُتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں ، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں۔ اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کیے ہوئے ہے۔
نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں ۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم نہیں ہیں
یہ دیکھو ہنڈولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے، اُونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاو اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لیے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گایا ہے۔حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔ سب لو گ چرخی سے اُترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورت.... بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق ، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لیے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسندآیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دھانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے،کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لیے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں ....کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دُھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کروہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟
محسن کہتا ہے، ”میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔“
نوری بولی، ”اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا“
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لیے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دوکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں ،ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک خنجری۔ اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگتا ہے، لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔
کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن نے کہا، ”حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔“
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت کہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے دونے سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا۔
”اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاو ¿۔ اللہ قسم۔“
حامد نے کہا، ”رکھیے رکھیے....کیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟“
سمیع بولا، ”تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لوگے؟“
محمود بولا، ”تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آو۔ یہ گلاب جامن لے لو“
حامد: ”مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اسکی برائیاں لکھی ہیں۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

محسن: لیکن جن میں کہہ رہے ہو گے کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟“
محمود: اسکی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر
کھائے گا۔
حلوائیوں کی دُکانوں کے آگے کچھ دُکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لیے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دُکان پر ایک لمحہ کے لیے رک گیا۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر اماں کو دیدے تو وہ کتنی خوش ہوںگی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیںجلیں گی، گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائےگی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مُفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انہیں کوئی آنکھ اُٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اُتار لو،چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہا ہے بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔ اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں ۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاو۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا، کھائیں مٹھائیں....آپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی، تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ میری زبان کیوں خراب ہوگی۔ اس نے پھر سوچا ، اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹااپنی ماں کے لیے دست پناہ لایا ہے، ہزاروں دُعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوںکو دکھائیں گی۔ سارے گاوں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دُعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دُعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو مزاج دکھاوں گا۔ وہ کھلونے کھلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کےساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا، اور کتابیں دے دوں گا، یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگیں۔
دست پناہ دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے۔ احمق تو ہیں ہی سب ۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دُکاندار سے پوچھا، ”یہ دست پناہ بیچو گے؟“
دوکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا، وہ تمہارے کام کا نہیں ہے۔
“بکاو ہے یا نہیں؟“
”بکاو ہے جی اور یہاں کیوں لادکر لائے ہیں“
”تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟“
”چھ پیسے لگے لگا“
حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا، تین پیسے لو گے؟ اور آگے بڑھا کہ دُکاندار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دُکاندار نے گھرکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھادیا اور پیسے لے لیے۔
حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔
محسن نے ہنستے ہوئے کہا، ”یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اسے کیا کرو گے؟“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا، ”ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی“
محمود: ”تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟“
حامد: ”کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا“ ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا، چاہوںتو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔“
سمیع متاثر ہو کر بدلا، ”میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے“
حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا، ”میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں پانی میں آندھی میں طوفان میں برابر ڈٹا رہےگا۔ میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حاد ہے بڑا ہوشیار۔ اب دو فریق ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف، حامد یکہ و تنہادوسری طرف۔ سمیع غیر جانبدار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائےگا۔ مناظرہ شروع ہو گیا۔ آج حامد کی زبان بڑی صفائی سے چل رہی ہے۔ اتحاد ثلاثہ اس کے جارحانہ عمل سے پریشان ہو رہا ہے۔ ثلاثہ کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑکی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔وہ روئیں تن ہے صف شکن ہے اگر کہیںشیر کی آواز کان میں آ جائے تو میاں بہشتی کے اوسان خطا ہو جائیں۔ میاں سپاہی مٹکی بندوق چھوڑ کر بھاگیں۔ وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے۔ چغے میں منہ میں چھپا کر لیٹ جائیں۔ مگر بہادر یہ رُستم ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہوجائے گا اور اسکی آنکھیں نکال لے گا۔
محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا، ”اچھا تمہارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔ حامد نے دست پناہ کو سیدھا کر کے کہا کہ یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔
محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے کمک پہنچائی، ”بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولیے جناب“
حامد کے پاس اس وار کا دفیعہ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاً اس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا، ”اسے پکڑنے کون آئے گا؟“
محمود نے کہا، ”یہ سپاہی بندوق والا“
حامد نے منھ چڑا کر کہا یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاو ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔اسکی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی، پکڑیں گے کیا بے چارے“
محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا، ”تمہارے دست پناہ کا منھ روز آگ میں جلا کر ے گا۔“ حامد کے پاس جواب تیار تھا، ”آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمہارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رُستم ہی کر سکتا ہے۔“
نوری نے انتہائی جدت سے کام لیا، ”تمہارا دست پناہ باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگاکر بیٹھے گا۔ اس جملہ نے مُردوں میں بھی جان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا۔” بے شک بڑے معرکے کی بات کہی، دست پناہ باورچی خانہ میں پڑا رہے گا“
حامد نے دھاندلی کی، میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی۔ لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا، گو ثلاثہ کے پاس ابھی گیند سیٹی اور بت ریزرو تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے۔دست پناہ رستم ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں۔“
فاتح کو مفتوحوں سے تھا اور خوشامد کا مزاج ملتا ہے۔ وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کیے اور کوئی کام کی چیز نہ لا سکے۔ حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جما لیا۔ کھلونوں کا کیااعتبار۔ دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے ۔حامد کا دست پناہ تو فاتح رہے گا۔ ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔
محسن نے کہا، ”ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تودیکھیں ۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لوحامد۔ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ فیاض طبع فاتح ہے۔ دست پناہ باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔مگر ان کھلونوں کے لیے انہیں دُعا کو ن دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہوگا جتنا اماں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرزِ عمل پر مطلق پچھتاوا نہیں ہے۔ پھراب تو دست پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اورسمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لیے، حامدکو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔
گیارہ بجے سارے گاوں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی جو اچھلی تو میاںبہشتی نیچے آ رہے، اور عالمِ جادوانی کو سدھارے ۔اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں ۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کیے۔ میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یاطاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہوگا۔ دیوار میں دو کھونٹیا گاڑی گئیں۔ ان پر چیڑ کا ایک پرانا پڑا رکھا گیا ۔ پڑے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا گیا جو منزلہ قالین کا تھا۔ وکیل صاحب عالم بالاپہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگی۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دُنیائے فانی میںآ رہے۔ اور ان کی مجسمہ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی۔ تاکہ بے کار نہ جا کر زاغ و زغن کے کام آ جائے۔
اب رہے میاں محمود کے سپاہی ۔ وہ محترم اور ذی رُعب ہستی ہے اپنے پیروںچلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہات ھا۔ اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے ”تھونے والے داگتے لہو“ پکارتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لیے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ مضروب ہو گئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں، محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیں اور یہ ٹوٹی ٹانگ آناً فاناً میں جوڑ د ے گا۔ صرف گولر کا دودھ چاہیے۔ گولر کادودھ آتا ہے۔ ٹانگ جوڑی جاتی ہے۔ لیکن جوں ہی کھڑا ہوتا ہے، ٹانگ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ عملِ جراحی ناکام ہو جاتا ہے۔ تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ گوشہ میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گا۔
اب میاں حامد کا قصہ سنیے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اُٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹھا؟“
”میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔“
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ ”یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔“
حامد نے خطاوارنہ انداز سے کہا، ”تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟“
امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان ہوتی ہے۔ اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ درد التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اُف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جانسوزی ہے۔ غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لیے کتنا ضبط کیا۔جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کادل کتنا لہراتا ہوگا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جزبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دُنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔
اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دُعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیںگراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیاسمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔

ختم شد
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”