عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور قرآن
Posted: Thu Jul 19, 2012 12:49 pm
مفتی ابو رفیدہ عارف محمود ، رفیق شعبہ تصنیف و تالیف واستاد جامعہ فاروقیہ کراچی
نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ رضی الله عنہم
امام الانبیا، خاتم النبیین، جناب حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو الله تبارک وتعالیٰ نے تاقیامت انسانیت کی رُشد وہدایت کے لیے آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کو دنیا وآخرت کی کام یابیاں دلانے کے لیے اپنا کامل ومکمل دین عنایت فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا حکم دیا کہ جو کچھ ہم نے آپ کو دین کی صورت میں عطا کیا ہے آپ اس کی تبلیغ کیجیے۔
خوش نصیب افراد
دوسری طرف خود حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو اہلِ ایمان کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا، حضرت صحابہ کرام رضوان الله عنہم اجمعین حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وہ مقدس جماعت ہے ، جنہوں نے حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا، بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا عملی طور سے مشاہدہ کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم سے دین کو سیکھا اور وہ اس کے اول پھیلانے والے خوش نصیب افراد ہیں۔
مقدس جماعت
یہی وہ مبارک او رپاک باز جماعت ہے جسے الله رب العزت نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت اور مصاحبت کے لیے چنا او رمنتخب فرمایا، چناں چہ حضرات صحابہ رضی الله عنھم دین کی بنیاد او رمعیارِ ایمان ہیں، بلکہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مبارک او رپاکیزہ زندگی کو سمجھنے، پہچاننے او راس پر عمل کرنے کے لیے اگر کسی کی زندگی معیار ہو سکتی اور یقینا ہے بھی تو وہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی مبارک ومقدس جماعت ہے۔
یہی وہ جماعت ہے جس نے براہ راست مشکوٰة نبوت سے استفادہ کیا، چناں چہ جو فیض انہوں نے پایا او رایمان کی جو کیفیت وحلاوت ان کو حاصل ہوئی ، وہ بعد والوں کے لیے میسر آنا ممکن نہیں ، اسی وجہ سے الله رب العزت نے قرآن پاک میں اگر کسی نبی کے ساتھیوں کی من حیثُ الجماعت سب کے سب کی تعریف وتقدیس بیان کی ہے تو وہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہٴ کرام کی جماعت ہے ، اس طور پر کہ الله رب العزت نے صحابہٴ کرام کی پوری کی پوری جماعت کو راضی ومرضی اور راشد ومرشد فرمایا ہے۔
عدالت صحابہ رضی الله عنہم
قرنِ اوّل سے لے کر آج تک استمرار ودوام کے ساتھ امّتِ مسلمہ اہلِ سنّت والجماعت کا یہ اتفاقی واجماعی عقیدہ رہا ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنہم تمام کے تمام عادل ومتقن ہیں ، اگر وہ کسی بات پر متفق ہو جاتے ہیں تو ان کا یہ اجماع واجتماع امتِ مسلمہ کے لیے حجّت شرعیہ بن جاتا ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔
صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کی پاکیزہ اورمبارک جماعت عاداتِ کریمہ، خصائل ِ حمیدہ شمائلِ فاضلہ ،اخلاق عظیمہ اور شریعت کے تمام مسائل ودلائل، حقائق وآداب کے بارے میں علماًاور عملاً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کمالات نبوت کی آئینہ دار او رمظہر اتم ہے ، انہی پاک باز نفوس کی اتباع امتِ مسلمہ کو ضلالت وگمراہی سے بچاسکتی ہے۔
مفکر اسلام، مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کا قول:
مفکر اسلام، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب حضرات صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں:
” یہ ان مردان خدا کی تاریخ ہے کہ جب ان کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انہوں نے اس کو دل وجان سے قبول کیا او راس کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا:﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلإِیْمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا﴾․( سورة آل عمران، آیت:193)
اور اپنا ہاتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا، چناں چہ ان کے لیے الله کے راستے کی مشقتیں معمولی او رجان ومال کی قربانی آسان ہو گئی ، حتی کہ اس پر ان کا یقین محکم او رپختہ ہو گیا اور بالآخر دل وماغ پر چھا گیا، غیب پر ایمان، الله او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت ، اہل ایمان پر شفقت، کفار پر شدت، نیز آخرت کو دنیا پر، ادھار کو نقد پر، غیب کو شہود پر اورہدایت کو جہالت پر ترجیح اورہدایت عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب وغریب واقعات رونما ہونے لگے۔
الله کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر الله کی بندگی میں لانے ، مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کی عدل گستری میں پہنچانے ، دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے اور دنیوی مال ومتاع اور زیب وزینت سے بے پروا ہو جانے، الله سے ملنے او رجنت میں داخل ہونے کے شوق کے محیر العقول واقعات سامنے آنے لگے ، انہوں نے اسلام کی نعمت کو ٹھکانے لگانے، اس کی برکتوں کو اقصائے عالم میں عام کرنے اور چپے چپے کی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی ودقیقہ رسی کے باعث، اپنے گھر بار کو چھوڑا، راحت وآرام کو خیر باد کہا او راپنی جان ومال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا ، حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہو گئیں ، دل الله کی طرف مائل ہو گئے او رایمان کے ایسے مبارک، جاں فزا اور طاقت ور جھونکے چلے، جس سے توحید وایمان اور عبادات وتقوی کی سلطنت قائم ہو گئی، جنت کا بازار گرم ہو گیا، دنیا میں ہدایت عام ہو گئی اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔“
عظمت صحابہ رضی الله عنہم اور قرآن
حضرت ندوی رحمة الله علیہ نے حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنھم کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ کسی مبالغہ، یا محض عقیدت کا نتیجہ نہیں ، اس پر نہ صرف خدا کا کلام، قرآن مجید شاہد ہے ، بلکہ تاریخ انسانی، جو ایک حقیقت ارضی ہے، وہ بھی گواہ ہے ، یوں تو پورا قرآن کریم جماعت صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کی تقدیس وتعریف سے بھرا ہوا ہے ، قرآن پاک کے تیسوں پارے ان کی عظمت وبزرگی کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہے ہیں ، یہاں بطور نمونے کے چند آیات او ران کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں ، تاکہ ایک عام مسلمان قاری اس کا اندازہ لگا سکے کہحضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنھم کو کیا فضل وکمال حاصل تھا :﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِیْ الْإِنجِیْلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِیْماً ﴾․ (سورة الفتح، آیت:29)
ترجمہ: محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں او رجو لوگ اُن کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں، (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں ، تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں ، کبھی سجدے میں، ( غرض) الله کے فضل اور خوش نودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، اُن کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُن کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو توارت میں مذکور ہیں اور انجیل میں اُن کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو، جس نے اپنی کونپل نکالی ، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہو گئی ، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں ، تاکہ الله تعالیٰ ان ( کی ترقی) سے کافروں کے دل جلائے ، یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں او رانہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، الله نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:1575/3)
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَئِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْض﴾․ (سورة الانفال، آیت:72)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں او رانہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں او رجانوں سے الله کے راستے میں جہاد کیا ہے ، وہ او رجنہوں نے ان کو ( مدینہ میں) آباد کیا او ران کی مدد کی ، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ (آسان ترجمہ:550/1)
﴿وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․ (سورة آل عمران، آیت:103)
ترجمہ: اور الله کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور الله نے جوتم پر انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، پھر الله نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم الله کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے او رتم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، الله نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی ، اسی طرح الله تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:212/1)
﴿ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ، وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللّہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم﴾․ (سورة الانفال، آیت:63)
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے او رمؤمنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور اُن کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کر دی، اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کر لیتے تو ان کے دلوں میں یہ الفت پیدا نہ کر سکتے، لیکن الله نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا، وہ یقینا اقتدار کا مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:546/1)
مذکورہ بالا آیات کا خلاصہ
قرآن کریم میں اس مضمون کی او ربھی بہت ساری آیات موجود ہیں، لیکن جو آیات ہم نے ذکر کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان میں اخوت وبرادری کا تعلق ہوتا ہے ، ایمان والوں کوالله تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے تھامے رکھنی چاہیے، کیوں کہ الله نے ہی دیرینہ دشمنیوں کو محبت والفت میں بدل دیا اور اب ایمان والوں کوایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ، یہی وہ ایمان والے ہیں جن کے ذریعے الله نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تائید اورمدد ونصرت فرمائی ، ان کے دلوں میں الفت وشفقت ڈال دی ، پھر بتلایا کہ اہل ایمان کی وہ اولین جماعت، جو مہاجرین او رانصار ہیں ، مجاہدین فی سبیل الله ہیں، الله کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں ، مہاجرین کو ٹھکانہ فراہم کرنے والے او ران کی نصرت وامداد کرنے والے ہیں ، ایک دوسرے کے دوست اور امین، معاون ومدد گار ہیں ، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی معیت میں رہنے والے مقدس او رپاک باز لوگوں کی جماعت ہے ،کفار کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان، نرم دل اور شیر وشکر ہیں۔
عبادت خداوندی میں مصروف رہتے ہیں اپنے رب کی رضا کو چاہنے والے ہیں، ان کی بزرگی او رنیکی کے آثار وانوار ان کے مبارک چہروں سے ظاہر وتاباں ہیں، صحابہٴ کرام کی یہ صفات صرف قرآن کریم ہی میں نہیں ، بلکہ اس سے پہلے کی کتابوں ، تورات ، انجیل میں بھی مذکور چلی آرہی ہیں۔
صحابہٴ کرام کی جماعت کو الله تعالیٰ نے تدریجاً ارتقا عطا فرمایا، اسی طرح تدریجاً دین اسلام او راہل ایمان کا غلبہ اور ارتقا ہو گا، ان کی ترقی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے لیے باعث خوشی ہے او ران کے دشمنوں وکفار کے لیے باعث عداوت ہے، الله نے ان صحابہ سے مغفرت او راجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔
الله رب العزت نے یہ بھی بتلایا کہ صحابہ کی جماعت کو معتدل جماعت بنایا ہے، یہ لوگوں پر گواہ ہوں گے او ررسول الله صلی الله علیہ وسلم ان پر گواہ ہوں گے ، یہ صحابہ وہ لوگ ہیں جو اس نبی کی اتباع وپیروی کرتے ہیں جس کی صفات تورات وانجیل میں مذکور ہوئی ہیں ، صحابہ رضی الله عنہم جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لایا، آپ کی رفاقت اختیار کی ، مدد ونصرت کی اورآپ پر اترے ہوئے قرآن کریم کی اتباع کی ، وہی لوگ ( صحابہ کرام) اپنی مراد کو پہنچنے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔
الله تعالیٰ نے مہربانی فرمائی نبی صلی الله علیہ وسلم پر، ان کے ساتھی مہاجرین وانصار پر، جو ان کے ساتھ مشکل وقت میں ساتھ رہے ، وہ ایمان والے جنہوں نے درخت کے نیچے الله کے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی، الله ان سے راضی ہوا، ان پر سکینہ نازل فرمایا اور صحابہ میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ، ان کی مدد کرنے والے انصار ، ان کے پیروکار، ان سب سے الله راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے ، الله نے ان کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کام یابی ہے اور یہی صحابہ کام یابی کو پانے والے ہیں۔
الله نے قرآن پاک کو نازل فرمایا، اس سے خوف خدا رکھنے والے صحابہٴ کرام کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کی کھال اور دل الله کے ذکر سے نرم ہو جاتے ہیں ، الله کی آیات پر ایمان لانے والے صحابہ جب ان آیات کو سنتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں او را س پاک ذات کو یاد کرتے ہیں ، ان کے پہلوں اپنی خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں، یہ اپنے رب کو خوف او رامید سے پکارتے ہیں اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں ، لہٰذا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جو کچھ الله نے چھپا رکھا ہے وہ کسی نفس کو معلوم نہیں اور جو کچھ الله کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے او رباقی رہنے والا بھی ہے۔
اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں ، غصہ آجائے تو معاف کرتے ہیں ، اپنے رب کے حکم کو انہوں نے مان لیا ہے او رنماز کو قائم کیا ہے، ان کے معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں، ان اہل ایمان صحابہ میں سے کتنے ہی وہ مرد ہیں جنہوں نے الله کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور اپنی ذمہ داری پوری کر دی اور کتنے ہی ایسے ہیں جو انتظار میں ہیں اوران میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ، الله سچوں کو بدلہ دے گا او رمنافقین کو چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف فرما دے ، الله تعالیٰ بخشنے والے اورمہربان ہیں، کیا وہ جو رات کی گھڑیوں میں بندگی میں لگا ہوا ہے سجدے کرتا ہے، قیام کرتا ہے، آخرت کا ڈر رکھتا ہے ، اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے ، تو کیا سمجھ رکھنے والے اور ناسمجھ برابر ہوسکتے ہیں، ہر گز نہیں۔
ایمان او ردیگر ایمانی صفات، نماز، روزہ،حج، زکوٰة جہاد فی سبیل الله، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر، تقویٰ، پرہیز گاری، انفاق فی سبیل الله اور اخلاص نیت وغیرہ میں حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنہم ہمیشہ کار بند او رعمل پیرا رہے او رباہمی الفت ومحبت ، شفقت ورحمت کی صفت پر بھی ان کا عمل دائمی رہا، کیوں کہ الله نے ان پر پرہیز گاری کی بات کو لازم کردیا تھا اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے۔
نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ رضی الله عنہم
امام الانبیا، خاتم النبیین، جناب حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو الله تبارک وتعالیٰ نے تاقیامت انسانیت کی رُشد وہدایت کے لیے آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کو الله تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کو دنیا وآخرت کی کام یابیاں دلانے کے لیے اپنا کامل ومکمل دین عنایت فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا حکم دیا کہ جو کچھ ہم نے آپ کو دین کی صورت میں عطا کیا ہے آپ اس کی تبلیغ کیجیے۔
خوش نصیب افراد
دوسری طرف خود حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو اہلِ ایمان کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا، حضرت صحابہ کرام رضوان الله عنہم اجمعین حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وہ مقدس جماعت ہے ، جنہوں نے حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا، بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا عملی طور سے مشاہدہ کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم سے دین کو سیکھا اور وہ اس کے اول پھیلانے والے خوش نصیب افراد ہیں۔
مقدس جماعت
یہی وہ مبارک او رپاک باز جماعت ہے جسے الله رب العزت نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت اور مصاحبت کے لیے چنا او رمنتخب فرمایا، چناں چہ حضرات صحابہ رضی الله عنھم دین کی بنیاد او رمعیارِ ایمان ہیں، بلکہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مبارک او رپاکیزہ زندگی کو سمجھنے، پہچاننے او راس پر عمل کرنے کے لیے اگر کسی کی زندگی معیار ہو سکتی اور یقینا ہے بھی تو وہ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی مبارک ومقدس جماعت ہے۔
یہی وہ جماعت ہے جس نے براہ راست مشکوٰة نبوت سے استفادہ کیا، چناں چہ جو فیض انہوں نے پایا او رایمان کی جو کیفیت وحلاوت ان کو حاصل ہوئی ، وہ بعد والوں کے لیے میسر آنا ممکن نہیں ، اسی وجہ سے الله رب العزت نے قرآن پاک میں اگر کسی نبی کے ساتھیوں کی من حیثُ الجماعت سب کے سب کی تعریف وتقدیس بیان کی ہے تو وہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہٴ کرام کی جماعت ہے ، اس طور پر کہ الله رب العزت نے صحابہٴ کرام کی پوری کی پوری جماعت کو راضی ومرضی اور راشد ومرشد فرمایا ہے۔
عدالت صحابہ رضی الله عنہم
قرنِ اوّل سے لے کر آج تک استمرار ودوام کے ساتھ امّتِ مسلمہ اہلِ سنّت والجماعت کا یہ اتفاقی واجماعی عقیدہ رہا ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنہم تمام کے تمام عادل ومتقن ہیں ، اگر وہ کسی بات پر متفق ہو جاتے ہیں تو ان کا یہ اجماع واجتماع امتِ مسلمہ کے لیے حجّت شرعیہ بن جاتا ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔
صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کی پاکیزہ اورمبارک جماعت عاداتِ کریمہ، خصائل ِ حمیدہ شمائلِ فاضلہ ،اخلاق عظیمہ اور شریعت کے تمام مسائل ودلائل، حقائق وآداب کے بارے میں علماًاور عملاً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کمالات نبوت کی آئینہ دار او رمظہر اتم ہے ، انہی پاک باز نفوس کی اتباع امتِ مسلمہ کو ضلالت وگمراہی سے بچاسکتی ہے۔
مفکر اسلام، مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کا قول:
مفکر اسلام، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب حضرات صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں:
” یہ ان مردان خدا کی تاریخ ہے کہ جب ان کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انہوں نے اس کو دل وجان سے قبول کیا او راس کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا:﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلإِیْمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا﴾․( سورة آل عمران، آیت:193)
اور اپنا ہاتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا، چناں چہ ان کے لیے الله کے راستے کی مشقتیں معمولی او رجان ومال کی قربانی آسان ہو گئی ، حتی کہ اس پر ان کا یقین محکم او رپختہ ہو گیا اور بالآخر دل وماغ پر چھا گیا، غیب پر ایمان، الله او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت ، اہل ایمان پر شفقت، کفار پر شدت، نیز آخرت کو دنیا پر، ادھار کو نقد پر، غیب کو شہود پر اورہدایت کو جہالت پر ترجیح اورہدایت عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب وغریب واقعات رونما ہونے لگے۔
الله کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر الله کی بندگی میں لانے ، مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کی عدل گستری میں پہنچانے ، دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے اور دنیوی مال ومتاع اور زیب وزینت سے بے پروا ہو جانے، الله سے ملنے او رجنت میں داخل ہونے کے شوق کے محیر العقول واقعات سامنے آنے لگے ، انہوں نے اسلام کی نعمت کو ٹھکانے لگانے، اس کی برکتوں کو اقصائے عالم میں عام کرنے اور چپے چپے کی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی ودقیقہ رسی کے باعث، اپنے گھر بار کو چھوڑا، راحت وآرام کو خیر باد کہا او راپنی جان ومال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا ، حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہو گئیں ، دل الله کی طرف مائل ہو گئے او رایمان کے ایسے مبارک، جاں فزا اور طاقت ور جھونکے چلے، جس سے توحید وایمان اور عبادات وتقوی کی سلطنت قائم ہو گئی، جنت کا بازار گرم ہو گیا، دنیا میں ہدایت عام ہو گئی اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔“
عظمت صحابہ رضی الله عنہم اور قرآن
حضرت ندوی رحمة الله علیہ نے حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنھم کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ کسی مبالغہ، یا محض عقیدت کا نتیجہ نہیں ، اس پر نہ صرف خدا کا کلام، قرآن مجید شاہد ہے ، بلکہ تاریخ انسانی، جو ایک حقیقت ارضی ہے، وہ بھی گواہ ہے ، یوں تو پورا قرآن کریم جماعت صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کی تقدیس وتعریف سے بھرا ہوا ہے ، قرآن پاک کے تیسوں پارے ان کی عظمت وبزرگی کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہے ہیں ، یہاں بطور نمونے کے چند آیات او ران کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں ، تاکہ ایک عام مسلمان قاری اس کا اندازہ لگا سکے کہحضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنھم کو کیا فضل وکمال حاصل تھا :﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِیْ الْإِنجِیْلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِیْماً ﴾․ (سورة الفتح، آیت:29)
ترجمہ: محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں او رجو لوگ اُن کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں، (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں ، تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں ، کبھی سجدے میں، ( غرض) الله کے فضل اور خوش نودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، اُن کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُن کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو توارت میں مذکور ہیں اور انجیل میں اُن کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو، جس نے اپنی کونپل نکالی ، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہو گئی ، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں ، تاکہ الله تعالیٰ ان ( کی ترقی) سے کافروں کے دل جلائے ، یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں او رانہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، الله نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:1575/3)
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَئِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْض﴾․ (سورة الانفال، آیت:72)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں او رانہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں او رجانوں سے الله کے راستے میں جہاد کیا ہے ، وہ او رجنہوں نے ان کو ( مدینہ میں) آباد کیا او ران کی مدد کی ، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ (آسان ترجمہ:550/1)
﴿وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․ (سورة آل عمران، آیت:103)
ترجمہ: اور الله کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور الله نے جوتم پر انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، پھر الله نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم الله کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے او رتم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، الله نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی ، اسی طرح الله تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:212/1)
﴿ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ، وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللّہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم﴾․ (سورة الانفال، آیت:63)
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے او رمؤمنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور اُن کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کر دی، اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کر لیتے تو ان کے دلوں میں یہ الفت پیدا نہ کر سکتے، لیکن الله نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا، وہ یقینا اقتدار کا مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک۔ (آسان ترجمہٴ قرآن:546/1)
مذکورہ بالا آیات کا خلاصہ
قرآن کریم میں اس مضمون کی او ربھی بہت ساری آیات موجود ہیں، لیکن جو آیات ہم نے ذکر کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان میں اخوت وبرادری کا تعلق ہوتا ہے ، ایمان والوں کوالله تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے تھامے رکھنی چاہیے، کیوں کہ الله نے ہی دیرینہ دشمنیوں کو محبت والفت میں بدل دیا اور اب ایمان والوں کوایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ، یہی وہ ایمان والے ہیں جن کے ذریعے الله نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تائید اورمدد ونصرت فرمائی ، ان کے دلوں میں الفت وشفقت ڈال دی ، پھر بتلایا کہ اہل ایمان کی وہ اولین جماعت، جو مہاجرین او رانصار ہیں ، مجاہدین فی سبیل الله ہیں، الله کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں ، مہاجرین کو ٹھکانہ فراہم کرنے والے او ران کی نصرت وامداد کرنے والے ہیں ، ایک دوسرے کے دوست اور امین، معاون ومدد گار ہیں ، حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی معیت میں رہنے والے مقدس او رپاک باز لوگوں کی جماعت ہے ،کفار کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان، نرم دل اور شیر وشکر ہیں۔
عبادت خداوندی میں مصروف رہتے ہیں اپنے رب کی رضا کو چاہنے والے ہیں، ان کی بزرگی او رنیکی کے آثار وانوار ان کے مبارک چہروں سے ظاہر وتاباں ہیں، صحابہٴ کرام کی یہ صفات صرف قرآن کریم ہی میں نہیں ، بلکہ اس سے پہلے کی کتابوں ، تورات ، انجیل میں بھی مذکور چلی آرہی ہیں۔
صحابہٴ کرام کی جماعت کو الله تعالیٰ نے تدریجاً ارتقا عطا فرمایا، اسی طرح تدریجاً دین اسلام او راہل ایمان کا غلبہ اور ارتقا ہو گا، ان کی ترقی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے لیے باعث خوشی ہے او ران کے دشمنوں وکفار کے لیے باعث عداوت ہے، الله نے ان صحابہ سے مغفرت او راجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔
الله رب العزت نے یہ بھی بتلایا کہ صحابہ کی جماعت کو معتدل جماعت بنایا ہے، یہ لوگوں پر گواہ ہوں گے او ررسول الله صلی الله علیہ وسلم ان پر گواہ ہوں گے ، یہ صحابہ وہ لوگ ہیں جو اس نبی کی اتباع وپیروی کرتے ہیں جس کی صفات تورات وانجیل میں مذکور ہوئی ہیں ، صحابہ رضی الله عنہم جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لایا، آپ کی رفاقت اختیار کی ، مدد ونصرت کی اورآپ پر اترے ہوئے قرآن کریم کی اتباع کی ، وہی لوگ ( صحابہ کرام) اپنی مراد کو پہنچنے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔
الله تعالیٰ نے مہربانی فرمائی نبی صلی الله علیہ وسلم پر، ان کے ساتھی مہاجرین وانصار پر، جو ان کے ساتھ مشکل وقت میں ساتھ رہے ، وہ ایمان والے جنہوں نے درخت کے نیچے الله کے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی، الله ان سے راضی ہوا، ان پر سکینہ نازل فرمایا اور صحابہ میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ، ان کی مدد کرنے والے انصار ، ان کے پیروکار، ان سب سے الله راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے ، الله نے ان کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کام یابی ہے اور یہی صحابہ کام یابی کو پانے والے ہیں۔
الله نے قرآن پاک کو نازل فرمایا، اس سے خوف خدا رکھنے والے صحابہٴ کرام کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں، ان کی کھال اور دل الله کے ذکر سے نرم ہو جاتے ہیں ، الله کی آیات پر ایمان لانے والے صحابہ جب ان آیات کو سنتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں او را س پاک ذات کو یاد کرتے ہیں ، ان کے پہلوں اپنی خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں، یہ اپنے رب کو خوف او رامید سے پکارتے ہیں اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں ، لہٰذا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جو کچھ الله نے چھپا رکھا ہے وہ کسی نفس کو معلوم نہیں اور جو کچھ الله کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے او رباقی رہنے والا بھی ہے۔
اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں ، غصہ آجائے تو معاف کرتے ہیں ، اپنے رب کے حکم کو انہوں نے مان لیا ہے او رنماز کو قائم کیا ہے، ان کے معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں، ان اہل ایمان صحابہ میں سے کتنے ہی وہ مرد ہیں جنہوں نے الله کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور اپنی ذمہ داری پوری کر دی اور کتنے ہی ایسے ہیں جو انتظار میں ہیں اوران میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ، الله سچوں کو بدلہ دے گا او رمنافقین کو چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف فرما دے ، الله تعالیٰ بخشنے والے اورمہربان ہیں، کیا وہ جو رات کی گھڑیوں میں بندگی میں لگا ہوا ہے سجدے کرتا ہے، قیام کرتا ہے، آخرت کا ڈر رکھتا ہے ، اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے ، تو کیا سمجھ رکھنے والے اور ناسمجھ برابر ہوسکتے ہیں، ہر گز نہیں۔
ایمان او ردیگر ایمانی صفات، نماز، روزہ،حج، زکوٰة جہاد فی سبیل الله، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر، تقویٰ، پرہیز گاری، انفاق فی سبیل الله اور اخلاص نیت وغیرہ میں حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنہم ہمیشہ کار بند او رعمل پیرا رہے او رباہمی الفت ومحبت ، شفقت ورحمت کی صفت پر بھی ان کا عمل دائمی رہا، کیوں کہ الله نے ان پر پرہیز گاری کی بات کو لازم کردیا تھا اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے۔