ہیرو، بہادر، دلیر، شیر، شان سے جیا، شان سے مرا
Posted: Mon Jan 13, 2014 8:34 am
[center][/center]
[center]کسی وردی والے کی موت پر اِتنی داد و تحسین نہیں ہوئی جتنی چوہدری اسلم کے لیے ہوئی[/center]
ہیرو، بہادر، دلیر، شیر، شان سے جیا، شان سے مرا، ایک ہاتھ میں سگریٹ، دوسرے میں پستول۔ بیوی بھی دلیر، باپ اِنتہائی صدمے کی حالت میں بھی پُروقار، شہید ہونے والا چوہدری اسلم صحافیوں کا بھی یار اِس لیے ہر طرح کی فوٹیج موجود، دلوں کو گرما دینے والے ڈائیلاگ۔ کسی وردی والے کی موت پر اِتنی داد و تحسین نہیں ہوئی جتنی چوہدری اسلم کے لیے ہوئی۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ چوہدری اسلم کو کسی نے وردی میں نہیں دیکھا یا کم از کم کسی کے پاس سے وردی والا فوٹو نہیں نکلا۔+
[center][/center]
خوف سے یا احترام سے اسلم کو چوہدری اسلم کہنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس شہر میں اُس سے بڑے اصلی اور وڈے چوہدری موجود ہیں۔
دو سال پہلے چوہدری اسلم بھی اِن بڑے چوہدریوں کے درمیان ڈیفنس کے علاقے میں رہتا تھا۔ ایک صبح اُس کے گھر پر ایسا دھماکہ ہوا جو پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر کے بھی ڈیفنس کے علاقے میں نہیں ہوا۔ محافظ مارے گئے، پاس سے گزرتے ہوئے راہ گیر لقمۂ اجل بنے لیکن چوہدری اسلم اور ان کا خاندان محفوظ رہے۔
کیا اس ہیبت ناک حملے کے بعد ڈیفنس کے محلے دار پُرسہ دینے پہنچے؟ کیا اس علاقے کے بڑے چوہدری اور شرفا اکٹھے ہوکر اس کے گھر گئے اور کہا کہ تم ہمارے محافظ ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ہم مل کر یہ گھر دوبارہ تعمیر کریں گے۔
نہیں! سب ہمسایوں کا ایک ہی مطالبہ تھا اس شخص کو اس محلے سے باہر نکالو۔ اِتنا خطرناک آدمی شرفا کے محلے میں کیسے رہ رہا ہے۔
چوہدری اسلم کے تباہ ہونے والے گھر کے قریب کراچی کے چند مہنگے ترین سکول واقع ہیں جہاں ہمارے بڑے چوہدریوں کے بچے اعلیٰ اور نفیس تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دھماکہ سکول کھلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے ہوا۔ بعض کلاس روموں کے فرش کھڑکیوں اور دروازوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے بھرے ہوئے تھے۔ امکان غالب ہے کہ اگر یہ دھماکہ آدھ گھنٹے بعد ہوتا تو ڈیفنس میں اتنے ننھے شہید ہوتے کہ سوچ کر ہی والدین کا دل ڈوب جاتا ہے۔
کیونکہ ہمارے اصل چوہدریوں نے دہشت گردی اپنے ڈرائنگ روم میں صرف ٹی وی پر دیکھی ہے اُنہوں نے جب یہ دیکھا کہ ڈھائی سو کلو گرام بارود ان کے ہمسائے کے گھر کے ساتھ کیا کرتا ہے تو سب یک زبان ہو کر بولے نکالو اس کو یہاں سے۔
سکول کے مالکوں اور محلے داروں کا ایک ہی مطالبہ تھا اتنے خطرناک آدمی کو ہمارے درمیان نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ نے علاقے کے گرد گیٹ لگانے کی بات کی کچھ اپنی بِپتا لے کر عدالت پہنچ گے۔
ہمارے شہر کے بڑے چوہدریوں کا رویہ چوہدری اسلم کی طرف ویسا ہی تھا جیسا بڑے چوہدریوں نے شہر میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ایک بدمعاش پال رکھا ہوتا ہے اور کبھی کبھی اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اُسے چوہدری صاحب کہہ کر مخاطب کر لیتے ہیں۔
ہم نے چوہدری اسلم سے کبھی نہیں پوچھا کہ بندہ گرفتار کرنے سے پہلے مارا تھا یا ہتھکڑی لگانے کے بعد؟ ناخن کھینچنے سے پہلے تسلی کر لی تھی کہ بندہ صحیح پکڑا ہے؟ کوئی وارنٹ لے کر نکلے تھے یا بس موڈ خراب تھا اس لیے بندہ پھڑکا دیا؟
چوہدری صاحب جو کرنا ہے رات کے اندھیرے میں کرو، انٹرویو دینے کا شوق ہے دیتے رہو بس ہمارے علاقے میں دھماکہ نہیں ہونا چاہیے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔
ہاں کبھی کبھار ہاتھ سے نکلنے لگتا تھا تو یہ ضرور کہتے تھے کہ ’ارے یہ تو ڈی ایس پی تھا اسے ایس پی کس نے بنا دیا۔ یہ تو پہلے ہی اوقات اور وردی دونوں سے باہر ہے ، کوئی اس کو لگام تو ڈالے۔‘
چوہدری اسلم جیسے ہیرو اُسی معاشرے کو درکار ہوتے ہیں جہاں بڑے چوہدری دن کی روشنی میں کہتے ہیں طالبان کا کوئی وجود ہی نہیں پھر رات کو کہتے ہیں ’پکڑو سالوں کو، مارو اِنہیں۔ بس ہم تک اِن کی چیخیں نہ پہنچیں۔‘
چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد البتہ یہ انکشاف ہوا کہ بڑے چوہدری اور چھوٹے چوہدری کی خواہش اصل میں ایک ہی ہوتی ہے۔ ڈیفنس کے بڑے چوہدریوں نے چوہدری اسلم سے اِس لیے جان چھڑائی تا کہ ان کے بچے اپنی مہنگی اور نفیس تعلیم پُرسکون ماحول میں حاصل کر سکیں۔
اپنے آخری سفر پر نکلنے سے چند منٹ پہلے تک چوہدری اسلم بھی یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے بچوں کو ٹیوشن پر چھوڑ آئے۔
بشکریہ محمد حنیف بی بی سی اردو
[center]کسی وردی والے کی موت پر اِتنی داد و تحسین نہیں ہوئی جتنی چوہدری اسلم کے لیے ہوئی[/center]
ہیرو، بہادر، دلیر، شیر، شان سے جیا، شان سے مرا، ایک ہاتھ میں سگریٹ، دوسرے میں پستول۔ بیوی بھی دلیر، باپ اِنتہائی صدمے کی حالت میں بھی پُروقار، شہید ہونے والا چوہدری اسلم صحافیوں کا بھی یار اِس لیے ہر طرح کی فوٹیج موجود، دلوں کو گرما دینے والے ڈائیلاگ۔ کسی وردی والے کی موت پر اِتنی داد و تحسین نہیں ہوئی جتنی چوہدری اسلم کے لیے ہوئی۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ چوہدری اسلم کو کسی نے وردی میں نہیں دیکھا یا کم از کم کسی کے پاس سے وردی والا فوٹو نہیں نکلا۔+
[center][/center]
خوف سے یا احترام سے اسلم کو چوہدری اسلم کہنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس شہر میں اُس سے بڑے اصلی اور وڈے چوہدری موجود ہیں۔
دو سال پہلے چوہدری اسلم بھی اِن بڑے چوہدریوں کے درمیان ڈیفنس کے علاقے میں رہتا تھا۔ ایک صبح اُس کے گھر پر ایسا دھماکہ ہوا جو پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر کے بھی ڈیفنس کے علاقے میں نہیں ہوا۔ محافظ مارے گئے، پاس سے گزرتے ہوئے راہ گیر لقمۂ اجل بنے لیکن چوہدری اسلم اور ان کا خاندان محفوظ رہے۔
کیا اس ہیبت ناک حملے کے بعد ڈیفنس کے محلے دار پُرسہ دینے پہنچے؟ کیا اس علاقے کے بڑے چوہدری اور شرفا اکٹھے ہوکر اس کے گھر گئے اور کہا کہ تم ہمارے محافظ ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ہم مل کر یہ گھر دوبارہ تعمیر کریں گے۔
نہیں! سب ہمسایوں کا ایک ہی مطالبہ تھا اس شخص کو اس محلے سے باہر نکالو۔ اِتنا خطرناک آدمی شرفا کے محلے میں کیسے رہ رہا ہے۔
چوہدری اسلم کے تباہ ہونے والے گھر کے قریب کراچی کے چند مہنگے ترین سکول واقع ہیں جہاں ہمارے بڑے چوہدریوں کے بچے اعلیٰ اور نفیس تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دھماکہ سکول کھلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے ہوا۔ بعض کلاس روموں کے فرش کھڑکیوں اور دروازوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے بھرے ہوئے تھے۔ امکان غالب ہے کہ اگر یہ دھماکہ آدھ گھنٹے بعد ہوتا تو ڈیفنس میں اتنے ننھے شہید ہوتے کہ سوچ کر ہی والدین کا دل ڈوب جاتا ہے۔
کیونکہ ہمارے اصل چوہدریوں نے دہشت گردی اپنے ڈرائنگ روم میں صرف ٹی وی پر دیکھی ہے اُنہوں نے جب یہ دیکھا کہ ڈھائی سو کلو گرام بارود ان کے ہمسائے کے گھر کے ساتھ کیا کرتا ہے تو سب یک زبان ہو کر بولے نکالو اس کو یہاں سے۔
سکول کے مالکوں اور محلے داروں کا ایک ہی مطالبہ تھا اتنے خطرناک آدمی کو ہمارے درمیان نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ نے علاقے کے گرد گیٹ لگانے کی بات کی کچھ اپنی بِپتا لے کر عدالت پہنچ گے۔
ہمارے شہر کے بڑے چوہدریوں کا رویہ چوہدری اسلم کی طرف ویسا ہی تھا جیسا بڑے چوہدریوں نے شہر میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ایک بدمعاش پال رکھا ہوتا ہے اور کبھی کبھی اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اُسے چوہدری صاحب کہہ کر مخاطب کر لیتے ہیں۔
ہم نے چوہدری اسلم سے کبھی نہیں پوچھا کہ بندہ گرفتار کرنے سے پہلے مارا تھا یا ہتھکڑی لگانے کے بعد؟ ناخن کھینچنے سے پہلے تسلی کر لی تھی کہ بندہ صحیح پکڑا ہے؟ کوئی وارنٹ لے کر نکلے تھے یا بس موڈ خراب تھا اس لیے بندہ پھڑکا دیا؟
چوہدری صاحب جو کرنا ہے رات کے اندھیرے میں کرو، انٹرویو دینے کا شوق ہے دیتے رہو بس ہمارے علاقے میں دھماکہ نہیں ہونا چاہیے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔
ہاں کبھی کبھار ہاتھ سے نکلنے لگتا تھا تو یہ ضرور کہتے تھے کہ ’ارے یہ تو ڈی ایس پی تھا اسے ایس پی کس نے بنا دیا۔ یہ تو پہلے ہی اوقات اور وردی دونوں سے باہر ہے ، کوئی اس کو لگام تو ڈالے۔‘
چوہدری اسلم جیسے ہیرو اُسی معاشرے کو درکار ہوتے ہیں جہاں بڑے چوہدری دن کی روشنی میں کہتے ہیں طالبان کا کوئی وجود ہی نہیں پھر رات کو کہتے ہیں ’پکڑو سالوں کو، مارو اِنہیں۔ بس ہم تک اِن کی چیخیں نہ پہنچیں۔‘
چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد البتہ یہ انکشاف ہوا کہ بڑے چوہدری اور چھوٹے چوہدری کی خواہش اصل میں ایک ہی ہوتی ہے۔ ڈیفنس کے بڑے چوہدریوں نے چوہدری اسلم سے اِس لیے جان چھڑائی تا کہ ان کے بچے اپنی مہنگی اور نفیس تعلیم پُرسکون ماحول میں حاصل کر سکیں۔
اپنے آخری سفر پر نکلنے سے چند منٹ پہلے تک چوہدری اسلم بھی یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے بچوں کو ٹیوشن پر چھوڑ آئے۔
بشکریہ محمد حنیف بی بی سی اردو