nizamuddin wrote:بہت سے لوگ دنیا میں جان بوجھ کر دھوکا کھاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم جس بندے پر اپنے خالص جذبات کا خزانہ لٹارہے ہیں وہ اس قابل نہیں ہے۔ اس کے باوجود انسان بڑا خوش فہم واقع ہوا ہے۔ وہ ایک ذرا سی امید اور خوش گمانی کے چکر میں اپنی محبت کے مدار کے اردگرد چکر لگاتا رہتا ہے کہ شاید کہیں کوئی اندر جانے کا راستہ مل جائے۔ ایسے لوگ جان بوجھ کر اپنے دل کے کہنے پر سرابوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور آخر تھک ہار کر گر جاتے ہیں۔
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناول ’’گمشدہ جنت‘‘ سے اقتباس)
فیس بک پر ایک دوست نے یہ پوسٹ کیا تو سوچا یہاں شئر کروں
"بعض دفعہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ سامنے والا ہمیں دهوکہ دے رہا ہے پهر بهی ہم خاموش رہتے ہے کیونکہ ہم اسکے دهوکےکے ساتھ تو ره سکتے ہے اسکےبنا نہیں"
ہم مشرقی لڑکیاں بھی عجیب ہیں، شاید محبت ہمارے بس کا روگ نہیں، ہمارا خون و خمیر شاید اس جذبے کے لئے موزوں نہیں۔ ہم محبت کر بھی لیں تو اسے نبھانا مشکل اور اگر نبھالیں تو زندگی گزارنا مشکل۔ محبت میں ہونے والی وہ لمحے بھر کی لغزش، وہ ایک پل کی خودغرضی نہ ہمیں جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے۔ پھر وہ محبت جو ہم نے بہت لڑ کر اور دنیا سے ٹکر لے کر حاصل کی ہوتی ہے، ہمیں اپنا سب سے بڑا گناہ نظر آنے لگتی ہے۔ ایسا گناہ جس پر ہم اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے شرمندہ ہوتے ہیں۔ ہم محبت کے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن خود سے وابستہ رشتوں کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔
(فرحت اشتیاق کے ناول ’’وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر‘‘ سے اقتباس)
ناشکری انسان کی سرشت میں شامل ہے، صحت یاب ہوکر کبھی طبیب کی یاد نہیں آتی۔ اس کی کشتی طوفان میں پھنس جائے تو اسے صرف اللہ یاد آتا ہے۔ پھر وہ اللہ اپنے مجبور و بے کس بندے کو سمندر سے نکال کر خشکی پر لے آتا ہے تو بندہ یک دم سب کچھ فراموش کردیتا ہے۔
اللہ ان کو زیادہ عزیز رکھتا ہے جو سکھ میں بھی عاجزی اختیار کئے رہتے ہیں۔ (نمرہ احمد کے ناول ’’سانس ساکن تھی‘‘ سے اقتباس)
زندگی میں ہمارے ساتھ چلنے والا ہر شخص اس لئے نہیں ہوتا کہ ہم ٹھوکر کھا کر گریں اور ہمیں سنبھال لے، ہاتھ تھام کر، گرنے سے پہلے یا بازو کھینچ کر گرنے کے بعد، بعض لوگ زندگی کے اس سفر میں ہمارے ساتھ صرف یہ دیکھنے کے لئے ہوتے ہیں کہ ہم کب، کہاں اور کیسے گرتے ہیں۔ لگنے والی ٹھوکر ہمارے گھٹنوں کو زخمی کرتی ہے یا ہاتھوں کو، خاک ہمارے چہرے کو گندا کرتی ہے یا کپڑوں کو۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’تھوڑا سا آسمان‘‘ سے اقتباس)
زندگی میں ہر انسان سے ہر فیصلہ صحیح نہیں ہوسکتا، بعض فیصلے انسان غصے اور جلد بازی میں کرتا ہے اور بعض جذبات میں مجبور ہوکر ۔۔۔۔۔۔۔ اور کہیں نہ کہیں عقل و ہوش کچھ دیر کے لئے انسان کا ساتھ ضرور چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی نہ کبھی حماقت، عقل پر قبضہ ضرور کرلیتی ہے، چاہے وہ چند لمحوں کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’عکس‘‘ سے ایک خوبصورت اقتباس)
سارے دن سب کے لئے اچھے اور سب کے لئے برے نہیں ہوتے، نہ ہی اللہ ہر انسان کو ہر قسم کی تنگی دیتا ہے۔ کچھ چیزوں میں تنگی ہوتی ہے، کچھ میں آسانی۔ انسان پریشانیوں کی گنتی کرنے کا ماہر ہے، نعمتوں کا حساب کتاب رکھنا اُسے ہمیشہ بھول جاتا ہے۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’مرآۃ العروس‘‘ سے اقتباس)
بے چاری عورت ۔۔۔۔۔۔ اللہ تو اسے بہت اعلیٰ رتبہ اور مقام دے کر جنت اس کے قدموں میں رکھ کر اسے زمین پر اتارتا ہے مگر زمین والے اس آسمانی تحفے کو ایک درد بھری ’’آہ‘‘ کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور پھر وہ ’’آہ‘‘ تمام عمر اس کے ساتھ لگی رہتی ہے۔
(سائرہ عارف کے ناول ’’شہر تمنا‘‘ سے اقتباس)
ہر وقت خدا کے احسانات یاد کر ۔ غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے ، یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی ۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے ۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی ۔ تُو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا ، تجھ سے محبت کی ۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے ۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے ۔ کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا ۔ کسی کو پرواہ نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے ۔ لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے ۔ تیری ضروریات پوری کرتا ہے ۔ تیری بہتری چاہتا ہے ، تجھے اہمیت دیتا ہے ۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی ۔ اس محبت کے ساتھ بھی یہ سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی ۔ اور پھر تجھے خدا سے عشق ہو جائے گا ۔
(’’عشق کا عین‘‘ از علیم الحق حقی سے اقتباس)
میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اور بھسم ہوتے دیکھاہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھاہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپ محبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہر وقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتےہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورد، آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام نجویز نہیں کیا جاسکا۔
انسان کی فطرت میں قدرت نے امید اور آس کی ڈور سے ہمیشہ بندھے رہنے کا ایک عجیب سا انتظام کررکھا ہے۔ ایک ڈور ٹوٹتی ہے تو وہ دوسری تھام لیتا ہے ۔۔۔۔۔ دوسری ٹوٹتی ہے تو تیسری ۔۔۔۔۔ یوں یہ سلسلہ اس کی سانس کی ڈور ٹوٹنے تک چلتا ہی رہتا ہے۔ شاید قدرت نے انسان کی طبیعت میں یہ آس اور امید کا سلسلہ نہ رکھا ہوتا تو وہ پہلی ناامیدی پر ہی ختم ہوجاتا، مایوسی سے مرجاتا۔
(ہاشم ندیم کے ناول ’’خدا اور محبت‘‘ سے اقتباس)
ضمیر کا سگنل
قدرت نے انسان کو ایک ایسی بڑی نعمت سے نوازا ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ جب بھی ہم سے کوئی اچھائی یا برائی سرزد ہو تو یہ اپنے خصوصی سگنل جاری کرتا ہے۔ ان سگنلز میں کبھی شرمندگی کا احساس نمایاں ہوتا ہے تو کبھی ضمیر سے آپ کو ’’ویری گڈ‘‘ کی آواز آتی ہے۔ آپ کسی یتیم کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں یا کسی نابینا کو اپنا ضروری کام چھوڑ کر سڑک پار کرواتے ہیں تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے ضمیر نے آپ کو شاباش دی ہے، پیار سے تھپکی دی ہے۔ انسان خود میں عجیب طرح کی تازگی اور انرجی محسوس کرتا ہے۔ جب ہم اپنے کسی نوکر کو جھڑکیاں دیتے ہیں، کسی فقیر کو کوستے ہیں یا کوئی بھی ایسا عمل کرتے ہیں جس کی ہمیں ممانعت کی گئی ہے تو یہ ضمیر تنگی محسوس کرتا ہے۔ ایک ایسا سگنل بھیجتا ہے جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ کام درست نہیں ہوا۔
کوئی کتنا بھی گناہ گار کیوں نہ ہو، اللہ اس کے لئے دعا کا راستہ کبھی بند نہیں کرتا، وہ اپنے بندے کو نوازنے سے نہیں رکتا۔ جو اللہ اپنے بجائے کسی دوسرے کو خدا بنا کر پوجنے والے پر بھی اپنی رحمتیں بند نہیں کرتا، وہ اپنے نام لیوا کے لئے دعا اور توبہ کا راستہ کیسے بند کرسکتا ہے؟ اسی لئے اپنی چھوٹی بڑی غلطیوں پر اپنے رب سے توبہ کرتے رہو، دعا کا ہاتھ نہ چھوڑو۔
(آمنہ ریاض کے ناول ’’ستارہ شام‘‘ سے اقتباس)