دوسری جنگ عظیم تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے

دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ نیا، کچھ اچھوتا۔
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

دوسری جنگ عظیم تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے

Post by محمد شعیب »

یورپ میں دوسری جنگ عظیم
Image
ہٹلر کی حکومت نے مشرقی یورپ میں ایک وسیع اور جدید سلطنت "لونگ اسپیس" (لیبن سروم) کے قیام کا خواب دیکھا تھا۔ جرمن لیڈروں کا خیال تھا کہ یورپ میں جرمنی کے تسلط کیلئے جنگ ضروری ہے۔

سویت یونین کی غیر جانبداری حاصل کرنے کے بعد (عدم جارحیت کیلئے اگست 1939 میں جرمن اور سویت یونین کے درمیان معاہدے کے مطابق) جرمنی نے یکم ستمبر1939 میں پولنڈ پر حملہ کرکے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کر دیا۔ برطانیہ اور فرانس نے اِس حملے کے رد عمل میں 3 ستمبر کو جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ ایک ماہ کے اندر جرمن اور سویت فوجوں کے اتحاد سے پولنڈ کو شکست دے دی گئی اور یوں پپولینڈ نازی جرمنی اور سویت یونین کے درمیان تقسیم ہو گيا۔

پولینڈ کی شکست کے نتیجے میں وجود میں آنے والا عارضی سکوت 9 اپریل 1940 میں اس وقت ختم ہوگيا جب جرمن فوجوں نے ناروے اور ڈنمارک پر حملہ کردیا۔ 10مئی 1940 کو جرمنی نے یورپ کے نشیبی ملکوں (نیدر لینڈ، بیلجیم، اور لکزمبرگ) کے ساتھ ساتھ فرانس پر حملہ کر دیا۔ یہ ممالک جنگ میں غیر جانبدار مؤقف رکھتے تھے۔ 22جون 1940 میں فرانس نے جرمنی کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کردئے جس کے ذریعے ملک کا شمالی نصف حصہ جرمنی کے قبضے میں چلا گیا اور اس کے نتیجے میں ملک کے جنوبی حصے میں حلیف حکومت کے قیام کی اجازت دے دی گئی جس کا دارالحکومت وکی شہر قرار پایا۔

جرمنی کی اس حوصلہ افزائی پرسویت یونین نے جون 1940 میں بالٹک ریاستوں پر قبضہ کرلیا اور اگست 1940 میں اُسے باقاعدہ طور پر اپنے ملک کا حصہ بنا لیا۔ اٹلی جو اتحاد (جرمنی کے حلیف ممالک) کا رکن تھا وہ بھی اس جنگ میں 10جون 1940 میں شریک ہوگیا۔ 13 اگست سے 31 اکتوبر1940 تک جرمنی نے انگلستان کے خلاف ہوائی جنگ شروع کی اور اُس میں شکست کھائی۔ اِس جنگ کو بیٹل آف برٹن یعنی برطانیہ کی لڑائی کہا جاتا ہے۔

6 اپریل 1941 کو یوگوسلاویہ اوریونان پر حملے کے ساتھ بلقان کی ریاستوں پر گرفت مضبوط کر نے کے بعد جرمنوں اور اُن کے اتحادیوں نے 22 جون 1941 کو سوویت یونین پر چڑھائی کر دی۔ یہ جرمن سوویت معاہدے کی براہ راست خلاف ورزی تھی۔ جون اور جولائی 1941 میں جرمنوں نے بلقان کی ریاستوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس موقع پر سوویت لیڈر جوزف اسٹالن جنگ کے زمانے میں نازی جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف اہم اتحادی لیڈر بن گئے۔ 1941 کے موسم گرما اور خزاں کے دوران جرمن فوجی سوویت یونین کے اندر دور تک پہنچ گئے مگر زور پکڑتی ہوئی ریڈ آرمی کی مزاحمت نے اُنہیں لینن گراڈ اور ماسکو جیسے اہم شہروں پر قبضہ نہ کرنے دیا۔ 6 دسمبر 1941 کو سوویت فوجوں نے ایک بڑی جوابی کارروائی شروع کی جس نے جرمنوں کو مستقل طور پر ماسکو کے مضافات سے باہر دھکیل دیا۔ اس کے ایک روز بعد 7 دسمبر 1941 کو جرمنوں کی ایک حلیف طاقت جاپان نے پرل ہاربر۔ ہوائی پر بمباری کی۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے فوری طور پر جاپان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ فوجی تنازعے کے بڑھنے کے ساتھ 11 دسمبر کو جرمنی اور اٹلی نے امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔

مئی 1942 میں برطانوی شاہی فضائیہ نے جرمنی کے شہر کولون پر پہلی بار جرمنی کے اندر جنگ کرتے ہوئے ہزاروں بمبار جہازوں سے بمباری شروع کردی۔ اگلے تین سالوں تک اتحادی فضائیہ نے منظم طریقے سے صنعتی تنصیبات اور تمام تر ریخ کے شہروں پر بمباری کی اور جرمنی کے بیشتر شہری علاقوں کو 1945 تک کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ 1942 کے اختتام اور 1943 کے شروع میں اتحادی فوجوں نے شمالی افریقہ میں سلسلہ وار زبردست فوجی کامیابیاں حاصل کیں۔ فرانسیسی مسلح افواج کی طرف سے مراکش اور الجیریا پر اتحادی افراج کے قبضے کو روکنے میں ناکامی نے جرمن حلیف وکی فرانس پر 11 نومبر 1942 کو جرمنی کے قبضے کی راہ ہموار کر دی۔ افریقہ میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ نفری پر مشتمل مخالف فوجوں کے اتحاد نے مئی 1943 میں ہتھیار ڈال دئے۔

مشرقی محاذ پر 1942 کے موسم گرما کے دوران جرمنوں اور اُن کے حلیفوں نے سوویت یونین پر حملوں کا دوبارہ آغاز کر دیا جن کا مقصد والگا دریا کے کنارے واقع شہر اسٹالن گراڈ کے ساتھ ساتھ باکو شہر اور کاکیشین آئل فیلڈز پر قبضہ کرنا تھا۔ 1942 کے موسم گرما کے آخر تک دونوں محاذوں پر جرمن حملے رک گئے۔ نومبر میں سوویت فوجوں نے اسٹالن گراڈ پر جوابی حملہ کر دیا اور 2 فروری 1943 کو جرمنی کی چھٹی فوج نے سوویت فوجوں کے آگے ہتھیار ڈال دئے۔ جرمن فوجوں نے جولائی 1943 میں ایک اور حملہ کرسک پر کیا۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی لیکن سوویت فوجیوں نے یہ حملہ ناکام بنا دیا اور فوجی برتری حاصل کر لی جو انہوں نے پوری جنگ عظیم کے دوران برقرار رکھی۔

جولائی 1943 میں اتحادی فوجیں سسلی میں اتریں اور ستمبر میں اٹلی کی سرزمین کے کنارے جا پہنچیں۔ جب اطالوی فاشسٹ پارٹی کی گرینڈ کونسل نے اطالوی وزیر اعظم بینیٹو مسولینی (ہٹلر کے ایک حلیف) کو اقتدار سے محروم کر دیا تو اطالوی فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور 8 ستمبر کو ایک معاہدے کے تحت اینگلو امریکی فوجوں کے آگے ہتھیار ڈال دئے۔ اٹلی میں موجود جرمن فوجوں نے جزیرہ نما کے آدھے شمالی حصہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا، اور مزاحمت جاری رکھی۔ مسولینی کو جسے اطالوی فوجی حکام نے گرفتار کر لیا تھا، جرمن ایس۔ ایس کمانڈوز نے ستمبر میں آزاد کرا لیا اور شمالی اٹلی میں (جرمن نگرانی میں) ایک نیم فسطائی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دی۔ جرمن فوجوں نے 2 مئی 1945 کو ہتھیار ڈال دینے تک شمالی اٹلی پر اپنی گرفت قائم رکھی۔

6 جون 1944 (ڈی۔ ڈے) کو ایک بڑی فوجی کارروائی کے حصے کے طور پر اتحادی افواج کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوجی فرانس میں اُترے۔ فرانس کو اگست کے آخر میں آزاد کرا لیا گیا تھا۔ 11 ستمبر 1944 کو امریکی فوجیوں کے پہلے دستے جرمنی میں داخل ہوئے۔ امریکی فوجی سوویت فوجیوں کے مشرقی سرحد سے جرمنی میں داخل ہونے کے بعد پہنچے۔ دسمبر کے وسط میں جرمنوں نے بیلجیم اور شمالی فرانس میں ایک ناکام جوابی حملہ کیا جسے بلج کی لڑائی سے جانا جاتا ہے۔ اتحادی ممالک کی ہوائی فوجوں نے نازیوں کی صنعتی تنصیبات پر حملے کئے جیسے آشوٹز کیمپ (مگر گیس چیمبروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا)۔

سوویت فوجوں نے 12 جنوری 1945 نے ایک شدید حملے کا آغاز کیا جس کے دوران مغربی پولینڈ کو آزاد کرا لیا گیا اور ہنگری (جرمن حلیف) کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا گیا۔ وسط فروری 1945 کو اتحادی فوجوں نے جرمنی کے شہر ڈریسڈن پر بمباری کر کے 35 ھزار کے لگ بھگ شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ امریکی فوجیوں نے 7 مارچ 1945 کو رھائن دریا پار کر لیا۔ سوویت یونین کی طرف سے 16 اپریل 1945 کو ایک حتمی حملے کے نتیجے میں سوویت فوجوں نے جرمن دارالحکومت برلن کو گھیرے میں لے لیا۔ جب سوویت فوجی لڑتے ہوئے ریخ چانسلری میں داخل ہوئے تو ہٹلر نے 30 اپریل 1945 کو خود کُشی کر لی۔ جرمنی نے 7 مئی 1945 کو مغربی اتحادیوں کے آگے رائین کے مقام پر اور 9 مئی کو برلن میں سوویت فوجوں کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دئے۔ اگست میں جب امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تو بحرالکاہلی خطے میں بھی جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ ایٹم بم کے اِن حملوں میں ایک لاکھ 20 ھزار شہری ہلاک ہو گئے۔جاپان نے باضابطہ طور پر 2 ستمبر کو گھٹنے ٹیک دئے۔

دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں دنیا بھر میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی اور تباہ کن جنگ تھی۔ سویت نے 12جنوری، سن 1945 میں مغربی پولنڈ کو آزاد کراتے ہوئے نیز ہنگری (ایک Axis حلیف) پر ہتھیار ڈالنے کیلئے دباؤ ڈالتے ہوئے ایک جارحانہ حملہ کیا۔ فروری 1945 کے وسط میں، حلیفوں نے جرمن کے شہر Dresden پر بمباری کی جس میں تقریبا 35،000 ہزار شہری ہلاک ہوگئے۔ امریکی فوجیوں نے راین ندی کو 7مارچ، 1945 میں عبور کیا۔ 16 اپریل ، سن 1945 میں سویت یونین کے ایک آخری جارحانہ حملہ نے سویت قوتوں کو اس قابل بنادیا کہ وہ جرمنی کے دارالحکومت ، برلن کو گھیر لیں۔ اس وقت جب کہ سویت فوجی جرمنی مملکت کے دیوان وزارت کی طرف بڑھتے جارہے تھے، ہٹلر نے 30 اپریل، 1945 کو خودکشی کرلی۔ 7 مئی، 1945 کو جرمنی نے بغیر کسی شرط کے Reims میں مغربی حلیفوں کے سامنے ہتھیار ڈال ديئے، نیز 9 مئی کو برلن میں سویت یونین کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اگست میں، بحر الکاہل میں اس وقت جنگ جلد ہی ختم ہوگئی جب امریکہ نے جاپان کے شہر ھیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرادیا جس میں 120،000 شہری ہلاک ہوگئے۔ جاپان نے رسمی طور پر 2 ستمبر کو ہتھیار ڈال دیا۔

دوسری جنگ عظیم کے نتیچے میں پوری دنیا میں ایک اندازے کے مطابق 55 ملین افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تاریخ میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ تباہ کن تصادم تھا۔
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: دوسری جنگ عظیم تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے

Post by محمد شعیب »

اب آپ خود انصاف کریں کہ اسلامی جہاد دہشت گردی ہے یا یہ امریکی،یورپی،یہودی،عیسائی اور لامذہب دہشت گرد ہیں ؟
ہٹلر اور روسی دونوں دہرئیے تھے. اور اس جنگ کی بنیاد انہی نے رکھی. اور یہ تو صرف دوسری جنگ عظیم کے اعدادوشمار ہیں. پہلی جنگ عظیم اور اس کے علاوہ دیگر جنگوں میں ان کی دہشت گردی اور سفاکی اس کے علاوہ ہے.
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: دوسری جنگ عظیم تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے

Post by محمد شعیب »

Image
جرمن حملہ آور فوجی بڈگاش پہنچتے ہوئے۔ پولینڈ، 18 ستمبر 1939۔
Image
مشرقی محاذ پر دسمبر 1943 میں سوویت حملہ کے دوران سوویت یونین میں جرمن فوجی۔ جرمن فوجیوں نے جون 1941 میں سوویت علاقے پر حملہ کیا لیکن اسٹالنگراڈ کی لڑائی کے بعد اُنہیں جوابی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 16 دسمبر 1943۔
Image
ایک جرمن فوجی دستہ تباہ شدہ سوویت ٹینک کے پاس کیچر میں سے گزرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ نیول، سوویت یونین، موسم خزاں 1943 ۔
Image
کیمپ کی آزادی کے فوراً بعد ایک اجتماعی قبر۔ برجن۔ بیلسن، جرمنی، مئی 1945۔
Image
21-23 جنوری کے آئرن گارڈ منظم قتل عام کے دوران سفارڈک سناگاگ کو تباہ کر دیا گیا۔ بخارسٹ، رومانیہ، جنوری 1941۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: دوسری جنگ عظیم تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے

Post by چاند بابو »

بہت شکریہ شعیب بھیا شئیر کرنے کا.
آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اگر لفظ دہشت گرد کا مطلب انسانیت کے لئے خطرہ یا انسانیت پر ظلم کرنے والا ہے تو پھر ان بے دینوں سے بڑا دہشت گرد آج تک پیدا نہیں ہوا.
مگرافسوس یہ لفظ تیار ہی مسلمانوں کے خلاف کیا گیا ہے.
اگر امریکہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراتا ہے جس میں پلک جھپکتے میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور کروڑوں آج تک اس کے اثرات بھگت رہے ہیں تو وہ جنگ کا حصہ ہے
اگر امریکہ ویت نام میں بھوکے ننگے لوگوں پر بم گراتا ہے تو وہ آزادی کی جنگ ہے
اگر امریکہ عراق میں سب کچھ تہس نہس کردیتا ہے لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہوجاتا ہے تو وہ امن قائم کرنے کی کوشش ہے.
اگر امریکہ افغانستان کے نہتے لوگوں پر دس سال تک مسلسل بمباری کرتا ہے تو وہ القائدہ کو ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے لئے ایک ضروری امر ہے.

اس کے بالکل برعکس
اگر مسلمان کا بچہ فلسطین میں کسی فوجی گاڑی پر پتھر پھینکتا ہے تو وہ دہشت گردی ہے.
اگر کشمیری اپنا حقِ خود ارادی حاصل کرنے کے لئے لڑتے ہیں تو وہ دہشتگرد ہیں.
اگر عراقی اپنے تیل کی حفاظت کے لئے میدان میں آتے ہیں تو وہ دہشت پھیلاتے ہیں.
اگر افغانی اپنے وطن کو لٹیروں سے پاک کرنے کےلئے لڑتے ہیں تو وہ دہشتگرد ہیں.
اگر مسلمان قرآنی طریقوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ دہشتگردوں کو پیدا کرتے ہیں.

افسوس آج مسلمان کو دہشت گرد اور کفار کے ٹولے کو امن کا خواہاں ثابت کیا جا رہا ہے اور اس کام میں ہماری حکومتیں اور ہمارا میڈیا بھرپور طریقہ سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: دوسری جنگ عظیم تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے

Post by محمد شعیب »

بالکل صحیح فرمایا آپ نے ..
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: دوسری جنگ عظیم تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے

Post by محمد شعیب »

ہم آہ بھی کر دیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کردیں، تو چرچا نہیں ہوتا
Post Reply

Return to “دنیا میرے آگے”