آخری گولی

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں کا سلسلہ
Post Reply
زارا
کارکن
کارکن
Posts: 88
Joined: Sat Mar 19, 2011 6:46 pm
جنس:: عورت
Location: اللہ کی زمین
Contact:

آخری گولی

Post by زارا »

السلامُ علیکم

وہ كل پانچ افراد تھے، تين مرد اور دو عورتيں۔ شام كے وقت ساحلِ سمندر كے ايك ويران گوشے ميں، پتھروں پر بيٹھے ہوئے تھے۔ ان كے دائيں طرف سمندر كي منہ زور لہريں ٹھاٹھيں مار رہي تھيں اور بائيں طرف ايك اونچي چٹان سر اٹھائے كھڑي تھي، جو كسي پہاڑي كا باقي ماندہ حصہ تھي۔ چند قدم دور چار پانچ گاڑياں كھڑي تھيں اس گروپ كے چيف كا نام تھا شفقت اگرچہ شفقت نام كي كوئي چيز اس كے چہرے پر دكھائي نہ ديتي تھي۔ وہ ايك ہٹا كٹا شخص تھا، چٹان كي طرح مضبوط اور پتھر كي طرح پتھريلا۔ چيف نے اچانك پہلو بدلا اور بولا :
"خواتين و حضرات آپ سب ملك كي خفيہ تنظيم كے اركان ہيں۔ آپ كي مناسب كاركردگي كو مدِنظر ركھ كر آپ كو ايك خفيہ مشن سونپا گيا۔ آپ ميري ہدايات كے مطابق اپنا كام احسن طريقے سے سر انجام ديتے رہے مگر پھر ہم ميں سے كسي نے ايك "كارنامہ" بھي سر انجام دے ديا، خفيہ سي ڈي كے چند منتخب حصے دشمن كے ہاتھوں فروخت كرديے گئے۔"
چيف پھر اچانك خاموش ہو گيا وہ گرم نظروں سے ايك ايك كا چہرہ پڑھ رہا تھا، ہر ايك كو بري طرح گھور رہا تھا، بات ہي ايسي تھي، ملك سے غداري اور تنظيم سے بے وفائي۔ چيف نے سرد ہوا سے بچائو كے ليے عمدہ اوني مفلر لے ركھا تھا۔ اس نے اپنا چرمي تھيلا كھول كراس ميں سے ايك سياہ بڑا پستول نكالا۔اس ماحول ميں اس كي كرخت آواز پھرگونجي:
"غداري كي سزا موت ہوتي ہے، آپ سب جانتے ہيں كہ خفيہ ادارے غدار كو موت كے گھاٹ اتار كر دوسرے برے افراد كے ليے عبرت كا نمونہ پيش كرتے ہيں۔ كيا كسي كو اس بات پر اعتراض تو نہيں كہ غدار كومارا نہ جائے؟"
"نو چيف"چند ملي جلي آوازوں نے سر جھكا ديا۔
"گڈ تو گويا آپ سب اس تنظيم كے اچھے كاركن ہيں۔" چيف نے اپني جيب ميں سے تين گولياں نكال كر پستول كو كھولا اور اس كے چيمبر ميں وہ گولياں ڈال ديں ۔ پھر پستول كي نال ہوا ميں بلند كي اور ٹريگر دبا ديا۔چيف نے دو گولياں فضا ميں چلا كر ضائع كر ديں۔ اب آخري گولي باقي تھي۔
"غدار كي قسمت كا فيصلہ اب يہ آخري گولي كرے گي۔" چيف نے زبان كھولي تو سب كے چہروں پر ايك رنگ آ كر گزرگيا۔ غدار كي نامزدگي كے بغير ہر ايك شخص اپنے آپ كو مجرم اور غدار سمجھ رہا تھا كہ كہيں غداري كا اس پركوئي الزام تو نہيں لگ گيا۔
چيف نے پستول دوبارہ كھول كر اس كا چيمبر گھما ديا اور پھرا چانك پستول بند كر ديا۔ اس نے سب كو ترچھي نگاہ سے ديكھ كر كہا۔ "معزز خواتين و حضرات آپ سب شريف، ايمان دار اور پارسا افراد ہيں۔ آپ ملك كي اس خفيہ تنظيم كے ساتھ بھي مخلص ہيں۔ ميں كسي بھي فرد پر غداري كا الزام لگا كر اس پر كيچڑ اچھالنا نہيں چاہتا۔ كيوں كہ يہ بات بہت بڑا "گناہ" ہے كہ كسي پر بہتان باندھا جائے، لہٰذا ميں اس آخري گولي كا ہي فيصلہ تسليم كروں گا ديكھئے، يہ گولي كيا فيصلہ كرتي ہے۔ ميں اس عمل كا آغاز خود سے كرتا ہوں۔ ميري آپ سب كے ليے دلي دعا ہے كہ آخري گولي صرف غدار كا ہي كام تمام كرے۔ مجھے اس طريقے پر بھروسا ہے۔ ميں چند سال قبل بھي آخري گولي كي مدد سے غدار كو سزا دے چكا ہوں بلكہ قسمت غدار كو خود ہي ڈھونڈ ليتي ہے۔"
چيف نے پستول كي نالي اپني كنپٹي پر ركھي، آنكھيں بند كيں اور پستول كي لبلبي دبا دي
"كلك۔"
اس نے آنكھيں كھول كر خدا كا شكر ادا كيا اور پستول شاد صاحب كے حوالے كيا۔ شاد صاحب نے گہرا سانس ليا اور پستول كي نالي اپنے سر پر ركھ كر پستول چلا ديا
" كلك۔"
شاد صاحب جي كر مراٹھے تھے۔ انہوں نے تھكي ہوئي مسكراہٹ كے ساتھ پستول عبدالقيوم صاحب كے حوالے كر ديا۔ عبدالقيوم صاحب چار بچوں كے باپ تھے انہوں نے زيرِ لب خدا سے دعا كي۔ ساري دنيا ان كے سامنے پل بھر ميں سمٹ آئي۔ وہ غدار تو نہيں تھے مگر اس آخري گولي كا بھلا كيا بھروسا۔ انہوں نے خالقِ كائنات كو پكار كر پستول كي نالي اپنے ماتھے پر ركھي اور اس كي لبلبي دبا دي۔
" كلك۔"
وہ بچ گئے تھے۔ انہوں نے دل ہي دل ميں شكرانے كے نفل ادا كرنے كا تہيہ كر ليا۔
پستول اب شمسہ كے ہاتھ ميں تھا۔ شمسہ سخت گير عورت دكھائي پڑتي تھي۔ عمر چاليس سال، تين بيٹوں كي ماں اور ايك بوڑھي بيمار ماں كي واحد خبر گير۔ اس نے پستول تھام كر قدرے اكھڑے ہوئے لہجے ميں كہا: "چيف ميں غدار نہيں ہوں ، آپ ميرا ريكارڈ چيك كر ليں اور كوئي ثبوت مل جائے تو مجھے الٹا لٹكا كر ميري چمڑي اتار ديں، پھر مجھے بھوكے كتوں كے آگے ڈال ديں۔"
"نہيں، آپ تو بہت اچھي ہيں۔" چيف نے طنز كيا۔
"تو پھر؟"
"پھر فيصلہ آخري گولي كا ہو گا، جو اس پستول كے چيمبر ميں گھوم رہي ہے۔"
"چيف ميرے تين چھوٹے چھوٹے بيٹے ہيں جو رات كے كھانے پر ميرا انتظار كر رہے ہوں گے اور ميري بوڑھي ماں ميرا حد درجہ شريف خاوند۔"
"اوہ آپ مجھے رلانے والي باتيں نہ كريں۔" چيف كي آواز بھي رندھ گئي۔ وہ اگرچہ ادكاري كر رہا تھا مگر كامياب اداكاري كر رہا تھا۔
چيف كے بے لچك رويے اور بے لحاظ نظروں نے شمسہ كو بتا ديا كہ اس كا فيصلہ اٹل ہے۔ تب اس نے لرزتے ہاتھ سے پستول بلند ليا۔ پستول كي نالي اپنے سر پر ركھ لي اور كلمہ توحيد كا ورد كرتے ہوئے لبلبي دبا دي۔
آواز صرف "كلك" كي ابھري
چيف نے اسے نئي زندگي كي مبارك باد دي، جو اس نے شكريہ كے ساتھ قبول كي۔
پستول اب مس كرن كے پاس تھا۔ كرن تيس سالہ لڑكي تھي۔ اس كے چہرے پر حد درجہ معصوميت كا غلبہ تھا۔ چيف نے اسے نظر بھر كر ديكھا۔ آخري گولي اس پستول ميں جہاں كہيں بھي تھي، گھوم گھام كر پستول كے نالي كے عين سامنے يا بالكل قريب آچكي تھي۔ پستول چار بار چلايا جا چكا تھا اور اب خطرہ نوے فيصد سے بھي بڑھ چكا تھا، آر يا پار والا معاملہ تھا۔
"گولي چلائيں مس كرن" چيف نے اسے حكم ديا۔
تب پستول كرن كي گود ميں پڑا تھا۔ اس نے شش و پنج ميں مبتلا ہو كر پستول تھام ليا۔ اس نے ذرا ٹھہر كر كہا: "اندھي گولي كا فيصلہ اندھا ہوگا، ميں نے كيا كيا ہے چيف كہ مجھے بھري جواني ميں موت كي گھاٹي ميں دھكيلا جا رہا ہے۔"
چيف نے سخت لہجہ اختيار كيا: "اس پستول ميں چھ گوليوں كي جگہ ہوتي ہے۔ يہ ضروري نہيں كہ وہ آخري گولي اب نالي كے سامنے پہنچ چكي ہو۔ معاملہ اگرچہ بہت خطرناك تھا مگر ميں وعدہ كرتا ہوں كہ آپ كے بعد ميں پستول كو اپني كنپٹي پر ركھ كر چلائوں گا اگر ايسا وقت يا تو"چيف نے ان سب كو ديكھ كر كہا۔ "ميں خود كو سب سے پہلے سزاوار سمجھتا ہوں، اس ليے اس عمل كا آغاز ميں نے خود سے كيا تھا اور انجام بھي وقت پڑنے پر خود ہي پر كروں گا مس كرن بے دھڑك گولي چلائيں اگر يہ غدارِ وطن نہ ہوئيں توان كي زندگي خواب نہيں ہو گي۔"
خوف زدہ كرن خاموش بيٹھي رہي۔
"مس كرن گولي چلائيں، اپنے چيف كا حكم ٹالنا بھي جرم ہے۔"
پھر كرن نے اچانك ہاتھ سيدھا كيا اور گولي چلا دي۔ فضا دھماكے سے گونج اٹھي تھي۔ چٹان پر بيٹھے ہوئے آبي پرندے اور سمندري بگلے اڑ گئے تھے۔ چيف چيخ كر پتھر پر سے نيچے گرا تھا اور اس نے اپنا سينہ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام ركھا تھا۔ وہ كراہتے ہوئے ريت پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ۔ كرن ماہر نشانہ انداز تھي وہ كئي بار نشانہ اندازي كے مقابلوں ميں انعام حاصل كر چكي تھي۔ اس نے اپنے فن كا مظاہرہ چيف كے عين دل پر كيا تھا۔ چيف كا حكم نہيں ٹالا تھا۔گولي تو چلائي تھي مگر اپنے سر پر نہيں، چيف كے سينے پر كرن نے وہ پستول پھينك كر اپنے لباس ميں سے ايك مائوزر نكال كر باقي ماندہ افراد پر تان ليا تھا تاكہ كوئي اسے روك نہ سكے۔ وہ الٹے قدموں پيچھے ہٹ رہي تھي تاكہ چند قدم دور جا كر اپني گاڑي ميں سوار ہوسكے۔ اس نے گھوم كر اپني گاڑي كي طرف ديكھا اور يہي لمحہ قيامت بن گيا اچانك اسے كسي نے فضا ميں گيند كي طرح اچھال ديا۔ وہ منہ كے بل زمين پر گري تو مائوزر بھي اس كے ہاتھ سے نكل گيا ۔ اس كو شاد صاحب نے اپنے شكنجے ميں قابو كر ليا۔ اس پر حيرت كا پہاڑ ٹوٹ پڑا كہ خاك ميں غلطاں چيف پتھر پر پائوں دھرے كھڑا تھا اور اس كے لبوں پر زہريلي مسكراہٹ تھي۔چيف كے ہاتھ ميں ايك چھوٹا پستول تھا جو اس نے يقينا اپنے اوني مفلرميں سے نكالا تھا وہ آخري گولي سے بچ نكلا تھا۔
چيف نے كہا: "مجھے تجھ پر پہلے ہي يقين كي حد تك شك تھا۔ ميري خفيہ اطلاع كے مطابق تو نے ہيروں والے زيورات خريدے ہيں اور دنيا كے ايك مہنگے شہر ميں بنگلہ بھي۔ كرن بي بي وہ آخري گولي، پٹاخا گولي تھي۔ ميں اتنا بے وقوف نہيں تھا كہ غدار تلاش كرنے كے ليے اندھي گولي كي مدد ليتا۔ ميں نے جب چيمبر كو گھمايا تو بند كرتے وقت ميں نے پستول كا چيمبر اپنے ہاتھ كے انگوٹھے كي مدد سے يوں روكا تھا كہ پٹاخا گولي پانچويں خانے ميں تھي۔ ميں نے تم لوگوں پر نفسياتي حربہ استعمال كيا تھا اور يوں غدار لڑكي پكڑي گئي۔"
كرن جب تم مائوزر تھام كر قدم قدم، الٹے پائوں پيچھے ہٹ رہي تھي تو ميري طرف تيرا دھيان نہيں تھا اور جب تم نے گاڑي كي طرف پلٹ كر مجھے ايك لمحہ ديا تو ميں نے تجھے اٹھا كر فضا ميں اچھال ديا، شايد تيرے علم ميں نہ ہو كہ ميں ايك ماہرِ نفسيات ہوں اور ننجا ماسٹر بھي۔"
بعد ازاں كرن كومزيد تفتيش كے ليے تنظيم كے زير زمين نہاں خانے ميں بھيج ديا گيا۔

تحریر: حامد مشہود
لدھیانوی
کارکن
کارکن
Posts: 81
Joined: Thu Mar 17, 2011 10:38 am
جنس:: مرد
Contact:

Re: آخری گولی

Post by لدھیانوی »

آخری گولی=پٹاخا گولي
محمد الیاس لدھیانوی
http://fb.com/shaheedeislam
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: آخری گولی

Post by اعجازالحسینی »

:clap: :clap:
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: آخری گولی

Post by نورمحمد »

مزے دار ہے . . . بالکل فلمی انداز . . . h.a.h.a h.a.h.a h.a.h.a
Post Reply

Return to “بچوں کی کہانیاں”