انکار بھی‘ اقرار بھی از راحت وفا!

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

انکار بھی‘ اقرار بھی از راحت وفا!

Post by میاں محمد اشفاق »

انکار بھی‘ اقرار بھی از راحت وفا!

طاہرہ بیگم باورچی خانے سے نکل کر سیدھی اس کے کمرے میں آئیں تو حسب معمول سر پیٹ لیا وہ دن کے گیارہ بجے بھی موبائل فون پرباتیں کرنے میں مصروف تھی۔ قہقہہ لگاتے ہوئے ان پر نظر پڑی تو ہونٹ بھینچ لیے‘ فون جلدی سے آف کردیا۔
’’راحمین! کیا کروں؟ کیسے تربیت کروں تمہاری؟‘‘ وہ بولیں تو وہ اچھل کر ان کے گلے کا ہار بن گئی۔
’’امی! وہ زریاب کا فون تھا۔‘‘
’’میں فون کی بات نہیں کررہی‘ دن کے گیارہ بج رہے ہیں‘ کمرے کا حال دیکھو۔ یہ چائے کا بھرا کپ‘ یہ گلاس میں بچا دودھ اور یہ جوس کا خالی گلاس کمرے میں ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک کڑی تنقیدی نگاہ سے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’تو ڈانٹیں نا اس کام چور نجمہ کو۔‘‘
’’کیوں؟ اس غریب کو اپنی مرضی کے خلاف کمرے میں گھسنے نہیں دیتیں‘ کتنی بار جھاڑو‘ ڈسٹر لے کر وہ کمرے میں آتی ہے اور پھر ڈانٹ کھا کر چلی جاتی ہے۔‘‘
’’وقت پر صفائی کیا کرے۔‘‘
’’راحمین! مجھے تو فکر ہے کہ تمہار کیا ہوگا ارے بس کل سے ماہ رمضان شروع اور عید کے بعد شادی۔ ابھی تک تمہارا لا ابالی پن ختم نہیں ہورہا۔‘‘
’’شادی کا مطلب کیا ہے؟‘‘ اس نے سوال داغا۔
’’گھر داری۔‘‘
’’تو مجھے نہیں کرنی شادی‘ کہہ دیں آپ پھوپو جانی کو۔‘‘ وہ بڑی بے پروائی سے کہہ کر مسکرانے لگی۔
’’راحمین! یہ کام تو تمہارے پپا اور دادی کریں گے‘ انہوں نے ہی سرچڑھا رکھا ہے تمہیں۔‘‘ طاہرہ بڑے اطمینان سے کہہ کر باہر جانے لگیں تو وہ بولی۔
’’میں زریاب سے ابھی بات کرلیتی ہوں۔‘‘ وہ پلٹیں اور گھور کر رہ گئیں اور پھر اس نے ان کے جاتے ہی زریاب کا نمبر ملایا۔
’’ہائے جان!‘‘ زریاب کی شوخ آواز آئی تو وہ بے زاری سے بولی۔
’’زریاب! میں تم سے شادی نہیں کررہی ‘ بتادو پھوپو جانی کو۔‘‘
’’وہاٹ! کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’مجھے تم سے شادی نہیں کرنی‘ کسی گھر سنبھالنے والی سے کرلو۔‘‘
’’راحمین! کیا احمقانہ بات کررہی ہو؟ میں میٹنگ میں ہوں پھر بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔
’’بس میں نے بتادیا‘ بائے…‘‘ اس نے یہ کہہ کر فون بند کردیا اور پُرسکون ہوکر آنکھیں موند لیں۔
اکلوتی اولاد ہونے کا ٹھیک ٹھاک فائدہ اٹھایا اس نے ‘ وہ طیب اشرف صاحب کی آنکھوں کی روشنی تھی اور دادی کے دل کا قرار۔ طاہرہ کا بھی چین و قرار وہی تھی لیکن ماں ہونے کے ناتے وہ اس کی اچھی تربیت بھی کرنا چاہتی تھیں۔ زندگی بسر کرنے کے طور اطوار بھی سمجھانا چاہتی تھیں مگر ان کی ہلکی سی سرزنش اور نصیحت بھی طیب صاحب اور دادی کو بہت بُری لگتی تھی۔
’’طاہرہ! راحمین بچی ہے اس کو یوں ڈانٹنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’بھئی ہمارے سامنے ہماری بچی کو کچھ نہ کہا کرو۔‘‘
’’ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ یہ اور اس طرح کے جملے انہیں سننے پڑتے تو وہ چپ ہوجاتیں اب جب کہ اس کی شادی ہونے والی تھی تو اب بھی انہیں سنجیدگی سے کچھ سمجھانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ ماہِ رمضان میں استعمال ہونے والے سامان کی فہرست بناکر باہر آئیں تو اماں راحمین کے کمرے سے آرہی تھیں‘ ان کے بولنے سے پہلے ہی بولیں۔
’’طاہرہ! بچی چند روز کی مہمان ہے‘ صبح صبح اسے ڈانٹ کر آئی ہو۔‘‘
’’اماں! صبح صبح؟ دن چڑھ چکا ہے اور چند روز کی مہمان کے ساتھ نغمہ آپا کیا کریں گی یہ معلوم ہے آپ کو۔‘‘
’’ہے کیوں بھئی نغمہ کی کیا مجال…؟‘‘ وہ چلائیں۔
’’نغمہ آپا کی بڑی بہو حنا کتنی سلیقہ شعار ہے اور نغمہ آپا کو راحمین کے طوراطوار پر دبی دبی شکایت بھی ہے وہ تو زریاب کی ضد پر انہوں نے ہاں کی ہے۔‘‘
’’تو کون منت کررہا ہے نغمہ کی‘ انکار کردے میری راحمین کے لیے رشتوں کی کمی ہے کیا؟‘‘ وہ بولیں‘ مجبوراً طاہرہ ہی چپ ہوگئیں۔
رات کھانے پر راحمین نے اٹھلاتے ہوئے باپ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’پپا! مجھے زریاب سے شادی نہیں کرنی۔‘‘ طاہرہ بیگم کے ہاتھ کا نوالہ ہاتھ میں ہی رہ گیا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ اشرف صاحب نے بہت حیرت سے پوچھا تو طاہرہ بیگم نے خاصی سختی سے کہا۔
’’آج چاند رات ہے منہ سے اچھی باتیں نکالو‘ منہ پھٹ اور بدلحاظی کی انتہا کردی ہے تم نے۔‘‘
’’اوہ! طاہرہ! بچی کی بات تو پوری سننے دو۔‘‘ دادی نے انہیں خاموش کرادیا۔
’’ہاں بولو بیٹا!‘‘ اشرف صاحب نے بڑے اطمینان سے سلاد اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا… تو وہ بولی۔
’’پپا! شادی کا مطلب گھر داری ہے تو مجھے شادی نہیں کرنی۔‘‘
’’شادی نہیں کرنی یا زریاب سے نہیں کرنی۔‘‘ اشرف صاحب نے کھانا ختم کرنے کے بعد پانی گلاس میں ڈالتے ہوئے کہا تو طاہرہ بیگم سے ضبط نہ ہوسکا وہ اٹھ کر چلی گئیں اور پھر عشاء کی نماز پڑھ کر انہوں نے راحمین کی ہدایت کے لیے خوشی کے لیے رو رو کر دعا مانگی تھی۔
…٭٭٭…
زریاب نے آسمان پرمسکراتے چاند کو دیکھا اور اس کا فون نمبر ملایا‘ اس کے اٹینڈ کرتے ہی وہ شوخ ہوگیا۔
’’میرے چاند کو چاند مبارک ہو۔‘‘
’’زریاب! اپنا چاند بدل لو۔‘‘ وہ کڑے تیور کے ساتھ بولی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ کچھ نہ سمجھ سکا۔
’’میں نے پپا کو کہہ دیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’میں تم سے شادی نہیں کررہی۔‘‘ بڑے سپاٹ لہجے میں بولی تو وہ سیخ پا ہوگیا۔
’’راحمین! تم ہوش میں تو ہو‘ کیا بک رہی ہو۔‘‘
’’میں نے فیصلہ سنایا ہے آگے جو تمہاری مرضی۔‘‘
’’راحمین! خدا کے واسطے بے ہودہ مذاق مت کرو۔‘‘
’’زریاب! میں مذاق نہیں کررہی۔‘‘
’’مجھے تمہاری ذہنی حالت پر شک ہورہا ہے۔‘‘
’’مجھے پھوپو کی بُری بہو نہیں بننا۔‘‘
’’یہ کیسی باتیں سوچنے لگی ہو۔ میں حیران ہوں میری محبت کو کس نظر سے دیکھ رہی ہو۔‘‘
’’تم کسی اور سے محبت کرلو‘ میں اپنا فیصلہ بدلنے والی نہیں۔‘‘
’’جسٹ شٹ اپ! وہ قسمیں وعدے سب کیا تھے؟‘‘ وہ چلایا۔
’’منگنی کے بعد کیے تھے‘ اب منگنی ختم تو…‘‘
’’بکو مت؟‘‘
’’اچھا! پلیز میرا دماغ نہ چاٹو‘ پپا سے بات کرلینا۔‘‘ اس نے فون بند کردیا۔ زریاب کا چہرہ تمتما اٹھا۔ اسے اس غیر متوقع صورت حال کا قطعاً اندازہ نہیں تھا۔
صبح تو وہ مذاق سمجھ کر ٹال گیا لیکن اب اتنی سرد مہری کا مظاہرہ کرنے پر وہ سخت متحیر تھا۔ الجھن میں ٹہلنے لگا‘ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے با ت کرے؟ پھر جیسے بجلی کی مانند حنا بھابی کا خیال ذہن میں کوندا تو وہ سیدھا کچن میں آگیا۔ حنا کچن میں سحری کے لیے سالن بنارہی تھی۔ اس نے سب کام چھڑواکے اسے ساتھ لیا اور اپنے کمرے میں آگیا۔
’’بات کیا ہے زریاب؟‘‘ اس نے من وعن راحمین کی باتیں بتائیں‘ حنا کو یقین نہیں آیا۔
’’یہ کیسی بات ہے‘ راحمین ایسا کیسے کہہ سکتی ہے۔ وہ بھی شادی سے ایک ماہ پہلے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں وہ ضدی‘ خود سر اور احمق لڑکی ہے مگر اب کرنا کیا ہے؟‘‘ وہ جھنجلا کر بولا۔
’’یہ بات پہلے طاہرہ مامی سے کرلی جائے۔‘‘ حنا نے خیال ظاہر کیا۔
’’تو کریں یہ لیں فون۔‘‘ اس نے جلدی سے اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر دیا۔
’’اس وقت مناسب نہیں‘ صبح کرلوں گی۔‘‘
’’آپ وجہ معلوم کیجیے گا‘ راحمین میرے جذبات‘ خاندان کی آبرو کیسے خاک میں ملا سکتی ہے۔‘‘ وہ خاصا ڈپریس تھا۔
’’فکرنہ کرو‘ سحری کے بعد موقع دیکھ کر بات کرلوں گی‘ حیرت کی بات ہے۔ اماں نے تو کل ہی عروسی ڈریس ٹیلر کو دیا ہے۔‘‘ حنا بھی متفکر سی ہوکر بولی۔
’’میری سمجھ میں تو خود کچھ نہیں آرہا۔‘‘
’’کیا پتا راحمین مذاق میں یہ بات کہہ رہی ہو۔‘‘ حنا نے تنکے کا سہارا لیا۔
’’وہ بہت سیریس تھی۔‘‘
’’چلو چھوڑو‘ صبح دیکھیں گے۔ مجھے کچن میں کام نمٹانے ہیں۔ تم پریشان نہ ہو۔‘‘ حنا اسے تسلی دے کرچلی گئی۔
…٭٭٭…
خسانسا ماں نے گرم پراٹھا توے سے اتارا تو طاہرہ نے گرم دودھ کا جگ اور آملیٹ بھی ٹرے میں رکھ کے ڈائننگ ٹیبل پر رکھنے کو کہا۔ خود بھی فریج سے جام اور دہی نکال کر ڈائننگ روم میں پہنچیں تو اشرف صاحب‘ اماں ہی موجود تھے راحمین نہیں تھی۔ وہ بنا کچھ کہے راحمین کے کمرے میں آگئیں۔
’’راحمین! اٹھو سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے۔‘‘
’’امی! تو میں کیا کروں؟‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’اس بار روزے رکھنے ہیں۔‘‘
’’مجھے نہیں رکھنے‘ سونے دیں۔‘‘
’’راحمین! روزے فرض ہیں‘ ان کی معافی نہیں۔‘‘ انہو ں نے کچھ پیار اور نرمی سے سمجھایا۔
’’امی! پلیز میں نہیں رکھ سکتی۔‘‘
’’ایسے نہیں کہتے‘ اٹھو شاباش!‘‘
’’اوہو! مجھے نہیں رکھنے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر کروٹ بدل کے سوگئی۔ تب تاسف کے ساتھ وہ ناکام سی ہوکر آگئیں۔
مگر اس احساس ندامت سے اشرف صاحب یا اماں کو کوئی مطلب نہیں تھا‘ وہ بجھی بجھی سی خود ہی بولیں۔
’’روزے نہ رکھنا کتنا بڑا گناہ ہے‘ اپنی لاڈلی کو آپ ہی بتادیں۔‘‘
’’ارے راحمین کی بات کررہی ہو۔‘‘ اماں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’جی اماں!‘ ‘ طاہرہ نے آدھا پراٹھا توڑ کر اپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’کمال کررہی ہو‘ دھان پان سی بچی کیسے روزے رکھ سکتی ہے۔‘‘ اماں نے خاصے استہزائیہ انداز میں کہا۔
’’اماں! روزے فرض ہیں‘ جوان بچی ہے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’چلو یہ اس کی مرضی ہے خود ہی رکھ لے گی۔‘‘ اشرف صاحب سحری میں گرم دودھ میں اوولٹین ڈال کر پیتے تھے‘ آرام سے پیتے ہوئے بولے۔
’’یہ فرض ہیں‘ مرضی کہاں سے آگئی۔ کیسا دین ہے آپ کا؟‘‘ طاہرہ بیگم کو غصہ آگیا۔
’’کچھ بھی ہے‘ بچی کو مجبور تو نہیں کرسکتے‘ میں خود سمجھادوں گی۔‘‘ اماں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ اشرف صاحب بھی اٹھ گئے۔ طاہرہ بیگم تنہا کڑھتی رہ گئیں‘ وہ کیا کرتیں؟ کوئی ان کا راحمین کی تربیت کے لیے

مددگار ہی نہیں تھا۔
اس وقت تو وہ دل تھام کے رہ گئیں جب حنا نے فون پر راحمین کے ارادے بتائے۔ حنا کو فی الحال انہوں نے خاموشی اختیار کرنے کو کہا اور خود آفس کے لیے تیار ہوتے اشرف صاحب کو گھیر لیا۔
’’یاخدا! راحمین کی حماقتوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔‘‘
’’اب کیا کردیا راحمین نے؟‘‘ وہ بریف کیس میں فائلیں رکھتے ہوئے بوے۔
’’کیا نہیں کیا؟ زریاب کو فون پر شادی نہ کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ حنا بہت پریشان تھی‘ زریاب اپ سیٹ ہے۔‘‘
’’حنا کیوں پریشان ہے؟ اور زریاب کیوں اپ سیٹ ہے؟‘‘ انہوں نے خاصے تحمل سے پوچھا۔
’’شادی کے گھر میں کیسی پریشان ہونی چاہیے اشرف صاحب؟‘‘
’’راحمین کے انکار کی بھی کوئی وجہ تو ہوگی۔‘‘
’’آپ کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے‘ ذرا سا بھی احساس ذمہ داری نہیں ہے اس میں۔ صرف گھر داری سیکھنے کی بات کو جواز بنالیا اس نے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’تو تم بھی بلاوجہ اسے ایسی باتوں سے ڈراتی ہو۔‘‘
’’اشرف صاحب! یہ حقیقتیں آپ کو پسند کیوں نہیں آتیں؟‘‘
’’طاہرہ! جس بات سے وہ چڑتی ہے اس کو کرنا ضروری ہے کیا؟‘‘
’’کب تک چڑتی رہے گی اور اب وہ چھوٹی بچی نہیں ہے‘ شادی کے بعد زندگی اور ہوتی ہے۔ میں ماں ہوں دشمن نہیں ہوں اس کی۔‘‘ وہ بھی غصے میں آگئیں۔
’’گھر داری کے لیے نوکر چاکر مل جاتے ہیں‘ نغمہ آپا جانتی ہیں راحمین میری نازوں سے پلی بیٹی ہے۔‘‘ وہ بولے۔
’’آپ اسے سمجھائیں کہ زبان بند رکھے فضول باتیں نہ کرے۔‘‘
’’اگر راحمین نے فی الحال شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو…‘‘
’’چپ ہوجائیں پلیز کیسے باپ ہیں آپ جس کی بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے اور وہ یہ کہے…‘‘
’’اچھا فی الحال میں لیٹ ہورہا ہوں‘ شام افطار کے بعد تسلی سے راحمین کو سمجھائوں گا۔‘‘ اشرف صاحب یہ کہہ کر چلے گئے۔
…٭٭٭…
شام افطار کے بعد جونہی اشرف صاحب مغرب کی نماز پڑھ کر آئے طاہرہ نے چائے تیار کراکے ان کو بھجوائی تو عین اسی وقت نغمہ آپا کا فون آگیا۔ طاہرہ نے فون فوراً اشرف صاحب کو جاکر تھمادیا۔
’’جی نغمہ آپا۔‘‘
’’میں چاہ رہی تھی کہ راحمین کو ایک دو روز کے لیے لاہور بھیج دو۔ زیورات اور جوتوں کی خریداری کروادوں۔‘‘ نغمہ آپا نے بنا کچھ سنے ہی ایسی بات کہہ دی کہ اشرف صاحب گڑبڑاگئے۔
’’وہ… دراصل… میں…‘‘
’’کیا وہ میں…؟ ڈرائیور کو بھیج دیتی ہوں۔‘‘ نغمہ آپا نے ٹوکا۔
’’مجھے راحمین سے بات تو کرلینے دیں۔‘‘
’’کیسی بات…؟‘‘
’’راحمین چاہتی کیا ہے؟‘‘
’’چلو ٹھیک ہے اگر لاہور سے نہیں کرنی تو میں رقم آن لائن کرادیتی ہوں۔‘‘ نغمہ آپا نے بات نہ سمجھتے ہوئے تو اشرف صاحب کی کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔
’’میں بتادوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے اور طاہرہ سے میری بات کرائو۔‘‘ انہوں نے کہا تو اشرف صاحب نے جلدی سے فون طاہرہ بیگم کو تھمادیا۔
’’جی آپا!‘‘
’’طاہرہ! مہندی کا انتظام میری طرف سے کرنا۔‘‘
’’جی آپ کی طرف سے؟‘‘ طاہرہ نے کچھ حیرت سے پوچھا۔
’’بھئی میری بھتیجی ہے مہندی پھوپو کی طرف سے ہوگی۔‘‘
’’اوہ! اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ طاہرہ بجھی بجھی سی بولیں۔ فون بند کرنے کے بعد چند لمحے وہ سکتے کی سی کیفیت میں کھڑی رہیں اشرف صاحب نے پکارا۔
’’ایسا کیا کہہ دیا آپا نے…؟‘‘
’’جو آپ سننا نہیں چاہتے تھے۔‘‘ وہ ان کے پاس بیٹھ گئیں۔
’’میں نے سن لی ہے ان کی بات مگر میرے لیے میری بیٹی مقدم ہے۔‘‘
’’اشرف آپ غلط کررہے ہیں‘ یہ معمولی بات نہیں آپ کی بہن کے گھر کی بدنامی ہوگی۔ بیٹی کی کھلونا خریدنے کی فرمائش نہیں ہے۔ دو گھروں کی آبرو کی بات ہے‘ راحمین نا سمجھ ہے۔‘‘ طاہرہ بولتی چلی گئیں۔
’’تو پھر کیا کروں؟ بیٹی کو ناراض کردوں۔‘‘
’’اس میں ناراضی کی بات نہیں ہے‘ ناسمجھی کی بات ہے آپ بھول رہے ہیں راحمین نے زریاب کو پسند کیا ہے‘ غیر ضروری بات پر اڑی ہے نا۔‘‘
’’طاہرہ…‘‘ اشرف صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔
’’اشرف فی الحال آرام سے راحمین کی بات ٹالیں مگر شادی کی تیاری کریں۔‘‘ طاہرہ نے اتنے تحمل سے کہا کہ پہلی مرتبہ اشرف صاحب نے توجہ سے ان کی بات سنی۔
…٭٭٭…
جونہی زریاب‘ اوصاف تراویح پڑھ کر آئے۔ نغمہ بیگم نے زریاب کو گاڑی نکالنے کو کہا۔

’’اماں! خیریت اس وقت۔‘‘
’’کیوں بھئی اس وقت کیا ہے؟ بازار کے بکھیڑے تو اسی وقت نمٹائے جائیں گے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’اماں! آج پہلا روزہ تھا‘ بہت عجیب سی کیفیت ہے۔ ‘‘ اس نے عذر پیش کیا۔
’’زریاب! دماغ ٹھیک ہے تمہارا‘ روزے کے ساتھ بازاروں کے چکر نہیں لگتے‘ چلو ضروری جاناہے۔‘‘ انہوں نے اسے لتاڑا کہ زریاب گم صم سا حنا بھابی کا منہ دیکھنے لگا۔ اماں اپنا بٹوہ اور سامان کی فہرست اٹھائے کمرے میں گئیں تو بولا۔
’’بھابی! اماں کو بتادینا چاہیے‘ راحمین بہت ضدی لڑکی ہے‘ بعد میں اماں بہت خفا ہوں گی۔‘‘
’’نہیں! میں نے طاہرہ مامی کو بتادیاہے‘ اب جو کہنا ہے وہ کہیں اور کچھ دیر پہلے اماں نے اشرف ماموں اور طاہرہ مامی سے بات کی ہے‘ انہوں نے انکار کیا ہوتا تو اماں بتادیتیں۔‘‘
’’توپھر۔‘‘
’’پھر یہ کہ اللہ پر توکّل رکھ کے خاموشی سے ویسا کرو‘ جیسا اماں چاہتی ہیں۔‘‘
’’لیکن…‘‘
’’لیکن کیا…؟‘‘ اماں نے آتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں‘ آیئے چلیں۔‘‘ زریاب ٹال گیا۔ حنا اور اماں ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔
زریاب دل ہی دل میں راحمین کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے اب تک یقین نہیں آیا تھا کہ راحمین شادی سے انکار کرے گی۔ جس سے وہ شدید محبت کرتا ہے اور جسے خود راحمین نے بھی پسند کیا‘ منگنی کی انگوٹھی پہنتے ہوئے کتنے خوب صورت انداز میں شرمائی تھی‘ اب اسے کیا ہوگیا۔ کہیں اور کوئی تو… اتنا سوچ کر ہی وہ بے قرار ہوگیا۔
…٭٭٭…
اشرف صاحب نے طاہرہ کو بتایا تو وہ پھٹ پڑیں۔
’’اشرف! آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ بیٹی نے بچوں کا کھیل سمجھا اورآپ نے مان لیا۔‘‘
’’تو کیا کروں؟ کیا ضرورت تھی ڈرانے کی۔ ارے بچی ہے شادی کے بعد خود سمجھ جاتی۔‘‘ وہ بھی غصے سے بولے۔
’’برسبیل تذکرہ چھوٹی سی نصیحت کردی تو اسے ضد بنالیا‘ کتنی نامعقول بات ہے‘ اپنی بہن کا سوچیں اور اپنی عزت کا سوچیں لوگ کیا کہیں گے۔ آپ باپ ہیں۔‘‘ وہ بہت جذباتی ہوگئیں۔

’’اچھا! کچھ حل نکالتے ہیں۔‘‘ وہ نرم پڑگئے۔
’’کس بات کا حل؟ شادی ہوگی بس۔‘‘
’’سوچتا ہوں‘ تم اسے کچھ نہ کہنا۔‘‘
’’مجھے خاموش کراکرا بیٹی کو خود سر اور بدتمیز بنادیا ہے۔ انگریزی تعلیم کے سوا کیا ہے اس کے پاس۔ نا نماز‘ نا روزہ‘ دین اور دنیا دونوں ہی اکارت۔‘‘ طاہرہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئیں تو اشرف صاحب آفس کے لیے تیار ہونے لگے۔
مزید دو روز خاموشی کی نذر ہوگئے پھر اتفاقاً نغمہ آپا کی علالت کی اطلاع آئی تواشرف صاحب نے فوری طور پر سب کے ساتھ لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ راحمین کو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ وہ بڑے نارمل انداز میں ہنستی مسکراتی ساتھ گئی۔ نغمہ آپا کا شوگر لیول کم ہوگیا تھا۔ دو روز ٹھہر کر اشرف صاحب‘ طاہرہ اور اماں جان واپس آگئے۔ حنا کے سمجھانے پر راحمین کو چند دن کے لیے چھوڑ آئے۔ آتے ہوئے طاہرہ نے زریاب اور حنا کو راحمین کے انکار کی وجہ بتادی جس پر وہ دونوں مطمئن ہوگئے۔ انہیں راحمین کے معصوم سے انکار کی وجہ نے بہت لطف دیا‘ راحمین نے رکنے پر ہچکچاہٹ کی لیکن پھر حنا کے اصرار پر رک گئی۔ زریاب تو اس سے ویسے بھی کھچا کھچا تھا لیکن راحمین کو کہاں اس بات کی پروا تھی۔ وہ ماں باپ کے یہاں سے خاموشی سے جانے پر حیران تھی۔ دادی کو بھی اس نے کئی بار ٹٹولا مگر شادی سے انکار والی بات کسی نے نہیں کی بس طاہرہ نے فقط جاتے ہوئے اتنا کہا۔
’’شادی کے معاملے میں زبان بالکل بند رکھنا‘ جو کہنا سننا ہے‘ وہ ہم کہیں گے۔ نغمہ آپا کی طبیعت ناساز ہے فی الحال ایسی کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ طاہرہ کی بات پر وہ چپ ہوگئی۔
اس وقت وہ حنا بھابی اور ننھے چاند کے ساتھ پھوپو کے پاس بیٹھی تھی۔ تبھی زریاب آگیا اور اسے نظر انداز کرتے ہوئے حنا سے بولا۔
’’بھابی! یہ گلاب دین اور جمیلہ کہاں ہیں؟‘‘
’’ہاں‘ وہ اپنے گائوں گئے ہیں‘ گلاب دین کی اماں کی طبیعت خراب ہے۔ ایک ہفتے کی چھٹی پر گئے ہیں۔‘‘ حنا نے بتایا۔
’’اور اب گوشت سبزی‘ پھل کون سنبھالے گا اور سب چیزیں کچن میں رکھی ہیں میں نے؟‘‘ وہ بولا۔
’’اوہ! میں تو چاند کو نہلانے جارہی ہوں‘ پلیز راحمین سب چیزیں دیکھ لو۔‘‘ حنا نے براہ راست راحمین کو مخاطب کیا تو وہ جز بز سی اٹھی اور ہکلائی۔
’’جی… جی… میں جاتی ہوں۔‘‘ وہ جانے لگی تو زریاب کو جیسے یاد آگیا۔
’’بھابی! میری شرٹ بھی استری نہیں ہے۔‘‘
’’راحمین میری جان! کچن سے فارغ ہوکر صرف ایک شرٹ زریاب کی استری کردینا‘ باقی میں کردوں گی۔‘‘
’’جی…؟‘‘ راحمین کے منہ سے کچھ عجیب سے اندا زمیں نکلا۔ زریاب باہر نکل گیا تو راحمین بھی باہر نکل آئی۔
راحمین نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ کام کرنے تھے‘ وہ پریشان حال کچن میں سب چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔ زریاب نے دانستہ جھانک کر دیکھا اور اندر آگیا۔
’’پریشان ہو۔‘‘ وہ بولا۔
’’یہ سب چیزیں کہاں اور کیسے رکھنی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’گوشت صاف کرکے دھونا اور پھر پانی نکلنے کے بعد ڈیپ فریزر میں رکھو۔ سبزیاں اور پھل دھوکر فریج میں رکھتے ہیں۔‘‘ زریاب یہ کہہ کر چلا گیا‘ وہ سر تھام کے رہ گئی۔ اتنے مشکل کام…
شرٹ الٹی سیدھی استری کرکے فارغ ہوئی تو سر میں درد ہورہا تھا۔ جسم تھکن سے چُور تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے ایک کپ چائے بنوائے؟ حنا بھابی روزے سے تھیں انہیں بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ لہٰذا بیڈ پر تکیے میں منہ دے کر سوگئی۔ آنکھ حنا بھابی کی آواز پر کھلی۔
’’راحمین! پلیز افطار کا وقت ہورہا ہے‘ کچن میں میری مدد کرادو۔‘‘
’’جی‘ میں…؟‘‘ وہ بمشکل یہ کہہ کر اٹھی۔
’’جلد آجائو‘ پکوڑے اور فروٹ چاٹ تم بنالو۔‘‘ حنا بھابی یہ کہہ کر چلی گئیں۔ اسے اچھا نہیں لگا کیوں کہ ایسا کوئی کام اسے آتا ہی نہیں تھا۔ زریاب نے کمرے میں جھانکا تو وہ جلدی سے بولی۔
’’زریاب!‘‘
’’جی!‘‘
’’مجھے واپس جانا ہے۔‘‘
’’اتنی جلدی۔‘‘ وہ چونکا۔
’’وہ بس‘ مجھے کچھ آتا نہیں‘ شرمندگی سے بہتر ہے کہ چلی جائوں۔‘‘ وہ خاصی نرمی سے بولی۔
’’بس اتنی سی بات ہے‘ حنا بھابی سے پوچھ لیا کرو‘ وہ سب کچھ سیکھادیں گی۔‘‘
’’مجھے ایسے کام نہیں سیکھنے۔‘‘ وہ بولی۔
’’تو پھر نہ سیکھو‘ پریشانی کیا ہے؟‘‘
’’ایسے کاموں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘ اسی لیے تو شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
’’اچھا فیصلہ ہے‘ اسی لیے اب میری شادی ایسی لڑکی سے ہورہی ہے جسے سب کاموں سے دلچسپی ہے۔‘‘ زریاب نے جواب دیا تو وہ حیران سی دیکھتی رہ گئی۔ وہ چلا گیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچن میں پہنچ گئی۔ حنا بھابی تیزی سے افطاری کے کاموں میں مصروف تھیں۔
افطار کا وقت قریب تھا۔ اس نے حنا بھابی کی ہدایت کے مطابق میزپر برتن لگائے‘سب تیار شدہ چیزیں لاکر رکھیں۔ کچھ ہی دیر میں اوصاف اور زریاب آگئے۔ نغمہ آپا نے تو طبیعت خرابی کے باعث روزہ نہیں رکھا تھا۔ اس کا بھی روزہ نہیں تھا‘ زریاب نے سب چیزوں کو غور سے دیکھا اور تعریف کی۔
’’بھئی پکوڑے اور فروٹ چاٹ راحمین نے بنائے ہیں۔‘‘ حنا بھابی نے کہا۔
’’مزہ تو تب ہے کہ راحمین روزے بھی رکھے۔‘‘ زریاب نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔ راحمین خجالت سے مسکرادی۔ اوصاف بھائی نے اس کی طرف سے کہا۔
’’یہ کون سی بڑی بات ہے سب کے ساتھ اٹھے گی تو روزہ بھی رکھ لے گی۔‘‘ وہ کچھ نہ بولی۔
پھر ایسا ہی ہوا۔ حنا بھابی نے اسے گہری نیند سے جگادیا۔
’’راحمین! چاند کو ٹمپریچر سا ہے‘ سو نہیں رہا ذرا سحری کے لیے آملیٹ تو بنائو میں آتی ہوں۔‘‘ اسے بہت غصہ آیا مگر بول نہ سکی‘ اٹھنا پڑا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے‘ دوپٹا لیا اور باہر نکلی۔ تیزی سے اپنی فہم کے مطابق آملیٹ بنایا‘ حنا بھابی نے پراٹھے بنائے‘ اس نے چائے کا پانی رکھا‘ برتن لگائے‘ سب کے ساتھ کھانا پڑا۔ حنا بھابی نے بآواز بلند روزہ رکھنے کی دعا پڑھی پھر اوصاف اور زریاب مسجد گئے تو حنا بھابی نے اس کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی‘ نماز پڑھ کر اسے کافی اچھالگا۔ نغمہ پھوپو کی آواز آئی تو وہ ان کے پاس آگئی۔ گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دیکھ کر نغمہ پھوپو کھل اٹھیں۔
’’ماشاء اللہ! جیتی رہو‘ کتنا نور ہے میری بیٹی کے چہرے پر۔‘‘ وہ خوش ہوگئی۔
’’آپ کے لیے چائے لائوں۔‘‘ پہلی بار اس نے پوچھا۔
’’نہیں‘ بس مجھے الماری سے قرآن پاک نکال کر دو۔‘‘
’’جی بہتر!‘‘ اس نے جلدی سے الماری کھول کر سبز غلاف شدہ قرآن پاک نکالا اور انہیں تھمادیا۔
’’جائو جاکر آرام کرلوبیٹا!‘‘ انہوں نے کہا تو وہ اٹھ کر آگئی۔
زریاب سے پھوپو کے کمرے کے باہر ٹکرائو ہوگیا۔ دوپٹے میں پاکیزہ پاکیزہ سی راحمین بہت اچھی لگی۔ نظریں اس کے چہرے پر جم سی گئیں مگر اس کے بولنے سے بوکھلایا۔
’’زریاب! ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں‘ وہ تم بالکل میری ہونے والی بیوی جیسی لگ رہی ہو‘ سوری…!‘‘
’’حیرت ہے۔‘‘
’’حیرت کی کوئی بات نہیں ہے‘ تم اس سے ملو گی تو دیکھتی رہ جائو گی۔‘‘
’’تو کب ملوا رہے ہیں اس سے۔‘‘
’’ان شاء اللہ عید کے بعد۔‘‘
’’مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ آگے بڑھ گئی‘ زریاب کو ہنسی آگئی۔
وہ کمرے میں آکر بھی کافی ڈسٹرب سی رہی۔ ذرا دیر کو بیڈ پر دراز ہوئی تو حنا بھابی کافی سارے کپڑے اٹھائے اس کے پاس آگئیں۔
’’راحمین! یہ کپڑے ٹیلر کو دینے ہیں‘ بتائو تو کیسے سلنے چاہئیں؟‘‘


’’میں کیسے بتائوں؟‘‘
’’بھئی وہ لڑکی بہت ماڈرن ہے سمجھ میں نہیں آرہا کیسے سلوائے جائیں؟‘‘
’’اسی سے پوچھ لیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ارے واہ! تم سے کیوں نہ پوچھیں بلکہ تم ساتھ جائو‘ زریاب لے جائے گا۔‘‘ اسی وقت نغمہ بیگم نے وہاں آتے ہوئے کہا۔
’’مگر پھوپو!‘‘ وہ کترائی۔
’’اچھا ہے نا‘ تمہارے مشورے سے سل جائیں گے۔‘‘ حنا نے کہا۔ نغمہ بیگم جونہی کمرے سے گئیں تو حنا نے سنجیدگی سے کہا۔
’’راحمین! دراصل اماں کو تمہارے انکار کا ابھی بتایا نہیں۔‘‘
’’تو تیاری…‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’زریاب کے دوست کی بہن فریحہ‘ زریاب کو پسند ہے ہم نے خاموشی سے ان سے بات کی ہے‘ ذرا اماں کی طبیعت بہتر ہوجائے تو بتادیں گے۔‘‘
’’آپ اور زریاب پھوپو جانی کو دھوکا دے رہے ہیں؟‘‘ اسے بہت غصہ آیا۔
’’نہیں‘ مصلحت کا تقاضایہ ہے۔‘‘
’’زریاب کی پسند کا پھوپو کو پتا ہونا چاہیے‘اسے غصہ آرہا تھا۔‘‘ حنا نے واضح طور پر محسوس کیا۔
’’رحمین! زریاب کی پہلی پسند تم ہی تھیں مگر تم نے کیونکہ انکار کردیا ہے تو گھر کی عزت بچانے کے لیے فریحہ کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ حنا بولیں۔
’’محبت کا محور بدل گیا نا۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’کس نے بدلا؟‘‘ حنا نے بھی طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’چھوڑیئے‘ مجھے کیا بس مجھے واپس جانا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
’’مرضی تو زریاب کی چلی۔‘‘
’’لیکن پہل تم نے کی۔‘‘
’’ٹھیک ہے… ٹھیک ہے‘ مجھے واپس جانا ہے پلیز اوصاف بھائی سے کہیں کہ ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں۔‘‘
’’اوکے رات کہہ دوں گی۔‘‘ حنا نے جواب دیا اور باہر چلی گئی۔ تب اسے بہت غصہ آیا‘ کھٹ سے پپا کو فون ملایا اور انہیں بھی آنے کو کہا وہ تو بے قرار ہوگئے۔ وہیں سے دلاسے دیئے اور اوصاف کو کہنے کا یقین دلایا۔
حنا اور زریاب بازار گئے تھے‘ عصر کاوقت ہورہا تھا اور وہ اب تک نہیں لوٹے تھے۔ تب نغمہ پھوپو نے چاند کو اس کے حوالے کیا۔
’’ارے بیٹا! تم چاند کو سنبھال لو‘ میں ذرا کچن میں جائوں کھانا بنانا ہے۔ افطار کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘
اس نے بڑے سلیقے سے روتے ہوئے چاند کو بازوئوں میں بھرلیا۔ روزے کی وجہ سے شدید نقاہت محسوس ہورہی تھی کیونکہ عادت ہی نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے وقت گزر رہا تھا ایسے میں چاند کو سنبھالنا مشکل کام تھا خیر تھپک تھپک کے اسے سلایا تو اخلاقاً کچن میں آگئی۔ نغمہ پھوپو اکیلی مصروف تھیں۔
’’ارے تم سوئیں نہیں۔‘‘وہ بولیں۔
’’نیند نہیں آرہی۔‘‘
’’چلو یہ لو دہی بھلے مکس کرو‘ وقت منٹوں میں گزر جائے گا۔‘‘ انہوں پھینٹا ہوا دہی کا بڑا سا ڈونگا اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ پھوپو کو حقیقت بتادے لیکن باہر گاڑی کی آواز پر چپ ہوگئی۔
’’راحمین ! بچے آئو پہلے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔‘‘
’’جی! وہ سب کام چھوڑ کر ان کے ساتھ باہر آگئی۔‘‘
نمازسے فارغ ہوتے ہی حنا نے نغمہ پھوپو کو ان کے کمرے میں بھیج دیا اور خود اسے لیے کچن میں آگئی۔ سالن میں کچھ کثر باقی تھی‘ پکوڑوں کامسالا تیار تھا‘ رائتہ تیار تھا۔
’’آج تو تھک گئی ہوں۔‘‘ حنا ہینڈیا میں چمچہ چلاتے ہوئے بولی۔
’’آپ رہنے دیں‘ میں دیکھتی ہوں۔‘‘ اسے اخلاقاً کہنا پڑا۔
’’ارے نہیں‘ یہ سب چیزیں زندگی کا حصہ ہیں‘ شادی کی تیاری تو اچھا شگن ہے اور یہ باورچی خانے کی گہما گہمی بہت بڑی برکت ہے۔ مجھے عادت ہے۔‘‘ حنا نے بڑے سلیقے سے کہا۔
’’دراصل ملازم بھی تو چھٹی پر ہیں۔‘‘
’’ہاں! لیکن میں اور اماں ملازمین پر بھروسا نہیں کرتے۔ بھلا کام کاج سے بھی کچھ ہوتا ہے۔ عورت کی پہچان ہی گھرداری ہے۔‘‘ حنا نے یخنی میں بھیگے ہوئے چاول ڈالتے ہوئے بتایا تو وہ ٹھٹکی۔
’’یہ گھر داری اتنی ضروری کیوں ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ گھر اسی سے چلتا ہے‘ بنتا ہے۔ لاکھ ملازم ہوں مگر لڑکیوں کو دلچسپی لینی پڑتی ہے۔‘‘ حنا نے تیزی سے جوس نکالنے کے لیے موسمبی چھیلنی شروع کردی۔
’’آپ کو پسند ہے؟‘‘
’’شادی سے پہلے بہت کام نہیں کرتی تھی‘ مما کو دیکھ دیکھ کر ان سے سیکھ گئی۔ یہاں آکر اماں نے سب کچھ سکھادیا۔‘‘ وہ چپ ہوگئی‘ مزید کچھ پوچھا نہیں‘ حسب معمول میز پر برتن لگائے‘ چیزیں رکھیں‘ سب کو اطلاع دی اور یوں آج کے دن کا روزہ افطار ہوا۔
…٭٭٭…
رات وہ سامان بیگ میں رکھ رہی تھی کہ زریاب آگیا۔
’’مائی ڈئیر کزن! کیا ہورہا ہے؟‘‘ اس نے بیگ دیکھ کر بھی دانستہ پوچھا۔
’’سامان پیک کررہی ہوں۔‘‘ وہ بولی۔
’’اچھا! میرا تو خیال تھا کہ تم میری شادی اٹینڈ کرکے جاتیں۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ اسے ایک دم غصہ آگیا۔
’’سوری یار! تمہیں کام کرنا پڑرہا ہے۔‘‘ وہ انجان بن کر بولا۔
’’میں کام کی بات نہیں کررہی۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘
’’تم نے اب تک پھوپو جانی کو اصل بات نہیں بتائی۔‘‘
’’ہاں نہیں بتایا کیونکہ شادی ہورہی ہے‘ تم نہ سہی فریحہ سہی‘ میں اپنی اماں کو صدمہ نہیں دے سکتا۔‘‘
’’دھوکا دے سکتے ہو‘ وہ تو مجھے ہی سمجھ رہی ہیں۔‘‘
’’سمجھنے دو‘ حقیقت کھل جائے گی‘ وہ جان لیں گی کہ راحمین اشرف ان کی بہو نہیں بن رہیں بلکہ فریحہ امجد بن رہی ہیں۔‘‘ وہ حد درجہ سختی اور بے پروائی کے ساتھ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تو وہ چلائی۔
’’کچھ بھی کہو تم پھوپو جانی کو دھوکا دے رہے ہو‘ میرے فیصلے سے سب آگاہ ہیں لیکن پھوپو جانی نہیں۔‘‘
’’تو جائو بتائو پھوپو جانی کو کہ تم نے شادی نہیں کرنی۔‘‘ وہ شان بے نیازی سے بولا۔
’’میں ضرور بتائوں گی۔‘‘ وہ اکڑی۔
’’اگر میری اماں کو صدمہ سے کچھ ہوا تو میں تمہارا گلا دبا دوں گا۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ اس کی گردن کی طرف لاتے ہوئے غرایا تو وہ پرے ہوگئی۔
’’تم اپنی ماں کو چیٹ کررہے ہو۔‘‘ وہ بولی۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ تم فریحہ سے جیلس ہورہی ہو۔‘‘ اس نے پوچھا۔ وہ گڑبڑائی۔
’’جی نہیں‘ مجھے فریحہ سے کوئی مطلب نہیں۔‘‘
’’چلو پھر تو جھگڑا ہی ختم اب تو خوشی سے شاپنگ وغیرہ کرادو۔‘‘
’’راحمین ! راحمین بیٹا! یہ دیکھو تو کڑوں کا سائزہ ٹھیک ہے۔‘‘ اسی اثناء میں نغمہ پھوپو دو خوب صورت کٹرے لیے آگئیں۔
’جی سائز‘ کس کا سائز…؟‘‘ وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔
’’اماں بظاہر تو ٹھیک لگ رہا ہے۔‘‘ زریاب نے کہا۔
’’بظاہر چھورو‘ بار بار توڑ پھوڑ کی میں قائل نہیں۔ پہن کر دیکھ لو۔‘‘ اماں کب ماننے والی تھیں۔
’’راحمین ! پہن کر دیکھ لو‘ یہ اسٹینڈرڈ سائز ہے‘ سب کو میرا مطلب ہے ایسی کلائی والی ہر لڑکی کو پورا آئے گا۔‘‘ مجبوراً راحمین نے ایک کڑا کلائی میں ڈال کر دیکھا اور اتار کے نغمہ پھوپو کو پکڑادیا۔
’’جیتی رہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں تو اس نے زریاب کو گھور کر دیکھا۔
…٭٭٭…
اگلی صبح وہ اوصاف کے کہنے کے مطابق تیار تھی مگر ڈرائیور نہ ہونے کے باعث زریاب کو کہا گیا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر اماں کے کہنے پر راضی ہوگیا۔ وہ سب سے مل کر آخر میں نغمہ پھوپو کے پاس گئی اور کچھ کہتے کہتے رک گئی‘ زریاب نے جلدی سے آواز لگادی۔
’’محترمہ آجائیں‘ مجھے شام کو واپس بھی آنا ہے۔‘‘
’’کوئی افراتفری نہیں ہے‘ جو کام ضروری ہیں وہ کرکے آنا۔‘‘ نغمہ پھوپو نے زریاب سے کہا۔ وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’مس راحمین بی بی! میں آپ کا ڈرائیور ہوں‘ نا منگیتر‘ آگے تشریف لائیں۔‘‘
’’ایکسکیوزمی مسٹر زریاب! بار بار جتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔
’’میں تو حیران ہوں وہ قسمیں وعدے سب کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت ہولے سے وہ بولا۔
’’میں کچھ نہیں بھولی۔‘‘
’’بھولی ہو تو شادی نہیں کررہیں نا۔‘‘ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے بولا۔
’’کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’چلو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں‘ شادی تو میں فریحہ سے کررہا ہوں لہٰذا وہ وجہ تو بتائو۔‘‘ اس پر ترچھی نظر ڈال کر پوچھا۔
’’بتایا تو تھا‘ بار بار بتانے کی مجھے عادت نہیں۔‘‘
’’یار! مجھے بالکل نہیں یاد ایک بار بتادو۔‘‘
’’مجھے اتنا ہی پتا چلا ہے کہ محبت‘ پسند نا پسند کی کوئی حیثیت نہیں‘ شادی صرف کولہو کے بیل کا نام ہے۔‘‘
’’وہاٹ؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’میں حنا بھابی جیسی زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ انسان آزاد فطرت پیدا ہوا ہے‘ میں پابندی کی قائل نہیں ہوں۔‘‘ وہ بتا کر کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے لگی۔
’’کتنی بچکانہ سوچ ہے تمہاری۔ تم نے جو بھی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے کیا‘ کیا وہ کوفت کا باعث ہے یا کہیں کوئی خوشی اور اطمینان بھی ہے۔ وقت ملے تو سوچنا۔‘‘ زریاب نے کافی سنجیدگی سے کہا اور پوری توجہ سے ڈرائیو کرنے لگا۔ وہ اس کی بات سے الجھن کا شکار ہوگئی مگر کچھ بولی نہیں۔
پھر سارا رستہ خاموشی کی نذر ہوگیا۔ وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوتی رہی اور وہ گاڑی دوڑاتا رہا۔
…٭٭٭…
طاہرہ بیگم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ راحمین بجھی بجھی سی ہے۔ زریاب اشرف صاحب کے ساتھ مصروف تھا‘ تقریباً دو روز اسے رکنا پڑا‘ مگر وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ دادی کی گود میں سر رکھا‘ انہوں نے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو آنکھیں بھر آئیں وہ پریشان ہوگئی‘ طاہرہ بیگم نے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے میری جان؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے؟‘‘ طاہرہ نے پوچھا۔
’’جب میں نے کہا تھا کہ شادی نہیں کرنی تو آپ نے نغمہ پھوپو کو کیوں نہیں بتایا؟‘‘ وہ ایک دم احتجاجی انداز میں چلائی۔
’جی سائز‘ کس کا سائز…؟‘‘ وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔
’’اماں بظاہر تو ٹھیک لگ رہا ہے۔‘‘ زریاب نے کہا۔
’’بظاہر چھورو‘ بار بار توڑ پھوڑ کی میں قائل نہیں۔ پہن کر دیکھ لو۔‘‘ اماں کب ماننے والی تھیں۔
’’راحمین ! پہن کر دیکھ لو‘ یہ اسٹینڈرڈ سائز ہے‘ سب کو میرا مطلب ہے ایسی کلائی والی ہر لڑکی کو پورا آئے گا۔‘‘ مجبوراً راحمین نے ایک کڑا کلائی میں ڈال کر دیکھا اور اتار کے نغمہ پھوپو کو پکڑادیا۔
’’جیتی رہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں تو اس نے زریاب کو گھور کر دیکھا۔
…٭٭٭…
اگلی صبح وہ اوصاف کے کہنے کے مطابق تیار تھی مگر ڈرائیور نہ ہونے کے باعث زریاب کو کہا گیا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر اماں کے کہنے پر راضی ہوگیا۔ وہ سب سے مل کر آخر میں نغمہ پھوپو کے پاس گئی اور کچھ کہتے کہتے رک گئی‘ زریاب نے جلدی سے آواز لگادی۔
’’محترمہ آجائیں‘ مجھے شام کو واپس بھی آنا ہے۔‘‘
’’کوئی افراتفری نہیں ہے‘ جو کام ضروری ہیں وہ کرکے آنا۔‘‘ نغمہ پھوپو نے زریاب سے کہا۔ وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’مس راحمین بی بی! میں آپ کا ڈرائیور ہوں‘ نا منگیتر‘ آگے تشریف لائیں۔‘‘
’’ایکسکیوزمی مسٹر زریاب! بار بار جتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔
’’میں تو حیران ہوں وہ قسمیں وعدے سب کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت ہولے سے وہ بولا۔
’’میں کچھ نہیں بھولی۔‘‘
’’بھولی ہو تو شادی نہیں کررہیں نا۔‘‘ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے بولا۔
’’کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’چلو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں‘ شادی تو میں فریحہ سے کررہا ہوں لہٰذا وہ وجہ تو بتائو۔‘‘ اس پر ترچھی نظر ڈال کر پوچھا۔
’’بتایا تو تھا‘ بار بار بتانے کی مجھے عادت نہیں۔‘‘
’’یار! مجھے بالکل نہیں یاد ایک بار بتادو۔‘‘
’’مجھے اتنا ہی پتا چلا ہے کہ محبت‘ پسند نا پسند کی کوئی حیثیت نہیں‘ شادی صرف کولہو کے بیل کا نام ہے۔‘‘
’’وہاٹ؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’میں حنا بھابی جیسی زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ انسان آزاد فطرت پیدا ہوا ہے‘ میں پابندی کی قائل نہیں ہوں۔‘‘ وہ بتا کر کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے لگی۔
’’کتنی بچکانہ سوچ ہے تمہاری۔ تم نے جو بھی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے کیا‘ کیا وہ کوفت کا باعث ہے یا کہیں کوئی خوشی اور اطمینان بھی ہے۔ وقت ملے تو سوچنا۔‘‘ زریاب نے کافی سنجیدگی سے کہا اور پوری توجہ سے ڈرائیو کرنے لگا۔ وہ اس کی بات سے الجھن کا شکار ہوگئی مگر کچھ بولی نہیں۔
پھر سارا رستہ خاموشی کی نذر ہوگیا۔ وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوتی رہی اور وہ گاڑی دوڑاتا رہا۔
…٭٭٭…
طاہرہ بیگم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ راحمین بجھی بجھی سی ہے۔ زریاب اشرف صاحب کے ساتھ مصروف تھا‘ تقریباً دو روز اسے رکنا پڑا‘ مگر وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ دادی کی گود میں سر رکھا‘ انہوں نے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو آنکھیں بھر آئیں وہ پریشان ہوگئی‘ طاہرہ بیگم نے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے میری جان؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے؟‘‘ طاہرہ نے پوچھا۔
’’جب میں نے کہا تھا کہ شادی نہیں کرنی تو آپ نے نغمہ پھوپو کو کیوں نہیں بتایا؟‘‘ وہ ایک دم احتجاجی انداز میں چلائی۔
’جی سائز‘ کس کا سائز…؟‘‘ وہ الجھن کا شکار ہوگئی۔
’’اماں بظاہر تو ٹھیک لگ رہا ہے۔‘‘ زریاب نے کہا۔
’’بظاہر چھورو‘ بار بار توڑ پھوڑ کی میں قائل نہیں۔ پہن کر دیکھ لو۔‘‘ اماں کب ماننے والی تھیں۔
’’راحمین ! پہن کر دیکھ لو‘ یہ اسٹینڈرڈ سائز ہے‘ سب کو میرا مطلب ہے ایسی کلائی والی ہر لڑکی کو پورا آئے گا۔‘‘ مجبوراً راحمین نے ایک کڑا کلائی میں ڈال کر دیکھا اور اتار کے نغمہ پھوپو کو پکڑادیا۔
’’جیتی رہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں تو اس نے زریاب کو گھور کر دیکھا۔
…٭٭٭…
اگلی صبح وہ اوصاف کے کہنے کے مطابق تیار تھی مگر ڈرائیور نہ ہونے کے باعث زریاب کو کہا گیا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا مگر پھر اماں کے کہنے پر راضی ہوگیا۔ وہ سب سے مل کر آخر میں نغمہ پھوپو کے پاس گئی اور کچھ کہتے کہتے رک گئی‘ زریاب نے جلدی سے آواز لگادی۔
’’محترمہ آجائیں‘ مجھے شام کو واپس بھی آنا ہے۔‘‘
’’کوئی افراتفری نہیں ہے‘ جو کام ضروری ہیں وہ کرکے آنا۔‘‘ نغمہ پھوپو نے زریاب سے کہا۔ وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’مس راحمین بی بی! میں آپ کا ڈرائیور ہوں‘ نا منگیتر‘ آگے تشریف لائیں۔‘‘
’’ایکسکیوزمی مسٹر زریاب! بار بار جتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔
’’میں تو حیران ہوں وہ قسمیں وعدے سب کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت ہولے سے وہ بولا۔
’’میں کچھ نہیں بھولی۔‘‘
’’بھولی ہو تو شادی نہیں کررہیں نا۔‘‘ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے بولا۔
’’کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’چلو اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں‘ شادی تو میں فریحہ سے کررہا ہوں لہٰذا وہ وجہ تو بتائو۔‘‘ اس پر ترچھی نظر ڈال کر پوچھا۔
’’بتایا تو تھا‘ بار بار بتانے کی مجھے عادت نہیں۔‘‘
’’یار! مجھے بالکل نہیں یاد ایک بار بتادو۔‘‘
’’مجھے اتنا ہی پتا چلا ہے کہ محبت‘ پسند نا پسند کی کوئی حیثیت نہیں‘ شادی صرف کولہو کے بیل کا نام ہے۔‘‘
’’وہاٹ؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’میں حنا بھابی جیسی زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ انسان آزاد فطرت پیدا ہوا ہے‘ میں پابندی کی قائل نہیں ہوں۔‘‘ وہ بتا کر کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے لگی۔
’’کتنی بچکانہ سوچ ہے تمہاری۔ تم نے جو بھی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے کیا‘ کیا وہ کوفت کا باعث ہے یا کہیں کوئی خوشی اور اطمینان بھی ہے۔ وقت ملے تو سوچنا۔‘‘ زریاب نے کافی سنجیدگی سے کہا اور پوری توجہ سے ڈرائیو کرنے لگا۔ وہ اس کی بات سے الجھن کا شکار ہوگئی مگر کچھ بولی نہیں۔
پھر سارا رستہ خاموشی کی نذر ہوگیا۔ وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوتی رہی اور وہ گاڑی دوڑاتا رہا۔
…٭٭٭…
طاہرہ بیگم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ راحمین بجھی بجھی سی ہے۔ زریاب اشرف صاحب کے ساتھ مصروف تھا‘ تقریباً دو روز اسے رکنا پڑا‘ مگر وہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ دادی کی گود میں سر رکھا‘ انہوں نے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو آنکھیں بھر آئیں وہ پریشان ہوگئی‘ طاہرہ بیگم نے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے میری جان؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے؟‘‘ طاہرہ نے پوچھا۔
’’جب میں نے کہا تھا کہ شادی نہیں کرنی تو آپ نے نغمہ پھوپو کو کیوں نہیں بتایا؟‘‘ وہ ایک دم احتجاجی انداز میں چلائی۔
’’شادی سے انکار تم نے زریاب سے کر تو دیا نا۔‘‘ طاہرہ بیگم نے نرمی سے کہا۔
’’ہاں! اسی لیے وہ اپنی مرضی کررہا ہے‘ پھوپو کو دھوکا دے رہا ہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’راحمین ! تمہیں کیا لینا دینا‘ وہ جس سے مرضی شادی کرے۔‘‘ طاہرہ بیگم بولیں۔
’’بھئی ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا‘ معاملہ کیا ہے؟‘‘ دادی قطعاً انجان تھیں۔
’’آپ نہیں جانتیں کیا؟‘‘
’’اللہ رکھے تمہاری شادی ہورہی ہے ہمیں تو یہی پتا ہے۔‘‘
’’نہیں اماں! آپ کی لاڈلی نے انکار کردیا تھا‘ اب صرف زریاب کی شادی ہورہی ہے۔ نغمہ آپا کو نہیں پتا‘زریاب آج کل میں بتائے گا۔‘‘ طاہرہ نے بتایا تو وہ گرجیں۔
’’ہیں… یہ کیا ہورہا ہے اور کوئی ہمیں بتا بھی نہیں رہا؟‘‘
’’کیا بتائیں‘ راحمین نے خود انکار کیا ہے۔ نغمہ آپا کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے یہ صدمہ انہیں نہیں دیا۔‘‘ طاہرہ بیگم بولیں۔
’’ذرا ملائو فون نغمہ کا‘ ہم خود بات کریں‘ یہ کل کا بچہ من مانیاں کرتا پھر رہا ہے۔‘‘
’’میں نے کچھ نہیں کیا نانو! سب راحمین نے کیا ہے؟ گھر میں شادی کارڈ چھپ کر آجائیں‘ زیور کپڑے تیار ہوجائیں تو لڑکی معمولی سی وجہ پر شادی سے انکار کردے۔ ایسے میں لڑکے کو گھر کی عزت بچانی چاہیے یا ماں کی صحت‘ میں نے جو کیا اپنے گھر کی بہتری میں کیا۔‘‘ز ریاب اسی وقت آیا تھا‘ آخری جملہ سن کر سیخ پا ہوگیا۔
’’ہمیں تو کچھ بتاتے۔‘‘
’’کیا بتاتا‘ آپ کی تربیت نے تو یہ دن دکھایا ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولا۔
’’اپنی ماں سے بات کرائو ہماری۔‘‘ وہ غصے سے بولیں۔
’’میں جارہا ہوں‘ آپ بات کرلیجیے گا۔‘‘
’’اتنے منہ پھٹ اور بدلحاظ ہوگئے ہو۔‘‘
’’معاف کرنا نانو! راحمین سے کم ہوں مگر افسوس آپ کے لاڈ پیار نے اسے ایسا بنادیا ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا چلا گیا۔
…٭٭٭…
زریاب گھر پہنچا تو نغمہ بیگم نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ حنا بھابی کو اشارہ کرکے خود کمرے میں چلا گیا۔ حنا نے ساری بات زریاب کے کھاتے میں ڈال دی‘ راحمین کو صاف بچالیا۔ نغمہ بیگم تو سرپیٹ کے رہ گئیں۔ رو رو کر بُرا حال کرلیا۔ زریاب کو دودھ نہ بخشنے کی دھمکیاں دیں‘ مگر وہ چپ رہا۔ دوسری طرف راحمین کو احساس ندامت کچوکے لگارہا تھا‘ نغمہ پھوپو بیٹے کے کیے پر معافی مانگ رہی تھیں۔ راحمین زمین میں گڑی جارہی تھی کہ سب کچھ زریاب نے اپنے سر لے لیا۔ اب کیا کیا جائے؟ دادی زریاب کو بُرا بھلا کہہ رہی تھیں۔
دل بُری طرح بے تاب تھا… بے چین تھا… مضطرب تھا… دن تیزی سے گزر رہے تھے‘ سب خاموش تھے۔ اشرف صاحب باہر کے کاموں میں مصروف تھے۔طاہرہ بیگم اداس اداس سی عید کی تیاریوں میں محو تھیں۔ آخری عشرے کے آخری چار دن بچے تھے‘ دادی نے نغمہ پھوپو سے ہر قسم کے رابطے پر پابندی لگادی تھی‘ وہ چائے بناکر اپنے کمرے میں آگئی‘ غیر ارادی طور پر وارڈ روب کھولی تو سی گرین خوب صورت سوٹ پر نظریں ٹک گئیں۔ بے اختیار ہی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ پچھلی عید پر یہ سوٹ‘ ہمرنگ چوڑیاں اور ڈھیر ساری مٹھائی لے کر نغمہ پھوپو اور زریاب آئے تھے‘ جاتے ہوئے زریاب نے پیار بھری فرمائش کی تھی۔
’’عید پر یہ سوٹ پہن کر میرا تصور کرنا‘ کیسامحسوس ہوا ضرور بتانا۔‘‘ وہ گلابی پڑگئی تھی۔
آج یہ سوٹ دیکھ کر دل غم سے بھرگیا‘ دل چاہا کہ زریاب کی بے وفائی پر خوب روئے مگر قصور تو سراسر اپنا تھا۔ یہ سو چ کر الماری بند کرکے سوفے پر بیٹھ گئی۔ چائے پینے کو دل نہ چاہا آنکھیں موند لیں تبھی طاہرہ بیگم آگئیں۔ اس کی حالت دیکھ کر رنجیدہ ہوگئیں۔
’’چھوٹی سی ضد اور خود سری کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔‘‘
’’کیوں… کچھ نہیں ہے؟‘‘ وہ چونک کر ہکلائی۔
’’راحمین! تم نے غور کیا کہ جب سے نغمہ آپا کے پاس رہ کر آئی ہو تم میں سکون اور اطمینان کی کیفیت نہیں رہی‘ تمہیں وہاں گزارے پل یاد آتے ہیں۔‘‘ طاہرہ بیگم نے گویا اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ

دیا تھا وہ افسردہ سی ہوگئی۔ بات تو سچ تھی وہاں جس انداز میں دن رات گزارے تھے وہ یاد گار تھے۔
’’مجھے کچھ یاد نہیں کرنا۔‘‘ وہ جھوٹ بول گئی۔
’’کہانی یاد ہے نا‘ ہاتھ نا آئیں تو انگور کھٹے ہیں۔‘‘
’’امی! آپ میری دلجوئی کررہی ہیں؟‘‘
’’میں اپنے دل کا درد شیئر کررہی ہوں‘ اپنی بیٹی کے دکھ کو محسوس کررہی ہوں۔‘‘
’’مجھے کوئی پروا نہیں۔‘‘وہ صاف مُکر گئی۔
…٭٭٭…
باقی کے دن بھی بے سکونی میں گزرگئے۔ وہ رات بھی آگئی جس کو چاند رات کہتے ہیں۔ طاہرہ بیگم عید کے دن کے لیے شیر خرما بنانے میں مصروف تھیں۔ باقی ملازمین گھرکی صفائی ستھرائی میں مگن تھے‘ خانسا ماں مچھلی کو مسالا لگارہا تھا۔ زیبو شامی کباب کے لیے ہرا مسالا کاٹ رہی تھی۔ وہ بے زار سی ان سب کو دیکھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ بیڈ پر تکیے کے سہارے بیٹھ کر صرف اور صرف زریاب کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے نیند آگئی‘ آنکھ ایک دم ٹھنڈک کے احساس سے کھلی تو حیرت سے آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ یقین کے لیے پلکیں جھپکا کر دیکھا۔ حنا کے ہاتھ میں کون مہندی تھی اور اس کے ہاتھ پر مہندی سے حنا نے ابھی صرف زیڈ آر لکھا تھا۔
’’حنا… حنا بھابی!‘‘ بے اختیار ہی وہ ننھی منی بچی کی طرح روتی ہوئی ان سے لپٹ گئی۔
’’ارے‘ یہ کیا ہم اتنی دور سے تمہیں مہندی لگانے آئے ہیں‘ عیدی دینے آئے ہیں اور تم رو رہی ہو۔‘‘ حنا نے ہنستے ہوئے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تو وہ روتے روتے مسکرادی۔
’’عیدی…؟‘‘
’’عیدی پلس مایوں کا جوڑا۔‘‘ حنا نے اور چونکایا تو وہ مزید حیرت زدہ سی ہوگئی۔
’’اور زریاب کی شادی…؟‘‘
’’زریاب کی شادی ہورہی ہے اس پیاری سی‘ نادان سی راحمین سے۔‘‘ حنا نے چھیڑا۔
’’اور وہ…؟‘‘ وہ ہچکچائی۔
’’وہ سب تمہیں درست کرنے کا پلان تھا جس میں ہم سب شامل تھے۔ سب انتظامات زریاب‘ اشرف ماموں کے ساتھ مل کر کروا کے گیا تھا۔‘‘ حنا نے بتایا تو وہ شرمندہ سی ہوگئی۔
’’لائو نام تو مکمل کردوں پھر ہم نے کھانا کھانا ہے‘ قسم سے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘ حنا نے ہاتھ پکڑ کے مہندی سے زریاب لکھ کر اس کی پیشانی چومی او رکہا۔
’’مبارک ہو۔‘‘ وہ کھل اٹھی‘ ذہن سے بوجھ اتر گیا۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ زریاب کے بنا ادھوری ہے۔
طاہرہ بیگم نے زیبو سے کھانا لگانے کو کہا تو حنا فوراً چلی گئی وہ غور سے ہاتھ دیکھنے لگی۔ تبھی موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔ نمبر دیکھ کر اس کے دل میں گدگدی سی ہوئی۔
’’میرے چاند کو چاند رات مبارک ہو۔‘‘ دوسری طرف سے زریاب کی شوخ آواز ابھری۔
’’کتنا ستایا ہے تم نے…؟‘‘ اس نے گلہ کیا۔
’’اور تم نے محترمہ گھرداری صاحبہ! کتنا تڑپایا؟‘‘ وہ بھی جواباً چہکا۔ اسے ہنسی آگئی۔
’’تم بہت اچھے ہو زریاب!‘‘ اس نے اعتراف کیا۔
’’اور تم بھی بہت اچھی بن گئی ہو‘ قسم سے جب تمہیں کام کرتا دیکھتا تھا دل شرارت کو مچلتا تھا۔ ایک دو بار تو ذہن میں آیا کہ…‘‘ اس نے کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’کیا…؟‘‘
’’چھوڑو…‘‘
’’نہیں بتائو نا…؟‘‘
’’یہی کہ تمہیں بیگم کہہ کر بلائوں۔ تمہارے ہاتھوں کو چوم کر تمہیں سینے سے لگائوں‘ کتنے پیار سے استری کررہی تھیں تم…‘‘ زریاب نے شوخ و شنگ لہجے میں کہا تو وہ گل رنگ ہوگئی۔
’’آپ بہت بُرے ہو۔‘‘
’’ہیں… کبھی اچھے کبھی بُرے ۔ یار! سوچ لو کر ایک فیصلہ کرلو۔‘‘ اس نے کہا تو وہ کھل کھلا کے ہنس پڑی۔ فضا میں اس کی ہنسی کے جلترنگ بج اٹھے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: انکار بھی‘ اقرار بھی از راحت وفا!

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ ;fl;ow;er;
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اردو ناول”