پنجابی زبان کی تاریخ

مٹھی سانجھی تے سُچی ماں بولی پنجابی دا فورم
Forum rules
صرف پنجابی تحریراں دی جگہ۔ کسے ہور زبان وچ تحریراں شئیر کرن لئی دوسرے دھاگے استعمال کرو۔
سانبھن ہار اردونامہ
Post Reply
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

پنجابی زبان کی تاریخ

Post by میاں محمد اشفاق »

پنجابی ہندوستانی اور ایرانی زبان کا امتزاج ہے۔ اس کو ہندوستانی زبانوں میں کافی موثر حیثیت حاصل ہے۔ پنجابی قوم کئی مختلف نسلوں کے اختلاط سے معرض وجود آئی ہے جو کہ پنجابی علاقوں پر حملہ آور ہونے کے ساتھ مہاجرت کے ذریعہ آباد ہوتے رہے،جن کا زیادہ تر تعلق شمالی پہاڑی علاقوں اور ممالک سے تھا اور جن کی منتقلی کی وجوہ ان علاقوں میں روز گار کے کم مواقع، سخت موسمی حالت، زرعی اجناس کی کمی اور پنجاب کی سر سبز زمین، لہلہاتے کھیت ،پانی کی فراوانی اور دوسرے لوگوں کو اپنے علاقوں میں بسنے اور جذب کرنے کی مقامی آبادی کی صلاحیت تھی۔ انہوں نے کبھی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت نہیں کی تھی۔
موجودہ تاریخی تناظر میں قیام پاکستان کے بعد بھی پنجابیوں کی جدوجہد کبھی حکمران طبقات کے خلاف نہیں رہی ہے۔ یہاں کی اشرافیہ، جاگیرداراور سرمایہ دار طبقات نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا ہے۔ پنجابی زبان کے فروغ کے دعویٰ داروں نے علامتی طور پر احتجاج اور مطالبات کئے ہیں۔ اس حوالہ سے منعقدہ پنجابی عالمی کانفرنسیں محض میڈیا کی زینت بن سکی ہیں مگر عام پنجابی بولنے والوں میں کوئی تحریک پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس طرح پنجابی زبان بالعموم پنجابیوں کی شناخت کا ذریعہ نہیں بن سکی ہے۔ پاکستان میں جاری پنجابی زبان کی ترویج کی تحریکوں کے اسلاف سیاسی، ذاتی یا ادبی حوالوں سے ہیں۔ ان کی عام آدمی کے مسائل کے حوالہ سے کوئی تعلق داری پیدا نہیں کی جاسکتی ہے۔
کچھ گروہ اس کو ادبی اور لسانیت کے حوالہ سے فروغ دینا چاہتے ہیں، کچھ اس کو سیاسی قوت کے طور پر استعمال کرنے کے خواہشمند ہیں اور کچھ علاقائی زبان کے مختلف لہجوں کے حوالہ سے تقسیم کر تے ہیں جس میں پوٹھوہاری، وسطی پنجاب اور سرائیکی بیلٹ شامل ہیں۔ اس وقت پنجابی بولنے والوں کی تعداد پاکستانی پنجابی علاقوں میں آٹھ کروڑ ہے جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا 55فیصد ہیں۔ 30ملین ہندوستان میں بستے ہیں جن کی زیادہ تعداد مشرقی پنجاب میں آباد ہے۔ اس کے علاوہ ہریانہ اور دہلی میں بھی کافی تعداد میں پنجابی بستے ہیں۔ یہ ہندوستان کی کل آبادی کے لگ بھگ 3فیصد ہیں۔ 10ملین کے قریب پنجابی جن میں زیادہ تعداد سکھوں کی ہے، ہندوستان سے باہر برطانیہ، شمالی امریکہ، مشرق بعید (ملائیشیا میں 2لاکھ سکھ آباد ہیں) اور مڈل ایسٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان پنجابیوں میں 54فیصد مسلمان، 29فیصد ہندو، 14فیصد سکھ اور 3فیصد عیسائی شامل ہیں مگر سیاسی اور معاشی قوت کے حوالہ سے صورتحال بالکل ڈرامائی ہے۔ پاکستان سیاسی، فوجی اور معاشی قوت کے حوالہ سے ایک پنجابی ریاست ہے جس کو پارلیمنٹ، فوج اور دیگر سول اداروں، تجارت اور صنعت میںبالادستی حاصل ہے ۔ پنجابی جاگیردار سیاست اور ریاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر پنجابیت کے حوالہ سے ان کی سرگرمیاں بالکل متصادم ہیں اور یہ حکمران طبقہ کے زبان و اظہارکے غلام ہیں۔ ہندوستان میں بسنے والے پنجابی اس ملک کے زرخیز ترین زرعی خطے کے باسی ہیں جو کہ ہندوستان کی ایک ارب سے زیادہ آبادی کو غذائی اجناس اور غلہ فراہم کرتا ہے۔
ہندوستانی فوج کے اعلیٰ افسران کی کافی زیادہ تعداد پنجابیوں پر مشتمل ہے۔جواہر لال نہرو کی والدہ کا تعلق لاہور سے تھا۔ پروفیسر عبدالسلام کا تعلق بھی بھارتی اور پاکستانی پنجاب سے ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر فیض احمد فیض اور ساحرلدھیانوی کا تعلق بھی پنجاب سے ہے۔ اسی طرح جدید شاعری اور ادب کی ترویج کے حوالہ سے سب سے زیادہ کام پنجابی زبان میں ہورہا ہے۔
دنیا میں 55کے قریب پنجابی چینل قائم ہیں۔ لاتعداد ایف ایم ریڈیو پنجابی زبان میں نشریات پیش کر رہے ہیں۔ گلیوں، بازاروں اور عام آدمی کی زبان پنجابی ہے۔ ان اعدادو شمار کی موجودگی میں پنجابی زبان کی تیزی سے پائمالی کے بارے میں کیسے سوچا جا سکتا ہے؟ پاکستان میں پنجابی زبان کے ٹی وی چینلز کو سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ سب سے زیادہ شاعرانہ کلام پنجابی زبان میں مقبول عام ہے مگر اتنے موثر اظہارفصاحت و بلاغت کے باوجود تاریخی طور پر پنجابی ریاستی زبان کا درجہ اختیار انہیں کرسکی ہے جس کی ذمہ داری پڑھے لکھے پنجابیوں اور بیورو کریسی پر ڈالی جا سکتی ہے جنہوں نے اپنے لسانی حقوق کی خاطر جدوجہد کے بجائے مہاجر بیوروکریسی کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجابی سرکاری کے بجائے ہمیشہ عام آدمی کی زبان رہی ہے۔ یہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا کمال ہے کہ اس نے اب اس کو ہمارے بالائی حکمران طبقات کے خاندانوں کے کلچر میں داخل کر دیا ہے۔ کچھ ڈراموں میں اردو زبان میں پنجابی زبان کے امتزاج نے اس کو حکمران طبقات میں قبولیت کی سند بخشی ہے۔ ممتاز دانشور پروفیسر شریف کنجاہی صاحب نے کہا تھا ”استاد امام دین کی شاعری اور لہجہ ہماری مستقبل کی اردو اور پنجابی زبان سے ہم آہنگ ہوگا

سولہویں اور انیسویں صدی کے دوران پنجابی زبان و ثقافت کا فروغ سکھ گوروں، مسلمان صوفی شعرائ، ہندو بھگتوں کے ذریعہ ہوا جنہوں نے تخت و تاج اور ریاست کاروں کی مخالفت کی اور مضبوط نظریاتی پنجابیت کا درس دیا۔ اس عمل میں بابا بلھے شاہ اور شاہ حسین نمایاں رہے ہیں۔ انہوں نے علامتی اظہار کے ذریعہ شاہی روایات اور اقتدار کے خلاف تحریروں میں عوامی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ ہندوستان کے پنجابی حکمران رنجیت سنگھ نے پنجابی ریاست قائم کی (1799-1839ئ) مگر سرکاری زبان فارسی رکھی۔ 1849ءمیں پنجاب میں انگریزوں کے عمل دخل کے بعد انہوں نے دیگر برطانوی نو آبادیاتی علاقوں میں رائج اردو زبان کو پنجاب میں سرکاری زبان قرار دیا جس سے شہری علاقوں میںیہ تاثر ابھارا گیا کہ پنجابی زبان اردو اور ہندوستان سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ یہ بات تقریباً درست تھی۔ پنجابی زبان کو کبھی ریاستی سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ پنجابی زبان کی پہلی لغت انیسویں صدی کے وسط میں لدھیانہ کے عیسائی مشنریوں نے شائع کی۔ بیسویں صدی کے نصف تک پنجابی شناخت نسلی تضادات کی وجہ سے متاثر ہوئی۔


پنجابی شاعری اور زبان کو زندہ رکھنے والوں میں میلوں ٹھیلوں، تھیٹرز کمپنیوں اور لوک فنکاروں کا خاص کردار ہے ۔ بہرصورت معروضی صورتحال میں گلوبلائزیشن کے نئے کلچر، زبان و کردار کے باوجود پنجابی زبان میں زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ خصوصاً وہ زبانیں جو کہ مقامی ثقافت اور کسی مذہب کے ساتھ جڑت رکھتی ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ پاکستان میں پنجابی زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھنے کے باوجود یہ ابھی تک پنجاب میں اکثریتی آبادی کی زبان ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس کو دوسری زبانیں بولنے والے آسانی سے سمجھ اور بول لیتے ہیں۔
ملک میں موجودہ ترقی پسند جماعتوں نے ہمیشہ علاقائی زبانوں کی حمایت کی ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب میں اس زبان کے مختلف لہجوں اور تلفظ کی وجہ سے کوئی پنجابی زبان کے فروغ کی اجتماعی تحریک جنم نہیںلے سکی ہے۔ سابقہ پنجاب حکومت میں چوہدری پرویز الہٰی نے بطور وزیراعلیٰ پنجابی کے فروغ کے لئے ادارے قائم کئے تھے اور اس ضمن میں کچھ تحقیق اور تخلیقی کام بھی شروع ہوا تھا۔ اب یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پنجابی زبان کے فروغ کے لئے ادارے قائم کرے اور اس کو پرائمری کی سطح تک نصاب میںبھی پڑھایا جائے ۔
پاکستان میں پنجابی زبان کے فروغ کے لئے ممتاز دانشور فخرزمان، پروفیسر خالد ہمایوں، شہباز ملک اور سید نجم الحسن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مذہبی تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اس کو اپنی دھرتی کی مٹی کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔پنجابی انسانوں کے ذہنوں اور دلوں میں رچ بس جانے والی زبان ہے اور اس میں زندہ رہنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: پنجابی ذبان کی تاریخ

Post by میاں محمد اشفاق »

وکیپیڈیا سے

پنجابی (اردو پنجابی، گورمکھی ਪੰਜਾਬੀ) ایک ہند یورپی زبان ہے جو کہ باشندگان پنجاب میں مروج ہے۔ پنجابی بولنے والوں میں ہندومت، سکھ مت، اسلام، اور مسیحیت کے پیروکار شامل ہیں۔ اول الذکر مذہب کے علاوہ باقی تینوں مذاہب میں اس زبان کو خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں کیے گیے مردم شماریوں کے مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعدا 14-15کروڑ سے زائد ہے ۔ اس زبان کے بہت سے لہجے ہیں جن میں سے ماجھی لہجے کو ٹکسالی مانا جاتا ہے۔ یہ لہجہ پاکستان میں لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ کے اطراف میں جبکہ ہندوستان میں امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع میں مستعمل ہے۔ایس.آئی.ایل نژادیہ کے 1999ء کی شماریات کے مطابق پنجابی اور ہندی دُنیا میں گیارویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے.

پنجابی پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ یہ ملک کی 55فی صدی آبادی کی مادری زبان ہے، جبکہ 65 فیصد پاکستانی یہ زبان بولنا جانتے ہیں۔ پاکستان میں پنجابی بولنے والے لوگوں کی تعداد کم و پیش 10 کڑوڑ ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان کی آبادی کا محض 3 فیصد ہی پنجابی جانتا ہے۔ تاہم پنجابی ہندوستان کی ریاست پنجاب کی سرکاری زبان ہے، جبکہ پاکستان میں پنجابی کو کسی قسم کی سرکاری پشت پناہی حاصل نہیں۔ مزید برآں پنجابی کو ہندوستانی ریاستوں ہریانہ اور دہلی میں دوئم زبان کی حیثیت حاصل ہے۔
پنجابیامریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا میں اقلیتی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔ پنجابی نے بھنگڑا اور موسیقی کی وساطت سے بھی کافی عالمی مقبولیت پائی ہے۔

پنجابی زبان کا اختراع اپبھرمش پراکرت زبان سے ہوا ہے۔ اس زبان میں ادب کا آغاز بابا فریدالدین گنجشکر سے ہوتا ہے۔ بعد ازاں سکھ مت کے بانی بابا گورو نانک کا نام آتا ہے۔ سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیو نے گورو گرنتھ صاحب کی تالیف کی تھی۔ یہ کتاب گورمکھی رسم الخط میں لکھی گئی تھی اور اس میں پنجابی کہ علاوہ برج بھاشا اور کھڑی بولی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پندرھویں سے انیسویں صدیوں کے درمیان مسلمان صوفی بزرگوں نے پنجابی زبان میں بے مثال منظوم تحریریں رقم کیں۔ سب سے مقبول بزرگوں میں بابا بلہے شاہ شامل ہیں۔ ان کی شاعری کافیوں پر مشتمل ہے۔ قصہ خوانی بھی پنجابی ادب کی ایک مقبول صنف ہے۔ سب سے مشہور قصہ ہیر اور رانجھے کی محبت کا قصہ ہے جوکہ وارث شاہ کے قلم سے رقم ہو کر امر ہو چکا ہے۔ دیگر صوفی شعرا میں شاہ حسین، سلطان باہو، شاہ حسین اور خواجہ فرید شامل ہیں۔
تقسیم ہند کا سب سے برا اثر پنجابی زبان پر پڑا۔ایک طرف ہندو پنجابی جوکہ صدیوں سے پنجابی بولتے آئے تھے اب ہندی کو اپنی مادری زبان کہلوانے لگے۔ پاکستان میں پنجابی کو کسی قسم کی سرکاری حعثیت نہ دی گئی، جبکہ ہندوستان میں پنجابی کو سرکاری حیثیت دینے کی راہ میں رکاوٹیں حایل کی گئیں۔ تاہم اب ریاست پنجاب میں پنجابی سرکاری اور دفتری زبان ہے۔
پنجابی کے جدید ادباء میں موہن سنگھ، شو کمار بٹالوی، امرتا پریتم، سرجیت پاتر (ہندوستان سے)، منیر نیازی، انور مسعود، اور منو بھائی (پاکستان سے) شامل ہیں۔
انکے علاوہ پنجابی کے مشہور شعرا جن کی شاعری آج بھی ہر جگہ بولی جاتی ہے.
وارث شاہ
ہاشم شاہ
منیر نیازی
امرتا پریتم
انور مسعود
میاں محمد بخش
بابا بلھے شاہ
بابا نجمی
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: پنجابی ذبان کی تاریخ

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کیلئے بہت شکریہ، :clap: :clap: :clap: :clap:
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: پنجابی ذبان کی تاریخ

Post by پپو »

zub;ar zub;ar
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: پنجابی ذبان کی تاریخ

Post by اضواء »

zub;ar v;g شئیرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
ایم ابراہیم حسین
کارکن
کارکن
Posts: 166
Joined: Fri Oct 31, 2014 7:08 pm
جنس:: مرد

Re: پنجابی ذبان کی تاریخ

Post by ایم ابراہیم حسین »

اسلام علیکم
جناب محترم میاں محمد اشفاق صاحب پنجابی ذبان کی تاریخ شئیرنگ بہت عمدہ ہیں اور جو ہم نہیں جانتے تھے ان باتوں کا پتہ چلا
دعا ہے آپ ذندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہو اور اللہ آپ کو آپ کا مقام نصیب فرمائے
آمین
اور اگر اجازت ہو تو آپ لکھا فس بک پر شئر کرنا چاہتا ہو
آپ جواب کا انتظار رہے گا
شکریہ
Post Reply

Return to “سانجا ویہڑا”