سید آل احمد کی ایک غزل
Posted: Wed Nov 09, 2011 6:46 pm
[center]دکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو
یہ جو طوفاںسا امڈ آیا ہے، رک جانے دو
مدتوں بعد پلٹا ہے بدل کر ملبوس
گھر کا دروازہ کھلا رکھو، اسے آنے دو
وقت بیمار مسافر ہے، گزر جائے گا
رائیگاں ایک بھی لمحہ نہ کوئی جانے دو
اک تہی دست ہے اور ایک مقدر کا دھنی
کتنے مقبول ہوئے شہر میں دیوانے دو
عمر بھر کون سا برسا ہے کرم کا بادل
گھر میںآتا ہے جو سیلاب بلا ، آنے دو
آئینہ سامنے رہنے دو ابھی ماضی کا
سلوٹین دیکھ کے پیشانی پر پچھتانے دو
محبس ربط سے باہر تو نہیں جا سکتا
قید جتنا بھی رکھو اشک تو تھم جانے دو
زندگی کرب کے سانچے میںڈھلی جاتی ہے
اب تو اس پیکر بے مثل کو گھر آنے دو[/center]
سید آل احمد کے مجموعہ کلام " میںاجنبی سہی" سے
یہ جو طوفاںسا امڈ آیا ہے، رک جانے دو
مدتوں بعد پلٹا ہے بدل کر ملبوس
گھر کا دروازہ کھلا رکھو، اسے آنے دو
وقت بیمار مسافر ہے، گزر جائے گا
رائیگاں ایک بھی لمحہ نہ کوئی جانے دو
اک تہی دست ہے اور ایک مقدر کا دھنی
کتنے مقبول ہوئے شہر میں دیوانے دو
عمر بھر کون سا برسا ہے کرم کا بادل
گھر میںآتا ہے جو سیلاب بلا ، آنے دو
آئینہ سامنے رہنے دو ابھی ماضی کا
سلوٹین دیکھ کے پیشانی پر پچھتانے دو
محبس ربط سے باہر تو نہیں جا سکتا
قید جتنا بھی رکھو اشک تو تھم جانے دو
زندگی کرب کے سانچے میںڈھلی جاتی ہے
اب تو اس پیکر بے مثل کو گھر آنے دو[/center]
سید آل احمد کے مجموعہ کلام " میںاجنبی سہی" سے