بانٹتے چلو پیار از طلعت نظامی!!!

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

بانٹتے چلو پیار از طلعت نظامی!!!

Post by میاں محمد اشفاق »

بانٹتے چلو پیار از طلعت نظامی!!!

وہ جب سے اس گھر کی بہو بن کر آئی تھی خود کو تمام سسرالی رشتے داروں کے درمیان گھرا پایا۔
ساس (صبوحی خاتون) بہت خوش اخلاق اور خوش گفتار خاتون کے روپ میں ملیں۔ اپنی اسی عادت کی بناء پر وہ اپنی تمام دیورانیوں‘ بیٹیوں اور ان کے شوہروں تک کے دل پر راج کررہی تھیں۔ سب ہی رشتہ دار باری باری ان کے گھر آتے اور وہ سب کی ہی نازبرداریاں یوں کرتیں جیسے پہلی بار وہ ان کے گھر آئے ہوں۔ وہ ان کی اکلوتی بہو بن کر آئی تھی اس لیے شروع دن سے ہی سب اسے بہت توجہ دے رہے تھے‘ خوب محفلیں جمتیں۔ اس کی نند رمشانے جو بھائی کی شادی اٹینڈ کرنے آئی ہوئی تھی‘ کچن کا کام سنبھال رکھا تھا۔
صبوحی خاتون کی دیورانیاں ان کی بچیاں بہت ہنس مکھ طبیعت کی تھیں‘ اس سے بہت محبت سے پیش آتیں کیونکہ ساس ان بہن بھائیوں میں بڑی تھیں‘ اس لیے ان کی دو تین دیورانیاں تو بالکل نئی دلہن کی طرح ہی تھیں۔ دوسرے نمبر والی ثانیہ چچی تو بالکل دوستوں کی طرح تھیں۔ ملنساری اور برجستگی ان کے مزاج میں تھی‘ ہنستے ہنستے کوئی غلط جملہ منہ سے نکل جاتا تو خود ہی زبان دانتوں تلے دبا کر ہنس دیتیں اور ان کا یہ انداز سب ہی کو ہنسنے پر مجبور کردیتا۔ کوئی بڑا پن ان میں نہ تھا ہمیشہ اپنی دونوں تینوں دیورانیوں کو فارغ اوقات میں لیے پہنچ جاتیں چونکہ سب کے گھر قریب قریب تھے اس لیے آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اب بھی انیتا چچی آئی ہوئی تھیں۔
’’امی… میں نے دو دن سے بھابی سے بات نہیں کی ہے۔‘‘ عروبہ بیڈ میں آن گھسی جو اپنے فائنل ٹیسٹ کی وجہ سے ملنے نہیں آسکی تھی۔ چچی کو ہٹا کر اس کے پاس آبیٹھی۔
’’تو بیٹھو نا…‘‘ چچی کھسک گئیں۔
’’دو دن سے تم نہیں آئیں لیکن ان دو دنوں میں میرے کان تو تم نے کھالیے کہ بھابی کیسی ہیں؟‘‘ ان کے بولنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ سب ہنس دیئے۔
’’کیوں نہیں پوچھوں گی‘ اس خاندان کی سب سے بڑی اور پیاری بہو میری بھابی جو بن کر آئی ہیں۔‘‘ وہ گلے میں بانہیں ڈال کر لاڈ دکھاتی۔
لڑکے بھی اتنے ہی دوستانہ مزاج کے تھے اکثر فارغ اوقات اس کے کمرے میں آتے‘ کبھی آئسکریم‘ کبھی پیزا تو کبھی فالودہ حالانکہ فرخ اس کے فریج میں دل بہلانے کو یہ سب چیزیں لاکر ڈھیر لگا تا رہتا لیکن بچوں کی محبت کا کوئی نعم البدل نہ تھا۔ وہ اس کی دلبستگی کے بہانے ڈھونڈتے تو وہ ناقدری کیسے کرتی۔ سب بھابی… بھابی کہہ کر محبت کا بے ساختہ اور برملا اظہار کرتے جو اسے اس نئے ماحول میں بہت اچھا لگتا لیکن… پانچویں نمبر والی عنبر چچی جنہیں شادی کے دنوں میں اس نے دلہن ہونے کی بناء پر کم ہی دیکھا تھا۔ وہ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ مغرور بھی لگیں۔ یہ اس کا وہم ہوتا اگر صبوحی خاتون اس وہم پر صداقت کی مہر نہیں لگاتیں۔
’’کن کے بارے میں پوچھ رہی ہو تم…؟ اتنی آدم بے زار ہیں وہ کہ اللہ کی پناہ!‘‘ تانیہ چچی نے اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔
’’ہاں آبھی گئیں تو کون سا اچھی باتیں کریں گی۔ نادر فلسفۂ حیات بیان کریں گی۔ اپنے مزاج کی سنجیدگی سے تمہیں بھی بور کردیں گی۔‘‘ سب کا قہقہہ ابھرا تھا۔ وہ ناسمجھی کی کیفیت سے دیکھے گئی۔
’’وہ ٹیچر ہیں‘ ہم سب سے زیادہ ایجوکیٹڈ‘ سمجھ دار اور ذہین خاتون۔ ان کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے یا وہ ہمیں اپنے لیول کا نہیں سمجھتیں اس لیے ہم سب کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔‘‘
’’کیا کوئی ناراضی ہے۔‘‘ وہ واقعی ان کا مدعا نہیں سمجھی تھی۔
’’بات یہ ہے کہ…‘‘ صبوحی خاتون اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ’’اب تم اس گھرانے کی فرد ہو۔ کب تک تم سے معاملات چھپائے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت گھمنڈی عورت ہیں‘ اپنی قابلیت کو بہت اہم سمجھتی ہیں۔ اوّل تو ہم سب میں مل بیٹھنے کی انہیں فرصت نہیں اور مل بھی جاتی ہیں تو اپنی جداگانہ گفتگو سے ہم سب میں خود کو منفرد سمجھنے کی کوشش شروع کردیتی ہیں۔‘‘ یہ پہلی منفی گفتگو تھی جو اس ماحول میں اس نے سنی تھی کسی کے متعلق۔
’’بات بات میں کیڑے نکالیں گی‘ پہننے اوڑھنے پر‘ کھانے کے انداز پر‘ اٹھنے بیٹھنے پر‘ ہر ہر عمل پر ناگواریت کا اظہار کریں گی اور بس نہیں چلے گا تو اقوال زریں سنانے لگیں گی۔ پڑھائی کے متعلق پوچھنے لگیں گی۔ آج کے نصاب اور مستقبل کے نصاب کا موازنہ کرنے لگیں گی۔‘‘ عروبہ نے بھی اپنی تیکھی ناک چڑھائی۔
’’اب ہر وقت کی یہ عالمانہ گفتگو ماحول کو بوجھل ہی بناسکتی ہے۔ شگفتہ نہیں کرسکتی ہم نے ناگواری کا اظہار کیا تو وہ کٹی کٹی رہنے لگیں ہم سب سے ‘ بس تقاریب وغیرہ میں آنا جانا‘ ملنا ملانا ہوجاتا ہے۔ نہ انہوں نے ہم میں مکس ہونے کی کوشش کی نہ ہم نے خواہش کا اظہار کیا۔ بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ ملنے کی چاہ بھی ان لوگوں سے ہوتی ہے جن کی نظر میں ہماری بھی کوئی حیثیت ہو۔ اب بات بات پر اپنا مذاق بنوانا کون چاہتا ہے دو چار دن کی زندگی کو ہنس کھیل کر گزار لینا چاہیے نا کہ قدم قدم پر نکتہ چینی کرکے…‘‘
’’بچے نہیں ہیں ان کے…؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’ہیں… تین بیٹیاں ہیں‘ تینوں اسکول کی طالبہ ہیں لیکن مزاج میں وہ بھی ماں پر ہی گئی ہیں۔ جس طرح عروبہ‘ نائمہ‘ نوشی ہیں سب میں گھل مل جانے والی‘ ان سب خوبیوں سے دور ہیں وہ۔ کبھی آئیں
گی بھی تو ماں کا پلّو تھامے بیٹھی رہیں گی‘ جیسے ہم ان کے دشمن ہوں۔ ملنساری تو ذرا بھی ددھیال والوں سے وراثت میں نہیںملی۔‘‘
’’پتا نہیں کیسے اماں نے ہم لوگوں کی دیورانی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ کون سی ادا بھائی کہ ہم سب کے سروں پہ مصیبت کی طرح سوار کردیا۔ بھئی سب ہم مزاج ہوں تو تکلف کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ جو چاہے بولو۔ اچھا ہے بابا! وہ اپنی ذات میں خوش‘ ہم اپنی ذات میں…‘‘ سب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرکے اٹھ چکے تھے۔
’’صحیح بات ہے زندگی کو تو ہلکے پھلکے انداز میں ہی گزارنا چاہیے ناکہ خود ساختہ الجھنوں میں خود کو گرفتار کرکے مریض بن جانا چاہیے۔‘‘
…٭٭٭…
’’ارے بھابی…! آپ کن سوچوں میں گم ہوچکی ہیں‘ رکیے نا… شادی کی مووی آچکی ہے‘ چلیں نا دیکھیں۔ ایمان سے اتنی پیاری لگ رہی ہیں نا آپ‘ میں نے اتنی حسین دلہن پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔ چاند سورج کی جوڑی لگ رہی ہے۔‘‘ اس کی تعریف پر وہ مسکراتے ہوئے اٹھ بیٹھی تھی۔
آہستہ آہستہ لوگوں کا ہجوم چھٹا‘ لڑکیاں‘ لڑکے بھی اسکول‘ کالج کی چھٹیاںختم ہونے کے بعد مصروف ہوگئے۔ اب بھی سب چچیوں کا ہفتے میں ایک چکر لگ ہی جاتا۔ صبوحی خاتون نے میٹھے میں اس کا ہاتھ لگوادیا۔ جس پر سب ہی لوگ مدعو تھے۔ رات کے کھانے کا انتظار تھا۔ فرخ بہت سنجیدہ مزاج تھا۔ سب کے سامنے بالکل لیے دیئے انداز میں رہتا۔ گیدرنگ میں بھی سب سے الگ سوفے پر جا بیٹھا۔ کوئی ذومعنی جملہ‘ کوئی شوخ فقرہ‘ کوئی چوری چھپے ہونے والی نظروں کی واردات ایسا کچھ بھی نہ ہوتا۔ زیادہ شوخ مزاج تو وہ بھی نہیں تھی لیکن اتنا روکھا پھیکا رویہ کہ سب کے سامنے بات کرنا تو درکنار‘ دیکھنے میں بھی محتاط رویہ اپناتا۔ اس کا یہ انداز اب تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تنہائی میں البتہ بہت رومینٹک ہوتا۔
’’آج بے حد خوب صورت لگ رہی ہو۔ لگتا ہے بلیو کلر تمہارے لیے ہی بنا ہے۔ کتنی دل کشی ہے تمہاری سنہری رنگت میں۔‘‘ وہ بے حد گہری نگاہوں سے اسے دیکھتا۔
’’اچھا! سب کے سامنے تو مجھے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ اب تشبیہات سوجھ رہی ہیں محترم کو۔ میں نے کتنی مرتبہ آپ کو نوٹ کیا ہے کہ سب کے سامنے کسی بھی گفتگو میں میرا ذکر تک نہیں کرتے آپ۔ جیسے آپ سے سے میرا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔‘‘
’’ارے نہیں تمہارا وہم ہے۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’اب سب کے سامنے کیا وارفتگی دکھائوں میں بات بات پر۔ یہ بھی تو اچھی بات نہیں‘ سب کزنز مجھ سے چھوٹے ہیں۔ بڑوں کو ذرا سنجیدہ بن کر رہنا چاہیے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’کیا سب کے سامنے دیکھنے پر بھی پابندی ہے یا کام کی باتوں پر بھی روک ٹوک ہے؟‘‘
’’اب ایسا بھی نہیں بس تمہیں احساس نہیں ہوتا۔ تم کوئی نظر انداز کرنے والی چیز ہو بھلا۔‘‘ وہ شرارت پر آمادہ ہوا تو وقتی طور پر اس کا دھیان بھی بھٹک گیا لیکن دل پر جمنے والی میل چھٹ سکتی ہے بھلا۔
کچھ انہونی کا احساس اسے ہورہا تھا۔ سب کی محبتیں ایک طرف لیکن اپنے دل میں بپا ہونے والے اس کھٹکے سے کچھ چوکنا سی ہوچکی تھی۔ یہ احساس خود فرخ کی نظروں نے دلایا تھا اور کچھ صبوحی خاتون کی گرفت لیے نظروں کو بھی پہچان رہی تھی۔
ناشتے سے رات گئے تک جب تک وہ دونوں بیڈ روم میں نہیں آجاتے وہ اس کے گرد چکر لگاتی رہتیں۔ کبھی دودھ کا گلاس‘ کبھی جوس تو کبھی کٹے ہوئے پھل فریج سے نکال کر ثمرن بھابی کا دروازہ کھٹکھٹارہی ہوتی۔
’’آپ کو تو کھانے پینے کی بھی یاددہانی کروانی پڑتی ہے بھائی! آفس میں تو گم رہتے ہی ہیں کہ آنکھیں ترس جاتی ہیں پورا دن آپ کو دیکھنے کے لیے۔ آپ بھی بھائی کا دھیان نہیں رکھتیں بھابی! بھائی کو بھی صحت کا احساس دلائیں اور اپنا بھی دھیان رکھیں۔‘‘ چائو چونچلے سے بولتی وہ بہت کچھ اسے سمجھا رہی تھی۔
’’کمرے میں ہی رہیں مگر یہ پھل کھالیں۔‘‘ فرخ ہنسا جیسے کسی نے چوری پکڑلی ہے۔ ‘‘
’’میں آ ہی رہا تھا اس طرف‘ بس ٹی وی پر یہ ٹاک شو میں مصروف ہوگیا۔‘‘
’’ٹی وی صرف آپ کے کمرے میں نہیں‘ لائونج میں بھی ہے‘ چلیے وہاں سب جمع ہیں آیئے بھابی آپ بھی…‘‘ بہت خوب صورتی سے وہ بات بناتی وہاں سے چلی گئی۔
رات کے بارہ ‘ ایک بجے آپ لائونج میں بیٹھیں گے تو اٹھیں گے کب؟ صبح آپ کو آفس بھی پہنچنا ہوتا ہے۔ صحت کے لیے دودھ‘ پھل ہی نہیں پوری نیند بھی ضروری ہوتی ہے۔‘‘ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی غصہ آگیا۔
’’تم اس مسئلے میں مت بولا کرو حریم! میں پہلے بھی ٹی وی لائونج میں ہی بیٹھا کرتا تھا گھر والوں کے ساتھ۔ اب یہاں آجاتا ہوں تو کیا ان لوگوں کو میری کمی محسوس نہیں ہوگی؟‘‘ وہ مشتعل ہوا۔
’’میں نے کبھی منع کیا ہے ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے پر۔‘‘ اس کا گلا رندھ گیا۔ ’’آدھی آدھی رات تک گپیں لگانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ ابھی وہیں سے اٹھ کر آئے ہیں آپ‘ بلکہ میں خود وہاں بیٹھی

ہوئی تھی۔ چاہتی تو اپنے کمرے میں آرام کرسکتی تھی صرف وضع داری نبھارہی ہوں۔ ورنہ پورا دن ان لوگوں کے ساتھ ہی میرا گزرتا ہے۔ کیا یہ ٹائم بھی میرا اپنا نہیں ہوگا؟‘‘
’’تم خوامخواہ چھوٹی سی بات کو بڑھا رہی ہو حریم! یہ بھی تو دیکھو انہوں نے اپنی خدمت کے لیے ہمیں آواز نہیں دی ہے بلکہ وہ ہم دونوں کی کمپنی انجوائے کرنا چاہتی ہیں۔ کسی پل کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ یہ ان کی محبت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے‘ اس طرح گھر والوں کے لیے دل میں مقام بڑھے گا باقی ہم دونوں تو دل سے ایک دوسرے کے ہی ہیں۔‘‘ وہ بہت ملائمت سے گھر والوں کا مقام سمجھا رہا تھا۔
’’وقتی جذباتیت اور ماحول سے فرار دلوں میں بدگمانی کو جگہ دیتی ہے۔ تو کیا ضرورت ہے ہمیں دلوں میں کدورتیں پیدا کرنے کی۔ دل کو بڑا کرو ان کا یہ فعل ہم دونوں کے درمیان دوری نہیں پیدا کرے گا بلکہ ہم سب کے درمیان محبت اور خلوص کو جنم دے گا۔ ساتھ رہ کر بڑے سے بڑا دکھ کا لمحہ بھی شیئر ہوجاتا ہے۔‘‘ اس کی سب باتیں اچھی تھیں لیکن اگر دل ان لوگوں کی طرف سے آہستہ آہستہ مکدر نہ ہونے لگتا۔
صبوحی خاتون کا مزاج ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ فرخ کی غیر موجودی میں بھی اس طرح سے خیال رکھتیں کہ زیادہ گھریلو کام نہیں کرنے دیتیں خود یا ثمرن کالج سے آنے کے بعد ہی کرتیں۔
’’تھک جائو گی‘ جائو آرام کرو۔ آہستہ آہستہ تو تمہیں ہی سب کچھ سنبھالنا ہے۔‘‘ وہ کہہ کر کچن سے باہر نکال دیتیں اور فرخ کے آجانے کے بعد ان کی نگاہیں بیٹے کے گرد ہی طواف کرتی رہتیں۔ ایسے اس کا خیال رکھتیں جیسے صرف وہی ہوں فرخ کی پروا کرنے والی‘ ان کے بیٹے کی زندگی میں ابھی کوئی اور آیا ہی نہ ہو۔اسے محسوس ہوتا جیسے فرخ سے اس کی سنگت کا ہر لمحہ وہ چھین لینا چاہتی ہوں اور اس کے ہر لمحے کا کڑا حساب وہ رکھنے والی ہوں۔ ان کے اس پراسرار رویئے پر وہ گھبراسی گئی۔ بہت الجھنوں کا شکار ہوگئی۔ ان ہی سوچوں میں مغموم بیٹھی تھی کہ عروبہ آگئی۔ خوب صورت تراش خراش کے کپڑوں میں بالوں کی اسٹیپ کٹنگ کرائے وہ بے حد پُرکشش لگ رہی تھی۔ پور پور سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ وہ جلدی جلدی بیڈ شیٹ درست کرنے لگی۔ صبح سے بے دھیانی میں ایسے ہی پُرشکن تھا۔
’’کیا کررہی تھیں بھابی! ارے ابھی تک آپ نے کمرے کی سیٹنگ نہیں کی‘ خیریت تو ہے… طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی۔‘‘ اس نے بغور دیکھا۔
’’نہیں… ٹھیک ہوں۔ اصل میں موسم ایسا سست کردینے والا طاری ہے کہ ناشتے کے بعد ہی دوبارہ نیند آنے لگتی ہے۔ اب میں اٹھ ہی رہی تھی‘ تم سنائو کیسی ہو؟ کالج نہیں گئیں؟‘‘
’’میں آپ کے سامنے ہوں ایک دم فریش!‘‘ وہ چہکی۔ موٹی موٹی آنکھوں میں کاجل اور مسکارا عجیب ہی بہار دے رہا تھا گرچہ کہ یہ بے محل سجنا سنورنا تھا لیکن وہ گھر میں بھی ایسے ہی رہا کرتی تھی۔
’’رہی کالج کی بات تو اب ہم انٹر کے پیپرز تک کالج سے فری ہوچکے ہیں۔ اس لیے سوچا پہلے آپ سے مل لوں۔ تائی اور ثمرن سے مل چکی ہوں۔ اب آپ سے تھوڑی دیر گپ شپ چلے گی۔ چینل چینج کیجیے نا بھابی! سلمان خان کی مووی آرہی ہے۔ میں وہی آپ کے ساتھ دیکھنے آئی ہوں ابھی ثمرن بھی سالن چڑھا کر آرہی ہے۔ نائمہ بھی آتی ہی ہوگی۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’تم نے ابھی تک وہ فلم نہیں دیکھی۔‘‘ اسے بڑی عجیب اور بچگانہ بات لگی اس کی اور پھیکی ہنسی کے ساتھ ریموٹ اس کے ہاتھ میں تھمادیا اور خود برش لے کر اپنے بال سلجھانے لگی۔
’’سلمان کی فلم تو جتنی بار دیکھ لوں کم ہے‘ کسی بھی چینل پر اس کی فلم چل رہی ہو تو میں چینل چینج نہیں کرنے دیتی۔‘‘ مزے لیتی وہ پسندیدہ چینل لگا کر بیٹھ گئی وہ بھی فل آواز پر۔
’’تھوڑی سی آواز کم کر دو عروبہ! میں نے ابھی سر درد کی گولی لی ہے۔‘‘
’’اوہ… سوری بھابی!‘‘ اس نے دوبارہ آواز کم کردی۔ ’’اصل میں ہم لو گ شروع سے ہی ایک ماحول میں رہے ہیں‘ سب کزنز ایک ہی مزاج کے تھے ہلچل مچانے والے‘ شورو غل کے عادی۔ اس لیے تیز آواز کا اثر کانوں پر ذرا کم ہی پڑتا ہے۔‘‘ بولنے کا انداز بھی اس کا بے حد تیز تھا۔ اپنے دل کی بات کیا کہتی سب ہنسی خوشی بات تو کرلیتے لیکن راز دار کسی کو نہیں بناسکتی تھی۔
میکے جانے کی اجازت مانگتی تو اس کی ساس بے حد اشتیاق سے اجازت دے دیتیں‘ جیسے اس بات کی وہ کب سے منتظر ہوں۔ واپس آتی تو فرخ کا انداز ہی عجیب ہوتا‘ ماں بہن کے پاس سے اٹھتا ہی نہیں۔ کمرے میں آکر بھی تکلف کا سرا آہستہ آہستہ کھلتا۔ اس لیے میکے کے نام سے کچھ محتاط ہوگئی تھی لیکن اس روز امی کا فون صبح ہی آگیا۔ ان کا دل گھبرا رہا تھا اس سے ملنے کو ان کا دل چاہ رہا تھا‘ اس لیے وہ تیار ہوگئی کہ فرخ آفس جاتے ہوئے گھر چھوڑ دے گا اور نہ جاتی تو زندگی میں چھا جانے والے آسیب کی پُراسرار گتھی کیسے سلجھتی۔
’’آپ آفس سے واپسی پر مجھے لے لیجیے گا میں تیار رہوں گی۔‘‘
’’امی کی طبیعت خراب ہے‘ دوچار دن رہ لو گی تو ان کا دل بھی بہل جائے گا۔‘‘ صبوحی بیگم اسی وقت کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’کوئی خاص خراب نہیں ہے امی! بس مائوں کے دلوں کا تو پتا ہے آپ کو‘ بیٹیوں سے ملنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’رہ کر بھی کیا کرلوں گی میں‘ بھابی تو کوئی کام کرنے نہیں دیتی۔ امی کی تیمارداری‘ دل جوئی بھی بیٹیوں سے بڑھ کر کرلیتی ہیں۔‘‘
’’یہ تو صحیح بات ہے لیکن یہاں بھی تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ نا ہو کہ ارسہ آپا سمجھیں کہ ہم نے کوئی پابندی لگائی ہوئی ہے۔‘‘
’’یہی تو بات ہے کہ ابھی تک آپ نے مجھے ذمہ داریوں کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ ‘‘ اس کا دل خاک ہوگیا‘ ان کی لپک جھپک کر ہر کام خود سے کرلینے والی عادت اسے کھٹکتی اور جس کام کو انجام دینے سے وہ رہ جاتیں ثمرن بیڑا اٹھالیتی۔ بڑی خوش اسلوبی سے اسے ہٹا دیتی۔
’’نہیں! انہیں آپ کی عادتوں کا پتا ہے کہ ابھی تک آپ لوگوں نے اس گھر کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہے۔‘‘ دل کا ایک جلتا پھپولا پھوڑ کر اس نے پرس اٹھالیا۔ وہ عجیب نظروں سے دیکھے گئیں۔
’’اپنے بھائی کے ساتھ آجانا‘ فون کرکرکے فرخ کو پریشان نہیں کرنا۔ آفس میں سو طرح کے کام ہوتے ہیں‘ سو طرح کے لوگوں سے ڈیلنگ ہوتی ہے۔ خوامخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے مرد کو پریشان کرنے سے مرد بھی چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ اس نے کوئی جواب نہ دے کر مزید انہیں چڑایا۔
فرخ کو شام کو فون کیا کہ آکر اسے لے جائے اس نے بڑی صفائی سے انکار کردیا۔ کہ ابھی تو میٹنگ میں مصروف ہوں تم آذر بھائی کے ساتھ گھر چلی جائو۔
’’وہ بھی مصروف ہیں فرخ! آپ جب بھی فارغ ہوں مجھے لے لیجیے گا‘ میں تیار ہوجائوں گی۔‘‘ وہ جانتی تھی اس کے ساتھ آنے پر صبوحی خاتون کا موڈ بگڑ جائے گا اس لیے وہ انکار کررہا تھا۔
’’کوشش کرتا ہوں حریم! جانے کب فارغ ہوں‘ ویسے بھی تمہارے گھر کا روٹ بالکل مختلف ہے۔ شام کو تھکن کے مارے بس گھر ہی جانے کا دل چاہتا ہے۔‘‘
’’بہانے مت بنائیں فرخ! صاف صاف بات کیا کریں‘ مجھے سب پتا ہے آپ امی سے ڈرتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ آپ کو دیکھنا نہیں چاہتیں۔‘‘
’’فضول باتیں مت کرو‘ وہ بھلا ایسا کیوں چاہیں گی۔‘‘ اس نے گڑبڑا کر اسے ڈانٹا۔
’’اسی ’’کیوں‘‘ کا جواب میں ڈھونڈ رہی ہوں‘ جس سے آپ بھی واقف ہیں بس بتانا نہیں چاہتے۔‘‘ اس نے فون پٹخ دیا اور اسی وقت گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔
…٭٭٭…
کھولتے دل و دماغ سمیت اندر داخل ہوئی تو صبوحی خاتون نیچے نہیں تھیں۔ اوپر سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اپنے کمرے میں پرس رکھ کر چادر اتار کر اوپر جانے لگی۔ زینہ عبور کرکے جیسے ہی بڑے کمرے میں جانے لگی کہ صبوحی خاتون کے رونے کی آواز نے جیسے دل دہلا دیا۔ ان کے گھٹ گھٹ کر رونے کی آواز وقفے وقفے سے آرہی تھی۔ وہ دانستہ رک گئی بڑی چچی کی آواز آرہی تھی۔
’’چپ ہوجائیں بھابی! کیوں خود بھی پریشان ہورہی ہیں اور بیٹے کو بھی پریشان کریں گی۔ آپ کی صورت دیکھ کر کیا فرخ پریشان نہیں ہوگا۔ اس کے آنے سے پہلے خدا کے لیے خود کو سیٹ کرلیں‘ پلیز بھابی! اپنے بیٹے کے لیے اس حقیقت کو قبول کرلیں‘ ورنہ ایک بار اس کے دل میں بدگمانی نے جڑ پکڑلی تو بیٹا آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جس کے ڈر میں آپ اندر ہی اندر پگھل رہی ہیں۔‘‘
’’میں نے عروبہ کا رشتہ مانگنا چاہا میرے بیٹے نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کی اور میری عمر میں بہت فرق ہے‘ یہ میری پہلی خواہش میرے بیٹے نے رد کی۔ اس تابعدار بیٹے سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔ بہت سمجھایا‘ بہت آنسو بہائے لیکن وہ تو جیسے گم صم ہوکر رہ گیا تھا۔ تب میں غیر کا دروازہ کھٹکھٹانے نکلی‘ حریم کے رشتے پر بغیر دیکھے ہاں کردیا۔ آج کم از کم یہ بے اطمینانی میرے اندر زہر بن کر دوڑتی تو نہیں کہ کوئی غیر میرے بیٹے کو آکر ہتھیالے گی۔ عروبہ کی طرف سے ایک اطمینان تو ہوتا کہ اسی خاندان کی ہے‘ ماحول میں رچنے بسنے میں ٹائم بھی نہیں لگے گا اور بیٹے کی طرف سے بھی بے فکری رہتی۔‘‘
’’دیکھیں بھابی! آپ کا بیٹا صحیح رہے گا تو حریم آپ کے سکون کا بال بھی بیکا نہ کرسکے گی۔ اس لیے میری یہی صلاح ہے فرخ کو ہاتھ میں رکھیں۔ اس کے آرام و سکون کا اتنا خیال رکھیں کہ آپ سے دوری اس کے لیے سوہانِ روح بن جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ اس کی خوشی میں اپنی خوشی ظاہر کریں گی‘ ساتھ ساتھ حریم کو بھی قابو میں رکھیں کبھی وہ آپ کے ڈر کو سمجھ نہ سکے۔ یہ جو منٹوں میں آپ بھڑک اٹھتی ہیں نا اسے ذرا قابو میں کیجیے ورنہ بیٹا تو آپ ہاتھ سے جائے گا ہی‘ ساتھ دنیا والوں کی چار باتوں کے لیے ڈر کو تیار رکھنا پڑے گا کہ اتنی جلدی بہو بیٹے کی محبت کھٹکنے لگی اور حریم میدان مارلے گی۔‘‘ یہ تھیں ثانیہ چچی خوش اخلاق‘ خوش گفتار‘ بات بات پر زبان دانتوں تلے دبا کر معصوم بننے والی خاتون‘ اس وقت الگ ہی روپ میں اس کے سامنے تھیں۔
’’بہت اپنے دل کو سمجھاتی ہوں‘ بہت اپنے من کو مارتی ہوں لیکن عنبر کی طرف سے جو تجربہ ہوا کہ میرا چہیتا دیور… میری ہر بات پر سر جھکانے والا ذیشان میرے ہاتھ سے نکل گیا اب تو شاذو نادر ہی رسم دنیا نبھانے آجاتا ہے لیکن عنبر معرکہ مار گئی۔ وہ جنگ میں حریم کو جیتنے نہیں دینا چاہتی۔‘‘
’’وہ بہت اعلیٰ پائے کی چیز ہے۔ کالج یونیورسٹی کی خاک چھانتے چھانتے کیا مردوں کو گرفت میں کرنے کے گُر سے واقف نہیں ہوئی ہوگی۔ تعلیم صرف لفظوں کی ہیرا پھیری نہیں سکھاتی بلکہ بہت کچھ سکھاتی ہے۔ اماں کو اپنی بھتیجی کچھ زیادہ ہی بھاگئی تھی خود تو اس جہانِ فانی سے گئیں ایک پھوٹ ڈالنے والی عورت کو ہمارے خاندان سے منسلک کر گئیں ورنہ سب دیور آج بھی اماں کے بعد آپ کے پلّو سے بندھے ہوتے۔ اس نے آتے ہی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کرلی۔‘‘ چچی نے بے زاری سے کہا ۔
’’اور باتیں کیسی کرتی ہیں جیسے ان سے زیادہ عالمہ و فاضلہ کوئی نہیں۔ بس منفرد نظر آنے کا جنون اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ وہ بھی بچوں والی ہے۔ دیکھتے ہیں خاندان سے کٹ کر رہنے والی کو کون اپنا تا ہے۔‘‘ یہ منجھلی چچی تھیں۔
’’یہی ڈر تو مجھے حریم سے ہے کہ میرا بیٹا بھی کسی جادو کے اثر میں گرفتار ہوکر نکل گیا تو میں ہاتھ ملتی رہ جائوں گی۔‘‘ ان کی آواز میں پھر سے نمی آگئی تھی۔ بہت ملی جلی آوازیں تھیں۔
اتنی تنگ نظری‘ تنگ دلی اور اتنی گندی گھریلو سیاست سے تو وہ آج ہی روشناس ہوئی تھی۔صبوحی خاتون‘ ثمرن کی ساری عنایتیں جو وہ بیٹے کی خوشنودی کے لیے نچھاور کرتی تھیں اصل میں فرخ کا سکون نہیں تھیں بلکہ اس کے گرد جال کا ایسا تانا بانا تھا جو گرفت میں کرنے کے لیے بُنا جارہا تھا اور سب کے سب ان کے حق میں بول رہی تھیں جیسے اس سے کوئی واسطہ نہ ہو۔
ساری تعریفیں اور ہنسی منہ دکھاوے کی تھیں‘ ان لوگوں کا باطن کچھ اور تھا۔ وہ خاموشی سے نیچے اتر گئی۔
سارے سوالوں کا جواب آج مل گیا تھا۔ عنبر چچی سسرال سے الگ کیوں ہوئی تھیں؟ انہوں نے کیا کیا تھا؟ اس سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا اسے بس اپنی زندگی کو دیکھنا تھا۔ اس ایک ڈر کے لیے صبوحی خاتون میاں بیوی میں دوری بڑھادینا چاہتی تھیں‘ اسے تو گھر والوں نے یہ سکھایا ہی نہیں تھا کہ شوہر کو کیسے قابو میں کرتے ہیں۔ بہت دیر بعد وہ نیچے آئیں تو اسے کمرے میں دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
’’تم… کب آئیں؟‘‘ پیچھے سب لوگ بھی تھے وہ جان بوجھ کر بیڈ پر بکھری اپنی چادر تہہ کرنے لگی۔
’’ابھی آئی ہوں۔ آج گرمی بہت ہے۔‘‘ اس نے خوامخواہ پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔
’’جائو ثمرن بھابی کے لیے شربت لے کر آئو‘ فرخ نہیں آیا؟‘‘ انہوں نے ٹٹولتی نگاہوں سے اسے تاڑا۔
’’نہیں! وہ کام میں مصروف تھے‘ میں خود چلی آئی۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیسے اپنے دل کو قابو میں کرے۔کیسے اپنے اندر کی تلخی کو چھپائے‘ ڈرامہ باز تو تھی نہیں۔ جذباتیت بس کوٹ کوٹ کر بھری تھی کہ صاف صاف سامنے والے کے منہ پر سب کچھ اگل دیتی ۔ آج بھی لگ رہا تھا چیخ چیخ کر سب کو بتادے کہ تم لوگوں کی اصلیت کھل کر میرے سامنے آگئی ہے۔ تم لوگوں کی محبت‘ مکرو فریب کا ایک ایسا پردہ ہے جس کے پیچھے تم لوگوں کے دوسرے چہرے چھپے ہیں۔
رات کو اس بھید کا بھی پتا چل گیا جب فرخ سے ایسے ہی باتوں میں باتوں اس نے پوچھ ڈالا کہ کیا عروبہ کا رشتہ آپ کے لیے مانگا تھا امی نے۔
’’ہاں! تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’یہ کوئی چھپنے کی بات ہے بھلا‘ جہاں لڑکے لڑکیاں ہوتے ہیں وہاں اس قسم کی بات عام ہوتی ہیں۔ حیرت کی بات تو بس یہ ہے کہ آپ نے انکار کیوں کردیا۔ وہ آپ کی خاندانی لڑکی تھی‘ آپ کی فیملی کے تمام اصول و قواعد کو سمجھنے والی اور شادی کے بعد یقینا پاسداری بھی کرتی پھرانکار کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’کیوں! میں انکار کا حق نہیں رکھ سکتا کیا‘ یا میری کوئی مرضی نہیں تھی؟‘‘
’’جواز تو ہونا چاہیے۔‘‘
’’میری اس کی عمر میں بہت فرق تھا تمہیں نظر تو آرہا ہوگا۔‘‘ وہ دو ٹوک بولا۔
’’جہاں اتنی خوبیاں ہوں وہاں دس بارہ سال کے فرق کا بہانہ بہت کم ہے۔ مجھے بھی تو آپ نے نہیں دیکھا تھا لیکن ماں کی پسند پر فوراًاقرار کیوں کردیا ۔ مجھ سے چھپانے کا کیا فائدہ فرخ! تمام حقیقت ایک ایک کرکے آشکار ہورہی ہیں۔ ایک روز یہ بھی حقیقت کھل جائے گی خوامخواہ ہم دونوں کے بیچ ایک دوسرے کو نہ سمجھنے کا پردہ حائل ہوجائے گا۔ میں بیوی ہوں آپ کی‘ کون سا میں سب کے سامنے اس حقیقت کو کھولوں گی۔ عروبہ میری نظر میں بہترین لڑکی ہے۔ خوب صورتی اور خوش اخلاقی تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے‘ سب سے بڑھ کر امی کی پسند ہے۔‘‘
’’ہم کوئی اور بات نہیں کرسکتے۔ تم زبردستی مجھے نہ کریدا کرو اور یہ جو تم ہر بات کو ہوا بنا کر سر پر سوا کرلیتی ہو نا اس سے ذرا چھٹکارا پائو۔ یہ ٹینشن نہ تمہیں سکون سے رہنے دے گی نہ مجھے۔‘‘ بول کر اس نے منہ پھلا لیا۔
’’لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں‘ میری زندگی میں بچھی ننگی تاریں ہیں جہاں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غلط قدم اٹھ گیا تو میری موت تیار کھڑی ہے۔‘‘ وہ سوچ کر رہ گئی پھر اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ جہاں بدگمانی آجائے وہاں جھگڑے خودرو پودے کی طرح بڑھتے ہیں۔
صبوحی خاتون کو عدم تحفظ کا احساس چاٹ گیا۔ ان کے اکلوتے بیٹے پر حکمرانی کا شوق اس کے نوخیز ارمانوں کو اجاڑ بیٹھا۔ وہ تو کسی کو کسی سے جدا کرنے کا شوق لے کر ہی نہیں آئی تھی سب کے خود ساختہ خوف نے زندگی کی ہری بھری کھیتی میں سیم و تھور پیدا کردیئے تھے۔ اب اسے صبوحی خاتون اچھی لگتیں نا ان کے اہل خانہ۔ سب کے سب ایک لڑی میں پروئے نظر آتے۔ ضرورتاً بات کرلیتی بلکہ کتنے سوالوں کا جواب رکھائی میں دیتی اندر بڑھ جاتی۔
صبوحی خاتون کی پیشانی پر بل پڑ جاتے اس کے اطوار دیکھ کر جس کام کا دل ہوتا کرتی‘ جس کا نہیں ہوتا سر درد کا بہانہ بنا کر کمرہ بند کرلیتی۔ اب تو اس کا مزاج دیکھ کر نائمہ‘ عروبہ‘ ثمرن بھی دور ہی رہتیں۔ باتوں میں سرد مہری بڑھ گئی تھی۔
’’اپنی اصلیت دکھانی شروع کردی بھابی نے‘ کب تک مسکراہٹوں بھری زندگی گزارتیں۔‘‘ اس نے ثمرن کو کہتے سنا۔ دل تو چاہ رہا تھا نکل کر کہے میری مسکراہٹ تو تم لوگوں کے دوغلے رویئے نے ختم کردی‘ ورنہ میں کب ایسی گندی سوچ لے کر آئی تھی کہ اپنے شوہر پر حکمرانی کروں گی۔ میں نے تو سوچا تھا بیٹے کو بیٹا ہی رہنے دوں گی۔ شوہر کو اپنائوں گی‘ بھائی کی قدر بہنوں کی نظر میں بڑھائوں گی لیکن
جب شوہر میرا نہیں ہوسکا تو باقی رشتوں کا کیا کروں۔ اس نے آنسوئوں کو بہنے دیا۔
اس دن تو حد ہی ہوگئی‘ جب رات ایک بجے وہ آکر ٹی وی آن کرکے بیٹھا تھا
’’بیویاں مسکراہٹوں سے شوہر کے سارے دن کی تھکن اتار دیتی ہیں‘ ایک تم ہو مزید میرا موڈ خراب کررہی ہو۔‘‘
’’کیوں! امی کی محبت نے تھکن اتاری نہیں جو میرے آگے اس شکوے کی نوبت آگئی۔‘‘ کرخت لہجے پر اس نے بے ساختہ دیکھا۔
’’تم سدا میری ماں کی آگ میں خود بھی جلنا اور مجھے بھی جلانا۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم اتنی حاسد لڑکی ہوگی۔ ایک ماں کی محبت سے جلتی ہو۔ بہن کے ارمان بھرے مان پر حسد کرتی ہو۔‘‘
’’توقعات پوری کب ہوتی ہیںفرخ صاحب! کبھی اپنی بیوی کی تمنائوں کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھیے کہ اس کی طلب کیا ہے کب تک ماں بہن کی جھوٹی آرزوئوں کے پیچھے بھاگیں گے۔ کیا میرے دل کی ساری طلب پوری ہوتی ہے جو میں آپ کے ہر تقاضے کوپورا کروں گی۔‘‘
’’کیا کمی ہے تمہیں یہاں؟ جو میری ماں بہن کو جھوٹا بنا رہی ہو۔ بن گئیں روایتی بہو جو سسرال والوں کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ شوہر کو بھی بے سکونی کی زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔
’’کمی کی بات کررہے ہیں آپ‘ یہاں ہے ہی کیا… یہ جو عالیشان گھر ہے نا اور رشتوں ناتوں کی کھوکھلی دیواریں ہیں یہ فریب ہے فریب… جزوی رشتوں کو ساتھ لے کر چلنے والے بنیادی رشتوں کو جو پکڑنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں تخت‘ تختہ نہ بن جائے‘ اپنی پیدائش اور تربیت پر مضبوطی کا احساس نہیں‘ احساس ہے تو بس اس کا کہ تیس سالہ محبت کو ایک لڑکی آکر تیس دن میں برباد نہ کردے۔ اتنے کچے احساس کے دھاگوں سے بندھی ہیں امی!‘‘ وہ چیخ پڑی۔ ایک زناٹے دار تھپڑ نے اس کا منہ سرخ کردیا۔ دونوں ماں بہن بھاگی ہوئی آئیں۔ حریم کی سرخ آنکھوں سے ایک لمحے کو تو دونوں وحشت زدہ ہوگئی تھیں‘ بمشکل خود کو کنٹرول کیا۔
’’کیا مسئلہ ہے… کیا ہوا…؟ روز تم لوگوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر بحث ہوتی ہے۔ ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیں تمہاری شادی کو اور مار پیٹ کی نوبت آگئی۔ آگے زندگی کیسے گزرے گی۔‘‘
’’آگے زندگی آپ لوگوں کے ساتھ گزاریں گے تو اچھی ہی گزرے گی نا‘ میرے ساتھ تو ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘‘ وہ نظریں صبوحی خاتون پر ڈال کر پھنکاری۔ ’’کیونکہ میرے اور ان کے درمیان آپ ہیں‘ ہم دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا موجب۔ میں ہٹ جائوں گی تو آپ دونوں کے بیچ کوئی نہیں آئے گا۔‘‘
’’اے… لو…‘‘ وہ سٹپٹا گئیں۔ ’’کیا میں نے سکھا کر بھیجا تھا کہ یہ تم سے آکر لڑے۔ ارے قسم لے لو میں نے کبھی اسے کوئی پٹی پڑھائی ہو۔‘‘ آنسوئوں سے آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’بیٹا ماں کی محبت میں آکر بیٹھتا ہے تو کیا یہ میں کہتی ہوں کہ میرے پاس آکر بیٹھے۔ آج بھی سر میں درد کی شکایت لے کر آیا تو میں نے سر میں تیل کی مالش کردی کہ سکون مل جائے گا۔ جب سے شادی ہوئی ہے اس کی ساری فرمائشیں اس کے منہ سے خود ہی نکلتی ہیں۔ کیا میں ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھاتی ہوں۔‘‘ بیٹے کی ہمدردیاں بٹورنے کے سارے گُر سے واقف تھیں وہ۔
’’تمہاری شکایت تو دور کی بات‘ میں تو اپنے پاس سے اسے اٹھاتی ہی رہتی ہوں کہ بہو انتظار کررہی ہوگی ‘ جائو لیکن یہ سنتا نہیں ہے۔‘‘
’’میں تو کہتی ہوں آپ کو ان کی شادی کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ناحق شوہر بنادیا ہے آپ نے۔‘‘ وہ سر پکڑ کر باقاعدہ رونے لگیں۔
’’امی صحیح کہہ رہی ہے یہ‘ شادی کی ضرورت تو تھی لیکن اس حاسد عورت سے نہیں۔ کاش میں آپ کی پسند کو ہی ترجیح دے لیتا‘ آج کم از کم میں سکون سے تو رہتا۔‘‘ کھولتے دماغ پر ایک اور ضرب لگی۔
’’او… و… آگئے نا اپنی حسرت نا تمام کی گرفت میں‘ تبھی میں کہوں میرا شوہر جو میری ہی کسی خوبی سے واقف کیوں نہیں ہوتا۔ میری کوئی بھی خوبی اسے بھاتی کیوں نہیں۔‘‘ وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔
’’تم عہد رفتہ کی محبت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہو تو سن لو میری زندگی میں بھی کوئی تھا۔ صرف اور صرف ماں باپ کی عزت کی خاطر ان کی رضا میں ہامی بھری میں نے۔ اپنے تئیں اس نے ساری نا انصافیوں کا بدلہ لے لیا تھا۔‘‘ وہ حیرت سے مڑا تھا۔ صبوحی خاتون آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ثمرن نے اسے حیرت سے دیکھا کہ جیسے اس کے سامنے گندگی کا ڈھیرا پڑا ہو۔
’’پتا چل گیا نا آپ کو کہ بھائی بھابی کے درمیان تنازعہ کی اصل وجہ کیا ہے۔ جھوٹ موٹ آپ کو بدنام کررہی تھیں امی! پرانی محبت کے سحر میں گھل رہی تھیں۔‘‘ اب کے ثمرن نے زبان کھولی۔
’’توبہ… توبہ یہ کیسی بے حیا لڑکی ہے کہ اپنے شوہر اور سسرالی رشتوں کے آگے حقیقت تو کھول ہی رہی ہے ساتھ پرانی عاشقی کا پٹارہ بھی خالی کررہی ہے۔‘‘ پر کا پرندہ بن چکا تھا۔ وہ مطمئن تھی اب ہر بات کی توقع تھی اسے۔
’’تو… تم نے یہاں شادی کیوں کی‘ کوئی زبردستی تھی کیا تمہارے ساتھ یا میری ماں نے جوتے گھسا دیئے تھے تمہاری دہلیز پر۔ یا وہ کوئی لُچا لفنگا تھا کہ تمہارے ماں باپ نے میرے سر منڈھ دیا اسے ترجیح دینے کے بجائے۔‘‘نہیں تھیں بلکہ اس کے گرد جال کا ایسا تانا بانا تھا جو گرفت میں کرنے کے لیے بُنا جارہا تھا اور سب کے سب ان کے حق میں بول رہی تھیں جیسے اس سے کوئی واسطہ نہ ہو۔
ساری تعریفیں اور ہنسی منہ دکھاوے کی تھیں‘ ان لوگوں کا باطن کچھ اور تھا۔ وہ خاموشی سے نیچے اتر گئی۔
سارے سوالوں کا جواب آج مل گیا تھا۔ عنبر چچی سسرال سے الگ کیوں ہوئی تھیں؟ انہوں نے کیا کیا تھا؟ اس سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا اسے بس اپنی زندگی کو دیکھنا تھا۔ اس ایک ڈر کے لیے صبوحی خاتون میاں بیوی میں دوری بڑھادینا چاہتی تھیں‘ اسے تو گھر والوں نے یہ سکھایا ہی نہیں تھا کہ شوہر کو کیسے قابو میں کرتے ہیں۔ بہت دیر بعد وہ نیچے آئیں تو اسے کمرے میں دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
’’تم… کب آئیں؟‘‘ پیچھے سب لوگ بھی تھے وہ جان بوجھ کر بیڈ پر بکھری اپنی چادر تہہ کرنے لگی۔
’’ابھی آئی ہوں۔ آج گرمی بہت ہے۔‘‘ اس نے خوامخواہ پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔
’’جائو ثمرن بھابی کے لیے شربت لے کر آئو‘ فرخ نہیں آیا؟‘‘ انہوں نے ٹٹولتی نگاہوں سے اسے تاڑا۔
’’نہیں! وہ کام میں مصروف تھے‘ میں خود چلی آئی۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیسے اپنے دل کو قابو میں کرے۔کیسے اپنے اندر کی تلخی کو چھپائے‘ ڈرامہ باز تو تھی نہیں۔ جذباتیت بس کوٹ کوٹ کر بھری تھی کہ صاف صاف سامنے والے کے منہ پر سب کچھ اگل دیتی ۔ آج بھی لگ رہا تھا چیخ چیخ کر سب کو بتادے کہ تم لوگوں کی اصلیت کھل کر میرے سامنے آگئی ہے۔ تم لوگوں کی محبت‘ مکرو فریب کا ایک ایسا پردہ ہے جس کے پیچھے تم لوگوں کے دوسرے چہرے چھپے ہیں۔
رات کو اس بھید کا بھی پتا چل گیا جب فرخ سے ایسے ہی باتوں میں باتوں اس نے پوچھ ڈالا کہ کیا عروبہ کا رشتہ آپ کے لیے مانگا تھا امی نے۔
’’ہاں! تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’یہ کوئی چھپنے کی بات ہے بھلا‘ جہاں لڑکے لڑکیاں ہوتے ہیں وہاں اس قسم کی بات عام ہوتی ہیں۔ حیرت کی بات تو بس یہ ہے کہ آپ نے انکار کیوں کردیا۔ وہ آپ کی خاندانی لڑکی تھی‘ آپ کی فیملی کے تمام اصول و قواعد کو سمجھنے والی اور شادی کے بعد یقینا پاسداری بھی کرتی پھرانکار کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’کیوں! میں انکار کا حق نہیں رکھ سکتا کیا‘ یا میری کوئی مرضی نہیں تھی؟‘‘
’’جواز تو ہونا چاہیے۔‘‘
’’میری اس کی عمر میں بہت فرق تھا تمہیں نظر تو آرہا ہوگا۔‘‘ وہ دو ٹوک بولا۔
’’جہاں اتنی خوبیاں ہوں وہاں دس بارہ سال کے فرق کا بہانہ بہت کم ہے۔ مجھے بھی تو آپ نے نہیں دیکھا تھا لیکن ماں کی پسند پر فوراًاقرار کیوں کردیا ۔ مجھ سے چھپانے کا کیا فائدہ فرخ! تمام حقیقت ایک ایک کرکے آشکار ہورہی ہیں۔ ایک روز یہ بھی حقیقت کھل جائے گی خوامخواہ ہم دونوں کے بیچ ایک دوسرے کو نہ سمجھنے کا پردہ حائل ہوجائے گا۔ میں بیوی ہوں آپ کی‘ کون سا میں سب کے سامنے اس حقیقت کو کھولوں گی۔ عروبہ میری نظر میں بہترین لڑکی ہے۔ خوب صورتی اور خوش اخلاقی تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے‘ سب سے بڑھ کر امی کی پسند ہے۔‘‘
’’ہم کوئی اور بات نہیں کرسکتے۔ تم زبردستی مجھے نہ کریدا کرو اور یہ جو تم ہر بات کو ہوا بنا کر سر پر سوا کرلیتی ہو نا اس سے ذرا چھٹکارا پائو۔ یہ ٹینشن نہ تمہیں سکون سے رہنے دے گی نہ مجھے۔‘‘ بول کر اس نے منہ پھلا لیا۔
’’لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں‘ میری زندگی میں بچھی ننگی تاریں ہیں جہاں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غلط قدم اٹھ گیا تو میری موت تیار کھڑی ہے۔‘‘ وہ سوچ کر رہ گئی پھر اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ جہاں بدگمانی آجائے وہاں جھگڑے خودرو پودے کی طرح بڑھتے ہیں۔
صبوحی خاتون کو عدم تحفظ کا احساس چاٹ گیا۔ ان کے اکلوتے بیٹے پر حکمرانی کا شوق اس کے نوخیز ارمانوں کو اجاڑ بیٹھا۔ وہ تو کسی کو کسی سے جدا کرنے کا شوق لے کر ہی نہیں آئی تھی سب کے خود ساختہ خوف نے زندگی کی ہری بھری کھیتی میں سیم و تھور پیدا کردیئے تھے۔ اب اسے صبوحی خاتون اچھی لگتیں نا ان کے اہل خانہ۔ سب کے سب ایک لڑی میں پروئے نظر آتے۔ ضرورتاً بات کرلیتی بلکہ کتنے سوالوں کا جواب رکھائی میں دیتی اندر بڑھ جاتی۔
صبوحی خاتون کی پیشانی پر بل پڑ جاتے اس کے اطوار دیکھ کر جس کام کا دل ہوتا کرتی‘ جس کا نہیں ہوتا سر درد کا بہانہ بنا کر کمرہ بند کرلیتی۔ اب تو اس کا مزاج دیکھ کر نائمہ‘ عروبہ‘ ثمرن بھی دور ہی رہتیں۔ باتوں میں سرد مہری بڑھ گئی تھی۔
’’اپنی اصلیت دکھانی شروع کردی بھابی نے‘ کب تک مسکراہٹوں بھری زندگی گزارتیں۔‘‘ اس نے ثمرن کو کہتے سنا۔ دل تو چاہ رہا تھا نکل کر کہے میری مسکراہٹ تو تم لوگوں کے دوغلے رویئے نے ختم کردی‘ ورنہ میں کب ایسی گندی سوچ لے کر آئی تھی کہ اپنے شوہر پر حکمرانی کروں گی۔ میں نے تو سوچا تھا بیٹے کو بیٹا ہی رہنے دوں گی۔ شوہر کو اپنائوں گی‘ بھائی کی قدر بہنوں کی نظر میں بڑھائوں گی لیکن
جب شوہر میرا نہیں ہوسکا تو باقی رشتوں کا کیا کروں۔ اس نے آنسوئوں کو بہنے دیا۔
اس دن تو حد ہی ہوگئی‘ جب رات ایک بجے وہ آکر ٹی وی آن کرکے بیٹھا تھا
’’بیویاں مسکراہٹوں سے شوہر کے سارے دن کی تھکن اتار دیتی ہیں‘ ایک تم ہو مزید میرا موڈ خراب کررہی ہو۔‘‘
’’کیوں! امی کی محبت نے تھکن اتاری نہیں جو میرے آگے اس شکوے کی نوبت آگئی۔‘‘ کرخت لہجے پر اس نے بے ساختہ دیکھا۔
’’تم سدا میری ماں کی آگ میں خود بھی جلنا اور مجھے بھی جلانا۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم اتنی حاسد لڑکی ہوگی۔ ایک ماں کی محبت سے جلتی ہو۔ بہن کے ارمان بھرے مان پر حسد کرتی ہو۔‘‘
’’توقعات پوری کب ہوتی ہیںفرخ صاحب! کبھی اپنی بیوی کی تمنائوں کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھیے کہ اس کی طلب کیا ہے کب تک ماں بہن کی جھوٹی آرزوئوں کے پیچھے بھاگیں گے۔ کیا میرے دل کی ساری طلب پوری ہوتی ہے جو میں آپ کے ہر تقاضے کوپورا کروں گی۔‘‘
’’کیا کمی ہے تمہیں یہاں؟ جو میری ماں بہن کو جھوٹا بنا رہی ہو۔ بن گئیں روایتی بہو جو سسرال والوں کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ شوہر کو بھی بے سکونی کی زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔
’’کمی کی بات کررہے ہیں آپ‘ یہاں ہے ہی کیا… یہ جو عالیشان گھر ہے نا اور رشتوں ناتوں کی کھوکھلی دیواریں ہیں یہ فریب ہے فریب… جزوی رشتوں کو ساتھ لے کر چلنے والے بنیادی رشتوں کو جو پکڑنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں تخت‘ تختہ نہ بن جائے‘ اپنی پیدائش اور تربیت پر مضبوطی کا احساس نہیں‘ احساس ہے تو بس اس کا کہ تیس سالہ محبت کو ایک لڑکی آکر تیس دن میں برباد نہ کردے۔ اتنے کچے احساس کے دھاگوں سے بندھی ہیں امی!‘‘ وہ چیخ پڑی۔ ایک زناٹے دار تھپڑ نے اس کا منہ سرخ کردیا۔ دونوں ماں بہن بھاگی ہوئی آئیں۔ حریم کی سرخ آنکھوں سے ایک لمحے کو تو دونوں وحشت زدہ ہوگئی تھیں‘ بمشکل خود کو کنٹرول کیا۔
’’کیا مسئلہ ہے… کیا ہوا…؟ روز تم لوگوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر بحث ہوتی ہے۔ ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیں تمہاری شادی کو اور مار پیٹ کی نوبت آگئی۔ آگے زندگی کیسے گزرے گی۔‘‘
’’آگے زندگی آپ لوگوں کے ساتھ گزاریں گے تو اچھی ہی گزرے گی نا‘ میرے ساتھ تو ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘‘ وہ نظریں صبوحی خاتون پر ڈال کر پھنکاری۔ ’’کیونکہ میرے اور ان کے درمیان آپ ہیں‘ ہم دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا موجب۔ میں ہٹ جائوں گی تو آپ دونوں کے بیچ کوئی نہیں آئے گا۔‘‘
’’اے… لو…‘‘ وہ سٹپٹا گئیں۔ ’’کیا میں نے سکھا کر بھیجا تھا کہ یہ تم سے آکر لڑے۔ ارے قسم لے لو میں نے کبھی اسے کوئی پٹی پڑھائی ہو۔‘‘ آنسوئوں سے آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’بیٹا ماں کی محبت میں آکر بیٹھتا ہے تو کیا یہ میں کہتی ہوں کہ میرے پاس آکر بیٹھے۔ آج بھی سر میں درد کی شکایت لے کر آیا تو میں نے سر میں تیل کی مالش کردی کہ سکون مل جائے گا۔ جب سے شادی ہوئی ہے اس کی ساری فرمائشیں اس کے منہ سے خود ہی نکلتی ہیں۔ کیا میں ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھاتی ہوں۔‘‘ بیٹے کی ہمدردیاں بٹورنے کے سارے گُر سے واقف تھیں وہ۔
’’تمہاری شکایت تو دور کی بات‘ میں تو اپنے پاس سے اسے اٹھاتی ہی رہتی ہوں کہ بہو انتظار کررہی ہوگی ‘ جائو لیکن یہ سنتا نہیں ہے۔‘‘
’’میں تو کہتی ہوں آپ کو ان کی شادی کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ناحق شوہر بنادیا ہے آپ نے۔‘‘ وہ سر پکڑ کر باقاعدہ رونے لگیں۔
’’امی صحیح کہہ رہی ہے یہ‘ شادی کی ضرورت تو تھی لیکن اس حاسد عورت سے نہیں۔ کاش میں آپ کی پسند کو ہی ترجیح دے لیتا‘ آج کم از کم میں سکون سے تو رہتا۔‘‘ کھولتے دماغ پر ایک اور ضرب لگی۔
’’او… و… آگئے نا اپنی حسرت نا تمام کی گرفت میں‘ تبھی میں کہوں میرا شوہر جو میری ہی کسی خوبی سے واقف کیوں نہیں ہوتا۔ میری کوئی بھی خوبی اسے بھاتی کیوں نہیں۔‘‘ وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔
’’تم عہد رفتہ کی محبت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہو تو سن لو میری زندگی میں بھی کوئی تھا۔ صرف اور صرف ماں باپ کی عزت کی خاطر ان کی رضا میں ہامی بھری میں نے۔ اپنے تئیں اس نے ساری نا انصافیوں کا بدلہ لے لیا تھا۔‘‘ وہ حیرت سے مڑا تھا۔ صبوحی خاتون آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ثمرن نے اسے حیرت سے دیکھا کہ جیسے اس کے سامنے گندگی کا ڈھیرا پڑا ہو۔
’’پتا چل گیا نا آپ کو کہ بھائی بھابی کے درمیان تنازعہ کی اصل وجہ کیا ہے۔ جھوٹ موٹ آپ کو بدنام کررہی تھیں امی! پرانی محبت کے سحر میں گھل رہی تھیں۔‘‘ اب کے ثمرن نے زبان کھولی۔
’’توبہ… توبہ یہ کیسی بے حیا لڑکی ہے کہ اپنے شوہر اور سسرالی رشتوں کے آگے حقیقت تو کھول ہی رہی ہے ساتھ پرانی عاشقی کا پٹارہ بھی خالی کررہی ہے۔‘‘ پر کا پرندہ بن چکا تھا۔ وہ مطمئن تھی اب ہر بات کی توقع تھی اسے۔
’’تو… تم نے یہاں شادی کیوں کی‘ کوئی زبردستی تھی کیا تمہارے ساتھ یا میری ماں نے جوتے گھسا دیئے تھے تمہاری دہلیز پر۔ یا وہ کوئی لُچا لفنگا تھا کہ تمہارے ماں باپ نے میرے سر منڈھ دیا اسے ترجیح دینے کے بجائے۔‘‘
ماں باپ کا خیال آتے ہی بہت بڑے خطرے کا احساس ہوگیا تھا کہ اپنے ہاتھوں ہی کسی کنویں میں گر گئی تھی وہ۔ بہت دنوں کی ٹینشن نے زبان سے یہ کیا نکلوادیا تھا۔
’’ارے… دھکے دے کر نکال اسے فرخ! بے غیرتی کی پوٹ کو جانے دے‘ اپنے عاشق کے پاس جس کی یاد میں کھوکر یہ تجھ سے لڑتی ہے اور ہمیں ذلیل کرتی ہے۔‘‘ ڈر کے بے لگام گھوڑے کو مضبوط لگام مل گئی تھی اب تو صبوحی خاتون جس طرح چاہے اسے موڑتیں اور قہقہہ لگاتیں۔
’’استغفار…ہمیں تو خبر ہی نہیں تھی اتنے خوب صورت چہرے کے پیچھے ایک مکروہ حقیقت ہے۔ بُلا اس کے ماں باپ کو پہلے تو انہیں ذلیل کروں گی کہ کیوں دھوکا دیا ہمیں‘ جو اپنی داغدار بیٹی کا پیوند ہمارے صاف شفاف خاندان میں جوڑ دیا۔ بہت شریف بنے پھرتے تھے نا‘ ظاہر ہے عیار ماں باپ کی بیٹی بھی عیار ہی ہوگی نا۔ ایسی خوب صورتی پر لعنت! ارے میری آنکھوں پر بھی اس کی معصوم صورت کی پٹی ایسی بندھی تھی کہ ایک دو ہی پھیرے میں رشتہ پکا کر بیٹھی۔‘‘
’’میرے ماں باپ کو کچھ مت کہیں‘ انہیں کچھ خبر نہیں۔‘‘ اب وہ گڑبڑا کر بیڈ پر بیٹھتی چلی گئی۔
’’کیوں ایسے ماں باپ کو کیوں نہ کچھ کہیں‘ جن کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اولاد جو چاہے کرتی پھرے۔‘‘
’’امی اب کچھ کہنے سننے کا وقت نہیں رہا۔ بلائیں اس کے ماں باپ کو فون کرکے اور اسے ان کے حوالے کردیں۔‘‘ فرخ شکست کھائے جواری کی طرح بیٹھا تھا۔ آنکھیں خالی خالی دیواروں کو دیکھ رہی تھیں‘ لب بھینچ گئے تھے۔ مٹھیاں فوم میں دھنس گئی تھیں۔
’’ماں باپ ہی نہیں‘ اس کا پورا خاندان آئے گا اور میرا بھی خاندان اکٹھا ہوگا تاکہ ہماری جگہ ہنسائی کا اعتراف وہ کریں‘ لڑکی ان کے حوالے کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ بڑی بات تو ہماری رسوائی کی ہے۔‘‘ اس کا رواں رواں کانپ گیا تھا۔ اب کیا ہوگا؟ سائیں سائیں دماغ میں صرف آندھیاں چل رہی تھیں۔ اپنے ہاتھوں بہت بڑی مصیبت کو دعوت دے دی تھی اس نے۔ انسان کی ہرکمی‘ ہر خامی برداشت ہوجاتی ہے لیکن کردار کی ذرا سی بھی چوک بہت بڑے خسارے کو دعوت دیتی ہے۔
صبوحی خاتون نے تمام رشتہ داروں کو بلوالیا۔ امی نے تو آتے ہی تھپڑوں کی بارش کردی۔ ابو کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
’’تم نے اتنی بڑی بات بولنے کی جرأت کیسے کی۔ بڑھاپے میں سر میں خاک ملوانا چاہتی ہو کیا؟ ارے بولتے وقت ہماری عزت کا بھی خیال نہیں آیا۔ خود کو تو چھرا گھونپا ہی ہمیں بھی لہولہو کردیا۔‘‘ بھابی نے بیچ بچائو کرایا۔
’’امی بس کریں‘ دیکھیں اس کی حالت‘ کیا اس پر آپ کو اعتماد نہیں‘ اس نے کہا نہیں اس سے کہلوایا گیا ہے۔ کوئی تو محرک ہے اس کے پیچھے ورنہ حریم ایسی نہیں ہے۔‘‘ سدا کی ہمدرد بھابی نے اسے سینے سے لگا کر مزید تھپڑوں سے بچایا اور شعلہ بار نگاہوں سے سب کو دیکھا۔
واہ… یہاں تو حمایتی بھی کھڑے ہیں بجائے اپنی ندامت کا اظہار کرنے کے ہم لوگوں کو زیر بار کرنا چاہ رہی ہیں محترمہ!‘‘ بڑی ثانیہ چچی کی پھول برساتی زبان اس وقت انگارے اگل رہی تھی۔ لگ ہی نہیں رہا تھا یہ ہر وقت کی ہنستی مسکراتی خاتون ہیں جس کی بات بات پر سب قہقہے لگاتے تھے‘ محفلوں کی جان تھیں۔
بھابی کی زبان کو جیسے بریک لگ گیا اور کسی نے کیا حمایت میں بولنا تھا۔ بات ہی ایسی تھی کہ سب خاموش کھڑے تھے۔ آنسوئوں سے اس کا چہرہ تر ہورہا تھا۔
’’بیٹا! کیوں کیا تم نے ایسا بولو… ہم تو جانتے ہیں کوئی نہیں تھا تمہاری زندگی میں ورنہ ان لوگوں کو دھوکا کیوں دیتے‘ اب تمہارے منہ سے یہ بات نکل ہی گئی ہے تو تم خود ہی تصدیق یا تردید کرو۔ ورنہ میری زبان پر تو کبھی یہ لوگ یقین نہیں کریں گے۔‘‘
ابو کو اس کی حالت پر رحم آگیاتھا جس بیٹی کو سدا مسکراتے ہوئے دیکھا تھا‘ نہ لڑتے نہ جھگڑتے نہ بے جامن مانی کرتے۔اس کی زندگی میں آخر ایسا کیا در آیا تھا کہ اپنے آپ کو حقیر بنانے پر اتر آئی تھی۔
’’زیادہ معصوم بننے کی ضرور ت نہیں قیوم صاحب! جو بولنا تھا یہ بول چکی اب اپنے گھرمیں رکھ کر خود ہی اس کی صفائی سنتے رہیں۔ ہمیں بخشیے۔ اپنے حصے کی ذلالت ہمیں بھگتنے دیں‘ کس کس کو کیا کیا جواب دینا پڑے گا یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ کبھی کسی بہو نے ایسا نہیں کیا تھا اس خاندان میں اس نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ جانے کون سی منحوس گھڑی تھی جب اسے دیکھ کر میں نے ہامی بھری تھی۔
’’دیکھیں بہن! ہمیں اپنی صفائی کا کچھ موقع تو دیں۔‘‘ ابو لجاجت سے بولے‘ اس روپ میں تو کبھی اس نے انہیں دیکھا ہی نہیں تھا۔
رضا کے لیے اس کا رشتہ آیا ضرور تھا ان سب نے بارہا چاہا کہ یہ رشتہ ہوجائے لیکن اس کے لیے حریم نے خود انکار کیا تھا۔ آپ جو چاہے قسم لے لیں‘ میں خود اس لڑکے کو بلا کر لاسکتا ہوں۔‘‘
’’تو پھر کیا‘ ہم نے اسے مجبور کیا کہ ایسا بولے یہ‘ یا خود سے الزام لگارہے ہیں۔ ہمیں اب نہ کچھ سوچنا ہے نہ سمجھنا آپ اسے لے کر جائیں‘ فیصلہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔‘‘
کزن پسند تھی تو کیوں نہیں کی تھی شادی اس سے‘ بیوی کو لاکر بھی اس کے حق اور فرائض سے بے گانہ ہوگیا‘ کسی نے زبردستی تو نہیں کی تھی اس کے ساتھ بہو کو بسانے کے لیے دل و دماغ وسیع کرنے پڑتے ہیں ورنہ گھر یونہی اجڑ جاتے ہیں اور بیٹا عقل والا ہو تو بیوی کے حقوق کی پاسداری بھی کرسکتا ہے ورنہ بہت مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘ امی نے ساری بات سن لی تھی آگے بڑھی تھیں‘ اسے ساتھ لگانے کو۔
’’غلطی تو تم نے کرہی لی بیٹا!‘‘ وہ نکتے کی تلاش میں تھے کہ تمہاری خامیوں کا افسانہ بنائیں‘ تم نے تو قلم کاغذ ہی ان کے ہاتھ میں تھمادیا‘ اب کون کرے گا تمہاری بے گناہی کا اعتبار۔
’’بات کچھ بھی نہیں‘ فرخ کو کیا ضرورت تھی عروبہ کا ذکر بیچ میں لانے کی ایک تو بیوی کے مزاج کو سمجھا نہیں۔ اسے وقت نہیں دیا‘ ماں بہن کے پلّو سے بندھا رہا دوسرے پرانی محبت کا ذکر چھیڑ دیا۔ ایسے حالات بہت بے راہ رو کردیتے ہیں انسان کو۔ حریم بھی گھریلو سیاست سے واقف ہی کہاں ہوگئی ہے بس ڈیڑھ مہینے کی شادی شدہ زندگی سے اس کے مزاج کا بچپنا چلا جائے گا کیا…؟‘‘ بھابی آگ بگولہ ہورہی تھیں۔
’’رہنے دو اپنے خاندان کے حصار میں گم اسے۔ ان حالات میں یہ کہاں تک جنگ لڑ سکے گی تنہا‘ ابو! سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ جب تک فرخ کو خدا عقل نہیں دے گا‘ حریم کی زندگی کبھی نہیں سنور سکتی ہے۔ ابھی پوری زندگی ہے‘ کیسے بتائے گی اپنے آپ کو پامال کرکے یہ۔ رونے کے بجائے حقیقت کو فیس کرو۔ فرخ لوٹ آیا تو خدا کا شکر ادا کرنا ورنہ قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلینا۔ ایسے بے شرم لوگوں کے آگے جھکنے سے بہتر ہے خدا سے دعا مانگو۔‘‘ بھابی کے فیصلے کے آگے سب چپ ہوگئے۔ ’’اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ معافی تلافی کے تمام راستے انہوں نے خود بند کردیئے تھے۔ غلطی کو غلطی ماننے پر تیار ہی نہیں تھے۔ ‘‘
صبوحی خاتون کو کئی مرتبہ ابو نے فون پر سمجھانے کی کوشش کی انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا۔
’’فرخ کے سامنے ساری صفائیاں پیش کیجیے اگر اس کے اندر شرم نہیں ہوگی تو ضرور آپ کی بات مان لے گا۔‘‘
اور فرخ تو نمبر دیکھ کر ہی فون آف کردیتا۔
طرح طرح کی چہ مگوئیاں لوگوں کی زبانی سننے کو ملتیں۔ بھابی کی چھوٹی بہن ثمرین کے ہی کالج میں پڑھتی تھی۔ اس نے ایک روز آکر بتایا کہ ثمرین اور عروبہ اپنے گروپ والوں کو بتارہی تھیں کہ ہماری بھابی نے تو کہیں ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
…٭٭٭…
وہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح اجڑ کر رہ گئی تھی۔ اتنے دنوں میں احساس ہوا تھا۔ فرخ جتنا اس کی طرف سے بے پروا رہا تھا اسے اس سے اتنی ہی محبت ہوچکی تھی۔ یہ چاہت بھی خودرو پودے کی طرح ہوتی ہے نہ زرخیزی دیکھتی ہے نہ نمی سے اسے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ ریگستان کے کسی کونے پر بھی لہلہا کر اپنے آپ کو منوالیتی ہے۔
رمضان کی آمد آمد تھی سب گھر والے اس کی تیاری میں لگے ہوئے تھے اور وہ بس چپکے چپکے ہی اس کے لوٹ آنے کا معجزہ ہوجانے کی دعا مانگتی وہ تو نہیں لوٹا لیکن ایک دن عنبر چچی اچانک چلی آئی تھیں۔ گھر والے تو حیران تھے ہی وہ خود پریشان ہو اٹھی کہ وہ اس کی حالت پر سب کی طرح ہنسنے آئی ہیں یا جھوٹا تاسف کا اظہار کرنے۔ آخر وہ بھی سسرالی ہی تھیں۔ چہرے پر نرم بھیگی سی مسکراہٹ لیے وہ بھابی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آبیٹھی تھیں۔ بے شک وہ تمام چچیوں سے زیادہ حسن کی مالک تھیں۔ اپنی شادی میں بس رسموں کے وقت انہیں سرسری دیکھا تھا اور مووی میں بھی خال خال ہی نظر آئی تھیں۔ کبھی انہیں سسرالی گیدر نگ میں بھی نہیں دیکھا تھا جو اس کے گھر آئے روز جمتی۔
’’میں آپ لوگوں سے کیا بات کروں ؟ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ کھل کر ملنے کی مسرت کا اظہار بھی نہیں کرسکتی۔ پہلے حریم سے ملوں گی اگر آپ اجازت دیں تو؟‘‘
’’ضرور ملیے! لیکن اس کے زخموں کو ہرا مت کرکے جایئے گا‘ بڑی مشکلوں سے اس کے آنسو تھمے ہیں۔‘‘ امی ان لوگوں سے بہت تلخ ہوچکی تھیں۔
’’ایسا کوئی ارادہ میں لے کر نہیں آئی۔ لوگوں کے دکھوں کو میں محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔‘‘ ان کا لہجہ بھی اتنا ہی ٹھنڈا تھا۔ حریم کسی بے جان بُت کی طرح ان کے سامنے بیٹھی تھی۔
’’پتا نہیں آپ میری بے بسی کا تماشا دیکھنے آئی ہیں یا ہمدردی کا اظہار کرکے اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں‘ آخر سب سے الگ تو نہیں ہوں گی نا آپ۔‘‘ وہ اس کے لال بھبھوکا چہرے کو دیکھے گئیں۔
’’ایسی کوئی خواہش ہوتی تو سب کے ساتھ ہی تماشا دیکھتی خدا کا خوف کیے بغیر۔ میں تو سب کو ایک طرف چھوڑ کر تمہارے پاس آئی ہوں تمہارا دکھ بانٹنے بتائو حریم تم نے ایسا کیوں کیا؟ کوئی لڑکی اپنی زبان سے ایسا بھی بول سکتی ہے کیا؟‘‘ انہوں نے اس کے آنسو صاف کیے۔’’اگر اپنی خوشی سے ایسا کہتی تو آج یہ حالت تمہاری نہیں ہوتی۔‘‘
ان کا انداز‘ لہجہ کی پھوار سے بڑھ کر حریم پر اعتماد کے اظہار نے انہیں سب کچھ بتادینے پر مصر کیا تھا کہ وہ ایک ایک لفظ بتاتی گئی جیسے سامنے کوئی سسرالی نہیں۔ ماں بہن بیٹھی ہیں وہ ایک ایک لفظ ایسے سن رہی تھیں گویا کوئی مسیحا اپنے مریض کے بول پر ہی نہیں اس کے تکلیف دہ تاثرات پر بھی نظر رکھتا ہے۔
انہوں نے سب سن لینے کے بعد گہری سانس لی تھی‘ بہت سا وقت خاموشی کی نذر ہوگیا تھا۔

’’تو تم نے ہار مان لی اپنے ہی اوپر سارے الزام کو سچ ثابت کرنے کے لیے من گھڑت کہانی گھڑ لی۔ بجائے اس کے کہ حالات کو اپنے فیور میں کرتیں‘ خود حالات کے رحم و کرم میں بہہ گئیں۔‘‘
’’کیا کرتی؟ میرے ساتھ تو میرے شوہر کی بھی سپورٹ نہیں تھی۔ سب سے بڑا دکھ تو اسی بات کا تھا۔ آپ یہ بتائیں ان کی رشتہ دار ہوکر آپ میرے حق میں بولیں گی یا خلاف… یہ سب رام کہانی سن کر فائدہ؟ کیا کرلیں گی آپ؟‘‘
’’دیکھو! کیا کرتی ہوں میں‘ شاید خدا مجھے کچھ کرنے کے قابل بھی بنائے‘ میں خود تین بیٹیوں کی ماں ہوں۔ بُرا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ تم یہ بتائو فرخ سے محبت ہے تمہیں؟‘‘ انہوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا وہ نظریں چرا گئی۔
’’ایسی یک طرفہ محبت نے تو مجھے ڈبویا ہے۔‘‘
’’محبت ڈبویا نہیں کرتی پتوار بن جاتی ہے‘ دکھوں کے سمندر میں یقین رکھو۔ اچھا میں پھر آئوں گی۔ انہوں نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا تو ایک سکون کی لہر جیسے وجود میں سرایت کرگئی پھر دو تین دن ایسے ہی گزر گئے گھر والے بھی مخمصے میں پڑے ہوئے تھے کہ صبوحی بیگم اور ان کے گھر والوں جیسے طوفان کا سامنا یہ ہستی کیسے کر پائے گی لیکن اس روز سے حریم کی آنکھ میں آنسو نہیں آئے تھے‘ بس ایک انتظار سا لگا رہتا تھا۔ جیسے کسی پل وہ فرشتہ صورت دوبارہ آن ٹپکے گی اور واقعی وہ آگئیں۔
’’آج مجھے حریم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں پلیز ہمیں تنہائی دیجیے گا۔‘‘ وہ ایسے ہی شگفتگی سے بولتی تھیں کہ سب کی بولتی بند ہوجایا کرتی وہ اس کے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر ایک طرف رکھا بے شک ان کی آنکھیں بھی بے پناہ خوب صورت تھیں جو خوب صورت فریم والے چشمے کے اندر سے بھی اپنی دلکشی کا ثبوت پیش کرتیں۔ ’’آج میں اپنی کہانی تمہیں سناتی ہوں حریم! تم بور تو نہیں ہوگی لیکن میری کہانی میں تمہیں اپنا پن ضرور نظر آئے گا۔‘‘
’’میں آپ کی کسی بات سے بور نہیں ہوتی ہوں چچی!‘‘ بہت دنوں بعد وہ مسکرائی تھی۔
’’چلو ٹھیک ہے‘ پھر میں سناتی ہوں‘ صبوحی بھابی! جو تمہاری ساس ہیں انہیں حکمرانی کا شوق آج کا نہیں بہت پہلے کا ہے کیونکہ جٹھانیوں میں سب سے بڑی ہیں تو بھی ان کے اس شوق کو خوب ہوا ملی۔ ساس بھی اللہ جنت نصیب کرے‘ ضعیف تھیں۔ اس لیے انہیں سسرال میں لاتے ہی اپنے ساتوں بیٹوں کو ان کے سپرد کرکے خود کنارہ کش ہوگئیں۔ صبوحی بھابی نے سب کو خوشی خوشی سنبھالا دیا۔ ان کی اس خوبی کی تعریف کرنا بے جا نہ ہوگا کہ چھوٹے چھوٹے دیوروں کو کھلانا پلانا منہ دھلوانا بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں ان کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھتیں جو آج کل لڑکیوں میں شاذو نادر ہی دیکھنے میں ملتی ہیں۔ اب ان خوبیوں کے پیچھے ان کا خلوص تھا یا حکمرانی کا جذبہ یہ کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ ساس نے بھی ان پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا۔ ان کی یہ خوبی کھل کر تب سامنے آئی جب انہوں نے دیورانیوں کو گھر میں لانا شروع کیا۔ دیور پوری طرح ان کی مٹھی میں تھے تو دیورانیوں کو کیسے پیچھے چھوڑدیتیں۔ سب کی سب انہی کے رنگ میں رنگتی گئیں۔ کس سے کیسے کام نکلوانا ہے‘ ساس کی نظر میں کسے بہتر اور کسے بہتر ثابت کرنا ہے یہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ دیورانیوں نے بھی اپنی عافیت اسی میں جانی کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے بھلے سے پیٹھ پیچھے وہ اپنی جٹھانی کو کوسنے دیں۔‘‘
چہرے کی ملمع کاری سے تو حریم بھی اچھی طرح واقف ہوچکی تھی چپ بیٹھی سنتی رہی۔
’’مجھے ناپسند کرنے کی سب سے پہلی وجہ ان کی یہ تھی کہ میں صبوحی بھابی کی منتخب کردہ دیورانی نہیں بلکہ ساس کی پسند سے آئی بہو تھی۔ میں ان کی بھتیجی تھی اس لیے پھوپو نے مجھے بہت پہلے سے ذیشان کے لیے پسند کیا تھا۔ دوسری وجہ ناپسندیدگی کی یہ تھی کہ میں ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتی تھی بلکہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتی تھی۔ پتا نہیں بس بچپن سے ہی یہ خوبی مجھے ورثے میں ملی تھی اپنی اس عادت کی بناء پر میں نے نقصان بھی بہت اٹھائے لیکن کیا کروں مجھ سے دوغلی چال چلی ہی نہیں جاتی ہے۔ ذیشان کو میں نے ان کی گرفت سے اس لیے دور رکھا کہ جنہیں میں پسند نہیں وہ میرے شوہر کو بھی میرا نہیں ہونے دیں گی۔ میں نے صاف کہہ دیا بھابی کی گیدرنگ سے رات دو بجے اٹھ کر آنے کی ضرورت نہیں خوامخواہ میری بھی نیند خراب ہوتی ہے وہیں کسی کونے میں سوجایا کریں۔ انہیں فری ہینڈ دے دیا‘ میری اس چال کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں میری بے اعتنائی کھلنے لگی۔ میں نے تو اپنے دل کو ایسے ہی مضبوط کرلیا تھا کہ خوامخواہ کی چپقلش کا کوئی فائدہ نہیں‘ جو میرا ہوگا وہ میرا ہی رہے گا لیکن خدا نے میرے دل کی سن لی وہ میری قدر آہستہ آہستہ جاننے لگے اور یہ بھی کہ میں کس مزاج کی ہوں۔ میں رشتوں کی بے انصافی چاہتی ہی نہیں ہوں۔ ہر رشتے کے تقاضے کو مجھے پہچاننے تک کا حوصلہ بہت آہستگی سے ہوا‘ حریم تمہاری طرح جلد بازی میں آتی تو شاید میرا گھر بھی اجڑجاتا۔‘‘
’’پھر میری بیٹیوں نے زندگی میں آکر ہم دونوں کے درمیان رہی سہی دوری ختم کردی۔ یہی بات صبوحی بیگم کو اور میرے خلاف بھڑکاگئی کہ وہ ذیشان کو میرے خلاف نہیں کرسکیں پھر میری ان کی تعلیم کا فرق میں نے کبھی نہیں لاگو کیا وہی لوگ سر پر سوار کیے رکھتیں‘ ماحول اور سب سے بڑھ کر مزاج کے فرق نے انہیں مجھ سے بہت دور کردیا بس میرے صبر نے ذیشان کی محبت کی صورت میں پھل دے دیا۔ بہت طعنے سنے بہت طنز برداشت کیے۔ شاید عنبر جادو جانتی ہے میکے جاتی ہے وہیں سے تعویز گنڈے لے کر آتی ہے ورنہ ذیشان ایسا نہ تھا۔ ساس سے زیادہ وہ آہیں بھرتی‘ انہیں یہ نہیں معلوم کہ نیک نیتی خود سب سے بڑا جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتی ہے تو بدنیتی کی بولتی بند کروادیتی ہے۔ پالنے پوسنے سے زیادہ انسان کی نیت کا اس کی زندگی میں عمل دخل ہوتا ہے۔ احسان کرکے کسی فقیر کو بھی بھیک عطا کریں

گے تو وہ نیکی ضائع کردی جاتی ہے۔‘‘
’’تم نے نوٹ کیا ہے ہماری اکلوتی نند ان کے گھر کیوں نہیں آتی ہیں؟‘‘ اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔
’’انہیں بھی بس شادی کی مووی میں دیکھا تھا لیکن ان کی غیر موجودگی کو کبھی محسوس نہیں کیا۔‘‘
’’ہاں… وہ تو کبھی نظر نہیں آتیں۔‘‘
’’کیونکہ ان کے میاں بھی صبوحی بھابی کے بہت گرویدہ تھے ایک مرتبہ دونوں میاں بیوی کے درمیان کوئی تنازعہ ہوگیا تو بجائے معاملہ سلجھانے کے وہ نندوئی کی ناجائز باتوں کی حمایت میں بولنے لگیں تاکہ مرد کی نظر میں ان کی اچھائی بڑھ چڑھ کر ثابت ہو‘ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی لڑائی بہت بڑے معرکے کی صورت اختیار کرگئی۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوا میں بیچ میں آگئی ان کے گھر جاکر انہیں سمجھایا دونوں کو ایک دوسرے کی قدر کا احساس دلایا تب کہیں جاکر میری نند کا گھر بس پایا۔ سب تمہیں بتانے کا مقصد کسی کی برائی کو اچھالنا نہیں بلکہ تم خود ان کے ہر وصف سے واقف ہوچکی ہو۔ مقصد صرف یہ ہے کہ نامساعد حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ میرے ساتھ تو خیر دیورانی جٹھانی کی جنگ ہے لیکن تمہاری وہ ساس ہیں‘ تمہیں قدر کرنا پڑے گی‘ بہت حوصلے اور تحمل سے ہی فرخ کو اپنا بناسکتی ہو‘ ورنہ اس جنگ میں جہاں تم نے ہتھیار ڈال دیئے وہیں ہار تمہارا مقدر بن جائے گی۔ ہر رشتے کو پہچاننا سیکھو‘ دستبردار کسی سے نہ ہو۔‘‘
’’لیکن کیسے چچی! فرخ عروبہ کو پسند کرتے تھے جانے کیسے ان کی مجھ سے شادی ہوگئی۔ ایسے حالات میں میں باقی رشتوں کو کیا قدر دوں گی۔‘‘
’’کس نے کہا فرخ عروبہ کو پسند کرتا ہے؟ وہ بھی جذباتیت میں بول بیٹھا تھا لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے مرد کی جذباتیت پر مردانگی کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور عورت کی جذباتیت اس کے لیے الزام بن جاتی ہے۔‘‘
’’لیکن… یہ سب آپ کو کیسے پتا؟ فرخ کے دل کا حال آپ کیسے جانتی ہیں؟‘‘
’’’اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے عروبہ کو ٹھکرا کر تم سے شادی کی‘ جب کہ پورا گھر عروبہ کا دیوانہ ہے۔ فرخ عروبہ کو سخت ناپسند کرتا ہے‘ اظہار نہیں کرسکتا کہ خاندانی لڑکی ہے ایک ذرا سی بات پورے خاندان میں آگ بھڑکا سکتی ہے اس لیے بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔‘‘
’’عروبہ کا کردار مشکوک ہے‘ فرخ نے خود کئی لڑکوں کے ساتھ کبھی شاپنگ سینٹر میں کبھی آئسکریم پارلر میں دیکھا ہے۔ اسی لیے اس نے اپنی ماں کی پسند کو ریجیکٹ کرکے تمہیں اپنایا۔ وہ سب باتیں تو بس غصے میں کہی گئیں کچھ شیطانی لمحات کی کارستانی تھی۔ وہ تمہیں چاہتا ہے حریم! بس اظہار کرنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’اسی ایک خامی نے اسے تخت سے تختہ کا سزا وار بنادیا۔‘‘
’’کیسے یقین کرلوں چچی کیسے…؟ آپ تو خود ابھی جوان ہیں‘ شادی کو دس ہی سال ہوئے ہیں‘ کیا سمجھتی نہیں ہوں گی کہ مان اور عزتِ نفس کے بغیر ایک عورت کی زندگی کتنی کھوکھلی ہوتی ہے۔ ان سب کے بغیر کیسے سب کی عداوتوں کا بوجھ اٹھا سکتی تھی کچھ تو درکار ہوگا مجھے بھی اپنی مضبوطی کے لیے۔‘‘
’’صبر اور انتظار ہی تمہیں حوصلہ دے سکتے ہیں اور تمہاری محبت آہستہ آہستہ فرخ کو اپنا گرویدہ بناسکتی ہے‘ وعدہ کرو… تم حوصلہ نہیں ہارو گی۔ سب کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کا وصف سیکھو‘ دیکھنا حالات تمہارے حق میں بول اٹھیں گے۔ فرخ کے دل میں پنہاں محبت کو تم ہی اجاگر کرسکتی ہو۔ وہ دل کا بُرا نہیں‘ بس گھر والوں کی محبت اور بیوی کے حق میں توازن برقرار نہیں رکھ پایا ہے۔ وہ میرے پاس آتا ہے‘ مجھے سمجھتا ہے۔ جو اپنی چچی کو پہچاننے کی صفت رکھتا ہے وہ بیوی کو کیوں نہیں پہچانے گا؟‘‘
پے در پے حیرانیوں کا سلسلہ چل رہا تھا جن کے خلاف گھر والے تھے ان کو مان دیتا ہے ان کی مسیحا صفتی کو پہچانتا ہے۔
’’میں نے بہت سمجھایا ہے اسے‘ تم سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں لیکن اجڑے لوگوں کو آباد کرنے میں خدا جہاں میرا وسیلہ بنائے گا وہاں میں کھڑی ہوجائوں گی۔‘‘
’’فرخ تمہیں مان دے گا حریم! بس اپنا حوصلہ قائم رکھنا۔‘‘ انہوں نے اس کی آنکھ میں آئے آخری آنسو بھی پونچھ ڈالے۔
’’تم تیار ہونا اس گھر میں جانے کے لیے؟‘‘
’’خود سے تو گھر والے جانے بھی نہیں دیں گے جتنی تذلیل انہوں نے میرے ساتھ ساتھ میرے گھر والوں کی ہے‘ اس کے بعد کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے‘ پھر فرخ کا انتظار کرو۔ آہستہ آہستہ یہ مرحلہ بھی میں طے کر لوں گی۔ اب اپنی پیاری سی مسکان کا تحفہ مجھے دو تاکہ میں جائوں۔‘‘ وہ مسکرائیں تو اس کے چہرے پر بھی گلاب کھل اٹھے تھے۔
’’آپ جیسی عورت خضرِ راہ ہیں چچی! میری زندگی کو سنوار دیا آپ نے‘ اب آپ کے کہے ایک ایک لفظ کی پاسداری کروں گی میں۔ اگر آپ جیسی ایک عورت بھی ہر خاندان سے منسلک ہوگی تو وہ خاندان کبھی نہیں بکھرے گا۔ یہ دعویٰ ہے میرا…!‘‘
’’ضروری نہیں ہر عورت ہی ایک رنگ میں ڈھل جائے۔ حاسد‘ غاصب اور چغل خور کے روپ میں‘ کچھ عورتوں کو تو اپنا منفرد مقام بنانا چاہیے‘ خاندانی سیاست سے ہٹ کر‘ بھلے وقتی پریشانی ہو تو ہو۔ اتنی زیادہ تعریفیں ‘ باقی آئندہ وقتوں کے لیے اٹھا رکھو تم سے تو دوستی رہے گی ان شاء اللہ۔ اوکے‘ اللہ حافظ۔‘‘
…٭٭٭…
گھر والے بھی کاپا پلٹنے پر شکر گزار تھے ان کے کہ کوئی تو ان کی بات سمجھنے کے لیے کھڑا ہوا۔ مصلحت پسندی ہر ایک کو خدا ودیعت نہیں کرتا یہ تو اپنے نیک بندوں کے لیے ایک انعام ہے کہ خود بھی سکون سے رہتے ہیں اور دوسروں کی راہ سے بھی بے سکونی کے کانٹے چن دیتے ہیں۔
اب عید کے دن قریب آتے جارہے تھے اور اس کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا کہ اب تک نا تو چچی نے کوئی خبر لی نا فرخ آیا اب عید میں تین چار روز رہ گئے تھے کہ اچانک سے فرخ آگیا اسے لینے جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں اس نے کھل کر اسے رونے دیا۔
’’میں تو غلطی پر تھا‘ تم نے اس سے بڑی بھول کرلی۔ کیا سمجھوں اسے‘ تمہاری نادانی یا جذباتیت…؟‘‘
’’جو بھی تھا‘ سزا تو میرے پورے خاندان کو ملی۔ اپنے ماں باپ کو میں نے ہی رسوا کردیا۔‘‘
’’میں معافی مانگ چکا ہوں‘ سب سے باقی میرے گھر والوں کو اللہ ہدایت دے اور میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میں امی کے دل سے یہ ڈر نکال دوں گی فرخ! کہ میں ان کے اکلوتے بیٹے کو ان سے چھیننے آئی ہوں۔ اب اپنی محبت اور خلوص سے اس وسوسے سے باہر لانا ہے انہیں۔‘‘
’’تمہیں بھی میری طرف سے کوئی شکایت اب نہیں ہوگی۔اعتماد اور مان دوں گا تمہیں تاکہ کسی مقام پر تمہیں کسی کمی کا احساس نہیں ہو۔ حریم یہ وعدہ ہے میرا۔ اور اب عید میں بھی تین دن رہ گئے ہیں چلو اب گھر چلو…‘‘
’’امی ابو نے کیا کہا ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’سب نے مجھ پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے کہ آج لے جانا چاہوں تو کوئی مسئلہ نہیں اور عید تک تمہیں رہنے دوں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن میرا موڈ نہیں اب تمہیں چھوڑنے کا۔‘‘ وہ شرارتی ہوا۔
’’ہوں…!‘‘ اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کے بدلے بدلے انداز دیکھے‘ منزل بہت دور نہیں تھی۔
خوش گمانیاں خوش قسمتی میں بدلتی نظر آرہی تھیں لبوں پر دھیمی سی مسکان نے ہمیشہ کے لیے قبضہ کرلیا تھا۔
’’اور وہ کہاں ہیں؟ میری زندگی کے اندھیروں کو اجالا بخشنے والی۔‘‘ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ پری چہرہ‘ فرشتہ صفت ہستی نظر نہیں آئی تھیں جن کی بدولت آج وہ بے پایاں محبتوں کے احساس سے سرشار تھی۔ ایک اعتماد اس کے ساتھ تھا۔
’’ان کی بچیوں کے اسکول میں آج ’’یوم والدین‘‘ ہے۔ وہ وہیں گئی ہیں ۔ اتنی مصروفیت کے ساتھ دوسروں کے دلوں کا اتنا خیال رکھتی ہیں۔ ان کی بچیاں بھی ان ہی کی طرح نیک خصلت‘ معصوم اور پیاری ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ظاہر ہے گلاب کے پودے میں گلاب ہی اُگیں گے نا۔ کتنی خوش بُو ہو گی ان کے گھر آنگن میں۔ نیک سیرتی کی مہک اور چمک ہی الگ ہوتی ہے‘ ہے نافرخ!‘‘ اس نے تائید کے لیے اسے دیکھا۔
’’صحیح کہہ رہی ہو۔ نیک سیرتی غریب کے آنگن کو بھی نور عطا کردیتی ہے۔ اسے زیبائش و آرائشں کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
’’میری تمام عمر کی دعائیں ان کے ساتھ رہیں گی کہ خدا ان کی بچیوں کے لبوں سے مسکان کو کبھی جدا نہ کرنا۔ جہاں جہاں وہ قدم رکھیں وہیں وہیں پھول کھلیں۔ آمین‘‘
دل میں سرشاری ہی ایسی تھی کہ عنبر چچی کے لیے الفاظ بھی کم پڑر ہے تھے۔ ایسی عورتیں دنیا کے لیے ایک انعام ہوتی ہیں جو سب سے ہٹ کر کردار ادا کرتی ہیں۔ ہنر جانتی ہیں پتھروں میں پھول اگانے کا۔ نم آنکھوں میں مسکراہٹ کے جگنو بھرنے کا۔

میاں محمد اشفاق
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: بانٹتے چلو پیار از طلعت نظامی!!!

Post by اضواء »

بانٹتے چلو پیار v;g zub;ar ;fl;ow;er; شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اردو ناول”