زراعت میں بینکاری کی اہمیت

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
سید محمد عابد
کارکن
کارکن
Posts: 31
Joined: Fri Apr 29, 2011 5:34 pm
جنس:: مرد

زراعت میں بینکاری کی اہمیت

Post by سید محمد عابد »

زراعت پاکستان کا ایک اہم شعبہ ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی برسرروزگار افرادی قوت میں سے تقریباً 45 فیصد افراد کاروزگار اسی شعبے سے وابستہ ہے اور ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22 فیصد ہے۔پاکستان سے حاصل ہونے والی فصلوں میں کپاس، گنا، گندم اور چاول وہ فصلیں ہیں جن کی بیرونی منڈیوں میں کثیر فروخت ہوتی ہے اور یہ پاکستان کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اور دنیا کی مشہور فصلیں ہیں۔ پاکستان کا باسمتی چاول ذائقے اور صحت کے اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ صنعتی ترقی کی جانب بتدریج منتقلی کے باوجود زراعت اب بھی ملکی معیشت کاسب سے بڑا شعبہ ہے جو ملک کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے پرگہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ متعدد صنعتوں کی پیداوار کا دارومدار بھی زراعت پر ہے مثلاً کپاس کی بہتر پیداوار ہو گی تو کوٹن انڈسٹری کو خام مال دستیاب ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں نے قومی معیشت کی بنیاد زرعی شعبے کو بھی بری طرح نظر انداز کیا حالانکہ چھوٹے کسانوں کو دوست پالیسیوں، ماحول دوست زراعت، پانی چوری کے خاتمے، وسائل کی منصفانہ تقسیم، حقیقی کسان منڈیوں کے قیام، بلا امتیاز زرعی ترقی اور پیداوار میں اضافے کے لئے آسان شرائط پر قرضے دے کر قومی معیشت اور زرعی پیداوار سے متعلق صنعتوں کو زبردست فروغ دیا جا سکتا ہے۔
پاکسان فصلوں کی کاشت کے لئے بینکرز اور دوسرے زمینداروں سے قرضے لیتے ہیں اور ان قرضوں سے کھاد، بیج، بھاری مشینری،اور دیگرزرعی لوازمات خریدتے ہیں۔ بعض اوقات جب کسانوں کو بینکرزسے قرضہ نہ ملے تو وہ فصل کی کاشت کے لئے اپنی قیمتی چیزوں کو گروی رکھوانا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے زراعت میں بینکاری نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بینک سے قرضہ لینے کے بعد کسانوں کے لئے دوسرا اہم بڑا مرحلہ فصل کی پیداوار کا ہوتا ہے، اگر کسان فصل کی بہتر پیداوار دینے میں ناکام ہو جائے تو اس کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے اور وہ مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور غربت کے خاتمے کے لئے زرعی شعبے کی نمو کی رفتار برقرار رکھنے کی غرض سے وافر مالیت میں قرضوں کی دستیابی ضروری ہے۔ ملک میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ،اس کے باوجود بینکرزکے ذریعے صرف چار اعشاریہ چھ فیصد قرضہ جاری کیا جاتا ہے جو کہ کسانوں اور زراعت کی ترقی کے لئے کافی نہیں۔
میڈیا رپورٹس کے اعدادو شمار کے مطابق 2007-08ء میں 212 بلین روپے کے زرعی قرضے2008-09 میں 233 بلین روپے اور 2009-10ءمیں 248 بلین روپے کے قرضے فراہم کئے گئے جبکہ 2007-08ءمیں مقرر کردہ ہدف200 ملین روپے،2008-09میں 250 بلین روپے اور 2009-10ءمیں 260 بلین روپے تھا ۔ ان اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ تین چار سالوں کے دوران پاکستان میں سوائے 2007-08ءجس میں ہدف سے زیادہ قرضے دیئے گئے باقی تمام سال بینکس قرضوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ایسے حالات میں کسان سے کس طرح بہتر پیداوار کی امید لگائی جا سکتی ہے۔ رواں سال2010-11ءکے پہلے دس ماہ کے دوران زرعی شعبے کے لئے بینکوں کی جانب سے 154 بلین روپے کے قرضے جاری کئے گئے، حکومت نے رواں سال قرضوں کا ہدف دو سو ستر ارب روپے رکھا ہے۔ پنجاب کے لئے 210.6سندھ کے لئے37.08خیبر پختونخواہ کے لئے16.06،بلوچستان کے لئے چار جبکہ آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کے لئے 1.3 ارب روپے کاہدف مقررکیاگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی و نجی بینک قرضوں کا ہدف پورا کر پاتے ہیں یانہیں؟ مالی سال2009-10ء کے دوران ملک کے پانچ بڑے بینکوں نے124ارب روپے کے مقررہ ہدف کے بجائے 119 ارب 60 کروڑ روپے کے قرضے فراہم کیے۔
رواں سال اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ملک میں زراعت اوراس سے ملحقہ چھوٹے کاروبار کی ترقی کے لئے زرعی قرضوں کے ٹارگٹ میں مسلسل اضافے اور فراہمی کوآسان بنانے کے لئے کوشش جاری ہے، اس سلسلے میں گشتی قرضہ اسکیم بھی شروع کی گئی ہے جس کو نقد قرضہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں زرعی ترقیاتی بینک کے برانچ مینیجرز تین دن میںزرعی قرضے جاری کرنے کے پابند ہیں جبکہ بینک کے موبائل کریڈٹ آفیسرزہفتے میں ایک دن کاشتکاروں سے درخواستیں وصول کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا خود ماننا ہے کہ کہ زائد غیر فعال زرعی قرضے، زرعی قرضہ دہی کے پیچیدہ اور طویل طریقے، زرعی قرضہ جاتی افسران اور جدید زرعی قرضہ جاتی پروڈکٹس کی کمی، بینکوں کی انتظامیہ کی کم دلچسپی، بینکوں کی مالیاتی خدمات کے بارے میں کاشتکاروں کی کم آگاہی، مارکیٹنگ اوراسٹوریج کی سہولتوں کی کمی، پاس بک اوراراضی کے ریکارڈ سے متعلق مسائل، کم آمدنی، ملوں کی جانب سے زرعی پیداوار کی مدمیں ادائیگی میں غیرمعمولی تاخیر اورحکومتی امدادی قیمت وغیرہ کا غیرموءثر نفاذ ایسے بڑے عوامل ہیں جو زرعی قرضہ دہی میں رکاوٹ ہیں، تاہم ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی صنعت و تجارت کو پہلے ہی بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے سے یہ چیلنجز مزید بڑھ جائیں گے جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے زرعی شعبے کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کسانوں کے لئے ٹریکٹروں، ٹیوب ویلوں، ہارویسٹرز اور دیگر زرعی مشینری میں ایندھن ڈالنا مشکل ہو رہا ہے جس کی وجہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ میکنائزیشن اور جدید ٹیکنولوجی کے استعمال پر ہے۔ اسی لئے چاروں صوبائی حکومتیں سبسڈی کے ذریعے جدید ٹیکنولوجی متعارف کر رہی ہیں۔ کسان کی گندم فی من جبکہ ٹھیکہ 40 ہزار فی ایکڑ ہے ٹریکٹر پر ٹیکس، فیول، کھاد پر ٹیکس کے عوض 70 فیصد چھوٹے کسان اور مزارع میں آج بھی سکت نہیں کہ وہ جدید مشینری خرید سکیں ، کسان روایتی طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فصلوں کی پیداوار میں خاص اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ زرعی آلات اور کمپوننٹ کار امیٹریل گیس، بجلی فیول پہلے بہت مہنگا ہے۔ گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے آلات کی پیداوار50 فیصدرہ گئی ہے۔ سیلز ٹیکس ختم نہ کیا گیا تو جدید ٹیکنولوجی کے عدم استعمال سے ملکی زرعی پیداوار شدید متاثر ہوگی۔

تحریر:سید محمد عابد

Post Reply

Return to “اردو کالم”