ادھوری سی بس الفتیں چاہتا ہے
ملوں نہ اسے میں سرِ عام راہ پر
وہ ایسی چھپی صحبتیں چاہتا ہے
کئی بار ٹھکرا چکا ہے مجھے جو
اسی سے یہ دل قربتیں چاہتا ہے
ہوا اسقدر ہوں میں عادی دکھوں کا
کہ بس اب تو دل فرقتیں چاہتا ہے
بہا کر لہو عدل کاپھر سے منصف
نئی ضو، نئی عظمتیں چاہتا ہے
بھلا کسکی خاطر یہ بستی کاحاکم
بجھا کر دیا، ظلمتیں چا ہتا ہے
عجب ہے مرے دوست منطق یہ تیری
عطا کر کے غم را حتیں چاہتا ہے
دلِ مضطرب، ہو چکا ہے پریشاں
غموں سے یہ کچھ فر صتیں چاہتا ہے
عطا ساتھ راجا کے تیری ہے مولا
ترے در سے دل بر کتیں چاہتا ہے [/center]