کوئٹہ علامت و تجرید کے آئینے میں

اپنے ملک کے بارے میں آپ یہاں کچھ بھی شئیر کر سکتے ہیں
Post Reply
نذر حافی
کارکن
کارکن
Posts: 18
Joined: Mon Aug 06, 2012 4:02 pm
جنس:: مرد

کوئٹہ علامت و تجرید کے آئینے میں

Post by نذر حافی »

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com

کوئٹہ میرا گھر ہے لیکن ایسا گھر جس کے کونے کونے میں چوہوں نے اپنے بل بنا رکھے ہیں۔ گذشتہ دنوں جب انسانی لاشوں کا بنا ہوا بھرتہ سڑکوں پر رکھ دیا گیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں کوئٹہ سے بھاگ رہا ہوں اور ایک بلند پہاڑ کے اوپر چڑھ رہا ہوں۔ مجھے ایسے لگا جیسے میری ماں مجھے دور سے چمکار رہی ہو، پہاڑ سے نیچے اتر آو بیٹا، یہ تمہارا اپنا گھر ہے، جیسے میرے دوست، عزیز و اقارب سب مجھے سمجھا رہے ہوں کہ مٹی کے گھروندے سے پھسل جاو گئے، نیچے اپنے گھر کے آنگن میں اتر آو۔ میں نے محسوس کیا کہ خوف و ہراس کے مارے میں ایک بلند و بالا پہاڑ پر بیٹھ کر کوئٹے کو دیکھ رہا ہوں اور باقی سب لوگ مجھ سے مخاطب ہیں کہ یہ دیکھو، کتنا پیارا گھر ہے، باریک اور نفیس سونے کے تاروں سے بنا ہوا، دبیز ریشمی پردے، تازہ ہوا کے سارے امکانات، برقی قمقموں کی جگمگاہٹ۔۔۔ اور میں لوگوں کی باتوں میں آکر جیسے ہی جھک کر دامن کوہ کی طرف دیکھتا ہوں تو میرا سر چکرا جاتا ہے، وہاں تو کھیت لہلہا رہے ہیں، دریا بہہ رہا ہے، پرندوں کے غول، مقبروں کے گنبد، مسجدوں کے مینار، شہرِ خموشاں کے کتبے، کیسا سماں بندھا ہوا ہے اور پھر میں اس سماں میں مست ہوتا گیا، کھوتا گیا۔

اتنے میں میری ماں نے آگے بڑھ کر میری عینک اتار دی ۔۔۔ ہوں۔۔۔ میں چونک کر رہ گیا۔۔۔ تو کیا یہ سب میری نظر کا دھوکہ تھا، میری عینک پر اسٹیکر لگے ہوئے تھے، میں نے حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھا، وہاں تو نہ کوئی گھر تھا نہ دریا، نہ پتھر، نہ مسجد، نہ مندر۔ میں نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی ماں کے ہاتھوں سے عینک چھین کر دوبارہ پہن لی، پھر وہی مناظر تھے اور وہی احساسات، میں دل ہی دل میں انتظار کرنے لگا کہ ماں مجھ سے دوبارہ عینک کب چھینتی ہے، لیکن اب کی بار ماں عینک چھیننا بھول گئی ہو جیسے۔ میں نے بالاخر تھک کر خود ہی عینک اتار دی، ماں یہ لو عینک، لیکن وہاں تو کوئی ماں نہیں تھی، میرے ذہن میں ہزار طرح کے وسواس ابھرنے لگے۔

اگر ماں یہاں نہیں ہے تو پھر مجھے کس نے جنم دیا؟ اگر مجھے کسی نے جنم نہیں دیا تو پھر میرے ہاتھ کیوں ہیں؟ اگر میرے ہاتھ نہیں ہیں تو پھر میرے ہاتھوں میں یہ عینک کیوں ہے؟ یہ کہہ کر میں نے اپنے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اپنے دامن کے پلو سے اپنی عینک کے شیشوں کو صاف کرنے کی کوشش کی تو وہاں تو کوئی شیشہ بھی نہیں تھا۔۔۔ ہیں ۔۔۔ میں ٹھٹھک کر بُڑبُڑایا، عینک میں شیشے نہیں۔۔۔تو کیا۔۔۔؟ عینک بھی نہیں۔۔۔ میرے ہاتھوں میں اگر عینک نہیں تو کیا میرے ہاتھ بھی نہیں؟ اگر میرے ہاتھ بھی نہیں تو کیا میں بھی نہیں؟ اگر میں بھی نہیں تو کیا میری ماں بھی نہیں؟ اگر میری ماں بھی نہیں تو کیا اس نے میری عینک بھی نہیں اتاری تھی؟ اگر اس نے میری عینک بھی نہیں اتاری تھی تو کیا میں نے وہ سارے مناظر۔۔۔

میرے دماغ میں سوالات کا پہیّہ الٹا چلنے لگا۔۔۔ اگر اگر۔۔۔ ہوں ہوں۔۔۔مگر مگر۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ تو تو۔۔۔ پھر پھر۔۔۔ لیکن لیکن۔۔۔ لیکن میں تو ہوں چونکہ میں سوچ رہا ہوں، چاہے غلط ہی سوچوں، دیکھ رہا ہوں، چاہے غلط ہی دیکھوں۔ لیکن اگر میں ہوں تو میری عینک کے شیشے کیوں نہیں؟ میری عینک کیوں نہیں؟ میرے ہاتھ کیوں نہیں؟ میرا جسم کیوں نہیں؟ میری ماں کیوں نہیں؟ میرا گھر کیوں نہیں؟ لیکن عینک کے شیشے تو میرے قدموں میں ٹوٹے ہوئے پڑے ہیں، ارے ان پر تو کوئی اسٹیکر نہیں، اگر ان پر کوئی اسٹیکر نہیں تو پھر وہ پیارا گھر، دبیز ریشمی پردے، تازہ ہوا، برقی قمقمیں، لہلہاتےکھیت، پرندوں کے غول، مقبروں کے گنبد، مسجدوں کے مینار، شہرِ خموشاں کے کتبے۔۔۔ وہ سب کچھ کیا تھا؟؟؟

میں نے گھبراہٹ کے عالم میں گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا تو ایک مرتبہ پھر میرے پہلو میں وہی پیارا گھر، دبیز ریشمی پردے، تازہ ہوا، برقی قمقمیں، لہلہاتے کھیت، پرندوں کے غول، مقبروں کے گنبد، مسجدوں کے مینار، شہرِ خموشاں کے کتبے۔۔۔ وہ سب کچھ موجود تھا۔۔۔ لیکن اب کی بار تو میری آنکھوں پر کوئی عینک بھی نہیں تھی، میں نے پہاڑ کی چوٹی سے اپنے خوبصورت مکان کی چھت پر قدم رکھنے کی کوشش کی تو میرا گھر میرا بوجھ برداشت نہ کرسکا، میرے دیکھتے ہی دیکھتے، میرا خوبصورت گھر مینڈک کی طرح چپک کر زمین کے ساتھ لگ گیا اور میں خوف کے مارے بھاگ کر دوبارہ پہاڑ کے اوپر چڑھ گیا۔

جو میرا بوجھ نہ اٹھا سکے اور میرے بوجھ سے چپک جائے۔۔۔ وہ میرا گھر نہیں ہوسکتا۔۔۔ پس یہ۔۔۔ یہ میرا گھر نہیں ہے یہ شاید مکڑی کا گھر ہے۔ مکڑی کا گھر۔۔۔لیکن میرا گھر کہاں ہے؟ پہاڑ تو گھر نہیں ہوتا۔۔۔یہ کیسی بےیقینی کی کیفیت ہے، نہ مرا گھر ہے، نہ ماں ہے، نہ عینک ہے نہ شیشہ۔۔۔شاید میرے گھر کو دیمک لگی ہوئی ہے، اس لئے اتنا کھوکھلا ہے۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ مجھے بھاگ جانا چاہیے، پھر میرے اندر سے آواز آئی، کون بھاگے؟ میں بھاگوں، لیکن میرا تو وجود ہی نہیں، اچھا اگر میرا وجود نہیں تو پھر سوچ کون رہا ہے؟ کوئی تو سوچ رہا ہے، چلو جو سوچ رہا ہے وہی بھاگ جائے، بھاگ کر کہاں جائے؟ سات سمندر پار، وہاں کیا ہوگا؟

شاید وہاں کچھ بھی نہ ہو، جہاں کچھ بھی نہ ہو، کیا وہاں جایا جاسکتا ہے؟ ہوں ہوں، لیکن لیکن۔۔۔میرے سر میں ہزاروں سوالات گردش کر رہے تھے، میں نے ایک کتری ہوئی کتاب کے صفحات میں چھپ جانے کی کوشش کی لیکن اس میں تو پہلے سے ہی ایک بڑا سا "چوہا" چھپا ہوا تھا۔ جسے لوگ پیار سے "تعصب" کہتے تھے۔ چوہے کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ اس نے میرے گھر میں خفیہ سرنگیں بنا رکھی ہیں، میرا گھر اس کی وجہ سے کھوکھلا ہے۔ میں واپس بھاگنے لگا تو "چوہے" نے مجھے مسکرا کر اپنے پاس بلایا۔۔۔ کہاں جا رہے ہو؟ اور تم جاو گئے بھی کہاں؟ تمہارا تو نہ گھر ہے، نہ شناخت۔۔۔ آو اور یہیں میرے حاشیئے میں بیٹھ جاو۔

میں نے کہا نہیں نہیں، میں کبھی بھی چوہے کا حاشیہ نشین نہیں بنوں گا، میں اس چوہے سے بھاگ کر سات سمندروں پار چلا جاوں گا۔ یہ سن کر بوڑھے چوہے نے قہقہہ لگایا اور کھلکھلاتے ہوئے بولا۔۔۔میاں صاحبزادے تم آج تک چوہے کو سمجھے ہی نہیں۔۔۔یہ چوہا خود سات سمندر پار کرکے تم تک پہنچا ہے۔ ان وسیع و عریض نیلے پانیوں کی تہہوں میں بھی میری سرنگیں موجود ہیں۔ جبکہ تم سمجھتے ہو کہ چوہا صرف کتابوں کو کترتا ہے، اناج کو خراب کرتا ہے۔۔۔ ۔۔۔یہ کہتے کہتے بوڑھے چوہے کی سانس پھول گئی اور وہ کچھ دیر سکوت کے بعد دوبارہ بولا، میرا کوئی ایک رنگ نہیں کہ تم مجھے پہچان سکو، میں گرگٹ کی طرح رنگ اور گھڑی کی سوئیوں کی طرح مذہب بدلتا ہوں اور کبھی کبھی تو بالکل بے مذہب ہو جاتا ہوں۔ میں نے یہ سنا تو کتاب کے کترے ہوئے کونے سے پانی کے قطرے کی مانند کھسک کر باہر نکل آیا لیکن باہر تو سات سمندر مجھے نگلنے کے لئے ٹھاٹھیں مار رہے تھے اور اندر برہنہ چوہا میری سادہ دلی پر قہقہے لگا رہا تھا۔

میں نے وہیں ٹھہرے ٹھہرے کچھ دیر سوچا کہ مجھے گھر کو چھوڑ کر کس طرف بھاگنا چاہیے۔۔۔ پھر مجھے خیال آیا کہ گھر کو چھوڑ کر بھاگ جانے سے بڑی بزدلی کوئی نہیں۔ پھر میں نے بھاگنے کے بجائے اپنے گھر میں چھپے ہوئے چوہوں سے جنگ کرنے کا سوچنا شروع کر دیا، میں یہیں جیوں گا، کوئی چوہا، اب مجھے ڈرا نہیں سکتا، میں یہیں زندگی گزاروں گا۔ جیسے جیسے چوہوں کے خلاف میرا مقابلہ کرنے کا عزم پختہ ہوتا گیا، زمین پر میرے پاوں جمتے گئے، میرا وجود کوہِ جودی کی مانند بلند ہوتا گیا، سمندروں کی چنگھاڑتی ہوئی لہریں، خشک ہونے لگیں اور بوڑھے چوہے کے جسم کا انگ انگ خزاں کے مارے خشک پتوں کی مانند میری آنکھوں کے سامنے بکھرتا چلا گیا۔ میں دشتِ خیال میں چیخا اور چلّایا، اے میرے ہم جنسو!، اے اپنے اپ کو مظلوم انسان کہنے والو!۔۔۔ہم اس وقت تک کمزور مظلوم اور بے گھر ہیں، جب تک ہم چوہوں سے ڈرتے ہیں۔ اگر ہم چوہوں سے ڈرنا چھوڑ دیں تو ہمارے گھر کے در و دیوار پر جمی ہوئی خوف کی تہہ آج بھی اتر سکتی ہے۔
نذر حافی
کارکن
کارکن
Posts: 18
Joined: Mon Aug 06, 2012 4:02 pm
جنس:: مرد

Re: کوئٹہ علامت و تجرید کے آئینے میں

Post by نذر حافی »

۔ہم اس وقت تک کمزور مظلوم اور بے گھر ہیں، جب تک ہم چوہوں سے ڈرتے ہیں۔
یہ تتلی فاحشہ ہے، پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافر ہے
Post Reply

Return to “پاک وطن”