کاروان محبت از نادیہ فاطمہ رضوی!!

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

کاروان محبت از نادیہ فاطمہ رضوی!!

Post by میاں محمد اشفاق »

کاروان محبت از نادیہ فاطمہ رضوی!!


وہ بد حواسی کے عالم میں دیوانہ وار بھاگتی ہوئی دروازہ کھولتے ہی کارپٹ پر ڈھے گئی اور پھولی پھولی سانسوں کو متوازن کرنے لگی۔
’’اللہ خیر کرے فاطمہ کیا پولیس پیچھے لگی ہوئی ہے جو پاگلوں کی طرح دوڑ کر آئی ہو۔‘‘ ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے علیشبہ نے فاطمہ کو یوں آتے دیکھا تو بے زار کن لہجے میں بولی۔
’’بات ہی کچھ ایسی ہے بہنا دیکھو‘ ابھی ابھی کوریئر والا دے کر گیا ہے۔‘‘ اس نے سرخ رنگ کا کارڈ فرط جوش و مسرت سے اپنے دائیں ہاتھ سے لہرایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ علیشبہ نے اشتیاق بھرے لہجہ میں پوچھا۔
’’پھوپھو کی طرف سے آیا ہے اگلے مہینے کی سات تاریخ کو ظہیر بھائی کی بارات ہے۔‘‘
’’وائو۔ کیا واقعی؟بہت مزا آئے گا مجھے بھی تو دیکھائو یہ کارڈ۔‘‘ علیشبہ ایکسائیٹڈ ہو کر بولی اور پھر دونوں کارڈ پر جھک گئیں۔
’’ایبٹ آباد میں پھوپھو کاگھر کتنا خوب صورت ہے وہاں مہمان بن کر جائیں گے میں تو ہل کر پانی بھی نہیں پیوں گی۔ یہاں تو سارا دن کام کام بس کام۔‘‘ علیشبہ آخر میں منہ بنا کر بولی وہ اول درجے کی کاہل اور سست الوجود تھی۔
’’ہاں‘ ہاں تم تو حبیسے یہاں کولہو کے بیل کی طرح جتی رہتی ہو نا۔‘‘ فاطمہ اس کے کاہل پن کی عادت سے چڑ کر بولی تو علیشبہ کو پتنگے لگ گئے۔
’’خود تو بڑی کام کرنے والی ہو۔‘‘
’’تم لڑ بعد میں لینا پہلے یہ سوچو کہ ہم پندرہ دن پہلے پھوپھو کے گھر کیسے جائیں گے۔‘‘ فاطمہ پریشان کن انداز میں گویا ہوئی۔
’’کیوں بھئی ہم باذل بھائی کے ساتھ جائیں گے اور کس کے ساتھ جائیں گے؟‘‘
’’تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ باذل بھائی کو آفس سے اتنی لمبی چھٹی ہر گز نہیں ملنے والی اور وہ تو ویسے بھی اتنے دن پہلے وہاں ڈیرا ڈالنے کے حق میں ہر گز نہیں ہوں گے۔ اور امی ابا بھی شادی سے چار دن پہلے ہی جائیں گے کیونکہ بڑی خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اگلے ہفتے ان کے پتے کا آپریشن جو ہونے والا ہے۔‘‘ فاطمہ تفصیلاً بولی تو علیشبہ کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
’’ہائے تو پھر کیا ہوگا۔ پر ہمارا دماغ رک جاتا ہے تو پھر یشب بی بی کا دماغ چلنا شروع ہوتا ہے۔‘‘ فاطمہ ڈرامائی انداز میں بولی۔
’’ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی یہ یشب کس مرض کی دوا ہے۔‘‘ علیشبہ خوشی سے اچھلتے ہوئے بولی۔
’’میں اسے فون کرتی ہوں کہ فوراً یہاں آجائے اور خبردار یہ بات باذل بھائی کو معلوم نہ ہو کہ ہم نے یشب کو سفارش کے لیے بلایا ہے۔‘‘ فاطمہ اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولی تو علیشبہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
…٭٭٭…
’’بالکل نہیں میں تم تین جوان جہان لڑکیوں کو ہر گز یوں اکیلے ایبٹ آباد نہیں جانے دوں گی۔‘‘ اماں نے واضح لفظوں میں انکار کیا تو دونوں بہنوں کے منہ لٹک گئے مگر یشب نے ہمت بالکل نہیں ہاری وہ اب صحیح معنوں میں کمر کس کر میدان میں اتر آئی۔
’’تائی اماں مانا کہ آپ کی دونوں لڑکیاں کافی بونگی اور بد حواس ہیں مگر میں ہوں نا ان لوگوں کے ساتھ۔ آپ بالکل اس بات کی فکر مت کریں۔ میں ان پر کڑی نظر رکھوں گی کہ سفر کے دوران یہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائیں بس آپ مجھ پر بھروسا رکھیں۔‘‘
’’یشب کی بچی۔‘‘ دونوں لڑکیاں اپنی اس عزت افزائی پر دانت پیس کر رہ گئیں مگر مجبوراً خاموش رہیں۔ اماں سے اجازت بھی تو لینی تھی۔
’’ارے بچی میں تو سخت پریشان رہتی ہوں ان لوگوں کی بے وقوفیاں دیکھ دیکھ کر۔‘‘
’’تائی اماں میری محبت کے سائے میں رہیں گی تو کچھ عقل آ ہی جائے گی۔‘‘ یشب صاحبہ نے انتہائی مدبرانہ انداز میں سر ہلا کر کہا تو اب دونوں کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
’’یشب تم جیسی دو چار بھابیاں ہم جیسی بے چاری نندوں کو مل جائیںتو میرے خیال میں پھر کسی اور دشمن کی ضرورت باقی نہ رہے۔‘‘ فاطمہ غصہ سے بولی۔
فاطمہ نے بھی حساب ایک ہی پل میں بے باق کر ڈالا جبکہ یشب بس آنکھیں دکھاتی رہ گئی۔
’’اف اللہ میں کیا کروں ان تینوں کا۔‘‘ اماں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہا۔
’’کیا ہوا امی آپ یوں سر پکڑے کیوں بیٹھی ہیں؟‘‘ باذل کمرے میں داخل ہوا تو اماں کو سر پکڑے دیکھ کر حیرت سے استفسار کیا۔ باذل کو دیکھ کر تینوں نے کورس میں اسے سلام کیا۔ تینوں کی اس سے جان جاتی تھی۔
’’ثریا کے بیٹے کی شادی کا کارڈ آیا ہے اور یہ تینوں پندرہ دن پہلے سے جانے کی ضد کر رہی ہیں مجھے بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر یوں تنہا میں انہیں بھیجنا نہیں چاہ رہی۔‘‘ اماں گویا ہوئیں تو حسب معمول باذل کی تیوروں پر بل پڑ گئے۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے امی تینوں کو اکیلا بھیجنے کی‘ فاطمہ اور علیشبہ تو احمق ہیں ہی مگر یہ یشب بی بی عقل سے بالکل پیدل ہیں سیر پر سوا سیر ہیں یہ موصوفہ۔‘‘
’’آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ اب میں اتنی بھی بونگی نہیں ہوں۔‘‘یشب منمنائی تھی۔
’’آپ کیا ہیں یہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں مجھے بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔‘‘ باذل نے گردن موڑ کر اسے گہرے طنزیہ لہجے میں کہا پھر اماں سے بولا۔
’’آپ شادی سے چار دن پہلے ہی ان تینوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیے گا۔‘‘
’’بھائی جان پلیز۔‘‘ دونوں بہنیں منت کرتے ہوئے بولیں مگر باذل ان کی فریاد کو نظر انداز کرکے وہاں سے چلا گیا۔
’’ہونہہ خود کو بڑا عقل مند سمجھتے ہیں۔‘‘ یشب باذل کے کڑے انداز سے خائف ہو کر بڑ بڑائی پھر احتجاجاً وہاں سے واک آئوٹ کر گئی۔
تینوں لڑکیاں سر جوڑے بیٹھی تھیں کہ آخر کس طرح سے گھر والوں کو راضی کیا جائے کہ وہ انہیں ریل گاڑی کے ذریعے ایبٹ آؓباد جانے کی اجازت دے دیں۔
یشب‘ فاطمہ اور علیشبہ کی چچا زاد ہونے کے ساتھ ساتھ باذل کی منگیتر بھی تھی دونوں کے گھر برابر تھے لہٰذا یشب صاحبہ دن کا آدھے سے زیادہ وقت یہیں پر ہی گزارتی تھیں۔ یشب اور باذل کی منگنی دادی کی ایماء پر پانچ سال پہلے کر دی گئی تھی۔ جب یشب انٹر میں تھی اور پھر ٹھیک ایک سال بعد وہ دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کے دو بیٹے باذل کے والد احسان گردیزی اور یشب کے والد محسن گردیزی تھے اور ایک بیٹی ثریا جو ایبٹ آباد بیاہ کر چلی گئی تھی احسان گردیزی کی دو بیٹیاں فاطمہ‘ علیشبہ اور بیٹا باذل تھے۔ جبکہ ثریا کے دو بیٹے ظہیر اور اظہر اور دو بیٹیاں ثانیہ اور دانیہ تھیں۔ جبکہ محسن گردیزی کی اکلوتی بیٹی یشب تھی۔
’’تم لوگ فکر مت کرو ان شاء اللہ ہم لوگ ایبٹ آباد ضرور جائیں گے وہ بھی ٹرین کے ذریعے۔‘‘ یشب فیصلہ کن لہجے میں بولی تو فاطمہ طنزاً گویا ہوئی۔
’’بالکل جائیں گے خوابوں میں‘ خیالوں میں۔‘‘
…٭٭٭…
’’یشب کی بچی آج تم ضرور بھائی کے ہاتھوں ہمیں بھری جوانی میں شہید کروائو گی وہ انڈین فلمز کے سخت خلاف ہیں۔‘‘ یشب کو باذل کے کمپیوٹر میں سی ڈی لگاتے دیکھ کر علیشبہ خوف زدہ سی ہو کر بولی۔
’’افوہ‘ تم یونہی ڈر ڈر کر فوت ہوجائو مگر ہمیں تو مت ڈرائو اگر میرا کمپیوٹر ٹھیک ہوتا تو کیا مجھے فاطمہ نے کاٹا تھا جو تمہارے بھائی کے کمپیوٹر سے چھیڑ خانی کرتی۔‘‘ یشب اپنے مخصوص انداز میں بولی۔
’’اللہ کرے باذل بھائی تجھے رنگے ہاتھوں عمران ہاشمی کی فلم دیکھتے ہوئے پکڑیں۔‘‘ فاطمہ دانت پیس کر بولی۔
’’فلم اسٹارٹ ہوگئی اب خاموشی سے فلم دیکھو۔‘‘ اچانک اسکرین روشن ہونے پر یشب جوش و مسرت سے بولی اور پھر واقعی تینوں فلم میں بری طرح محو ہوگئیں۔
’’ہائے اللہ کتنا ہینڈسم ہے نا عمران ہاشمی کاش باذل کی بھی ایسے ہی مونچھیں… مونچھیں… موں… مون…!‘‘
’’ہاہاہا‘ تم تو یوں اٹک گئیں جیسے مونچھیں تمہارے منہ میں آگئیں۔‘‘ فاطمہ اسکرین پر نگاہیں جمائے یشب کی زبان کو مونچھوں پر اٹکتا دیکھ کر تمسخر سے بولی مگر اچانک ہی یشب نے کمپیوٹر کی تاریں بے دردی سے کھینچ کر کمپیوٹر بند کردیا۔
’’یشب کی بچی یہ کیا حرکت ہے…؟‘‘ علیشبہ بے مزا ہو کر اتنا ہی بولی تھی کہ اس کی نگاہوں میں بھی وہ منظر آگیا جسے دیکھ کر یشب کی سٹی گم ہوگئی۔
’’باذل بھائی آپ… آپ آج اتنی جلدی کیسے؟‘‘ باذل کو دروازے پر خشمگیں نگاہوں سے ایستادہ دیکھ کر علیشبہ پھیکے پھیکے انداز میںبولی۔

’’کیا ہو رہا ہے میرے کمرے میں؟‘‘ باذل اچانک دہاڑا تو تینوں باقاعدہ کانپنے لگی تھیں۔
’’وہ… وہ ایکچوئیلی مجھے اسائمنٹ بنانا تھا میرا نیٹ کام نہیں کررہا تھا تو میں نے سوچا کہ میں آپ کے کمپیوٹر سے کچھ عمران ہاشمی کی ڈیٹیلز لے لوں۔‘‘ وہ عالم بد حواسی میں نجانے کیا بول گئی جبکہ اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔ دونوں بہنوں کا مارے شرمندگی و خفت کے برا حال تھا۔
’’فاطمہ‘ علیشبہ تم دونوں جائو یہاں سے۔‘‘ باذل کا حکم سن کر وہ دونوں بھاگیں۔ جبکہ یشب بے بسی کے عالم میں کھڑی رہ گئی۔
’’اچھا تو تمہیں اسائمنٹ بنانا تھا۔‘‘ باذل اس کے قریب آکر کاٹ دار لہجے میں بولا۔
’’جی… جی بالکل۔‘‘ اس نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔
’’کس موضوع پر؟‘‘
’’موضوع یہ ہے کہ عمران ہا…!‘‘ اب یشب کو احساس ہوا کہ عمران ہاشمی ابھی تک اس کے حواسوں پر چھایا ہوا ہے۔ اس نے جلدی سے اس کے تصور کو جھٹک کر لعنت بھیجی اور مودٔبانہ انداز میں بولی۔
’’موضوع یہ ہے کہ بھینس چوبیس گھنٹے بنا وقفہ کے دم کیوں ہلاتی ہے۔ چار ٹانگوں والے جانور کھڑے کھڑے تھکتے کیوں نہیں اور یہ کہ بندر کے سر میں جوئیں پڑ جاتی ہیں تو مٹی کا تیل کیوں نہیں ڈال دیا جاتا اور بھینس رات کو شاید دم ہلانے کا سلسلہ موقف کر کے…!‘‘
’’شٹ اپ۔‘‘ باذل درشت لہجے میں زور سے بولا تو روانی سے چلتی یشب کی زبان یک دم رک گئی۔
’’اف میرے خدا آخر کس عمل کی پاداش میں تم جیسی عقل سے فارغ البال لڑکی میری تقدیر میں لکھ دی… دیکھو یشب ابھی بھی وقت ہے اپنے اندر سے یہ بچپنا ختم کر کے سنجیدگی و بردباری پیدا کرو۔‘‘
’’باطل… اوہ آئی ایم سوری باذل آپ نہیں جانتے میں اندر سے اس قدر سنجیدہ ہوں کہ کچھ حد نہیں میرے ننھیال والے تو میری سنجیدہ طبیعت سے بہت متاثر ہیں سچی۔‘‘ یشب انتہائی جوش سے ہاتھ نچا کر بولی۔
’’اچھا وہ نادیدہ سنجیدگی مجھے تو کبھی دکھائی نہیںدی جو انہیں نظر آگئی۔‘‘ باذل اسے دیکھ کر طنز سے بولا۔
’’نہیں باذل میرا یقین کریں یہ تو میں محض اوپر سے یونہی غیر سنجیدگی کا خول چڑھائے رکھتی ہوں ورنہ…!‘‘
’’اچھا‘ اچھا مجھے یقین آگیا اب پلیز میری جان چھوڑو اور خبردار جو آئندہ تم نے میرے کمپیوٹر کو ہاتھ بھی لگایا اور یہ فضول…!‘‘ کہتے کہتے باذل نے کمپیوٹر سے سی ڈی نکال کر یشب کے ہاتھ میں تھمائی۔
’’تھرڈ کلاس فلمیں خود دیکھیں اور فاطمہ اور علیشبہ کو دکھائیں۔‘‘
یوں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر پہلے یشب تو بری طرح حفیف ہوئی پھر فاطمہ کی بد دعا اچانک یاد آئی۔
’’دیکھو لوں گی فاطمہ تجھے۔‘‘
وہ بڑ بڑائی اور کمرے سے نکل گئی۔
…٭٭٭…
یشب نے چچا جان کو شیشے میں اتارنے کا سوچا اور اب تینوں احسان گردیزی کے سر ہوگئی تھیں۔
’’چچا جان آپ مجھ پر بھروسا کیجیے میں انتہائی سمجھ داری کے سات پھوپھو جان کے گھر پہنچ جائوں گی۔ فاطمہ اور علیشبہ کو بھی پہنچا دوں گی۔ دیکھیے نا چچا جان پھوپھو آپ کی اکلوتی بہن ہیں اور ان کے گھر کی اتنی بڑی خوشی ہے ظہیر بھائی گھوڑی بننے والے…مم… میرا مطلب ہے گھوڑی چڑھنے والے ہیں۔ اب اس موقع پر ہمیں کم از کم پندرہ دن پہلے تو جانا چاہیے نا۔‘‘ یشب زور و شور سے دلائل دیتے ہوئے بولی تو احسان گردیزی سوچ میں گم ہوگئے۔ یشب نے فاتحانہ انداز میں فاطمہ اور علیشبہ کو دیکھا اور فرضی کالر جھاڑا۔
’’ثریا اس بات کا یقیناً برا نہیں مانے گی کہ ہم عین شادی کے دن پہنچے وہ ہماری مجبوریوں سے واقف ہے کل رات میری فون پر بات ہوئی تھی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ یہ سن کر یشب کے ساتھ ساتھ فاطمہ اور علیشبہ کے چہرے بھی اتر گئے۔
’’مگر چچا جان کچھ ہمارے دلوں کا بھی خیال کیجیے۔ ہم ظہیر بھائی کی شادی کا سوچ کر بہت خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم تینوں پندرہ دن پہلے جائیں۔ پلیز چچا جان ہمیں ایبٹ آباد جانے کی اجازت دے دیجیے نا۔‘‘ یشب منت آمیز لہجے میں بولی۔
’’ہوں ٹھیک ہے تم تینوں کے ٹکٹ کنفرم کروا دیتا ہوں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ تینوں خوشی سے چلا اٹھیں۔
’’تھینک یو سو مچ چچا جان۔ مجھے ٹرین کے سفر کا سوچ کر ہی خوشی ہو رہی ہے۔‘‘
’’ٹرین سے… میں نے ٹرین کی ٹکٹس نہیں جہاز کے ٹکٹس کی بات کی ہے۔‘‘ احسان گردیزی نے یشب کی غلط فہمی دور کی تو تینوں کے چہرے ایک بار پھر اتر گئے۔
’’مگر پاپا آپ پھول گئے کہ پچھلی بار یشب کی جہاز میں طبیعت خراب ہوگئی تھی۔‘‘
’’چچا جان پلیز مان جائیے نا ورنہ میں پورا ایک دن کھانا نہیں کھائوں گی۔ بس میں بھوک ہڑتال پر ہوں۔‘‘ یشب نے آخری حربہ آزمایا۔
’’کیا یشب واقعی تم بھوک ہڑتال کرو گی۔ یعنی کہ تم…!‘‘ علیشبہ حیرت سے بولی تو احسان گردیزی پریشان سے ہوگئے۔
’’اچھا بھئی چلی جائو ٹرین کے ذریعے مگر احتیاط اور خیال کے ساتھ۔‘‘ احسان گردیزی کو ماننا ہی پڑی جبکہ تینوں خوشی سے اچھلتی ہوئی لائونج سے باہر چلی گئیں۔
…٭٭٭…
ٹرین کی بوگی کے مخصوص ماحول کو تینوں بہت انجوائے کر رہی تھیں۔ ابھی ابھی باذل تینوں کے کانوں میں ہزاروں نصیحتیں اور ہدایتیں انڈیل کر گیا تھا جسے بظاہر تینوں نے کافی توجہ سے سنا تھا۔ جب وسل بجی تب ہی باذل انہیں خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوا تھا اور اب رفتہ رفتہ ٹرین نے رفتار پکڑ لی تھی۔
’’فاطمہ کی بچی مجھے کھڑکی کی طرف بیٹھنے دو نا میرا بھی باہر دیکھنے کا دل چاہ رہا ہے۔‘‘ فاطمہ کے برابر میں بیٹھی یشب اشتیاق و جوش سے بولی مگر فاطمہ سنی ان سنی کر گئی تو یشب برا سا منہ بنا کر جیسے ہی سیدھی بیٹھی اس کی نگاہ ایک نو بیاہتاجوڑے پر پڑی مگر عجیب بات یہ تھی کہ اتنے کیوٹ سے جوڑے کے درمیان ایک پہاڑ کی مانند وجود ایستادہ تھا۔ بے چارے دونوں ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے بھی دیکھنے کی کوشش میں بھی ناکام ہو رہے تھے۔ یشب کچھ سوچ کر ان لوگوں کے سامنے کی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی۔
’’السّلام علیکم آنٹی میرا نام یشب ہے ہم لوگ اسلام آباد جا رہے ہیں پھر وہاں سے ایبٹ آباد جائیں گے ہمارے کزن کی شادی ہے نا۔‘‘ یشب صاحبہ نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ خاتون نے انتہائی ناگواری سے دیکھا پھر رخ کھڑکی کی جانب موڑ لیا۔
’’آپ نے بتایا نہیں آپ کہاں جا رہی ہیں۔‘‘ یشب پھر بولی۔
تو وہ خاتون طوعاً کرہاً یشب کی جانب متوجہ ہوئیں اور انتہائی پاٹ دار آواز میں بولیں۔
’’ہنی مون۔‘‘
’’ک… کیا… ہن… ہن… میرا مطلب ہے آپ اس عمر میں ہنی مون پر جا رہی ہے۔‘‘ یشب بہ مشکل حیرت سے باہر آئی اپنی آنکھوں کو واپس جگہ پر لاتے ہوئے بولی۔
’’میں نہیں بلکہ اپنے بیٹے اور بہو کو ہنی مون پر لے کر جا رہی ہوں۔‘‘ وہ ہنوز بگڑے لہجے میں بولی تو یشب نے بہ مشکل اپنے قہقہہ کا گلا گھونٹا۔
’’مگر آنٹی ہنی مون آپ کو معلوم ہے کیا بلا ہے؟‘‘ یشب بڑی بردباری سے بولی۔
’’لو بھلا مجھے جاہل سمجھ رکھا ہے کیا‘ اے گھومنا پھرنا تو ہنی مون ہوتا ہے۔‘‘ خاتون چڑ کر بولیں۔
’’ہوں وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کو ذرا چوکس رہنا پڑے گا۔ بھائی صاحب کہاں جا رہے ہیں آپ لوگ؟‘‘ یشب اچانک اس لڑکے سے مخاطب ہوئی تھی۔
’’مری اور نتھیا گلی وغیرہ…!‘‘ وہ مختصراً بولا۔
’’ہوں… ہوں ٹھیک ہے مگر یہ تو غلط بات ہے آپ اپنے ہنی مون منانے کے چکر میں اپنی والدہ کی جان کے دشمن کیوں بن گئے؟‘‘ یشب تاسف سے بولی۔
یا مطلب یہ کیا مجھ سے دشمنی نکال رہا ہے۔‘‘ ان خاتون کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔علیشبہ اور فاطمہ نے یشب کو محو گفتگو پایا تو سمجھ گئیں کہ یشب بی بی کوئی چکر چلا رہی ہیں۔
’’آنٹی پچھلے دنوں آپ نے اخبار میں نہیں پڑھا تھا کہ مری اور نتھیا گلی کے ریسٹ ہائوس میں ایک چڑیل کی روح پھرتی ہے کہنے والے نے یہ کہا ہے کہ وہ نئے شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ آنے والی ساسوں کی سانسیں بند کردیتی ہے۔‘‘
’’سانسیں بند کردیتی ہے؟‘‘ خاتون نے سانس روک کر کہا۔
’’میرا مطلب ہے مار دیتی ہے قتل کردیتی ہے ‘ مطلب خون۔‘‘ وہ اپنی آواز کو دہشت زدہ بنا کر بولی۔
’’کک… کیوں… ساسوں کو ہی کیوں؟‘‘
’’صرف ساسوں کو آنٹی‘ کیونکہ بیس سال پہلے جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنی مون منانے آئی تھی تو اس کی ساس بھی اس کے ساتھ آئی تھی اور اس نے ان لوگوں کو صحیح سے گھومنے پھرنے نہیں دیا تھا۔ پھر بے چاری نے تنگ آکر وہیں پہاڑیوں میں کود کر جان دے دی تھی۔‘‘ یشب آخر میں افسوس ناک لہجے میں بولی۔
’’اب… اب کیا ہوگا؟ میں بھی تو سانس ہوں مطلب ساس ہوں‘ وہ مجھے بھی مار ڈالے گی۔‘‘ خاتون کا خون پوری طرح خشک ہوگیا تھا۔
’’بہن یہ آپ کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہیں۔ میری والدہ بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ ہیں۔ آپ پلیز ایسی باتیں کر کے انہیں خوف زدہ مت کریں۔‘‘ وہ لڑکا یشب سے انتہائی سنجیدگی سے بولا۔
’’ٹھیک ہے آپ کی مرضی شوق سے اپنی والدہ کو لے کر جائیے۔‘‘ یشب بے پروائی سے کندھے اچکا کر بولی۔
’’سلطان… میں نہیں جائوں گی مری‘ میں اسلام آباد تمہاری خالہ کے گھر ہی ٹھہروں گی تم دونوں گھوم پھر کر آجانا۔‘‘ خاتون دہشت زدہ انداز میں بولیں۔
’’کوئی بات نہیں اماں ہم بھی مری نہیں جاتے۔‘‘ بہو صاحبہ سعادت مندی سے بولیں حالانکہ نگاہوں میں خوشی اور یشب کے لیے تشکر کے رنگ لیے وہ بظاہر فرمانبرداری کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
’’ارے ایسا غضب مت کرنا آپ لوگوں نے پروگرام کینسل کیا تب بھی آنٹی کی جان…!‘‘ یشب نے اپنے لہجے کو پر اسرار بنا کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’بس فیصلہ ہوگیا میں اسلام آباد اپنی بہن کے گھر ہی رہوں گی۔ کتنا عرصہ ہوگیا اس کی صورت دیکھے ہوئے تم دونوں اس موئے ہنی مون پر چلے جانا۔‘‘ خاتون تڑخ کر بولیں تو یشب بھی ہاتھ جھاڑتے ہوئے وہاں سے اٹھی اور اس لڑکی نے نگاہوں ہی نگاہوں میں شکریہ ادا کرنے پر سر ہلا کر جواب دیا۔
’’یشب پاپااور باذل بھائی کو پتا چل گیا نا کہ تم ٹرین میں یہ کارستانیاں کرتی پھر رہی ہو تو سمجھ لو ہمارا باہر نکلنا بھی بند ہوجائے گا۔‘‘ علیشبہ دانت پیس کر بولی۔
’’تم تو شروع سے میرے ٹیلنٹ سے جلتی ہو ارے میں نے تو دو پیار کرنے والوں کو تنہائی کے کچھ لمحات فراہم کیے ہیں۔ ورنہ دیکھا نہیں تھا وہ عورت کیسے چوکیدار کی طرح پہرہ دے رہی تھی۔ اب دیکھو محترمہ اوپر برتھ پر جا کر لیٹ گئی ہیں۔‘‘ یشب مزے سے بولی تو دونوں نے بے ساختہ برتھ کی جانب دیکھا جہاں وہ خاتون خراٹے لے رہی تھیں اور نوبیاہتا جوڑا کھڑکی سے باہر مناظر دیکھنے میں مگن تھا۔ علیشبہ اور فاطمہ دونوں مسکرا دیں۔
…٭٭٭…
تینوں بخیر و عافیت اسلام آباد پہنچ گئی تھیں۔ جہاں ظہیر اور اظہر انہیں لینے آئے تھے اور ان ہی کی گاڑی میں کچھ ہی گھنٹوں میں وہ ایبٹ آباد جیسے خوب صورت شہر میں پہنچ گئی تھیں۔ پھو پھو اور دانیہ ان کی آمد سے بہت خوش تھیں ابھی تھوڑی دیر پہلے بارش سے ہر شے دھلی ہوئی اور نکھری نکھری لگ رہی تھی۔
’’ہائے اللہ سب کچھ کتنا خوب صورت لگ رہا ہے۔ ہر شے صاف صاف ہوا بھی کتنی اچھی لگ رہی ہے نا۔‘‘ یشب نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔ بولتے بولتے اچانک یشب چیخ کر کھڑکی کے پاس سے بجلی کی تیزی سے پیچھے ہٹی۔ علیشبہ پلیٹ چھوڑ کر‘ ثانیہ اور فاطمہ باتیں چھوڑ کر جبکہ پھوپھو کچن کفگیر چھوڑ کر یشب کی جانب دوڑ کر آئیں جو اب اپنی پھولی سانسوں کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’کیا ہوا یشب کی بچی تم نے تو ہماری جان ہی نکال دی کھڑکی پر کوئی بھوت دیکھ لیا تھا جو بے ڈھنگے پن سے چلائیں۔‘‘ فاطمہ اور علیشبہ اس پر الٹ پڑیں۔
’’نہیں شاید ہاں‘ تھا تو وہ انسان نما چیز‘ مگر انسان تھا یا کوئی اور مخلوق…!‘‘
…٭٭٭…
وہ صبح ہی صبح ناشتے سے فارغ ہو کر پھوپھا کے باغات کی سیر کے لیے نکل آئیں۔ اس پل موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ ایبٹ آباد کا خنک و نرم موسم انہیں بے حد پسند آرہا تھا۔
’’ہائے اللہ یشب کاش میرا قد اور تھوڑا بڑا ہوتا تو یہ سیب اس وقت میرے ہاتھ میں ہوتا۔‘‘ درخت پر لٹکے سیب کو دیکھ کر علیشبہ بھولے پن سے بولی۔
’’تمہیں تو کھانے پینے کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ذراوہ دیکھو آسمان کی جانب سورج آہستہ آہستہ کیسے پوری فضامیں اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔‘‘ فاطمہ آخر میں بڑے اشتیاق سے بولی جبکہ یشب بڑی ترنگ میںباغ کے اندر بڑھتی چلی گئی۔
’’تم کیا سمجھ رہی ہو یہ اتنا بڑا سورج مجھے نکلتا دکھائی نہیں دے رہا کیا؟‘‘ علیشبہ برا مانتے ہوئے بولی۔
’’بالکل میں کچھ ایسا ہی سمجھ رہی ہوں۔‘‘ فاطمہ شانے اچکا کر بے پروائی سے بولی ابھی علیشبہ کچھ کہنے والی تھی کہ یشب کی فلک شگاف چیخ نے دونوں کو بری طرح حواس باختہ کردیا وہ اس طرف دوڑیں جہاں یشب تھوڑی دیر پہلے گئی تھی۔
’’کیا ہوا یشب کی بچی اتنی زور سے کیوں چلائی پورا ایبٹ آباد ہل گیا تمہاری…!‘‘ یشب کو صحیح سلامت کھڑا دیکھ کر علیشبہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولی ہی تھی مگر جیسے ہی اس کی نگاہ سامنے اٹھی بے ساختہ اس کی بھی چیخ نکل گئی انتہائی۔ انتہائی پستہ قامت شخص جس کی ٹانگیں کافی پتلی اور جسم کافی بڑا تھا سر پر منوں کے حساب سے تیل لگائے آنکھوں میں سرمہ کی دکان سجائے بڑی حیرت سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’ک…کون ہو تم‘ یہاں کیا کر رہے ہو؟ یہ ہمارے پھوپھا کا باغ ہے۔‘‘
’’باجیوں سو بسم اللہ یہ باغ آپ کے پھوپھا کا ہوگا میں نے کب کہا کہ یہ میرے ماموں کا ہے۔‘‘ وہ شخص حیرت سے باہر آکر انہیں بڑے اشتیاق بھرے انداز میں دیکھ کر دانت نکال کر بولا تو یشب‘ فاطمہ کے کان میں گھس کر با آواز بولی۔
’’یہی تھا وہ آدمی جسے میں نے کل پھوپھو کی کھڑکی کے پاس دیکھا تھا۔‘‘
’’افوہ یشب یہ اپنے منہ کا لائوڈ اسپیکر میرے کان میں گھسانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ فاطمہ یشب کی اس حرکت پر بے ساختہ پیچھے ہٹ کر اپنا ہاتھ کان پر رکھ کر بولی مگر اس وقت وہ فاطمہ کی بات قصداً نظر انداز کرکے اس آدمی کی جانب متوجہ ہوگئی وگرنہ کوئی اور وقت ہوتا تو فاطمہ کے اس انداز پر وہ اسے آڑے ہاتھوں لیتی اور پھر تقریباً پندرہ منٹ میں علیشبہ اور یشب نے وہ شخص جس کا نام شیدا تھا۔ اس کے متعلق تمام معلومات حاصل کرلی تھیں جو وہیں کا مقامی تھا اور بڑی سادہ طبیعت کا مالک تھا۔ اب بڑے مزے سے تینوں شیدے کی معیت میں ایبٹ آباد کی حسین وادیوں کی سیر کر رہی تھیں۔
…٭٭٭…
وہ تینوں تھکی ماندی گھر لوٹیں تو معلوم ہوا کہ پھوپھو کی نند صاحبہ آج رات کی فلائٹ سے دبئی سے تشریف لا رہی ہیں۔‘‘ میں تو سونے جا رہی ہوں۔ ظہیر بھائی آپ کی پھوپھو سے ان شاء اللہ کل ملوں گی۔‘‘ یشب کسلمندی سے کائوچ سے اٹھتے ہوئے بولی تو علیشبہ اور فاطمہ نے بھی یک بہ یک کہا۔
’’ہم بھی سونے جا رہے ہیں۔‘‘
’’افوہ بھئی یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی آپ میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا رات کے کھانے پر۔‘‘ دانیہ منہ بسور کر بولی تو یشب نے فاطمہ اور علیشبہ کو گھورتے ہوئے چڑ کر کہا۔
’’تم دونوں کیوں میرے دائیں بائیں چپکی ہوئی ہو۔ دانیہ کے ساتھ پھوپھو کی نند کو ریسیو کرلونا۔‘‘
’’ہمیں کوئی شوق نہیں ہے تمہارے ساتھ چپکنے کا سمجھیں۔‘‘ علیشبہ‘ یشب کی بات پر سخت برا مان کر بولی۔
’’ہنہ یشب بی بی یہ تمہاری خوش فہمیاں۔ بھئی ہم بھی تھکے ہوئے ہیں تمہارے ساتھ پورے ایبٹ آباد میں ہم بھی جھک مار کر آئے ہیں۔‘‘ فاطمہ لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچا کر بولی۔
’’اف میرے اللہ‘ آپ لوگ پھر شروع ہوگئیں پلیز مہرین باجی کے سامنے آپ لوگ مت لڑیے گا۔ وہ تو بہت پر سکون طبیعت کی مالک ہیں۔‘‘ دانیہ ان تینوں کو الجھتا دیکھ کر گھبرا کر بولی۔

’’ہائے مہرین باجی؟ یہ مہرین باجی تمہاری پھوپھو کی وہی بیٹی ہیں نا جو بہت مشکل سے منہ سے آواز نکالتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر زیادہ الفاظ یا آواز نکل جائے تو شاید منہ ہی گردن سے گر جائے۔‘‘ یشب کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
’’دانیہ وہی مہرین نا جو بہت سوبر اور سنجیدہ سی ہیں۔‘‘فاطمہ کو بھی کچھ یاد آیا تو چہک کر بولی۔
’’ہائیں باذل بھیا کو ایسی لڑکیاں ہی پسند… مم… میرا مطلب ہے سنجیدگی اچھی چیز ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ ہر وقت چہرے پر انسان ٹیچر والے تاثرات ہی سجائے رکھے۔‘‘ علیشبہ نے لہک کر بولتے ہوئے جونہی یشب کو خونخوار نگاہوں سے گھورتا پایا تو اچانک جملہ بدل کر بولی۔
’’آپ لوگ مہرین باجی سے تو پہلے بھی ملی ہیں مگر مہروز بھائی سے پہلی بار ملیں گی سچی وہ بہت نائس ہیں۔‘‘ دانیہ خوشی سے بولی۔
’’ہاں‘ ہاں ہم ضرور ملیں گے مجھے تو مہرین سے ملنے کا بہت اشتیاق ہو رہا ہے اور مہروز بھائی سے بھی مل لیں گے۔‘‘ فاطمہ صاحبہ فوراً پیر پسار کر کارپٹ پر براجمان ہوگئیں جبکہ علیشبہ نے بھی کائوچ سنبھال لیا۔
’’ہاں نا کتنی بد اخلاقی کی بات ہوگی کہ مہمان دبئی سے آرہے ہیں اور ہم یہاں گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔‘‘ دونوں کو دل ہی دل میں لعن طعن کر کے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
…٭٭٭…
’’ہائے اللہ مہرین آپ کی اور بھیا کی سوچوں میں اتنی مطابقت ہے۔ سچی آپ کی تو عادتیں بھی باذل بھیا جیسی ہیں۔‘‘ ناشتے کی غرض سے صبح لائونج میں داخل ہوتے علیشبہ کا کھنکھناتا جملہ اسے بری طرح خاکستر کر گیا۔
’’ذلیل‘ بدتمیز علیشبہ دیکھو لوں گی تجھے‘ وہ دانت پیس کر دل ہی دل میں بولی پھر بظاہر بڑے تپاک سے مہرین سے مل کر اور ناشتے سے فراغت کے بعد تنہائی میں یشب نے علیشبہ کی طبیعت بھرپور طریقے سے صاف کی مگر حیرت کی بات تو یہ تھی اس تمام وقت میں فاطمہ کمرے کی کھڑکی کی گرل پر منہ رکھے اداس بلی کی طرح بس ایک ہی نقطے پر نگاہ مرکوز کیے کھڑی رہی۔
’’خیریت تو ہے فاطمہ دیر سے چھپکلی کی طرح گرل سے کیوں لپٹی ہوئی ہو۔‘‘ یشب فاطمہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر متعجب ہو کر بولی تو فاطمہ نے ایک گہری آہ بھری۔
’’ہائے یشب کیا بتائوں تجھے میرے ساتھ کیا واردات ہوگئی۔‘‘ وہ اتنے ڈرامائی اور دل سوز انداز میں بولی کہ دونوں حقیقتاً گھبرا گئیں۔
’’یا اللہ خیر‘ واردات ہوگئی ارے وہ دل والا لاکٹ بھی کیا چوری ہوگیا؟ فاطمہ کی بچی کتنا کہا تھا میں نے تجھ سے مت رکھو زیور اپنے پاس ہائے میری منگنی کا تحفہ۔‘‘ یشب اسے جھنجوڑ کر اب باقاعدہ رونے کی تیاری کرنے لگی تھی۔ فاطمہ انتہائی چڑ گئی۔
’’افوہ وہ والی واردات نہیں‘ سچ میں یشب تمہارا اوپر کا پورشن بالکل خالی ہے۔ میں اپنے دل کی واردات کی بات کر رہی ہوں۔‘‘ فاطمہ زچ ہو کر بولی۔
’’ہائے کیا مطلب دل کی واردات۔‘‘ علیشبہ نے ہونق انداز میں استفسار کیا۔
’’ہاں یشب علیشبہ مجھے…!‘‘ وہ بولتے بولتے کچھ پل ٹھہری۔
’’مجھے محبت ہوگئی ہے۔‘‘ فاطمہ نے گویا اقرار جرم کیا۔ علیشبہ نے بے ساختہ اپنا سر تھام لیا۔
’’تو بس ایک یہی کام کرنے کو رہ گیا تھا۔‘‘ یشب شانے اچکا کر استہزائیہ انداز میں بولی تو فاطمہ کو حسب معمول اس کے انداز پر پتنگے لگ گئے۔
’’کیوں؟ کیا صرف تم ہی یہ کام کرسکتی ہو۔ مجھے کوئی اچھا نہیں لگ سکتا کیا؟‘‘
’’اچھا بابا تم بھی کرسکتی ہو محبت‘ مگر یہ بتائو کون ہے وہ بد… مم… میرا مطلب ہے خوش نصیب۔‘‘ پھوپھو کا وہ خانساماں جس کی بائیں آنکھ ہمہ وقت پھڑکتی رہتی ہے۔ یا پھوپھا کا وہ خرانٹ اونٹ نما مینجر جس کی مونچھیں دیکھ کر آٹھ بج کر بیس منٹ کا گمان ہوتا ہے یا پھر وہ مالی کا بھانجا جو…!‘‘
’’یشب کمینی کیا میرا ٹیسٹ اتنا خراب ہے کہ مجھے ان میں سے کسی سے محبت ہوگی؟ خبردار اب ایک بھی لفظ اپنی زبان سے نکالا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ یشب کی بات کو فاطمہ نے انتہائی تلملا کر درمیان سے قطع کیا اور غصے سے دانت کچکچا کر بولی۔
’’تو پھر وہ کس کی ذات شریف ہے جسے تمہاری محبت کا شرف ملا ہے کل سے اب تک یہی حضرات نگاہوں سے گزرے ہیں۔‘‘ علیشبہ بے زاری سے بولی پھر اچانک کچھ یاد آجانے پر

اچھل پڑی۔ پھر یشب کو دیکھ کو گویا ہوئی۔
’’تم شیدے کو بھول گئیں۔‘‘
’’اف فاطمہ تمہیں شیدے میں کیا نظر آیا جو…!‘‘
’’نکل جائو اپنی منحوس شکلیں لے کر تم لوگ ورنہ میں تم لوگوں کا خون پی جائوں گی۔‘‘ فاطمہ علیشبہ کی بات پر آپے سے باہر ہو کر بولی۔
تو دونوں نے فی الحال یہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔
…٭٭٭…
’’جی مجھے تو شاعری سے بچپن سے لگائو ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی شاعری تو مجھے بے حد پسند ہے اور موسیقی میں مجھے صرف غزلیں ہی بھاتی ہیں۔‘‘ فاطمہ کی انتہائی مودب آواز جونہی علیشبہ اور یشب کے کانوں سے ٹکرائی دونوں نے ایک دوسرے کو خاصا اچنھبے سے دیکھا۔ پھر لان میں قدم رکھتے ہی دونوں بخوبی سمجھ گئیں کہ مہروز میاں ہی وہ ہستی ہے جن سے فاطمہ صاحبہ بری طرح متاثر ہو کر اب جی جان سے انہیں متاثر کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔
’’جی مگر قائد اعظم تو شاعری نہیں کرتے تھے۔‘‘ مہروز کی حیرت میں ڈوبی آواز ابھری تو فاطمہ یک دم سٹپٹا گئی۔
’’اچھا نہیں کرتے تھے۔‘‘ وہ کھسیانی ہو کر بولی۔
’’ارے نہیں مہروز بھائی یہ اپنی فاطمہ فیض احمد فیض کو قائد اعظم کہہ رہی ہے۔ دراصل ان کی انقلابی شاعری میں اسے ایک قائد اعظم دکھائی دیا تو اس نے انہیں قائد اعظم کا درجہ دے ڈالا۔‘‘ یشب نے بر وقت آکر فاطمہ کو بچایا۔ پھر علیشبہ اور یشب نے مہروز سے اپنا تعارف کروایا اور ہمیشہ کی طرح کچھ ہی وقت میں انہوں نے مہروز کااچھی طرح سے انٹرویو لے لیا۔
…٭٭٭…
فاطمہ ہانپتی کانپتی اپنی پھولی سانسوں سمیت دھپ سے یشب اور علیشبہ کے قریب بیٹھی۔
’’یشب یہ واکنگ واکنگ میرے بس کا روگ نہیں ہے تم کوئی اور طریقہ نکالو اسمارٹ اور پر کشش بننے کا۔‘‘ فاطمہ اپنی بے ترتیب سانسوں کے درمیان بہ مشکل بولی تو یشب نے گویا ہاتھوں کو جھاڑا۔
’’اور کوئی طریقہ نہیں ہے بی بی‘ مہروز بھائی کو موٹی لڑکیاں سخت نا پسند ہیں اب انہیں ایمپریس کرنے کے لیے تمہیں یہ سب تو کرنا پڑے گا نا۔‘‘
’’میں کہاں سے موٹی ہوگئی یہ علیشبہ موٹی ہے میں تو پھر بھی اس سے کافی دبلی ہوں۔‘‘ فاطمہ یشب کی بات پر برا مانتے ہوئے بولی تینوں اس پل گھر کے باہر بنے خوب صورت و دل کش لان میں بیٹھی صبح کی تازہ ہَوا کھا رہی تھیں۔ مگر بے چاری فاطمہ کی شامت آئی ہوئی تھی۔ کیونکہ مہروز کی آئیڈیل ایک حسین سراپا کی مالک لڑکی تھی جبکہ فاطمہ فربہی مائل تھی اور اب یشب اور علیشبہ اس کو دو دن میں ہی اسمارٹ بنانے کے چکر میں تھیں۔
’’اچھا تم ایسا کرو پارک کے اس کونے کا چکر لگا کر آئو آج کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ یشب گویا اس پر احسان کرتے ہوئے بولی تو فاطمہ برے برے منہ بناتی ہمت کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ ہر قیمت پر مہروز کی پسند بننا چاہتی تھی۔
’’ویسے یشب تمہیں دادی جان کی روح کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو بنا محنت کے تمہاری جھولی میں باذل بھائی کو ڈال دیا وگرنہ تم بھی فاطمہ کی طرح جھک مار رہی ہوتیں۔‘‘ علیشبہ نے اخبار سے منہ ہٹا کر یشب سے کہا تو اس نے تادیبی نگاہوں سے علیشبہ کو دیکھا۔
’’ہاں تمہارے بھیا تو ربڑ کا گڈا ہیں جو میری جھولی میں آن گرے… ارے دیکھا نہیں ہے تم نے ان کی بے زاری اور بے پروائی کو مجال ہے جو کبھی پیار سے بات کی ہو۔‘‘ یشب اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے بولی۔
’’ظاہر ہے جب تم ان کے کمرے میں عمران ہاشمی کی فلمیں دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی جائو گی تو وہ تمہیں خراج تحسین تو پیش کرنے سے رہے۔‘‘ علیشبہ منہ بنا کر بولی تھی۔ ابھی یشب اسے کوئی سخت جملہ کہنے ہی والی تھی کہ معاً اس کی نظر فاطمہ پر پڑی جو بد حواسوں کی طرح بے تحاشا بھاگ رہی تھی۔
’لو دیکھو اس دیوانی کو میں نے واکنگ کا کہا تھا اور اس نے پاگلوں کی طرح بھاگنا شروع کردیا۔ یا اللہ کیا کروں اس لڑکی کا۔‘‘ یشب سر اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولی مگر جونہی بد حواس سی فاطمہ ان کے قریب پہنچی دونوں کو سچویشن اچھی طرح سمجھ میں آگئی۔ تینوں ’’کتا‘ کتا‘‘ چلا کر گھر کے مین گیٹ کی طرف گرتے پڑے بھاگیں۔ کیونکہ ایک کالے رنگ کا کتا بڑے مزے سے فاطمہ کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں آن پہنچا تھا۔
…٭٭٭…
دن یونہی موج مستی اور ہنسی مذاق میں تیزی سے گزر گئے۔ آج ظہیر کی مہندی تھی۔ یشب اور فاطمہ و علیشبہ کے گھر والے بھی آ پہنچے تھے۔ بازل بھی ان کے ہمراہ تھا۔ جسے دیکھ کر یشب کی من کی کلی کھل اٹھی تھی۔
چپکے چپکے نجانے کتنی ہی بار یشب نے باذل کو دیکھا تھا مگر باذل نے ایک نگاہ خاص بھی یشب کی جانب نہیں اٹھائی تھی۔ جسے محسوس کر کے اس کا دل بجھ سا گیا تھا۔
رات کی تقریب کا اہتمام گھر کے پاس بنے گرائونڈ میں کیا گیا تھا۔کاہی گرین اور سرخ رنگ کے امتزاج کے لہنگے میں ملبوس یشب بہت چہک چہک کر اور حلق پھاڑ کر گانے گا رہی تھی۔ فاطمہ نے مہروز کی پسند کے مطابق سیاہ رنگ کا دیدہ زیب سوٹ زیب تن کیا تھا۔ جو اس نے یشب سے ادھار لیا تھا کیونکہ اس رنگ کا سوٹ فی الحال اس کے پاس موجود نہیں تھا۔ جبکہ علیشبہ صاحبہ آتشی گلابی سوٹ میں پیاری لگ رہی تھی۔
رسموںکے دوران یشب کو باذل کا خیال آیا تو وہ اسے ڈھونڈنے کی غرض سے اسٹیج سے اتری اور چند ہی لمحوں میں باذل مہرین کے ہمراہ خوش گپیاں کرتا نظر آگیا۔ آج سے پہلے یشب نے باذل کو اتنا خوش و مطمئن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ خاص طور پر یشب کو تو سامنے پا کر اس کے چہرے پر خشونت طاری ہوجاتی تھی۔ پھر پوری شادی اور حتیٰ کہ ولیمے میں بھی دونوں اکٹھے دکھائی دیے اور یشب کے دل پر چھریاں چلتی رہیں۔
…٭٭٭…
گھر میں ایک افراتفری کا عالم تھا۔ پھوپھو کے گھر سے مہمان اپنے اپنے ٹھکانوں کو واپس جا رہے تھے۔ یشب علیشبہ اور فامطہ نے بھی اپنی اپنی پیکنگ کرلی تھی وہ گیسٹ روم کی طرف سے گزر رہی تھی کہ یکدم مہرین کی دل کش آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’باذل پلیز مجھے فون ضرور کیجیے گا وہاں جا کر بھول نہیں جائیے گا اور ہاں آپ نے میر فیس بک کا ایڈریس تو نوٹ کرلیا ہے نا؟‘‘ یہ سن کر یشب کے تلوے سے لگی اور سر پر بجھی ۔ وہ بنا کچھ سوچے سمجھے دروازہ کھول کر چھپاک سے اندر داخل ہوگئی۔ دونوں نے ہی چونک کر اسے دیکھا۔
’’یشب آخر تمہیں تمیز کب آئے گی‘ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ دروازہ ناک کر کے آنا چاہیے۔‘‘ باذل نے اپنے مخصوص انداز میں اسے لتاڑا تو آج پہلی بار بے ساختہ یشب کی آنکھوں میں نمی در آئی۔
’’ایم سوری آئندہ خیال رکھوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر یشب تیزی سے وہاں سے نکل آئی اور باتھ روم میں جا کر منہ پر ہاتھ رکھ کر بے تحاشا رو دی۔ آج باذل اسے اپنی دسترس سے بہت دور جاتا محسوس ہوا تھا۔
…٭٭٭…
واپس آکر سب اپنی اپنی روٹین میں لگ گئے مگر یشب بہت بدل گئی۔ اب وقت بے وقت اس نے علیشبہ و فاطمہ کے گھر آنا بھی چھوڑ دیا تھا اور ان کے ساتھ مل کر شرارتیں کرنا بھی وہ شاید بھول گئی تھی۔ علیشبہ اور فاطمہ اس سے اس رویے کی وجہ معلوم کرتے کرتے تھک گئی تھیں۔ مگر یشب نے گویا کچھ بھی نہ بولنے اور بتانے کی قسم کھالی تھی۔ باذل نے بھی یشب کے رویے کو محسوس کرلیا تھا اور اندر ہی اندر حیران تھا کیونکہ یشب کو تو نچلا بیٹھنا جیسے آتا ہی نہیں تھا اور یکدم اب وہ بالکل ہی بدل گئی تھی۔
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوا تو سب ہی عبادات میں مصروف ہوگئے۔ یشب بھی پوری دل جمعی کے ساتھ اللہ کی بارگارہ میں عبادت میں مشغول ہوگئی۔ آج دسواں روزہ تھا۔ تائی اماں اور یشب کی امی دونوں بازار گئی ہوئی تھیں۔ فاطمہ آکر زبردستی یشب کو اپنے گھر لے آئی تھی۔ آج کل وہ بھی کافی اداس تھی کیونکہ مہروز اسے شدتوں سے یاد آرہا تھا۔ جس نے دبئی جاکر اس سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں کیا تھا۔
دروازے پر بیل بجی تو علیشبہ اور فاطمہ کی غیر موجودگی دیکھ کر وہ گیٹ کی جانب آگئی۔ سامنے کوریئر والا باذل کے نام کا لیٹر لیے کھڑا تھا۔ اس نے بد دلی سے سائن کر کے لیٹر وصول کیا اور اسے الٹ پلٹ کر کے دیکھا جو کسی کمپنی کی طرف سے آیا تھا۔ یشب یہ سوچ کر باذل کے کمرے کی جانب بڑھی کہ اس وقت تو باذل آفس میں ہوگا لہٰذا یہ لیٹر اس کے کمرے میں رکھ آئے مگر جونہی اس نے دروازے کے ہینڈل کو گھما کر تھوڑا سا دروازہ کھولا ہی تھا کہ معاً باذل کی دل کش آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’نہیں مہرین میں بالکل فارغ تھا آخر آپ کو میری…!‘‘ اتنا سننا تھا کہ یشب نے پوری طاقت سے دروازہ دھکیلااور خطرناک تیور لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ باذل بے ساختہ مڑا اور یشب کا چہرہ دیکھ کر مہرین سے ’’میں بعد میں بات کرتا ہوں۔‘‘ کہہ کر فون آف کر کے الجھ کر اسے دیکھا۔
’’میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے یہی کہیں گے کہ تمہیں تمیز نہیں ہے دروازہ ناک کر کے آنا چاہیے تھا۔ تو ہاں ہوں میں بد تمیز‘ ان مینرڈ ایک بے وقوف لڑکی۔‘‘ یشب گویا پھٹ پڑی۔
’’میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے پسند نہیں کرتے میری کوئی بات بھی آپ کو اچھی نہیں لگتی میرے اندر سنجیدگی نہیں ہے میری حرکتیں بچوں جیسی ہیں یہ تو دادی جان نے زبردستی آپ کو میرے پلے باندھ دیا ورنہ آپ تو مہرین جیسی لڑکی کے خواہش مند ہیں نا۔‘‘ یشب تیز آواز میں بولتی چلی گئی جبکہ فاطمہ باذل کے کمرے میں کسی کام سے آتے ہوئے بھونچکا سی دروازے پر کھڑی یشب کا یہ انداز حقیقتاً اس کے ہوش اڑا گیا۔
’’ٹھیک ہے مسٹر باذل میں یہ رشتا ابھی اور اسی وقت ختم کیے دیتی ہوں۔ آپ شوق سے مہرین کو اپنی زندگی میں لے آئیے میں…!‘‘ وہ پل بھر کو رکی پھر اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوئے بولی۔
’’میں اسی وقت آپ کی زندگی سے جا رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بے تحاشا روتی ہوئی وہاں سے پلٹی اور فاطمہ کو یکسر نظر انداز کرتی تقریباً بھاگتے ہوئے وہاں سے نکل آئی جبکہ باذل ساکت سا وہیں کھڑا رہ گیا۔ فاطمہ بہ مشکل خود کو سنبھال کر کمرے میں داخل ہوئی۔
’’بھیا یہ… یہ سب کیا ہے؟ یہ یشب کیا بول کر گئی ہے؟ کیا واقعی یہ سچ ہے۔‘‘ فاطمہ نے انتہائی خوف زدہ ہو کر استفسار کیا یشب انہیں دل و جان سے عزیز تھی۔
’’دماغی حالت پر اس کی تو مجھے پہلے سے شبہ تھا مگر اب یقین ہوگیا ہے۔ بالکل ہی عقل سے پیدل ہیں یہ موصوفہ۔‘‘ باذل تلملا کر بولا تو فاطمہ کے اندر ڈھیروں سکون اترتا چلا گیا۔
’’فاطمہ تمہیں یشب کو سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں اس بد گمانی کی سزا تو اسے ضرور ملے گی۔‘‘ باذل اسے تنبیہہ کرتے ہوئے بولا۔
’’مگر بھیا وہ بہت پریشان…!‘‘
’’میں نے کہا نا کہ تم کچھ نہیں بتائو گی اسے میں خود اسے دیکھ لوں گا۔‘‘ باذل نے درمیان میں اس کی بات قطع کر کے حتمی انداز میں کہا تو فاطمہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
…٭٭٭…
پھوپھو کی نند نے بذریعہ ٹیلی فون مہروز کے لیے فاطمہ کا رشتہ مانگا تھا اور بے حد اصرار کیا تھا کہ عید میں وہ منگنی کی رسم طے کرلیں تاکہ وہ دبئی سے آکر مہروز کے نام کی انگوٹھی فاطمہ کی انگلی میں ڈال جائیں۔ فاطمہ تو جیسے ہَوائوں میں اڑ رہی تھی۔ اس نے علیشبہ کو بھی اس دن کی تمام رو داد سنا ڈالی تھی اور سختی سے منہ بند رکھنے کو کہا تھا کیونکہ یہ معاملہ خالصتاً باذل اور یشب کا تھا اور باذل خود ہی اسے سمجھانا چاہتا تھا۔ یشب بھی اس رشتے سے بہت خوش تھی۔ فاطمہ کو اس کا من پسند جیون ساتھی جو مل رہا تھا۔ مگر جب یکدم ذہن مہرین اور باذل کی جانب بھٹکتا ڈھیروں اداسی اس کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی۔
’’میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی باذل… صرف تمہیں اپنے من کا دیوتا بنایا تھا۔ میری اولین چاہت تھے تم بہت خلوص سے محبت کی تھی تم سے مگر تم…!‘‘ ایک سسکی اس کے لبوں سے برآمد ہوئی پھر اپنا غم چھپانے کی غرض سے وہ وہاں سے اٹھ کر چھت پر چلی آئی۔
’’مجھ سے یشب کی حالت دیکھی نہیں جا رہی فاطمہ دیکھو کیسی مرجھا گئی ہے نہ ہنستی ہے نہ بولتی ہے۔ کتنی ویران سی ہوگئی ہے۔‘‘ علیشبہ نے یشب کو وہاں سے تیزی سے اٹھ کر جاتے دیکھا تو اس کی اندرونی کیفیت محسوس کر کے وہ منہ لٹکا کر بولی۔
’’خبردار علیشبہ جو تم نے یشب سے کچھ کہا تو باذل بھائی نے سختی سے منع کیا ہے۔‘‘ فاطمہ نے اسے فی الفور ٹوکا تھا۔
’’مگر باذل بھائی یشب کو منائیں گے کب؟‘‘
’’بہت جلد کیونکہ انہوں نے امی پاپا سے شادی کی تاریخ رکھنے کا عندیہ دے دیا ہے۔‘‘ فاطمہ سرشاری سے بولی تو یہ سن کر علیشبہ بھی جھوم اٹھی۔ دونوں کو باذل کی شادی کا بے حد ارمان تھا۔
…٭٭٭…
دن سرعت سے گزر گئے آج انتیسواں روزہ تھا کہ جب ہی افطاری کے فوراً بعد تایا جان کی فیملی معہ باذل کے پھولوں کا زیور اور مٹھائی کے ٹوکرے کے ہمراہ آ دھمکی انہیں دیکھ کر یشب چونک پڑی۔
’’ارے یشب یہ کیا ملگجے سے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ذرا اچھی طرح سے تیار ہو کر آئو دیکھ نہیں رہیں تمہارے سسرال والے آئے ہیں۔‘‘ فاطمہ چہک کر بولی۔ تو یشب نے تلملا کر فاطمہ کو دیکھا۔
’’ہاں کرو میرے زخموں پر نمک پاشی آخر تم مذاق نہیں اڑائو گی تو اور کون اڑائے گا۔‘‘ یشب گلوگیر لہجے میں بولی۔
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ فاطمہ بے پروائی سے سر ہلا کر بولی۔
’’ویسے یشب پہلے کتنا مزا آتا تھا تم دونوں کیسے نند بھاوج کی طرح لڑتی تھیں مگر اب…!‘‘ علیشبہ نے قصداً جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ہاں‘ ہاں کہہ دو نا کہ اب تمہاری بھاوج میں نہیں مہرین بنے گی۔ اللہ کرے مہرین اتنی لڑاکا نکلے کہ تم دونوں کی زندگیاں عذاب کردے۔‘‘ یشب کلس کر بولی کہ اس دم لائونج میں باذل داخل ہوا۔
’’تمہیں معلوم ہے فاطمہ مہرین کو انڈین فلموں سے سخت الرجی ہے اور وہ ہیرو کا کیا نام ہے اس کا…؟‘‘ وہ اپنے ذہن پر زور دے کر سوچنے لگا تو بے ساخہ یشب کے منہ سے نکلا۔
’’عمران ہاشمی…!‘‘
’’ہاں وہی‘ وہ تو اسے زہر لگتا ہے۔‘‘ باذل بڑی ترنگ میں بولا۔
’’مگر بھیا اپنی یشب نے بھی انڈین فلمیں دیکھنا چھوڑ دی ہیں۔ بلکہ محلے میں مٹر گشت کرنا اور لوگوں کو مفت مشورے دے کر اس پر زبردستی عمل در آمد کروانا بھی ترک کردیا ہے۔‘‘ فاطمہ کھلکھلا کر بولی۔ اس پل فاطمہ یشب کو سخت زہر لگی۔
’’ہاں بھیا جو حرکتیں آپ کو یشب کی نا پسند تھیں وہ سب اس نے چھوڑ دی ہیں۔‘‘ علیشبہ بھی جلدی سے بولی تو یشب بری طرح بھڑک اٹھی۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے میری سفارش کرنے کی مجھے خیرات میں ملی محبت ہر گز نہیں چاہیے۔‘‘ یشب چیخ کر بولی اور پھر تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی بستر پر گرتے ہی اس نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔
’’بالکل بچی ہو تم… چلو تمہاری موجودگی میں بچوں کی کمی نہیں رہے گی مگر دو بچے تو ضرور ہونا چاہیں کیا خیال ہے تمہارا ایک لڑکا اور ایک لڑکی…؟‘‘ اچانک عقب سے باذل کی آواز ابھری تو یشب نے بجلی کی تیزی سے سر تکیے سے اٹھا کر پلٹ کر دیکھا بلیک پینٹ پر بلیک ہی ہاف سلیوز ٹی شرٹ پہنے باذل اس پل کتنا مختلف لگ رہا تھا باذل کی بے باک مگر نا سمجھ آنے والی بات پر وہ قدرے سٹپٹا کر بولی۔
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟ یہ تو آپ اس مہرین سے پوچھیے نا۔‘‘
’’کیوں مہرین سے کیوں پوچھوں بچے ہمارے ہوں گے یا مہرین کے تم واقعی عقل سے پیدل لڑکی ہو۔‘‘ وہ اپنے سابقہ انداز میں بولا تو یشب حقیقی معنوں میں چکرا کر رہ گئی۔
’’ہمارے بچے وہ کیسے؟‘‘ وہ ہونقوں کی طرح بولی تو باذل قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
’’بائولی میڈم جب ہماری شادی ہوگی تو بچے بھی ہمارے ہی ہوں گے نا۔‘‘
’’مگر ہماری شادی کیسے ہو گی؟‘‘ وہ جیسے خود سے بولی۔
’’کیسے ہوگی کیا مطلب…! قاضی صاحب نکاح پڑھوائیں گے اور پھر ہماری شادی ہوجائے گی۔‘‘ باذل بڑے نارمل انداز میں بولا تو یشب کا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر رونا شروع کردے۔
’’آپ میری بے بسی دیکھنے آئے ہیں یا میرا مذاق اڑانے۔‘‘ وہ واقعی زار و قطار رونے لگی جبکہ باذل کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔

’ارے‘ ارے یشب پلیز چپ ہوجائو یقین کرو میرا مہرین سے ایسا کوئی تعلق نہیں جیسا تم سمجھ رہی ہو۔ وہ تو ہماری کمپنی کے ہیڈ آفس کی کمپیوٹر سیکشن کی انچارج ہے۔‘‘ باذل جلدی جلدی بولا تو یشب نے یکدم رونے پر بریک لگایا اور چونک کر اسے دیکھا۔
’’جی ہاں میڈم! مہرین اور میں ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہیں چونکہ ہماری کمپنی کا ہیڈ آفس دبئی میں ہے اور اکثر و بیشتر ہیڈ کوارٹر سے واسطہ پڑتا رہتا ہے لہٰذا میری مہرین سے کولیگ کے طور پر علیک سلیک پہلے سے تھی مگر جب اسے معلوم ہوا کہ میں ظہیر کا کزن ہوں تو جب سے وہ بہت اپنائیت سے مجھ سے ملتی ہے۔‘‘ باذل وضاحت آمیز لہجے میں بولا تو یشب کے اندر ڈھیروں سکون اتر گیا۔ منہ موڑتے ہوئے کہا۔
’’کچھ زیادہ ہی اپنائیت نہیں آپ دونوں کے درمیان۔ اسی لیے اس دن وہ فیس بک کا ایڈریس مانگ رہی تھی اور آپ فون پر کیسے چہک چہک کر اس سے باتیں کر رہے تھے۔‘‘
’’واقعی تمہاری اوپر کی منزل بالکل خالی ہے۔ وہ اپنے تایا زاد سے منسوب ہے یار اور فون پر وہ مجھ سے مہروز کے متعلق ڈسکس کر رہی تھی۔ جو فاطمہ میں دلچسپی لے رہا تھا۔‘‘ باذل کی زبان سے ادا ہوا ایک ایک لفظ اس کے دل میں ٹھنڈک اتارتا چلا گیا۔ وہ یکدم پھول کی مانند ہلکی پھلکی ہوگئی پھر معاً باذل کا خیال آیا تو کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولی۔
’’وہ ایکچوئیلی مجھے غلط فہمی ہوگئی تھی ایم سوری باذل…!‘‘ بولتے بولتے اسے کچھ یاد آیا تو اس نے غصے سے باذل کو دیکھا۔
’’جب آپ کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ ساری خرافات میرے دل و دماغ میں بھر گئی ہیں تو آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟‘‘
’’سوچا کہ کتنے پر سکون دن گزر رہے ہیں نہ تم میرا کمپیوٹر استعمال کر رہی ہو اور نہ ہی شور مچاتی گھر میں دندناتی پھر رہی ہو اور نہ فلمیں دیکھ رہی ہو… پھر تمہاری اس بد گمانی کی تھوڑی بہت سزا بھی تو دینی تھی اور…!‘‘
’’باذل آپ کتنے برے ہیں۔ وہ انتہائی چڑ کر اس کی بات درمیان میں قطع کر کے بولتی باہر جانے کی غرض سے وہاں سے اٹھی مگر باذل نے ہنستے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’اچھا بابا میں معافی مانگتا ہوں… تمہیں منانا تو تھا بس کسی خاص دن کا انتظار کر رہا تھا۔
’’خاص دن…!‘‘
’’ہاں آج ہماری شادی کی تاریخ جو ٹھہر رہی ہے اور کل عید تو ہے میں نے امی ابو سے کہہ دیا ہے کہ پندرہ دن کے اندر اندر کی تاریخ ہی رکھ لیں۔‘‘
باذل کی بات پر یشب کے صحیح معنوں میں ہوش اڑ گئے۔
’’صرف پندرہ دن…! مگر بازل آپ میرا چہرہ دیکھ رہے ہیں کتنا پیلا اور مرجھایا ہوا ہے آخر آپ نے مجھے اتنی ٹینشن بھی تو دی ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ گھبراتے ہوئے بولی۔
’’کچھ نہیں ہوا تمہارے چہرے کو پہلے کون سا تم چندے آفتاب چندے مہتاب تھیں ایسا ہی پھٹکار برستا چوکٹا تھا تمہارا ہاں البتہ روزے کی برکت سے کچھ بہتر ضرور نظر آرہا ہے۔‘‘ اندر داخل ہوتے ہوئے فاطمہ نے چہک کر گوشمالی کی۔
’’یشب بھابی اور بھیا آپ کو چاند مبارک ہو اور اگلے جمعے آپ کی شادی بھی مبارک ہو۔‘‘ علیشبہ خوشی سے گویا ہوئی تو یشب کے حقیقی معنوں میں ہاتھ پیر پھول گئے۔
’’ہائے اللہ اتنی جلدی۔‘‘
’’ہاں ہاں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی شادی کے وظیفے جب پڑھتی تھیں۔ بھیا کو قابو میں کرنے کے لیے آنٹیوں سے مشورے لیتی تھیں۔ آخر وہ تو کام آنے ہی تھے نا۔‘‘ فاطمہ لڑاکا انداز میں بولی تو علیشبہ اور باذل بے ساختہ ہنس دیے جبکہ یشب خفیف ہو گئی پھر کچھ یاد آنے پر تیوری چڑھا کر گویا ہوئی۔
’’تم دونوں کو معلوم تھا نا کہ میں غلط فہمی کا شکار ہوگئی ہوں۔ مجھے ساری بات کیوں نہیں بتائی۔‘‘
’’وہ سوری یشب‘ بھیا نے منع کیا تھا۔‘‘ علیشبہ ڈرتے ڈرتے بولی۔ تو یشب نے باذل کو گھور کر دیکھا۔
’’میں ذرا باہر جا رہا ہوں اگر تم لوگوں کو بازار جانا ہے تو فٹافٹ باہر آجائو۔‘‘ یہ کہہ کر باذل یہ جا وہ جا جبکہ فاطمہ اور علیشبہ نے بھی بھاگنے کی ٹھانی۔
’’فاطمہ کی بچی دیکھنا میں کل کیسے تمہاری منگنی رکواتی ہوں۔‘‘ یشب پیچھے سے انہیں آواز دے کر بولی پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور جلدی سے تیار ہونے کی غرض سے وارڈ روب کی جانب دوڑی۔ یہ عید اس کے لیے حقیقی خوشیوں اور محبت کا کارروان لے کر آئی تھی اور اسے اس کا پرتپاک استقبال کرنا تھا۔
:tmi: :tmi: :tmi:
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: کاروان محبت از نادیہ فاطمہ رضوی!!

Post by اضواء »

شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اردو ناول”