برصغیر اور یورپ میں وجود باری تعالیٰ کا انکار ، تاریخی پس من

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

برصغیر اور یورپ میں وجود باری تعالیٰ کا انکار ، تاریخی پس من

Post by محمد شعیب »

میرا جماعت اسلامی تعلق نہیں ہے. اور مجھے مودودی صاحب کے کچھ نظریات سے اختلاف بھی ہے. لیکن اس مضمون پر مودودی صاحب کو داد دینے کو دل چاہتا ہے.


برصغیر اور یورپ میں وجود باری تعالیٰ کا انکار ، تاریخی پس منظر

نیائے اسلام کا بیشتر حصہ ان ممالک پر مشتمل ہے جو صدر اول کے مجاہدین کی کوششوں سے فتح ہوئے تھے۔ ان کو جن لوگوں نے فتح کیا تھا وہ ملک گیری اور حصول غنائم کے لیے نہیں بلکہ خدا کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے سروں سے کفن باندھ کر نکلے تھے۔ وہ طلبِ دنیا کے بجائے طلبِ آخرت کے نشہ میں سرشار تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے مفتوحین کو مطیع و باجگزار بنانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہیں اسلام کی رنگ میں رنگ دیا۔ ان کی پوری آباری یا اس کے سوادِ اعظم کو ملت حنیفی میں جذب کر لیا۔ علم و عمل کی قوت سےا ن میں اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب کو اتنا راسخ کر دیا کہ وہ خود تہذیبِ اسلامی کے علمبردار اور علوم اسلامی کے معلم بن گئے۔ ان کے بعد وہ ممالک جو اگرچہ صدر اول کے بعد اس عہد میں فتح ہوئے جب کہ اسلامی جوش سرد ہو چکا تھا اور فاتحین کے دلوں میں خالص جہاد فی سبیل اللہ کی روح سے زیادہ ملک گیری کی ہوس نے جگہ لے لی تھی، لیکن اس کے باوجود اسلام وہاں پھیلنے اور جڑ پکڑ لینے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے ان ممالک میں کلیۃً ایک قومی مذہب اور قومی تہذیب کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔
بد قسمتی سے ہندوستان کا معاملہ اس دونوں قسم کے ممالک سے بہت مختلف ہے۔ صدرِ اول میں اس ملک کا بہت تھوڑا حصہ فتح ہوا تھا اور اس تھوڑے سے حصِہ پر بھی جو کچھ اسلامی تعلیم و تہذیب کے اثرات پڑے تھے، ان کو باطنیت کے سیلاب سے ملیا میٹ کر دیا۔ اس کے بعد جب ہندوستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا اصلی سلسلہ شروع ہوا تو فاتحوں میں صدرِ اول کے مسلمانوں کی خصوصیات باقی نہیں رہی تھیں۔ انہوں نے یہاں اشاعت اسلام کے بجائے توسیعِ مملکت میں اپنی قوتیں صرف کیں اور لوگوں سے اطاعتِ خدا و رسول کے بجائے اپنی اطاعت و باجگزاری کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کی فرماں روائی کے بعد بھی ہندوستان کا سواد اعظم غیر مسلم رہا، یہاں اسلامی تہذیب جڑ نہ پکڑ سکی، یہاں کے باشندوں میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی کوئی خاص انتظام نہ کیا گیا، نومسلم جماعتوں میں قدیم ہندو خیالات اور رسم و رواج کم و بیش باقی رہے اور خود باہر کے آئےہوئے قدیم الاسلام مسلمان بھی اہلِ ہند کے میل جول سے مشرکانہ طریقوں کے ساتھ رواداری برتنے اور بہت سے جاہلانہ رسوم کا اتباع کرنے لگے۔
انگریزوں کی آمد سے پہلے مسلمانوں کی حالت
اسلامی ہند کی تاریخ اور اس کے موجودہ حالات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس زمانہ میں اس ملک پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار پوری قوت سے چھایا ہوا تھا اس زمانہ میں بھی یہاں اسلام کے اثرات کمزور تھے اور یہاں کا ماحول خالص اسلامی ماحول نہ تھے۔ اگرچہ ہندوؤں کا مذہب اور تمدّن بجائے خود ضعیف تھا اور محکوم و مغلوب قوم کا مذہب و تمدن ہونے کی حیثیت سے اور بھی زیادہ ضعیف ہو گیا تھا، لیکن پھر بھی مسلمان حکمرانوں کی رواداری اور غفلت کی بدولت وہ ملک کے سوادِ اعظم پر چھایا ہوا رہا اور ہندوستان کی فضا پر اس کے مستولی ہونے اور خود مسلمانوں کی اسلامی تعلیم و تربیت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اپنے عقائد اور اپنی تہذیب میں کبھی اتنا صحیح اور پختہ اور کامل مسلمان نہ ہو سکا جتنا وہ خالص اسلامی ماحول میں ہو سکتا تھا۔
غلامی کے اثرات
اٹھارہویں صدی عیسوی میں وہ سیاسی اقتدار بھی مسلمانوں سے چھن گیا جو ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا سہارا تھا۔ پہلے مسلمانوں کی سلطنت متفرق ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوئی پھر مرہٹوں اور سکھوں اور انگریزوں کے سیلاب نے ایک ایک کر کے ان ریاستوں میں سے بیشتر کا خاتمہ کر دیا اور اس کے بعدقضائے الٰہی نے انگریزوں کے حق میں اس ملک کی حکومت کا فیصلہ صادر کیا اور ایک صدی کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ مسلمان اُس سرزمین میں مغلوب و محکوم ہو گئے جس پر انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی۔ انگریزی سلطنت جتنی جتنی پھیلتی چلی گئی مسلمانوں سے ان طاقتوں کو چھینتی چلی گئی جن کے بل پر ہندوستان میں اسلامی تہذیب کسی حد تک قائم تھی۔ اس نے فارسی اور عربی کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔ اسلامی قوانین کو منسوخ کیا، شرعی عدالتیں توڑ دیں، دیوانی اور فوجداری معاملات میں خود اپنے قوانین جاری کیے، اسلامی قانون کے نفاذ کو خود مسلمانوں کے حق میں صرف نکاح و طلاق وغیرہ تک محدود کر دیا اور اس محدود نفاذ کے اختیارات بھی قاضیوں کے بجائے عام دیوانی عدالتوں کے سپرد کر دیئے جن کے حکام عمومًا غیر مسلم ہوتے ہیں، اور جن کے ہاتھوں “محمڈن لا” روز بروز مسخ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابتدا سے انگریزی حکومت کی پالیسی یہ رہی کہ مسلمانوں کو معاشی حیثیت سے پامال کر کے ان کے اس قومی فخر و ناز کو کچل ڈالے جو ایک حاکم قوم کی حیثیت سے صدیوں تک ان کے دلوں میں پرورش پاتا رہا ہے۔ چنانچہ ایک صدی کےا ندر اندر اس پالیسی کی بدولت اس قوم کو مفلس، جاہل، پست خیال، فاسد الاخلاق، اور ذلیل و خوار کر کے چھوڑا گیا۔
1857ء کے بعد مسلمانوں کی حالتِ زار
اس گرتی ہوئی قوم پر آخری ضرب وہ تھی جو 1857 کے ہنگامہ میں لگی۔ اس نے مسلمانوں کی صرف سیاسی قوت ہی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ ان کی ہمتوں کو بھی توڑ ڈالا، ان کے دلوں پر مایوسی اور احساسِ ذلت کی تاریک گھٹائیں مسلط کر دیں، ان کو انگریزی اقتدار سے اتنا مرعوب کیا کہ ان میں قومی خودداری کا شائبہ تک باقی نہ رہا، اور ذلّت و خواری کی انتہائی گہرائیوں میں پہنچ کر وہ ایسا سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ دنیا میں سلامتی حاصل کرنے کے ذریعہ انگریز کی اطاعت، عزت حاصل کر نے کا ذریعہ انگریز کی خدمت اور ترقی کرنے کا ذریعہ انگریز کی تقلید کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور ان کا اپنا سرمایہ علم و تہذیب جو کچھ بھی ہے، ذلیل، سببِ ذلت اور موجب نکبت ہے۔
انیسویں صدی کے نصف دوم میں جب مسلمانوں نے سنبھل کر پھر اُٹھنے کی کوشش کی تو وہ دو قسم کی کمزوریوں میں مبتلا تھے۔
ایک یہ کہ وہ فکر و عمل کے اعتبار سے پہلے ہی اسلامی عقائد اور تہذیب میں پختہ نہ تھے اور ایک غیر اسلامی ماحول اپنے جاہی افکار اور تمدن کے ساتھ ان کو گھیرے ہوئے تھا۔
دوسرے یہ کہ غلامی اپنے تمام عیوب کے ساتھ نہ صرف ان کے جسم پر بلکہ ان کے قلب و روح پر بھی مسلط ہو چکی تھی اور وہ ان تمام قوتوں سے محروم کر دیئے گئے تھے جن سے کوئی قوم اپنے تمدن و تہذیب کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
اس دوہری کمزوری کی حالت میں مسلمانوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو انہیں نظر آیا کہ انگریزی سلطنت نے اپنی ہوشیاری سے معاشی ترقی کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں اور ان کی کنجی انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں رکھ دی ہے۔ اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ مرحوم سر سید احمد خاں کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اُٹھی جس کے اثر سے تمام ہندوستان کے مسلمانوں مٰں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا گیا۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی۔ دولت، عزت اور اثر کے لحاظ سے قوم کی اصلی طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس نئی تحریک کا ساتھ دیا۔ ہندوستان کے مسلمان تیزی کے ساتھ انگریزی تعلیم کی طرف بڑھے۔ قوم کا تلچھٹ پرانے مذہبی مدرسوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تاکہ مسجدوں کی امامت اور مکتبوں کی معلمی کے کام آئے، اور خوشحال طبقوں کے بہترین نونہال انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیئے گئے تاکہ ان کے دل و دماغ کے سادہ اوراق پر فرنگی علوم و فنون کے نقوش ثبت کیے جائیں۔
یورپ کی مادی ترقی اور وجود باری تعالیٰ کا انکار
یہ انیسویں صدی کے آخری چوتھائی کا زمانہ تھا۔ یورپ میں اس وقت مادیت انتہائی عروج پر تھی۔ اٹھارہویں صدی میں سائینس پوری طرح مذہب کو شکست دے چکی تھی۔ جدید فلسفہ اور نئے علومِ حکمت کی رہنمائی میں سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور اجتماعیات کے پرانے نظریے باطل ہو کر نئے نظریے قائم ہو چکے تھے۔ یورپ میں ایک خاص تہذیب پیدا ہو چکی تھی جس کی بنیاد کلیۃً انہی جدید نظریوں پر قائم تھی۔ اس انقلابِ عظیم نے زندگی کے عملی معاملات سے تو مذہب اور ان اصولوں کو جو مذہبی رہنمائی پر مبنی تھے، کلی طور پر خارج ہی کر دیا تھا، البتہ تخیل کی دنیا میں مذہبی اعتقاد کی تھوڑی سے جگہ باقی رہ گئی تھی، سو اب اس کے خلاف زبردست جنگ جاری تھی۔ اگرچہ علومِ حکمت میں سے کسی علم نے بھی کائنات کے الٰہی نظریہ کے خلاف کوئی ثبوت (جس کو ثبوت کہا جا سکتا ہو) بہم نہیں پہنچایا تھا مگر اہلِ حکمت بغیر کسی دلیل کے محض اپنے رجحانِ طبیعت کی بنا پر خدا سے بیزار اور الٰہی نظریہ کے دشمن تھے اور چونکہ انہی کو اس وقت دنیا کی عقلی و علمی رہنمائی کا منصب حاصل تھا اس لیے ان کے اثر سے خدا سے بیزاری (Theo phobia) کا مرض ایک عام وبا کی طرح پھیل گیا۔ وجودِ باری کا انکار، کائنات کو آپ سے آپ پیدا ہونے والی اور آپ سے آپ قوانین طبیعی کے تحت چلنے والی چیز سمجھنا، خدا پرستی کو توہم (Superstition) قرار دینا، مذہب کو لغو اور مذہبیت کو تنگ نظری و تاریک خیالی کہنا اور نیچریت (Naturalism) کو روشن خیالی کا ہم معنی سمجھنا اس وقت فیشن میں داخل ہو چکا تھا۔ ہر شخص خواہ وہ فلسفہ و سائینس میں کچھ بھی دست گاہ نہ رکھتا ہو اور اس نے خود ان مسائل کی تحقیق میں ذرہ برابر بھی کوشش نہ کی ہو، صرف اس بنا پر ان خیالات کا اظہار کرتا تھا کہ سوسائٹی میں وہ ایک روشن خیال آدمی سمجھا جائے۔ روحانیت (Spiritualism) یا فوق الطبیعت ( Super Naturalism) کی تائید میں کچھ کہنا اس وقت کفر کا درجہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی بڑے سے بڑا سائینس دان بھی اس قسم کے کسی خیال کا اظہار کرتا سائینٹفک حلقوں میں اس کی ساری وقعت جاتی رہتی، اس کے تمام کارناموں پر پانی پھر جاتا اور وہ اس قابل نہ رہتا کہ اسے کسی علمی جماعت کی رکنیت کا شرف بخشا جائے۔
1859 ء میں ڈارون کی کتاب اصل الانواع ( Origin of Species) شائع ہوئی جس نے نیچریت اور دہریت کی آگ پر جلتی کا کام کیا۔ اگرچہ ڈارون کے دلائل جو اس نے اپنے مخصوص نظریہ ارتقاء کی تائید میں پیش کیے تھے، کمزور اور محتاجِ ثبوت تھے۔ اس سلسلہ ارتقاء میں ایک کڑی نہیں بلکہ ہر موجود کڑی کے آگے اور پیچھے بہت سے کڑیاں مفقود تھیں۔ اہلِ حکمت اس وقت بھی اس نظریئے سے مطمئن نہ تھے حتٰی کہ خود اس کا سب سے بڑا وکیل ہکسلے ( Huxley) بھی اس پر ایمان نہ لایا تھا مگر اس کے باوجود محض خدا سے بیزاری کی بنا پر ڈارونیت کو قبول کر لیا گیا۔ اس کی حد سے زیادہ تشہیر کی گئی اور مذہب کے خلاف ایک زبردست آلہ کے طور پر اسے استعمال کیا گیا۔ کیونکہ اس نظریہ نے اہلِ حکمت کے زعمِ باطل میں اس دعوے کا ثبوت فراہم کر دیا تھا (حالانکہ دراصل اس نے ایک دعوٰی کیا تھا جو خود محتاجِ ثبوت تھا) کہ کائنات کا نظام کسی فوق الطبیعی قوت کے بغیر آپ سے آپ طبیعی قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ اہلِ مذہب نے اس نظریہ کی مخالفت کی اور برٹش ایسوسی ایشن کے جلسہ میں بشپ آف اکسفورڈ اور گلیڈاسٹن نے اپنی خطابت کا پورا زور اس کے خلاف صرف کیا، مگر شکست کھائی اور آخرکار اہلِ مذہب سائینٹفک دہریت سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ 1882ء میں جب ڈارون نے وفات پائی تو چرچ آف انگلینڈ نے وہ سب سے بڑا اعزاز اس کو بخشا جو اس کے اختیار میں تھا یعنی اسے ویٹ منسٹرایبی میں دفن کرنے کی اجازت دی۔حالانکہ وہ یورپ میں مذہب کی قبر کھودنے والوں کا سرخیل تھا اور اس نے انکار کو الحاد و زندقہ اور بے دینی کی طرف چلانے اور وہ ذہنیت پیدا کرنے میں سب سے زیادہ حصۃ لیا تھا جس سے آخرکار بالشوزم اور فاشزم کو پھلنے پھولنے اور بار آور ہونے کا موقع ملا۔
فرنگی تعلیم کے نتائج
یہ زمانہ تھا جب ہماری قوم کے نوجوان انگریزی تعلیم اور فرنگی تہذیب سےاستفادہ کرنے کےلیے مدرسوں اور کالجوں میں بھیجے گئے۔ اسلامی تہذیب سے کورے، اسلامی تہذیب میں خام، انگریزی حکومت سے مرعوب، فرنگی تہذیب کی شان و شوکت پر فریفتہ پہلے ہی سے تھے اب جو انہوں نے انگریزی مدرسے کی فضا میں قدم رکھا تو اس کا پہلا اثر یہ ہوا کہ ان کی ذہنیت کا سانچہ بدلا اور ان کی طبیعت کا رخ مذہب سے پھر گیا کیونکہ اس آب و ہوا کی اولین تاثیر یہ تھی کہ یورپ کےکسی مصنف یا محقق کے نام سے جو چیز پیش کی جائے اس پر وہ بے تامل امنا و صدقنا کہیں اور قرآن و حدیث یا ائمہ دین کی طرف سے کوئی بات پیش ہو تو اس پر دلیل کا مطالبہ کریں۔ اس منقلب ذہنیت کے ساتھ انہوں نے جن مغربی علوم کی تعلیم حاصل کی ان کے اصول و فروع اکثر و بیشتر اسلام کے اصول اور جزئیات احکام کے خلاف تھے۔ اسلام میں مذہب کا تصور یہ ہے کہ وہ زندگی کا قانون ہے اور مغرب میں مذہب کا تصور یہ ہے کہ وہ محض ایک شخصی عقیدہ ہے جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں پہلی چیز ایمان باللہ ہے اور وہاں سرے سے اللہ کا وجود ہی مسلّم نہیں۔ اسلام کا پورا نظامَ تہذیب وحی و رسالت کے اعتقاد پر قائم ہے اور وہاں وحی کی حقیقت ہی میں شک اور رسالت کے منجانب اللہ ہونے ہی میں شبہ ہے۔ اسلام میں آخرت کا اعتقاد پورےنظامِ اخلاق کا سنگِ بنیاد ہے اور وہاں یہ بنیاد خود بے بنیاد نظر آتی ہے۔ اسلام میں جو عبادات اور اعمال فرض ہیں وہاں وہ محض عہد جاہلیت کے رسوم ہیں جن کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا۔ اسی طرح اسلام کے اصولِ تمدن و تہذیب بھی مغربی تہذیب و تمدن سے اصول سے یکسر مختلف ہیں۔ قانون میں اسلام کا اصل الاصول یہ ہےکہ خود خدا واضعِ قانون ہے۔ رسولِ خدا شارحِ قانون اور انسان صرف متبعِ قانون۔ مگر وہاں خدا کو وضعِ قانون کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں۔ لیجلیچر واضعِ قانون ہے اور قوم لیجلیچر کو منتخب کرنے والی ہے۔ سیاسیات میں اسلام کا مطمعِ نظر حکومتِ الٰہی ہے اور مغرب کا مطمعِ نظر حکومتِ قومی۔ اسلام کا رُخ بین الاقوامیت (Internationalism) کی طرف ہے اور مغرب کا کعبۃ مقصود قومیت (Nationalism)۔ معاشیات میں اسلام اکل حلال اور زکٰوۃ و صدقہ اور تحریمِ سود پر زور دیتا ہے اور مغرب کا سارا معاشی نظام ہی سود اور منافع پر چل رہا ہے۔ اخلاقیات میں اسلام کے پیشِ نظر آخرت کی کامیابی ہے مغرب کے پیشِ نظر دنیا کا فائدہ۔ اجتماعی مسائل میں بھی اسلام کا راستہ قریب قریب ہر معاملہ میں مغرب کے راستہ سے مختلف ہے۔ ستر و حجاب، حدودِ زن و مرد، تعدد ازدواج، قوانین نکاح و طلاق، ضبطِ ولادت، حقوقِ ذوی الارحام، حقوقِ زوجین اور ایسے ہی بہت سے معاملات ہیں جن میں ان دونوں کا اختلاف اتنا نمایاں ہے کہ بیان کرنے کی حاجت نہیں اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے اصول مختلف ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے مرعوب بلکہ غلامانہ ذہنیت اور پھر غیر مکمل اسلامی تعلیم و تربیت کے ساتھ جب ان مغربی علوم کی تحصیل کی اور مغربی تہذیب کے زیرِ اثر تربیت پائی تو نتیجہ جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہی ہوا۔ ان میں تنقید کی صلاحیت پیدا نہ ہو سکی۔ انہوں نے مغرب سے جو کچھ سیکھا اس کو صحت اور درستی کا معیار سمجھ لیا۔پھر ناقص علم کے ساتھ اسلام کے اصول و قوانین کی اس معیار پر جانچ کر دیکھ اور جس مسئلہ میں دونوں کے درمیان اختلاف پایا اس میں کبھی مغرب کی غلطی محسوس نہ کی بلکہ اسلام ہی کو برسرِ غلط سمجھا اور اس کےاصول و قوانین میں ترمیم و تنسیخ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔
جدید تعلم نے معاشی اور سیاسی حیثیت سے ہندوستان کے مسلمانوں کو خواہ کتنا ہی فائدہ پہنچایا ہو مگر ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی کسی فائدے سے نہیں ہو سکتی۔
(تنقیحات از سید مودودی ص 23 تا 32)
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”