حضرت شیخ الہند کی خوشبو

مہکتی باتیں، اقوال زریں کا مجموعہ
Post Reply
احمداسد
کارکن
کارکن
Posts: 74
Joined: Fri Apr 15, 2011 6:54 pm
جنس:: مرد
Location: rawalpindi
Contact:

حضرت شیخ الہند کی خوشبو

Post by احمداسد »

تحریر: مولانا مدثرجمال تونسوی

دورات تفسیر آیات الجہاد اور اس سر چشمہ خیر کے بانی و داعی حضرت اقدس امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ اہل حق اور متلاشیان صداقت کےلئے نعمت عظمیٰ، خیر کثیر اور حضرت شیخ الہندؒ کی قلبی تمناﺅں اور آرزوﺅں کا ثمر بارآورہیں۔یاد رہے کہ یہ دورہ تفسیرآیات الجہاد ہر ماہ مرکز عثمان و علی رضی اللہ عنھما بہاولپورمیں پڑھایا جاتا ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ جس وقت انگریزی استعمار کی قید و بند، اسارت مالٹا سے رہا ہو کر ہندوستان تشریف لائے، اس وقت ایک موقع پر آپ نے مسلمانوں کی تنزلی کے دو بنیادی اسباب کی نشاندہی کی جو آج بھی صفحات تاریخ پر زریں حروف سے نمایاں طور پر رقم ہے۔ مسلمانوں کی تنزلی کے جو اسباب حضرت نے بیان فرمائے وہ دو ہیں(۱) مسلمانوں کے باہمی اختلافات و انتشار(۲) قرآن کریم سے غفلت و روگردانی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور اہل حق کے باہمی تنازعات کے خاتمے یا قابل قبول حل کی سب سے عمدہ ،بہترین، لائق توجہ اور قابل عمل تجویز کیا ہے؟ یہ سوال بہت شدت سے تقریباً مسلمانوں کے ہر طبقے میں دھرایا جاتا ہے اور ہر سطح پر اپنی اپنی صوابدید اور سوجھ بوجھ کے مطابق اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے، ہم اپنے قارئین کے سامنے بھی اس کا ایک جواب عرض کرتے ہیں۔ امید ہے اگر اس پر سنجیدہ غور کیا جائے تو اصل بات کی تہہ تک پہنچنا کافی آسان ہو جائے گا۔
نبی کریمﷺ کی وفات صد حسرت آیات کے بعد حضرات صحابہ کرام نے کس امر کو سب سے اولیت دی اور کیوں دی؟ اس سوال کے جواب میں ہمارے اصل سوال کا جواب پوشیدہ ہے۔ تفصیلات و جزئیات سے قطع نظر کرتے ہوئے مختصر اتنا عرض ہے کہ سب سے پہلے حتیٰ کہ خود نبی کریمﷺ کی تدفین سے بھی پہلے ” بیعت و امارت “ کے مسئلے پر توجہ دی گئی اور اس معاملے کو حل کرنے کےلئے تمام اکابر و اعیان صحابہ نے بھر پور حصہ لیا اور کسی نے بھی اس معاملے کو موخر کرنے کی تجویز پیش نہیں کی اور وجہ اس کی فقط یہی ” مسلمانوں کی اجتماعیت“ کو محفوظ و مامون بنانا اور باہمی اختلاف و انتشار کی راہیں مسدود کرنا تھی۔ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک نبی خود زندہ ہوتا ہے تو اس کے امتی اس کی زیر اطاعت متفق و متحد رہتے ہیں اور نبی خود ان کی نگرانی کر کے اختلاف و انتشار در آنے کے ہر راستے پر کڑی نظر رکھتے اور اسے بند رکھتے ہیں۔ پھر جب نبی کی وفات ہو جائے تو تب نائب نبی اور خلیفة المسلمین کا قیام و وجود انتہائی ناگزیر ہو جاتا ہے جو مسلمانوں کی اجتماعیت کو ٹوٹنے اور نقصان پہنچنے سے روک سکے تاکہ تمام مسلمان اس ” امیر اور خلیفہ“ کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر متفق و متحد رہ جائیں اور کوئی ان میں رخنہ اندازی نہ کر سکے۔حتیٰ کہ اگر کوئی اس ”امارت و خلافت“ میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرے تو شریعت ایسے اقدام کو نہایت مذموم اور ناقابل برداشت فعل شمار کرتی ہے اور اس دوسرے شخص کو جو پہلے سے متعین ” امام و امیر“ کے مقابلے میں اپنا جھنڈا لہراتا ہے، اس کے قتل کا حکم صادر کرتی ہے۔ شریعت کا یہ اتنا سخت اور اہم اقدام بھی محض اس لئے ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت محفوظ رہے۔
اس وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کی اجتماعیت قائم کرنے اور باہمی اختلاف و انتشار ختم کرنے کےلئے ایک ایسے ” امام ، امیر اور خلیفہ“ کا وجود ضروری ہے جو نیابت نبوت اور منصب امامت کی صفات کا اہل ہو۔ تمام مسلمانوں پر مجموعی حیثیت سے ایسے شخص کو تلاش کرنا اور اسے یہ منصب سونپنا اہم فرائض میں سے ہے اور جب ایسا شخص مل جائے تو پھر اسے اس منصب سے دور رکھنا، اس سے روگردانی کرنا اور اس کا ساتھ نہ دینا خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہے۔ ایسے موقع پر نیک بخت اور سعادت مند ہو گا وہ مسلمان جو اس نعمت عظمیٰ کی قدر پہچان لے اور خود کو اس کے دامن سے وابستہ کر لے۔
اب ہم موجودہ حالات اور اپنے گرد و پیش صورتحال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آیا کسی خطے میں ایسا خوش نصیب انسان موجود ہے جو ” منصب امامت“ کا اہل ہو؟ ممکن ہے کسی کو اس کے جواب میں غور و فکر میں کھپنا پڑ جائے تو ہم خود ہی ایک نام کی نشاندہی کئے دیتے ہیں۔بتلائیے امیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ کا نام نامی کیسا رہے گا؟ جن کی اہلیت جانچنے کےلئے خوردبین لگانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان کا پانچ سالہ ” دور خلافت“ اس کی روشن دلیل، سچی نشانی اور مدلل ثبوت ہے۔ تو کیا ان سے رشتہ ناطہ توڑ کر، ان کی حمایت سے دستبرداری اختیار کر کے اگر کوئی مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی بات کرتا ہے تو خود سوچیے آیا اس نے درست سمت کا انتخاب کیا ہے یا وہ غلط رخ پر جا رہا ہے اور نہ معلوم کتنوں کو اپنے ساتھ اصل راستے سے دور کئے جا رہا ہے اور اس کے مقابل جو شخص ہر ظلم و ستم، ہر طعنہ و ملامت، ہر تنگی و مصیبت برداشت کر کے اُن سے وفا کے عہد پر قائم ہے اور دوسروں کو بھی دیہی دعوت دیکر انہیں اتحاد و اتفاق کی رسی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے آیا وہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہے یا نہیں؟ یقیناً ایسا شخص مسلمانوں کا بہت بڑا خیر خواہ ہے ،اب یہ خود مسلمانوں پر منحصر ہے کہ ان میں کون حقیقت شناسی کی منزل طے کر کے اس دعوت پر لبیک کہتا ہے اور کون شکوک و شبہات اور اوہام و خدشات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اس نعمت عظمیٰ سے محروم رہتا ہے۔ پھر خاص طور پر ” نسبت شیخ الہندؒ“ رکھنے والوں اور اس نسبت کو اپنے لئے فخر و اعزاز شمار کرنے والوں کےلئے خاص لمحہ فکریہ ہے کہ وہ حضرت شیخ الہندؒ کے افکار و خیالات سے پھیلنے والی اس خوشبوئے دلآویز سے اپنے مشام جان و روح کو معطر و معنبر بنانے کےلئے کس درجہ عزم و ہمت اور دلیری و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آخر حضرت شیخ الہندؒ کی اس وصیت اور اہم پیغام کی لاج ان سے نسبت رکھنے والے قائم نہیں رکھیں گے تو اور کون قدم بڑھائے گا؟ حضرت کے بتائے ہوے دو نکتوں میں سے پہلے نکتے کے حوالے سے جو عرض کرنا تھا مختصراً و اشارةً آپ کے سامنے ہے۔
اب آتے ہیں دوسرے نکتے کی طرف ،یعنی مسلمانوں کی تنزلی کا دوسرا اہم سبب ” قرآن کریم“ سے دوری، بے رغبتی، غفلت اور روگردانی ہے۔یہ حقیقت تو بالکل اظہر من الشمس ہے اور قرآن و حدیث کی واضح نصوص اس کی دلیل ہیں اور چودہ صدیوں پر پھیلی اسلامی تاریخ کا ہر ہر ورق اس کا زندہ ثبوت ہے۔نبی کریمﷺ کا یہ فرمان صدق نشان کتنا واضح پیغام اور کھلی تنبیہ ہے فرمایا:
” ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“
بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب قرآن کے ذریعہ بہت سی اقوام کو سر بلند فرماتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ کا فرمان ہے:” اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی برکت سے عزتیں دی ہیں،اگر ہم اسلام کے علاوہ کہیں اور عزت تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل و رسوا کر دیں گے۔“
حالات ہمارے سامنے ہیں، جب سے مسلمانوں نے قرآن سے بے رخی کی ہے اور یہ وبا ہم میں عام ہوئی ہے، اسی وقت سے ہم تنزلی و انحطاط کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ قرآن کریم میں تدبر کرنا، غور و فکر کرنا، اس کے احکام و تعلیمات سیکھنا، ان سے آگاہی حاصل کرنا، ان پر عمل کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کا حق ادا کرنا ، اس پر کامل ایمان رکھنا یہ اہم حقوق ہیں جو ہر مسلمان پر عائد ہوتے ہیں لیکن صورتحال اتنی افسوسناک اور پریشان کن ہے کہ اب تو قرآن پرکامل ایمان والا معاملہ بھی بگاڑنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ قرآنی احکامات میں تفریق، بعض کو ماننا اوربعض کو نہ ماننا جیسی بری خصلت آہستہ آہستہ سرایت کر رہی ہے ۔جہاد کے اقرار و انکار کی کیفیت اس کی ایک بڑی مثال ہے ورنہ کتنے ہی قرآنی احکامات جو اپنے نفس پر گراں ہیں یا اپنی گمراہ کن فکر سے مختلف ہیں ان کا انکار کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں میں یہ فتنہ بہت باریکی سے اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔یہ فتنہ یہودیوں کی ان نمایاں بری خصلتوں میں سے ایک ہے جس کے سبب وہ اللہ کی لعنت کے مستحق ٹھہرے۔قرآن کریم کی یہ سچی تنبیہ ملاحظہ کریں:
”(یہ) کیا (بات ہے کہ) تم کتاب اللہ کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کر دیتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں ان کی سزا یہ ہو گی کہ وہ دنیا کی زندگی میں رسوا ہوں گے اور قیامت کے دن سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں“(بقرہ:۵۷)
اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں کے معاشرے کا جائزہ لیں تو کتنی دردناک مگر سچی صورتحال سامنے آتی ہے۔ ہم نے جس جس حکم قرآنی کو ٹھکرایا۔ اس کے بدلے کیسی کیسی ذلتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم معاشرے سے پردہ غائب ہوا، تو بے حیائی اور بدنظری کی وبا پھوٹ پڑی، رشوت خوری کا ناسور پھیلا تو امانت و دیانت کے حسین پھول مرجھا گئے، سود خوری جیسی لعنت نے پر نکالے تو انسانی اقدار اور اخلاص و محبت نابود ہو گئے اور حلال و حرام کی تمیز اٹھ گئی، نمازوں سے غفلت عام ہوئی تو معاشرے سے اطمینان اور سکون چھن گیا اور جہاد سے روگردانی کا جرم سرزد ہوا اور اب تک مسلسل ہو رہا ہے تو اسلام دشمن طاقتوں کے ہر تیر کا نشانہ مسلمان ہی بن رہے ہیں، ان حالات میں امت مسلمہ کو قرآن اور جہاد کی طرف بلانا کتنا ضروری ہے اور الحمد للہ امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ نے اس میدان میں بھی اپنے سینے میں محفوظ ” وراثت نبوت“ کا حق ادا کرتے ہوئے ” دورات تفسیر آیات الجہاد“ کا عظیم و مبارک سلسلے کا آغاز فرمایا جو اب تک ہزاروں مسلمانوں کو قرآن کے دامن سے وابستہ کرنے اور جہاد جیسے عظیم الشان فریضے کے احیاءمیں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور الحمد للہ اب یہ مبارک سلسلہ وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔یہ دوران تفسیر آیات الجہاد بھی درحقیقت حضرت شیخ الہندؒ کے فرمودات و افکار کی روشن میں پھیلنے والی خوشبوئے دل نواز کا حصہ ہیں، جن کی خوشبو ایک عالم کو مہکا رہی ہے۔سعادت مند اور متلاشیان حق افراد جوق درجوق ان مبارک سر چشموں سے سیراب ہو رہے ہیں۔
یہ دورات تفسیر یوںتو سال بھر مرکز عثمانؓ و علیؓ بہاولپور میں ایمانی بہاریں لٹاتے رہتے ہیں مگر رجب اور شعبان کے مہینوں میں طلبہ و فضلائے دینی مدارس کےلئے ملک بھر کے بڑے بڑے شہروں میں ان کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے کیونکہ اس پیغام کے اصل مخاطب اور ترجمان یہی صاحبان علم ہیں جنہوں نے ان علوم کی ترویج و اشاعت کرنی ہے۔
ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہ اٹھے کہ یہ دورات تو صرف آیات الجہاد کی تعلیم و ترویج کےلئے مختص ہیں حالانکہ بات پورے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے کی ہو رہی ہے تو اس کا نہایت آسان اور مشاہدہ و تجربہ پر مشتمل جواب یہ ہے کہ جہاد اسلام کی چوٹی کی بلندی ہے اگر اس اہم فریضہ سے صحیح معنی میں واقفیت حاصل کر لی جائے، اور اس سے متعلق قرآنی احکامات سیکھ لئے جائیں تو اس سے دو اہم فوائد حاصل ہوتے ہیں(۱) یہ کہ خوداس فریضے کی اہمیت دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور اس پر عمل کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے(۲) یہ کہ اسلام کے دیگر فرائض کی اہمیت بدرجہ اولیٰ دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور ان پر عمل کرنا، ان کا سیکھنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ جو آدمی اللہ کی راہ میں جان لٹانے کےلئے تیار ہو جائے اس کےلئے دیگراحکام پورا کرنا اللہ تعالیٰ بہت آسان اور سہل فرما دیتے ہیں۔دینی مدارس کے فضلائے کرام اور طلبہ عزیز سے دل کی گہرائیوں سے یہ گزارش ہے کہ پورے اخلاص اورہمت کے ساتھ ہر ساتھی خود بھی ان میں شرکت کی بھر پور کوشش کرے اور اپنے حلقہ تعلقات میں اس کی موثر دعوت بھی چلائے ،اس کا نفع چھ دنوں کے پرونق ،پر بہار ایمانی و جہادی تعلیمی حلقوں میں شرکت سے خود ہی محسوس ہو جائے گا۔ان شاءاللہ
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: حضرت شیخ الہند کی خوشبو

Post by اضواء »

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته ...

جزاك اللہ کل خیر...
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “باتوں سے خوشبو آئے”