ریمنڈ ڈیوس کون ہے؟ ۔۔۔۔جنرل مرزا اسلم بیگ کی تحریر

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

ریمنڈ ڈیوس کون ہے؟ ۔۔۔۔جنرل مرزا اسلم بیگ کی تحریر

Post by اعجازالحسینی »

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
امریکی سی آئی اے کے ماتحت جو خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں سرگرم عمل ہیں انکے حوالے سے ریمنڈ ڈیوس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسکی رہائی کیلئے عام امریکی شہری سے لے کر صدر اوباما تک حکومت پاکستان پرمسلسل دباﺅ ڈال رہا ہے کہ اسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے‘ اس لئے پاکستانی عدالتیں اس پر پاکستانی شہریوں کے قتل کا مقدمہ نہیں چلا سکتیں۔ حیرت ہے کہ صدر اوباما یہ جانتے ہوئے کہ ڈیوس نہ تو سفارتی اہلکار ہے اور نہ ہی وہ سفارتی استثنیٰ کا مستحق ہے‘ لیکن اسکے باوجود وہ دانستہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ امریکی حکومت اسے رہا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینے پر اتر آئی ہے۔ دراصل ڈیوس پاکستان میں موجود دیگر امریکی ایجنسیوں کا چیف رابطہ آفیسر ہے‘ جس سے تفتیش کے دوران پاکستان میں اسکے روابط اور ملک دشمن سرگرمیوں کے حوالے سے چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں: مثلاً
٭ بلیک واٹر ایجنسی 2004ءسے پاکستان میں مختلف ناموں سے کام کر رہی ہے‘ وہ ڈیوس کے منصوبوں پر عمل کرتی رہی ہے اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ جس طرح اس بدنام زمانہ ایجنسی نے عراقیوں کےخلاف انسانیت سوز کارنامے سر انجام دیے ہیں‘ انکی بہت سے مصنفوں ‘دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے تصدیق کی ہے۔
٭ سپیشل تحقیقاتی مرکز (SIC) 2005ءمیں قائم کیا گیا تھا۔ چھ سو سے زائد افرادپر مشتمل اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر ماڈل ٹاﺅن لاہور میں تھا جسے آج سے ڈیڑھ سال قبل دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ یہ ادارہ حقیقی طور پر ایسے گھناﺅنے کام سرانجام دینے پر معمور ہے جو ہماری اپنی ایجنسیاں نہیں کرسکتیں۔ یہی وہ ادارہ ہے جس نے سینکڑوں پاکستانیوں کو اغوا کر کے سی آئی اے کے حوالے کیا ہے جبکہ بعضوں کو قتل کیا اور کچھ کو اذیت خانوں میں پہنچایا ہے۔ ان مذموم کارروائیوںکا مقصدملکی عوام کو حکومت سے متنفر کرنا ہے۔ اس ادارے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسکے کارندوں کی اکثریت پاکستانیوں کی ہے جو اس قسم کے گھناﺅنے کاموں میں مصروف ہیں۔ ڈیوس اس ادارے کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں‘ مثلاً بلیک واٹر اور شمال مغربی سرحدی علاقوں میں سی آئی اے کی سربراہی میں سرگرم عمل ایک ”بے نام ادارے“ کے ہاتھوں ملک دشمن سرگرمیوں اور ڈرون حملوں کا ذمہ دار ہے۔
٭ ”یہ بے نام ادارہ“ شمال مغربی سرحدی علاقوں میں 2004ءمیں امریکہ کے مطالبے پر بنایا گیا تھا جس کا مقصد پاکستان کی طرف سے سرحد پار کر کے طالبان کی امداد کرنےوالے لوگوں کو روکنا تھا۔پاکستانی حکومت نے دباﺅ میں آکرامریکہ کو بلوچستان سے لےکر سوات تک کے علاقے میں نگران چوکیاں قائم کرنے کی اجازت دی تھی ۔ اس طرح سی آئی اے‘ امریکی میرین اورایف بی آئی نے سرحدی علاقوں میں سینکڑوں افراد متعین کر دئیے اور سرحد پار افغانستان میں بھارتی خفیہ ادارے”را“کی نگرانی میں قائم جاسوسی ایجنسی سے روابط مضبوط کر لئے۔ یوں سی آئی اے اور را نے باہمی گٹھ جوڑ سے ہمارے سرحدی علاقوں میں اپنے جاسوسی کے جال پھیلا کر نہ صرف سارے علاقے کو غیر محفوظ بنا دیا بلکہ افغانستان کی جنگ کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیا۔ (اس سازش کا ذکر میں نے آج سے کئی سال پہلے قومی اخبارات میں شائع ہونےوالے اپنے مضمون بعنوان ”پاکستان کےخلاف عالمی سازشوں کا جال“ میں کیا تھا۔) پاکستانی فوج 2005ءسے ان خطرات سے نمٹ رہی ہے جو بلوچستان لبریشن آرمی‘ تحریک طالبان پاکستان اور دیر وسوات میں تحریک نفاذ شریعت کی شکلوں میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ 2005ءسے قبل ہمارے قبائلیوں کی جانب سے پاکستان کی جانب ایک گولی بھی فائر نہیں کی گئی تھی اور اب سی آئی اے اور را کی سازشوں کے طفیل حالات اس قدر بھیانک رخ اختیار کر گئے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی گوناں گوں خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔
٭۔ پاکستان میں سی آئی اے کی معاونت کیلئے متعدد غیر سرکاری تنظیمیں(NGOs) کام کر رہی ہیں۔ ان میں فاٹا ترقیاتی ایجنسی(FDA) بھی شامل ہے‘ افغانستان میں جاری اتحادی فوجوں کے آپریشن (COTE) کے حوالے سے فاٹا ترقیاتی ایجنسی سے تعاون اہمیت کا حامل ہے۔
ڈیوس کی گرفتاری سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو سخت نقصان پہنچا ہے اور اب امریکہ یہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر ڈیوس کو رہا نہ کیا گیا تو پاکستان کو خطرناک نتائج بھگتنا ہونگے۔ صدر زرداری کا کہنا بجا ہے کہ اس معاملے میں امریکہ کو انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس کا فیصلہ ہماری عدالتوں نے کرنا ہے۔ رہا سوال دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین معلومات کے تبادلے کا تو اس معاملے کو سلجھانا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی کی ذمہ داری ہے۔ ڈیوس کے معاملے میں کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں اور مزیدگرفتاریوں کا امکان ہے جن میں چند اہم شخصیات بھی شامل ہیں جو ڈیوس کے مکروہ دہندوں میں معاونت کرتے رہے ہیں۔ ڈیوس اور سی آئی اے کی ایجنسیاں پاکستان کی سلامتی کےخلاف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں جو ہماری حکومت کو برداشت نہیںاور یہی وجہ ہے کہ اب حکومت اور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین ماضی والے تعلقات قائم نہیں رہ سکیں گے۔
ڈیوس کی گرفتاری کے سبب دونوں ممالک اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان ایسا تنا¶ اور بداعتمادی کی صورت پیدا ہوئی ہے جو کئی عشروں سے ایک ساتھ باہمی اعتماد سے کام کرتی رہی ہیں۔ ڈیوس کی اصل شناخت ایک امریکی صحافی رابرٹ انڈرسن نے مفصل طور پر کرائی ہے جو خود بھی سی آئی اے کا ایجنٹ رہ چکا ہے۔ اسکی داستان بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ وہ کہتا ہے :
”تیس سال قبل میں نے بھی لاﺅس میں ریمنڈ ڈیوس جیسا کردار ادا کیا تھا جب پاکستان کی طرح لاﺅس کے خودمختار عوام کے خلاف ہماری حکومت نے ایک خفیہ فوجی آپریشن کیا۔ ریمنڈ ڈیوس اب بُری طرح پھنس چکا ہے کیونکہ پوری دنیا امریکی جھوٹ سے آگاہ ہو چکی ہے اور اب اس سے پیٹھ نہیں پھیر سکتی۔ ڈیوس ایک امریکی ہے جو اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے کیلئے جاسوسی کرنے پر متعین تھا۔ اس سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دیگر ممالک کیوں ہم امریکیوں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام ”بڑے شیطان“ کےخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔“
”ویتنام کی جنگ میں لاﺅس کو وہی تزویراتی اہمیت حاصل تھی جیسا کہ افغانستان کیلئے پاکستان کو حاصل ہے۔ اسی طرح ویتنام میں کامیاب فوجی کارروائی کرنے کیلئے لا¶س کی سرزمین استعمال کی گئی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر تم زندہ پکڑے گئے تو امریکی حکومت تمہیں سفارتی استثنیٰ دلوا کر رہا کرا لے گی۔ ہم روزانہ کی بنیاد پرلاﺅس‘ کمبوڈیا ‘ تھائی لینڈ اور ویتنام میں کارروائیاںکرتے تھے۔
لاﺅس میں مجھے امریکی اہداف کے مخالفین کو ختم کرنے کے پروگرام سے منسلک کیا گیا تھا جسے Phoenix Programme کا نام دیاگیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت ہم نے پورے ہند چین (Indo-China) کے خطے میں ساٹھ ہزار افراد کو قتل کیا اور اسکے علاوہ ملک کے بنیادی ڈھانچے کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا لیکن اسکے باوجود ہم ویتنام کی جنگ ہار گئے۔“
”پاکستان میں ڈیوس کے واقعے پر امریکہ کا ردعمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہماری حکومت ابھی تک سامراجی دور کی پرانی روش پر قائم ہے اور حقائق کو عوام کی نظروں سے چھپانا چاہتی ہے حالانکہ عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ سچ کیا ہے۔ یہ شاہانہ انداز اور دھونس کا سلسلہ آخر کب تک چلے گا؟ کب تک ہماری سیاسی قیادت جھوٹ اور مکر و فریب کےخلاف آواز نہیں اٹھائے گی؟ کب تک ہمارے اور دیگر اقوام کے لوگ اس قسم کے احمقانہ پروگراموں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے؟ ڈیوس کا معاملہ بہت بگڑ چکا ہے کیونکہ دنیا پر اب امریکہ کا اصل چہرہ عیاں ہو چکا ہے جس کا اظہار مشرق وسطیٰ کے حالات سے ہوتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ہمارے عوام اور حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے سی آئی اے کے اہلکاروں سمیت ہر کوئی جانتا ہے کہ ہم مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ صدر اوباما سب کچھ جانتے ہوئے بھی دانستہ جھوٹ بول رہے ہیں۔“
اس حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ ڈیوس اور سی آئی اے کے تحت متحرک ایجنسیوں کے ہاتھوں کتنے معصوم پاکستانی اس قسم کی وحشتناک کارروائیوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں‘ کتنے اغوا ہوئے اور کتنے امریکہ کے اذیتی مراکز میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئےگا جب ڈیوس کا ضمیر اسے ملامت کرےگا اور وہ سچ سے پردہ اٹھا ئے گا‘ جس طرح کہ ڈیوڈ انڈرسن نے حقائق بے نقاب کئے ہیں۔ بالآخرسچ ہی کا بول بالا ہوگا۔ امریکہ کیلئے موقع ہے کہ وہ پاکستان میں متعین ان جاسوسی ایجنسیوں کے ہاتھوں جاری ’گندے کھیل‘ کا سلسلہ ختم کر دے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین بہتر‘ بااعتماد اورباہمی تعاون پر مبنی تعلقات کے قیام کی ضمانت صرف اسی طرح ممکن ہے۔

نوائے وقت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: ریمنڈ ڈیوس کون ہے؟ ۔۔۔۔جنرل مرزا اسلم بیگ کی تحریر

Post by اعجازالحسینی »

[center]Image[/center]
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ریمنڈ ڈیوس کون ہے؟ ۔۔۔۔جنرل مرزا اسلم بیگ کی تحریر

Post by شازل »

کیا پاکستان اس طرح کی تفتیش کررہا ہے جس طرح ایک عام ملزم سے کی جاتی ہے
یقینا نہیں. کیونکہ
ایجنسیاں سب جانتی ہیں کہ کون کیا ہے
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”