اسلام کے شیرکفارکے زندانوں میں
Posted: Tue Oct 18, 2011 2:54 am
سیف اللہ پراچہ کے بیٹے بھی مجاہدین کی اعانت کے جرم میں قید ہیں
کراچی سے تعلق رکھنے والے اکسٹھ سالہ بزنس مین سیف اللہ پراچہ کو سی آئی اے نے جولائی سنہ 2003 میں بنکاک سے حراست میں لیا تھا۔
اس سے قبل ان کے بیٹے عزیر پراچہ کو ایف بی آئی گرفتار کر چکی تھی۔ عزیر پراچہ کو سنہ دو ہزار پانچ میں سزا سنائی گئی اور وہ امریکہ کی ایک وفاقی جیل میں تیس سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
سیف اللہ پراچہ کو حراست میں لیے جانے کے بعد ستمبر سنہ 2004 تک افغانستان میں بگرام کے فضائی اڈے پر واقع حراستی مرکز میں قید رکھا گیا اور پھر گوانتانامو بے منتقل کر دیا گیا۔
تاحال ان پر نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حکام نے گوانتانامو نے حراستی مرکز میں سیف اللہ سے ملاقات بھی کی تھی۔
سیف اللہ پراچہ نے انیس سو ستر میں نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی اور پھر تیرہ برس تک نیویارک میں ٹریول ایجنٹ کا کام کرتے رہے تھے۔
چار بچوں کے والد سیف اللہ پراچہ کو دو مرتبہ دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ اکتوبر سنہ 2006 میں امریکی فوج کے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا تھا کہ سیف اللہ کو اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے تاہم اب تک ان کا علاج نہیں ہوا ہے۔
ماجد خان
ماجد خان کو کراچی سے حراست میں لیا گیا
ستائیس سالہ ماجد خان شادی شدہ اور ایک بچی کے باپ ہیں۔
انہیں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے پانچ مارچ سنہ 2003 کو کراچی سے حراست میں لیا تھا۔
گرفتاری کے بعد ساڑھے تین سال تک انہیں خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا اور ان کے اہلِخانہ کا بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ستمبر سنہ 2006 میں انہیں گوانتانامو بے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔
ان پر سی آئی اے حکام کی جانب سے تشدد کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں لیکن امریکی حکام نے ان سے تفتیش کی معلومات عام نہیں کی ہیں۔
عمار ال بلوچی
عمار ال بلوچی پر نائن الیون حملوں کے حوالے سے فردِ جرم عائد کی گئی ہے
عمار ال بلوچی کو انتیس اپریل سنہ 2003 کو کراچی سے حراست میں لیے جانے کے بعد سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
انہیں بھی تقریباً ساڑھے تین سال تک خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا اور ان کے اہلِخانہ کا بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ستمبر سنہ 2006 میں انہیں بھی گوانتانامو بے حراستی مرکز منتقل کیا گیا جہاں انہیں سی آئی اے کے حکام کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
عمار ال بلوچی پر نائن الیون حملوں کے حوالے سے فردِ جرم عائد کی گئی ہے تاہم ان کے خلاف مقدمہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔
خالد شیخ محمد
خالد شیخ محمد پر مقدمہ چل رہا ہے اور انہوں نے اعترافِ جرم بھی کیا ہے
چوالیس سالہ خالد شیخ محمد کو گیارہ ستمبر سنہ 2001 کے مبارک حملوں کا منصوبہ ساز کہا جاتا ہے۔
انہیں یکم مارچ سنہ 2003 کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر امریکہ نے پچیس ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔
بعد ازاں انہیں سی آئی اے کے حوالے کیا گیا جس نے ستمبر سنہ 2006 میں خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز میں منتقل کیے جانے سے قبل سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں رکھا گیا۔
امریکی حکام نے تفتیش کے دوران خالد شیخ محمد پر تشدد کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ ان پر تشدد کے دوران واٹر بورڈنگ کا بدنام طریقہ بھی استعمال کیا گیا۔
خالد شیخ محمد پر نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی اور اس سے متعلق دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان پر مقدمہ چل رہا ہے اور انہوں نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔
عبدالرحیم غلام ربانی، محمد احمد غلام ربانی
عبدالرحیم غلام ربانی اور ان کے بھائی محمد احمد غلام ربانی کو کراچی سے نو ستمبر سنہ 2002 کو حراست میں لیا گیا۔
حراست میں لیے جانے کے بعد انہیں امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
ابتدائی دو سال تک دونوں بھائیوں کو افغانستان میں ’سالٹ پِٹ‘ کے نام سے بدنام حراستی مرکز میں قید رکھا گیا۔
انہیں ستمبر سنہ 2004 میں خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز منتقل کیا گیا۔
ان دونوں پر تاحال نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا ہے۔
اللہ ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو کفار ومرتدین حکمرانوں کی قید وبند سے جلد رہائی عطا فرما اور اس کی حکومت کو اپنے غیظ وغضب سے نیست ونابود کردے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے اکسٹھ سالہ بزنس مین سیف اللہ پراچہ کو سی آئی اے نے جولائی سنہ 2003 میں بنکاک سے حراست میں لیا تھا۔
اس سے قبل ان کے بیٹے عزیر پراچہ کو ایف بی آئی گرفتار کر چکی تھی۔ عزیر پراچہ کو سنہ دو ہزار پانچ میں سزا سنائی گئی اور وہ امریکہ کی ایک وفاقی جیل میں تیس سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
سیف اللہ پراچہ کو حراست میں لیے جانے کے بعد ستمبر سنہ 2004 تک افغانستان میں بگرام کے فضائی اڈے پر واقع حراستی مرکز میں قید رکھا گیا اور پھر گوانتانامو بے منتقل کر دیا گیا۔
تاحال ان پر نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حکام نے گوانتانامو نے حراستی مرکز میں سیف اللہ سے ملاقات بھی کی تھی۔
سیف اللہ پراچہ نے انیس سو ستر میں نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی اور پھر تیرہ برس تک نیویارک میں ٹریول ایجنٹ کا کام کرتے رہے تھے۔
چار بچوں کے والد سیف اللہ پراچہ کو دو مرتبہ دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ اکتوبر سنہ 2006 میں امریکی فوج کے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا تھا کہ سیف اللہ کو اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے تاہم اب تک ان کا علاج نہیں ہوا ہے۔
ماجد خان
ماجد خان کو کراچی سے حراست میں لیا گیا
ستائیس سالہ ماجد خان شادی شدہ اور ایک بچی کے باپ ہیں۔
انہیں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے پانچ مارچ سنہ 2003 کو کراچی سے حراست میں لیا تھا۔
گرفتاری کے بعد ساڑھے تین سال تک انہیں خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا اور ان کے اہلِخانہ کا بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ستمبر سنہ 2006 میں انہیں گوانتانامو بے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔
ان پر سی آئی اے حکام کی جانب سے تشدد کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں لیکن امریکی حکام نے ان سے تفتیش کی معلومات عام نہیں کی ہیں۔
عمار ال بلوچی
عمار ال بلوچی پر نائن الیون حملوں کے حوالے سے فردِ جرم عائد کی گئی ہے
عمار ال بلوچی کو انتیس اپریل سنہ 2003 کو کراچی سے حراست میں لیے جانے کے بعد سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
انہیں بھی تقریباً ساڑھے تین سال تک خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا اور ان کے اہلِخانہ کا بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ستمبر سنہ 2006 میں انہیں بھی گوانتانامو بے حراستی مرکز منتقل کیا گیا جہاں انہیں سی آئی اے کے حکام کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
عمار ال بلوچی پر نائن الیون حملوں کے حوالے سے فردِ جرم عائد کی گئی ہے تاہم ان کے خلاف مقدمہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔
خالد شیخ محمد
خالد شیخ محمد پر مقدمہ چل رہا ہے اور انہوں نے اعترافِ جرم بھی کیا ہے
چوالیس سالہ خالد شیخ محمد کو گیارہ ستمبر سنہ 2001 کے مبارک حملوں کا منصوبہ ساز کہا جاتا ہے۔
انہیں یکم مارچ سنہ 2003 کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر امریکہ نے پچیس ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔
بعد ازاں انہیں سی آئی اے کے حوالے کیا گیا جس نے ستمبر سنہ 2006 میں خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز میں منتقل کیے جانے سے قبل سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں رکھا گیا۔
امریکی حکام نے تفتیش کے دوران خالد شیخ محمد پر تشدد کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ ان پر تشدد کے دوران واٹر بورڈنگ کا بدنام طریقہ بھی استعمال کیا گیا۔
خالد شیخ محمد پر نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی اور اس سے متعلق دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان پر مقدمہ چل رہا ہے اور انہوں نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔
عبدالرحیم غلام ربانی، محمد احمد غلام ربانی
عبدالرحیم غلام ربانی اور ان کے بھائی محمد احمد غلام ربانی کو کراچی سے نو ستمبر سنہ 2002 کو حراست میں لیا گیا۔
حراست میں لیے جانے کے بعد انہیں امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
ابتدائی دو سال تک دونوں بھائیوں کو افغانستان میں ’سالٹ پِٹ‘ کے نام سے بدنام حراستی مرکز میں قید رکھا گیا۔
انہیں ستمبر سنہ 2004 میں خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز منتقل کیا گیا۔
ان دونوں پر تاحال نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا ہے۔
اللہ ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو کفار ومرتدین حکمرانوں کی قید وبند سے جلد رہائی عطا فرما اور اس کی حکومت کو اپنے غیظ وغضب سے نیست ونابود کردے۔