امریکہ میں آنے والے طوفان پر خوشی و مسرت کے اظہار کا شرعی حک

اگر آپ کسی سے گپ شپ لڑانا چاہتے ہیں تو یہاں آیئے۔ اپنے دوستوں سے ملاقات کیجئے اور ڈھیروں باتیں کیجئے
Post Reply
عتیق
مشاق
مشاق
Posts: 3184
Joined: Sun Jul 18, 2010 6:52 pm
جنس:: مرد
Contact:

امریکہ میں آنے والے طوفان پر خوشی و مسرت کے اظہار کا شرعی حک

Post by عتیق »

[center]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امریکہ میں آنے والے طوفان پر خوشی و مسرت کے اظہار کا شرعی حکم



مرتب کردہ: انصار اللہ اردو

امریکہ پر یوں تو چھوٹے بڑے طوفانوں کی آمد کا سلسلہ وقفے وقفے جاری رہتا ہے۔ جیساکہ 2005ء میں کترینہ طوفان نے بھی کافی تباہی مچائی تھی لیکن حال ہی میں آنے والے ’’سپر سینڈی‘‘ طوفان نے ایسے علاقوں کا نشانہ بنایا جوکہ امریکی سیاست و معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔

لہذا اس کی وجہ سے مال و املاک کے نقصان کے ساتھ ساتھ اس نے امریکی معیشت کو بھی ہلاکر رکھ دیا۔ سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے، ہزاروں گھر زمین بوس ہوگئے، زیر زمین ریلوے نظام بری طرح متاثر ہوا، ہزاروں فلائٹس منسوخ کرنی پڑیں، پوری دنیا کی معیشت کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک نیویارک اسٹاک ایکسچینج کئی دن بند رہا۔ یوں ایک محتاط سرکاری اعدادو شمار کے مطابق امریکی معیشت کو پچاس ارب ڈالر کے نقصان کا جھٹکا برداشت کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ اس طوفان پر امریکیوں کے چہروں پر خوف وکرب کے جو آثار نظر آئے وہ بھی قابل دید تھے۔ یہ تو تھا امریکہ پر آنے والے طوفان کا کچھ احوال۔

لیکن مسلم امہ میں اس طوفان پر جو ردعمل سامنے آیا وہ اس لحاظ مختلف اور عجیب تھا کہ اس معاملے میں عوام الناس سے لے کر اہل علم کے طور جانے والے حضرات تک یکسر دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ نے اس طوفان پر گہرے غم اور دکھ کا اظہارکرتے ہوئے امریکہ اور اس کی عوام سے ہمدردی اور یکجہتی ظاہر کی اور ساتھ ساتھ اس طوفان کی تباہ کاریوں سے نجات پانے کے لئے دعا گو بھی ہوئے۔ بعض لوگ تو امریکہ اور اس کی عوام کی غمخواری میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے امریکی حکومت کو اپنی جانب سے امدادی کاموں میں تعاون کرنے کی پیشکش تک کرڈالی۔ ان میں سرفہرست پاکستان میں کام کرنے والے امدادی ادارے کے سرپرست حافظ سعید قابل ذکر ہیں۔

دوسرے گروہ نے اس طوفان پر انتہائی مسرت اور خوشی کا اظہار کیا اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امریکہ کے مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کا بدلہ اور خصوصاً قرآن کریم کی بے حرمتی اور حال ہی میں گستاخی رسول پر بنائے جانے والی فلم کا خمیازہ قرار دیا۔ بعض اہل علم نے آئندہ کے لئے بھی خبردار کیا کہ اگر امریکہ کی جانب سے یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے بدتر طوفانوں اور قدرتی آفات کا سامنا امریکہ کو کرنا پڑسکتا ہے۔

مسلمانوں کی جانب سے اس قسم کے اظہارِ مسرت پر عرب و عجم کے بعض اہل علم بشمول مفتی اعظم سعودی عرب مفتی آل الشیخ ، جن کو ’’سرکاری علماء‘‘ کا درجہ حاصل ہے، مسلمانوں کے اس فعل کو ناجائز اور حرام قرار دیا بلکہ اس بات پر زور دیا گیا مسلمان امریکی عوام کے ساتھ ہمدردری و غم خواری کا اظہار کریں اور جتنا ہوسکے ان کی ہرممکن امداد کریں۔

یہاں یہ بات ضمناً ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ امریکہ میں آنے والے طوفان پر غم و دکھ اور ہمدردی کا اظہار کرنے والے ان سرکاری علماء کا طرز عمل کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ نہایت ہی بھیانک اور دورُخے پن پر مشتمل ہے۔ ایک طرف امریکہ کی جانب سے جب بھی مسلمانوں کے کسی بھی علاقے کو تخت و تاراج کیا جاتا ہے، وہاں کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے، مسلمان ماؤں بہنوں کی عزت کو تاراج کیا جاتا ہے اور ان کے مال املاک کو بری طرح برباد کیا جاتا ہے (جس طرح کہ افغانستان و عراق میں ہوا) تو اس صورت میں ان سرکاری علماء کو نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ کافریضہ یاد آتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی داد رسی کی کوئی صورت نظر آتی ہے بلکہ یہ سب خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے کانوں میں کوئی جونگ تک نہیں رینگتی۔ (ہاں اگر اس ظلم کے ردعمل میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں کوئی امریکی یا یورپی نشانہ بن جائے تو یہ فوراً جاگ اٹھتے ہیں اور ان کی طرف سے اس فعل کی مذمت میں فتاوی اور بیانات آنے شروع ہوجاتے ہیں)۔ مگر جب امریکیوں پر کوئی قدرتی آفت ٹوٹ پڑے تو نہ صرف شاہ سے بڑھ کرشاہ کے وفادار کے مصداق امریکیوں کے غم میں یہ گھلنے شروع ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے لئے ہمدردری و غمخواری کا اظہار کرتے نہیں تھکتے اور مسلمانوں کو بھی اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ وہ ہر ممکن امریکیوں کے ساتھ تعاون کریں۔

بہرحال! یہ ہیں دو طرز عمل جوکہ اس طوفان پر مسلم امہ میں سامنے آئے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف سے دیئے گئے حکم شرعی کو جانا جائے اور اس بارے میں اسلاف کے طریقے کو سامنے رکھا جائے کہ ہر ایسے موقع پر ان کا رد عمل کیا ہوتا تھا؟

قرآن و سنت اور اسلاف کا طریقہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ کافروں پر نازل ہونے والی آفات جوکہ رب العزت کی جانب سے عذاب کی ایک صورت ہوتی ہیں، اس پر کسی بھی قسم کا افسوس یا دکھ کا اظہار کرنا یا اس موقع پر ان کافروں سے اظہار ہمدردی کرنا اور ان کا دکھ درد باٹنے کی کوشش کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ چنانچہ اس موقف کے ثبوت میں قرآن کریم کی آیات اور کثیر احادیث مبارکہ اور اس کے ساتھ ساتھ سلف صالحین کا طرز عمل بھی موجود ہے۔ جس میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

آیاتِ قرآنی سے ثبوت:

قرآن کریم کے ادنیٰ سے طالب علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ جن قوموں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ شریعت اور اس کی طرف سے مبعوث کئے گئے نبیوں اور رسولوں کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولوں کا استہزا و تمسخر اڑایا گیا اور حالانکہ یہ فعل سرانجام دینے والے ان قوموں کے سردار ہوا کرتے تھے اس کے باوجود بالآخر یہ ظالم قومیں تباہ ہوگئیں، ہلاکت وبربادی ان کا مقدر ٹھہری اور وہ جڑ سے اکھاڑ دی گئی کیونکہ یہ قومیں اپنے سرداروں کے اس فعل قبیح پر راضی ہوا کرتی تھی۔

چنانچہ قرآن کریم میں ایسی کسی بھی قوم کی بربادی پر کبھی کسی افسوس یا ہمدردی کا اظہار نہیں ہوا بلکہ ہر ایسے موقع پراللہ تعالی کی حمد و ثناء بجالائی گئی اور اس کا شکر ادا کرنے کی تلقین سامنے آئی:

(فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ) (الانعام:۵۴)

”پس ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور کل شکر اور تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے“۔

قرآن کریم میں قوم شعیب علیہ السلام کو عذاب میں مبتلا کئے جانے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام کا طرز عمل یوں نقل ہوا:

(فَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ آسَی عَلَی قَوْمٍ کَافِرِین) (الأعراف:۹۳)

”اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچادیئے تھے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج وغم کا اظہار کیوں کرو“۔

معلوم ہواکہ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم پر نازل ہونے والی سزا پر غم کا اظہار نہیں کیا اور خود ہی اس کی وجہ بتائی کہ کافروں پر پہنچنے والے عذابات پر افسوس نہیں کیا جاتا۔

جب بنی اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں اور احکامات خداوندی سے اعراض پر حضرت موسیٰ علیہ السلام مایوس ہوگئے تو اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو بطور سزا چالیس سال تک صحراء میں بھٹکاتے رہنے کا فیصلہ کر تے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان پر غمگین نہ ہونے کا حکم دیا۔ فرمایا:

(قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ) (المائدۃ:۶۲)

”ارشاد ہوا کہ اب (یہ مقدس) زمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ خانہ بدوشوں کی طرح (صحراء میں) ادھر ادھر سر گرداں رہیں گے۔ پس تم ان نافرمانوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا“۔

خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا:

(فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ) (المائدۃ:۸۶)

”پس آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں“۔

یہاں تک کہ قرآن کریم میں کفار پر بھیجے جانے والے عذاب پر اہل ایمان کی جانب سے فرحت اور خوشی کے اظہار کو دراصل کافروں کے اس استہزا و تمسخر کے جواب قرار دیا جوکہ وہ اہل ایمان کے ساتھ کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے کشتی بنانے پر ان کی قوم کے سرداروں نے اس پر اُن کی ہنسی اڑائی تو نوح علیہ السلام نے جواباً فرمایا کہ ہم بھی ایک دن تمہاری ہنسی اڑائیں گے:

(وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْہِ مَلَا ٌمِّنْ قَوْمِہٰ سَخِرُوْا مِنْہُ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُوْنَ() فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ مَنْ یّاْتِیْہِ عَذَابٌ یُّخْزِیْہِ وَیَحِلُّ عَلَیْہِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ()حَتّٰی اِذَاجَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ) (هود:۸۳۔۹۳)

”وہ (نوح علیہ السلام) کشتی بنانے لگے تو ان کی قوم کے جو سردار تھے ان کے پاس سے گزرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے تو وہ (نوح علیہ السلام جواباً) کہتے کہ کہ اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے کہ تم ہم پر ہنستے ہو۔ پس تمہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے اور اس پر ہمیشگی کی سزا اترے۔ یہاں تک کہ ہمارا حکم آن پہنچا اور تنور (پانی سے) ابلنے لگا“۔

پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ کفار پر جن بد اعمالیوں پر عذاب آتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس میں پوری قوم ملوث ہو بلکہ ہمیشہ سے ہوتا یہ رہا کہ قوم کی اکثریت اپنے سرداروں کے افعالِ بد پر راضی برضا رہتی لیکن سنت خداوندی یہ رہی کہ جب عذاب آتا تو پوری کی پوری قوم برباد کردی جاتی۔ چنانچہ آج یہ دلیل دینا مردود ہے کہ امریکہ جو ظلم و ستم کرتا ہے اس میں پوری امریکی قوم ملوث نہیں ہوتی بلکہ اس کے صدر اور فوج یہ ظلم کرتی ہے لہذا امریکی عوام پر آنے والی مصیبت پر اظہار مسرت کرنا جائز نہیں۔ کیا حالیہ طوفان کے باوجود امریکی عوام کی جانب سے اوباما کو دوبارہ منتخب کرنا اس کے افعالِ بد کی حمایت کے مترادف نہیں؟

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کفار کی جانب سے استہزا و تمسخر کے جواب میں اہل ایمان کو کفار پر ہنسنے کا موقع جن صورتوں میں میسر آتا ہے ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفار پر عذاب کا نازل ہونا ہے جوکہ اہل ایمان کے دلوں کو راحت نصیب کرتا ہے۔ اور اہل ایمان کی جانب سے اس استہزا وتمسخر کا جواب نہ صرف دنیا میں دیا جاتا ہے بلکہ اس کی ایک قسط کافروں کو آخرت میں بھی دی جائے گی۔ چنانچہ قرآن کریم میں پہلے کفار کی جانب سے اہل ایمان کا مذا ق اڑانے کا ذکر یوں کیا گیا:

(اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْن () وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ یَتَغَامَزُوْنَ () وَاِذَا انْقَلَبُوْآ اِلٰٓی اَہْلِہِمُ انقَلَبُوْا فَکِہِیْنَ ()) (المطففین:۹۲تا۱۳)

”بے شک یہ مجرم لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے اور یہ جب ان (اہل ایمان) کے پاس سے گذرتے ہوئے آپس میں آنکھ کے اشارے کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کی طرف (آپس میں) دل لگیاں کرتے ہوئے لوٹتے“۔

تو اس کے جواب میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

(فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَ () عَلَی الْاَرَآئِک یَنْظُرُوْنَ () ہَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ) (المطففین:۴۳تا۶۳)

”پس آج (روز حشر) ایمان والے کافروں پر ہنسیں گے، مسندوں پر بیٹھے (ان کفار کا انجام) دیکھ رہے ہوں گے۔ مل گیا کافروں کو ان حرکتوں کا وبال جو وہ کیا کرتے تھے“۔

حقیقت یہ ہے کہ کافروں پر عذاب آنے کی صورت میں نہ آسمان پر کوئی افسو س کرتا ہے اور نہ زمین پر کوئی غمگین ہوتا ہے۔ جب فرعون اور آل فرعون کو اللہ رب العزت نے دریا میں غرق کرنے کے بعد فرمایا:

(فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ) (الدخان:۹۲)

”پھر نہ آسمان ان پر رویا اور نہ ہی زمین اور ذرا سی بھی ان کو مہلت نہ دی گئی“۔

یہ تو تھی چند مثالیں قرآن کریم کی، ورنہ قرآن کریم کا ہر صفحہ ان مضامین سے بھرا ہوا ہے جوکہ قرآن کریم کے کسی بھی طالب علم سے مخفی نہیں۔

احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت:

کفار پر عذاب ٹوٹنے پر، چاہے وہ اہل ایمان کے ہاتھوں سے ہو یا پھر اللہ رب العزت کی جانب سے، فرحت و خوشی کا اظہار کرنے کے واقعات تواتر احادیث سے ثابت ہیں جس سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمنان اسلام کے مرنے کی خبر پہنچتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خوشی کا اظہار کرتے۔ جیساکہ کعب بن اشرف جوکہ لوگوں کو مسلمانوں کیخلاف بھڑکانے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزا بھی کرتا۔ لہذا جب اس کو قتل کیا گیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انتہائی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ چنانچہ فتح الباری میں ہے:

فِي رِوَايَةِ عُرْوَةَ فَأَخْبَرُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى وَفِي رِوَايَةِ بن سَعْدٍ فَلَمَّا بَلَغُوا بَقِيعَ الْغَرْقَدِ كَبَّرُوا وَقَدْ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ يُصَلِّي فَلَمَّا سَمِعَ تَكْبِيرَهُمْ كَبَّرَ وَعَرَفَ أَنْ قَدْ قَتَلُوهُ ثُمَّ انْتَهَوْا إِلَيْهِ فَقَالَ أَفْلَحَتِ الْوُجُوهُ فَقَالُوا وَوَجْهُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَمُوا رَأْسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى قَتْلِهِ

”آپ ﷺ کو آکر انہوں نے خبردی تو آپ ﷺ نے اللہ تعالی کا شکریہ ادا کیا۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ جب وہ بقیع غرقد (قبرستان) کے قریب پہنچے تو انہوں نے تکبیرات (اللہ اکبر) بلند کرنا شروع کردی۔ اس رات رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ پس جب آپ ﷺ نے ان کی تکبیرات کو سنا تو آپ ﷺ نے بھی تکبیر بلند کی اور آپ ﷺ کو پتہ چل گیا کہ وہ (کعب بن اشرف) قتل ہوچکا ہے۔ پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ چہرے کامیاب ہوگئے۔ تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ کا چہرہ؟ پھر انہوں نے اس کا سر آپ ﷺ کے سامنے ڈال دیا۔ پس آپ ﷺ نے اس کے قتل پر اللہ کا شکریہ ادا کیا۔“ (فتح الباری،ج۱۱ص۷۶۳رقم:۱۳۷۳)

اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ:

((عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ: «مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا المُسْتَرِيحُ وَالمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ: «العَبْدُ المُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالعَبْدُ الفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ العِبَادُ وَالبِلاَدُ، وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ»))

”ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتے تھے کہ ایک جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا، یہ مستریح ہے یا مستراح منہ ہے، لوگوں نے سوال کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستریح اور مستراح منہ کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: (مستریح یہ ہے کہ) مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور مصیبتوں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں آرام پانا چاہتا ہے اور (مستراح منہ یہ ہے کہ) بدکار بندے سے اللہ تعالیٰ کے بندے اور شہر، اور درخت اور چوپائے (غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق) آرام پانا چاہتے ہیں“۔ (صحیح البخاری،ج۰۲ ص۱۷۱ رقم الحدیث:۱۳۰۶)

آج امریکہ سے تو پوری دنیا اور خصوصاً ساری دنیا کے مسلمانوں تنگ ہیں۔ لہذا اس کی تباہی وبربادی سے دنیا کو راحت ملے گی اور اسے کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچے گی تو انسانوں پر اس کی جانب سے ہونے والے مظالم اور جنگی سازشیں کم ہونگی، جو یقینی طور پر انسانوں سمیت روئے زمین کے لیے راحت وسکون کا باعث ہوگی۔

اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث قدسی بھی ہے:

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ مِنْ لَيْلَةٍ إِلَّا وَالْبَحْرُ يُشْرِفُ فِيهَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ عَلَى الْأَرْضِ، يَسْتَأْذِنُ اللهَ فِي أَنْ يَنْفَضِخَ عَلَيْهِمْ، فَيَكُفُّهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ "

”حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی رات ایسی نہیں گذرتی جس میں سمندر تین مرتبہ زمین پر جھانک کر نہ دیکھتا ہو، وہ ہر مرتبہ اللہ سے یہی اجازت مانگتا ہے کہ زمین والوں کو (ان کی نافرمانیوں کے سبب) ڈبو دے، لیکن اللہ اسے ایسا کرنے سے روک دیتا ہے“۔ (مسند احمد،ج۱ص۰۹۲رقم الحدیث:۶۸۲)

ایک اور روایت میں ہے:

((مَا مِنْ يَوْمٍ إِلَّا وَالْبَحْرُ يَسْتَأْذِنُ رَبَّهُ أَنْ يُغْرِقَ ابْنَ آدَمَ، وَالْمَلَائِكَةُ تَسْتَأْذِنُهُ أَنْ تُعَاجِلَهُ وَتُهْلِكَهُ، وَالرَّبُّ تَعَالَى يَقُولُ: دَعُوا عَبْدِي))

”کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب سمندر اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے کہ وہ ابن آدم کو (نافرمانی کی وجہ سے) غرق کرڈالے اور فرشتے بھی جلد اسے پکڑنے اور ہلاک کرنے کی اجازت مانگتے ہیں؛ مگر رب تعالی کہتا ہے کہ میرے بندے کو (مہلت دینے کی خاطر) چھوڑ دو“۔ (مدارج السالكين لابن القيم ج1ص 432-433)

ان دونوں احادیث کی اسناد کی وجہ سے ان کی صحت پر بعض نے کلام کیا ہے مگر یہ اور ان جیسی دیگراحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انتہا درجے کے بغض میں سے یہ ہے کہ سمندر اور فرشتوں کا کفر کرنے والوں کے زمین پر رہنے سے سخت نفرت کرنا اور انہیں تباہ وبرباد کرنے کے لیے کوشاں رہنا۔

کافروں کی تباہی و بربادی کی دعائیں کرنا شیوہ پیغمبری ہے:

اہل ایمان کے مدمقابل کا فروں پر تباہی وبربادی اور ان پر مصیبتوں کو نزول کے لیے دعائیں کرنا شیوہ پیغمبری ہے۔ جس کی چند مثالیں یہ ہیں: حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے مدمقابل کافر قوم کے نیست ونابود ہونے کی یوں دعا کی:

وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا (نوح : 26)

”اے میرے پروردگار! ان کافروں میں سے کوئی زمین پر رہنے والا نہ چھوڑ“۔

تو جواب میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (المؤمنون : 28)

”پھر جب تم اپنے ساتھیوں سمیت کشتی میں سوار ہوجائے تو کہنا کہ، شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمیں ظالموں کی قوم سے نجات دی“۔

پس ثابت ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کا کافروں کی ہلاکت پر اللہ کا شکر بجالانا دراصل اس پر خوشی کا اظہار کرنا تھا۔

اسی طرح حضرت موسی اور ہارون علیھما السلام کا فرعون اس کی قوم کے لئے بد دعا کرنا بھی قرآن کریم سے ثابت ہے:

وَقَالَ مُوسَى رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (يونس : 88)

”اور موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے ہمارے رب! تو نے فرعون اور اور اس کے سرداروں کو سامانِ زینت اور طرح طرح کے مالِ دنیاوی زندگی میں دیئے ہیں۔ اے ہمارے رب! (کیا یہ سب اس لئے دیئے ہیں کہ) وہ تیرے راستے سے گمراہ کریں۔ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سویہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک دردناک عذاب کا مزہ نہ چکھ لیں“۔

یہی وجہ ہے کہ عاشوراہ کا روزہ موسی علیہ السلام کی شریعت میں خوشی اور شکرانے کے روزے کے طور پر مقرر ہوا۔ اسی طرح ہماری شریعت میں بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم ہے کیونکہ یہ دن طاغوتوں اور پیغمبروں کے دشمنوں پر نازل ہونے والی مصیبت پر خوشی کے اظہار کرنے کا دن ہے۔

اسی طرح قریش کے قبیلہ مضر نے جب چند مسلمانوں کو سخت ایذاء پہنچائی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کے لئے نماز میں تواتر کے ساتھ ان پر سخت قحط سالی کی بددعائیں فرمائی جس کا ذکر احادیث میں یوں آتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الوَلِيدَ بْنَ الوَلِيدِ، اللَّهُمَّ أَنْجِ المُسْتَضْعَفِينَ مِنَ المُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ»

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دعا کے طور پر) فرمایا اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ کو (کفار کے ظلم سے) نجات عطا فرما۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو بھی نجات عطا فرما۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو چھٹکارا دے۔ اے اللہ! کمزور مسلمانوں کو بھی نجات عطا فرما۔ اے اللہ! (قبیلہ) مضر پر اپنی گرفت سخت فرما۔ اے اللہ! ظالموں پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالیاں نازل فرما“۔ (صحیح البخاری،ج۱۱ص۹۷۱رقم الحدیث: ۴۳۱۳)

چنانچہ اس کے نتیجے میں قبیلہ مضر کی حالت دگرگوں ہوگئی اور ایسا قحط پڑا کہ وہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے:

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا، لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا العِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ. يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ} (الدخان: 11) قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ، قَالَ: «لِمُضَرَ؟ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ» فَاسْتَسْقَى لَهُمْ فَسُقُوا، فَنَزَلَتْ: {إِنَّكُمْ عَائِدُونَ} (الدخان: 15) فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوا إِلَى حَالِهِمْ حِينَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَوْمَ نَبْطِشُ البَطْشَةَ الكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} (الدخان: 16) قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ.

”عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ یہ صرف اس سبب سے ہوا کہ قریش نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تو آپ نے ان لوگوں کے حق میں یوسف علیہ السلام کی سی قحط سالی کی بد دعا فرمائی۔ چنانچہ وہ قحط سالی اور بھوک کی تکلیف میں مبتلا ہوئے یہاں تک کہ وہ لوگ ہڈیاں کھانے لگے اور یہ حال ہوگیا کہ کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کے اور آسمان کے درمیان دھواں کی طرح دکھائی دیتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ”تم اس دن کا انتظار کرو جب آسمان کھلا دھواں لے کر آئے گا۔ لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے“۔ راوی کا بیان ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ سے مضر کے حق میں بارش کی دعا کیجئے اس لئے کہ وہ تباہ ہو گئے! آپ نے فرمایا کیا مضر کے لئے؟ (پھر فرمایا) بیشک تو دلیر ہے چنانچہ آپ نے بارش کی دعا فرمائی تو بارش ہوئی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ {إِنَّكُمْ عَائِدُونَ} (الدخان: 15) ”بے شک تم لوٹنے والے ہو“۔ پھر جب ان پر خوشحالی آئی تو وہ لوگ اپنی پچھلی روش پر لوٹ گئے تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: {يَوْمَ نَبْطِشُ البَطْشَةَ الكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} (الدخان: 16) ”جس دن ہم بڑی سخت پکڑ کریں گے، بے شک ہم بدلہ لینے والے ہیں“۔ راوی کا بیان ہے کہ اس سے مراد”غزوۂ بدر“ ہے“۔ (صحیح البخاری،ج۵۱ص۹۳ رقم الحدیث: ۷۴۴۴)

ایک حدیث میں ابوسفیان کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر رحم کی التجا اور دعا کی درخواست کرنے کا یوں ذکر ہے:

((عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ: «اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ» ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الجُلُودَ وَالمَيْتَةَ وَالجِيَفَ، وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الجُوعِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ، وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} (الدخان: 10) إِلَى قَوْلِهِ {إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ البَطْشَةَ الكُبْرَى، إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} (الدخان: 16) "فَالْبَطْشَةُ: يَوْمَ بَدْرٍ)) (صحیح البخاری،ج۴ص۶۹ رقم الحدیث:۲۵۹)

”مسروق روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ عبداللہ بن مسعود کے پاس تھے تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب لوگوں (کفار قریش) کی بد بختی اور روگردانی کو دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اے اللہ ان کو یوسف علیہ السلام کے سات سال کے قحط کی طرح قحط میں مبتلا کردے۔ چنانچہ وہ قحط میں گرفتار ہوگئے، تمام چیزیں تباہ ہوگئیں یہاں تک کہ کھال اور مردار تک کھا گئے اور کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کے سبب سے انہیں دھواں نظر آتا۔ چنانچہ ابوسفیان آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تم اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہو اور تمہاری قوم ہلاک ہوگئی! اس لیے اللہ سے ان کیلئے دعا کرو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا اور ظاہر دھواں لائے گا“سے لیکر اس آیت تک {إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ البَطْشَةَ الكُبْرَى، إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} (الدخان :16) ’’جس دن ہم بڑی سخت پکڑ کریں گے، بے شک ہم بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ الْبَطْشَة سے مراد یوم بدر ہے‘‘۔

درج بالا احادیث کے علاوہ اس مضمون کی دیگر احادیث سے ان لوگوں کے طرز استدلال کا بھی رد ہوجاتا ہے جوکہ کافروں پر قدرتی آفات نازل ہونے پر ان کے لئے عافیت کی دعا کرنے کے حوالے سے فقط اس بات کو دلیل بناتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں پر قدرتی آفات نازل ہونے پر ان کے حق میں عافیت کے لئے دعا کی۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کافروں پر قحط سالی کا مسلط ہونا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بددعاؤں کا ہی نتیجہ تھا۔ یہاں تک وہ جب عاجز آگئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود آکر رحم کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کے حق میں بارش کی دعا کی جس کے نتیجے میں وہ پھر خوشحال ہوگئے۔ لیکن جب وہ اپنی پرانی روش لوٹ گئے اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہوگئے تو اللہ رب العزت نے اہل ایمان کے ہاتھوں غزوہ ٔبدر میں شکست سے دوچار کرنے کا فیصلہ فرمایا۔

اس کے علاوہ ایک بات اور بھی احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نماز میں کافر قبیلے کے حق میں بددعائیں کرتے رہے جب تک کہ وہ عافیت کے ساتھ آزاد ہوکر مدینہ نہ پہنچ گئے چنانچہ:

((قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: " ثُمَّ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ الدُّعَاءَ بَعْدُ، فَقُلْتُ: أُرَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَرَكَ الدُّعَاءَ لَهُمْ، قَالَ: فَقِيلَ: وَمَا تُرَاهُمْ قَدْ قَدِمُوا))

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بعد یہ دعا کرنی چھوڑ دی تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے یہ دعا چھوڑ دی تو مجھے کہا گیا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ جن کے لئے نجات کی دعا کی جاتی تھی وہ تو (آزاد ہوکر) آگئے ہیں“۔ (صحیح مسلم، ج۳ ص۳۴۳ رقم الحدیث: ۳۸۰۱)

اسی طرح قریش مکہ کے سرداروں نے جب آ پ کو حد سے زیادہ تکالیف پہنچائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ایک سردارکا نام لے کر بددعا فرمائی:

«اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ» ، ثُمَّ سَمَّى: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعَمْرِو بْنِ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعُمَارَةَ بْنِ الوَلِيدِ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ، ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى القَلِيبِ، قَلِيبِ بَدْرٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ القَلِيبِ لَعْنَةً»

”اے اللہ! قریش کو ہلاک فرما، اے اللہ! قریش کو ہلاک فرما، اے اللہ! قریش کو ہلاک فرما (آپ نے جملہ تین دفعہ دہرایا)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لینا شروع کئے کہ اے اللہ! عمروبن ہشام کو، عتبہ بن ربیعہ کو، اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کو اور امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو ہلاک فرما۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو بدر کے دن زمین میں گرا ہوا دیکھا اس کے بعد وہ گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے حق میں) فرمایا کہ اس کنویں والوں پر لعنت کی گئی ہے“۔ (صحیح البخاری،ج۲ص۱۴۳ رقم الحدیث: ۴۹۰)

یہی وہ یوم بدر ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے پہلے ہی یہ بات ارشاد فرمادی تھی کہ:

{وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ} (الروم : 4)

”اور اُس روز اہل ایمان بھی خوشیاں منائیں گے“۔

صحابہ کرام کے رمضان المبارک کی راتوں معمول کے بارے میں حدیث میں آتا ہے:

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، أَنَّهُ سَمِعَ الْأَعْرَجَ يَقُولُ: «مَا أَدْرَكْتُ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ يَلْعَنُونَ الْكَفَرَةَ فِي رَمَضَانَ»

”عبد الرحمن ہرمز الاعرج رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اس حالت میں پایا کہ وہ رمضان المبارک (کی راتوں) میں کفار پر لعنت کرتے تھے“۔ (موطا امام مالک (رح) ج: ۱ص: ۳۴۳رقم: ۴۳۲)

سلف صالحین کا طرز عمل:

سلف صالحین میں سے اہل سنت والجماعت کے ائمہ تو اہل کفر اور بدعتیوں پر نازل ہونے والی آفتوں اور مصیبتوں پر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے جب ایک جہمیہ شخص کے متعلق یوں پوچھا گیا:

أنفرح بما يصيب أصحاب ابن أبي دؤاد؟ (وكان من كبار الجهمية في زمن أحمد) قال: ومن لا يفرح بهذا

کیا ابودؤاد (جو امام احمد کے دور میں جہمیہ کا ایک اہم ترین رہنما تھا) کے ساتھیوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو ہم اس پرخوشی مناسکتے ہیں؟ امام احمد نے جواب دیا: ”اس پر کون خوشی نہیں منائے گا“۔ (السنة للخلال 1769)

ایک دفعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھاگیا:

’’الرجل يفرح بما ينزل بأصحاب ابن أبي دؤاد، عليه في ذلك إثم؟ قال: ومن لا يفرح بهذا؟

ابودؤاد کے ساتھیوں پر کوئی مصیبت آئے تو اس پر خوشی منانے والا گناہگار ہوگا؟ تو آپ نے جواب دیا: ”اس پرکون خوش نہیں ہوگا“۔(السنة لابی بکر بن الخلال ج۴ص۹۵۳ رقم:۲۹۷۱)

جب گمراہ بدعتی ”ابن ابوداؤد“ کو فالج ہوا، تو اہل سنت نے خوشی منائی؛ یہاں تک کہ ابن شراعہ بصری رحمہ اللہ نے تو اس خوشی کو مناتے ہوئے ابوداؤد کیخلاف اشعار تک مرتب کردیئے جو تاریخ کی کتابوں میں اب تک محفوظ ہے۔ (تاريخ بغداد از خطیب بغدادی 4 / 155)

بعض علماء تو بعض اہل شر کے مرجانے پر مبارکباد دینے کے لیے بیٹھ جاتے تھے:

عبيد الله بن عبد الله بن الحسين أبو القاسم الحفاف المعروف بابن النقيب: وکان شديدا فی السنة وبلغني أنه جلس للتهنئة لما مات ابن المعلم شيخ الرافضة وقال: ما أبالي أي وقت أموت بعد أن شاهدت موت ابن المعلم.

”عبیداللہ بن عبداللہ بن الحسین ابو القاسم الحفاف جن کاعرف ابن نقیب تھا۔ وہ سنت (نبوی ﷺ) کے معاملے میں انتہائی سخت تھے اور مجھے پتہ چلا کہ جب رافضیوں کا شیخ ابن المعلم مرا اور اس کی خبران تک پہنچی تو وہ مبارکباد دینے کے لیے بیٹھ گئے اور انہوں نے کہا: ابن المعلم کی موت دیکھنے کے بعد مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ اب میں کب مروں۔“ (تاریخ بغداد ج۴ص۴۸۴)

امام ابن قیم رحمہ اللہ خالد بن عبداللہ القسری کے عمل کو سراہتے ہوئے جب انہوں نے جہمیہ کے ایک سرغنے جعد بن درھم کو دنبے کی طرح عید الاضحی کے موقع پر ذبح کیاتو یہ شعرپڑھا:

شَكَرَ الضَّحِيَّةَ كُلُّ صاحِبِ سُنَّةٍ ***** لله درُّكَ من أخي قُربانِ

ہر صاحب سنت قربانی کا شکریہ ادا کرتا ہے *****میرے بھائی اللہ کے لیے خوبی اور کمال ہے کہ قربانی کے لیے کس قدر عمدہ انتخاب کیا ہے۔

یہاں تک کہ اسلاف کے دور میں تو اہل شر کے مرنے پر بچے بھی خوشی کا اظہار کرتے تھے:

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَدَقَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمَيْمُونِيَّ ، يَقُولُ : قُلْتُ لأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ : " يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ، لَمَّا أُخْرِجَتْ جِنَازَةُ ابْنِ طَرَّاحٍ ، جَعَلُوا الصِّبْيَانَ يَصِيحُونَ : اكْتُبْ إِلَى مَالِكٍ : قَدْ جَاءَ حَطَبُ النَّارِ ، قَالَ : فَجَعَلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ يُسَتِّرُ ، وَجَعَلَ يَقُولُ : يَصِيحُونَ ، يَصِيحُونَ".

”احمد بن محمد بن عبداللہ بن صدقۃ کہتے ہیں کہ میں نے المیمونی سے سنا کہ وہ بتارہے تھے کہ انہوں نے احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) سے کہا: اے ابو عبداللہ! جب ابن طراح (جو جہمی تھا) کا جنازہ لے جایا جارہا تھا تو بچے بچے زور زور سے یہ بول رہے تھے: ”(جہنم کے) داروغے کو لکھ بھیجوکہ جہنم کا ایندھن آگیا ہے۔“ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان بچوں کی حمایت کرتے ہوئے (انہی الفاظ کو دہراتے ہوئے) کہا کہ وہ زور زور سے بول رہے تھے۔“ (السنة لابی بکر بن الخلال ج۴ص۷۵۳ رقم:۱۹۷۱)

یہ تھا اہل سنت والجماعت کے متقدمین کا عمل کہ وہ کسی کافر کی موت یا کافروں پر نازل ہونے والی پریشانیوں پر افسوس یا دکھ وغم کااظہار نہیں کرتے تھے۔ اظہار بھی کیسے کریں جبکہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے:

«حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ مُشْرِكٍ فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ» (سنن ابن ماجة)

’’تم جہاں کہیں بھی مشرک کی قبر سے گزرو تو اسے جہنم کی خوشخبری دو۔‘‘

عصر حاضر کے علمائے اہلسنت والجماعت کا مؤقف:

چنانچہ اس دور کے کئی علمائے اہلسنت والجماعت نے بھی یہ فتوی دے رکھا ہے کہ کافروں پر نازل ہونے والی مصیبتوں پر ان میں موجود عبرت ونصیحتوں کی وجہ سے خوشی کا اظہار کرنا چاہئے۔ ہم یہاں عرب کے مایہ ناز صرف دو شیوخ کے مختصرفتاوی کو ذکر کرتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ کافروں کو پہنچنے والی مصیبتوں پر خوشی کا اظہار کرناچاہئے۔

جب شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ تعالی سے عبدالحکیم فرانسیسی نے پوچھا کہ:

’’کافروں کو کوئی مصیبت پہنچے تو کیا مسلمان کے لیے اس پرخوشی کا اظہار کرنا جائز ہے؟‘‘

شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا:

”جس مصیبت سے مسلمان کو فائدہ پہنچے، اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے۔ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اسلام کی خاطر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے“۔

پھر سائل نے پوچھا:

”جاپان میں زلزلہ آئے تو اس پر بھی خوشی کا اظہار کرنا جائز ہے؟“

شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا:

”زلزلے پر بھی خوشی کا اظہار کیا جائے گا کیونکہ یہ ان کے لیے عبرت اور شاید ہدایت کا ذریعہ ثابت ہو“۔ (حوالہ کشف الشبہات)

شیخ محمدصالح العثیمین رحمہ اللہ ’’زاد المستقنع ‘‘کی شرح (4/58) میں لکھتے ہیں کہ:

”کافروں پر کوئی آفت آئے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس آفت کے کافروں پر سے ٹل جانے کے لیے دعا کرنا جائز نہیں ہے“۔

تو واضح ہوا کہ دشمنان اسلام پر نازل ہونے والی مصیبتوں پر خوشی کا اظہار کرنا مسنون ہے اور ان کے لیے کسی قسم کے دکھ وغم اور افسوس کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا امریکہ پر جو طوفانی عذاب آیا، اس پر دکھ وغم اور افسوس کا اظہار کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں بلکہ اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے۔

خلاصہ کلام:

خلاصہ کلام یہ کہ ظالموں اور سرکشوں کو کوئی تکلیف پہنچے یا ان پر کوئی مصیبت نازل ہو، مسلمانوں کا اس پر خوش ہونا ایک فطری بات ہے۔ چنانچہ امریکہ کی بربادی پر خوشی کا اظہار کیوں نہ کیا جائے جس نے زمین کے مشرق ومغرب تک جبروظلم اور اللہ کے بندوں کو تکلیف پہنچائی۔ لہذا امریکہ کی امداد کرنا تو دور کی بات امریکہ کے لیے اس طوفان سے نجات حاصل کرنے کی دعا کرنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ اس سے بھی آگے امریکہ میں جو طوفان آیا، اس پر دکھ افسوس اور غم کا اظہار کرنا حرام اور خوشی کا اظہار کرنا مسنون ہے۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ مغرب اس وقت امریکہ کی قیادت میں اللہ تعالی اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا اس دور کا سب سے بڑا فرعون ہے۔ بلکہ فرعون سے بڑا سرکش اور ظالم ہے۔ فرعون نے تو مصر کی حدود میں موسی علیہ السلام سے جنگ لڑی تھی جبکہ امریکہ تو پوری دنیا میں اسلام کیخلاف لڑرہا ہے اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں کیخلاف کوئی جنگ ہورہی ہو تو اسلام سے لڑنے کے لیے وہاں کی حکومت یا جماعت یا قبیلے کو مکمل تعاون فراہم کرتا ہے۔

پھر امریکہ کو اپنے کیے کی سزا تو دنیا میں ملنی ہے جیساکہ ابی بکرہ سے مرفوع حدیث میں مروی ہے:

عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِثْلُ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ»

”حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی گناہ اس لائق نہیں ہے کہ اللہ اسکے کرنے والے کو دنیا میں سزا جلدی دے دیں۔ اس کی آخرت کی سزا کے ساتھ مثل بغاوت اور قطع رحمی کے“۔ (سنن ابی داود،ج۳۱ص۴۵رقم الحدیث:۶۵۲۴)

امریکہ پر آنے والا طوفان کافروں کے لیے عذاب اور مومنین کے لیے رحمت ثابت ہوا ہے۔ امریکہ کی جانب سے مسلمانوں کو بے گھر کرنے، ان کے مال ومتاع کے برباد کرنے، ان کو بدامنی کا شکار کرنے میں اور اسلام کیخلاف جنگ کو سپورٹ کرنے والی امریکی عوام کو ایک ہی طوفان نے بدامنی، انتشار، موت کا خوف، بجلی کی عدم دستیابی، مالی بحران، مہنگائی جیسے مسائل کا ادنیٰ سا ذائقہ چکھا دیا اور اگرآئندہ بھی امریکہ کی روش یہی رہی تو ہم بھی دعاگو ہیں کہ بہت سے قدرتی آفات کا امریکہ کو سامنا کرنا پڑے گا جوکہ بہت جلد اس کا شیرازہ ہی بکھیرکر رکھ دیں گی۔ ان شاء اللہ!

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (السجدة : 21)

”ہم بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھاتے رہیں گے شاید کہ وہ رجوع کریں۔“


پی ڈی ایف،یونی کوڈ
Zip Format
https://www.box.com/s/b2jd6l73b661yeu0vl7n

پی ڈی ایف
https://www.box.com/s/cwdyc9cmoe3an7dd6sqn

یونی کوڈ (ورڈ)
https://www.box.com/s/m54ab1lpunrgc6q2ok9k[/center]
[center]لاعزۃ الابالجھاد[/center]
Post Reply

Return to “باتیں ملاقاتیں”