عشق کے رنگ

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
زارا
کارکن
کارکن
Posts: 88
Joined: Sat Mar 19, 2011 6:46 pm
جنس:: عورت
Location: اللہ کی زمین
Contact:

عشق کے رنگ

Post by زارا »

عشق کے رنگ بے شمار ہیں اور اس کی اقسام بے انتہا۔کوئی کسی دل فریب چہرے پرعاشق ہوتا ہے تو کوئی کسی کی خوش آوازی پر،کسی کو کہساروں کی بلندی مسحورکئے رکھتی ہےتو کوئی صحرا کی وسعتوں کے جادو سے مست رہتاہے ،کسی کو دیہات کے سادہ تمدن نے اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے تو کوئی شہروں کی خیرہ کن روشنیوں کا دل دادہ ہے ،کوئی اپنے دوست کی دوستی پرجاں نثار کرنے کے لئے تیار رہتاہے تو کوئی اپنے دشمن سے انتقام لینے کے لئے جی رہا ہے ۔حسن جب عقل سلب کرلے تو اس کیفیت کو عشق ہی کہا جاتا ہے ،مناظر قدرت کسی کو بے خود کردیں تو اسے فریفتگی ہی کہا جاسکتا ہے،مقاصد اور اہداف دل ودماغ کی تمام صلا حیتوں کو جذب کرلیں تو اسےجذبہ جنون ہی سے تعبیر کیاجاتا ہے مگر کہنے کو کچھ بھی کہاجائے حاصل سب کا ایک ہے اور وہ ہے عشق ۔عشق کے ہزاروں جلووں کی لاکھوں داستانیں دنیا کے چپے چپے پربکھری ہیں مگران میں اکثر عبرتناک ہیں اور الم ناک ،بہت کم عاشق ایسے ہیں کہ ان کی داستان عشق کسی اعلی مقصد پرمنبی ہو۔ اعلی مقصد سے عشق انسان کو تاریخ میں تابندہ کرجاتاہے ،ایسے عاشقوں کی داستانیں تاریخ کے صفحات پرجگمگاتی رہتی ہیں ۔ان چمکتی دہکتی داستانوں میں ایک نمایاں حصہ ان خوش قسمت عاشقوں کے تذکرے کا ہے جنہیں ختم نبوت سے عشق تھا۔

اس سلسلہ کا ابتدائی سرا14 صدیوں پہلے کے اس دور میں دکھائی دیتاہے جب حضورسیدالمرسلین خاتم النبینﷺ تمام انسانوں کی طرف بعثت کی کٹھن ذمہ داریاں انجام دینے کے لئے کبھی احد میں لہولہان ہورہے تھے اور کبھی خندق میں شکم مبارک پرپتھر باندھے کفار کی فتنہ پرور افواج کامقابلہ کررہے تھے ۔

اس وقت ہم احدکے میدان میں شمع ختم نبوت کے گرد طلحہ ،ابودجانہ،سعدبن ابی وقاص اور ام عمارہ رضی اﷲعنہم اجمعین جیسے عاشقین کا ناقابل شکست حصار دیکھتے ہیں،خندق اور حنین میں انہی پروانوں کو آپ کےچاروں طرف دیوانہ وار لڑتا دیکھتے ہیں ۔ختم نبوت کی اس شمع فروزاں کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ کی زندگی میں 700 سے زائد جلیل القدر صحابہ کی قربانی دے کربچایا گیااور جھوٹے مدعیان نبوت کے عزائم خاک میں ملا دئیے گئے۔اس طرز عمل نے تاقیامت مسلمانوں کے لئے یہ ضابطہ حیات طے کردیاکہ ختم نبوت کے مسلے پرکسی قسم کی لچک نہیں برقی جائے گی بلکہ ہربڑی سے بڑی قربانی دے کر اس نظر یے اورعقیدے کی حفاظت کی جائے گی ۔14 صدیاں قبل شروع ہونے والے عشاق ختم نبوت کے اس سلسلے میں دور حاضر میں جس بطل جلیل کانام سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ حضرت مولانا منظور احمدچنیوٹی رحمہ اﷲہیں جوچند روز قبل دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ فرماگئے۔

مولانا مرحوم بلاشبہہ اس دور میں ختم نبوت کے سب سے بڑے عاشق تھے ،انہوں نے عشق ووفا کی یہ راہ 53 سال قبل اختیار کی تھی اور پے درپے آزمائشوں ،امتحانات ،تکالیف اورمصائب کے باوجودآخر دم تک اس راہ پرگامزن رہے۔وہ31دسمبر1931ءکو چنیوٹ میں پیداہوئے تھے،راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،انہوں نے 1951ء میں دارالعلوم ٹنڈوالہ یار سے دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی، ان کے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا محمدیوسف بنوری، حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی اورحضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری رحمہم اﷲجیسے حضرات شامل تھے۔

1953ء کی ملک گیرتحریک ختم نبوت ان کی زندگی میں انقلابی تبدیلی کاباعث بنی، اس تحریک میں وہ چھ ماہ تک جھنگ اورلاہور کی جیلوں میں قیدرہے ،اس کے بعد وہ قادیانی گروہ کی فتنہ انگیزی کے مقابلے میں مستقل طور ختم نبوت کی حفاظت کے لئے میدان میں اترآئے اور قیدوبند کی صعوبتیں ان کی زندگی کا لازمی عضر بن گئیں۔1974ءکی تحریک ختم نبوت میں سعودی عرب کا دورہ کرکے رابطہ عالم اسلامی سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانا ان کا یادگار کارنامہ ہے۔1954ء سے لے کرآخرعمر تک وہ قادیانیوں کے سربراہوں کوکھلے عام مباہلہ کا چیلنج دیتے رہے مگرقادیانی کبھی مقابلہ پر نہ آئے۔مولانا مرحوم درحقیقت ختم نبوت کے پروانے تھے جس طرح پروانے کو شمع کی تپش اوراپنی سوختگی کا احساس نہیں ہوتا اس طرح مولانا کو ختم نبوت کے میدان میں کام کرتے ہوئے طویل سے طویل سفرکی تکالیف محسو س ہوتیں نہ سخت سے سخت بیماری کی پرواہوتی ۔ادھیڑ عمر ی کے باوجود وہ آرام واستراحت ،حتی کہ خوردنوش اورپرہیزوعلاج کے ضابطوں کو بھی ختم نبوت کے کسی تقاضے کے لئے قربان کردیتے تھے ۔ انہوں نے عمر بھرخطرات کامقابلہ کیا، ان کی زندگی کاہرلمحہ پرخطر تھا،قادیانی ان کی تاک میں رہتے تھے اور ان کی جانب سے انہیں سنگین اقدامات حتی کہ قتل تک کی دھمکیاں دی جاتی رہی تھیں مگرمولانا مرحوم نے اپنی جان کو لاحق ان خطرات کو کوے کے پرکے برابربھی اہمیت نہ دی۔ان کا ایمان تھا کہ زندگی اورموت صرف ایک اﷲکے ہاتھ میں ہے،جس نے موت کا ایک وقت معین کردیاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قادیانیوں کی طرف سے جوں جوں قاتلانہ حملوں کی دھمکیاں میں شدت آتی مولانا مرحوم کا اطمینان بھی بڑھتاچلا جاتا۔ ختم نبوت کے عشاق کے ساتھ اﷲکی مددونصرت کے شامل حال ہونے پر ان کاایمان غیرمتزلزل تھا، اس لئے انہیں مرزا قادیانی کی پیش گوئیوں کی طرح اس کے پیروکاروں کی دھمکیوں کے بھی جھوٹا ثابت ہونے کا پورا یقین تھا۔

گزشتہ سال ضرب مومن کواپنی زندگی کا آخری اورطویل ترین انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ ان کی موت قاتلانہ حملے میں نہیں ہوسکتی بلکہ ان کی موت طبعی ہوگی ۔ان کے اس جملے پرلوگ حیران رہ گئے تھے،موت وحیات کی کیفیت تو صرف اﷲتبارک وتعالی جانتا ہے،عالم الغیب وہی ہے،اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کس کی موت کس حال میں ہوگی۔اس ملک میں جہاں بڑے بڑے علماء کرام دن دیہاڑے شہیدکئے جارہے ہیں مولاناکے پاس بھلا کیا ضمانت ہے کہ ایسانہیں ہوگا؟یہ بات بھی سب جانتے تھے کہ مولانا کو وہ حفاظتی انتظامات حاصل نہیں ہیں جو ان جیسی خطرات میں گھری ہوئی شخصیت کے لئے لازمی ہیں اورپھر اس ملک میں جہاں قانون نامی کسی شے کی بالادستی نہیں ، قاتلوں کے آگے مضبوط سے مضبوط حفاظتی دیواریں بھی ریت کا ڈھیر ثابت ہوتی ہیں۔

یہ وہ خدشات تھے جوبہت سوں کو لاحق تھے۔دراصل مولانامرحوم نے جس بلند سطح سے یہ پیش گوئی کی تھی عوام کی نگاہیں اس سطح تک نہیں پہنچ سکتی تھیں ۔مولانا کو ختم نبوت سے عشق تھا، وہ اس عشق میں خود کو فنا کرچکے تھے ،وہ دنیا بھر میں ختم نبوت کے وکیل کے طور پر پہچانے جاتے تھے ،انہیں یقین تھا کہ ختم نبوت کے ان جیسے پروانوں کو شہید نہیں کیاجاسکتا ،اﷲتعالی انہیں جھوٹا کرکے قادیانیوں کو خوشی منانے کا موقع نہیں دے گا اور اﷲپر اعتماد ویقین سے بھرپور یہ حملہ ان کی موت کے بعد قادیانیوں کے جھوٹا ہونے کاایساثبوت بن جائے گا جسے دیکھ کرہرکس وناکس یکساں طور پر قادیانیت کی شکست کااعتراف کرے گا۔ مولانا نے جو فرمایاتھا وہی ہوا،یہ حق اورباطل کا مقابلہ تھا ،اﷲ نے اپنے دستور کے مطابق حق کو غالب اور باطل کومغلوب کیا۔ قادیانیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود حضرت مولانا مرحوم کواﷲ تعالیٰ نے آخرتک ان کے جان لیوا حملوں سے بچا ئے رکھااور بالآ خر انہوں نے طویل بیماری کے بعد اتوار 8جمادی الاولیٰ1425ء(27جون 2004ء) کو لاہور میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ ان کا جنازہ چنیوٹ کی تاریخ کاسب سے بڑا جنازہ تھا ،ایک لاکھ سے زائدافراد کامجمع اشکبار آنکھوں سے ختم نبوت کے اس عاشق کو الوداع کہہ رہا تھاجورسم عشق ووفانبھا کردنیا والوں کو اک روشن کردار کانمونہ ورثے میں دیے جارہاتھا

[center]آسماں تیری لحدپہ شبنم افشانی کرے[/center]

تحریر: مولانا محمد اسماعیل ریحان
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: عشق کے رنگ

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترمہ حضرت مولانا منظور احمدچنیوٹی رحمہ کے حالاتِ زندگی کے بارے میں بھرپور مضمون شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
عتیق
مشاق
مشاق
Posts: 3184
Joined: Sun Jul 18, 2010 6:52 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: عشق کے رنگ

Post by عتیق »

کافی مزے دار مضمون پیش کیا ہے آپ نے
[center]لاعزۃ الابالجھاد[/center]
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: عشق کے رنگ

Post by اعجازالحسینی »

بہت ہی خوب
ایک عالم ربانی کے حالات زندگی شئیر کرنے کا شکریہ ۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: عشق کے رنگ

Post by نورمحمد »

v;g v;g v;g
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: عشق کے رنگ

Post by پپو »

v;g v;g v;g
Post Reply

Return to “اردو کالم”