ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

مہکتی باتیں، اقوال زریں کا مجموعہ
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

ماؤزے تنگ
جب فوٹو کھنچ چکا تو ماؤ ہمارے سامنے کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگا۔ اب ہم لوگ باری باری اس سے ہاتھ ملانے لگے، جب میری باری آئی تو میں نے اس کے کلچے سے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ ہلانے لگا،پھر میں نے قریبی انٹرپریٹر سے کہا،”ان سے کہو کہ مجھے کوئی نصیحت کریں!۔“”نصیحت!“ ماؤ نے حیران ہو کر پوچھا ”کیسی نصیحت؟“ اس کے چہرے پر ناخوشی کے تاثرات تھے۔میں نے کہا کہ ”نصیحت جو ایک بڑ ا بزرگ، ایک تجربہ کار صاحب فراست اپنے چھوٹوں کو کیا کرتا ہے۔“چیئرمین ماؤ ذرا سا مسکرایا پھر اپنی آدھی بند آنکھوں کو اور بند کر لیا۔ ذرا توقف کیا جیسے آٹو گراف دینے والے لمحہ بھر کے لئے سوچا کرتے ہیں۔پھر بڑی صاف اور کھنک دار آواز میں بولا۔”اس کو کہو کہ اپنی بقا اور سالمیت کے لئے اپنے ملک کی سرحدیں غیرملکی اور سامراجی ثقافت پر سربمہر کر دیں۔ یہی میری نصیحت ہے۔“مجھے اتنے بڑے عظیم اور عالمی رہنما کی یہ چھوٹی سی بات پسند نہ آئی۔ اتنے بڑے ماؤ نے اتنی ہلکی سی بات کہی تھی کہ مجھے حوصلہ ہو گیا۔میں نے کہا،”سر ثقافتیں تو ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ان کو تازہ پانیوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اور پھر یہ دوسری ثقافتوں کے میل جول اور تال میل سے ہی توانا ہوتی ہیں۔“ماؤ نے ہنس کر کہا”جہاں اندر کے پشتے مضبوط ہوتے ہیں وہاں تازہ پانیوں کی آدھ دھار آجانے کی صورت میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن جہاں پشتے کمزور ہوتے ہیں وہاں تازہ پانی طغیانی کی صورت میں آتے ہیں اور جگہ جگہ سے پشتہ بندیاں توڑ کر سارے علاقے کو دلدل بنا دیتے ہیں۔“
اشفاق احمد کی ماؤزے تنگ سے مکالماتی یاد
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

مراقبہ
مراقبہ کیوں کیا جاتا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے، کس لئے وہ بیٹھ کر مراقبہ کرتے ہیں اور اس سے ان کی آخر حاصل کیا ہوتا ہے؟ مراقبے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ایسی مشین یا آلہ ایجاد نہیں ہوا، جو کسی بندے کو لگا کر یہ بتایا جا سکے کہ میں کیا ہوں؟ یا یہ کہ میں کون ہوں؟ اس کے لئے انسان کو خود ہی مشین بننا پڑتا ہے، خود ہی سبجیکٹ بننا پڑتا ہے اور خود ہی جانچنے والا۔ اس میں آپ ہی ڈاکٹر ہے، آپ ہی مریض ہے۔ یعنی میں‌ اپنا سراغ رساں خود ہوں اور اس سراغ رسانی کے طریقے مجھے خود ہی سوچنے پڑتے ہیں کہ مجھے اپنے بارے میں کیسے پتا کرنا ہے۔ بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں، بڑے ہی پیارے، لیکن ان سے کچھ ایسی باتیں سرزد ہوتی رہی ہیں کہ وہ حیران ہوتے ہیں کہ میں عبادت گزار بھی ہوں، میں بھلا، اچھا آدمی بھی ہوں، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں ہوں کون؟ اور پتا اسے یوں نہیں چل پاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند تعالٰی نے انسان کے اندر اپنی پھونک ماری ہوئی ہے اور وہ چلی آ رہی ہے۔ اس کو آپ حذف نہیں کر سکتے۔ اس کو آپ پردہ کھول کر دیکھ نہیں سکتے، آپ ایک لفظ یاد رکھیئے گا "سیلف" یعنی “ذات“ کا۔ اقبال جسے خودی کہتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ اس لفظ خودی کے لئے کئی الفاظ ہیں، لیکن “ ذات “ زیادہ آسان اور معنی خیز ہے۔حضرت علامہ اقبال نے اس لفظ کو بہت استعمال کیا اور اس پر انہوں جے بہت غور بھی کیا۔ اب اس ذات کو جاننے کے لئے جس ذات کے ساتھ بہت سارے خیالات چمٹ جاتے ہیں، جیسے گڑ کی ڈلی کے اوپر مکھیاں آ چمٹتی ہیں یا پرانے زخموں پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں آ کر چمٹ جاتی ہیں۔ خیال آپ کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ ذات وہ خوبصورت پارس جو آپ کے میرے اندر ہم سب کے اندر موجود ہے، وہ کستوری جو ہے وہ چھپی رہتی ہے۔ اس کو تلاش کرنے کے لئے اس اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ (مراقبہ) کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی خوش قسمت کے پاس ایسا گُر آ جاتا ہے کہ وہ چند سیکنڈ کے لئے اس خیال کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کو دور کر دیتا ہے اور اس کو وہ نظر آتا ہے۔ لیکن خیال اتنا ظالم ہے کہ وہ اس خوبصورت قابل رشک زریں چیز کو ہماری نگاہوں کے سامنے آنے نہیں دیتا۔جب آپ دو، تین چار مہینے کے تھے تو اس وقت آپ اپنی ذات کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔ جو معصومیت دے کر اللہ نے آپ کو پیدا کیا تھا، اس کا اور آپ کی ذات کا رشتہ ایک ہی تھا۔ آپ وہ تھے، وہ آپ تھا۔ ایک چیز تھا دو پونے دو سال یا کوئی سی بھی مدت مقرر کر لیں۔ جب خیال آ کر آپ کو پکڑنے لگا تو وہ پھر یہ ہوا کہ آپ گھر میں بیٹھے تھے۔ ماں کی گود میں۔ کسی کی بہن آئی انہوں نے آ کر کہا کہ اوہ ہو، نسرین یہ جو تمہارا بیٹا ہے یہ تو بالکل بھائی جان جیسا ہے۔ اس بیٹا صاحب نے جب یہ بات سن لی تو اس نے سوچا میں تو ابا جی ہوں۔ ایک خیال آ گیا نا ذہن میں، حالانکہ وہ ہے نہیں ابا جی۔ پھر ایک دوسری پھوپھی آ گئیں۔ انہوں نے آ کر کہا کہ اس کی تو آنکھیں بڑی خوبصورت ہیں، تو اس بچے نے سوچا میں تو خوبصورت آنکھوں والا ہیرو ہوں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انسان نے اپنی ذات کے آگے سائن بورڈ لٹکانے شروع کر دیئے: ہیرو، رائٹر، لیڈر، پرائم منسٹر، خوبصورت اور طاقتور وغیرہ۔ اس طرح کے کتنے سارے سائن بورڈز لٹکا کر ہم آپ سارے جتنے بھی ہیں، نے اپنے اپنے سائن بورڈ لگا رکھے ہیں اور جب ملنے کے لئے آتے ہیں، تو ہم اپنا ایک سائن بورڈ آگے کر دیتے ہیں۔ کہ میں تو یہ ہوں اور اصل بندہ اندر سے نہیں نکلتا اور اصل کی تلاش میں ہم مارے مارے پھر رہے ہیں۔خدا تعالٰی نے اپنی روح ہمارے اندر پھونک رکھی ہے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھائیں اس کی خوشبو ایک بار لیں، اس کے لئے لوگ تڑپتے ہیں اور لوگ جان مارتے ہیں۔ وہ ذات جو اللہ کی خوشبو سے معطّر ہے اس کے اوپر وہ خیال جس کا میں ذکر کر رہا ...ہوں اس کا بڑا بوجھ پڑا ہوا ہے۔ وہ خیال کسی بھی صورت میں چھوڑتا نہیں ہے۔ اس خیال کو اس کستوری سے ہٹانے کے لئے مراقبے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ آدمی ذرا ٹھیک ہو۔ اس کو پتا چلے کہ وہ کیا ہے۔ اس سے پھر اسے نماز میں بھی مزا آتا ہے۔ عبادت، گفتگو، ملنے ملانے میں، ایک دوسرے کو سلام کرنے میں بھی مزا آتا ہے۔ ایک خاص تعلق پیدا ہوتا ہے، اس کے لئے جس کا بتانے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ دو اوقات صبح اور شام صبح فجر پڑھنے کے بعد اور شام کو مغرب کے بعد (یہ اوقات ہی اس کے لئے زیادہ اچھے ہیں) آپ بیس منٹ نکال کر گھر کا ایک ایسا کونہ تلاش کریں، جہاں دیوار ہو، جو عمودی ہو، وہاں آپ چار زانو ہو کر “ چوکڑی “ مار کر بیٹھ جائیں۔ اپنی پشت کو بالکل دیوار کے ساتھ لگا لیں، کوئی جھکاؤ “ کُب“ نہ پیدا ہو۔ یہ بہت ضروری ہے، کیونکہ جو کرنٹ چلنا ہے، نیچے سے اوپر تک وہ سیدھے راستے سے چلے۔اب ماڈرن زندگی ہے، بہت سے لوگ چوکڑی مار کر نہیں بیٹھتے۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھ جائیں، لیکن اس صورت میں پاؤں زمیں کے ساتھ لگے رہنے چاہیں۔ اور آپ کو ارض یعنی مٹی کے ساتھ ہو کر رہنا چاہیئے۔ جب تک آپ ارتھ نہیں ہوں گے، اس وقت تک آپ کو مشکل ہو گی۔ پاؤں کے نیچے دری قالین بھی ہو تو کوئی بات نہیں، لیکن زمین ہو تو بہت ہی اچھا ہے۔ چونکہ فقیر لوگ جنگلوں میں ایسا کرتے تھے، وہ ڈائریکٹ ہی زمین کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے۔ ہماری زندگی ذرا اور طرح کی ہے۔ جب آپ وہاں بیٹھ جائیں گے تو پھر آپ کو ایک سہارے کی ضرورت ہے۔ جس کو آپ پکڑ کر اس سیڑھی پر چڑھ سکیں، جو لگا لی ہے۔ صرف یہ جھانکھنے کے لئے کہ “ ذات“ کیا چیز ہے؟ اس کے لئے ہر کسی کے پاس ایک “ڈیوائس“ ایک آلہ ہے، جو سانس ہے، جو ساتھ ہے، بیٹھنے کے بعد آپ اپنے سانس کے اوپر ساری توجہ مرکوز کر دیں اور یہ دیکھیں کہ ہر چیز سے دور ہٹ کر جس طرح ایک بلی اپنا شکار پکڑنے کے لئے دیوار پر بیٹھی ہوتی ہے۔ اپنے شکار یعنی سانس کی طرف دیکھیں کہ یہ جا رہا ہے اور آ رہا ہے۔اس کام میں کوتاہی یا غلطی یہ ہوتی ہے کہ آدمی سانس کو ضرورت سے زیادہ توجہ کے ساتھ لینے لگ جاتا ہے، یہ نہیں کرنا۔ آپ نے اس کو چھوڑ دینا ہے، بالکل ڈھیلا صرف یہ محسوس کرنا ہے کہ یہ کس طرح سے آتا ہے اور جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پہلے دن تقریباً ایک سیکنڈ یا ڈیڑھ سیکنڈ تک سانس کے ساتھ چل سکیں گے۔ اس کے بعد خیال آپ کو بھگا لے جائے گا۔ وہ کہے گا کہ یہ بندہ تو اللہ کے ساتھ واصل ہونے لگا ہے۔ میں نے تو بڑی محنت سے اس کو خیالوں کی دنیا میں رکھا ہے (وہ خیال چلتا رہتا ہے، موت تک۔ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ جی نماز پڑھنے لگتے ہیں تو بڑے خیال آتے ہیں)۔ وہ خیال آپ کو کہیں کا کہیں کافی دور تک لے جائے گا۔ جب آپ کو یہ خیال آئے کہ میں تو پھر خیال کے نرغے، گھیرے یا چُنگل میں آ گیا، چاہے اسے بیس منٹ بھی گزر چکے ہوں، آپ پھر لوٹیں اور پھر اپنے سانس کے اوپر توجہ مرکوز کر دیں اور جتنی دیر ہو سکے، سانس کو دیکھیں محسوس کریں۔لیکن زیادہ کوشش نہیں کرنی اس میں جنگ و جدل اور جدوجہد نہیں ہے کہ آپ نے کوئی کُشتی لڑنی ہے۔ یہ ڈھیلے پن کا ایک کھیل ہے اور اسی معصومیت کو واپس لے کر آنا ہے جب آپ ایک سال کے تھے اور جو آپ کے اندر تھی یا چلنے لگے تھے، تو تھی۔ اس میں بچہ معصومیت کو لینے کے لئے زور تو نہیں لگاتا ہے ناں، جب یہ پروسِـس آپ کرنے لگیں گے تو آپ کا عمل ایسا ہونا چاہئے تھا، یا ہو جیسا کہ ٹینس کے کھلاڑی کا ہوتا ہے۔ ٹینس کھیلنے والا یا کھیلنے والی کی زندگی ٹینس کے ساتھ وابستہ ہے (یہ بات میں نے مشاہدے سے محسوس کی ہے)۔ آپ یہ کبھی گمان نہیں کر سکتے کہ ٹینس کا کھلاڑی آپ کو ہر حال میں ٹینس کورٹ میں اپنی گیم بہتر کرتا ہی ملے گا۔ اگر غور سے دیکھیں تو ٹینس کا کھلاڑی ہم سے آپ سے بہت مختلف ہوتا ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ ٹینس ہی کھاتا ہے، ٹینس ہی پہنتا ہے، یہی پیتا ہے، ٹینس ہی پہنتا ہے اور ٹینس ہی چلتا ہے۔ یہ اس قدر اس پر حاوی اور طاری ہو جاتی ہے، اس معاملے میں بھی آپ چاہے مراقبے کے اندر ہوں یا باہر نکل آئے ہوں، آپ نے دفتر جانا، منڈی جانا ہے، کام پر جانا ہے، دکان پر جانا ہے، لیکن ٹینس کے کھلاڑی کی طرح آپ کے اندر یہ ایک طلب ہونی چاہئیے تھا، دل لگی ہونی چاہئیے تھا کہ میں نے ذات کے ساتھ ضرور واصل ہونا ہے۔
زاویہ 2 ، باب 12 سے اقتباس
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by افتخار »

سمجھنا کافی مشکل ھے۔
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

کو شش سےہی ہے
ارادہ کر لیں ایک بندہ ہے وہ سمجھا دے گا
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by چاند بابو »

بہت خوب یار لاجواب ۔
آپ نے یہ بہت اچھا کیا کہ اسے ایک سلسلے کی صورت دے ڈالی۔
لاجواب شئیرنگ کا نہایت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

بس آپ کی رہنمائی درکا ہے
پسندکرنے کا شکریہ
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by چاند بابو »

اللہ اب اتنی انکساری چھوڑیں جناب اور سیدھا طریقہ اختیار کریں صرف شکریہ وصول کریں مکھن بعد کے لئے رکھ چھوڑیں پراٹھے بنانے کے کام آئے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

کیسا زمانہ آگیا ہے
اب کسی سے کچھ کہنا سننا کونسا آسان ہے
کسی کی صاف نیت کو بھی دنیا مکھن کا نام دیتی ہے
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by علی عامر »

جزاک اللہ .... r;o;s;e
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

سلطان سنگھاڑے والا
انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب اُس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ اب بڑے پُرسکون انداز میں زندگی بسر کرے اور وہ ایسے جھمیلوں میں نہ رہے، جس طرح کے جھمیلوں میں اُس نے اپنی گزشتہ زندگی بسر کی ہوئی ہوتی ہے اور یہ آرزو بڑی شدت سے ہوتی ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ دوستی لگا لیتے ہیں، وہ بڑے مزے میں رہتے ہیں اور وہ بڑے چالاک لوگ ہوتے ہیں۔ ہم کو اُنہوں نے بتایا ہوتا ہے کہ ہم ادھر اپنے دوستوں کے ساتھ دوستی رکھیں اور وہ خود بیچ میں سے نکل کر اللہ کو دوست بنا لیتے ہیں۔ اُن کے اوپر کوئی تکلیف، کوئی بوجھ اور کوئی پہاڑ نہیں گرتا۔ سارے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے میرے اور آپ کے ہیں، لیکن ان لوگوں کو ایک ایسا سہارا ہوتا ہے، ایک ایسی مدد حاصل ہوتی ہے کہ اُنہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
میں نے یہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ہمارے گھر میں دھوپ سینکتے ہوئے میں ایک چڑیا کو دیکھا کرتا ہوں، جو بڑی دیر سے ہمارے گھر میں رہتی ہے اور غالباً یہ اُس چڑیا کی یا تو بیٹی ہے، یا نواسی ہے جو بہت ہی دیر سے ہمارے مکان کی چھت کے ایک کونے میں رہتی ہے۔ ہمارا مکان ویسے تو بڑا اچھا ہے، اس کی "آروی" کی چھتیں ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی کھدرا ایسا رہ ہی جاتا ہے، جو ایسے مکینوں کو بھی جگہ فراہم کر دیتا ہے۔ یہ چڑیا بڑے شوق، بڑے سبھاؤ اور بڑے ہی مانوس انداز میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ ہمارے کمرے کے اندر بھی اور فرش پر بھی چلی آتی ہے۔ کل ایک فاختہ آئی جو ٹیلیفون کی تار پر بیٹھی تھی اور یہ چڑیا اُڑ کر اُس کے پاس گئی، اُس وقت میں دھوپ سینک (تاپ) رہا تھا۔ اُس چڑیا نے فاختہ سے پوچھا کہ " آپا یہ جو لوگ ہوتے ہیں انسان، جن کے ساتھ میں رہتی ہوں، یہ اتنے بے چین کیوں ہوتے ہیں؟یہ بھاگے کیوں پھرتے ہیں؟ دروازے کیوں بند کرتے اور کھولتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟" فاختہ نے کہا کہ "میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم جانوروں کا ایک اللہ ہوتا ہے، ان کا کوئی اللہ نہیں ہے اور ہمیں یہ چاہئے کہ ہم مل کر کوئی دعا کریں کہ ان کو بھی ایک اللہ مل جائے۔ اس طرح انہیں آسانی ہو جائے گی، کیونکہ اگر ان کو اللہ نہ مل سکا، تو مشکل میں زندگی بسر کریں گے۔"
اب معلوم نہیں میری چڑیا نے اُس کی بات مانی یا نہیں، لیکن وہ بڑی دیر تک گفت وشنید کرتی رہیں اور میں بیٹھا اپنے تصور کے زور پر یہ دیکھتا رہا کہ ان کے درمیان گفتگو کا شاید کچھ ایسا ہی سلسلہ جاری ہے۔ تو ہم کس وجھ سے، ہمارا اتنا بڑا قصور بھی نہیں ہے، ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔
ہمارے ایک دوست تھے۔ وہ تب ملتے تھے، جب ہم راولپنڈی جاتے تو کہتے کہ جی آنا، کوئی ملنے کا پروگرام بنانا، یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن ایڈریس نہیں بتاتے تھے۔ جیسے ہم اللہ کو اپنا ایڈریس نہیں بتاتے کسی بھی صورت میں میں کہ کہیں سچ مچ ہی نہ پہنچ جائے۔ ایک دھڑکا لگا رہتا ہے۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ بس مہینے کے آخری ویک کی کسی ڈیٹ کو ملاقات کا پروگرام بنا لیں گے۔ Sunset کے قریب، نہ ڈیٹ بتاتے تھے نہ ٹائم بتاتے تھے، Determine نہیں کرتے تھے، تو ایسا ہی اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے، بلکہ کسی حد تک ڈر جاتے ہیں کہ خدا نخواستہ اگر ہم نے اللہ سے دوستی لگا لی اور وہ آگیا تو ہمیں بڑے کام کرنے پڑیں گے۔ دوپٹہ چننا ہوتا ہے، بوٹ پالش کرنا ہوتے ہیں، مہندی پر جانا ہوتا ہے۔ اُس وقت اللہ میاں آگئے اور اُنہوں نے کہا کہ "کیا ہو رہا ہے؟" تو مشکل ہوگی۔ ہم نے آخر زندگی کے کام بھی نمٹانے ہیں۔ باقی جو بات میں سوچتا ہوں اور میں نے اپنے بابا کو یہ جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرنا بہت اچھی بات ہے اور ہے بھی اچھی بات۔ اُنہوں نے کہا کہ عبادت کرنا ایک اور چیز ہے، تم نے تومجھ سے کہا کہ میں خداوند کریم کو بِلا واسطہ طور پو ملنا چاہتا ہوں۔ عبادت کرنا تو ایک گرائمر ہے جو آپ کر رہے ہیں اور اگر آپ عبادت کرتے بھی ہیں، تو پھر آپ اپنی عبادت کو Celebrate کریں، جشن منائیں، جیسے مہندی پر لڑکیاں تھال لےکر ناچتی ہیں نا، موم بتیاں جلا کر اس طرح سے، ورنہ تو آپ کی عبادت کسی کام کی نہیں ہوگی۔
جب تک عبادت میں Celebration نہیں ہوگی، جشن کا سماں نہیں ہوگا، جیسے وہ بابا کہتا ہے "تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا" چاہے سچ مچ نہ ناچیں لیکن اندر سے اس کا وجود اور روح "تھیا تھیا" کر رہی ہے، لیکن جب تک Celebration نہیں کرے گا، بات نہیں بنے گی۔ اس طرح سے نہیں کہ نماز کو لپیٹ کر "چار سنتاں، فیر چار فرض فیر دو سنتاں فیر دو نفل،تِن وِتر" سلام پھیرا، چلو جی رات گزری فکر اُترا۔ نہیں جی! یہ تو عبادت نہیں۔ ہم تو ایسی ہی عبادت کرتے رہے ہیں، اس لیے تال میل نہیں ہوتا۔ جشن ضرور منانا چاہئے عبادت کا، دل لگی، محبّت اور عقیدت کے ساتھ عبادت۔ ہمارے یہاں جہاں میں رہتا ہوں، وہاں دو بڑی ہاکی اور کرکٹ گراونڈز ہیں، وہاں سنڈے کے سنڈے بہت سویرے، جب ہم سیر سے لوٹ رہے ہوتے ہیں، منہ اندھیرے گڈی اُڑانے والے آتے ہیں۔ وہ اس کا بڑا اہتمام کئے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے بڑے بڑے تھیلے ہوتے ہیں اور بہت کاریں ہوتی ہیں، جن میں وہ اپنے بڑے تھیلے رکھ کر پتنگ اُڑانے کے لئے کھلے میدان میں آتے ہیں۔ اب وہ خالی پتنگ نہیں اُڑاتے، بلکہ اہتمام کے ساتھ اس کا جشن بھی مناتے ہیں۔ جب تک اس کے ساتھ جشن نہ ہو، وہ پتنگ نہیں اڑتی اور نہ ہی پتنگ اُڑانے والا سماں بندھتا ہے، کھانے پینے کی بے شمار چیزیں باجا بجانے کے "بھومپو" اور بہت کچھ لے کر آتے ہیں، وہاں جشن زیادہ ہوتا ہے، کائٹ فلائنگ کم ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں عبادت زیادہ ہوتی ہے، Celebration، اللہ کو ماننا کم ہوتا ہے۔
میں نے سوچا یہ گڈی اُرانے والے بہت اچھے رہتے ہیں، ہمارے پاس بابا جی کے ہاں ایک گڈی اُڑانے والا آیا کرتا تھا موچی دروازے کے اندر علاقے سے، بڑی خوبصورت دھوتی (تہبند) باندھتا تھا، جیسے انجمن فلموں میں باندھا کرتی تھی، لمبے لڑ چھوڑ کرباندھا کرتی تھی، وہ جب آتا تو ہمارے بابا جی اُسے کہتے، گڈی اُڑاؤ ( اس طرح باباجی ہمیں Celebrate کرنے کا حوصلہ دیتےتھے، جو بات اب سمجھ میں آئی ہے) وہ اتنی اونچی پتنگ اُڑاتا تھا کہ نظروں سے اوجھل ہو جاتی تھی میرے جیسا آدمی تو اس لمبی ڈور کو سنبھال بھی نہیں سکتا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ بھا صدیق! تم یہ گڈی کیوں اُڑاتے ہو؟ کہنے لگا، جی ! یہ گڈی اُڑانا بھی اللہ کے پاس پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کہنے لگا، نظر نہیں آتی، لیکن اس کی کھینچ بتاتی رہتی ہے کہ میں ہوں، اللہ نظر نہیں آتا لیکن آپ کے دلوں کی دھڑکن یہ بتاتی ہے کہ "میں ہوں"۔ یہ نہیں کہ وہ آپ کے رُوبرو آ کر موجود ہو۔
جب میں ریڈیو میں کام کرتا تھا تو ہمیں ایک Assignment ملی تھی۔ وہ یہ کہ پتا کریں چھوٹے دکانداروں سے کہ وہ کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں سے مراد چھابڑی فروش۔ یہ کچھ دیر کی بات ہے، میں نے بہت سے چھابڑی فروشوں کا انٹرویو کیا۔ اُن سے حال معلوم کئے۔ پیسے کا ہی سارا اونچ نیچ ہے اور ہم جب بھی تحقیق کرتے ہیں یا تحلیل کرتے ہیں یا Analysis کرتے ہیں تو Economics کی Base پر ہی کرتے ہیں کہ کتنے امیر ہیں، کتنے غریب ہیں، کیاتناسب ہے کہ وہ کس Ratio کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اُن کے کیا مسائل ہیں؟ دِلّی (دہلی) دروازے کے باہر اگر آپ لوگوں میں سے کسی نے دہلی دروازہ دیکھا ہو، اُس کے باہر ایک آدمی کھڑا تھا نوجوان، وہ کوئی تیس بتیس برس کا ہو گا۔ وہ سنگھاڑے بیچ رہا تھا۔ میں اُس کے پاس گیا۔ میں نے پوچھا، آپ کا نام کیا ہے؟ کہنے لگا، میرا نام سلطان ہے! میں نے کہا کب تک تم یہ سنگھاڑے بیچتے ہو؟ کہنے لگا، شام تک کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے پوچھا اس سے تمہیں کتنے روپے مل جاتے ہیں؟ اُس نے بتایا، ستر بہتر روپے ہوجاتے ہیں۔ میں نے اُس سے پوچھا، انہیں کالے کیسے کرتے ہیں؟ ( میری بیوی پوچھتی رہتی تھی مجھ سے،کیونکہ وہ دیگچے میں ڈال کر اُبالتی ہے تو وہ ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں) اُس نے کہا کہ جی پنساریوں کی دکان سے ایک چیز ملتی ہے، چمچہ بھر اس میں ڈال دیں تو کالے ہو جائیں گے اُبل کر اور آپ جا کر کسی پنساری سے پوچھ لیں کہ سنگھاڑے کالے کرنے والی چیز دے دیں، وہ دیدے گا۔جب اُس نے یہ بات کی تو میں نے کہا، یہ اندر کے بھید بتانے والا آدمی ہے اور کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھتا۔ کھلی نیّت کا آدمی ہے۔ یقیناً یہ ہم سے بہتر انسان ہوگا۔
میں نے کہا، جب آپ ستر بہتر روپے روز بنا لیتے ہیں تو پھر ان روپوں کا کیا کرتےہیں؟ کہنے لگا، میں جا کر "رضیہ" کو دے دیتا ہوں۔ میں نے کہا، رضیہ کون ہے؟ کہنے لگا، میری بیوی ہے۔میں نے کہا کہ شرم کرو اتنی محنت سے پیسے کماتے ہو اور سارے کے سارے اُسے دے دیتے ہو۔ کہنے لگا، جی اسی کے لئے کماتے ہیں۔ ( اللہ کہتا ہے نا قرآنِ پاک میں کہ اَلرّجَالُ قُوامُون عَلیٰ النِسّاء یہ جو مرد ہیں، یہ عورت کے Provider ہیں )۔ میں نے اُس سے کہا، اچھا تو بیچ میں سے کچھ نہیں رکھتے؟ کہنے لگا، نہیں جی! مجھے کبھی ضرورت نہیں پڑی۔ میں نے کہا، اس وقت رضیہ کہاں ہے؟ ( وہ inside خوبصورت آدمی تھا اس لیے مجھے اُس میں دلچسپی پیدا ہوئی) کہنے لگا، رضیہ کہیں بازار وغیرہ گئی ہو گی۔ اس کی دو سہیلیاں ہیں اور وہ تینوں صبح سویرے نکل جاتی ہیں بازار۔ اُس نے بتایا کہ وہ کبھی کبھی گلوکوز لگواتی ہیں، اُن کو شوق ہے ( اس طرح مجھے تو بعد میں پتا چلا کہ اندرونِ شہر کی عورتیں گلوکوز لگوانا پسند کرتی ہیں، گلوکوز لگوانا انہیں اچھی سی چیز لگتی ہے کہ اس کے لگوانے سے جسم کو تقویت ملے گی)۔ میں نے کہا، اچھا تم خوش ہو اُس کے ساتھ؟ کہنے لگا، ہاں جی! ہم اپنے اللہ کے ساتھ بڑے راضی ہیں۔ میری تو اللہ کے ساتھ ہی آشنائی ہے۔ میں تو کسی اور آدمی کو جانتا نہیں۔ اس پر میں چونکا اور ٹھٹکا۔ اُس کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ایک بڑا آدمی ہے لاہور کا۔ میں نے اگر کوئی حاکم دیکھا ہے تو وہ "سلطان سنگھاڑا فروش" ہے۔ اُس کو کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ کوئی واردات، واقعہ اُس کے اوپر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔
میں اُس سے جب بھی ملتا رہا کوئی شکایت اُس کی زبان پر نہیں ہوتی تھی۔ اب تو تین سال سے جانے وہ کہاں غائب ہے۔ مجھے نظر نہیں آیا، لیکن میں اُس کے حضور میں حاضری دیتا ہی رہا۔ اُس کا درجہ چونکہ اس اعتبار سے بلند تھا کہ اُس کی دوستی ایک بزرگ ترین ہستی سے تھی۔ میں ذرا اپنی گفتار اور باتوں میں تھوڑا سا با ادب ہو گیا۔ میں نے اُس سے کہا، یار سلطان! کیا تم اللہ کے ساتھ گفتگو بھی کرتے ہو؟ کہنے لگا، ہم تو شام کو جاتے، صبح کو آتےہوئے، منڈی سے سودا خریدتے ہوئے اُس کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور اُسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ میں نے کہا، کون سی زبان میں؟ وہ کہنے لگا، "اوہ پنجابی وی جاندا اے، اردو جاندا اے، سندھی جو وی بولی بولیں او سب جاندا اے!" میں نے کہا تو نے مجھے بتایا تھا ایک دن کہ گیارہ برس ہوگئے تمہاری شادی کو اور تمہارا کوئی بچّہ نہیں ہے؟ کہنے لگا، بچّہ کوئی نہیں میں اور رضیہ اکیلے ہیں۔ میں نے کہا، اللہ سے کہو کہ اللہ تجھے ایک بچّہ دے۔ کہنے لگا، ، نہیں جی! یہ تو ایک بڑی شرم کی بات ہے۔ بزرگوں سے ایسی بات کیا کرنی، بُرا سا لگتا ہے۔ وہ خداوند تعالٰی کو ایک بزرگ ترین چیز سمجھ کر کہ رہا تھاکہ جی! بڑوں کے ساتھ ایسی بات نہیں کرنی۔ میں یہ کہتا فضول سا لگوں گا کہ اللہ مجھے بچّہ دے۔
میں نے کہا کہ کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ ہماری بھی اُس کے ساتھ دوستی ہو جائے؟ کہنے لگا، اگر آپ چاہیں تو ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نہ چاہیں تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے جیسا کہ میں پہلے عرض کر رہا تھا، اپنے سارے برسوں کا میں نے جائزہ لیا، سارے دنوں کا، میں نے کبھی یہ نہیں چاہا۔ میرا یہی خیال تھا کہ میں عبادت کروں گا اور عبادت ہی اس کا راز ہے اور عبادت کو ہی لپیٹ کر رکھ دوں گا اپنے مصلّے کے اوپر اور دن رات اسی طرح عبادت کرتا رہوں گا۔ لیکن وہ جو میرا منتہائے مقصود ہے، وہ جو میرا محبوب ہے، اُس کی طرف جانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ میں یہی سمجھتا رہا اور آج تک یہی سمجھتا رہا ہوں کہ عبادت ہی یہ سارا راز اور سارا بھید ہے، حلانکہ عبادت سے ماورا (میں یہ جو بات عرض کر رہا ہوں، آپ کو سمجھانے کے لئے کر رہا ہوں) عبادت سے پرے ہٹ کر ایک آرزو کی بھی تلاش ہے کہ میں اپنے اللہ کے ساتھ جس کی کوئی ایک ہستی ہے نہ نظر میں آنے والی، اس کے ساتھی کوئی رابطہ قائم کروں، جیسا سلطان نے کیا تھا۔ جیسے اُس کے علاوہ چار پانچ بندے اور بھی ہیں میری نظر میں۔ میں نے اس بات سے اندازاہ لگایا کہ اتنا خوش آدمی میں نے زندگی میں کوئی نہیں دیکھا۔ جتنے بھی اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ تھے، وہ انتہائی خوش تھے۔
1965ء کی جنگ میں اس (سلطان) کے پاس گیا، لوگ گھبرائے بھی ہوئے تھے، جذباتی بھی تھے۔ وہ ٹھیک تھا، ویسے ہی، بالکل اسی انداز میں جیسے پہلے ملا کرتا تھا۔ میں نے اُس سے کہا تم مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جس سے میرے دل میں چلو کم از کم یہ خواہش ہی پیدا ہوجائے، خدا سے دوستی کی اور میں کم از کم اس پلیٹ فارم سے اُتر کر دو نمبر کے پلیٹ فارم پر آ جاؤں۔ پھر میں وہاں سے سیڑھیاں چڑھ کر کہیں اور چلا جاؤں۔ میری نگاہ اوپر ہوجائے، تو کہنے لگا ( حالانکہ اَن پڑھ آدمی تھا، اب لوگ مجھ سے بابوں کا ایڈریس پوچھتے ہیں، میں انہیں کیسے بتاؤں کہ ایک سلطان سنگھاڑے والا دِلّی دروزے کے باہر جہاں تانگے کھڑے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے کھڑا ہے، جو بہت عظیم "بابا" ہے اور نظر آنے والوں کوشاید نظر آتا ہوگا، مجھے پورے کا پورا تو نظر نہیں آتا ) بھا جی! بات یہ ہے کہ جب ہم منہ اوپر اُٹھاتے ہیں تو ہم کو آسمان اور ستارے نظر آتے ہیں۔ اللہ کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ کہنے لگا، آپ کبھی مری گئے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں میں کئی بار مری گیا ہوں۔ کہنے لگا، جب آدمی مری جاتا ہے نا پہاڑی پر تو پھر حال کا نظارہ لینے کے لئے وہ نیچے بھی دیکھتا ہے اور اوپر بھی۔ پھر اُس کا سفر Complete ہوتا ہے۔ خالی ایک طرف منہ کرنے سے نہیں ہوتا۔ جب آپ نیچے کو اور اوپر کو ملاتے ہیں، تو پھر ساری وسعت اس میں آتی ہے۔
اُس نے کہا کہ یہ ایک راز ہے جب آدمی یہ سمجھنے لگ جائے کہ میں وسعت کے اندر داخل ہو رہا ہوں ( وہ پنجابی میں بات کرتا تھا، اُس کے الفاظ تو اور طرح کے ہوتے تھے) پھر اُس کو قربت کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن حوصلہ کر کے وہی کہنا پڑتا ہے، جیسا کہ بابا جی کہتے تھے کہ "اے اللہ! تو میرے پاس آجا مجھ میں تو اتنی ہمّت نہیں کہ میں آ سکوں" اور وہ یقیناً آتا ہے۔ بقول سلطان سنگھاڑے والے کے کہ اس کے لئے کہیں جانا نہیں پڑتا، اس لئے کہ وہ تو پہلے سے ہی آپ کے پاس موجود ہے اور آپ کی شہ رگ کے پاس کرسی ڈال کر بیٹھا ہوا ہے۔ آپ اُسے دعوت ہی نہیں دیتے۔ میں نے اُس سے کہا کہ اس کا مجھے کوئی راز بتا، مجھے کچھ ایسی بات بتا کہ جس سے میرے دل کے اندر کچھ محسوس ہو۔ کہنے لگا، جی! آپ کے دل کے اندر کیا میں تو سارے پاکستان کے، لاہور کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب وہ باہر نکلا کریں پورا لباس پہن کر نکلا کریں۔ میں نے کہا، سارے ہی پورا لباس پہنتے ہیں۔ کہنے لگا، یہ دیکھ تانگے میں چار بندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پورا لباس نہیں پہنا ہوا۔ میں نے کہا، یہ بابو گزرا ہے تھری پیس سوٹ پہنا ہوا ہے اس نے ٹائی بھی لگائی ہوئی ہے۔ کہنے لگا، نہیں جی آدمی جب کم از کم باہر نکلے تو جس طرح لڑکیاں میک اپ کرتی ہیں، خاص طور پر باہر نکلنے کے لئے، تو اس طرح آدمی کو بھی اپنے لباس کے اوپر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔
میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ کوئی اخلاقی بات کرنا چاہتا ہے لباس کے بارے میں، جیسے ہم آپ لوگ کرتے ہیں۔ کہنے لگا، لوگ سارے کپڑے پہن تو لیتے ہیں، لیکن اپنے چہرے پر مسکراہٹ نہیں رکھتے اور ایسے ہی آجاتے ہیں لڑائی کرتے ہوئے اور لڑائی کرتے ہوئے ہی چلے جاتے ہیں۔ تو جب تک آپ چہرے پر مسکراہٹ نہیں سجائیں گے، لباس مکمل نہیں ہوگا۔ یہ جو تانگے پر بیٹھے ہوئے ہیں چار آدمی، کہنے لگا یہ تو برہنہ جا رہے ہیں۔ مسکراہٹ اللہ کی شکر گزاری ہے اور جب آدمی اللہ کی شکر گزاری سے نکل جاتا ہے، تو پھر وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ میں کہا، یار! ہم تو بہت عبادت گزار لوگ ہیں۔ باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگا،جی! میں لال قدسی میں رہتا ہوں، وہاں بابا وریام ہیں۔ وہ رات کو بات (لمبی کہانی) سنایا کرتے ہیں۔
انہوں نے ہمیں ایک کہانی سنائی کہ پیرانِ پیر کے شہر بغداد میں ایک بندہ تھا جو کسی پر عاشق تھا۔ اُس کے لئے تڑپتا تھا، روتا تھا، چیخیں مارتا تھا اور زمین پر سر پٹختا تھا۔ لیکن اُس کا محبوب اُسے نہیں ملتا تھا۔ اُس شخص نے ایک بار خدا سے دعا کی کہ اے اللہ! ایک بار مجھے میرے محبوب کے درشن تو کرا دے۔اللہ تعالٰی کو اُس پر رحم آگیا اور اُس کا محبوب ایک مقررہ مقام پر، جہاں بھی کہا گیا تھا، پہنچ گیا۔ دونوں جب ملے تو عاشق چٹھیوں کا ایک بڑا بنڈل لے آیا۔ یہ وہ خط تھے، جو وہ اپنے محبوب کے ہجر میں لکھتا رہا تھا۔ اُس نے وہ کھول کر اپنے محبوب کو سنانے شروع کر دئیے۔ پہلا خط سنایا اور اہنے ہجر کے دکھڑے بیان کئے۔ اس طرح دوسرا خط پھر تیسرا خط اور جب وہ گیارہویں خط پر پہنچا تو اُس کے محبوب نے اُسے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا "گدھے کے بچّے! میں تیرے سامنے موجود ہوں، اپنے پورے وجود کے ساتھ اور تو مجھے چٹھیاں سنا رہا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی" سلطان کہنے لگا، بھا جی! عبادت ایسی ہوتی ہے۔آدمی چٹھیاں سناتا رہتا ہے، محبوب اُس کے گھر میں ہوتا ہے، اُس سے بات نہیں کرتا۔ جب تک اُس سے بات نہیں کرے گا، چٹھیاں سنانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ایسے لوگ بڑے مزے میں رہتے ہیں۔ میں بڑا سخت حاسد ہوں ان کا، میں چاہتا ہوں کہ کچھ کئے بغیر، کوشش، Struggle کئے بغیر مجھے بھی ایسا مقام مل جائے، مثلاً جی چاہتا ہے کہ میرا بھی پرائز بانڈ نکل آئے ساڑھے تین کروڑ والا۔ لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ چاہے وہ پرائز بانڈ نکلے نہ نکلے ( ایمانداری کی بات کرتا ہوں) مجھے وہ عیاشی میسر آجائے، جو میں نے پانچ آدمیوں کے چہرے پر اُن کی روحوں پر دیکھی تھی، کیونکہ اُن کی دوستی ایک بہت اونچے مقام پر تھی۔



زاویہ سے اقتباس
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

ماننے والا شخص
خواتین و حضرات اپنے دکھ اور کوتاہیاں دور کرنے کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم تسلیم کرنے والوں میں، ماننے والوں میں شامل ہو جائیں اور جس طرح خداوند تعالٰی کہتا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ میرا بڑا بیٹا کہتا ہے کہ ابو دین میں پورے کے پورے کس طرح داخل ہو جائیں تو میں اس کو کہتا ہوں کہ جس طرح سے ہم بورڈنگ کارڈ لے کر ایئر پورٹ میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر جہاز میں بیٹھ کر ہم بے فکر ہو جاتے ہیں کہ یہ درست سمت میں ہی جاۓ گا اور ہمیں اس بات کی فکر لاحق نہیں ہوتی کہ جہاز کس طرف کو اڑ رہا ہے۔ کون اڑا رہا ہے بلکہ آپ آرام سے سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ کو کوئی فکر فاقہ نہیں ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے دین کا بورڈنگ کارڈ اپنے یقین کا بورڈنگ کارڈ ہمارے پاس ہونا چاہیے تو پھر ہی خوشیوں میں اور آسانیوں میں رہیں گے وگرنہ ہم دکھوں اور کشمکش کے اندر رہیں گے اور تسلیم نہ کرنے والا شخص نہ تو روحانیت میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی سائنس میں داخل ہو سکتا ہے۔ جو چاند کی سطح پر اترے تھے جب انہوں نے زمین کے حکم کے مطابق ورما چلایا تھا تو اس نے کہا کہ ورما ایک حد سے نیچے نہیں جا رہا۔ جگہ پتھریلی ہے لیکن نیچے سے حکم اوپر گیا کہ نہیں تمھیں اسی جگہ ورما چلانا ہے۔ وہ ماننے والوں میں سے تھا اور اس نے بات کو تسلیم کرتے ہوۓ اسی جگہ ورما چلایا اور اس کے بلآخر وہ گوہرِ مقصود ہاتھ آ گیا جس کی انہیں تلاش تھی۔خواتین و حضرات ماننے والا شخص اس زمین سے اٹھ کر افلاک تک پہنچ جاتا ہے اور وہ براق پر سوار ہو کر جوتوں سمیت اوپر پہنچ جاتا ہے اور جو نہ ماننے والا ہوتا ہے وہ بے چارہ ہمارے ساتھ یہیں گھومتا پھرتا رہ جاتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ زمین میں کششِ ثقل ہے تو پھر ہم آگے چلتے ہیں اور ہمارا اگلا سفر شروع ہوتا ہے جبکہ نا ماننے سے مشکل پڑتی ہے۔


زاویہ دوم سے اقتباس
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by افتخار »

بھیا الگ الگ پوسٹ لگایا کریں کیونکہ پڑھنا مشکل ہو جاتا ھے۔
اور ہر کوئی آخر میں
zub;ar
v;g
یا پھر اوپر والے کے ریمارکس کو دیکھ کر کہتا ھے۔
واہ جی واہ
یا پھر j;a;t;d;a;an;c;e




اب میری طرف سے ۔

v;g
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by چاند بابو »

بہت خوب سلیم بھیا بہت شاندار اقتباسات پیش کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
سلطان سنگھاڑے والا حصہ خاص طور پر پسند آیا واقعی کبھی ہم نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہمیں اللہ کو بلانا چاہئے۔
کبھی ہم نے یہ کوشش ہی نہیں کی ہے کہ ہم اپنی عبادات میں کوئی رنگینی پیدا کریں۔
ہم ایک لگے بندھے طریقے سے عبادات میں تو لگے رہتے ہیں لیکن جس کی عبادت کرتے ہیں اس سے باتیں کرنے کا خیال کبھی آیا ہی نہیں۔
یقینا ہمارے رویئے اسی عاشق جیسے ہیں جو وصل میں بھی ہجر کی چٹھیاں کھولے بیٹھا رہا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by نورمحمد »

بھئ پرنٹ نکال لی ہے . آج شام کو ان شاء اللہ پڑوھونگا
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by چاند بابو »

جی نورمحمد بھیا یقینا یہ اس قابل ہے کہ اسکا پرنٹ لے کر محفوظ بنایا جائے اور اس کی تحریر کی گہرائی کو سمجھ کر اپنی ذات پر اسے لاگو کیا جائے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

اقتباس پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ سب دوستو کا
بس ایک ہی دعا ہے کہ اللہ ایسی باتوں پر عمل کرنے کی ہمت دے
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by نورمحمد »

- - - “ماؤ نے ہنس کر کہا”جہاں اندر کے پشتے مضبوط ہوتے ہیں وہاں تازہ پانیوں کی آدھ دھار آجانے کی صورت میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن جہاں پشتے کمزور ہوتے ہیں وہاں تازہ پانی طغیانی کی صورت میں آتے ہیں اور جگہ جگہ سے پشتہ بندیاں توڑ کر سارے علاقے کو دلدل بنا دیتے ہیں۔“ . . . .

- - - مراقبہ والا مضمون بھی بہت ذبردست ہے . بس اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب کرے .


سلطان سنگھاڑے والا : سبحان اللہ، بہترین اقتباس ہے .


بہت بہت شکریہ - اس قسم کے تحاریر شیئر کرتے رہیے گا - بہت بہت شکریہ
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

نورمحمد بھئیا آپ کی پسند کا اور اس سے بھی بڑھ کے آپ کی محبت کا بہت بہت شکریہ
میں کوشش کروں گا بھائیوں کی امیدوں پر پورا اترنے کی
اور اپنے بزرگوں کی قیمتی قیمتی باتئیں آپ تک پہنچانے کی
بس دعا کریں اللہ میاں ہمیں عمل کرنے کی توفیق دے
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
نورمحمد
مشاق
مشاق
Posts: 3928
Joined: Fri Dec 03, 2010 5:35 pm
جنس:: مرد
Location: BOMBAY _ AL HIND
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by نورمحمد »

آمین - بھئ یہی باتیں ہیں جنھیں ہم چھوٹی سمجھ کر نظر انداذ کر دیتے ہیں مگر ان ہی باتوں میں کامیابی کے راز چھپے ہوئے ہیں اور پتہ نہیں اللہ تعالی کھبی' کس وقت دل کی دنیا پلٹا دیوے - بس - آخری لمحے میں بھی اگر ہم کو ہدایت مل جاوے تو بہت سستا سودا ہے . کم از کم اپنے کو سنوارنے کی محنت تو ہر ایک کو ضرور کرنا چاہیے. بس دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان سب قیمتی باتوں کو عملی زندگی میں بھی داخل کرنے کی توفینق نصیب کرے - آمین
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

محبت کا طوق
آزادی اکیلے آدمی کا سفر ہے، رسی تڑوا کر سرپٹ بھاگنے کا عمل ہے۔ محبت اپنی مرضی سے کھلے پنجرے میں طوطے کی طرح بیٹھے رہنے کی صلاحیت ہے۔ محبت اس غلامی کا طوق ہے جو انسان خود اپنے اختیار سے گلے میں ڈالتا ہے۔ یہ عہد پیری مریدی کا نہیں کہ مرشد منوائے اور سالک ماننے کے مقام پر ہو۔ یہ زمانہ شادی کا بھی نہیں کہ شادی میں بھی قدم قدم پر اپنی مرضی کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ حضرت ابراھیم جس طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے پر راضی بر رضا رہے، یہ محبت کی عظیم مثال ہے۔محبت میں ذاتی آزادی کو طلب کرنا "شرک" ہے، کیوں کہ بیک وقت دو افراد سے محبت نہیں کی جا سکتی، محبوب سے بھی اور اپنے آپ سے بھی۔ محبت غلامی کا عمل ہے اور آزاد لوگ غلام نہیں رہ سکتے۔بانو قدسیہ کے ناول حاصل گھاٹ سے اقتباس
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Post Reply

Return to “باتوں سے خوشبو آئے”