کامران

ملکی اور غیرملکی واقعات، چونکا دینے والی خبریں اور کچھ نیا جو ہونے جا رہا ہے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

کامران

Post by علی عامر »

”سب انسان مردہ ہیں، زندہ وہ ہیں جو علم والے ہیں
سب علم والے سوئے پڑے ہیں، بیدار وہ ہیں جو عمل والے ہیں
تمام عمل والے گھاٹے میں ہیں، فائدے میں وہ ہیں جو اخلاص والے ہیں
سب اخلاص والے خطرے میں ہیں، صرف وہ کامران جو تکبر سے پاک ہیں“۔
کہر اور دھوپ کے کتنے موسم، کتنی صدیاں
امام غزالی کے دیئے سے اب بھی اجالا۔ ایسی فرصت کم نصیب ہوتی ہے، سوچا سب دوستوں کو بھیج دوں۔موبائل کی سوئی فاروق گیلانی کے نام پر آکر ٹھہر گئی ہے۔ دل اور ٹیلی فون سے نام حذف کرنے کا طریقہ نہ سیکھ سکا۔ مرحوم کے استاد ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر یہ ہے!
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اترجانے کے بعد
اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
بدھ کی شام گوجرانوالہ میں اتری اور گہری ہوتی گئی۔ کھانے کی میز پر کپتان نے کہا : تھک گیا ہوں اور لوٹ کے گھر جانا چاہتا ہوں۔ میزبان نے کہا:ابھی کہاں، ابھی کچھ کام باقی ہے۔ بے بسی سے وہ تلملایا، لیکن سرڈال دیا۔ ہمارے عہد کے عارف نے کہا تھا ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ وہ ایک پاگل جس کام میں ہاتھ ڈالے، اسے پایہٴ تکمل تک پہنچا کررہتا ہے۔ خان کی بے بسی کا میں نے لطف اٹھایا اور کہا گوجرانوالہ میں کوئی مہمان نہیں ہوتا، جنگی قیدی ہوا کرتے ہیں۔ وہ ایک شرمیلا آدمی، قہقہے میں شریک نہ ہوسکا۔ کسی نے پوچھا (کھانے میں) مزید کچھ درکار ہے۔ بولا: ہاں مرغ کی ایک ٹانگ۔ میں نے پلیٹ ان صاحب کے ہاتھ سے پکڑلی او رڈھونڈ ڈھانڈ کر پانچ سات ڈال دیں۔ حیرت سے انہوں نے میری طرف دیکھا تو عرض کیا ”لیٹر ڈالنے والے مزدور کی طرح، وہ ڈٹ کر کھاتا ہے“۔ میرا نہیں، یہ بھی عصر رواں کے درویش کا جملہ ہے۔ قائد اعظم کا ذکرتھا پھر عمران کا نام لیا غالباً وہ گاڑی کو پٹڑی پر چڑھادے گا۔کسی نے ٹوکا کہ اس کا نام اس بے مثال لیڈر کے ساتھ؟ کہا، بالکل نہیں، ان جیسا کوئی دوسرا نہ تھا۔ ہماری امیدیں الله سے وابستہ ہیں۔ اس کی تائید اسی امید پر ہے کہ کھرا نکلے گا۔ باقیوں نے مایوس کردیا ہے اور اب تغیر درکار ہے۔ نوجوانوں میں کہتا ہوں کہ وہ ایک ایک دروازے پر دستک دیں۔ انس اور الفت کے ساتھ لوگوں سے بات کریں۔ تحمل اور تدبیر کے لئے عہد آئندہ کی تمہید لکھیں۔اللہ نے نجات کا در ملک کے لئے کھول دیا ہے۔ اس اعتراض کا جواب بھی دیا کہ بعض ادنیٰ لوگ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ دریا جب اپنی طغیانی کے ساتھ بہتا ہے تو جھاڑ جھنکاڑ کو اٹھالے جاتا ہے۔ ٹکٹ البتہ ڈھنگ کے امیدواروں کو دیا جائے اور آپ کو بھی نگراں رہنا چاہئے۔
قلم رکتا ہے فاروق گیلانی یاد آتے ہیں۔ جب تک زندہ تھے۔ کوئی سوال ذہن میں ابھرتا تو خیال آتا اس سے مشورہ کرلیں گے۔ علم و ادراک والے اور بہت مگر گفتگو کے ہنگام ویسا کوئی اور نہ تھا۔ سوچتا ہوں: آج میرا دوست زندہ ہوتا تو کس قدر بشاش ۔ آخری دنوں میں وہ عمران خان کے لئے بہت غور وفکر کیا کرتے۔ کیسے کیسے نادر نکات۔ ہر بار میں کہتا : شاہ جی، کسی دن کپتان کے گھر جھیل کے رخ پر کھلتے برآمدے میں کرسیاں ڈال کر تبادلہ خیال کریں گے۔ کہتے: وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ وقت تو نہیں تھا، اسے سب احکامات اور حشر سامانیوں کے ساتھ، ابھی اسے طلوع ہونا تھا کہ ہمارا دوست ہاتھ سے نکل گیا۔ ایک دن اس نے اپنا سر صوفے کے پشتے سے ٹکایا اور خاموشی سے رخصت ہوگیا۔ ایک دن ہم بھی چلے جائیں گے۔ الله ہمیں توفیق دے کہ رشتوں ناتوں اور زندہ انسانوں کی قدر کرنا سیکھ سکیں۔
آدھی رات تک ٹیلی فون پرکپتان اپنے کام میں جتا رہا۔ پھر ٹیکس اور اثاثوں پر بات چلی۔ محتاط راشد یہ چاہتے تھے کہ سب کچھ کھنگال لیا جائے۔ حیرت سے خان نے کہا: ہر چیز کا ریکارڈ تو موجود ہے۔ اعتراض داغنے والا میرا دوست اسلام آباد والے گھر میں مجھ سے ملتا رہا‘ سب کچھ وہ جانتا ہے۔ستر اور اسی کے عشرے میں آمدن کا ذریعہ کرکٹ بورڈ کے ساتھ میرا معاہدہ ہی تھا۔ ٹیکس معاوضوں میں سے کاٹ لیا جاتا۔ 1992ء میں کرکٹ سے دستبردار ہوا تو سات سال شوکت خانم اسپتال کی نذر کردیئے۔ جو کچھ بچ رہاتھا، خرچ ہوگیا، حتی کہ اپنے میڈل تک بیچ ڈالے۔ ”میڈل؟“ میں نے پوچھا‘ ”میڈل کون خریدتا ہے“ گفتگو کی روانی میں دخل دو تو وہ اعتماد سے کہتا ”سونے اور چاندی کے ہوتے ہیں“۔ مزید بتایا کہ 1990ء میں پہلی بار کرکٹ کے مبصر کی حیثیت سے لندن میں 80 لاکھ روپے کمائے اور بعد میں بھی۔ ہر بار پیسہ بینک کے ذریعے پاکستان منتقل کیا۔ جس علاقے میں لوگ 70 ہزار روپے فی کنال کے حساب سے زمین کی رجسٹری کراتے، میں نے پوری قیمت 1.45 لاکھ پر کرائی۔ لندن کا فلیٹ ابھی بکا نہ تھا، چنانچہ زمین بھائی سے قرٍض لے کر خریدی اور اس کے نام پر اندراج کرایا۔ 2004ء میں بکا تو قرض واپس کیا اور زمین اس نے میرے حوالے کردی، تحفے کے طور پر اور ظاہر ہے کہ یہی قانونی طریقہ تھا۔ اس کے باوجود اعتراض ہے تو میرا کوئی سا اثاثہ ڈھونڈلیں اسی دن سیاست چھوڑ دوں گا۔ ”اچھا! پچھلے برسوں میں ٹیکس زیادہ اور امسال کیوں کم ہے؟“۔ ذرا سا وہ پھر جھلایا”اس لئے کہ تب عالمی کپ پر تبصرہ سے زیادہ آمدنی ہوئی ایک مشروب ساز کمپنی کے لئے چند سیکنڈ کا ایک اشتہار اور جیو ٹی وی کے لئے کچھ وقت“۔ اس کے لہجے نے کہا:تم تو بال کی کھال اتارتے ہو۔ جی چاہا، جواب دوں، بال کی کھال نہ اتاریں تو صحافت کیسے کریں، جناب والا؟
اب فوجی قیادت کے کردار پر بحث کا آغاز ہوا۔ سوات اور وزیرستان میں فوجی کارروائیوں پر سب کے لہجے میں وہی تلخی ہے کہ پاکستانی شہری مارے گئے اور ملک استعمار کا کارندہ بنا رہا۔ عرض کیا اس پر تو بے حیاؤں کے سوا سبھی متفق ہیں۔ مگر کچھ نازک اور پیچیدہ پہلو ہیں، کسی وقت تفصیل سے اس پر بات کریں گے۔ سیاستدانوں، دانشوروں، صحافیوں اور دوسرے فعال طبقات نے اپنے سپہ سالار کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ مشکل حالات میں جب سیاسی قیادت نے کوئی مدد نہ کی، کس حکمت اور کس جرأت کے ساتھ جنرل کیانی نے استعمار کی مزاحمت کی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں سے آپ کو کبھی حسن ظن ہوتا ہے، جنرل کے بغیر وہ کیا کرسکتے؟ اب ان لیڈروں کے نام میں نے اسے بتائے جو تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور بعض نے مجھ سے رابطہ کیا ہے، کچھ حیران سا ہوا مگر زیادہ نہیں، وہ سرشار تھا اور کامیابی کی امید سے لبریز، اور بھی کتنے موضوع، ابھی اور بھی کتنی باتیں اور بھی کتنے انکشافات، ایک آدھ تو ایسا کہ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ سوچا: جیتے رہے تو کتاب لکھنے کی کوشش کریں گے۔
ستارے چمکتے رہے، چاند ڈھلتارہا، منزل قریب آپہنچی تو اصرار کے ساتھ میں نے کہا: ہر اس شخص کو معاف کردو، جس کے رویے میں ذرا سی تبدیلی بھی نظرآئے۔ بعض کو اس کے بغیر بھی، الله کے آخری رسول کا طریقہ یہی ہے۔ معصوم سے انداز میں کہا: ماضی میں بھی یہی کوشش کرتا رہا، پھر بہت پرجوش لہجے میں بولا: انشاء الله ایسا ہی کریں گے۔ اس آدمی کے بارے میں لوگ بدگمانیوں کو ہوا دیتے اور کردار کشی کی مہم چلاتے ہیں؟۔ کیسے وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ شاید مقدر کے سوا تو کوئی اسے شکست نہیں دے سکتا۔ اخبار نویسوں کا ذکر تھا اور کیسے کیسے دلچسپ تبصرے، بیشتر بلکہ تقریباً سبھی مثبت۔جی کا بوجھ اتر گیا ہے۔پھلوں سے لدا شجر جھکا جاتا ہے، اگرچہ نیازی پٹھان ہے، کتنا جھکے، اس کے جد امجد ہیبت خان کو شیرشاہ سوری نے شمشیر دی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اس کا کچھ زیادہ نہیں بگاڑا، وہی قدیم پشتون روح، وہی سادگی، اچانک اس نے قہقہہ لگایا، ”حسن نثار جملہ خوب تراشتا ہے“ گاڑی کے باہر یخ بستہ ہوا تھی اور ہلکی سی چاندنی۔ اندر حیات آسودہ اور خواب دیکھتی ہوئی۔اندیشے بھی بہت مگر یقینان سے بہت زیادہ۔ بہت محکم ہے۔ مسافر پر سویر امام  کے لافانی جملوں کے ساتھ طلوع ہوئی۔ اگر وہ میری سنتے ہیں تو تحریک انصاف کے کارکن جلی حروف میں لکھوا کر دفتروں اور گھروں میں آویزاں کردیں۔
سب انسان مردہ ہیں، زندہ وہ ہیں جوعلم والے ہیں
سب علم والے سوئے پڑے ہیں، بیدار وہ ہیں جو عمل والے ہیں
تمام عمل والے گھاٹے میں ہیں، فائدے میں وہ ہیں جو اخلاص والے ہیں
سب اخلاص والے خطرے میں ہیں، صرف وہ کامران جو تکبر سے پاک ہیں۔ سبحان الله، سبحان الله۔

کالم نویس - ہارون الرشید
بشکریہ . روزنامہ جنگ
18-دسمبر-2011ء
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: کامران

Post by اضواء »

عمدہ اور بہترین تحریر پئش کرنے پر آپ کا شکریہ .......
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: کامران

Post by پپو »

جزاک اللہ
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: کامران

Post by علی عامر »

ستائش پر مشکور ہوں۔ ;fl;ow;er;
بلال احمد
ناظم ویڈیو سیکشن
ناظم ویڈیو سیکشن
Posts: 11973
Joined: Sun Jun 27, 2010 7:28 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: کامران

Post by بلال احمد »

شیئرنگ کیلئے شکریہ
بڑی بے چین رہتی ہے طبیعت اب میری محسن
مجھے اب قتل ہونا ہے، مگر قاتل نہیں ملتا
Post Reply

Return to “منظر پس منظر”