سنہری دھوپ از ام مریم !!

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

سنہری دھوپ از ام مریم !!

Post by میاں محمد اشفاق »

سنہری دھوپ از ام مریم !!!

وہ تین دن کی دلہن چھت پر اکیلی کھڑی تھی‘ اس کے لمبے اور گھنے بال کمر تک آئے ہوئے تھے‘ چہرے اور گردن پر لمبی کھرنچیں تھیں جن سے رسنے والا خون وہیں جم کر کھرنڈ کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
وہ بے خیال سی آگے بڑھی اور منڈیر سے لگی جالی کے ساتھ آرکی۔ اب نگاہ کے سامنے ہل چلے ہوئے کھیت تھے۔ ہوا اچانک تیز ہوئی تو سامنے شہر جانے والی تارکول کی سڑک پر گردو غبار بگولوں کی صورت اڑتا نظر آنے لگا۔ گھر کی چار دیواری کے باہر مویشی بندھے تھے۔
ہل چلے کھیت میں ایک آدمی بغل میں کپڑے کی پوٹلی دبائے بیچ بو رہا تھا۔ جب کہ سفید لباس میں ملبوس ایک قدر آور شخص منڈر پر کھڑا ہاتھ اٹھا کر بیچ بوتے آدمی سے بات کررہا تھا۔ وہ قد آور شخص اس چھت پر کھڑی دلہن کا شوہر تھا۔ لڑکی کی نگاہ اس پر پڑی تو ایک دم اس کا دل بھر آیا اور ذہن پرجیسے کوئی ہیجان طاری ہوگیا۔ وہ ایک دم چیخی اور چیختی چلی گئی تھی۔ منڈر پر کھڑے آدمی نے قدرے چونکتے ہوئے پلٹ کر دیکھا۔ کچھ دیر چھت پر کھڑی روتی لڑکی کو گھورا پھر تیز تیز چلتا حویلی کی جانب آنے لگا اور حویلی میں داخل ہوکر دوڑتا ہوا لمحوں میں وہ آدمی چھت پر اس کے روبرو تھا۔
’’عبیر کیا تکلیف ہے تمہیں‘ ہاں بوبو…؟‘‘ اس نے قریب آتے ہی اس کا بازو کہنی سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا تھا‘ وہ جیسے ہوش میں آگئی اور آنسوئوں سے جل تھل آنکھوں سے اسے تکنے لگی۔
’’کیوں پاگل ہورہی ہو؟‘‘ کیسا لہجہ تھا‘ کڑا‘ بے زار اور سنگین‘ حالانکہ کبھی یہی لہجہ شہد ٹپکاتا تھا۔ زیادہ پرانی بات بھی نہیں تھی۔
’’نیچے چلو‘ اب اگر مجھے چھت پر نظرآئیں تو ٹانگیں توڑ کر رکھ دوں گا۔‘‘ جارحانہ انداز میں اسے دھکا دے کر سیڑھیوں کی جانب لاتے وہ تلخی سے بولا‘ اس کے چہرے پر کوئی نرمی یا ملائمت نہیں تھی۔
’’اسامہ… اسامہ!میری بات کا یقین کریں‘ آپ سے میری پہلی شادی ہے اور میں باعصمت ہوں‘ آپ کو…‘‘
اس کے فولادی ہاتھ کے زناٹے دار تھپڑ نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
’’بکواس بند رکھو اپنی‘ میں نے تم سے کوئی وضاحت نہیں مانگی ہے‘ سمجھیں۔‘‘ وہ حلق کے بل چیخا تھا‘ عبیر نے گنگ ہوتے ہوئے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ وہ کچھ نہیں بول سکی تھی۔
…٭٭٭…
کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اس نے پٹ وا کیا تو ہوا کا یخ بستہ جھونکا اس کے بالوں کو چھوتا کمرے میں پھیل گیا۔ باہر ہر سو برف کی سفید چاردر بچھی ہوئی تھی۔ بلند و بالا پہاڑ‘ سروقد درخت‘ سڑکوں کے سرمئی پن کو بھی برف کی سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا۔ فضا میں خاموشی اور اداسی کا رنگ غالب تھا یا اسے محسوس ہورہا تھا۔ کمرے کے آتش دان میں آگ روشن تھی۔مگر اس کے اندر جیسے کوئی گلیشیئر جما ہوا تھا۔ نیا ٹھکانہ وہ نئے لوگ اور اس پر دھوکا۔ وہ جتنا سوچتی اسی قدر مضطرب ہوجاتی تھی۔ گو کہ وہ اس دھوکے و فریب کا کبھی حصہ نہیں بنی تھی مگر ضمیر زندہ ہو تو اضطراب اپنوں کی بد اعمالی پر بھی نصیب ہوا کرتا ہے۔ معاً اس کی نگاہ یک دم ایک منظر پر ٹھہر گئی۔ کر بھری یخ بستہ صبح کے ملگجے اجالوں میں جیسے ایک دم سورج کی سنہری کرنیں ہر سو جگمگانے لگی تھیں۔ وہ جو کوئی بھی تھا‘ ٹریک سوٹ میں سڑک کنارے چلتے ہوئے اچانک گلاب کے کنج کے پاس رک گیا تھا۔ جھک کر گلاب کی ادھ کھلی کلی کو توڑتا ہوا وہ اس سارے ماحول میں ایک دم خوب صورت اضافے کا سبب بن گیا تھا۔ کچھ منظر بلاشبہ اپنے اندر طلسمی کشش رکھتے ہیں۔ وہ بھی بے خود اسی منظر میں کھوگئی تھی وہ اپنے دھیان میں تھا۔ گلاب کی ادھ کھلی کلی ہمراہ لیے آگے بڑھ گیا۔ وہ تب چونکی جب ہنسی کی آواز سنی‘ حیرانی سے پلٹنے پر سارہ کو روبرو پاکے اس کے حلق تک کڑواہٹ گھل گئی تھی۔
’’بہت ہینڈسم ہے… ہے نا؟ محترم یہاں کے مشہور بزنس مین ہیں۔ اس مرتبہ ہمارا شکار یہی ہوگا۔ ساری معلومات لے چکی ہیں مام!‘‘ سینے پر ہاتھ باندھے سارہ بہت جوش سے اطلاع فراہم کررہی تھی۔ عبیر کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’بلکہ انا نے تو اس پر اپنے حسن جہاں سوز کے ڈورے بھی ڈالنے شروع کردیئے ہیں۔‘‘
عبیر نے ہونٹ بھینچ لیے اور کوشش کی کہ چہرے سے کچھ اخذ نہ ہونے پائے۔
’’کچھ کام تھا تمہیں مجھ سے؟‘‘ اس نے نروٹھے پن کی انتہا کردی۔ جبھی سارہ کے چہرے پر توہین کے احساسات سے آگ بھڑک اٹھی تھی۔
’’مام کا میسج ہے تمہارے لیے۔ اس پڑھائی اب ختم کرو اور دھندے میں ہاتھ بٹائو۔ آج کل ویسے بھی بڑا مندا چل رہا ہے۔ یہ تیسرا ٹھکانہ بدل لیا ہے مگر کوئی شکار نہیں پھنسا۔‘‘
’’تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ عبیر نے کسی قدر ناگواری کا اظہار کیا۔
’’ہاں تمہارا مسئلہ کیوں ہوگا۔ تم توبس عیش کرنے دنیا میں آئی ہو بکائو مال تو ہم ہیں نا‘ پیسہ بنانے کی مشین۔‘‘ سارہ تنفر سے بولتی چلی گئی۔ گویا اس گناہ آلود زندگی کا احساس ندامت بن کر انہیں بھی کچوکے لگاتا تھا۔
’’تونہ بنو مشینیں‘ کس نے فورس کیا ہے؟ جو کچھ کررہی ہو اپنی مرضی سے کرتی ہو۔‘‘ بغیر لگی لپٹی رکھے عبیر نے اسے سنانا شروع کیں‘ سارہ کو تو جیسے آگ لگ گئی۔
’’شٹ اپ! تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا‘ میری انسلٹ کرنے کا‘ سمجھیں۔‘‘
’’میں بھی تمہاری انسلٹ نہیں کررہی‘ حقیقت بیان کررہی ہوں‘ یہ الگ بات ہے کہ حقیقت بہت شرمناک ہے۔‘‘ عبیر کے لہجے میں نا صرف تاسف تھا بلکہ تضحیک اور حقارت بھی تھی‘سارہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’تم بھی کوئی شریف زادی نہیں ہو‘ اسی سسٹم کا حصہ ہو۔‘‘ وہ چیخ پڑی تھی‘ عبیر کا چہرہ دھواں دھواں ہوکر رہ گیا۔
’’یہی بد نصیبی ہے میری مگر یاد رکھنا میں تمہاری طرح اس گندگی میں نہیں رہوں گی۔‘‘ عبیر نے خود پر سکون رہتے ہوئے بھی سارہ کو آگ لگا دی تھی۔غصے میں بے قابو ہوتی وہ اس پر جھپٹ پڑی تھی۔ اگلے لمحے دونوں گتھم گتھا ہوچکی تھیں۔ ان کی چیخوں ‘ کوسنوں کی آواز پر دوسرے کمرے سے مام ‘ انا اور عینادوڑتی ہوئی وہاں پہنچی تھیں۔ انہیں اک دوسرے کو نوچنے کھسوٹتے اور گالیاں دیتے دیکھ کر مام کو صحیح معنوں میں دھچکا لگا تھا۔ انہوں نے عینا اور انا کے ساتھ مل کر بمشکل دونوں کو ایک دوسرے سے چھڑایا۔ مام‘ انا اور عینا کو اسے وہاں سے لے جانے کا اشارہ کرکے عبیر کو گھورنے لگیں۔ جس کے بال کھل کر بکھر چکے تھے‘ چہرہ سرخ اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’یہ سب کیا ہے عبیر؟‘‘ ان کا لہجہ بے حد سنگینی لیے ہوئے تھا۔ عبیر نے محض انہیں گھورنے پر اکتفا کیا اور بکھرے بالوں کو سمیٹ کر بینڈ میں جکڑنے لگی۔ مام کو اس کی اس حرکت میں سراسر اپنی توہین محسوس ہوئی تھی۔ یہ لڑکی شروع سے ہی اپنے انداز و اطوار کے باعث انہیں خائف کرتی رہی تھی۔ جبھی انہوں نے اس کے لیے اپنے مخصوص طریقہ کار کو بدلا تھا۔ وہ بہت زیرک اور جہاندیدہ تھیں۔ عبیر جیسی سرکش گھوڑی کو انہوں نے چابک سے نہیں پیار کی تھپکی سے قابو کیا تھا مگر پھر بھی اس کے تیور تیکھے اور انداز نخوت سے بھرا ہوا رہتا تھا۔ وہ ان میں سے کسی سے بھی گھلی ملی نہیں تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنی الگ دنیا بسائی تھی۔
وہ پڑھنا چاہتی تھی مام نے پابندی نہیں لگائی مگر آئے دن بدلنے والے ٹھکانوں کی وجہ سے انہوں نے بڑی مشکل سے سہی مگر اس کی ضد کے آگے ہار کر ہی ہاسٹل میں چھوڑا تھا۔ وہ انہیں ہاسٹل میں نہیں آنے دیتی تھی۔ وہ اپنے حلقہ احباب میں انہیں ملوانے سے کیوں گریزاں تھی‘ وہ جانتی تھیں اس کا بس چلتا تو شاید وہ چھٹیوں میں بھی ان کے پاس نہ آتی۔
’’کیا پوچھا ہے تم سے عبیر؟‘‘ اب کی مرتبہ انہوں نے اسے ڈانٹا تھا۔
’’بہتر ہوگا آپ سارہ سے پوچھ لیں۔‘‘ گردن پر پڑنے والی سارہ کے ناخنوں کی خراشوں کو دوپٹے سے سہلاتے ہوئے اس نے تلخی سے جواب دیا۔
’’میں تمہاری زبان سے سننا چاہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے برہمی سے جواب دیا تو عبیر نے ہونٹ بھینچ لیے جب کہ وہ ہنوز منتظر نگاہوں سے اسے تک رہی تھیں‘ عبیر کو ناچار زبان کھولنا پڑی۔
’’ہوں…‘‘ اس کے مختصر ترین جواب پر انہوں نے پر سوچ انداز میں ہنکارا بھرا۔
’’تمہیں اتنا غصہ کس بات کو سن کر آیا؟ پڑھائی چھوڑنے پر یا دھندے میں ہاتھ بٹانے پر؟‘‘ سوال ایسا تھا کہ عبیر کی گلابی رنگت کچھ اور بھی دہک کر انگارہ ہونے لگی۔
’’مام آپ جانتی ہیں مجھے آپ کا یہ طریقہ کار پسند نہیں ہے۔‘‘ وہ کسی قدر بے بسی سے بولی تو انہوں نے محض سر کو اثبات میں جنبش دی۔
’’پھر یہ کہ میں آپ کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتی‘ اسے میری ضد سمجھیں یا پھر التجا۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ مزید مضبوط اور دوٹوک تھا۔ اس کے چہرے پر ٹھہری مام کی پر سوچ نگاہوں میں تفکر بھی اتر آیا۔
’’اس کے باوجود کہ یہ معاشرہ تمہیں تمہاری اس پاکی سمیت قبول نہیں کرے گا۔ تم پر اس گھرانے کی عورت کا لیبل لگ چکا ہے عبیر!‘‘
’’نہ کرے‘ مگر میں مجبوری میں بھی گناہ کا راستہ اختیار نہیں کروں گی۔‘‘ وہ پھر اسی قطعیت سے کہہ گئی۔
’’پھر کیا کرو گی‘ خود کشی!‘‘ اب کے ان کے لہجے میں صرف جھنجلاہٹ نہیں تھی ‘ طنز بھی تھا۔
’’مام بہتر ہوگا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں‘ میں کچھ نہ کچھ کرلوں گی۔ خدا بہتر راستہ نکالے گا۔‘‘ مام کچھ دیر اسے تکتی رہیں پھر خاموشی سے اٹھ کر چلی گئیں۔
…٭٭٭…
مام لبنیٰ فریدہ بیگم والدین کی ڈھیروں ڈھیر اولاد میں ان کا نمبر آخری تھا اور ایسے بچے یا تو بہت زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں یا پھر توجہ و محبت میں بھی ان کا نمبر آخر میں ہی آتا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرا معاملہ ہوا تھا۔ جوتے کپڑے یہاں تک کہ کتابیں تک انہیں ہمیشہ بڑے بھائی‘ بہنوں کی استعمال شدہ ہی ملی تھیں۔ محدود آمدنی میں اتنے بڑے کنبے کی کفالت اور بے شمار اخراجات۔ کوئی ایک بھی تو ایسی خواہش نہیں تھی جو دل نے کی ہو اور وہ پوری بھی ہوگئی ہو۔ یہ محبت‘ توجہ میںکمی اور خواہشات کی بے مائیگی و تشنگی ان کے اندر کیسی باغی سوچیں اور خیالات جنم دے چکی ہیں‘ والدین کو اندازہ ہی نہ ہوسکا اور وہ بیاہ کر اگلے گھر سدھار گئیں جو والدین کے گھر سے مختلف حالات میں ہر گز نہیں تھا۔
وہاں بھی زندگی کا ڈھب ویسا ہی تھا جس سے چھٹکارے کی وہ ہمیشہ متمنی رہی تھیں مگر چھٹکارا ہی نہیں تھا تو انہوں نے حالات کو خود اپنے بل بوتے پر بدلنے کی ٹھان لی۔ بغاوت تبدیلی کا سب سے موثر ہتھیار ثابت ہوا کرتی ہے۔ خوب صورتی پاس تھی نازو ادا سے آراستہ حسن‘ سج سنور کر میدان میں اترا تو قدر دانوں کی کمی نہ ہوئی۔ دنیا میں ایسے مردوں کی کمی نہیں جنہیں عورت اشارہ کرے تو قدموں میں لوٹنے اور شرافت کے جامے سے باہر آنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے لوگوں کو اپنا وقت رنگین کرنا ہوتا اور ان کی مٹھی اور جیب گرم ہوجاتی۔ یہ مرد خاندان میں بھی ہوتے ہیں عزیز واقارب میں بھی ملتے ہیں اور گلی محلے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جو وقت اور حالات کے مطابق سہولت سے مطلب نکالنا خوب جانتے ہیں۔
کہتے ہیں گناہ خوشبو کی طرح ہوتا ہے پھیلنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ ان کے سسرالیوں میں پہلے چہ مگوئیاں ہوئیں پھر منہ پر کھل کر جھگڑے ہوئے مگر شرمندہ ہونے والوں میں ہوتیں تو یہ سب کرتیں کیوں۔ شوہر نے نام نہاد شرافت کا اظہار طلاق کی صورت میں کیا اور بچیوں کو بھی ماں کے سپرد کردیا۔ فریدہ بیگم نے سسرال سے جو جمع پونجی سمیٹی وہ یہی چار بیٹیاں تھیں۔ جو شکل و صورت میں انہی پر تھیں

اور ان کے مستقبل اور عیش و عشرت کا بہترین ذریعہ تھیں۔
…٭٭٭…
جب تک وہ خود جوان اور خوب صورت رہیں تب تک انہیں سراہنے والوں کی کمی نہیں رہی۔ انہی میں سے مسکین صورت آدمی سے نکاح کرکے انہوں نے اپنے اوپر سے طلاق یافتہ کا لیبل بھی اتار پھینکا اور معاشرے میں بظاہر عزت سے جینے لگیں۔ بیٹیاں انہی کی طرح تھیں‘ طرحدار ‘ حسین اور ادائوں کے ہتھیاروں سے لیس‘ راہ چلتوں کو بھی منٹوں میں اسیر کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا گو کہ ان کی تربیت ہی اس نہج پر نہیں ہوئی تھی انہوں نے آنکھ کھولتے ہی اپنے گھر کا ماحول بھی یہی دیکھا تھا۔ بس یہ اک عبیر تھی جس کے مزاج اور فطرت کی نیکی اور راستی نے انہیں پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔
وہ یہ بھی جانتی تھیں معاشرے میں انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا‘ جبھی کچھ سالوں سے انہوں نے انداز بدل لیا تھا۔ مہذب اور خاندانی ہونے کا بہروپ بھرا اور اپنی پشت پر چند طاقت ور ہاتھوں کی شہ پر بہت اطمینان سے اپنا کھیل کھیلنے لگیں۔ امیر دولت مند لوگوں میں کسی نہ کسی بیٹی کا رشتہ طے کرتیں‘ بیاہ ہوتا اور سمجھ دار بیٹی موقع ملنے پر وہاں سے سب کچھ سمیٹ لاتی اور پھر لٹنے والوں کو ان کا نشان تک بھی نہ مل پاتا۔ صرف یہی نہیں جو شادی کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے تھے وہ رات کے اندھرے میں لڑکی کو اپنے ٹھکانے پر لے جاتے تھے۔ یہ کام بہت راز داری سے کئی سالوں سے جاری تھے۔ جنہیں خبر تھی وہ اس راز کو افشا نہیں کرتے تھے اگر کبھی وہ پھنسیں بھی تو ان کے تعلقات کام آئے اور وہ صاف بچ نکلتی تھیں۔
…٭٭٭…
’’چھوٹی بی بی! آپ کو بیگم صاحبہ یاد کررہی ہیں۔‘‘ وہ اپنا بیگ تیار کررہی تھی جب ملازمہ دستک دے کر اندر آئی۔ اس کی صبیح پیشانی پر شکنیں سی نمودار ہوئیں۔
’’تم جائو‘ آتی ہوں میں۔‘‘ ملازمہ کو بھیج کر وہ الجھن زدہ متفکر سی بیٹھی رہی۔
’’کیوں بلوایا ہوگا مام نے؟‘‘ گوکہ ابھی اس کی چھٹیاں باقی تھیں مگر وہ چند دن میں ہی یہاں کے ماحول سے گھبرا گئی تھی۔ بس نہ چلتا تھا اڑ کر واپس ہاسٹل پہنچ جائے۔ اس نے گیلے بال تولیے کی قید سے آزاد کیے‘ انہیں سلجھایا پھر دوپٹہ ڈھنگ سے اوڑھتی ان کے کمرے کی جانب چلی آئی۔
’’یس کم ان!‘‘اس کی دستک کے جواب میں مام کی مغرور سی آواز ابھری تھی۔ انہیں دیکھ کر اب کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا تھا کہ وہ معمولی تعلیم یافتہ غربت میں پل کر جوان ہونے والی وہی فریدہ ہے جو کبھی ایک عام سی لڑکی تھی اب تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔
’’بیٹھو!‘‘ اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ جو سیل فون پر کسی سے بہت بے تکلفانہ گفتگو میں مصروف تھیں الوداعی کلمات ادا کرکے اس کی سمت متوجہ ہوتے ہوئے بولیں۔
’’آپ نے بلوایا تھا؟‘‘
گوکہ وہ اس کی سگی ماں تھیں مگر عبیر نے کبھی ان کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبہ محسوس نہیں کیا تھا اس کی وجہ واضح تھی اسے ان کے اندازو اطوار سے ہی نہیں ان کی گناہ آلود زندگی سے بھی نفرت تھی۔ وہ ان سے شاکی تھی کہ انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی بھی عاقبت تباہ کر ڈالی تھی۔
’’ایکچولی یہاںایک فیملی نے ہمیں اپنے پوتے کی برتھ ڈے پارٹی میں انوایٹ کیا ہے‘ ایسا ہے کہ تم آج شام کی اس تقریب کے لیے اناکے ساتھ جاکر اپنا پارٹی ویئر لے آئو۔‘‘
’’مگر میں وہاں جانے میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں تو…‘‘
انٹرسٹڈ نہ ہونا ایک الگ بات ہے اور کسی کام کو کرنا ایک یکسر الگ بات‘ تم وہاں جارہی ہو‘ اٹس مائی آرڈر اوکے‘ اب وہی کرو جو میں نے کہا ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں واضح حکم تھا۔ عبیر کچھ دیر ہونٹ بھینچے خاموش کھڑی رہی۔ پھر ایک جھٹکے سے پلٹ کر وہاں سے چلی گئی۔ وہ انا کے ساتھ مارکیٹ نہیں گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ مام اک طوفان اٹھائیں گی مگر اس کے برعکس ان کی خاموشی پر اسے حیرت نے آن لیا تھا۔ یہ حیرت اس وقت اضطراب اور شدید تاسف میں ڈھل گئی جب شام میں مام نے اس کاڈریس لاکر اس کے پاس رکھ دیا تھا۔
’’تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے عبیر! اور سنو‘ آج سے تمہاری پڑھائی کا سلسلہ بھی ختم۔ تم ہمارے ساتھ کام میں شامل ہورہی ہو۔ سارہ کی بات غلط نہیں ہے‘ میں نے تم سے یہ امتیازی سلوک کرکے تمہیں زیادہ سر چڑھالیا ہے‘ بس بہت ہوچکے یہ لاڈ وغیرہ۔‘‘
’’مگر میں ایسا ہر گز نہیں کروں گی یہ بات آپ بھی سن لیں۔‘‘ اس نے طیش میں آتے ہوئے کپڑے اٹھا کر پھینک دیئے۔ مام نے جواباً اسے سرد نظروں سے کچھ دیر ہونٹ بھینچ کر دیکھا تھا پھر جب وہ بولیں تو ان کا لہجہ سخت تھا۔
’’ایس پی دلبر چٹھہ کو جانتی ہو؟ جو پچھلے ہفتہ عینا کی برتھ ڈے پارٹی پر یہاں آیا تھا۔ تمہیں اک نظر دیکھ کر ہی تم پر مر مٹا مگر میں نے اس کو انکار کردیا تھا تو وجہ یہی تھی کہ میں تمہیں ہرٹ کرنا چاہتی تھی نہ ہی ایک دم سے اس راستے پر ڈال دینا۔ میں نے تمہارے لیے صاف ستھرا راستہ چنا ہے‘ یاد رکھو اگر تم نے اب پھر اکڑ دکھانے کی کوشش کی تو میں آج رات ہی چٹھہ کو یہاں بلوالوں گی‘ ایک رات کے وہ مجھے کم از کم بھی پچاس ہزار ہنس کے دے سکتا ہے مگر میں یہ سودا صرف ایک رات کا نہیں کروں گی۔‘‘ ان کے لہجے کی سنگینی نے عبیر کے حواس سلب کردیئے تھے اور چہرہ بالکل فق کر ڈالا۔ نگاہ کے سامنے ساٹھ پینسٹھ سالہ دلبر چٹھہ گھوم گیا‘ جس کی آنکھوں میں وحشت و خباثت تھی۔ عبیر سے چند منٹ اس کا سامنا محال ہوا تھا‘ بغاوت سرکشی و تنفر کے جذبات خوف کی چادر میں جا چھپے۔ اس کی جگہ لاچاری اور بے بسی نے لے لی‘ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پلٹی تو مام کا لایا ہوا ڈریس اس کے ہاتھ میں تھا اور آنکھوں میں بے تحاشا نمی۔
بہت زبردست ارینج منٹ تھی۔ گھاس و پیڑ پودوں کو زرد سفید روشنی نے بہت دلفریب و خوب صورت تاثر عطا کیا تھا۔ دلکش خوشبوئیں ماحول کا حصہ بنی ہوئی تھیں‘ ایک سائیڈ پر کھانے کی ٹیبلز ترتیب سے لگی ہوئی تھیں‘ وسیع رقبے پر پھیلا لان اور سفید سنگ مرمر کی شان سے سر اٹھائے خوب صورت رہائش گاہ اپنے مکینوں کے اعلیٰ ذوق کی غماز تھی۔ لان کے سبزہ زار پر ہی تقریب کا انعقاد تھا جوبہت اعلیٰ پیمانے پر کیا گیا تھا۔ رنگ و بو کا ایک سیلاب گویا وہاں امڈ آیا تھا۔ وہ ایسی تقریبات کی مشتاق تھی نہ عادی‘ جبھی اس نے اپنے لیے وہ کونا منتخب کیا تھا جو قدرے الگ تھلگ تھا‘لاتعداد برقی قمقموں کی روشنی وہاں تک آتے آتے اتنی ماند پڑ جاتی تھی کہ بہت کچھ واضح دکھائی بھی نہ دیتا تھا۔
اس نے ماحول سے فرار کی خاطر ہی سر اٹھا کر آسمان کو اداس اورمضمحل نظروں سے دیکھا گویا اللہ سے اپنی ماں کے سلوک کی شکایت کررہی ہو۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے جبھی تیرگی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے سر پھر سے جھکالیا۔ عینا‘ سارہ اور انا ماحول میں پوری طرح سے رچی بسی ہوئی تھیں۔ یقینا ان کا وہاں پہلے سے تعارف تھا جبھی بے تکلفی سے گھوم پھر رہی تھیں‘ ایسا نہ بھی ہوتا وہ تب بھی خود کو اجاگر کرنے اور اہمیت پانے کی تمام صلاحیتوں سے مالا مال تھیں۔
’’اوہ اچھا! تو آپ مسز باجوہ کی صاحب زادی ہیں۔ ماشاء اللہ… ماشاء اللہ جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔‘‘ وہ جو کوئی بھی تھا انا سے ہم کلام تھا۔جواباً وہ تفاخرانہ انداز میں ہنسی تو گویا فضا میں گھنٹیاں سی بج اٹھیں۔ عبیر نے چونک کر دیکھا اور کچھ پل کو منجمد ہوگئی تھی‘ وہ وہی نوجوان تھا جسے اس نے کھڑکی سے باہر سڑک پر گلابوں کے کنج کے پاس جھکے دیکھا تھا اور جس کے متعلق سارہ نے اپنے ارادے بتلا کر اسے حواس باختہ کردیا تھا۔ وہ آج اس روز سے بھی زیادہ شان دار اور وجیہہ لگ رہا تھا۔
’’کیسے ہیں آپ اسامہ ملک صاحب؟‘‘ وہ مسکرا کرگویا ہوئی۔
’’لوگ کہتے ہیں ہینڈسم ہوں‘ڈیشنگ ہوں‘ آپ کیا کہتی ہیں؟‘‘ اور انا جواب میں آہستگی سے ہنسی تھی۔ ایک بار پھر سماعتوں میں گھنٹیوں کی آواز گونجی۔ اس نے اپنی جگہ پر پہلو بدلا تھا۔ آگے پیش آنے والی صورت حال اسے ابھی سے بے چین کررہی تھی اور وہی ہوا تھا۔
’’آج آپ کو ایک خاص ہستی سے ملانا تھا‘ مائی ینگسٹر سسٹر عبیر کمال حسن!‘‘ انا اس کے ہمراہ عبیر کے پاس چلی آئی تھی۔ عبیر کے چہرے پر گھبراہٹ کا بڑا فطری غلبہ چھا یا تھا۔ جس میں بے بسی کے ساتھ کنفیوژن بھی واضح تھی۔ ان سب رنگوں نے مل کر ہی اس کی معصومیت بھری خوب صورتی کو انوکھا اور دلنشین سا نکھار بخش دیا تھا۔ اسامہ ملک نے نیم تاریکی میں مومی شمع کی مانند جگمگاتی اس وحشت زدہ ہرنی کی طرح نظر آتی لڑکی کو بے حد دلچسپی سے دیکھا تھا۔
’’عبیر! یہ اسامہ ملک ہیں‘ ملک صاحب کے چھوٹے صاحب زادے! بزنس ٹائیکون ہیں جناب!‘‘ انا اٹھلا کر تعارف کا مرحلہ نبھارہی تھی۔ عبیر اس خصوصی تعارف کے پیچھے چھپے پروگرام کی آلودگی و پیچیدگی کے ساتھ مکروہ ارادوں کو جانتی تھی جبھی نہ نگاہ اٹھائی تھی نہ سر اور یونہی ہونٹ کچلتی رہی تھی اور اسامہ ملک کی آنکھوں میں اس گریزاں و کنفیوژ لڑکی کے لیے دلچسپی و پسندیدگی کا انداز بڑھتا جارہا تھا۔
’’آپ انا کی رئیل سسٹر ہیں؟‘‘ اسا مہ ملک کی نگاہیں اس کی اٹھتی گرتی لانبی پلکوں پر جم گئی تھیں‘ انا اسے اسامہ کے پاس چھوڑ کر خود کسی بہانے سے وہاں سے سرک گئی تھی اور اب عبیر کی گویا جان پر بن آئی تھی۔ ان نگاہوںکی وارفتگی نے اس کے اوسان خطا کردیئے تھے۔ اس کے لیے دیئے انداز اور جواب کے باوجود اسامہ ملک اس سے گفتگو میں مصروف رہا تھا۔ پھر اس کے بعد بھی وہ جتنا کترائی جتنا بچی اسامہ ملک کی نگاہوں نے اسے ہر جگہ کھوجا تھا‘ کیک کٹنے کے بعد اس کا تعارف بالخصوص اپنے والدین سے کرایا تھا۔ وہ جتنی مضطرب اور جزبز ہوتی رہی تھی عینا وغیرہ اسی قدرمطمئن نظر آرہی تھیں‘ ان کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ اسامہ ملک ایک تگڑا شکار تھا اور آرام سے پھنسنے کو ازخود تیار بھی۔
…٭٭٭…
پھر مام کی خواہش اور توقع کے عین مطابق مسز ملک اسامہ کا رشتہ لے کر ان کے ہاںپہنچ گئی تھیں اور مام اپنی ساری خوشی چھپا کر بظاہر حیل و حجت سے کام لے رہی تھیں۔
’’مجھے تو آپ کی ساری بچیاں ہی پیاری لگی ہیں ماشاء اللہ! مگر اسامہ کی خواہش عبیر کے لیے ہے۔‘‘ وہ رکھ رکھائو والی خاندانی عورت تھیں۔ ان کے بات کرنے کے انداز میں بھی بہت سبھائو اور رواداری تھی‘ مام کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ خود ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتی تھیں مگر یہ معاملہ رسان اور تحمل کا متقاضی تھا۔ اتاولے پن کامظاہرہ کھیل بگاڑ بھی سکتا تھا۔ جبھی انہوں نے کچھ پس و پیش سے کام لیا‘ کچھ مجبوریوں کا رونا رویا‘ بڑیوں کو چھوڑ کر چھوٹیوں کا نہیںکرسکتیں وغیرہ وغیرہ اور بالآخر ان کو کئی چکر لگوانے کے بعد ہاں کردی۔
یہ سب کچھ بالا ہی بالا ہوا۔ بات طے ہونے کے بعد عبیر کو خبر ہوئی تو صحیح معنوں میں اس کے حواسوں پر بجلی سی گر پڑی تھی۔ اتنے شان دار شخص کو دھوکہ دینے کا خیال ہی بے قرار کر دینے کو کافی تھا۔ وہ تلملاتی ہوئی مام کے پاس آکر برس پڑی۔
’’میں نے آپ سے گزارش کی تھی مام! کہ مجھے اس کھیل سے الگ رکھیے۔‘‘
’’اور میں نے تمہاری اس گزارش پر کان نہیں دھرا‘ خبردار جو تم نے کوئی فضول حرکت کی ۔ ورنہ یاد رکھنا دوسرا راستہ ہمیشہ کھلا رہے گا اور محض دھمکی مت سمجھنا۔‘‘ یہ ان کا ایسا ہتھیار تھا جس سے وہ اسے حملہ سے قبل ہی زخمی کردیا کرتی تھیں۔ وہ ایک بار پھر خود کو لاچار محسوس کرنے لگی۔ سوائے چپ سادھ لینے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا سو اس نے چپ سادھ لی۔ فی الوقت وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر رہی تھی۔
وہ دن بھی آہی گیا جب وہ بیاہ کر اسامہ کے ہمراہ اس کے ویل فرنشڈ گھر میں آگئی تھی۔ مسز ملک نے بیٹے کے لیے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ وہ جوڑا جو اسے نکاح کے موقع پر پہنایا گیا تھا کم و بیش ایک لاکھ کی مالیت کا تھا۔ لوگ اس کی قسمت پر رشک کر رہے تھے مگر عبیر کا دل اس ڈرامے پر سسکتا رہا تھا۔ وہ عجیب سی بے کسی اور لاچاری میں مبتلا رہی تھی‘ کئی بار چاہا اسامہ سے ساری حقیقت کہہ دے مگر ایک عجیب سے خوف نے اس کی زبان کو سلب کردیا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکی تھی اور یہ دن آگیا تھا۔
مام کے علاوہ سارہ‘ انا اور عینا نے بھی اسے خوب پٹیاں پڑھائی تھیں۔ کسی کو الو بناکر مطلب نکالنے کے تیر بہدف طریقے سکھائے گئے تھے۔ وہ بے بسی کی تصویر بنی انہیں دیکھتی رہی تھی۔
’’بس کچھ دن ہیں‘ پھر اس کے بعد تو تم سے بھی پارسائی اور معصومیت کا ٹیگ اتر جائے گا پھر تم پر بھی بدکرداری کا ٹھپا لگ جائے گا۔ میرے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والا کبھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔ عبیر بیگم پھر تمہیں کیسے معاف کردیتی۔ آج کے بعد تم ہمیں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھ سکو گی نا ہم پر انگلی اٹھا سکو گی تم میں اور ہم میں آج کے بعد کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔‘‘ اس کی رخصتی کے وقت سارہ نے اس سے گلے ملنے کے بہانے نزدیک آکر اتنی حقارت اور تنفر سے کہا تھا کہ وہ بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکتی رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں اترے آنسو تک ٹھٹھر گئے تھے۔ سارہ اس قدر منتقم مزاج ہوگی یہ اس کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
’’حسن افسردہ ہو تو اس کی کشش اور بھی بڑھ جاتی ہے۔آپ مجھے بہت الگ اور خاص لگی تھیں جبھی مما کے سامنے میں نے آپ کا نام رکھا تھا۔‘‘ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر دور تک چلی گئی تھی کہ اسامہ کب کمرے میں آیا اسے خبر ہی نہ ہو سکی تھی جبھی وہ بہت بُری طرح سے ہڑبڑاگئی تھی۔ اس کی گھبراہٹ کو محسوس کرکے اسامہ مسکرایا تھا پھر اس کا حنائی ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لے کر آہستگی سے دبایا۔
’’بہت خاموش بلکہ اداس ہیں۔ کیا آپ کو مجھ سے تعلق استوار ہونے کی خوشی نہیں ہے؟‘‘ اس نے گھبرا کر پلکیں اٹھائی تھیں وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ انداز میں بے تحاشا شرارت بھری ہوئی تھی گویا مقصد اس کی توجہ حاصل کرنا تھا کسی بھی طریقے سے اور وہ اس میں کامیابی حاصل کرکے فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ عبیر بُری طرح سے جھینپی تھی۔ پلکیں شرمگیں انداز میں لرز کر جھک گئیں۔ وقتی طور پر سہی مگر وہ اس اضطرابی کیفیت سے نکل آئی تھی۔ جس کا شکار تھی۔
’’بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔‘‘ بھاری بھر کم لہجے میں کی گئی تعریف پر عبیر کا دل اپنی دھڑکنیں الٹ پلٹ کرنے لگا۔ رونمائی کا گفٹ جڑائو کنگن پہناتے اسامہ نے بہت ملائمت سے اسے بازوئوں میں بھر لیا تھا۔
’’اس ایک رات کا میں نے بہت شدت سے انتظار کیا تھا عبیر! تم جانتی ہو جب سے تمہیں دیکھا تھا میں نے‘ صحیح معنوں میں میری نیندیں اڑ گئی تھیں۔‘‘ اسامہ کا لہجہ جذبات کی شدتوں سے چور تھا اور دھیما ہوتا بالآخر سرگوشی میں ڈھل گیا تھا۔ عبیر کی آنکھیں جانے کس جذبے کے تحت بھر آئی تھیں۔ بھلا وہ اتنی عزت افزائی اور محبت کے لائق کہاں تھی۔
’’کیوں رو رہی ہو؟‘‘ اسامہ نے اس کے آنسوئوں کی نمی کو محسوس کرکے بے چینی سے سوال کیا تھا۔ عبیر نے نگاہ بھر کے اسے دیکھا۔ سیاہ شیروانی میں وہ ہمیشہ سے کہیں بڑھ کر شان دار اور خوبرو نظر آرہا تھا۔ وہ آنسوئوں کی وجہ پوچھ رہا تھا اور وجہ بتلانے لائق نہیں تھی۔ اس نے ہونٹوں کو باہم بھینچ لیا اور رات دھیرے دھیرے بھیگتی چلی گئی تھی۔
…٭٭٭…
اگلے دن اسامہ نے اس کا تعارف عبد العلی اور زارا سے کرایا تھا جو اس کے بڑے بھائی کی اولاد تھے۔ بڑے بھائی شیراز ملک اور ان کی وائف کی روڈ ایکسیڈنٹ میں دو سال قبل وفات ہوگئی تھی‘ تب اسامہ نے دونوں بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔
’’میں چاہتا ہوں عبیر تم ان بچوں کی ماں کا کردار ادا کرو۔ ان سے ویسے ہی محبت کرو جیسے کوئی ماں اپنی اولاد سے کرتی ہے‘ کروگی نا؟‘‘ اور عبیر نے پوری آمادگی کے ساتھ سر اثبات میں ہلادیا تھا۔ اس ایک رات میں ہی وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ وہ اسامہ کو دھوکا نہیں دے گی‘ چاہے مام اسے کتنا ہی اکسائیں۔ وہ اسامہ کو خود مناسب الفاظ میں اپنی صفائی پیش کرسکتی تھی۔ وہ اس سے درخواست کرسکتی تھی وہ اسے ان غلط لوگوں سے بچالے۔
صبح نماز کے بعد دعا میں بھی اس نے ربّ کریم سے یہی التجا کی تھی اور اسے پورا یقین تھا‘ خدا اس کی فریاد کو رد نہیں کرے گا۔ اپنے راستوں پر چلنے والوں کا ’’وہ‘‘ خود مددگارہوجایا کرتا ہے بلاشبہ رسم کے مطابق اسامہ اسے مام کی طرف ملوانے کو لایا تو اس کے انداز میں واضح بے دلی تھی۔ مام نے اس سے نگاہوں ہی نگاہوں میں کچھ سوال کیے تھے مگر وہ نظریں چرا گئی تھی اور مام اتنی جزبز ہوئیں کہ اپنی جگہ پر پہلو بدل کر رہ گئیں۔ جبھی انہوں نے بہانے سے اسے وہاں سے ہٹادیا تھا۔
’’عبیر بیٹا! دیکھنا ذرا عینا نے ابھی تک چائے کیوں تیار نہیں کرائی۔‘‘ وہ جانتی تھی بات بنتی نہ دیکھ کر انہوں نے اسے سمجھ دار اور عیار بیٹیوں کے نرغے میں دیا ہے جو لازماً اس سے اصل بات اگلوائیں‘ جبھی وہ کسی قدر ڈسٹرب ہوئی تھی۔ اسامہ کے سامنے انکار کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی‘ اسی لیے اٹھ کر باہر تو آگئی مگر عینا کے پاس جانے کا اس کا قطعی ارادہ نہیں تھا مگر وہ سب توجیسے اس کی تاک میں تھیں‘ اسے باہر آتے ہی دبوچ کر گویا سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔
’’کیا کچھ ہاتھ آگیا؟ تم نے اس کی جائیداد اور بینک بیلنس وغیرہ کی معلومات لی ہیں؟‘‘
’’اسامہ نے رونمائی میں کیا دیا؟وہ ساتھ لے آنا تھا‘ ظاہر ہے قیمتی چیز ہوگی‘ زیور بھی کسی بہانے سے اٹھا لاتیں‘ اسی طرح تو کرنا ہوتا ہے‘ کیا پتا تم کتنی دیر وہاں ہو۔‘‘ وہ لا تعلق بنی ہونٹ بھینچے سلگتی

آنکھیں جھکائے کھڑی رہی۔ گویا تہیہ کرلیا تھا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دینا‘ جبھی سارہ کو جیسے آگ لگ گئی تھی۔
’’تم ہمارے ساتھ ہاتھ نہیںکرسکتیں‘ یاد رکھو تم ہر لحاظ سے ہمارے رحم و کرم پر ہو‘ تمہاری حیثیت بہرحال کسی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے۔ جس کی ڈور ہمارے ہاتھ میں ہے‘ پارسائی کا ڈرامہ رچانے کی ضرورت نہیں۔ بس جتنی جلدی ہوسکے اپنا مقصد حاصل کرو‘ ہم زیادہ انتظار نہیں کرسکتے اورسنو‘ کوشش کرنا اس اسامہ سے دور رہنے کی‘ ایسا نہ ہو کہ وہاں سے لوٹو تو اس کے بچے کی زنجیر تمہارے قدموں میں پڑچکی ہو۔ ابارشن وغیرہ کے جدید طریقہ کے باوجود فیگر کا ناس ہوجایا کرتا ہے ۔ تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟‘‘ سارہ نے غصے میں اسے گھورتے ہوئے ٹہوکا دیا تھا۔ وہ پتھر کی مورتی کی طرح بے تاثر نظروں سے اسے تکے گئی۔
’’مام چائے کا کہہ رہی ہیں۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ بولی تو اس کا لہجہ اس کے چہرے کی طرح سپاٹ تھا۔ یوں جیسے ان کی کسی بات کو سرے سے سنا ہی نہ ہو‘ اپنی بات مکمل کرکے وہ ان کی تلملاہٹ دیکھنے کو رکی نہیں تھی۔ پلٹ کر کچن سے نکلی تو اسامہ کو دروازے کے باہرموجود پاکر اسے لگا تھا کسی نے یکلخت زمین اس کے قدموں تلے سے کھینچ لی ہو۔
…٭٭٭…
’’کون ہو تم؟ میں صرف سچ سننا چاہوں گا‘ یاد رکھنا اگر تم نے غلط بیانی کی تو میں تمہیں زندہ زمین میں بھی گاڑھ سکتا ہوں۔‘‘ اس کا چہرہ اسامہ کے سخت ہاتھوں کی بے رحم گرفت میں تھا۔ وہ لہجہ اتنا سفاک و سنگین تھا جب کہ چہرے کے تنے ہوئے عضلات اس کے قہرو غضب کے گواہ تھے۔ عبیر کی تو اسی وقت روح قبض ہوگئی تھی‘ گویا جب اس نے کچن کے باہر اسامہ کوموجود پایا تھا۔ وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی اس کے عتاب کا نشانہ بننے کو رہ گئی تھی۔
’’وہ اسے واپس لے کر آیا تو بیڈ روم میں آنے تک پتا نہیں کیسے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے رکھے تھے۔ اس کے بعد وہ کوئی وحشی جنونی انسان تھا جو عبیر کے منہ سے آہوں اور کراہوں کی صورت نکلتے سچ پر آپے سے باہر ہوتا اسے تشدد کا نشانہ بناتا رہا تھا۔ عبیر کے دل و دماغ پر مجرمانہ بوجھ دھرا تھا‘ جبھی اس نے کچھ چھپائے بغیر سب کچھ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا مگر جب اس نے اپنی صفائی پیش کرنی چاہی تب ہی وہ بپھر اٹھا تھا ۔
’’تو یہ پلان تھا تمہارا جس کے تحت تم نے مجھ سے شادی کی بدکردار عورت!‘‘ اس کا ہاتھ اٹھا تھا تو پھر رکنے میں نہیں آرہا تھا۔ عبیر پٹتے ہوئے بھی اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی تھی جبھی وہ کچھ اور غضب ناک ہوا تھا۔
’’تم نے دھوکا دیا مجھے‘ اسامہ ملک کو ہائو ڈسیریو!‘‘ وہ جیسے توہین سے پاگل ہورہا تھا۔
’’نہیں! میں تو آپ سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی …‘‘
’’بکواس بند کرو فاحشہ عورت!تم اگر ان کے پلان میں شامل نہ ہوتیں تو اس طرح سج دھج کر مجھے الجھانے کیوں آتیں؟ اور میں… میں کتنا احمق تھا‘ کتنی آسانی سے تمہارے جال میں پھنس گیا۔‘‘ وہ دانت بھینچ کر غرایا۔ عبیر اس کی وحشت کے آگے سراسیمہ ہونے لگی۔ وہ کتنی دیر جیسے خود ہی ہونٹ بھینچ کر اور ٹہل کر اپنا غصہ ضبط کرتا رہا تھا پھر پلٹ کر باہرنکل گیا تھا۔ عبیر وہیں بیٹھ کر سسکنے لگی۔ اس کے ہونٹ کے زیریں کنارے سے خون جاری ہوگیا تھا۔ گردن پر گہری خراشیں تھیں جو اسامہ کے تشدد کا نتیجہ تھیں۔ اس کی یہ سراسیمگی ابھی اس طرح اسے گھیرے ہوئے تھی جب وہ پھر اس کے پاس چلا آیا تھا۔
’’اٹھو! تم اسی وقت میرے ساتھ چلو۔‘‘ اس نے عبیر کے پاس رک کر اسے ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔ وہ پہلے ٹھٹکی پھر سخت وحشت زدہ سی ہوگئی۔
’’ک… کہاں؟ آپ کہاں لے کر جائیں گے مجھے؟‘‘ کتنا خوف تھا اس کی نگاہوں میں‘ جواب میں اسامہ کی آنکھوں میں صرف قہر نہیں اترا تھا۔ تضحیک بھی در آئی۔
’’تم ہو اس قابل کہ میں تمہیں اپنے ارادے بتائوں‘ ہاں؟‘‘ وہ آنکھیں نکال کر غرایا اور عبیر شرم سے گڑھنے لگی۔
پھر وہ ایک لفظ نہیں بولی تھی اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ اس حویلی میں آگئی تھی جہاں اس کی حیثیت شاید ملازموں سے بھی بدتر تھی یا پھر کسی قیدی کے جیسی‘ وہ اپنے مستقبل اور سزا کے متعلق فی الحال آگاہ نہیں ہوسکی تھی۔ اسے قسمت سے شکوہ نہیں تھا‘ اکثر والدین کی غلطی کا خمیازہ اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے۔
…٭٭٭…
’’یہ تمہارے کرتوتوں کی بہت معمولی سزا ہے‘ میں چاہتا تو تمہیں پولیس کے حوالہ بھی کرسکتا تھا مگر میں بے غیرت نہیں ہوں۔ جیسے بھی سہی مگر تم میری بیوی بن چکی ہو اس بھول میں بھی مت رہنا کہ میں تمہیں طلاق دوں گا تاکہ تم پھر سے گلچھڑے اڑانے لگو۔ یہ ہے وہ جگہ جہاں تمہیں اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزارنے ہیں۔‘‘ وہ اسے حویلی کے جس کمرے میں لے کر آیا تھا‘ اس میں زندگی کی ہر سہولت تھی مگر باہر کی دنیا سے رابطے کو ایک کھڑکی تک نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں اسے زنداں میں ڈال دیا گیا تھا۔
’’جو کچھ تم نے کیا اس کے بعد اگر میں تمہیں قتل بھی کردیتا تو یہ تمہاری گناہ آلودہ زندگی پر احسان ہوتا مگر میں تمہارے گندے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا تھا۔‘‘ کتنی حقارت تھی ان آنکھوں میں جس میں عبیر نے کبھی اپنی محبت کے سنہرے رنگ اترتے دیکھے تھے۔ اس نے آنسوئوں سے چمکتی آنکھوں کو جھکالیا۔ اس موقع پر کچھ کہہ کر وہ اس کے غصے کو ہوا نہیں دینا چاہتی تھی۔ پھر اسے چھوڑ کر خود واپس چلا گیا تھا۔ عبیر کے لیے زندگی جتنی بھی تنگ ہوئی تھی مگر ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ وہ مطمئن تھی خدا کے ہاں اس کی دعائیں مستجاب ٹھہری تھیں اور اسے گناہ سے آلودہ راستوں سے بچالیا گیا تھا۔
’’دلہن کہاں ہے؟‘‘ اسامہ ابھی آفس سے واپس آکر بیٹھا ہی تھا جب مسز ملک نے اس کے پاس آکر حیرانی سے پوچھا۔ اسامہ نے انہیں بھی اس معاملے کی ہوا تک نہیں لگنے دی تھی۔ وہ اتناانا پرست تھا کہ سگی ماں کے آگے بھی بیوی کی بدکرداری کو کھول کر نہیں رکھ سکا تھا۔ سبکی کا احساس اسے ہر وقت کچوکے لگایا کرتا تھا۔ یہ خیال کہ اسے کتنی آسانی سے ٹریپ کرلیا گیا تھا‘ اسے اکثر جنون سے دوچار کرنے لگتا۔ عبیر کو گائوں والی حویلی میں چھوڑنے کے بعد اس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے عبیر کی ماں اور بہنوں کو حوالات میں بند کرادیا تھا۔ اس کا ارادہ ان کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کرکے سخت سزا دلوانے کا تھا مگر بزنس کے سلسلے میں اسے کچھ دنوں ملک سے باہر جانا پڑا تھا۔ اس کی عجلت اور کوشش کے باوجود یہ ٹور طوالت اختیار کرگیا تھا۔ واپس آنے پر سب سے پہلی اطلاع اسے ان عورتوں کی رہائی اور پھر اس علاقے سے بھی روپوش ہونے کی ملی تو سوائے کف افسوس ملنے کے وہ کچھ نہیں کرسکا تھا۔ اس کے بعد اسے فوری طور پر عبیر کا خیال آیا تھا۔
کہیں وہ بھی اپنی شاطرانہ فطرت کی بدولت اس کے ملازموں کو ڈاج دے کر فرار نہ ہوگئی ہو۔ اس خدشے کے پیش نظر اسامہ نے حویلی رابطہ کیا تھا۔ ملازمہ سے بات چیت کرکے عبیر کی طرف سے خیر کی خبر سن کر قدرے اطمینان بھی نصیب ہوا مگر مما کے سوال نے اسے پھر سے جزبز کردیا تھا۔
’’آپ بولتے کیوں نہیں اسامہ! میں تو سمجھی آپ عبیر کو اپنے ساتھ لے کر گئے ہو‘ اگر وہ آپ کے ساتھ نہیں گئی تو پھر کہاں ہے؟‘‘ مسز ملک سوال پر سوال کررہی تھیں۔ اسامہ کے چہرے کے عضلات تنائو کا شکار ہوکر رہ گئے۔
’’مرگئی ہے وہ‘ آپ آئندہ اس کا تذکرہ نہیں کریں گی‘ اوکے؟‘‘ اس نے سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ مسز ملک حیران پریشان سی کھڑی رہ گئیں۔ یہاں عبیر کی فیملی کے متعلق بھی عجیب و غریب باتیں سننے کو ملی تھیں کہ پولیس ان عورتوں کو پکڑ کر تھانے لے کر گئی تھی‘ مسز ملک اگلے دن صورت حال جاننے کو وہاں پہنچیں تو وہاں وہ ملازمہ ملی تھی جو صفائی ستھرائی پر مامور تھی۔ اسی سے مسز ملک کو بس اتنا پتا چل سکا تھا کہ وہ تینوں لڑکیاں اور ان کی ماں آج صبح ہمیشہ کے لیے وہاں سے جاچکی تھیں‘ تب مسز ملک کی پریشانی گھبراہٹ میں بدل گئی تھی۔
’’کہاں چلی گئیں؟ مطلب کچھ پتا ہے تمہیں؟‘‘ انہوں نے مضطربانہ سوال کیے تھے جواب میں ملازمہ نے راز داری سے ان کے نزدیک ہوکر جوکچھ کہا تھا وہ انہیں پریشان کر گیا تھا۔ ملازمہ کے مطابق بیٹیوں کے ذریعے مال دار لوگوں کو لوٹنا ان کا پیشہ تھا ملازمہ ان سے ہمدردی بھی کرتی رہی تھی۔
’’آپ کو رشتہ کرنے سے قبل اچھی طرح چھان بین کرنی چاہیے تھی بیگم صاحبہ!‘‘
مگر وہ لوگ اس طرح کے لگتے تو نہیں تھے‘ تمہیں یقینا غلط فہمی ہوئی ہوگی۔‘‘ انہوں نے اپنے تئیں بات ختم کردی تھی مگر بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ پھر یہ بات انہوں نے ملازمہ کے علاوہ دیگر لوگوں کے منہ سے بھی سنی تھی‘ معزز بیگمات باقاعدہ ان سے افسوس کرنے آئی تھیں اور ناکردہ گناہوں کی ایک طویل فہرست عبیر کے خاندان سے منسوب ہوتی چلی گئی تھی۔ مسز ملک اپنے طور پر یہ فیصلہ کرچکی تھیں عبیر کو اسامہ سے طلاق دلوا کر فارغ کرنے کا۔
…٭٭٭…
اس نے نماز کے بعد دعا کو ہاتھ بلند کیے تو پلکوں پر آنسو جگنو بن کر چمکنے لگے تھے۔ یہ جو کچھ ہوا تھا وہ اس پر شاکی نہیں تھی مگرکبھی کبھی دل بھرانے سا لگتا تھا۔ یہاں کرنے کو اس کے پاس کچھ نہیں تھا اور فراغت اسے پاگل بنانے کو کافی تھی تب اس نے اپنی وحشت سے گھبرا کر رب سے لو لگالی تھی۔
اللہ جو دلوں کے بھید سے آگاہ ہے وہ تو اس صورت بھی اپنے بندے کا منتظر رہتا ہے اگر وہ گناہ گار ہو‘ وہ تو پھر بے قصور تھی۔ اللہ کی یاد سے دل کو سکون دینا چاہا تو جیسے ہر غم سے آزاد ہوگئی تھی۔ پہلے جو ہر وقت دل کو دھڑکا لگا رہتا تھا اسامہ کے کسی بھی انتہائی فیصلے کا اب اس سے بھی گویا چھٹکارا مل گیا تھا۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کے سکون میں فرق نہیں آیا۔ ملازمہ جس کے ذمے اس کا کھانا پہنچانا تھا‘ وہ اس کے دروازے کی چابی کی بھی مالک تھی۔ اس نے سکون سے دعا مانگی تھی پھر منہ پر ہاتھ پھیر کر اٹھتے ہوئے جائے نماز تہہ کرنے لگی۔ سلیقے سے اوڑھے دوپٹہ کے ساتھ اس نے جیسے ہی رخ پھیرا نواڑی پلنگ کی بیک سے ٹیک لگائے اپنی ہی سمت متوجہ اسامہ کو روبرو پاکے وہ اپنی جگہ جیسے ساکن کھڑی رہ گئی تھی۔
اسامہ نظریں اسی پر جمائے اٹھ کر اس کے نزدیک آگیا ۔ عبیر کی صرف نظریں نہیں جھکیں‘ دل بھی دھڑک اٹھا۔
’’بہت اچھا کررہی ہو‘ خدا سے معافی مانگ کر اپنے گناہ بخشوارہی ہو‘ مگر یاد رکھنا میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘ سگریٹ ہونٹوں سے نکال کر جوتے تلے مسلتے ہوئے اس نے سرد آواز میں جتلایا عبیر نے جواب میں چپ سادھے رکھی تو اسامہ کو اس کا یہ سکوت زہر آلود کرنے لگا۔
’’کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم کہ میری باتوں سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟‘‘ اسامہ نے غراتے ہوئے ایک دم اس کی گردن دبوچ لی تھی۔ عبیر اس کی گرفت میں زور سے پھڑپھڑائی۔
’’مجھے معاف کردیں اسامہ میں…‘‘
’’بکواس بند رکھو سمجھیں۔‘‘ اس نے نفرت زدہ انداز میں اسے جھٹک دیا تھا۔ وہ سوفے پر جاکر گری سرسوفے کی ہتھی سے جالگا تھا۔ زمین آسمان جیسے اس کی نظروں میں گھوم گئے تھے۔ مگر آزمائش ختم نہیں ہوئی تھی۔
’’ساجدہ بتارہی تھی تم پریگنٹ ہو‘ بتایا کیوں نہیں تم نے مجھے؟‘‘ وہ کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا۔ عبیر کے اوسان خطا ہونے لگے وہ کہہ نہیں سکی اس نے ایسا کوئی اختیار دیا تھا اسے نہ سہولت مگر زبان تو جیسے گنگ تھی خوف سے مجبوریوں سے۔
’’مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے‘ سن رہی ہو تم جہنم واصل کرو اس گناہ کی پیداوار کو۔‘‘
’’جی…‘‘ عبیر کی آنکھیں حیرت و خوف سے پھٹ سی گئیں۔ اسامہ کے تاثرات مزید خوفناکی سمیٹ لائے تھے۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو مجھے جیسے بہت بڑاکارنامہ انجام دیا ہو۔‘‘ وہ دانت بھینچ کربولا تھا۔ اس کے لہجے میں ایسی تپش تھی جس کی آنچ روح تک سلگا رہی تھی۔
’’یہ ناجائز بچہ نہیں ہے کہ میں اسے ضائع کرادوں اور…‘‘ اس کی بات اسامہ کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی بدولت ادھوری رہ گئی تھی۔ اس کا ہاتھ اس انداز میں عبیر کے چہرے پر پڑا تھا کہ اس کے ہونٹ اور ناک سے ایک ساتھ خون چھلک پڑا تھا مگر اسامہ کی آنکھوں سے پھر بھی نفرت کی چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھیں۔
’’مجھے سبق پڑھانا چاہتی ہو مجھے‘ بدبخت عورت! کیا سمجھتی ہو خود کو‘ مجھے کیا پتا مجھ تک آنے سے قبل تم کتنے مردوں کے دل بہلانے کا کام کرچکی تھیں۔ یہ کس کا گناہ ہے جسے تم میرے سر تھوپنا چاہتی ہو‘ تم جیسی بدقماش عورتوں کے سب ہتھکنڈوں سے بخوبی آگاہ ہوں میں۔‘‘ اس کا لہجہ اس کی نظروں سے زیادہ شدید اور بے لحاظ تھا۔ عبیر گال پر ہاتھ رکھے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھی پھر جانے کیا ہوا تھا‘ وہ خوف و بے بسی جیسے کہیںگم ہوگئی اس کی جگہ طیش اور غیظ و غضب نے لے لی۔ کوئی بجلی سی چمکی تھی اور اس نے آگے بڑھ کر اسامہ کا گریبان پکڑ لیا تھا۔
’’کیا سمجھتے ہو تم خو دکو کہ بہت پارسا ہو اور میں بدکردار عورت ہوں‘ ہاں۔ میں نے بتایا تمہیں اپنی صفائی بھی دی‘ یہ تھی میری پارسائی کی نشانی۔ تم نے جو سلوک کیا میرے ساتھ میں نے اسے خاموشی سے سہہ لیا‘ یہ تھی میری نیک طینت کا اظہار۔ جو بدقماش عورت ہوتی میں تو یہ چار دیواری یہ بند دروازے میرا راستہ نہیں روک سکتے تھے‘ سمجھے تم۔ میں نے سب کچھ سہا‘ صرف اس لیے کہ تم حق بجانب تھے اور میرے دامن پر میرے اپنوں کے کردار کے داغ تھے۔ کیچڑ میں کھلنے والا کنول چاہے پاکیزہ ہو مگر مشکوک ضرور رہتا ہے۔ میں بھی اپنی صفائی پیش کرنے کوثبوت نہیں لاسکتی۔‘‘ جو بات گھن گرج سے تلخی سے شروع ہوئی تھی‘اس کا اختتام پھر اس کے آنسوئوں پر ہوا تھا۔ وہ جیسے تھک گئی تھی‘ اور بُری طرح روتے ہوئے اسے چھوڑ کر فاصلے پر ہوگئی تھی۔ اسامہ کچھ دیر اسے روتے دیکھتا رہا تھا پھر کچھ کہے بغیر پلٹ کر باہر چلا گیا۔ عبیر وہیں بیٹھ کر بے آواز آنسوئوں سے روئے گئی تھی۔
…٭٭٭…
اس کے کمرے میں بے حد اندھیرا تھا۔باہر موسم اپنی شدتوں پر تھا۔ طوفانی ہوائوں کے جکڑ سے درختوںکی ٹہنیاں ٹوٹ کر گر رہی تھیں۔ بارش کی بوچھاڑکھلی کھڑکی سے ہوا کے زور پر اندر آتی اور کمرے کے ایک حصے کو بھگو جاتی‘ بادل کی گرج‘ بجلی کی چمک اس کمرے کے اندھیرے کو نگل کر چند لمحوں کو اس کے خدوخال کو عیاں کرجاتی۔ وہ بیڈ پر بالکل ساکن لیٹا ہوا تھا مگر اس کے وجود کے اندرباہر موسم جیسی بے چینی اضطراب اور وحشت تھی۔ سماعتوں میں بار بار روتی سسکتی آواز کی بازگشت گونجتی تھی۔
’’جو سزا تم نے مجھے سنائی میں نے بلا حیل و حجت قبول کرلی۔ یہ تھی میری پارسائی کی نشانی۔ تم نے جو سلوک میرے ساتھ کیا اسے میں نے خاموشی سے سہہ لیا‘ یہ تھی میری نیک طینت کا اظہار۔ جو بدقماش عورت ہوتی میں تو یہ چاردیواری یہ بند دروازے میرا راستہ نہیں روکے سکتے تھے۔ اسامہ نے اپنی جگہ اضطراب کی کیفیت میں پہلو بدلا اور چہرے کا رخ پھیر کر کھڑکی کے باہر دیکھا۔ اس کا ذہن بہکا تھا اور وہ منظر روشن ہونے لگا۔ جب اس نے پہلی بار اس لڑکی کو دیکھا تھا‘ ہر انداز میں گریز۔ چاہے وہ جھکتی پلکیں ہوں یا پھر اس کے سامنے اور توجہ پرکنفیوژن میں ہونٹوں کو دانتوں سے کچلنا۔ شادی کی رات بھی اس کی حیا آمیز گھبراہٹ زدہ انداز میں اتنا فطری تاثر تھا کہ وہ انداز ازخود اس کی پارسائی و پاک دامنی کے گواہ بن گئے تھے۔
’’کیا وہ سچ کہہ رہی تھی؟ مگرکیسے؟ اتنی بری اور غلط عورتوں کے درمیان وہ خود کیسے ان چھوئی رہ گئی۔‘‘ اس نے خود سے سوال کیے تھے اوربے کل بے چین سا ہوکر ٹہلنے لگا۔ سگریٹ کے کش لیتے دھواں بکھیرتے وہ صرف اسے ہی سوچتا رہا۔ اس میں شک نہیں تھا کہ وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ یہی محبت اسے دل میں گنجائش رکھنے اور درگزر سے کام لینے پر اکسا رہی تھی مگر اس کی میل ایگو کو یہ بھی ہر گز گوارا نہیں تھا کہ اس کی بیوی کا کردار داغ دار ہو۔ چاہے محبت سہی مگر وہ اپنی شریک حیات کو اس کی بدکرداری کے ساتھ قبول کرنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتا تھا۔
وہ اتنی مطمئن کیوں تھی؟ اسے تو اس قید خانے میںپاگل ہوجانا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس وہ ریلیکس نظر آتی تھی۔ کیا یہ بھی ڈرامہ ہے‘ محض مجھے دھوکا مزید دھوکا دینے کو؟اس نے اک نئی بات سوچی اور دماغ کی رگیں کھینچتی ہوئی محسوس کرنے لگا۔
اگر تم غلط ہو ‘ قصور وار ہو تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ یہ طے ہے چاہے مجھے اپنے دل کو خود اپنے پیروں تلے کیوں نہ کچلنا پڑجائے۔‘‘ اس نے سوچا تھا اورجیسے حتمی فیصلہ کرکے کسی قدر مطمئن ہوا تھا۔
…٭٭٭…
ایک ہفتہ بعد وہ پھر اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ پچھلی بار اس کو رو برو پاکے عبیر کے چہرے پر پہلے حیرت اتری تھی پھر خوف البتہ اسے وہاں نارمل انداز میں چلتے پھرتے سوتے اٹھتے دیکھ کرجو چیز اس نے سب سے زیادہ شدت سے نوٹ کی تھی وہ اس کا اطمینان یعنی وہ اس ماحول سے اس سزا سے پریشان تھی نا ہی وحشت زدہ اس کے برعکس اس کے چہرے پر اک ٹھہرائو اک سکون تھا۔ اسی سکون نے اسامہ کے اندر سب سے زیادہ سوال اٹھائے تھے۔
’’یہ تمہارے لیے ہے۔ میں اپنافیصلہ تمہارے لیے بدل رہا ہوں‘تم اسے لے جائو اور جہاں تمہارا دل چاہتا ہے چلی جائو۔‘‘
اسامہ نے اپنے ہمراہ لایا بریف کیس اس کے سامنے رکھ کر کہا۔ اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی‘ بے پناہ سنجیدگی۔ عبیر جس کے چہرے پر ابھی کچھ دیر قبل اسے روبرو پاکے بے ساختہ خوشی اور حجاب آمیز تاثر ابھرا تھا۔ امید کی روشنی سے آنکھیں جگمگائی تھیں۔ یہ امید اس کے حوالے سے کچھ بھی اچھا ہونے کی امید کی تھی‘ کسی گنجائش کی امید تھی اس چہرے پر اس کی بات سن کر پہلے غیر یقینی اور دکھ اترا پھربتدریج خوف وحشت اور سراسیمگی چھاتی چلی گئی تھی۔ آنکھوںمیں عجیب سا ہراس اتر آیا۔ کچھ کہنے کی کوشش میں اس کے ہونٹ محض کپکپا کر رہ گئے۔
’’اس بیگ میں وہی سب کچھ ہے جس کی چاہ میں تم نے مجھ سے شادی کی۔ مجھے دھوکا دینا چاہا۔‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ بولا۔ عبیر کے چہرے پر تاریکی چھاگئی۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور ایک دم جھکتے ہوئے اس کے پیروں کو اپنے کانپتے سرد ہاتھوں میں جکڑ کر کہا تھا۔
’’میری اس دن کی باتوں پرمجھے معاف کردیں۔ اسامہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے‘ مجھے گھر سے نہ نکالیں۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے ماردیں مگر یہ سزا نہ دیں۔‘‘ وہ اس کے پیروں سے لپٹ گئی تھی اور زارو قطار روتے ہوئے بار بار یہی التجا کررہی تھی۔
’’میں تم جیسی عورت کو اب مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ میرے لیے یہ فیصلہ ناگریز ہوچکا ہے۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بے اعتنائی سمیت اس کے ہاتھ جھٹک کر فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ عبیر کے آنسوئوں میں شدت آنے لگی۔
’’میری بات کا یقین کریں اسامہ! میں نے آپ کو کوئی دھوکا نہیں دیا۔ میں آپ کے پاس غلط ارادے سے بھی نہیں آئی تھی۔ میں آپ سے شادی سے پہلے تک ان چھوئی تھی۔ یہ بچہ آپ کا ہی ہے لیکن اگر آپ ایسا نہیں چاہتے میں ابارشن کے لیے بھی تیار ہوں لیکن خدا کے واسطے مجھے یہاں سے نہ نکالیں۔ میں نے خدا سے ہمیشہ عزت و آبرو کی حفاظت کی دعا مانگی ہے۔ مجھ سے یہ تحفظ نہ چھینیں۔‘‘ وہ بلک رہی تھی تڑپ رہی تھی۔ اسامہ کی آنکھیں سلگنے لگیں۔
’’تم جھوٹی ہو‘ دغا باز ہو‘ تم اگر ایسی نہ ہوتیں تو اس تقریب میں مجھ پر ڈورے ڈالنے نہ آتیں۔‘‘ وہ زور سے پھنکارا تھا‘ عبیر ساکت رہ گئی۔
’’میں اس رات مجبور کردی گئی تھی‘ مام نے مجھے دھمکی دی تھی اگر میں اس تقریب میں نہ گئی تو مام اپنے پرانے گاہک کو بلوا کر اسی رات میری عزت کا دامن داغ دار کردیں گی۔ اسامہ بلیو می میں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر ایک بڑے گناہ سے بچ کر نسبتاً چھوٹا گناہ کیا تھا۔ میں آپ کومائل کرنے نہیں آئی تھی‘ میں اپنی عزت کی حفاظت کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘ اس نے گڑگڑاتے ہوئے اپنی ذات پر پڑا پردہ اٹھا کر ایک اور حقیقت آشکار کی تھی۔ اسامہ ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ پھر کاندھے اچکا دیئے تھے۔
’’تم کہہ سکتی ہو‘ مجھے تمہاری بات کا یقین نہیں ہے۔‘‘ اور عبیر سن پڑے لگی تھی۔ اس کی ماں نے اس کے وجود میں جو سوئیاں گاڑھی تھیں وہ انہیں اگر کھینچ کر نکالتی بھی تھی تو فائدہ نہیں تھا۔ متاثرہ جگہ سے خون کی پھوار نکلتی تھی اور درد میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔
’’میں آپ سے ساری زندگی کچھ نہیں مانگوں گی۔ اسامہ! سوائے اس کے کہ اس چار دیواری اور اپنے نام کا تحفظ مت چھینیں۔ میری صرف یہی ایک بات مان لیں‘ میں قسم کھا کر کہتی ہوں اگر اللہ نے خودکشی کو حرام نہ کیا ہوتا تو اس زندگی سے میں موت کو گلے لگا کر چھٹکارا پالیتی۔‘‘ بے بسی کا شدید احساس ایک بار پھر اسے رلانے لگا تھا۔ اسامہ کچھ دیر ہونٹ بھینچے خاموش بے تاثر نظروں سے اسے تکتا رہا تھا پھر وہ واپس پلٹ گیا۔ وہ اسے پرکھنے اسے آزمانے آیا تھا۔ وہ اس آزمائش میں بھی پوری اتری تھی مگر اس کے اندر ابھی اتنی گنجائش پیدا نہیں ہوسکتی تھی شاید کہ وہ اسے معاف کردیتا۔ اس کی سزا میں تخفیف کردیتا اور عبیر‘ وہ اس میں خوش ہوگئی تھی کہ اس نے اسے حویلی سے نہیں نکالا تھا۔ اس سے اپنے نام کا مان نہیں چھینا تھا۔
…٭٭٭…
مسز ملک کے تاثرات سے خفگی اور غصہ چھلک رہا تھا‘ ڈرائیور کے ہمراہ وہ حویلی جارہی تھیں۔ انہوں نے اسامہ کو فون پر گفتگو کرتے سنا تھا‘ وہ ملازم سے مخاطب تھا اور عبیر کے متعلق بات کررہا تھا‘ تب انہیں اندازہ ہوا تھا وہ بد کردار لڑکی اپنی ماں کے ساتھ فرار نہیں ہوئی تھی بلکہ اسامہ کے قبضے میں تھی۔ اسامہ جو ان کا باوقار وجیہہ اور شان دار بیٹا تھا۔ وہ اس کے لیے ہر گز بھی کسی ہلکے کردار کی لڑکی کو قبول نہیں کرسکتی تھیں۔
اسامہ کی بیوی ان کی نسل کی امین تھی اور وہ ہر گز کسی گھٹیا لڑکی کو قبول نہیں کرسکتی تھیں۔ آج اسامہ کی جو بات چیت سنی تھی اس سے انہیں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اسامہ کے دل میں اس کی گنجائش پیدا ہورہی تھی۔ وہ اسے ایک کمرے کی حدوں سے نکال کر حویلی میں اپنی مرضی کی زندگی کی اجازت دے رہا تھا آج اگر وہ اسے حویلی میں یہ رعایت دے رہا تھا تو کل واپس اپنے گھر میں بھی لاسکتا تھا اور یہی انہیں گوارا نہیں تھا۔
’’کہاں ہے وہ لڑکی! جو یہاں اسامہ نے رکھ چھوڑی ہے؟‘‘ وہ حویلی پہنچی تھیں تو ملازموں کو لائن حاضر کرلیا تھا۔ جو مالکن کو اچانک اور غیر متوقع طور پر سامنے پاکر اور غصے میں دیکھ کر فطری گھبراہٹ کا شکار ہوچکے تھے۔
’’بیگم صاحبہ وہ لڑکی اندر کمرے میں ہے۔‘‘ ملازم نے گھگھیا کر بتایا تو وہ اسے گھورتی تن فن کرتی کمرے میں آن گھسیں۔ وہ سامنے ہی جائے نماز پر بیٹھی تھی۔ ہاتھ دعا کو پھیلے تھے اور آنکھوں سے آنسو زارو قطار بہہ رہے تھے‘ وہ تلملا سی گئیں۔
’’ان ڈراموں سے تم اسامہ کو تو متاثر کرسکتی ہو مگر مجھے نہیں‘ سمجھیں تم…‘‘ انہوں نے وحشیانہ انداز میں اسے جائے نماز سے گھسیٹ لیا تھا۔ عبیر کی آنکھیں خوف ودہشت سے پھٹ سی گئیں۔
’’مجھے معاف کردیں امی! میں مجرم ہوں آپ کی۔‘‘اس کی بات ان کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی بدولت ادھوری رہ گئی‘ پھر ہاتھ رکا نہیں تھا۔
’’بکواس بند کرو‘ خبردار جو معافی کا لفظ منہ سے نکالا۔ تمہاری وجہ سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔‘‘ وہ زور سے پھنکاریں اور ا سے بالوں سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا وہ سنبھلے بنا سر کے بل جاکر گری‘ سر کے پچھلے حصے میں شدید چوٹ آئی تھی۔ جبھی خون کا فوارہ سا ابل پڑا۔
’’رحم بیگم صاحبہ!چھوٹی بی بی نہ صرف دوجی سے ہیں بلکہ روزہ دار بھی ہیں۔‘‘ ان کے پیر کی زور دار ضرب سے وہ جس طرح تڑپ کر اذیت سے دوہری ہوتی‘ ملازمہ خاموشی سے یہ تماشا نہیں دیکھ سکی۔ عبیر کی رنگت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سفید پڑنے لگی تھی۔ مسز ملک نے تند نظروں سے عبیر کو دیکھا تھا۔ پھر تنفر بھرے اندا زمیں منہ پھیرلیا۔
’’روزے اور نماز سے کالے کرتوت نہیں چھپائے جاسکتے۔ بہرحال جتنی جلدی ہوسکے دفع ہوجانا یہاں سے۔ اسامہ کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے بہتر ہوگا تم بھی اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاکر ان کاکاروبار چمکائو۔‘‘ ان کے لہجے میں حقارت بھری ہوئی تھی۔ عبیر کو سب سے زیادہ تکلیف اسی بات پر ہوئی تھی۔جبھی کچھ دیر قبل کی ذلت اور سبکی کے ساتھ تکلیف بھی فراموش کرکے ان کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا پڑی تھی۔
’’میں بے قصور ہوں‘ خدا کی قسم ! میرا یقین کریں‘ مجھے کچھ نہ دیں‘ اس گھر سے نہ نکالیں‘چاہے ملازم کی حیثیت سے رہنے دیں۔ آپ کو خدا کاواسطہ ہے۔‘‘ زارو قطار رو رہی تھی۔ مسز ملک نے پرسوچ اور جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ سر تاپا کا نپی تھی اور رحم طلب نظروں سے انہیں دیکھتی رہی تھی۔ انہوں نے ہونٹ بھینچے اور منہ پھیرلیا۔
’’سعدیہ! اسے میں یہاںرہنے کی اجازت دے رہی ہوں مگر یہ یہاں ملازم کی حیثیت سے رہے گی۔‘‘ انہوں نے حکم سنایا تھا اور واپس پلٹ گئیں۔ ان کے خیال میں یہ رحم دلی کی انتہا تھی۔
…٭٭٭…
بہت پر تپش اور حبس زدہ شام تھی۔ افطار میں ابھی خاصا وقت تھا۔ اس کے علاوہ وہاں اکثر ملازمائوں کے روزے تھے۔ وہ سحر و افطار میں خود سارا کھانا بنانے کا انتظام سنبھالا کرتی تھی۔ یہ اس کا اچھا سلوک اور نرم رویہ ہی تھا کہ وہاں موجود سب ملازم اس کی عزت کرتے تھے اور اسے مالکن کی حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے سے برتر یعنی مالکوں کی طرح توقیر کیا کرتے تو وہ شرمندہ ہونے لگتی تھی۔
اس نے شربت بنانے کے بعد فریج میں رکھا اور خود پائپ لگا کر صحن میں چھڑکائو کرنے لگی تبھی حویلی کے اندرونی دروازے سے اسامہ اندر آیا تھا۔ پائپ عبیر کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ماں کے بعد بیٹے کے تیور پتا نہیں کتنے بُرے ہوتے۔ خوف اس کی رنگت میں زردیاں بھرنے لگا۔
’’السّلام علیکم!‘‘
اسامہ کے نزدیک آنے پر اس کے ہونٹ کپکپائے تھے۔ نظریں مجرموں کے انداز میں جھک کر قدموں سے جاملی تھیں۔
’’وعلیکم السّلام ! کیسی ہو؟‘‘
سوال ہوا تھا اور وہ غیر یقینی سے اسے دیکھنے لگی۔
’’اتنا مشکل سوال پوچھ لیا ہے کہ یوں خوف زدہ نظر آنے لگو‘ شوہر ہوں تمہارا سخت غصیلا ٹیچر نہیں۔‘‘ اس کا سر تھپک کر وہ خفیف سا مسکرایا۔ عبیر کا سکتہ ٹوٹا مگر حیرت ہنوز تھی۔
’’تم قابل بھروسا نہیں ہو عبیر! مگر میں تمہیں موقع ضرور دینا چاہوں گا‘ پتا نہیں کیوں مگر میں تم سے دھوکا کھانے کو بھی تیار ہوں۔‘‘ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اندر لے آیا تھا اور گہرا سانس بھر کے آہستگی سے کہہ رہا تھا۔ عبیر کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔ اسے یقین نہیں آسکا تھا اسامہ نے ہی کہا جو ابھی اس نے سنا۔
’’ممی بہت خفا ہیں مگر انہوں نے گنجائش نکالی ہے۔ میں چاہتا تو تمہیں یہاں سے نکال سکتا تھا طلاق دے کر۔ مگر میں ایسا نہیں کررہا۔ معاف کرنا خدائی وصف ہے اور خدا معاف کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔ میں نہیں جانتا میں اتنا اعلیٰ ظرف کیونکر بن رہا ہوں اور میں اس اعلیٰ ظرفی پر قائم رہوں گا کہ نہیں‘ تم دعا کرنا میں اس پر قائم رہ سکوں۔‘‘ وہ رسانیت سے کہہ رہا تھا عبیر کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر شدت جذبات سے کچھ بولانہیں گیا۔ آنسو اس کے ہر جذبے کے مظہر بن گئے تھے۔
’’پیچھے پلٹ کر دیکھوں تو مجھے اپنی زندگی میں کوئی نیکی کوئی ایسا کام نظرنہیں آتا جو میں نے خالصتاً خدا کے لیے کیا ہو‘ تم کہہ سکتی ہو یہ درگزر یہ معافی میںنے خدا کی رضا حاصل کرنے کو دی ہے۔ ’’وہ‘‘ دلوں میں گنجائش نکالنے والا ہے۔ مجھے تمہارے معاملے میں اعلیٰ ظرفی پر قائم رکھے‘ تم دعا کرو گی نا؟‘‘ وہ سوال کررہا تھا۔ اسی پل فضا میں مغرب کی اذان کی مقدس آواز گونج اٹھی۔ اس نے پوری آمادگی کے ساتھ سر ہلایا تھا۔ اسامہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا۔ وہاں جہاں سب ملازمین جمع تھے اور روزہ افطار کررہے تھے۔ اسامہ نے پلیٹ سے کھجور اٹھا کر خود اس کے منہ میں ڈالی تھی۔
’’آج میرا روزہ نہیں ہے‘ میں گرمی میں روزہ نہیں رکھتا۔ مگر کل تم مجھے سحری کے لیے ضرور جگانا۔‘‘ وہ اسے تاکید کررہا تھا۔ عبیر کے دل میں جیسے ڈھیروں سکون اتر آیا۔ اس کی ساری دعائیں مستجاب ہوئی تھیں بلکہ خدا نے اسے اس کی اوقات سے بڑھ کر نواز دیا تھا۔ عید میں ابھی کچھ دن تھے مگر اسے ابھی سے عید سعید کی خوش خبری مل چکی تھی۔ گھپ اندھیرا چھٹا تو سنہری دھوپ نے ہر سمت روشنی پھیلا ڈالی تھی۔

میاں محمد اشفاق
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: سنہری دھوپ از ام مریم !!

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا بیحد شکریہ ;fl;ow;er;
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سنہری دھوپ از ام مریم !!

Post by چاند بابو »

اگر میاں صاحب کی شئرنگ ہے تو یقینا اچھی ہی ہو گی.
بہرحال اسے پڑھنے کا وقت نہیں ملا اس لئے تفصیلی تبصرہ پڑھنے کے بعد ہی ہو گا.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو ناول”