Page 1 of 1

شک.....!

Posted: Sat Feb 01, 2014 9:34 pm
by میاں محمد اشفاق
شین سے شک ہوتا ہے پگلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شک۔۔؟ ایک دم طاہر کا زہن جھنجھا اٹا ۔سارے بدن میں ایک بھریری سی دوڑ گئی۔ لرز کر اس نے آنکھیں کھول دیں ۔
ہاں پگلے۔ درویش کی نگاہیں اسی کی جانب مرکوز تھیں۔
وہ درویش کی لو دیتی آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
زبان کو مزید کچھ کہنے کا یارا ہی نہ رہا۔ وہ ایک بار پھر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔
درویش کہہ رہا تھا۔۔
شک۔۔
شک عشق کو مہمیز کرتا ہے اسے ایڑ لگاتا ہے انسان جس سے عشق کرتا ہے اسکے بارے میں ہر پل ہر لمحہ شک کا شکار رہتا ہے۔
کبھی اسے شک چین نہیں لینے دیتا کہ اس کا محبوب کسی اور کی طرف مائل نہ ہو جائے تو کبھی یہ شک نیندیں اڑا دیتا ہے کہ کوئی اور اسکے محبوب پر کمند نہ ڈال رہا ہو۔
کبھی یہ شک بے قراری کی آگ کو ہوا دینے لگتا ہے کہ اسکے عشق میں کوئی کمی نہ رہ جائے کہ اسکا محبوب ناراض ہوجائے تو کبھی یہ شک کانٹوں پر لوٹنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کسی اور کے جزبت کی شدت میرے محبوب کو متاثر نہ کر لے۔
شک۔۔۔
شک کے ناگ جب انسان کو ڈسنے لگتے ہیں تو وہ درد کی ازیت سے بے چین ہو جاتا ہے۔
شک اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر وقت انے محبوب کے آس پاس رہے اسکے ساتھ ساتھ رہے اس پر کسی دوسرے کا سایہ نہ پڑنے دے۔
اسے دل میں یوں چھپا لے کہ کسی کی اس پر نظر نہ پڑے۔ کھو دینے کا یہ خوف اسے کچھ پا لینے کی منزل کی طرف ہانک دیتا ہے۔
جتنی شدت سے یہ شک کا خوف اس پر حملہ آور ہوتا ہے اتنی جلدی وہ عشق کی دوسری منزل طے کر لیتا ہے۔
جب یہ صدیق رض کو یہ شک ستاتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے محبوب ص۔ کے حضور اس سے بڑھ نہ جائے تو گھر کی سوئی تک نچھاور کر دی جاتی ہے ۔۔۔
جب عمر رض۔ کو یہ شک مس کرتا ہے تو صدیق رض۔ سے آگے بڑھ جانے کے لئے رشک کی آخری منزل تمنا بن کر دل میں جنم لیتی ہے۔
جب عبداللہ رض کو یہ شک بے قرار کرتا تو وہ اپنے سگے باپ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ جب تک وہ اسکے محبوب ص۔ سے معافی نہ مانگ لے گا وہ اس مدینہ میں داخل نہ ہونے دے گا، جب یہ شک زید رض کی جان کو آتا ہے تو وہ اپنے باپ کے ساتھ عیش و آرام کی زندگی ٹھکرا کر اپنے آقاص کے در پر ابدی غلامی کے لمحات کو چن لیتا ہے۔
قیس کو یہ شک لیلیٰ کے کتے کو چومنے پر مائل کر لیتا ہے کہ وہ اس کتے سے بھی پیار کرتی ہے ۔
یہ شک رانجھے کو کان پھڑوا کر جوگی بنا دیتا ہے تا کہ وہ کسی اور کو حالت ہوش میں ویسے دیکھ ہی نہ سکے جیسے ہیر کو دیکھتا تھا۔ یہ شک مہینوال کو ران کے کباب بنا کر سوہنی کے حضور پیش کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے اور یہ شک ہی۔۔۔۔۔۔
اور یہ شک ہی ہے جو اپنے پر پھڑ پھڑاتا ہے تو ساری ساری رات سونے نہیں دیتا۔۔
انسان کروٹیں بدلتے بدلتے چپکے چپکے سے اٹھتا ہے یخ بستہ پانی سے وضو کرتا ہے اور محبوب حقیقی کی آرزو میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔
یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ میرے علاوہ اور کس کس کی طرف مائل بہ لطف ہے؟
کون کون اسکی مہر سے فیض یاب ہو رہا ہے؟
کس کس طرح کوئی اسکے حضور آہ زاری کے نزرانے پیش کر رہا ہے؟
جن سے متاثر ہو کر وہ رونے والوں پر کیا کیا مہربانیاں کر رہا ہے ؟
کیا کیا ناز دکھا رہا ہے کہ اپنے عشق کے مبتلاوں کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا؟
بندہ یہ سبب ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ناپید ہا جاتا ہے کہ جس کے باعث اسکا رب اوروں مہربان اور اس خام و ناکم کی طرف سے لا پروا ہوا بیٹھا ہے۔
بندہ اس شک مٰں مبتلا رہتا ہے کہ اسکا خالق اسکا مالک اسکے علاوہ باقی سب پر مہربان ہے۔
اور ایسا ہے تو کیوں ؟
یہ کیوں اسے اپنے مالک کے حضور لرزہ براندام رکھتا ہے ۔
اسکے کیوں کا جواب پانے کے لئے یہ شک اسے ایسے قیام میں ڈبو دیتا ہے کہ اپنی خبر بھی نہیں رہتی ایسے رکوع میں گم کر دیتا ہے کہ اسکی طوالت محسوس ہی نہٰن ہوتی۔ سوہ لینے کی اس حالت میں یہ شک رات رات بھر سجدے کراتا ہے۔
ایسے سجدے کہ سر اٹھانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔
لگتا ہئ کہ ابھی سجدے میں سر رکھا تھا کہ فجر کی ازان ہو گئی محبوب حقیقی کی دبے پاوں میں یہ تلاش اس شک ہی کی دین ہوتی ہے جس میں انسان یہ سوچ کر نکل کھڑا ہوتا:
کوٹھے تے پِڑ کوٹھڑا ماہی کوٹھے سُکدیاں توریا
ادھی ادھی راتیں جاگ کے میں نپیاں تیریاں چوریاں

سرفراز احمد راہی کے ناول عشق کا قاف سے اقتباس

Re: شک.....!

Posted: Wed Feb 05, 2014 4:59 pm
by اضواء
بہت خوب ...

شئیرنگ پر آپ کا شکریہ

Re: شک.....!

Posted: Thu Feb 06, 2014 7:39 am
by رضی الدین قاضی
v;g
شیئرنگ کے لیئے شکریہ بھائی