افسانہ چھت از:- ایم مبین

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
ایم مبین
کارکن
کارکن
Posts: 12
Joined: Tue Apr 07, 2009 12:59 pm

افسانہ چھت از:- ایم مبین

Post by ایم مبین »

افسانہ چھت از:۔ایم مبین

گھر آکر اس نےکپڑےاتارےبھی نہیں تھےکہ نسرین نےدبےلہجےمیں آواز لگائی ۔
” پانی آج بھی نہیں آیا ۔ گھر میں پینےکےلئےبھی پانی نہیں ہے۔ “ نسرین کی بات سنتےہی جھنجھلا کر غصےسےاس نےنسرین کی طرف دیکھا پھر بےبسی سےپلنگ پر بیٹھ گیا ۔
” اتنا بھی پانی نہیں ہےکہ آج کا کام چل جائے؟ “
” نہیں …. ! “ نسرین نےدھیرےسےجواب دیا اور اپنا سر جھکا لیا ۔ ” اگر ایک کین بھی پانی مل جائےتو کام چل جائےگا ۔ کل پانی ضرور آئےگا ۔ اس وقت سامنےوالی آبادی میں پانی آتا ہے۔ جھونپڑ پٹی کی دوسری عورتیں وہاں سےپانی لارہی ہیں ۔ “
” دوسری عورتیں وہاں سےپانی لا رہی ہیں لیکن تم نہیں لا سکتیں کیونکہ تم ایک وائٹ کالر جاب والےآدمی کی بیوی ہو ۔ “ اس نےسوچا اور پھر دھیرےسےبولا ۔
” ٹھیک ہےکین مجھےدو میں پانی لاتا ہوں ۔ “
آفس سےآیا تو اتنا تھک گیا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بستر پر لیٹ کر ساری دنیا سےبےخبر ہوجائے۔ لیکن نسرین نےجو مسئلہ پیش کیا تھا ایک ایسا مسئلہ تھا جس سےوہ دو دونوں سےآنکھ چرا رہا تھا ۔ اور اب اس سےآنکھ چرانا نا ممکن تھا ۔
اس گندی بستی کو جس پائپ لائن سےپانی سپلائی ہوتا تھا اس کا پائپ پھٹ گیا تھا اور تین دنوں سےنلوں میں پانی نہیں آرہا تھا ۔ شکایت کی گئی تھی لیکن جواب دیا گیا تھا کہ کام چل رہا ہے۔ کام ختم ہوجائےگا تو معمول سےایک گھنٹہ زیادہ پانی دیا جائےگا ۔ کام چیونٹی کی رفتار سےچل رہا تھا کب ختم ہوگا کوئی کہہ نہیں سکتا تھا اور کب پانی آئےگا کہا نہیں جاسکتا تھا ۔
جھونپڑ پٹی کا معاملہ تھا ۔ میونسپلٹی والےجھونپرپٹی والوں کو پانی سپلائی کرنےکی ذمہ داری نبھانےکےتابعدار نہیں تھے۔ کیونکہ ان کی نظرمیں وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی ہے۔ اس جھونپڑ پٹی میں غیر قانونی ڈھنگ سےرشوت دےکر نل کےکنکشن دئےگئےہیں ۔ میونسپلٹی چاہےتو ان تمام کنکشنوں کو کاٹ کر پانی کی سپلائی بند کرسکتی ہے۔ لیکن انسانیت کےناطےاس بستی کو پانی سپلائی کررہی تھی ۔ اس لئےاس بستی کےلوگوںکو میونسپلٹی والوں کا شکر گذار ہونا چاہئے۔ قانون کی زبان میں بات کرنےکےبجائےعاجزی سےدرخواست کرنی چاہیئے۔ تب میونسپلٹی کےاعلیٰ افسران ان کی پریشانیوں کےبارےمیں سنجیدگی سےغور کریں گے۔
ہاتھ میں بیس لیٹر پانی کا کین لےکر وہ کرانتی نگر کی پرپیچ گلیوں سےہوتا سڑک پر آیا اور سڑک پار کرکےدوسری بستی میں ۔ اس بستی میں وہ کوئی ایسا نل تلاش کرنےلگا جہاں اسےپانی مل سکے۔ ہر نل پر بھیڑ تھی ۔ نلوں پر پانی بھرنےوالی زیادہ تر کرانتی نگر کی عورتیں ہی تھیں ۔
ایک نل پر اسےایک شناسا عورت دکھائی دی ۔ اس نےاس کا کین بھر دیا تو وہ کین اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑا ۔ بیس لیٹر کا کین اٹھا کر گھر کی طرف جانا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ بار بار ہاتھ شل ہوجارہےتھےاور توازن بگڑ رارہا تھا ۔ بگڑتےتوازن سےایسا لگتا جیسےوہ گر پڑےگا ۔
جب بھی ایسی صورت حال اسےمحسوس ہوتی وہ جلدی سےکین ہاتھ سےدوسرےہاتھ میں لےلیتا ۔ اس طرح شل ہوتےہاتھ کو بھی آرام مل جاتا اور اس کا توازن بھی برقرار رہتا ۔
خدا خدا کرکےوہ سڑک پار کرتا ہوا کرانتی نگر کی سرحد میں داخل ہوا ۔ اب اس کین کو گھر تک لےجانا سب سےبڑا امتحان تھا ۔ کرانتی نگر کی پر پیچ گلیاں ‘ جگہ جگہ بہتا گندی گٹروں کا پانی ، اونچےنیچےراستوں سےہوکر گذرنا کسی کرتب بازی سےکم نہیں تھا ۔ دل میں آیا کہ کین کو یا تو کاندھےپر رکھ لےیا پھر سر پر اٹھا لےلیکن خود اس بات پر شرماگیا کہ آس پاس کےلوگ اسےاس حالت میں دیکھیں گےتو ہنسیں گے۔
” انور صاحب کین سر پر اٹھاکےپانی بھر رہےہیں ۔ “
اس لئےاس نےکین ہاتھوں میں لےجانا ہی مناسب سمجھا ۔
گندی گٹروں کےپانی اور اونچےنیچےتنگ راستوں پر وہ سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہا تھا ۔ مگر ساری محنت بےکار گئی ۔ اچانک ایک جگہ اس کا پیر پھسلا اور ہاتھ میں بیس لیٹر کا کین تھا وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور دھڑام سےگر گیا ۔ جہاں وہ گرا تھا اس جگہ گٹر کا گندہ پانی ابل کر جمع ہوا تھا ۔ وہ سارا بدبودار گندہ پانی اس کےجسم اور کپڑوں سےلپٹ گیا ۔
گرتےگرتےاس نےکین کو بچا لیا ۔ اس وقت وہ پانی اس کےلئےاپنی جان سےبھی زیادہ قیمتی تھا ۔ اس نےکین کو ایسےانداز میں اٹھائےرکھا کہ پانی نہ گرسکےاور وہ اس کوشش میں کامیاب رہا ۔ واپس اٹھ کر اس نےپانی کا کین اٹھایا اور گھر کی طرف چل دیا ۔ جسمکیکئیحصوں پرزخم آئےتھےاوروہ زخم انگارےبنےہوئےتھےلیکن اس کےباوجود وہ کین اٹھائےآگےبڑھ رہا تھا ۔
آس پاس کےلوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنس دیتےاور اندازہ لگالیتےکہ اس کےساتھ کیا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ خوش تھا ۔ اسےاتنا پانی تو مل گیا کہ آج کا کام چل جائےگھر آکر اس نےکپڑےبدلےاور نہانےکےلئےبیٹھا تو یاد آیا کہ اس کےنہانےکےلئےپانی کہا ںہے۔ کفایت شعاری کا ثبوت دیتےہوئےاس نےایک دو لیٹر پانی سےاپنےجسم پر لگی گندگی صاف کی ۔
رات میں اس پر دوہرا عذاب مسلط تھا ۔ گرنےکی وجہ سےاس کےجسم پر جو خراشیں اور زخم آئےتھےوہ درد کررہےتھےاور بجلی بھی نہیں تھی ۔ گھر بھٹی بنا ہوا تھا ۔ ہاتھوں سےپنکھا جھل کر وہ اور نسرین گرمی دور کرنےکی کوشش کر رہےتھےلیکن پھر بھی آرام نہیں مل رہا تھا ۔ گھبرا کر وہ دروازےکےباہر چادر بچھا کر لیٹ گیا ۔ باہر اسےاندر کی بہ نسبت تھوڑا آرام محسوس ہوا ۔ لیکن پاس کی گٹر کی بدبو اس کا دماغ پھاڑ رہی تھی اور بھنبھناتےمچھر اسےکاٹتےتو اس کےمنھ سےسسکی نکل جاتی ۔
بجلی کب آئےگی کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا بجلی کےبنا نیند نہیں آئےگی ۔ کل ڈیوٹی جانا ہے۔ اگر وہ ٹھیک طرح سےسو نہیں سکا تو بھلا پھر ڈیوٹی کس طرح انجام دےگا ۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ اکثر آدھی رات کو بجلی چلی جاتی تھی اور اسےاسی عذاب کو برداشت کرنا پڑتا تھا جس عذاب میں وہ اس وقت مبتلا تھا ۔ آنکھوں میں ساری رات گذرجاتی تھی ۔ لیکن بجلی نہیں آتی تھی ۔ سویرا ہوجاتا تو ڈیوٹی پر جانےکی تیاریاں کرنی پڑتی ۔ آنکھیں نیند سےبوجھل ہوتیں لیکن سو نہیں سکتےتھےکیونکہ ڈیوٹی جانا تھا ۔ آفس آتا تو نیند سےپلکیں بوجھل ہونےلگتیں ‘ کوئی کام نہیں ہوتا اور غلط سلط کام ہوتےتو باس کی ڈانٹیں سننی پڑتیں ۔
نسرین نےویسےتو اس سےکبھی سوال یا شکایت نہیںکی تھی کہ اس نےکرانتی نگر میں ہی گھر کیوں لیا ہے۔ کیونکہ وہ اس کی مجبوری جانتی تھی ۔ اسےموجودہ حالات میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں گھر مل ہی نہیں سکتا تھا ۔ کیونکہ اس میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں اور گھر لینےکی مالی استطاعت نہیں تھی ۔
کبھی سوچتا کہ اس نےشادی کرنےمیں جلدی کرکےغلطی کی کرانتی نگر میں گھر لےکر کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ شادی دیر سےکرتا تو ان پریشانیوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا۔ نوکریملی تو سب سےپہلا مسئلہ ایک چھت کا پیدا ہوا ۔ ایک چھت کی شدت سےضرورت محسوس ہوئی جس کےنیچےسر چھپا سکے۔ دو چار دن اِدھر اُدھر گذار کر چھت کی تلاش شروع ہوئی ۔ اسےمحسوس ہوا نوکری اسےجتنی آسانی سےمل گئی تھی چھت اسےاتنی آسانی سےملنی ممکن نہیں تھی ۔
شہر میں اس کی طرح ہزاروں لاکھوں لوگ چھت کےمتلاشی ہیں اور وہ چھت کےلئےہزاروں لاکھوں روپےدینےکو تیار ہیں ۔لیکن اس کی استطاعت کےمطابق کرانتی نگر میں ہی چھت مل سکی ۔
کرانتی نگر ایک جھونپڑپٹی تھی ۔ کسی کی زمین پر ایک دادا نےناجائز قبضہ کرکےلکڑی کےٹکڑوں ، پتروں سےکئی جھونپڑےبنائےتھےاور انہیں کرائےپر دےرکھا تھا اور ان کا کرایہ وصول کرتا تھا ۔ وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی تھی اور کبھی بھی ٹوٹ سکتی تھی ۔ لیکن داو¿د بھائی کا کہنا تھا کہ میں گذشتہ پانچ سالوں سےیہاں رہ رہا ہوں اور پانچ سالوں سےسن رہا ہوں کہ جھونپڑپٹی ٹوٹنےوالی ہےمگر ابھی تک نہیں ٹوٹ سکی اور اب مجھےیقین ہےآئندہ دس سالوں تک یہ جھونپڑپٹی نہیں ٹوٹ سکتی ۔
اس نےکرانتی نگر میں کھولی داو¿د بھائی کےذریعےحاصل کی تھی ۔ داو¿د بھائی کی کرانتی نگر میں کرانےکی دوکان تھی کسی نےاس سےکہا تھا کہ اگر اسےکرانتی نگر میں کھولی چاہیئےتو داو¿د بھائی سےمل لینا وہ سب کچھ کردیں گے۔
وہ داو¿د بھائی سےملا اپنا تعارف کرایا اور اپنا مسئلہ پیش کیا ۔ ” آپ اس علاقےمیں روم چاہتےہیں ‘ روم تو مل جائےگا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ علاقہ آپ کےلئےمناسب نہیں ہے۔ میں آپ کی مجبوریوں کو سمجھتا ہوں ۔ مجھےعلم ہےآپ کس مجبوری کےتحت اس جھونپڑپٹی میں کھولی لےرہےہیں ۔ آپ جیسےکئی لوگ اس سےقبل اسی مجبوری کےتحت یہاں سال دو سال رہ کر گئےہیں ۔ سال دو سال میں ان کےپاس پیسہ جمع ہوگیا انہیں اچھی جگہ اس سےاچھا روم مل گیا پھر وہ یہ بستی چھوڑ کر چلےگئے۔ انور بھائی آپ گھبرائیےنہیں ۔ آپ بھی ایسا کیجئے۔ ابھی وقتی طور پر یہ روم لےلیجئے۔ بعد میں اس سےاچھا روم مل جائےگا تو اسےچھوڑ دیجئے۔ “
دس ہزار روپےڈپازٹ اور ڈھائی سو روپےمہینہ پر اسے٢١x٠١ کا ایک کمرہ ملا جس کی چھت پترےکی تھی ۔ نل اور بجلی کا اس میں انتظام تھا ۔ دس ہزار روپےاس نےگھر والوں سےقرض کےطور پر حاصل کئےاور کمرہ لےلیا وہ کمرہ لےکر وہاں رہنےلگا تو اسےوہاں پر کچھ بھی اجنبی نہیں لگا۔ ویسےبھی وہ سویرےجو آفس جاتا تو شام کو ہی گھر آتا تھا ۔ اپنی چھت کےنیچےسر چھپانےکےلئے۔ دن بھر وہاں کیا ہورہا ہے۔ اسےکچھ پتہ نہیں چلتا تھا ۔ رات میں کبھی کبھی آس پاس کےلوگوں کےساتھ ایک آدھ گھنٹہ بیٹھ کر بستی کی خیر و خبر معلوم کرلیتا ۔ یا بستی میں ہونےوالےجھگڑوں کو تماشائی بن کر دیکھ لیتا تھا ۔
کبھی پانی کی گٹر پر سےبھیکو اور چندو کا جھگڑا ہوگیا ۔ کبھی بھولو دتا رام سےبلاوجہ الجھ گیا ۔ کبھی دشرتھ رات میں شراب پی کر آیا اور اس نےساری بستی کو سر پر اٹھا لیا ۔ کاشی رام کی بیوی کو جادھو نےچھیڑا تھا اس لئےغصےمیں کاشی رام نےجادھو کو استرا مار دیا۔ دھوترےکی بیوی اپنےسےدس سال چھوٹےلڑکےکےساتھ بھاگ گئی ۔ واگھمارےکی بیوی کالو کےبستر میں رنگےہاتھوں پکڑی گئی ۔ شراب کےنشےمیں دھت اشوک سریش کےگھر میں گھس گیا اور اس کی بیوی کےساتھ زبردستی کرنےکی کوشش کی ۔
وہ ساری باتیں بڑی دلچسپی سےسنتا اور ان سےلطف اندوز ہوتا تھا ۔ اس کا اس جگہ دل لگ گیا تھا ۔ پھر گھر والوں کو اس کی شادی کی سوجھی اور وہ بھی شادی کےلئےتیار ہوگیا ۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ وہ کب تک ہوٹل میں کھاتا رہےگا ۔ بیوی گھر آجائےگی تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائےگا اور اسےاس اجنبی شہر میں ایک ساتھی مونس و غمخوار بھی مل جائےگا ۔
شادی ہوگئی ۔ نسرین گھر میں آئی اور جیسےاس پر مسائل نےایک ساتھ حملہ کردیا ۔ شادی کےبعد اسےمعلوم ہوا تھا کہ بستی میں کبھی کبھی تین تین دنوں تک پانی نہیں آتا ہے۔ اور بستی کےلوگو ںکو پانی کےلئےمارےمارےپھرنا پڑتا ہے۔
مٹی کا تیل کتنی مشکلوں سےملتا ہے۔ اس سےتو اسٹو جلتا ہےجس پر کھانا پکتا ہے۔ اگر وہ نہ ملےتو اسٹو نہیں جل سکتا اور کھانا بھی نہیں پک سکتا تھا اور نمک لانےکےلئےداو¿د بھائی کی دوکان تک جانا پڑتا ہے۔ اگر تازہ سبزیاں چاہیئےتو سبزیاں لانےکےلئےشہر میں سبزی مارکیٹ تک جانا پڑتا ہے۔ سبزی مارکیٹ میں ہی تازہ سبزیاں ملتی ہیں ۔ کرانتی نگر میں جو سبزیاں ملتی ہیں وہ باسی اور مہنگی ہوتی ہیں ۔ اگر اچانک کوئی بیمار ہوجائےتو دن میں بھی کرانتی نگر میں ڈاکٹر نہیں ملتا ہے۔ ڈاکٹر کےلئےشہر جانا پڑتا ہی۔ دن میں شرابی آوارہ بدمعاش گھروں میں گھس جاتےہیں اور گھر کی عورتوں کو چھیڑتےہیں ۔ غنڈےبدمعاشوں کی تلاش میں کبھی کبھی پولس بستی میں آتی ہےتو بستی کی عورتوں کےساتھ نازیبا برتاو¿ کرتی ہے۔
ان تمام مسائل میں سےکچھ کےحل نکل آئےتھےکچھ کےحل باقی تھے۔ جب کبھی نسرین اسےبتاتی کہ آج ایک شرابی گھر میں گھس آیا تھا تو وہ سر سےپیر تک پسینےمیںنہا جاتا تھا ۔ اس کا حل تو نکل آیا تھا ۔ اس نےآس پاس کی عورتوں کو کہہ دیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ نسرین کا خیال رکھیں ۔ وہ اتنی مخلص تھیں کہ نسرین کی ایک آواز پر دوڑی آتی تھیں ۔ اس طرح نسرین کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا ۔
زندگی کسی طرح طرح گذر رہی تھی کہ اچانک ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی ۔ جس شخص کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکےوہ جھونپڑا بستی بسائی تھی ۔ اس کےغنڈےآکر لوگوں کو تنگ کرنےلگےکہ وہ لوگ جھونپڑےخالی کردیں ورنہ وہ ان کےساتھ سختی سےپیش آئیں گے۔ اس شخص نےشاید میونسپلٹی والوں کو بھی ہموار کردیا تھا ۔ اس لئےاکثر میونسپلٹی کےچھوٹےبڑےآفیسر ، ملازمین آکر بستی والوں کو دھمکیاں دیا کرتےتھےکہ وہ بستی خالی کردیں ۔ کیونکہ یہ ایک ناجائز بستی ہے۔ میونسپلٹی کبھی بھی آکر اس بستی کو بل ڈوزر سےمسمار کردےگی ۔ بستی میں زیادہ تر جاہل ان پڑھ لوگ تھے۔ جو قانون کی زبان نہیں سمجھتےتھےاور جو پڑھےلکھےتھےاس جھمیلےمیں پڑنا نہیں چاہتےتھے۔
اسےبھی فکر لاحق ہونےلگی کہ اگر کسی دن میونسپلٹی نےبستی توڑ دی تو اس کےدس ہزار روپےڈوب جائیں گےجو اس نےڈپازٹ کی صورت میں دئےہیں ۔ اس سلسلےمیں داو¿د بھائی سےبات کی تو داو¿د بھائی نےاسےسمجھایا ۔ ” دیکھئےآپ کو فکر کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔ جس شخص نےآپ سےڈپازٹ لیا ہےجو کرایہ وصول کرتا ہےاور جس نےیہ بستی بسائی ہےوہ بھی مانا ہوا غنڈہ ہے۔ زمین کےمالک کےچھوڑےہوئےغنڈوں سےوہ نپٹ لےگا ۔ جہاں تک میونسپلٹی والوں کا سوال ہےان کو اس طرح کی قانون کی زبان استعمال کرنےکا حق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جھونپڑپٹی نجی زمین پر آباد ہےسرکاری زمین پر نہیں ہے۔ اس لئےمیونسپلٹی اسےتوڑ نہیں سکتی پھر جس میونسپلٹی کےملازمین نےرشوت لےکر اس بستی کےنل کنکشن دئے۔ بجلی کےکنکشن دئےوہ قانون اور غیر قانون کی بات کس طرح کرسکتےہیں ۔ داو¿د بھائی کی بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی ۔ داو¿د بھائی نےتو یہاں تک کہاتھا کہ اگر آپ کو شک ہےتو آپ اپنےڈپازٹ کا پیسہ واپس لےکر کھولی خالی کردیں ۔
وہ کھولی خالی نہیں کرسکتا تھا ۔ کیونکہ دوسری جگہ گھر کا انتظام ناممکن تھا اس کےپاس اتنا پیسہ نہیں تھا ۔ پھر وہ اپنےآپ کو اس چھت کےنیچےبہت محفوظ سمجھتا تھا ۔ وہ اپنےلئےاتنی جلدی دوسری چھت کا انتظام نہیں کرسکتا تھا پھر بھلا یہ چھت کس طرح چھوڑ سکتا تھا ۔
ان مسائل کو دیکھتےہوئےاس نےطےکر لیا تھا کہ وہ اب جلد ہی یہ جگہ چھوڑدےگا ۔ یہ جگہ اس کےجیسےشریف آدمی کےلائق نہیں ہے۔ اس نےدوسری جگہ تلاش کرنی شروع بھی کردی تھی اور پیسو ں کا انتظام کرنا بھی شروع کردیا تھا ۔ ایک رات ایک شور سن کر اس کی آنکھ کھلی تو وہ اچانک گھبرا گئے۔ انہیں لگا جیسےان کا کمرہ جہنم کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ وہ گھبرا کر جب باہر آئےتو انہوں نےدیکھا کہ پوری بستی شعلوں میں گھری ہوئی ہےلوگ اپنی اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہےہیں ۔ اپنی متاع زندگی کو آگ سےبچانےکی کوشش کررہےتھے۔
آگ بڑھتی جارہی ہے۔ کیونکہ بستی کےمکان کچےتھےاس لئےاس آگ کو بڑھنےسےکوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ آگ بجھانےکےلئےفائر بریگیڈ کو فون کیا گیا تھا۔لیکن اس کا بھی نام و نشان نہیں تھا ۔ شاید یہ بھی آگ لگانےوالوں اور فائر بریگیڈ کی ملی بھگت تھی ۔
آگ ان کےگھرکی طرف بڑھ رہی تھی ۔ اس لئےانہوں نےاپنی متاع زندگی کو بچانےکی کوشش شروع کردی ۔ ابھی تھوڑا سا سامان ہی بچا پائےتھےکہ آگ نےان کےگھر کو اپنی لپیٹ میں لےلیا اور دیکھتےہی دیکھتےان کا گھر جل کر خاک ہوگیا ۔
وہ دور میدان میں اپنا تھوڑا سا بچا ہوا سرمایہ ¿ حیات لئےبیٹھےتھے۔ سامنےپوری جلی ہوئی بستی دکھائی دےرہی تھی ۔ جس سےدھواں اٹھ رہا تھا ۔ وہ حسرت سےکبھی اس جلی ہوئی بستی کو دیکھتےتو کبھی آسمان کو ۔
ان کےسر کی چھت چھینی جا چکی تھی ۔
اب ان کےسر پر صرف آسمان کی چھت تھی ۔
ll

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠٣١٢٤
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

افسانہ بلندی از:۔ایم مبین

کال بیل بجی ۔
دروازہ کھولنےپر سامنےکچھ ایسی صورتیں نظر آئیں جو دیکھنےسےہی ناگوار سی لگیں ۔ ” کیا بات ہے؟ “ میں نےاستفہامیہ نظروں سےان کی طرف دیکھا ۔
” بھاو¿ کا ہفتہ دو ؟ “
” بھاو¿کا ہفتہ …….. ؟ میں سمجھا نہیں ۔ “ میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔
” نیا نیا یہاں رہنےکےلئےآیا ہےناں اس لئےادھر کےطور طریقےمعلوم نہیں ہیں ۔ ایک دو مہینےمیں سب معلوم ہوجائےگا ۔ چپ چاپ دو سو روپیہ دےدو ۔ “ ایک نےکہا ۔
” دو سو روپے…. ! مگر کس بات کےدو سو روپے؟ “ میں نےپوچھا ۔
” اےاکبر ! اِدھر آ اور یہ جو تیرا نیا پڑوسی آیا ہےناں اسےبتا کہ ہم کس بات کےدوسو روپےمانگ رہےہیں ۔ تُو اسےبتا دے۔ اگر تجھ سےہماری بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تو ہم اپنی زبان میں اپنےانداز میں اسےسمجھائیں گےکہ ہم کس ئےدو سو روپےمانگ رہےہیں ۔ “ ایک نےاکبر بھائی کو آواز دی ۔
” ارےنہیں دامو بھائی ! میں انہیں سمجھا دوں گا ۔ آپ کو اسےسمجھانےکی ضرورت نہیں پڑےگی ۔ “ کہتےہوئےاکبر بھائی آگےآئےاور مجھ سےبولے۔
” سلیم صاحب ! انہیں دو سو روپےدےدیجئے۔ “
” مگر دو سو روپےکس بات کے؟ “
” وہ میں آپ کو بعد میں سمجھا دوں گا پہلےآپ انہیں دو سو روپےدےدیجئی۔“ اکبر بھائی نےاصرار کیا تو میں سوچ میں ڈوب گیا ۔ جو لوگ دو سو روپےمانگ رہےتھے۔ صورت و شکل سےایسےتھےکہ اگر ان کی مانگ پوری نہیں کی گئی تو وہ مجھ سےالجھ سکتےتھے۔ الجھنےکی صورت میں مجھےہی گزند پہنچ سکتی تھی ۔ لیکن دو سو روپےمفت میں انہیں دینا میرےحلق سےنیچےنہیں اتر رہا تھا ۔
کچھ سوچ کر میں نےانہیں دو سو روپےدےدئے۔ جاتےوقت وہ اکبر بھائی سےکہہ گئے۔ ” اکبر ! ہم کس لئےپیسہ مانگتےہیں اسےاچھی طرح سمجھا دینا ۔ اگلی بار اس نےکوئی حجت نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اگلی بار ہفتہ کےلئےیہ ہم سےالجھا تو ہم اس کا حلیہ بگاڑ دیں گے۔
” نہیں نہیں دامو بھائی ! اگلی بار ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ میں انہیں سب سمجھا دوں گا ۔ “ اکبر بھائی نےکہا اور ان کےجانےکےبعد گھر میں آگئے۔
” سلیم بھائی ! آپ یہاں نئےنئےرہنےکےلئےآئےہیں اس لئےیہاں کےطور طریقےنہیں معلوم ۔ یہاں کا ایک دادا ہےجو یہاں کی شاکھا کا پرمکھ بھی ہے۔ وسنت‘ہر مہینےاس کو ہفتہ دینا پڑتا ہے۔ اس کو ہفتہ دینےسےایک فائدہ یہ ہوتا ہےکہ اس کالونی میں کبھی کچھ نہیںہوتا ۔ کوئی غنڈہ آنکھ اٹھا کر بھی اس کالونی کی طرف نہیں دیکھتا ہےنہ اس کالونی کی کسی لڑکی کو چھیڑنےکی ہمت کرتا ہے۔ اور تو اور اگر کسی دوسری کالونی کا کوئی آدمی بھی اس کالونی کےکسی فرد سےالجھتا ہےتو وسنت کےآدمی اسےایسا سبق سکھاتےہیں کہ وہ دوبارہ اس کالونی کےپاس سےگذرنےسےبھی خوف کھاتا ہےاور پھر ہم تو مسلمان ہیں ۔ پتہ نہیں کب کہیں چھوٹی سی چنگاری بھڑک اٹھےاور وہ چنگاری شعلہ بن کر ہماری چھوٹی سی دنیا ہماری ساری زندگی کی خون پسینےکی کمائی جلا کر خاک کردیں ۔ اگر ایسا کوئی واقعہ بھی ہوا تو ہم پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے۔ وسنت کےآدمی ہماری حفاظت کرتےہیں سمجھ لیجئےکہ ایک طرح سےہم اپنی حفاظت کی قیمت ادا کر رہےہیں ۔ “ اکبر بھائی نےتفصیل سےبتایا ۔
” کیا کالونی کےدوسرےافراد بھی ہفتہ دیتےہیں ۔ “
” ہاں سبھی دیتےہیں ۔ ہم اپنی اپنےگھروں کی حفاظت کےلئےہفتہ دیتےہیں ۔ تو وہ بھی اپنی حفاظت کےلئےہفتہ دیتےہیں ۔ جو ہفتہ نہیں دیتا اس کا کالونی میں رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ وسنت کےآدمی اسےاتنا تنگ کرتےہیں کہ اس کا یہاں رہنا دوبھر ہوجاتاہے۔ کوئی بھی اسےان سےنہیں بچا سکتا ۔ یہاں تک کہ پولس بھی وسنت کےآدمیوں کےخلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی ۔ مجبوراً یا تو اسےوسنت کو ہفتہ دینا پڑتا ہےیا پھر یہ کالونی چھوڑ دینی پرتی ہے۔ “
” اچھا یہ وسنت پوار ہےناں ؟ جو اس بار اس علاقےسےمیونسپل الیکشن میں کھڑا ہونےوالا ہے۔ “ مجھےکچھ یاد آیا ۔
” ہاں وہی ۔ کھڑا کیا ہوگا میں تو کہتا ہوں وہ اس علاقےسےمنتخب بھی ہوجائےگا ۔کیونکہ پورےعلاقےمیں اس کا رعب اور دبدبہ ہےاس علاقےکا شاکھا پرمکھ ہے۔ اس لئےاس کی جیت یقینی ہے۔ “ اکبر بھائی بولے۔
” وسنت پوار …….. ! “ میں نےدہرایا ۔ ” نام کچھ شناسا سا لگ رہا ہےیا میں سمجھتا ہوں کہ اس آدمی کو میں بہت قریب سےجانتا ہوں ۔ اس کےبارےمیں کچھ اور تفصیل سےبتائیی۔ “
” میں بھی نیا نیا اس علاقےمیں آیا ہوں ۔ “ اکبر بھائی بولے۔ ” اس لئےمیں بھی وسنت کےبارےمیں زیادہ تفصیل سےنہیں بتاسکتا ۔ سنا ہےوہ اس علاقےکا لیڈر ہے‘ بلڈر ہے‘ دادا ہے‘ شاکھا پرمکھ ہےاور سب کچھ ہے۔ “
” یہ وسنت کےآدمی تھے۔وسنت ایسا بھی کرتا ہےیا یہ سب بھی کرسکتا ہےمجھےیقین نہیں آرہا تھا لیکن یقین نہ کرنےکی کوئی وجہ بھی نہیں تھی ۔جو کچھ میں نےوسنت کےبارےمیں سن رکھا تھا ‘ جو کچھ اس کےبارےمیں اخبارات میں پڑھا تھا اس کےبعد وہ یہ کرسکتا ہےاس پر یقین نہ کرنےکا کائی جواز بھی نہیں تھا ۔
دراصل پانچ سال قبل تک وسنت میرا ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا ۔ اس کی زندگی کےہر پہلو ہر دکھ سکھ کو میں جانتا تھا دراصل اسےاس شہر میں لانےوالا بھی میں ہی تھا ۔ لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں ایک بار بھی اس کا سامنا نہیں ہوسکا ۔ صرف اس کےبارےمیں ‘ میں سنتا رہا کہ وہ آج کل کہاں ہےاور کیا کر رہا ہےیا پھر اس کےبارےمیں اخباروں میں پڑھتا رہا ۔ یا کسی سیاسی جلسےمیں اسٹیج پر اسےدیکھ لیتا ۔ لیکن اس وقت وہ اسٹیج پر ہوتا اور میں تماشائیوں میں ۔
سات سال قبل میں وسنت کو اپنےساتھ اپنےآبائی گاو¿ں سےاس شہر میں لایا تھا ۔ وسنت سےبہت پرانی جان پہچان تھی ۔ گاو¿ں میں چھوٹےموٹےکام کاج کرکےوہ اپنا اور اپنےخاندان کا پیٹ بھرتا تھا ۔ سال دو سال میں جب کبھی میں گاو¿ں جاتا وسنت سےملاقات ہوتی تو ادھر ادھر کی باتیں کرنےکےبعد وہ مجھ سےایک ہی استدعا کرتا تھا۔ ” سلیم بھائی ! گاو¿ں میں چھوٹےموٹےکام کرکےبڑی مشکل سےاپنا اور اپنےخاندان کا پیٹ پالتا ہوں ۔ بچت کےنام پر ایک پیسہ بھی پاس میں نہیں ہےجو آڑےوقت میں کام آئے۔ آپ تو شہر میں بہت بڑی کمپنی میں کام کرتےہیں ۔ آپ کی فیکٹری میں کام کرنےکےلئےمزدوروں کی ضرورت تو پڑتی ہی ہوگی ۔ مجھےبھی فیکٹری میں کوئی کام دلا دیجئے۔
اسےفیکٹری میں لیبر کا کام دلانا میرےلئےکوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ لیکن میں اس بات سےڈرتا تھا کہ وہ گاو¿ں کا بھولا بھالا آدمی شہر کےمسائل اور مصائب کا سامنا نہیں کرسکےگا ۔ اس لئےاسےسمجھاتا تھا کہ گاو¿ں میں اسےجو آدھی روٹی مل رہی ہے۔ وہیٹھیک ہے۔ لیکن اس کےبہت زور دینےپر ایک دن میں اسےاپنےساتھ شہر لےآیا۔ اس وقت میں شہر کی ایک چال میں رہتا تھا ۔ دو دنوں تک وہ میرےگھر میں ہی رہا ۔ ہم جو کھاتےہمارےساتھ کھاتا اور دروازےکےپاس بستر لگا کر ٹھٹھر کر پڑا رہتا ۔
دو دنوں کےبعد میں اسےاپنی فیکٹری کےمنیجر کےپاس لےگیا اور اس کا تعارف کراتےہوئےکہا ۔ ” منیجر صاحب ! میرےگاو¿ں کا آدمی ہےبہت محنتی اور ایماندار ہےاسےکوئی کام دےدیجئے۔ “
منیجر نےمیرےکہنےپر اسےفوراً کام پر لگا دیا ۔ اس دن سےوہ میرےساتھ ہی کام پر جانےلگا ۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ گھر سےآفس جانےکےلئےنکلتے۔ وہ نیچےفیکٹری میں جاکر مشینوں پر کام کرتا اور میں اوپر آفس میں کاغذات میں سر کھپاتا ۔
ایک مہینےتک وہ میرےگھر میں رہا ۔ وہ سویرےپانچ بجےہی اٹھ جاتا تھا ۔ نہا دھوکر مندر جاتا اور آتےوقت گھر کا ضروری سامان لےآتا ۔ پھر ہم ساتھ ناشتہ کرتےاور ساتھ میں ٹفن لےکر آفس جاتے۔ واپسی میں ہمارےراستےالگ الگ ہوتےتھے۔ وسنت کےلئےشہر نیا تھا اس لئےوہ گھومنےپھرنےکےلئےنکل جاتا تھا ۔ آٹھ بجےوہ گھر واپس آتا ۔ ہم ساتھ رات کا کھانا کھاتےاس کےبعد وہ اس محلےکی ایک بھجن کیرتن منڈلی میں بھجن گانےچلا جاتا تھا ۔ رات بارہ بجےکےقریب وہ وہاں سےآتا تھا ۔ ہفتےمیں دو تین اپواس ( روزے) ضرور کرتا تھا ۔ وہ سات مختلف دیوتاو¿ں کو مانتا تھا ۔ یہ دن اس نےطےکر رکھا تھا کہ اس دن کس دیوتا کےمندر جایا جائے۔
جب پہلی تنخواہ اس کےہاتھ میں آئی تو ان پیسوں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ” سلیم بھائی ! میں نےزندگی میں خود کےاتنےپیسےنہیں دیکھے۔ “ اس نےکھانےکےپیسےدینےچاہےمگر میں نےانکار کر دیا ۔
اس کےبعد اپنےگھر والوں کو شہر لانےکی اس میں دھن سمائی لیکن شہر میں رہنےکےلئےکوئی ٹھکانہ حاصل کرلینا اتنا آسان نہیں تھا ۔ وہ دو تین مہینوں تک اس ٹھکانےکےلئےدردر بھٹکتا رہا۔
ایک دن آیا تو بہت خوش تھا ۔ ”ایک جگہ کسی کی زمین پر غیر قانونی جھونپڑےبن رہےہیں میں نےبھی ایک جھونپڑا بنا لیا ہے۔ اب میں وہیں رہوں گا ۔ کل ہی جاکر اپنےگھر والوں کو لےآتا ہوں ۔ “ دوسرےدن جاکر وہ اپنےبیوی بچوں کو لےآیا اور اس جھونپڑی میں رہنےلگا ۔ فیکٹری میں وہ محنت اور لگن سےکام کرتا تھا ۔ ہر کوئی اس کی تعریف کرتا تھا ۔ اس کےبعد وہ کچھ بدمعاش قسم کےلوگوں کےہتھےچڑھ گیا ۔
فیکٹری میں ان لوگوں کی ایک یونین تھی ۔ وہ لوگ کام وغیرہ تو نہیں کرتےتھےاپنی یونین اور یونین کےلیڈروں اور اس یونین کی مدد کرنےوالی سیاسی پارٹی اور اس کےآقا کا نام لےکر ڈراتےدھمکاتےتھے۔ ان کےساتھ رہنےسےوسنت بھی ان کےجیسا ہوگیا ۔ کام میں اس کا دل نہیں لگتا ۔ بات بات پر وہ آفیسروں اور مالکوں سےالجھتا اور ہڑتال کرنےکی دھمکی دیتا اور کام بند کرادیتا تھا ۔ اس کی ان حرکتوں سےمنیجر اور مالک عاجز آگئےتھے۔ منیجر کےکہنےپر ایک دوبار میں نےبھی اسےسمجھایا تھا کہ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سےاسےکام پر سےنکالا جاسکتا ہے۔ لیکن اس نےصاف جواب دےدیا تھا ۔
” وہ لوگ مجھےکام سےنہیں نکال سکتے۔یونین ہمارےساتھ ہےہم فیکٹری کو جلا کر راکھ کردیں گے۔ اگر مالکوں نےہمارےخلاف کوئی قدم اٹھایا ۔ “
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ وسنت کو کام پر سےنکال دیا گیا ۔ وسنت نےاپنی یونین کی مدد سےہڑتال کی فیکٹری میں توڑ پھوڑ مچائی ۔ مجبوراً مالکوں نےوہ فیکٹری بند ہی کردی ۔ اس وقت تک میرا تبادلہ دوسرےآفس میں ہوچکا تھا ۔ اس کےبعد وسنت کی مجھ سےملاقات نہیں ہوسکی ۔ اس کےبارےمیں صرف خبریں ملتی رہیں ۔ اس کےبعد سنا کہ وہ شہر کی ایک سڑک کےنکڑ پر وڑا پاو¿ کی گاڑی لگاتا ہے۔ اس میں اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔ اور اس کےخاندان کا پیٹ پل جاتا ہے۔
پھر سنا کہ اس نےوہ گاڑی کسی کو کرائےپر دےدی کیونکہ اسےاس گاڑی کا اچھا خاصہ کرایہ مل رہا تھا ۔ جب اتنا زیادہ کرایہ مل رہا ہو تو پھر محنت کرنےکی کیا ضرورت ۔ وہ اس کرایےمیں اپنا گذر بسر کرنےلگا ۔
ایک دن خبر ملی جس جگہ پر وسنت جھونپڑا بنا کر رہتا ہےاس جگہ کا مالک اس جگہ پر تعمیر غیر قانونی جھونپڑےخالی کرا رہا ہے۔ اس کوشش میں ان جھونپڑےوالوں اور مالک کا ٹکراو¿ ہوگیا ہے۔ اس ٹکراو¿ میں جھونپڑےوالوں کی طرف سےوسنت پیش پیش ہے۔
ایک دن سنا کہ اس زمین پر تعمیر تمام جھونپڑےتڑوانےمیں اس زمین کا مالک کامیاب ہوگیا ہے۔ اس کی اس کامیابی میں وسنت نےنمایاں رول ادا کیا ہے۔
مالک نےوسنت کو اپنی طرف سےملا لیا اور اسےاچھی خاصی رقم اس بات کےلئےدی کہ وہ ان لوگوں کو کسی طرح جگہ خالی کرنےکےلئےراضی کرلے۔ وسنت نےیہ کام کردیا ۔
اس نےایک مخصوص رقم ہر جھونپڑےوالےکو دی اور اسےجھونپڑا خالی کرنےکےلئےراضی کیا اور بدلےمیں ایک دوسری جگہ بتائی جہاں وہ جھونپڑا بنا کر رہ سکتےہیں ۔ ان لوگوں کو اور کیا چاہیئےتھا ۔ وہاں سےہٹنےکےلئےاچھی خاصی رقم مل رہی تھی اور رہنےکےلئےدوسری جگہ بھی مل رہی تھی ۔
وسنت نےایک دوسری زمین پر قبضہ کرکےان لوگوں کو ناجائز جھونپڑےبنانےمیں مدد کی ۔ اور ایک نئی جھونپڑا بستی تعمیر ہوگئی ۔ اس بستی کا مالک وسنت تھا ۔ وہ تمام جھونپڑےوالوں سےکرایہ وصول کرتا تھا اور وہ خوشی خوشی اسےکرایہ دیتےتھےکیونکہ اب وہی ان کا محافظ تھا ۔ اس درمیان وہ ایک سیاسی پارٹی کا رکن بن گیا تھا ۔ اس کےبعد وہ اس سیاسی پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینےلگا تھا جس کی وجہ سےاس کا اس سیاسی پارٹی میں مقام بن گیا تھا اور اس سیاسی پارٹی کی پشت پناہی مل جانےکےبعد اس کی طاقت بھی بڑھ گئی تھی اسےاس سیاسی پارٹی کی ایک شاخ کا پرمکھ بھی بنا دیا ۔ وہ اس سیاسی پارٹی کےپروگراموں ‘ مذہبی جلوسوں اور حکمراں کےجشن ولادت کےجلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ۔ اس دوران شہر میں ایک دو فرقہ ورانہ فسادات بھی ہوئے۔ ان فسادوں میں بھی وسنت نےبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
اس نےان فسادات میں سینکڑوں گھر جلائے۔ لاکھوں روپوں کا قیمتی سامان لوٹا کئی لوگوں کو زخمی کیا اور جان سےبھی مارا ۔ فسادات کےبعد بےشمار شکایتوں پر پولس نےاسےفساد کرنےکےالزام میں گرفتار بھی کیا لیکن دباو¿ سےدو تین دنوں میں چھوڑ دیا ۔
اس کےپاس بےشمار دولت جمع ہوگئی تھی ۔ سیاست کےساتھ ساتھ وہ سماج سیوا کےنام پر بھی پیسہ جمع کرتا تھا ۔ اس کےبعد اس نےاپنا بزنس شروع کردیا ۔ وہ بلڈر بن گیا ۔ وہ شہر کی خالی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکےان زمینوں کےمالکوں سےاونی پونی قیمتوں پر وہ زمینیں حاصل کرلیتا اور ان پر عمارتیں بنا کر اونچی قیمتوں میں فروخت کرکےلاکھوں روپےکماتا ۔
جس پارٹی سےاس کا تعلق تھا اس کی ریاست میں حکومت قائم ہوجانےکے بعد وسنت کا رسوخ بڑھتا ہی گیا ۔ اس کےلئےکوئی بھی کام نا ممکن نہیں رہا ۔ وہ جائز نا جائز طریقوں سےزمینیں حاصل کرکےقانونی ‘ غیر قانونی طریقوں پر عمارتیں بنا کر فروخت کرتا اور پیسہ کماتا ۔ اس پورےعلاقےمیں اس کا دبدبہ سا چھایا ہوا تھا ۔ چھوٹےبڑےہر طرح کےجھگڑےنپٹانےکےلئےلوگ اس کےپاس جاتےتھےاور وہ اپنا مناسب حق محنت لےکر ان تمام تنازعات کو حل کردیتا تھا ۔
وہ اگر غلط بھی کرتا تھا تو اسےٹوکنےکی کسی میں ہمت ہی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ کئی قتل کےکیسوں میں ملوث تھا لیکن پولس اس پر ہاتھ ڈالنےکی ہمت نہیں کرتی تھی نہ کوئی اس کےخلاف زبان کھولتا تھا ۔
اس چھوٹی سی چال کےچھوٹےسےکمرےرہتےرہتےمیں تنگ آگیا تھا ۔ اتنےدنوں میں میں نےاتنےپیسےجمع کرلئےتھےکہ میں کسی اچھی جگہ اچھا سا فلیٹ لےسکوں۔ اگر پیسےکم بھی پڑیں تو سرکاری ، غیر سرکاری قرضہ جات کا سہارا تھا ۔ اس درمیان ایک اسٹیٹ ایجنٹ نےاس کالونی میں بکنےوالےایک فلیٹ کےبارےمیں مجھےبتایا ۔ پہلی نظر میں مجھےفلیٹ اور کالونی پسند آگئی ۔ فلیٹ خرید لیا گیا اور ہم وہاں رہنےکےلئےآگئے۔ وہاں آنےکےبعد پتہ چلا کہ یہ وسنت کا علاقہ ہےاور وہاں رہنےکےلئےبھی وسنت کو ہفتہ دینا پڑتا ہے۔ ان باتوں کےبعد وسنت سےملنےکی خواہش دل میں جاگی ۔ لیکن پتہ نہیں تھا کہ وسنت سےملنا اتنا آسان نہیں ہے۔ وسنت جن لوگوں سےملنا ضروری سمجھتا ہے۔ انہی سےملتا ہےجن سےاسےکوئی فائدہ ہو ۔
وسنت سےملنا تو بہت ضروری تھا ۔ لیکن اس سےملنےکا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ آخر اس سےملنےکا میں نےراستہ سوچ لیا ۔ اگلی بار دامو جب وسنت کا ہفتہ مانگنےآیا تو میں نےہفتہ دینےسےانکار کردیا اور کہا کہ میں وسنت سےملنا چاہتا ہوں ۔
” اےکاہےکو اپنی موت کو دعوت دےرہا ہے۔ بھاو¿ سنےگا کہ تیرےکو اس لئےاس کےپاس لایا کہ تُونےہفتہ دینےسےانکار کیا ہےتو کچھ سننےسےپہلےتجھ پر چاقو کےدوچار وار مار کر تجھےادھ مرا کردےگا ۔ “
” کچھ بھی ہو میں وسنت سےملنا چاہتا ہوں ۔ “ جب میں نےاصرار کیا تو وہ مجھےوسنت کےقلعہ میں لےگئے۔ وہ قلعہ وسنت کا آفس تھا جہاں بیٹھ کر وہ ہر کسی کا انصاف کرتا تھا ۔ عالیشان ڈرائنگ روم جس میں ساری دنیا کےعیش و آرام کی لاکھوں کروڑوں روپوں کی چیزیں سجی تھیں ۔ وسنت کی دولت اور اس کی بلندی دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ۔ میں نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرےساتھ اس شہر میں آنےوالا وسنت اتنی جلدی اس بلندی پر پہنچ جائےگا اور میں اسےنیچےسےتاک کر اس کےسامنےبونا بن جاو¿ں گا ۔
” بھاو¿ …. ! یہ شخص نیا نیا کالونی میں رہنےآیا ہےاور ہفتہ دینےسےانکار کر رہا ہے۔ اور آپ سےملنا چاہتا ہے۔ “
” کون ہےوہ حرامزادہ جو مجھےہفتہ دینےسےانکار کرر ہا ہے۔ “ دامو کی بات سنتےہی وسنت غصےمیں بھرا مڑا ۔ مجھ پر نظر پڑتےہی وہ ٹھٹھک کر رہ گیا اور کچھ سوچنےلگا ۔
” سلیم بھائی آپ ! “ وہ مجھےحیرت سےدیکھتا ہوا بولا ۔
” ہاں وسنت …. ! میں ۔ “ میں نےجواب دیا ۔
” ارےآئیےسلیم بھائی ! میں نےتو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کبھی آپ سےاس طرح ملاقات ہوگی ۔ سلیم بھائی ! اتنےدنوں بعد آپ کو دیکھ کر میں کہہ نہیں سکتا مجھےکتنی خوشی ہورہی ہی۔ “ ہم دونوں پاس بیٹھ گئےاور باتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ وہ مجھےبتانےلگا کہ وہ کس طرح اس مقام پر پہنچاہے۔ اور میں چپ چاپ دیکھتا رہا ۔
” سلیم بھائی ! آپ مجھےاس طرح کیوں دیکھ رہےہیں ؟ “ وہ آخر پوچھ بیٹھا ۔
” دیکھ رہا ہوں۔ میرےساتھ آیا ہوا گاو¿ں کا بھولا بھالا وسنت پوار کتنی جلدی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔ “
” سلیم بھائی ! وسنت پوار بہت جلد بہت بلندی پر پہنچا ضرور ہے۔ “ وسنت درد بھرےلہجےمیں بولا ۔ ” لیکن اس بلندی تک پہنچنےکےلئےاس نےاپنےاندر کی تمام اچھائیوں ، اخلاقیات ، اوصاف کو قتل کرکےان کی لاشوں کی سیڑھی بنا کر اس بلندی کو حاصل کیا ہے۔ “
ll

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠٣١٢٤
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: افسانہ چھت از:- ایم مبین

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب مبین صاحب۔
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: افسانہ چھت از:- ایم مبین

Post by اعجازالحسینی »

بہت خوب مبین صاحب۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”