انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج میں رکاوٹ کیوں؟؟؟؟
Posted: Sun Apr 29, 2012 9:23 am
دعوے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ پاکستان میں عوام کی بہت بڑی اکثریت اردو بولتی، سمجھتی، پڑھتی یا لکھتی ہے۔ گو کہ یہ پاکستان کی 10 فیصد آبادی کی بھی مادری زبان نہیں ہے لیکن یہ عوامی زبان ضرور ہے۔ چاہے آپ گلگت جیسے دور افتادہ علاقے میں ہوں یا گوادر کے ساحلوں پر، تھر کے تپتے ریگستانوں میں ہوں یا کشمیر کی حسیں وادیوں میں، آپ کو رابطے میں کوئی مشکل نہ ہوگی اگر آپ اردو بولنا جانتے ہیں۔ یہ گویا چاروں صوبوں کی حقیقی زنجیر ہے۔
مجھے یہ بات قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو زبان میں بہت اعلیٰ اور تخلیقی مواد موجود نہیں ہے تاہم پاکستان میں تخلیق ہونے والا انگریزی مواد بھی کوئی انتہائی اعلی و تحقیقی نوعیت کا نہیں ہے۔ پاکستان کے حوالے سے جو اچھا مواد تخلیق ہو رہا ہے وہ بیرونی ممالک ہی سے ہو رہا ہے چاہے وہ غیر ملکی کر رہے ہوں یا تارکین وطن پاکستانی۔ اس طرح دیکھا جائے تو دونوں جانب صورتحال تقریباً یکساں ہی ہے۔ ہاں اردو میں اچھا اور تعمیری لکھنے والوں کی کمی ضرور ہے۔اب ہم اس بات کو ہی لے لیں کہ کہ ہم موبائل کو اردو میں کیا کہیں گے،کار کو کیا کہیں گے،سم کارڈ،چارجر، ٹیلیفون، ٹی وی،سٹیمپ اور بھی کئ ایسی چیزیں ہیں جن کے الفاظ ہم آج تک اردو میں میں نہیں ایجاد کر سکے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو جہاں شروع میں تھی وہاں ہی ہے ہم حالات کہ مطابق اس میں کو ئی تبدیلی نہیں لا سکے۔اس میں قصور کس کا ہے میں نہیں جانتا۔مگر کیا ڈیجیٹل عہد میں اردو انقلاب رونما ہو سکے گا؟
ایک مسئلہ جو کافی دنوں سے مجھے پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اردو ویب سائٹس اور بلاگز کو زیادہ وزٹ کیوں نہیں ملتے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ ایک اوسط یا کم درجے کے انگریزی بلاگ کو بھی کسی بہت اچھے اردو بلاگ سے زیادہ وزٹ ملتے ہیں۔ کیوں؟ گو کہ دونوں کی تحاریر کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
مختلف دوستوں کے ساتھ اس مسئلے پر گفتگو کے بعد اس کی جو سادہ سی وجہ نظر آئی ہے وہ ہے کمپیوٹر پر اردو استعمال نہ ہونا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس کی وجہ اس مغالطے کا عام ہونا ہے کہ کمپیوٹر کی زبان ‘انگریزی’ ہے۔ ملک کے 98 فیصد عوام انگریزی میں اظہار خیال نہیں کر سکتے یا اپنی بات اچھی طرح سے بیان نہیں کر سکتے۔ اور انٹرنیٹ کے صارفین میں بھی یہ شرح کافی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود انٹرنیٹ پر سرچ کرنے سے لے کر ویب سائٹس ملاحظہ کرنے تک لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انگریزی ہی میں ہوگی۔
ایک سادہ سی مثال لوگوں کے سرچ کرنےکے رحجانات کی ہی دیکھ لیجیے۔ اگر انہیں قائد اعظم رحمت اللہ علیہ پر مضمون اردو میں بھی درکار ہوگا تب بھی وہ یہ لکھ کر سرچ کریں گے Quaid-e-Azam article in Urdu۔ اب مجھے یہ بتائیے کہ in Urdu لکھ دینے سے کیا انہیں آرٹیکل اردو میں مل جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ اس کے لیے لوگوں کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی معلومات اردو میں درکار ہے تو اسے اردو میں تلاش کرنا ہوگا اور اس کے لیے انہیں اپنے کمپیوٹر کو اردو لکھنے کے قابل بنانا ہوگا۔
اردو کی تنزلی میں ان پیج کا کردار
میری اس دلیل سے ہو سکتا ہے بہت سارے لوگوں کا دل دکھے لیکن یہ بات میں ضرور کہوں گا کہ اس معاملے میں اردو کو سب سے زیادہ نقصان ‘ان پیج’ نامی سافٹ ویئر نے پہنچایا ہے۔ اس نے عوام کو یہ چور دروازے دکھائے کہ وہ ناقابل تلاش (لیکن خوبصورت) مواد انٹرنیٹ پر رکھیں اور ساتھ ہی بھانت بھانت کے کی بورڈز کا آپشن دے کر بھی اردو کی مرکزیت ختم کر دی۔ آپ خود دیکھ لیں، آپ کے قریب جو 5 افراد اردو ٹائپ کرنا جانتے ہیں وہ سب ایک کی بورڈ کے استعمال پر متفق نہیں ہوں گے۔ کوئی فونیٹک کرتا ہوگا، کوئی مقتدرہ، کوئی مونو ٹائپ تو کوئی اپنی مرضی کا۔ یہ راستہ ان کو کس نے دکھایا؟ ان پیج نے۔
جب ونڈوز 98ء آئی اور کمپیوٹر عربی و اس سے ملتی جلتی زبانوں میں لکھنے کے قابل ہوا تو زبانوں نے انتظار نہیں کیا کہ ہماری زبان کا نستعلیق فونٹ بن جائے تب اسے استعمال کریں گے۔ مثلاً فارسی۔ فارسی جو نستعلیق میں لکھی جاتی ہے نسخ کے ساتھ ایسی بندھ گئی کہ اب وہاں نسخ کے اخبارات تک نکلتے ہیں۔ دوسری طرف میں سندھی زبان کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ سندھی اُس وقت سے آج تک مائیکروسافٹ ورڈ اور دیگر ورڈ پروسیسرز پر لکھی جاتی ہے۔ اس کا ایک ہی کی بورڈ ہے اور بہت پہلے اسٹینڈرڈ فونٹ بھی بنا لیا گیا تھا۔
اس کے مقابلے میں اردو والوں نے نستعلیق کے انتظار میں اپنا ستیاناس کر لیا اور اس بیڑے کو غرق کرنے میں سب سے بڑا حصہ ان پیج کا رہا۔ جس کی بدولت لوگوں نے اپنی سائٹ پر امیج بیسڈ اردو مواد کو دھڑا دھڑ شامل کیا اور اب حالت یہ ہے کہ اہم ترین اخبارات اور جرائد کا وہ مواد جو اردو کا بہت بڑا ذخیرہ بن سکتا تھا، ناقابل تلاش (unsearchable) ہو کر ضایع ہو چکا ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ گزشتہ 30 سالوں کے اردو ڈائجسٹ، اخبار جہاں، اور روزنامہ جنگ ہی کا مواد اتنا ہے کہ اردو کو کسی موضوع کی کمی محسوس نہ ہوگی۔ لیکن صرف اور صرف ان پیج کی وجہ سے آج ہم اس مواد سے محروم ہیں۔ 10 سالوں کے اخبار جہاں اور جنگ کے میگزینز انٹرنیٹ پر موجود ہیں لیکن ہم انہیں تلاش نہیں کر سکتے۔ اب مجھے کیا معلوم کہ اپریل 2006ء کے تیسرے ہفتے کے اخبار جہاں کے صفحہ نمبر 56 پر راجر فیڈرر کے حوالے سے اک شاندار مضمون موجود ہے؟ بلکہ میں اسی تصویری صورت کی وجہ سے ایک اچھا مضمون پڑھنے سے محروم ہو گیا۔
ابو شامل
مجھے یہ بات قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو زبان میں بہت اعلیٰ اور تخلیقی مواد موجود نہیں ہے تاہم پاکستان میں تخلیق ہونے والا انگریزی مواد بھی کوئی انتہائی اعلی و تحقیقی نوعیت کا نہیں ہے۔ پاکستان کے حوالے سے جو اچھا مواد تخلیق ہو رہا ہے وہ بیرونی ممالک ہی سے ہو رہا ہے چاہے وہ غیر ملکی کر رہے ہوں یا تارکین وطن پاکستانی۔ اس طرح دیکھا جائے تو دونوں جانب صورتحال تقریباً یکساں ہی ہے۔ ہاں اردو میں اچھا اور تعمیری لکھنے والوں کی کمی ضرور ہے۔اب ہم اس بات کو ہی لے لیں کہ کہ ہم موبائل کو اردو میں کیا کہیں گے،کار کو کیا کہیں گے،سم کارڈ،چارجر، ٹیلیفون، ٹی وی،سٹیمپ اور بھی کئ ایسی چیزیں ہیں جن کے الفاظ ہم آج تک اردو میں میں نہیں ایجاد کر سکے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو جہاں شروع میں تھی وہاں ہی ہے ہم حالات کہ مطابق اس میں کو ئی تبدیلی نہیں لا سکے۔اس میں قصور کس کا ہے میں نہیں جانتا۔مگر کیا ڈیجیٹل عہد میں اردو انقلاب رونما ہو سکے گا؟
ایک مسئلہ جو کافی دنوں سے مجھے پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اردو ویب سائٹس اور بلاگز کو زیادہ وزٹ کیوں نہیں ملتے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ ایک اوسط یا کم درجے کے انگریزی بلاگ کو بھی کسی بہت اچھے اردو بلاگ سے زیادہ وزٹ ملتے ہیں۔ کیوں؟ گو کہ دونوں کی تحاریر کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
مختلف دوستوں کے ساتھ اس مسئلے پر گفتگو کے بعد اس کی جو سادہ سی وجہ نظر آئی ہے وہ ہے کمپیوٹر پر اردو استعمال نہ ہونا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس کی وجہ اس مغالطے کا عام ہونا ہے کہ کمپیوٹر کی زبان ‘انگریزی’ ہے۔ ملک کے 98 فیصد عوام انگریزی میں اظہار خیال نہیں کر سکتے یا اپنی بات اچھی طرح سے بیان نہیں کر سکتے۔ اور انٹرنیٹ کے صارفین میں بھی یہ شرح کافی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود انٹرنیٹ پر سرچ کرنے سے لے کر ویب سائٹس ملاحظہ کرنے تک لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انگریزی ہی میں ہوگی۔
ایک سادہ سی مثال لوگوں کے سرچ کرنےکے رحجانات کی ہی دیکھ لیجیے۔ اگر انہیں قائد اعظم رحمت اللہ علیہ پر مضمون اردو میں بھی درکار ہوگا تب بھی وہ یہ لکھ کر سرچ کریں گے Quaid-e-Azam article in Urdu۔ اب مجھے یہ بتائیے کہ in Urdu لکھ دینے سے کیا انہیں آرٹیکل اردو میں مل جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ اس کے لیے لوگوں کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی معلومات اردو میں درکار ہے تو اسے اردو میں تلاش کرنا ہوگا اور اس کے لیے انہیں اپنے کمپیوٹر کو اردو لکھنے کے قابل بنانا ہوگا۔
اردو کی تنزلی میں ان پیج کا کردار
میری اس دلیل سے ہو سکتا ہے بہت سارے لوگوں کا دل دکھے لیکن یہ بات میں ضرور کہوں گا کہ اس معاملے میں اردو کو سب سے زیادہ نقصان ‘ان پیج’ نامی سافٹ ویئر نے پہنچایا ہے۔ اس نے عوام کو یہ چور دروازے دکھائے کہ وہ ناقابل تلاش (لیکن خوبصورت) مواد انٹرنیٹ پر رکھیں اور ساتھ ہی بھانت بھانت کے کی بورڈز کا آپشن دے کر بھی اردو کی مرکزیت ختم کر دی۔ آپ خود دیکھ لیں، آپ کے قریب جو 5 افراد اردو ٹائپ کرنا جانتے ہیں وہ سب ایک کی بورڈ کے استعمال پر متفق نہیں ہوں گے۔ کوئی فونیٹک کرتا ہوگا، کوئی مقتدرہ، کوئی مونو ٹائپ تو کوئی اپنی مرضی کا۔ یہ راستہ ان کو کس نے دکھایا؟ ان پیج نے۔
جب ونڈوز 98ء آئی اور کمپیوٹر عربی و اس سے ملتی جلتی زبانوں میں لکھنے کے قابل ہوا تو زبانوں نے انتظار نہیں کیا کہ ہماری زبان کا نستعلیق فونٹ بن جائے تب اسے استعمال کریں گے۔ مثلاً فارسی۔ فارسی جو نستعلیق میں لکھی جاتی ہے نسخ کے ساتھ ایسی بندھ گئی کہ اب وہاں نسخ کے اخبارات تک نکلتے ہیں۔ دوسری طرف میں سندھی زبان کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ سندھی اُس وقت سے آج تک مائیکروسافٹ ورڈ اور دیگر ورڈ پروسیسرز پر لکھی جاتی ہے۔ اس کا ایک ہی کی بورڈ ہے اور بہت پہلے اسٹینڈرڈ فونٹ بھی بنا لیا گیا تھا۔
اس کے مقابلے میں اردو والوں نے نستعلیق کے انتظار میں اپنا ستیاناس کر لیا اور اس بیڑے کو غرق کرنے میں سب سے بڑا حصہ ان پیج کا رہا۔ جس کی بدولت لوگوں نے اپنی سائٹ پر امیج بیسڈ اردو مواد کو دھڑا دھڑ شامل کیا اور اب حالت یہ ہے کہ اہم ترین اخبارات اور جرائد کا وہ مواد جو اردو کا بہت بڑا ذخیرہ بن سکتا تھا، ناقابل تلاش (unsearchable) ہو کر ضایع ہو چکا ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ گزشتہ 30 سالوں کے اردو ڈائجسٹ، اخبار جہاں، اور روزنامہ جنگ ہی کا مواد اتنا ہے کہ اردو کو کسی موضوع کی کمی محسوس نہ ہوگی۔ لیکن صرف اور صرف ان پیج کی وجہ سے آج ہم اس مواد سے محروم ہیں۔ 10 سالوں کے اخبار جہاں اور جنگ کے میگزینز انٹرنیٹ پر موجود ہیں لیکن ہم انہیں تلاش نہیں کر سکتے۔ اب مجھے کیا معلوم کہ اپریل 2006ء کے تیسرے ہفتے کے اخبار جہاں کے صفحہ نمبر 56 پر راجر فیڈرر کے حوالے سے اک شاندار مضمون موجود ہے؟ بلکہ میں اسی تصویری صورت کی وجہ سے ایک اچھا مضمون پڑھنے سے محروم ہو گیا۔
ابو شامل