عید کا جوڑا از نزہت جبین ضیائی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

عید کا جوڑا از نزہت جبین ضیائی

Post by میاں محمد اشفاق »

عید کا جوڑا از نزہت جبین ضیائی!!

عید الفطر کا چاند نظر آگیا تھا۔ ساتھ ہی بازاروں کی رونقیں بڑھ گئی تھیں۔ ہر طرف روشنیاں‘ بھاگتی دوڑتی‘ گاڑیاں‘ ہجوم اور خوش گوار ماحول تھا۔ لوگ اپنے اپنے طور طریقوں اور حقیقت کے مطابق عید منانے کی تیاریاں کررہے تھے۔
حناطہ کب سے چھت پر لیٹی آسمان کو گھور رہی تھی‘ کتنی اداس اور مضمحل تھی وہ… نیچے اماں اور خولہ عید کی تیاریاں کررہی تھیں اور وہ ان خوشیوں اور گہما گہمی سے قطعی بے نیاز تھی۔ اس کی اداس آنکھوں میں انتظار جیسے آکر ٹھہر گیا تھا۔
’’ابریز…!‘‘ اس کے لبوں سے آہ کی صورت یہ نام نکلا۔ ’’تم ایسے تو نہیں تھے تم نے تو آنے کا وعدہ کیا تھا ناں پھر… کیوں…؟ نہیں آئے۔ نا کوئی بات‘ نا کوئی کال‘ نا مسیج‘ آخر تم کہاں چلے گئے… کیوں ابریز تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔
…٭٭٭…
’’آپا! ادھر آئو جلدی سے ایک مزے کی بات بتائوں؟‘‘ حناطہ کالج سے آئی تو خولہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی کمرے میں لے گئی۔
’’ارے… ارے کیا ہوگیا ہے؟ پاگل ہوگئی ہو کیا…؟‘‘ حناطہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔
’’اتنی اچھی خبر سنارہی ہوں‘ ابا جی کے دوست ہیں نا آفاق چچا! ان کا بیٹا آرہا ہے ابریز! اور پتا ہے وہ آپ کے رشتے کے لیے آرہا ہے۔ آفاق چچا تو آپ کو دیکھ کر گئے تھے ناں اب ابریز بھائی کو بھیج رہے ہیں ویسے ابریز بھائی کی جاب بھی یہیں ہوگئی ہے۔ ہائے سچ کتنا مزا آئے گا ناں…‘‘ خولہ کی خوشی دیدنی تھی۔ حناطہ کے چہرے پر مایوسی ابھر آئی۔
’’ہاں پتا ہے ہر کسی کی طرح وہ بھی…‘‘ حناطہ کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے خولہ نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’نہیں آپا! پلیز ایسا مت سوچو‘ اس بار اللہ بہتر کرے گا۔ میری آپا تو لاکھوں میں ایک ہیں‘ اب لوگوں کی نظریں ہی تمہیں نہیں پہچانتیں تو غلطی ان نظروں کی ہے۔‘‘ خولہ نے کہا تو حناطہ پھیکی ہنسی ہنس دی۔
اماں نے بھی نئے سرے اور نئی امید کے ساتھ ابریز کا انتظار شروع کردیا۔ ابا جی بھی کچھ مطمئن تھے۔ امتیاز صاحب آفس میں جاب کرتے تھے ‘اللہ نے دو بیٹیاں حناطہ اور خولہ دی تھیں۔ بیٹا کوئی نہیں تھا حناطہ اور خولہ میں چھ سال کا فرق تھا۔ خولہ گوری چٹی‘ خوب صورت نقوش کی مالک تھی جب کہ حناطہ کی شکل تو ٹھیک تھی مگر رنگت سانولی تھی۔ امتیاز صاحب نے حناطہ کو اس کی خواہش کے مطابق ایم اے کروایا تھا اور اب وہ مقامی کالج میں لیکچرر تھی۔ پچھلے کئی سالوں سے ان کے والدین حناطہ کی شادی کے لیے کوشاں تھے مگر جو رشتہ آتا وہ شوخ و چنچل اور گوری چٹی خولہ کو پسند کرلیتا پھر اماں نے خولہ کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ رشتے کے لیے آنے والی خواتین کے سامنے نہ آئے ‘ خولہ بے چاری اتنی دیر کمرے میں بند رہتی تھی‘ جتنی دیر خواتین بیٹھی رہتیں مگر… جوبھی آتا فضول باتیں کرتا‘ کوئی کہتا عمر زیادہ ہے‘ کوئی کہتا بہت سیدھی سادی ہے‘ آج کل ایسی لڑکیاں گھر نہیں چلا سکتیں۔ کوئی کہتا رنگت کم ہے۔ اماں بے چاری ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتیں اور حناطہ خوامخواہ ہی شرمندہ ہونے لگتی کہ گویا جیسے وہ مجرم ہو‘ اپنی بوڑھی ماں کی‘ کمزور اور بے بس باپ کی اور اسے بے تحاشا رونا آتا وہ راتوں کوبستر پر بے آواز روتی اور اپنے ربّ سے بھلائی کی بھیک مانگتی۔
…٭٭٭…
اس روز وہ کالج سے تھکی ہاری لوٹی تو برآمدے میں ابا جی کے ساتھ بیٹھے نوجوان کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ بلو جینز اور بلیک ٹی شرٹ میں وہ معقول اور جاذب نظر لگ رہا تھا۔
’’آو… آو بیٹی!‘‘ امتیاز صاحب نے اسے دیکھ کر آواز دی۔ وہ جھجکتے ہوئے آگے آئی۔
’’حناطہ بیٹی! یہ ابریز ہے۔ آفاق کا بیٹا‘ نوکری کے سلسلے میں آیا ہے‘ کچھ روز یہیں رہے گا اور ابریز یہ میری بیٹی ہے‘ حناطہ! مقامی کالج میں لیکچرر ہے۔‘‘
’’السّلام علیکم!‘‘ دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا۔ ابریز نے غور سے دیکھا‘ لائٹ پرپل کاٹن کے سوٹ میں سر پر سلیقے سے دوپٹا اوڑھے وہ اچھی لگ رہی تھی۔
’’ایکسکیوز می! میں چینج کرلوں۔‘‘ وہ پلٹی۔
’’آپا! جلدی سے فریش ہوکر آجائو‘ آج تمہاری پسند کا کھانا بنایا ہے اماں نے۔‘‘ خولہ نے کچن سے آواز لگائی۔
…٭٭٭…
ابریز پڑھا لکھا‘ سوبر اور سنجیدہ نوجوان تھا۔ وہ غیر ضروری گھر میں نہیں رہتا کوشش کرتا کہ اس وقت رہے جب امتیاز صاحب ہوں۔ اس نے آنے کے چند دن بعد ہی آفاق صاحب کو فون کردیا تھا کہ اسے حناطہ پسند ہے۔ حناطہ کم گو‘ سیدھی سادی‘ قابل اور ذہین تھی۔ جو بات کرتی نپی تُلی اور با معنی ہوتی۔ بات کرنے کا انداز دھیما اور نرم ہوتا۔ ابریز بھی ایسا ہی تھا۔
’’آپا…! ابریز بھائی نے تمہیں پسند کرلیا ہے۔‘‘ اس روز جب پتا چلا تو خولہ نے خوشی سے اسے گود میں اٹھالیا۔ وہ بھی حیرت زدہ‘ خاموشی سے خولہ کو دیکھتی رہی۔
’’اماں نے بتایا ہے…‘‘
تب ہی اماں بھی آگئیں۔ حناطہ نے سوالیہ نظریں اماں پر ڈالیں۔
’’میری بچی! تجھے اللہ نے صبر کا انعام دیا ہے۔ سدا سکھی رہے۔‘‘ انہوں نے سینے سے لگا کر دعادی‘ ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
…٭٭٭…
گھر میں خوش گوار سی تبدیلی آگئی تھی‘ حناطہ کو ابریز سے شرم آنے لگی تھی‘ ابریز بھی گھر میں بہت کم رہتا۔ وہ کالج سے نکلی تو سامنے ہی ابریز کھڑا تھا۔ ابریز کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی۔ عجیب سی کیفیت ہورہی تھی ابریز قریب آگیا۔
’’السّلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السّلام! آپ یہاں؟‘‘ وہ پزل ہورہی تھی۔
’’ہاں دراصل مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے‘ ہم کہیں بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں؟‘‘ ابریز نے کہا۔
’’جی! مگر…؟‘‘ وہ کچھ ہچکچا رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اس طرح کسی غیر مرد کے ساتھ یوں جانا۔
’’اگر تم نہیں چاہتیں تو کوئی بات نہیں‘ بس مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی تھیں۔‘‘ ابریز کے چہرہ بجھنے لگا تھا۔
’’نہیں… نہیں چلیں پلیز!‘‘ حناطہ جلدی سے بولی کچھ دیر بعد وہ دونوں آئس کریم پارلر میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
’’دراصل حناطہ! تم کو پتا ہوگا میں یہاں کس مقصد سے آیا ہوں اور میں نے اپنا فیصلہ بھی سنا دیا ہے۔‘‘
’’جی…!‘‘ حناطہ نے نگاہیں جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا۔
’’حناطہ! میں ظاہری خوب صورتی‘ دکھاوا اور نمودو نمائش کا قائل نہیں‘ مجھے سیدھی سادی‘ سمجھ دار اور پڑی لکھی بیوی چاہیے‘ الحمد للہ! میری معقول جاب ہے‘ کچھ عرصے میں مجھے گھر بھی مل جائے گا۔ میری فیملی کے بارے میں امتیاز چچا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ابا جی بھی تم لوگوں سے بہت مطمئن ہیں‘ میں تھوڑا سا کنفیوژ ہوں کیونکہ میں تمہارے منہ سے تمہارا فیصلہ سننا چاہتا ہوں تاکہ میں مطمئن ہوجائوں‘ کیا تمہیں میرا ساتھ منظور ہے؟‘‘ ابریز نے اپنا مضبوط ہاتھ ٹیبل پر اس کے عین سامنے رکھ کر تھوڑا سا جھک کر پوچھا۔ حناطہ کی حالت عجیب سی ہورہی تھی‘ اچھا بھلا اسمارٹ بندہ اس کے بالکل قریب بیٹھا اس سے سوال کررہا تھا۔ وہ پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔
’’حناطہ! ریلیکس ہوکر جواب دو پلیز…‘‘ وہ دوبارہ گویا ہوا۔ حناطہ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر اپنا فیصلہ بہت خوب صورت انداز میں سنایا تھا اور ابریز نے اس کے نازک سے ہاتھ کو ہاتھوں میں لے کر بہت خوب صورت نظروں سے اسے دیکھا تھا‘ حناطہ خفیف ہوگئی۔
’’اب چلیں! جب کچھ دیر تک ابریز اسے دیکھتا رہا‘ تو حناطہ نے نروس سے انداز میں اس کو مخاطب کیا۔
’اوہ… ہو… ہاں… ضرور شکریہ حناطہ! ‘‘ اس نے جھک کر سرگوشی کی اور دونوں پارلر سے باہر آگئے۔
…٭٭٭…
زندگی بہت خوب صورت ہوگئی تھی ‘ رمضان المبارک شروع ہوچکے تھے۔ سب لوگ عبادتوں میں مصروف تھے‘ رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں ہی ابریز واپس اسلام آباد جانے والا تھا کہ دوسرے عشرے میں وہ اپنی ماں کو لے کر آئے گا اور پھر عید پر رسم کردی جائے گی۔
سحری کے بعد نماز اور قرآنِ پاک پڑھ کر خولہ‘ امتیاز صاحب اور اماں سوگئے۔ حناطہ چھت پر آگئی‘ اسے صبح صبح یہاں آنا بہت اچھا لگتا تھا‘ وہ وہیں پلنگ پر بیٹھ گئی اور گملے میں لگے موتیے کی مہک کو اپنے اندر اتارنے لگی۔ تب ہی قدموں کی چاپ پر پلٹی‘ سامنے ابریز کھڑا تھا۔
’’آپ…؟‘‘ اس نے جلدی سے دوپٹا ٹھیک کیا۔
’’ہاں جی! کیوں ‘ میں نہیں آسکتا کیا؟‘‘ وہ مسکراتا ہوا وہیں بیٹھ گیا۔
’’نہیں… یہ بات نہیں…‘‘ وہ گڑبڑائی۔
’’حناطہ میں کل جارہا ہوں‘ جلد ہی اماں کو لے کر آئوں گا اور اگر ہوسکے تو نکاح ہی کروالوں گا۔ ٹھیک ہے ناں؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’جی… اتنی جلدی …؟‘‘ وہ گھبرا گئی۔
’’میرا بس چلے تو آج کروالوں۔‘‘ وہ ستانے کے موڈ میں تھا۔
’’پلیز…‘‘ وہ بلش ہوگئی۔
’’جب میں آئوں نا تو تم یہ کپڑے پہنا پلیز عید پر…‘‘ اس نے ایک پیکٹ سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ان شاء اللہ جلد لوٹ آئوں گا میں۔ کل دوپہر کو چلا جائوں گا اس وقت تم کالج میں ہوگی‘ اس لیے آج ہی ملنے آیا ہوں کہ پھر موقع ملے نا ملے۔ میرا انتظار کرنا… اوکے۔‘‘
’’ابریز! بس تم جلد لوٹ آنا… اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔‘‘
’’پلیز… پلیز… ایسا مت کرو یار! میں بہت کمزور دل رکھتا ہوں‘ اب وہ بھی تمہارے پاس ہے تو برداشت کیسے کر پائوں گا۔‘‘ ابریز کی شرارت پر وہ روتے روتے ہنس دی۔
’’دل بہت اداس ہورہا تھا‘ چند دنوں میں ہی ابریز اس وقت قریب آگیا تھاکہ دوری کا احساس گویا جان لیوا لگ رہا تھا۔
…٭٭٭…
حناطہ جو بہت نا امید ہوچکی تھی پھر سے اس کے اندر نئے جذبے جنم لینے لگے تھے۔ ابریز کی آمد نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی‘ اسے زندگی سے پیار ہونے لگا تھا۔ موسم اچھے لگنے لگے تھے۔ چاہنا اور چاہے جانے کاا حساس کتنا خوب صورت ہوتا ہے‘ یہ احساس اس کی رگ رگ میں اترنے لگتا تھا۔ اپنا آپ معتبر لگنے لگا تھا۔ وہ بھی کسی کی ضرورت ہے‘ یہ احساس کتنا دلفریب اور خوش کن تھا۔
اس احساس نے اسے یکسر بدل کے رکھ دیا تھا۔ اسے بات بے بات ہنسی آنے لگی تھی۔ خود کو سجانے سنوارنے کا خیال رہنے لگا تھا۔
ابریز چلا گیا تو ماحول کچھ بدل سا گیا تھا مگر اس کے لوٹ آنے کے تصور سے وہ آپ ہی آپ مسکرادیتی۔ اماں‘ ابا جی اور خولہ بھی بہت خوش تھے اس دفعہ تو عید کی خوب زوروشور سے تیاریاں ہورہی تھیں‘ سارے کام پندرہویں روزے سے پہلے ختم کرنے تھے کہ پندرہویں روزے کو ابریز نے آنے کا کہا تھا۔ دو تین دن تک تو ابریز کے میسج آتے رہے پھر اچانک آنا بند ہوگئے‘ وہ میسج کرتی تو جواب نہ ملتا۔
اسے پریشانی ہورہی تھی نا جانے کیا مسئلہ ہوگیا تھا۔ بہت سوچ کر اس نے کال کی تو نمبر بند تھا۔

’’یا الٰہی خیریت رہے۔‘‘ اس نے دل سے دعا مانگی۔دل تھا کہ عجیب عجیب سے وسوسوں کا شکار تھا۔ پھر خولہ سے پتا چلا کہ ابا جی کا رابطہ بھی آفاق چچا سے نہیں ہورہا تھا‘ وہ لوگ کب آرہے ہیں؟ کیا پروگرام ہے؟ کچھ پتا نہیں تھا؟ سب ہی پریشان تھے کہ اچانک ابریز کو کیا ہوگیا یا آفاق چچا کیوں خاموش ہیں۔ حناطہ رو رو کر ربّ کے آگے دعائیں مانگتی‘ گڑگڑاتی‘ ابا جی اور اماں بھی دعائیں مانگتے۔ آتے آتے خوشیاں گویا راستہ بدلنے لگی تھیں۔
حناطہ زیادہ تر کمرے میں رہتی‘ افطار کرتی‘ سحری کرتی اور پھر کمرے میں بند ہوجاتی۔ اماں منہ چھپائے آنسو پونچھتی رہتیں۔ ابا جی سر جھکائے مزید بوڑھے لگنے لگتے۔ خولہ کی شوخی بھی نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔
…٭٭٭…
دن پہ دن گزرتے رہے‘ رمضان المبارک کا بابرکت اور پاک مہینہ اختتام کو پہنچا اور آج عید الفطر کا چاند بھی نظر آگیا تھا۔ چاند دیکھ کر حناطہ کی آنکھوں سے ڈھیر سارے آنسو بہہ نکلے تھے۔ اس نے وہ جوڑا نکال کر دیکھا تھا جو جاتے وقت ابریز دے کر گیا تھا۔
’’ابریز… پلیز آجائو…‘‘ اس کے لبوں سے سسکاری نکلی۔
’’آگیا…!‘‘ کانوں کے قریب آواز آئی تو حناطہ نے چونک کر اپنے بائیں جانب دیکھا۔ سامنے سینے پر ہاتھ باندھے ابریز کھڑا تھا۔
’’ابریز…!‘‘ آنکھیں پھاڑے وہ غیر یقینی انداز میں دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنی بصارت پر یقین نہیں آرہا تھا۔
’’تم… تم…؟‘‘ گھبرا کر وہ پلنگ سے اٹھ گئی۔
’’ہاں محترمہ! آپ کے سامنے آپ کا اپنا ابریز اور آپ کا مجرم کھڑا ہے‘ جس نے آپ کو بہت دکھ دیئے۔ پلیز حناطہ! میں بہت مجبور تھا اور بڑی مشکل میں تھا اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی تمہیں دکھی کیا۔ مجھے معاف کردو۔‘‘ وہ شرمندگی سے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
’’تم… تم … کہاں تھے ابریز…! اندازہ ہے تم کو کتنا روئی ہوں میں؟‘‘وہ پھر سے رونے لگی۔
’’پلیز… پلیز… حناطہ! یہاں بیٹھو اور سنو مجھ پر کیا گزری۔‘‘ ابریز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبار پلنگ پر بٹھایا اور خود اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
’’پتا ہے تم کو جب میں نے اماں سے تمہارے لیے بات کی تو اماں ناراض ہوگئیں اور اپنی بھانجی سے میرا نکاح کروانے کی ضد کرنے لگیں۔ میں اور ابا جی اپنے فیصلے پر قائم رہے اور اماں اپنے فیصلے پر… میں نے بھی کتنی اذیت میں گزارے یہ دن‘ تم نہیں سمجھ سکتیں اگر تم سے رابطہ رکھتا تو کیا کہتا‘ میں تو اماں سے جنگ کرتا رہا۔ آخر کار اماں کا دل پسیجا اور انہیں مجھ پر ترس آہی گیا‘ اب میں ابا اور اماں کو لے کر آیا ہوں۔ اماں کو بہت جلدی ہے اپنی بہو سے ملنے کی۔ تم بتائو کہ میں نے کس طرح گزارے ہوں گے یہ اذیت ناک دن… تو معافی تو ملے گی ناں۔‘‘ اس نے کان پکڑ کر معصومیت سے کہا۔
’’ہاں!‘‘ کہہ کر وہ نیچے کی طرف جانے لگی۔
’’کہاں جارہی ہو ؟‘‘
’’اب تمہارا دیا ہوا سوٹ پہن کر اپنی ساس کو سلام کروں گی۔‘‘ پلٹ کر وہ شرارت سے بولی تو ابریز زور سے ہنس دیا۔ وہ بھی ہنستی ہوئی نیچے کی طرف بھاگی۔ جہاں ابا جی‘ اماں‘ چچا آفاق اور چچی مل کر کل کے نکاح کا پروگرام سیٹ کررہے تھے وہ گنگناتی ہوئی عید کا جوڑا پہننے چل دی۔
’’آپا! اماں کہہ رہی ہیں‘ چاچا‘ چاچی‘ سے مل لو پھر مہندی لگوانے بھی جانا ہے۔‘‘ خولہ نے اسے دیکھ کر کہا تو خولہ کی آواز کی خوشی اس کی سماعتوں میں رس گھولنے لگی۔ اپنے ربّ کا ڈھیروں شکر ادا کرتی ہوئی وہ اسٹور کی طرف چل دی ‘ جہاں عید کا خوب صورت جوڑا اس کا منتظر تھا۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: عید کا جوڑا از نزہت جبین ضیائی

Post by اضواء »

خوب صورت منظر پئیش کرنے پر آپ کا بیحد شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اردو ناول”