باقی سب کہانیاں

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

باقی سب کہانیاں

Post by پپو »

ناتمام
20 August, 2011
ہارون الرشید







تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہارون الرشید کا دمشق ہو ، جولیانی کا نیو یارک یا آج کا لندن اور کراچی، قانون جب بروئے کار آنے کا عزم کر لے تو کوئی اسے ہرا نہیں سکتا۔مجرم کبھی ریاست سے زیادہ طاقتورنہیں ہوتے۔ سوال بالکل واضح ہے ، مصلحت کیشی یا پوری قوّت کے ساتھ قانون کا نفاذ؟ باقی سب کہانیاں ہیں۔

مسائل جمہوری ملکوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن پھر اجتماعی عزم بروئے کار آتا اور حل تلاش کر لیا جاتاہے۔ جب ممکن ہو توبہت تیزی کے ساتھ اور رکاوٹیں حائل ہوں تو بتدریج اور مرحلہ وار۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ قائد اعظم کے بعد حقیقی جمہوریت کبھی کارفرما نہ تھی۔ وزرائِ اعظم اور صدور نہیں ، ہم بادشاہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ صدیوں سے ہماری اشرافیہ ایسی ہی چلی آئی ہے اور اندازِ حکمرانی تبدیل کرنے پر وہ آمادہ نہیں۔ فوجی حکومتوں کا تو ذکر ہی کیا کہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے انہیں جبر اور آلہ کار سیاسی لیڈروں کی ضرورت ہوتی ہے ، نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی پارلیمان کو آزادی کے ساتھ کبھی اپنا کردار ادا کرنے کا موقعہ نہ دیا گیااور فیصلے کبھی کابینہ میں سرزدنہ ہوئے۔ نتیجہ وہی نکلا جونکلنا چاہئیے تھا۔ زندگی علت و معلول کے رشتے میں بندھی ہے اور بدل نہیں سکتی۔ آدم زادکی جبلّتیں ہیں اور اللہ کے قوانین، کسی حال میں جو مختلف نتیجہ پیدا نہیں کرتے۔ کاروبارِ حکومت اس قدر سنجیدہ معاملہ ہے کہ محض لیڈروں پر اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ بھارت میں جمہوری حکومت ہے اور بظاہر ہر طرح سے جمہوری لیکن کرپشن کے کینسر کا علاج کرنے کے لیے ایک 74سالہ بوڑھے کو مرن برت رکھنا پڑتا ہے۔ ریاستی قوت جب اسے روکتی ہے تو دفاتر میں کھانا پہنچانے والے ، معاشرے کے غریب ترین افراد کا گروہ اس کی حمایت میں ڈٹ جاتا ہے ۔ اخلاقی قوّت ،معاشرے کی اخلاقی قوّت کو قانون کی پشت پر کھڑا ہونا چاہئیے۔ خون آشام لیڈروں کو ، جونکوں کی طرح جو خلقِ خدا کے لہو پر پلنے کے عادی ہو جاتے ہیں، وحشت سے روکنے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔ مایوسی اور خاموشی موت ہے ۔ ظلم کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دینے کے مترادف۔ لندن میں فسادات زوروں پر تھے تو ایک شام لارڈ نذیر سے فون پر رابطہ کیا اور پوچھا کہ اب کیا ہوگا۔ اوّل وضاحت سے انہوں نے بیان کیا کہ کون لوگ ملوّث ہیں ، پھر بتایا کہ آج شام 16ہزار پولیس والے متعین کر دئیے جائیں گے ۔ وزیر اعظم اور گرما کی چھٹیوں میں رخصت پر جانے والے دوسرے لیڈر واپس آرہے ہیں۔ نہایت تیزی سے فسادیوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا، پھر عدالتیں ان لوگوںکو نمٹا دیں گی۔ ٹھیک ایسا ہی ہوا ، لفظ بہ لفظ۔ گویا ایک ٹائم مشین میں بیٹھ کر آنے والے دنوں کا انہوں نے نظارہ کیا ہو اور ایک ایک منظر بچشم خود دیکھا ہو۔ ایک آدھ علاقہ نہیں ، فساد کئی شہروں میں پھیل گیا تھا۔ کراچی کے مقابلے میں حجم زیادہ تھا۔ کراچی میں عام آدمی ہرگز ملوّث نہیں ۔ برطانیہ میں بے روزگار نوجوانوں کی ٹولیاں اشیائ تعیّش کے گودام لوٹ رہی تھیں۔ معاشرے کا متحرک ترین حصہ حکومت سے بغاوت پر تلا تھا ۔ قانون مگر حرکت میں آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے امن بحال ہونے لگا اور یا للعجب ایسی حالت میں ، جب گواہ شاید آسانی سے میسر نہ ہوتے، عدالتوں نے تیس تیس گھنٹے مسلسل کام کیا۔ جس قدر جلد ممکن ہوا، مقدمات کی سماعت ہوئی اوربعض کو سزا سنا دی گئی۔

ٹی وی مذاکرے میں مثال دیجئے تو کہا جائے گا کہ یہ لندن کی مثالی پولیس تھی۔ پاکستان میں کیونکر ایسا ممکن ہوگا۔ نہ صرف ممکن ہے بلکہ ماضی میں ہو چکا۔ بار بار ان واقعات کا میں ذکر کرتا ہوں۔ 1991ئ کے لاہور میں ڈکیتیوں کی ایک بڑی لہر اٹھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے لاہور کے گورنر ہائوس میں اجلاس طلب کیا تو آئی جی چوہدری سردار احمد نے پولیس کی نفری میں اضافے ، بہتر اسلحے اور گاڑیوں کے لیے بارہ ارب کا مطالبہ کیا۔ گورنر میاںمحمد اظہر ، لاہور والے جنہیں پہار سے میاں اجّی کہتے ، اس پر بھنّا گئے، کہا: بارہ روپے بھی نہیں، ضرورت اگر ہے تو قانون کو نافذ کر دینے کی۔وزیراعظم نے گورنر سے، جو لاہور کے مئیر کی حیثیت سے ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کرکے ہیرو ؛چنانچہ گورنر بنے تھے، سوال کیا کہ کیا وہ ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ ہیں؟ طے پایا پولیس آئندہ وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ گورنر سے احکامات وصول کرے گی۔میاں اجّی نے پنجاب کے سب سے زیادہ بگڑے ہوئے ضلع شیخو پورہ سے رابطہ عوام مہم کا آغاز کیا۔ دیہاتیوں سے انہوں نے خطاب کیااور یہ کہا کہ غنڈوں اور ان کے سرپرست لیڈروں کے بارے میں وہ انہیں خط لکھیں ، خواہ نام کے بغیر ہی۔ دو عدد انٹلی جنس افسروں کو مقرر کیا کہ اطلاعات کی چھان بین کریں۔ ایک شب میں ، صرف ایک شب میں سینکڑوں گرفتار کر لیے گئے اور ان میں ایک رکن اسمبلی کے والدِ گرامی بھی شامل تھے۔ جرائم کی منہ زور لہر ٹوٹ گئی لیکن پھر وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں رو دئیے۔ اگر پولیس گورنر کے رحم و کرم پر ہے تو ان کی حیثیت کیا ہے ۔ چند ماہ میاں اظہر کو مزید دئیے جاتے تو شاید آنے والے برسوںمیں پنجاب کہیں زیادہ پر امن ہوتا۔گرانی اور بدنظمی شاید محدود رہتی۔دوسرے صوبے ممکن ہے کہ کسی قدر پیروی کرتے۔ شریف برادران کو مگر قانون اور امن سے زیادہ من مانی سے دلچسپی تھی۔ اکتوبر 1999ئ میں جس کا نتیجہ انہوں نے بھگت لیااور پوری قوم نے بھی۔

دوبرس ہوتے ہیںکہ گوجرانوالہ میں ، لسانی تنوع سے قطع نظر جو ایک چھوٹا ساکراچی ہے، اغوا برائے تاوان کی صنعت عروج پر تھی۔ عالم یہ تھا کہ شہر کے کارخانہ دار کاروبار بیچ کر دوسرے ملکوں کا رخ کرنے لگے تھے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ، گاہے جن پر عدل کا جنون سوار ہو جاتا ہے،نیک نام ذوالفقار چیمہ کو ڈی آئی جی کی ذمہ داری سونپ دی۔ تین ماہ کے اندر انہوں نے غنڈوں کا صفایا کر دیا،حتیٰ کہ ایک مشہور مجرم ننھو گورایا کو ، جو دہشت کی علامت تھا، ملائیشیا سے ڈھونڈ کر لایا گیا اور کیفر کردار کو وہ پہنچا۔ جب مجرم کی لاش لے کر گاڑی شہر میں داخل ہوئی تو دو رویہ ہجوم تھے اور اس پولیس پر شہریوں نے پھولوں کے انبار نچھاور کیے، جن سے کبھی وہ نفرت کرتے تھے۔ انہی دنوں گوجرانوالہ چیمبرآف کامرس نے پولیس افسروں کو اعزازی شیلڈز دینے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا تومیں نے ان سے یہ کہا: یہ ایک عارضی کامیابی ہے ، کل ذوالفقار چیمہ اگرہٹادئیے گئے تو کیا ہوگا؟ یہ بات کچھ دوستوں کو ناگوار بھی گزری لیکن پھر وہی ہوا ۔ چند ماہ بعد حلقہ این اے 100کے ضمنی الیکشن میں ، نون لیگ کے مسلّح کارکنوں نے پیپلز پارٹی کے دس عدد پولنگ ایجنٹوں کو اغوا کیا تو ڈی آئی جی موقعہ واردات پر پہنچے اور اسیروں کی رہائی کے بعد انتخابی نتائج کے اعلان کی راہ ہموار کر دی۔ نون لیگ کو المناک شکست سے دوچار ہونا پڑا اور ذوالفقار چیمہ کو الگ کر دیا گیا۔

کراچی میں فساد کے ہنگام بھی امن قائم ہوا تھا۔ جون 1995ئ میں ، جب ڈاکٹر شعیب سڈل وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، صدر فاروق لغاری او ر آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ سے عہد لے کر کراچی گئے کہ مداخلت ہرگز نہ ہو گی۔ کوئی شبہ نہیں کہ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر پوری یکسوئی سے ان کی پشت پر کھڑے رہے ۔ مسعود شریف کی قیادت میں انٹلی جنس بیورو کے بہترین افسروں نے بہترین کارکردگی کے ساتھ پولیس افسر کی مدد کی۔سات ہفتے بعد، 17اگست کو ڈبل سواری سے پابندی اٹھا لی گئی۔ سات ماہ ، جنوری 1996ئ تک شہر میں مکمل امن تھا۔ یہ الگ بات دس ماہ بعد صدر فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت برطرف کی تو ڈاکٹر شعیب سڈل کو گرفتار کر لیا گیا۔ مڈٹرم الیکشن میں نواز شریف اقتدار میں آئے تو چن چن کر ان پولیس افسروں کو قتل کر دیا گیا، جو شہر میں قیامِ امن کے مرتکب ہوئے تھے۔

فوج نہ رینجرز، بین الاقوامی برادری اور نہ سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنسیں۔ امن کے لیے صرف پولیس کی ضرورت ہوتی ہے اور قانون نافذ کرنے کے پختہ عزم کی۔ جرم اس وقت پھلتا پھولتا ہے ، جب موسم سازگار ہو۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہارون الرشید کا دمشق ہو ، جولیانی کا نیو یارک یا آج کا لندن اور کراچی، قانون جب بروئے کار آنے کا عزم کر لے تو کوئی اسے ہرا نہیں سکتا۔مجرم کبھی ریاست سے زیادہ طاقتورنہیں ہوتے۔ سوال بالکل واضح ہے ، مصلحت کیشی یا پوری قوّت کے ساتھ قانون کا نفاذ؟ باقی سب کہانیاں ہیں۔
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: باقی سب کہانیاں

Post by اضواء »

شئرنگ پر آپ کا شکریہ !!!!
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: باقی سب کہانیاں

Post by پپو »

شکریہ پزیرائی کا
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: باقی سب کہانیاں

Post by چاند بابو »

شئیرنگ کا بہت بہت شکریہ پپو بھیا۔
واقعی مجرم جتنا بھی طاقتور کیوں نا ہو ریاست سے طاقتور نہیں ہو سکتا ہے۔
بس بات صرف قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کے ارادوں کی ہے کہ آیا وہ قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
یا پھر عوام کو قانون نافذ کرنے کے نام پر بے وقوف بنانا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: باقی سب کہانیاں

Post by پپو »

درست فرمایا چاند بابو
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: باقی سب کہانیاں

Post by اعجازالحسینی »

شئیرنگ کا بہت بہت شکریہ پپو بھیا۔

حکمران خود لٹیرے ہیں یہ قانون کی نگہبانی کیا کریں گے ۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: باقی سب کہانیاں

Post by پپو »

یہ بھی ٹھیک ہے
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”