ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

مہکتی باتیں، اقوال زریں کا مجموعہ
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

Mind over the Matter
یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ “ مائنڈ اوور دی میٹر “ کے الفاظ استعمال کۓ جاتے ہیں۔ ذہن کی جو ایک منڈی لگی ہے اس کی طاقت آپ کے اچھے، توانا اور خوبصورت وجود پر شدت سے حاوی ہے۔ ذہن میں غصہ، غم، چالاکی، نفرت، شدت اور خوف جو ہیں یہ ساری چیزیں بھی .غیر موجود ہیں۔ یہ نظر نہیں آ سکتیں اور نظر نہ آنے والی چیزوں نے آپ کی، میری اور ہم سب کی زندگی کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہم کو بری طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ ہم اس کے سامنے بے بس ہیں۔ اگر مجھے غصہ نظر آتا، نفرت کہیں سے بھی دکھائی دے جاتی تو میں اسے چھوڑ دیتا۔ اگر نفرت کی تصویر کھینچی جاسکتی تو پتہ چلتا کہ یہ کتنی بدشکل چیز ہے۔ اس کے کئی پاؤں ہوتے، گندی سی ہوتی۔ آدھی بلی اور آدھے چوہے کی صورت والی ہوتی۔ لیکن اسے ہم دیکھ یا چھو نہیں سکتے لیکن ہمارے دیکھے جانے والے وجود پر ان چیزوں کا قبضہ ہے۔ اب آپ اس بات پر تڑپتے پھرتے ہیں کہ خدا کے واسطے ہماری نفرتیں ختم ہوں، ہمارے ملک میں وہ سہولتیں آئیں جن کا اللہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ہم اپنے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کریں گے۔ وہ وعدہ پورا کرنے خدا کرے وقت آۓ لیکن وہ ہماری یہ خواہش پوری اس لۓ نہیں ہوتی کہ غیر مرئی چیزوں نے ہمیں پکڑ اور جکڑ رکھا ہے۔ جب آپ اپنے گھر والوں، دوستوں یا دشمنوں کے ساتھ لڑتے ہیں تو آپ اپنا غصہ یا نفرت کسی جسم رکھنے والی چیز کو صورت میں دکھا نہیں سکتے، محسوس کروا سکتے ہیں۔ آپ عموماً ایسی خبریں اخبار میں پڑھتے ہوں گے کہ چچی کو آشنائی کے شبہ میں ٹوکے کے وار سے ہلاک کر دیا۔ ایک بندہ گھر آیا اس نے اپنے بچوں کو بھی مار دیا۔ اسے کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ مائنڈ اس پر اتنی شدت سے حملہ آور ہو رہا ہے کہ اسے اور کچھ سوجھ ہی نہیں رہا ہے اور وہ ذہن کے قبضے سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ نظر میں نہ آنے والی چیزوں نے، مجھ نظر میں آنے والے کو اور میرے اردگرد جو دنیا آباد ہے، جو بڑی خوبصورت دنیا ہے اس پر تسلط جما رکھا ہے اور کسی کو ہلنے نہیں دیتیں۔ اس نظر نہ آنے والی چیز جسے سائنسدان “Mind Over The Matter “ کہتے ہیں اس نے میرے وجود پر قبضہ جما رکھا ہے۔جب انسان پرسکون ہو کر مراقبے اور Meditation میں بیٹھا اور پھر وہ اپنے حواسِ خمسہ سے الگ ہو کر ایک اور دنیا میں داخل ہوا تو پھر اس کا کنکشن ان چیزوں سے ہوا جو غیر مرئی چیزوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ویسٹ انڈیز کے قریب ایک جزیرہ ہے۔ اس جزیرے پر لوگوں نے بڑی چاہت کے ساتھ ایک عبادت کدہ بنایا جس میں دنیا کی دھاتوں کو ملا کر ایسی گھنٹیاں بنائیں جو نہایت سریلی اور دلکش آوازیں پیدا کرتی تھیں اور دور دور سے لوگ آکر اس عبادت کدے میں پرستش کیا کرتے تھے چاہے ان کا کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ ہوتا۔ لوگ اس سرمدی باجے کی آوازوں میں اپنے اللہ کو یاد کرتے تھے۔ پھر سنتے ہیں کہ وہ جزیرہ آہستہ آہستہ غرقِ آب ہو گیا لیکن اس کی خوبصورت گھنٹیوں کی آواز لوگوں کو سنائی دیتی تھی۔ چند سال بیشتر فرانس کا ایک صحافی اس جزیرے کی کھوج میں نکلا اور اس جزیرے کو جغرافیائی طور پر تلاش کرنے کے بعد وہاں ان گھنٹیوں کو سننے کی کوشش کرتا رہا جو پانی کے نیچے اتر چکا تھا کیونکہ لوگ کہتے تھے کہ اگر کوئی صاحبِ گوش ہو تو اسے ان گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ صحافی لکھتا ہے کہ میں بڑی دیر تک بیٹھا رہا۔ کئی دن اور ہفتے وہاں گزارے لیکن مجھے سواۓ سمندر کی آوازوں کے اور شور کے اور سمندری بگلوں کی آوازوں کے اور کچھ سنائی نہ دیا۔ اس نے سوچا کہ یہ شاید پرانی کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے چنانچہ وہ جانے سے بیشتر آخری بار اس مقام کو سلام کرنے کی غرض سے گیا۔ وہ وہاں بیٹھا اور اس نے افسوس کا اظہار کیا کہ میں اتنی دور، ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے یہاں آیا اور اتنے دن یہاں گزارے لیکن وہ گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا جس کی آرزو لے کر وہ چلا تھا۔ وہ انتہائی دکھ کی کیفیت میں وہاں بیٹھا رہا۔ وہ کہتا ہے کہ میں وہاں مایوسی کی حالت میں لیٹ گیا اور اس نے اپنے پاؤں گھٹنوں تک ریت میں دبا لۓ تو اسے گھنٹیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ ایسی آواز جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور وہ صدائیں اور ہوائیں جو پہلے اسے سنائی دے رہی تھیں ایک دم سے خاموش ہو گئیں اور ان گھنٹیوں کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔ وہ نظر نہ آنے والی آوازیں پانی کے اندر سے آنے لگیں۔ وہ صحافی کہتا ہے کہ جتنی دیر میرا دل چاہا میں وہ سریلی اور مدھر آوازیں سنتا رہا اور میں اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر صدیوں پہلے ڈوبے ہوۓ عبادت کدے کی گھنٹیوں کی آواز سننی ہے تو سمندر کا شور سننا ہوگا اور اگر اپنے اللہ سے ملنا ہے تو اس کی مخلوق کو سننا ہو گا۔ یہی ایک راستہ ہے کیونکہ اللہ نظر نہ آنے والا ہے جبکہ اس کی مخلوق نظر آنے والی ہے۔ اگر آپ اس کی مخلوق کے ساتھ رابطہ قائم کریں گے تو بڑی آسانی کے ساتھ وہ سڑک مل جاۓ گی جو گھنٹیوں والے عبادت کدے سے ہو کر ذاتِ خداوندی تک پہنچتی ہے۔ آج ہماری گفتگو میں یہ بات معلوم ہوئی کہ نظر نہ آنے والی چیز، نظر آنے والی چیز سے زیادہ طاقتور اور قوی ہوتی ہے اور یہ نظر نہ آنے والی ساری صفات ہمارے گوشت پوست کے انسان پر اور ہماری زندگی پر کس طرح سے حاوی ہیں اسے ہم تنہا بیٹھ کر بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں اور ان چیزوں نے ہمیں اذیت میں ڈال رکھا ہے اور یہ ہماری اچھی سی زندگی کا “ماسٹر“ بن کر بیٹھی ہوتی ہیں۔
زاویہ دوم سے اقتباس
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

ہم سب کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔ ہمارے ہاں بڑی دیر سے عالمِ اکبر کا تصور چلا آ رہا ہے اور اس پر بڑا کام بھی ہوا ہے اور اِس کے بارے میں صاحبِ حال لوگ جانتے ہیں اور جو اس میں گزرے ہیں ان کی کیفیت ہم لوگوں سے ذرا مختلف رہی ہے۔
Macrocosm (عالمِ اکبر) کے ساتھ ساتھ Microcosm (عالمِ اصغر) کا بھی سلسلہ چلا، کہ جو کچھ ہے وہ اس خدا کی طرف سے ہے۔ مغرب کے لوگ خاص طور پر امریکہ اور روس نے اس موضوع پر بڑا کام کیا ہے۔ ہمارے ہاں مشرق میں مولانا روم نے اور ان کے بعد مولانا روم کے شاگرد حضرت علامہ محمد اقبال نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا اور بتایا ہے لیکن اس کے اسرار اہستہ اہستہ اس وقت کھلنے لگے جب مغرب میں Parapsychology کا علم بطورِ خاص پڑھایا جانے لگا اور اس کی تفاسیر باہر نکلنے لگیں۔ امریکہ کی انیس کے قریب یونیورسٹیوں جن میں نارتھ کیرولینا کی یونیورسٹی بہت معروف ہے وہ اس سلسلے میں بہت آگے ہے۔ بھارت کی گیارہ کے قریب یونیورسٹیاں بھی اس پر کام کر رہی ہیں۔ ہم اس پر کام نہیں کرتے کیونکہ اس کو وقت کا ضیاع خیال کرتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل دقیانوسی تصور ہے لیکن West نے جو تصور قائم کیا ہے وہ Macrocosm اور Microcosm کا تصور تھا جسے عالمِ اکبر اور عالمِ اصغر کہتے ہیں۔ مغرب والے کہتے ہیں کہ عالمِ اکبر تو وہ کائنات ہے جو آپ کے اردگرد پھیلی ہوئی ہے اور عالمِ اصغر “میں “ ہوں یعنی چھوٹا سا ایک وجود، میرے سے لے کر مینڈک کا وجود۔ اب اس بات پر غور ہو رہا ہے اور بڑی اچھی لائینوں اور خطوط پر سوچا جا رہا ہے کہ عالمِ اکبر کا عالمِ اصغر کے اوپر کوئی اثر پڑتا ہے یا عالمِ اصغر کا کوئی کیا ہوا کام عالمِ اکبر میں پہنچتا ہے؟
کیا یہ بات سچ ہے کہ
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
وہ اس نتیجہ پر پہنچے ( خاص طور پر ویانا یونیورسٹی کے پروفیسر) ہیں کہ اس کا برا شدید اثر پڑتا ہے اور وہ بات جس پر ہم ہنسا کرتے تھے کہ جی ستاروں کا آدمی کے ساتھ اور اس کی قسمت کے ساتھ کیا تعلق ؟ ستارہ ستارہ ہے اور اس کی اپنی گردش اور اپنی چال ہے اور آدمی یہاں بیٹھا ہے آخر تعلق کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن علم بتاتا ہے کہ نہیں آدمی یہاں ایسے ہی بیٹھا نہیں ہے اس کے پُرکھوں اور Archie Types کے ذریعے ایک پورا عمل جاری ہے۔
میں معافی چاہتا ہوں کہ میں ایسے ہی Technically Detail میں چلا گیا۔ میں یہ بات آپ سے اس لۓ عرض کر رہا ہوں کہ 1953ء میں میں پہلی مرتبہ انگلستان گیا۔ میرے لندن میں بڑے پیارے دوست تھے جن سے ملے ہوۓ مجھے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔ جن میں جاوید، اعجاز، الیاس، گرنجش اور جگجیت سنگھ وغیرہ شامل تھے۔ یہ سارے لوگ بی بی سی میں کام کرتے تھے اور انہوں نے اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔ اس وقت بی بی سی کا ٹی ہاؤس ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہم سارے اکٹھے ہوتے تھے اور گپیں ہانکتے تھے۔ وہاں پر ہمارا دوست الیاس جو تھا وہ بڑا خاموش طبع آدمی تھا۔ وہ سدھانیہ سے پاکستان اور پھر یہاں سے انگلستان چلا گیا تھا۔ اسے بائیں کان سے سنائی نہیں دیتا تھا۔ لاہور میں اس نے آپریشن بھی کرواۓ لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس نے لندن سے بھی آپریشن کروایا لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مسئلہ لا علاج ہے۔ پہلے اس نے چارٹراکاؤنٹنگ کا کام شروع کیا لیکن وہ اس میں ناکام ہو گیا پھر اس نے بیرسٹری والا پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا جو اس کے دوسرے دوست کر رہے تھے۔ اس میں بھی اس کا دل نہ لگا۔ یہ بس عجیب آدمی تھا۔ ایک دن ہم شام کو بیٹھے ہوۓ تھے تو جگجیت کہنے لگا“ اوۓ تم تو ہم سکھوں سے بھی گۓ گزرے ہو، یہ تمھاری اردو زبان بھی کیا زبان ہے اس میں تم لکھتے “ خ و آ ب“ ہو اور پڑھتے “ خاب“ ہو۔ لکھتے خ و ش“ ہو اور پڑھتے “خُش“ ہو۔ یہ تو کوئی زبان نہ ہوئی۔ اعجاز یہ سن کر کہنے لگا۔ دیکھو بھئی گرائمر کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کافی دیر تک یہ بحث ہوتی رہی اور ہم بڑے غور سے اسے سنتے رہے۔ میں نے بھی اپنے علم کے مطابق اس موضوع پر بات کی۔ الیاس ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ جگجیت سنگھ “ ایہہ جیہڑی خواب دے وچ‘و‘ اے نا ایہہ کیہندی اے میں نئیں بولدی بس اینا ای راز اے“ وہ اس مزاج کا آدمی تھا اور وہ کہتا تھا کہ “ بس میں نئیں بولدی“ وہ ذرا دھیما اور ڈھیلا سا آدمی تھا۔ مجھے اعجاز کہنے لگا کہ تو الیاس سے پوچھ کہ اس کے ساتھ یہاں کیا واقعہ گزرا۔ میں نے اس سے پوچھا کیوں بھئی تیرے ساتھ کیا ہوا؟ کہنے لگا یار میں نے ایک پڑھائی شروع کی ‘ پھر چھوڑ دی۔ پھر دوسری کی، اس میں بھی دل نہ لگا۔ میں تھوڑا سا پریشان تھا اور ایک دن شام کے وقت آ رہا تھا اور مجھے سینٹ جونز ووڈ سٹریٹ سے ہو کے البرٹ روڈ جانا تھا۔ البرٹ روڈ کراس کر کے پھر مجھے ریمنز پارک جانا تھا۔ میں Potato Chips کھاتا جا رہا تھا اور سڑک سنسان تھی۔ ایک اور سنسان گلی کے درمیان میں میں جب پہنچا تو ایک لمبے تڑمبے امریکن سیاح نے مجھ سے کہا کہ Do you know the hide park اور میں نے اس سے پتا نہیں کیوں کہہ دیا کہ Yes I know but I do not tell you کیونکہ اس طرح کا جواب دینے کا کوئی “تک“ نہیں تھا۔ وہ امریکی سیاح “کھبچو“ تھا اس نے “کھبے“ بائیں ہاتھ کا ایک گھونسا میری کنپٹی پہ مارا اور میں گھٹنوں کے بل زمین پر گر گیا۔ جب میں گھٹنوں کے بل گر گیا تو میں نے سر اٹھا کر اس سے کہا Thank you very much اور اس امریکی نے برجستہ کہا: you are well come
الیاس نے کہا کہ میں اس کے یہ الفاظ تو سن سکا لیکن پھر میں بے ہوش ہو گیا اور وہیں پڑا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے ہوش آیا تو مجھے شرمندگی اس بات پر تھی کہ میں نے اسے “ تھینک یو“ کیوں کہا۔ مجھے چاہیۓ تھا کہ اسے جواباً مارتا یا پھر نہ مارتا۔ الیاس اب دوستوں کے تنگ کرنے پر جواز یہ پیش کر رہاتھا کہ غالباً اس کا جو گھونسا تھا وہ میری کنپٹی کے ایسی مقام پر لگا تھا جہاں سے شریانیں دماغ کے اس حصے میں جاتی ہیں جو بڑا ہی شکر گزار ہوتا ہے اور وہ تھینک یو تھینک یو کہتا ہے اور میں نے اسے مجبور ہو کر Thank you کہہ دیا۔
الیاس نے مزید بتایا کہ اگلے دن جب وہ صبح سویرے اٹھا ( میرے پاس ایک الارم تھا جو جب چلتا تھا تو اس کے ساتھ بی بی سی ریڈیو کی نشریات چلنا شروع ہو جاتی تھیں) اور جب الارم کے ساتھ ریڈیو چلا تو میں حیران رہ گیا کہ اس کی آواز کچھ عجیب سی تھی چناں چہ جب میں نے اپنے دائیں کان میں انگلی ڈال کے بند کیا تو میرا بایاں کان ڈن ڈناڈن کام کر رہاتھا۔ میں پھر چیخ مار کے باہر نکلا اور اپنی لینڈ لیڈی سے لپٹ گیا اور خوشی سے کہا کہI can listen and hear from both Ears وہ بھی بڑی خوش ہوئی اور کہا کہ Really Ilyas?
میں نے کہا کہ بالکل تم کچھ لفظ بولو اور اس طرح وہ میرا ایک کان بند کرکے ٹیسٹ لیتی رہی۔ الیاس کہنے لگا کہ میں اب سوچتا ہوں کہ کیا یہ حادثاتی واقعہ تھا؟ ایسے ہی ہو گیا یا ایک آدمی کو کیلی فورنیا سے نیویارک، نیویارک سے لندن بھیجا گیا اور وہ چلتا ہوا اور سارا سفر طے کر کے یہاں پہنچا اور عین اس وقت اس گلی میں پہنچا جب کہ مجھے بھی وہاں سے گزرنا تھا اور ایک شریف آدمی کی طرح میں نے اسے راستہ بتانا تھا جو دراصل میری طرف سے حماقت کے مترادف تھا اور میں نے اس کے برعکس اسے کیوں کہا کہ ہاں راستہ تو میں جانتا ہوں، بتاؤں گا نہیں۔
یہ سب کچھ کیا ہے؟ اور اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ اور کیا ہم بڑی کائنات میں جو عالمِ اکبر ہے اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور جو جو کچھ وہاں سے طے ہوتا ہے یا لکھا گیا ہے اور کیا اس لکھے کے مطابق سارے کام ہو رہے ہیں یا کہ ہمارے سارے افعال انفرادی طور پر طے پاتے ہیں۔ یہ بات ان دنوں بی بی سی کی کینٹین میں زیرِ بحث تھی لیکن کوئی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتاتھا اور سارے الیاس کو اس کی خام خیالی اور نالائقی کی بات ہی قرار دیتے تھے۔ اس وقت شاید عالمِ اکبر اور عالمِ اصغر کا علم اس قدر آگے نہیں بڑھا تھا۔ ہم جب بھی اس حوالے سے بحث کرتے ہیں تو اکثر بات میں یہ کہتے ہیں اگر اللہ پر پورا ایمان ہو اور اگر انسان کو اپنی ذات پر اعتماد ہو یا اگر انسان کی خودی بلند ہو تو وہ کچھ کر سکتا ہے۔ پھر خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب تو کتابی باتیں ہیں اور ٹیکسٹ کی باتیں ہیں جو ہم نے پڑھی ہوئی ہیں۔ ہم تو یہ پوچھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اللہ پر ہم ویسا اعتماد کیسے لائیں جیسا کہ ہونا چاہیۓ اور جس طرح کے اعتماد کا ہم ذکر کرتے ہیں، میرے ابا جی نے بتایا تھا کہ اللہ میاں ہوتے ہیں اور میں اس بات کو لے کر چلا آ رہا ہوں۔ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں، فوت ہو جاؤں گا اور اس کا محض یہی تصور میرے ساتھ رہے گا۔ زندگی کے اور بھی تو بہت سارے معاملات ہیں۔ ان میں ہمارا کتابی اور ٹیکسٹ بک کا علم وہ ہمیں ایک بات فیڈ کر دیتا ہے لیکن وہ ہمارا سہارا نہیں بنتا۔ آگے نہیں لے جاتا لیکن جو مرشدوں اور گروؤں کا علم ہوتا ہے وہ انفارمیشن کے علم سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ انفارمیشن کا علم وہ ہے جو ہم اور آپ نے حاصل کیا ہے۔ یہ علم ہمیں اطلاعات کے طور پر ملتا ہے اور استاد اور طالب علم کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ ہوتا ہے اور علم دور کھڑے ہو کر یا چاک سے لکھ کر دور بیٹھے سٹوڈینٹس کو فراہم کیا جاتا ہے اور یہ فلائنگ علم Flying Kiss کی طرح سے پہنچتا ہے اور ایسے ہی اثرانداز ہوتا ہے جیسے Flying Kiss اثر انداز ہوتی ہے ( اس مثال پر معافی چاہتا ہوں) لیکن گرو کا جو علم ( ہے) وہ اس سے مختلف ہے۔ یہ اس لۓ مختلف ہے کہ گرو اور چیلے کے درمیان یا مرشد اور مرید کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوتا، فاصلہ رکھا نہیں جاتا۔ قربت ہوتی ہے۔ مرشد چٹائی پر بیٹھ کر مرید کو تعلیم دیتا ہے اور مرید تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر اس کے ہاتھ گرو کے پاؤں پر ہوتے ہیں یا زانوں ہر ہوتے ہیں۔ اتنی قربت کے باعث وہ اپنے استاد یا مرشد کے اتنے قریب آ جاتا ہے کہ وہ اس کو بہت اچھا لگنے لگتا ہے اور اسے اپنے گرو یا مرشد سے پیار ہو جاتا ہے اور ایک دن ایسا ہوتا ہے کہ وہ شاگرد شوق میں آ کے فرطِ محبت سے اپنے گرو کی “ چھنگلی“ کھا جاتا ہے۔ گرو اس کو نہ منع کرتا ہے نہ اس کو انکار کرتا ہے اور اسے کھانے دیتا ہے۔ دوسرے دن شاگرد اس کی دوسری “ چھنگلی“ بھی کھا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ سارے مرشد کو کھا جاتا ہے۔ اب مرشد اس کے پیٹ کے اندر ہے اور معدے میں اتر کر اس کی رگ رگ میں سرائیت کر گیا ہے اور مرشد کا سارا علم سارے کا سارا مرید کے بدن کے اندر خون کی صورت دوڑنے لگتا ہے۔ اسی لۓ آپ نے دیکھا ہو گا کہ آستانوں پر جب میلاد یا درود شریف کی محفل ہوتی ہے تو (خاص طور پر سلسلۂ نقشبندیہ میں، کیونکہ میں نے ولایت میں اکثر ایسے ہی دیکھا ہے۔ لندن اور نیویارک میں بھی وہاں انگریز ترک بھی خوب درود شریف پڑھتے ہیں) تو وہاں کھڑے ہو کر ایک شجرہ پڑھا جاتا ہے جس میں شاعری نہیں ہوتی۔ وہ ایسے ہی ہوتا ہے کہ
“ میرے پـیر اولیـا کے واسطے حضرت نظام الدین کے واسطے“
وہ اس طرح سے پڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایک کے بعد ایک گرو کا نام آتا چلا جاتا ہے۔ وہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے۔ دوسرے نے پہلے سے علم حاصل کیا اور اس طرح یہ پٹی آگے چلتی جاتی ہے۔ اس طرح سے علم آگے سے آگے عطا ہوتا ہے۔ ولایت کی طرح ڈگریاں عطا نہیں ہوتیں۔ گرو کے علم میں یہ آسانی ہوتی ہے کہ آپ کو کتابی علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ ایسی جو بھی بات جس میں مرشد یا گرو بولتا ہے وہ کرتے ہیں تو وہی ہو گی جو مرشد کرتا رہا ہے۔ آپ منہ میں روٹی کا ایک لقمہ رکھ کے تین دن کھومتے رہیں وہ آپ کی نشونما کا باعث نہیں بن سکے گا جب تک وہ آپکے معدے میں نہ اتر جاۓ اور معدے میں اتر کر آپ کے خون کا حصہ نہ بن جاۓ اور پھر آپکو تقویت عطا ہوتی ہے۔ میں آپ اور ہم سب منہ کے اندر سے علم کو ایک دوسرے کے اوپر اگلتے رہتے ہیں اور پھینکتے رہتے ہیں اور پھر اس بات کی توقع کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم کو اس سے خیر کیوں حاصل نہیں ہوتی۔ حالانکہ میں نے یہ بات بڑی اچھی کی تھی اور بڑی سوچ سمجھ کے کی تھی اور وہ بات جو گرو آپ کو عالمِ اکبر سے عالمِ کبیر کے ساتھ وابستہ کر کے دیتا ہے اور اس کے اسرار و رموز بیان کرتا ہے جبکہ کتابی صورت میں صرف اپنا آپ پیش کر کے یا اپنے آپ کو فولڈر بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ میرا یہ ذاتی خیال ہے کہ کہ واقعی جو عالمِ صغیر ہے جو میں ہوں‘ جو آپ ہیں یہ سارے کے سارے بنی آدم "اداۓ یک جگرن" کی طرح سے ہیں اور جب اقبال کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان تو بڑی حدیں عبور کر کے کئی بار تو عالمِ کبیر سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔
بات الیاس میاں سے کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن اگر وہ واقعی عالمِ اصغر اور عالمِ اکبر میں کسی وابستگی کو جاننے کے خواہاں ہیں تو اس کے لۓ ہمارے بزرگوں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ آپ اپنے نفس کو جان جائیں تو پھر آپ خدا کو جان لیتے ہیں، پا سکتے ہیں اور جب خدا کو جان جائیں گے تو پھر آپ عالمِ اکبر سے بھی آگے گزر جائیں گے۔ اپنے نفس کو جاننے کے لۓ بڑی اہم بات اور فارمولا یہ ہے کہ شام کے وقت آپ مغرب کی نماز کے بعد دیوار کے ساتھ “ڈھو“ لگا کر اپنے آپ کو اور اپنے اس چھوٹے سے چوزے کو تلاش کریں جو بڑے بڑے تختوں کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ وہ چوزا ہمارا نفس ہے۔ اس کے اوپر ہم نے بڑے بڑے تختے لگاۓ ہوۓ ہیں۔ ایک تختہ ہوتا ہے دانشور، ایک ہوتا ہے پہلوان۔ ایک لیڈر کے نام کا ہوتا ہے۔ ایک امیر آدمی کے نام سے ہوتا ہے تو دوسرا کسی اور نام کا۔
اس طرح ہم بچپن سے لے کر اوپر تک بہت سارے “پھٹے“ لگاتے چلے جاتے ہیں تو جب ہمارا چوزا باہر بازار میں نکلتا ہے تو یہ تختے کھڑکنے لگتے ہیں اور سارے لوگ دیکھتے ہیں کہ جناب وہ ہیرو جا رہا ہے۔ جناب وہ رائٹر جا رہا ہے۔ یہ اشفاق صاحب ہیں جی اور دانشور ہیں۔ اگر کوئی باہمت آدمی جس طرح کچھ لوگ کرتے بھی ہیں وہ ہمت سے زور لگا کر، کندھا دے کر ان پھٹوں یا تختوں کے نیچے سے اپنے نفس کو نکال کر اس کی اصل شکل و صورت سے آشنائی حاصل کر کے عالمِ اکبر سے وابستہ ہو کر بہت آگے نکل جاتے ہیں اور جو کہا گیا ہے کہ “جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔“ اور رب کو پہچان لینے کے بعد کوئی مشکل رہ ہی نہیں جاتی ہے۔ دنیاوی زندگی میں سب سے مشکل کام اس تختے کو ہٹانا ہے جو ہم نے بڑی محنت سے بڑے بڑے وزنی صندوقوں میں اپنے اوپر بٹھا رکھے ہیں۔ اب یہ سب آپ کے سامنے ہیں۔ میں تو ساری زندگی ان تختوں کو ہٹا نہیں سکا۔ میں تو ان پھٹوں تختوں سمیت ہی لحد میں جاؤں گا اور فرشتے وہ تختے دیکھ کر حیران ہوں گے کہ یہ کن چیزوں کو اپنے ساتھ لگاۓ پھرتا ہے جس طرح لوگ اپنی ڈگریوں کو فریم کر کے لگاتے ہیں‘ ہمارے بزرگ اپنے نفس کی تلاش کے کام کو تلاوت الوجود کہتے ہیں کہ اپنے وجود کی تلاوت کرو۔ الیاس میاں ابھی تک لندن میں ہی ہے لیکن ابھی تک اس کا وہاں دل نہیں لگا اور وہ ابھی تک یہی سمجھتا ہے کہ “ خواب“ کی “و“ ہم سب سے ناراض ہے اور کہتی ہے کہ جا میں نہیں بولتی۔
بڑی مہربانی، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرماۓ۔ اللہ حافظ۔
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

[center]تھری پیس میں ملبوس بابے اور چغلی میٹنگ[/center]
میں اکثر اس پروگرم میں اور کبھی کبھی اس پروگرام سے ماورا دوسرے موقعوں یا پروگراموں میں بابوں کا ذکر کرتا رہتا ہوں اور ڈیروں کی بابت عموماً باتیں کرتا ہوں جس کے باعث عموماً راہ چلتے ہوئے اور دیگر کئی جگہوں پر سب لوگ مجھے روک کر پوچھتے ہیں کہ آپ کے بابے کیا ہوتے ہیں اور ان میں ایسی کون سے صفت ہوتی ہے جو آپ ان سے اس قدر مرعوب ہیں اور ان ہی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ بڑے پڑھے لکھے آدمی ہیں اور یہاں کے ہی نہیں ولائت سے بھی پڑھ کر آۓ ہیں۔ وہاں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ آپ ہمیں بھی بتایۓ کہ ان بابوں میں کون سی ایسی خوبی ہوتی ہے جو آپ کو متاثر کرتی ہے۔ میں ان سے یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ کبھی ان سے ملیں یا ان سے Incontact آئیں تو پھر آپ کو پتہ چلے کہ یہ کس حد تک ہم عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ بابوں سے میری مراد یہ نہیں کہ ایک آدمی جس نے سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا ہو۔ اس کے سر کے لمبے بال یا اس نے لمبی “ لٹیں “ رکھی ہوئی ہوں، گلے میں تسبیحات اور منکوں کی مالائیں ڈالی ہوئی ہوں ضروری نہیں وہ بابا ہی ہو۔ بہرحال کچھ بابے ایسے روپ میں بھی ہوتے ہیں لیکن اکثر بابے جو اب آپ کی زندگی میں آپ کے قریب سے اور گردوپیش سے گزر جاتے ہیں وہ تھری پیس سوٹ زیبِ تن کرتے ہیں، سرخ رنگ کی ٹائی لگاتے ہیں اور ان کی اس سرخ ٹائی میں سونے کی پن لگی ہوتی ہے لیکن آپ کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ شخص جو میرے اس قدر قریب بیٹھا ہے یا میرے اس قدر قریب سے اٹھ کر گیا ہے، اس کے اندر وہ ایسی کونسی بات تھی جسے میں پکڑ نہیں سکا اور میں اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ خواتین و حضرات فائدہ اٹھانے کے لۓ اپنے وجود کا ایسا ریڈیو سیٹ بنانا پڑتا ہے جس پر تمام سٹیشن آسانی سے پکڑے جا سکیں۔ میں ایک سنگل بینڈ کا ریڈیو ہوں۔ میرے اوپر صرف لاہور ہی سنائی دیتا ہے۔ لیکن میرے کمرے میں دنیا بھر کی آوازیں اکٹھی ہوتی ہیں اگر میرا Receiving Center اچھا ہو گا تو میں دوسری چیزیں بھی بڑی آسانی کے ساتھ پکڑ لوں گا لیکن اگر وہی Dull تو پھر مشکل ہے۔ اب اس Dullness کو دور کرنے کے لۓ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی ایسے لوگوں سے ملتا رہے جن کے اندر آپ کو اپنے سے مختلف کوئی چیز نظر آۓ چاہے وہ کسی بھی طرح کی اچھی چیز ہو۔ مغرب والے اس طرح کے رویے کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ بڑے متجسس قسم کے لوگ ہیں۔ انہیں جونہی کوئی ذرا مختلف، ذرا عام حالات سے ہٹ کر انہیں کوئی کردار ملا وہ رک کر اسے دیکھتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی تحقیق کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک بات طے شدہ ہے کہ اگر ہم نے کسی کو غلط کہہ دیا تو وہ غلط ہو گیا۔ آدمی کسی غلط شخص کے اندر یہ دیکھتا ہی نہیں کہ شاید اس میں بھی کوئی اچھی بات ہو جسے اپنی طرف سے غلط یا خراب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس میں سے اچھائی تراشنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ میں عرض یہ کر رہا تھا کہ بابوں کے پاس عجیب و غریب جذبہ ہوتا ہے وہ ہم میں نہیں ہے۔ وہ جذبہ انسانوں سے محبت کرنے کا جذبہ ہے۔ ہم کتابی طور پر تو کہہ لیتے ہیں کہ جناب ہم محبت کرتے ہیں یا ہم یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمیں ان سے بڑی محبت ہو گئی ہے لیکن محبت کے اندر داخل ہو کر اس کو اپنی ذات پر وارد کرنا یہ ایک مشکل اور مختلف کام ہے جس طرح بارش کا ذکر اور بارش کے اندر بھیگ جانا دو مختلف عمل ہیں۔ بارش کا ذکر کرنے سے جس طرح آدمی بھیگتا نہیں ہے۔ بابے محبت کے عمل میں اس آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں کہ ہم جیسے لوگ حسرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ہمیں تادمِ مرگ یہ حسرت ہی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ایک نہایت بےہودہ اور غیر توجہ طلب انسان کے اندر سے بھی کوئی ایسی چیز تلاش کر لیتے ہیں جو اس کی خوبی ہوتی ہے اور وہ اس کی خوبی کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ہم سے وہ چادر نہیں اٹھائی جاتی جو بابے اٹھا لیتے ہیں۔ ہم سے ان کی طرح وہ چھپا ہوا حصہ اجاگر نہیں ہو پاتا۔ ہماری ٹریننگ کچھ اس طرح کی ہے کہ ہم جب بھی کسی شخص سے ملتے ہیں ہم اس شخص کی اچھائیوں پر نظر نہیں کرتے۔ صرف اس کی برائیاں ہی ہمیں نظر آتی ہیں۔ شاید ہماری تربیت ہی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے۔ مجھے ایک بہت پرانا لطیفہ یاد آ رہا ہے جو آپ کو بھی سناتا ہوں۔ ایک میراثی تھا جو بڑا بزرگ آدمی تھا لیکن اس سے اس کی بیوی بڑی تنگ تھی اور اسے طعنے دیتی رہتی تھی کہ تو اپنی شکل دیکھ، تو کیسے بزرگ ہو سکتا ہے۔ وہ بے چارہ بھی بڑا پریشان تھا۔ ایک دن مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد وہ بیٹھا دعا مانگ رہا تھا تو اس کی بیوی نے اسے آ کر “ ٹھڈا “ (ٹھوکر) مارا اور کہا کہ تو ادھر بیٹھا دعائیں مانگ رہا ہے ، اٹھ کر کوئی کام وام کرو۔ بیوی کی اس حرکت سے اسے جلال آگیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا، ہوا میں ابھرا، آسمانوں میں چھا گیا اور اس نے آسمان کے تین چار بڑے بڑے چکر لگاۓ۔ اس کی بیوی نیچے کھڑی اسے دیکھتی رہی اور دل میں سوچتی رہی کہ یہ کوئی اللہ کا بڑا پیارا ہے۔ وہ میراثی جب نیچے اتر آیا تو اس نے بیوی سے کہا دیکھا تو نے ہمارا کمال۔ اس کی بیوی کہنے لگی کون سا کمال؟ کہنے لگی وہ اللہ کا کوئی پاکیزہ بندہ تھا۔


وہ کہنے لگا “ اوہ میں سی۔“ تو وہ پھر کہنے لگی اچھا ! “ ایسے لئی ٹیڈھا ٹیڈھا اڈ رہیا سی۔“ ( اسی لۓ ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے۔)


یہ بڑی پرانی بات ہے لیکن اب ہم جب بھی کسی بندے سے ملتے ہیں، ہمیں اس میں سے ٹیڑھ نظر آتی ہے۔ جب ٹیڑھ ہمیں نظر آتی ہے تو پھر ہماری زندگی میں، ہماری ذات اور ہمارے وجود میں بھی ایک ٹیڑھ پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ٹیڑھ نکلتی نہیں ہے اس لۓ اللہ نے ہم پر خاص مہربانی فرما کر ہمیں غیبت سے منع فرمایا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا ہمیں پتہ نہیں چلتا۔ کافی عرصے کی بات ہے کہ ہم کسی بابے کی ذکر کی محفل میں داخل ہوئے تاکہ اپنی ٹریننگ کی جاۓ۔


انہوں نے کہا کہ حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کے وجود کے اندر ایک ایسا عضو ہے جو اگر خراب ہو جاۓ تو سارے کا سارا بندہ خراب ہو جاتا ہے اور وہ عضو دل ہے۔ اس طرح سے ہم اور آپ لوگوں کے دل خراب ہو گۓ ہیں اور ان کے اوپر “ راکھ “ جم گئی ہے جیسے پرانی دیگچی جس میں چاۓ پکاتے ہیں وہ اندر اور باہر سے ہو جاتی ہے بالکل اس طرح سے ہمارے دل ہو گۓ ہیں اور ہم اللہ کے ذکر سے اس کو صاف کرتے ہیں اور اس کو “ مانجا “ لگاتے ہیں اور اللہ ہُو کے ذکر سے اس زنگ اور کائی لگے دل کو صاف کرتے ہیں اور یہ خرابی بے شمار گناہ کرنے کہ وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ یقین کیجیے گا کہ جب میں اس محفل میں تھا اور میں اس میں شامل ہونے والا تھا تو میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ میں تو ایک اچھا نیک سا نوجوان ہوں اور میں نے کوئی خاص گناہ نہیں کیا تو میرا دل کیسے کالا ہو گیا اور میں اس کو “ مانجا “ لگاؤں۔ یہ ایک خیال سا میرے ذہن میں آ گیا اور کافی دیر تک میں سوچتا رہا۔ محفلِ ذکر سے قبل وہ بابا جی کہنے لگے کہ بیشتر اس کے کہ ہم محفل شروع کریں شاید بہت سارے اصحاب یہ سوچتے ہیں کہ وہ تو اچھے ہیں۔ انہوں نے تو کوئی گناہ نہیں کیا۔ تو پھر کیسے ہمارا دل کالا ہو گیا۔ کوئی بڑا گناہ نہیں کیا۔ کوئی چوری چاری نہیں کی۔ کسی کے گھر پر قبضہ نہیں کیا۔


بابا جی کہنے لگے کہ ایسا سوچنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بہت بڑے گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ غیبت ہے۔


خواتین و حضرات ! اب غیبت تو ہم سارے ہی کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم کھانا نہیں کھاتے۔ ہمارے گھر میں ہماری بہوئیں کہتی ہیں کہ ماموں اب ہمارا غیبت کا ٹائم ہو گیا ہے۔ دس بجے ان کی “چغلی میٹنگ“ ہوتی ہے۔ وہ ہر بار ایک دوسرے کے گھر میں جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس بار ہم نے چغلی میٹنگ رضیہ کے گھر میں رکھی ہے اور دس بجے سے لے کر بارہ بجے تک وہ چغلی کرتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تم اتنی زیادہ چغلی کیوں کرتی ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ ساری دنیا میں اور پورہ کرہ ارض پر چغلی ہوتی ہے۔ جتنے بھی اخبارات چھپتے ہیں وہ سارا چغلیوں سے ہی بھرا ہوتا ہے۔ جو بھی کالم چھپتے ہیں ان میں لوگوں کی خرابیاں ہی بیان کی ہوئی ہوتی ہیں۔ کیس کی اچھائیاں تو نہیں ہوتیں ان میں اور فلاں برا فلاں برا کی گردان بھی ہوتی ہے اور اس سے ہم نے سبق لے کر یہ کام سیکھا ہے۔ ہم نے بابا جی کے ہاں ذکر کی محفل میں شرمندگی سے ذکر شروع کیا کہ واقعی ہم چغلی تو بہت زیادہ کرتے ہیں اور روز کرتے ہیں۔ چغلی اس لۓ کرنی پڑتی ہے کہ اپنی ذات میں چونکہ کوئی صفت یا خوبی نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے اور ہم دوسرے کو نیچے دھکیل کے اور ڈبو کے اپنے آپ کو اوپر اچھالتے ہیں۔ ہم نے بابا جی سے کہا کہ جی آپ کیسے خوبی تلاش کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کسی شخص کے اندر داخل ہوں اور اس کے متعلق صاحبِ حال ہوں تو پھر آپ کو آسانی ہو گی اور آپ بھی اس بات یا خوبی کو پکڑ لیں گے جس کو ہم پکڑ لیتے ہیں۔ مائیکل اینجلو ایک بہت بڑا مجسمہ ساز تھا۔ اس نے بہت خوبصورت مجسمے بناۓ۔ اس نے حضرت عیسٰی اور حضرت مریم کے بہت سے مجسمے بناۓ۔ اس کا بنایا ہوا ڈیوڈ کا اٹھارہ فٹ اونچا مجسمہ فلورنس میں بھی ہے جسے ساری دنیا دیکھنے جاتی ہے۔ اسے ہم نے بھی دیکھا۔


کسی نے اس سے پوچھا کہ مائیکل یہ بتاؤ کہ تم کس طرح سے یہ مجسمہ بناتے ہو۔ ایسا خوبصورت مجسمہ کیسے بنا لیتے ہو ؟ یہ تو انسانی کمال کا ایک آخری حصہ ہے۔ اس نے کہا کہ میں تو مجسمہ نہیں بناتا اور نہ ہی مجھے بنانا آتا ہے۔ میں سنگِ مرمر کا ایک بڑا ٹکڑا کہیں پڑا ہوا دیکھتا ہوں اور مجھے اس میں “ ڈیوڈ “ نظر آنے لگتا ہے اور میں چھینی، ہتھوڑی لے کر اس پتھر میں سے ڈیوڈ کے ساتھ پتھر کا فضول حصہ اتار دیتا ہوں اور اندر سے ڈیوڈ (حضرت داؤد) نکل آتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کرتا۔ مجھے تو ڈیوڈ صاف نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ میں بس ان کے ساتھ غیر ضروری پتھر اتار دیتا ہوں۔ اس طرح سے یہ بابے جو ہیں یہ انسان کی غیر ضروری چیزیں اتار دیتے ہیں اور نیچے سے بڑا پاکیزہ، اچھا اور خوبصورت سا انسان نکال کے اپنے سامنے بٹھا لیتے ہیں اور پھر اس کو اپنی توجہ کے ساتھ وہ سب کچھ عطا کر دیتے ہیں بشرطیکہ وہ شخص اس کا آرزومند ہو اور صبر والا ہو۔ لیکن جو آرزومند ہو وہ صابر بھی ہونا چاہیے۔ جیسے خداوند کریم فرماتا ہے کہ :


اِنَّااللہَ مَعَ الصَّابِرِینَ ۔ (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔)


اگر کسی نے اللہ کو پانا ہو تو وہ صبر کرنے لگ جاۓ تو اس کا کام بن جاتا ہے جبکہ لوگ اس کے لۓ ورد، وظیفے کرتے ہیں۔ ناک رگڑتے ہیں لیکن اللہ کو صبر کرنے والے پا لیتے ہیں۔ میں نے شاید اسی محفل میں پہلے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میر ایک تائی تھیں۔ وہ تیلن تھی۔ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ تائی بے چاری کولہو پیلتی تھی۔ نہایت پاکیزہ عورت تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئی لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ جب میں اس سے ملا تو تائی کی عمر کوئی ساٹھ برس کے قریب تھی۔ اس کے پاس ایک بڑی خوبصورت “رنگیل پیڑھی“ تھی، وہ اسے ہر وقت اپنی بغل میں رکھتی تھی جب بیل کے پیچھے چل رہی ہوتی تو تب بھی وہ اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ وہ ساگ بہت اچھا پکاتی تھی اور میں سرسوں کا ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ وہ مجھے گھر سے بلا کے لاتی تھی کہ آ کے ساگ کھا لے میں نے تیرے لۓ پکایا ہے۔ ایک دن میں ساگ کھانے اس کے گھر گیا۔ جب بیٹھ کر کھانے لگا تو میرے پاس وہ “پیڑھی“ پڑی تھی میں نے اس پر بیٹھنا چاہا تو وہ کہنے لگی “ ناں ناں پُتر ایس تے نئیں بیٹھنا“ میں نے کہا کیوں اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ کیا میں تیرا پیارا بیٹا نہیں۔


کہنے لگی تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے۔ تو مجھے سارے گاؤں سے پیارا ہے لیکن تو اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔


کہنے لگی بیٹا جب تیرا تایا فوت ہوا تو مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ “بی بی تیرے اوپر بہت بڑا حادثہ گزرا ہے لیکن تو اپنی زندگی کو سونا بھی بنا سکتی ہے۔ یہ تجھے اللہ نے عجیب طرح کا چانس دیا ہے۔ تو اگر صبر اختیار کرے گی تو اللہ تیرے ہر وقت ساتھ ہو گا کیونکہ یہ قرآن میں ہے کہ “ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “ تائی کہنے لگی کہ میں نے پھر صبر کر لیا۔ جب کئی سال گزر گۓ تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تو ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے اور اس کے بیٹھنے کے لۓ ایک اچھی سی کرسی چاہیے کہ نہیں؟ تو میں نے “رنگیل پیڑھی“ بنوائی اور اس کو قرینے اور خوبصورتی سے بنوایا۔ اب میں اس کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہوں اور جب بھی اللہ کو بیٹھنا ہوتا ہے میں اسے اس پر بٹھا لیتی ہوں۔ میں کپڑے دھوتی ہوں، اپنا کام کرتی ہوں، روٹیاں ساگ پکاتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے اور وہ صبر کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔ خواتین و حضرات ایسے لوگوں کا تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اس بات کو یہاں تک محسوس کیا۔ وہ قرآن میں کہی بات کو دل سے مان گۓ وہ خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔ ہم جیسے لوگ “ٹامک ٹوئیاں “ مارتے ہیں اور ہمارا رخ اللہ کے فضل سے سیدھے راستے ہی کی طرف ہے۔ ہم سے کچھ کوتاہیاں ایسی ضرور ہو جاتی ہیں جو ہمارے کۓ کراۓ پر “ کُوچی “ پھیر دیتی ہیں۔ جس سے ہمارا بدن، روح، دل خراب ہو جاتا ہے۔


مجھے ابھی تھوڑی دیر پہلے اعظم خورشید کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں نفرت کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ یہ نفرت کی فضا کس وجہ سے پیدا ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف گروہِ انسانی وہ نفرت میں مبتلا ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ ہم اس علاقے کے رہنے والے ہیں اور ہم ان لوگوں سے ہٹ کے مسلمان ہوۓ ہیں جو انسانوں کو پسند نہیں کرتے۔ وہ لوگ برہمن تھے۔ ہم ایک اعتبار سے Convert ہیں۔ ہمارے اندر وہ پہلی سی کچھ کچھ چیز چلی آ رہی ہے کہ ہم کو ایسا آدمی جو خدا نخواستہ چھوٹے درجے پر ہو وہ اچھا نہیں لگتا۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جاتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اگر تم فوقیت کا کوئی راستہ جاننا ہی چاہتے ہو تو وہ تمہیں تقویٰ میں ملے گی اور تقویٰ ایسی چیز ہے جس میں آپ جتنے نیچے ہوتے جائیں اتنے ہی اوپر ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ تقویٰ میں عاجزی ضروری ہے۔ بابا جی ہم سے یہی دریافت کرتے رہے کہ لوگوں سے محبت کیسے کرنی ہے کیونکہ لوگوں کی خدمت کر کے اور انہیں انسان مان کے ہی کسی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ اگر خدمت نہ بھی کریں یہ مانیں تو سہی کہ یہ بھی انسان ہیں۔ ہمارے بابا جی کے ڈیرے کے پاس ایک بابا لہنا جھاڑو دیا کرتا تھا وہ جب بھی آتا تھا تو بابا جی اس کی اتنی عزت کرتے کہ کھڑے ہو جاتے۔


میں نے کہا کہ جی یہ تو جمعدار ہے چھوڑیں۔ وہ کہتے تھے نہیں نہیں یہ بڑا باعزت آدمی ہے۔ ہم کو کھانے میں وہاں دال ملتی تھی لیکن جب وہ آتا تھا تو پیڑھی کے نیچے سے مکھن بھی نکل آتا تھا، چٹنی بھی نکل آتی تھی، کاٹا ہوا پیاز، کھیرے بھی نکل آتے اور یہ ساری چیزیں لہنا صاحب کو ملتی تھیں۔ میں نے کہاکہ جی بتائیں ہم تو ایم-اے پاس کر کے آۓ ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہیں اور آپ ساری چیزیں اس کو دے دیتے ہیں۔


بابا جی کہنے لگے کہ حکیم کو پتہ ہوتا ہے کہ مریض کو کیسی غذا دینی ہے۔ آپ اپنی شکلیں دیکھو اور شکر کرو کہ تم کو کھانے میں دال روٹی مل جاتی ہے۔ خواتین و حضرات یہ ڈیرے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ میں بات کر رہا تھا کہ کسی آدمی کے اندر سارے خرابیاں دیکھ کے ٹیڑھا ٹیڑھا چلنا دیکھ کے، اس کا لنگڑا پن دیکھ کے اس کے اندر ایسی چیز کو تلاش کرنا کہ یہ اس کی خوبی ہے جو کسی وجہ سے اس پر بھی نہیں کھل سکی اور ایسے شخص کے ساتھ محبت کرتے چلے جانا آپ کے دل کو روشنی عطا کرتا ہے اور اس کو بغیر کسی ورد کے صاف بھی کرتا ہے۔ دل کو صاف کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ محبت کریں، چلیں محبت کرنا مشکل کام ہے آپ انسان کو انسان تسلیم کر لیں۔ گو مجھ سے اسّی برس کی عمر تک پہنچ جانے کے باوجود یہ نہیں ہو سکا کہ میں جو یہ مخالف ہے اس کی شہ رگ کے قریب بھی اللہ موجود ہے اور کم سے کم درجے کے آدمی کے پاس بھی اللہ ہے۔ ہمیں تو اس کی عزت کرنی ہے۔ ولائیت کے لوگوں کے بارے میں جو ہم تاثر رکھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں میں ان کے بارے میں بھی یہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اخلاق نہیں ہے جس کا اللہ تقاضا کرتا ہے۔ ان کے پاس اخلاق کا عکس ہے۔ اصلی اخلاق نہیں ہے۔ اگر ان کے پاس اصلی اخلاق ہوتا تو وہ افغانستان پر ایسی بمباری نہ کرتے۔ بغیر کسی جواز اور دلیل کے انہوں نے ایسا کیا۔ وہ بھی اصلی اخلاق سے محروم ہیں لیکن آپ کے اور میرے دلوں پر ان کا بڑا دبدبہ ہے کہ جی وہ جو وعدہ کرتے ہیں یا سودا کرتے ہیں پورا کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمیں ان سے بازی لے جانی ہے کیونکہ ہمیں اللہ کی طرف سے ایسی رحمت عطا کی گئی ہے جو ان لوگوں کو عطا نہیں کی گئی۔


مسلمان ساری دنیا میں اتنے ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ کیوں اتنی مشکل میں پڑے ہوئے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری کائنات میں جو مسلم امّہ ہے وہ دوسروں کے مقابلے میں برتر ہے۔ اگر برتر چیز کو ناپاکی کا ذرا سا بھی چھینٹا لگ جاۓ تو وہ برتر نہیں رہتی۔ غلیظ چیز کو جس طرح کا بھی گند لگ جاۓ وہ اس کا کوئی نقصان نہیں کرتی۔ آپ انسانیت کی دستار ہیں۔ آپ کے اوپر اگر گوبر کا ذرا سا چھینٹا لگ گیا تو یہ دستار اتار کے پھینکنی پڑتی ہے۔ یہ اہم ذمہ داری ہم پر عائد ہے کہ ہم نے اپنی دستار کو کیسے سنبھال کے رکھنا ہے اور اپنی دستار کو اچھی طرح سے اور سنبھال کر رکھنے کے لۓ یہ بات ضروری ہے کہ ہم اپنے بھائی، انسان اور آدمی کے ساتھ اپنا برتاؤ اور سلوک اچھا رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ چغلی میٹنگیں بند کریں۔ انشاء اللہ ہم اپنی اس کوتاہی کو ختم کر کے دم لیں گے اور اس جانب توجہ دیتے رہیں گے اور دلاتے رہیں گے۔


اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرماۓ۔ اللہ حافظ۔
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by پپو »

جیوہزرواں سال ہر سال دن ہوں دس ہزار
زبردست ذرہ بے نشاں بھائی جی
افتخار
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 11810
Joined: Sun Jul 20, 2008 8:58 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by افتخار »

بھیائی‌ذرہ بے نشان صاحب کہاں ہو آج کل

بہت کم نظر آ رہے ہو۔
v;g انتخاب ھے آپکا
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by پپو »

نوکری کر رہے ہیں سرکار کی اور کہاں
پپو
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 17803
Joined: Tue Mar 11, 2008 8:54 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by پپو »

راجہ گدھ سے ایک اقتباس
تمہیں بھی اپنے لیے کوئی راہ تلاش کرنا ہو گی سیمی ،،،،، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اور کوئی صورت نہیں ہوتی !"


وہ محبت کے ترازو میں برابر کا تلنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مجھے کوئی ایسا بٹہ رکھنا نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن ٹھیک ہو جاتا۔ اگر میں آفتاب کو خوش ظاہر کرتا تو وہ تنفر کی صورت میں بے قابو ہو جاتی ، اگر میں اسے اداس ظاہر کرتا تو بے یقینی ، ناامیدی اور شدید غم تلے دب کر آہیں بھرنے لگتی، محبت کا آرا اوپر تلے برابر اس کے تختے کاتتا چلا جا رہا تھا۔


میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائیٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے، باہمی ہمدردی ، میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول ، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خداہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا ،پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیا سلب کرنے لگی ، محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ، خود کشی وجود میں آئی ،،،،، سوسائٹی اغوا سے شبخون سے متعارف ہوئی ، رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی ، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا ، اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ، بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی ، محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے ، ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی ، معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ہوا۔
نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے ۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے ، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے ۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے ، محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے ، جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے ، کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے ۔
شکست و ریخت، بد بختی و سوختہ سامانی ۔

آج تک سوسائٹی جرائم کی بیخ کنی پر اپنی تمام قوت استعمال کرتی رہی ھے ، اس نے اندازہ نہیں لگایا کہ کتنے گھروں میں کتنے مسلکوں میں سارا نقص ہی محبت سے پیدا ہوتا ھے ، سوسائٹی کا بنیادی تضاد ہی یہ ھے کہ ابھی تک وہ محبت کا علم اٹھائے ہوئے ھے حالانکہ وہ اس کے ہاتھوں توفیق بھر تکلیف اٹھا چکی ھے ، جب تک یہ ن دوبارہ بوتل میں بند نہیں ہو جاتا اور اس کے ٹریفک رولز مقرر نہیں ہوتے ، تب تک شانتی ممکن نہیں کیونکہ محبت کا مزاج ہوا کی طرح ھے کہیں ٹکتا نہیں اور معاشرے کو کسی ٹھوس چیز کی ضرورت ھے ۔
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

پپو میں بہت خوش ہوں کہ کوئی تو ہے خو میری طرح سوچتا ہے
راجہ گدھ میری سب سے پسندیدہ کتاب ہے اور شاید ہر اردو پڑھنے والے کی بھی پسند ہو
بہت بہت شکریہ شئیرنگ کا کبھی کبھی ایسا کرتے رہا کریں بہت خوشی‌ہوتی‌ہی‌کہ‌ابھی‌جاننے‌والے‌لوگ‌زندہ‌ہیں
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
rohaani_babaa
دوست
Posts: 220
Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
جنس:: مرد
Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by rohaani_babaa »

ایک مذاکرہ
شرکائے گفتگو : اشفاق ا حمد ‘ شاہین حنیف رامے ‘ سہیل عمر

ادارہ ادبِ لطیف کے زیر ِ اہتمام تصوف کے موضوع پر ایک مذاکرے کااہتمام کیاگیا جس میں شرکائے محفل نے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے اظہارِ خیال کیا ۔ کہنے کو تویہ ایک مذاکرہ تھا لیکن درحقیقت یہ سوال وجواب کی ایک نشست تھی جس میں دانشور حضرات نے حضرت واصف علی واصف کے علم وحکمت سے اکتساب ِفیض کیا ۔
یہ گفتگو جس طرح ریکارڈ ہوئی اسی بے ساختگی کے ساتھ کاغذپر منتقل کر دی گئی ہے۔


اشفاق احمد : تصوف انسانوں کی زندگی میں بالعموم اور ہم مسلمانوں کی زندگی میں بالخصوص ایک بہت اہم مقام رکھتا ہے اور تصوف کے ساتھ ہم لوگ شروع دن سے ہی وابستہ چلے آرہے ہیں۔ان گذشتہ پچاس برسوں میں اگر آپ کو تصوف کے اوپر یا روحانیت کے اوپر بطورِ خاص کچھ لوگوں کی توجہ مرکوز ہوتی نظر آتی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں لوگوں نے اس کی طرف توجہ دینا شروع کی تھی۔ہمارے یہاں اردو میں‘ فارسی کے تتبع میں تصوف کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے‘ بہت کچھ کہا گیا ہے بلکہ برصغیر میں اسلام کا وجود ہی تصوف کے خمیر سے گوندھا گیا ہے اور یہاں پر جو اسلام پھیلا‘وہ اسی رشتے سے پھیلاجو رشتے تصوف کی کڑیوں میں آنکڑے بن کر دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔اب جوہمیں پچھلے پچاس برسوں کا جائزہ لینا ہے تو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ اس نصف صدی کے ابتدائی دس برسوں بلکہ بیس تیس برسوں میں تصوف کی طرف لوگوں کا رجحان کم نظر آئے گا‘اب زیادہ ہے۔میں چونکہ ابتدا میںعرض کر چکا ہوں کہ اب مغرب میں اس کی طرف خصوصی توجہ دی جا رہی ہے‘تیسری دنیا کا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے تو ہم بھی اس کو مغرب کے حوالے سے جاننے لگے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کا مواد پہلے ہی سے موجود ہے۔اس لئے اس کو سمجھنے میں یا اس سے تعارف حاصل کرنے میں ہمیں اتنی مشکل درپیش نہیں آ رہی جتنی کہ کسی اور ملک کے باشندے کو پیش آ سکتی ہے۔
یہ ایک مسئلہ ہے۔واصف صاحب اس کی زیادہ وضاحت فرمائیں گے۔میرا خیال ہے تصوف ‘ہمارے دین اور ہماری شریعت سے کوئی مختلف چیز نہیں۔یہ بہت توجہ طلب بات ہے اور یہ دین ہی کی طرف لے جانے والا ایک راستہ ہے۔جو شخص تصوف میں داخل ہوتا ہے وہ دین کے عین دل میں‘ قلب میں اترتا ہے۔اس پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ پھر تصوف کی کیا ضرورت تھی؟اگر شرع ہمارے پاس موجود ہے اور اسے آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے تو پھر تصوف کی کیا ضرورت؟میں ایسے موقعوں پر عرض کیا کرتا ہوں کہ آسانی سے اختیار نہیں کیا جا سکتا….تو جو ہمارے بزرگ تھے‘ جو ہمارے مہربان تھے‘ جو ہم پر شفقت کرنا چاہتے تھے‘ انہوں نے شرع کی کلاس کے لئے ہمارے واسطے ایک کنڈرگارٹن سسٹم وضع کیا۔جو بچے تعلیم کی طرف شوق سے رجوع نہیں کرتے اور انہیں رغبت نہیں ہوتی‘ان کے لئے مونٹیسوری یا کنڈرگارٹن بنائے جاتے ہیں اور جب کنڈرگارٹن کا طالب علم پہلے ایک دو تین سال پورے کر لیتا ہے تو پھر رخ اس کو وہی دے دیا جاتا ہے جو ایک عمومی تعلیم کا ہوتا ہے۔چینل اس کا وہی رہتا ہے۔تو اب لوگوں کو‘ میں سمجھتا ہوں‘ شرع کی طرف مائل ہونے میں اس سہارے سے جسے میں کنڈر گارٹن کا نام دے رہا ہوں‘ زیادہ آسانی ہونے لگی ہے۔
ادبِ لطیف:آپ کی بات کو زیادہ وسعت دینے کے لئے ایک سوال ہے کہ کچھ لوگ طریقت اور شریعت کو الگ الگ بتاتے ہیں۔
اشفاق احمد:بالکل الگ رکھتے ہیں۔میں نے یہ سوال ہونے سے پہلے ہی پیش بندی کر دی۔طریقت اور شریعت میں بالکل کوئی فرق نہیں اور اس بالکل کے نیچے آپ گہری سطر لگا لیں۔فرق صرف یہ ہے کہ طریقت کے راستے سے شریعت کی کمند کو پکڑنا آسان ہے اور بلاواسطہ طور پر اس کو پکڑنے میںلوگوں نے کچھ مشکلیں محسوس کیں جس کے لئے ہمارے بزرگوں نے یہ راہ عطا کر دی اور باقی یہ کہ انسانی زندگی میں روحانیت کا جو عمل دخل ہے وہ ہم آپ سب جانتے ہیں۔ہمارے اردو ادب میں جیسا کہ آپ ابھی ذکر کر رہے تھے‘ غوث علی شاہ قلندررحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ”تذکرہ غوثیہ“کا‘ وہ تو ہمارے آج کی بات ہے لیکن اس سے پہلے بھی بے شمار تذکرے تھے۔کمبل پوش جیسا آدمی بھی اس طرح کی بات کر دیتا ہے۔ہمارے ہاں اردو میں سب سے پہلی تصوف کی کتاب ملّاوجہی کی ”سب رس“ہے جو شروع سے لے کر آخر تک تصوف ہے بلکہ بعض اوقات وہ خاصی غیر دلچسپ ہو جاتی ہے۔اس کے مقابلے میں شرع کی کتابیں بھی ایسی ہوں گی مگر اب اس مقام پر پہنچ کر آپ اسے بڑی آسانی سے اور دلچسپی سے پڑھ سکتے ہیں۔ ملّاوجہی کی”سب رس“ سے لے کر آج واصف علی واصف صاحب کی ”کرن کرن سورج“تک اور بیچ میں بابا جی نور والے رحمتہ اللہ علیہ‘سخی سائیں راضی رحمتہ اللہ علیہ‘جن لوگو ں کو میں جانتا ہوں ان کا ذکر کر رہا ہوں۔میں ان کا شاہد ہوں۔ وہاںجتنی منازل بھی طے کیں‘ ان کا خمیر ہمارے وجود میں اور ہمارے دین میں موجود رہا ہے۔اب اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے آپ کو سمجھنے میں کچھ آسانی عطا ہو جائے گی۔
ادبِ لطیف:سہیل عمر صاحب سے پوچھنا یہ ہے کہ اشفاق صاحب نے یہ بڑی گہری بات کہہ دی ہے کہ ہمارے ہاں مغرب کی دیکھا دیکھی تصوف میں دلچسپی بڑھی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ ہمارے یہاں تصوف کی صدیوں پرانی روایت ہے۔آپ نے چونکہ مارٹن لنگز کے حوالے سے اور یوں بھی آپ نے تصوف کے سلسلے میں مطالعہ اور کام جاری رکھا ہے تو کیا آپ کی رائے بھی اشفاق صاحب سے ملتی ہے….؟یا ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں کوئی نہ کوئی مخصوص لہر آ جاتی ہے۔مذہب کی روایات میں بھی ایسا ہوتا ہے۔کبھی کسی خاص مزاج یا رویے کو عروج ملتا ہے‘ کبھی لمبا وقفہ آ جاتا ہے۔مثلا دس پندرہ سال پہلے تک نعت شریف کوئی کوئی اور کبھی کبھی لکھتا تھا‘ آج کل ہر شاعر نعت لکھ رہا ہے۔
سہیل عمر:بنیادی طور پر اشفاق صاحب نے جو کہا ہے میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ مغرب میں پچھلے پچاس برسوں میں جو دلچسپی عموماً اور بیس برسوں میں خصوصیت سے نمایاں ہو کر آئی ہے کتابوں کے حوالے سے‘ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگر بدھ ازم کی کوئی چیز بکتی تھی تو وہی مارکیٹ میں زیادہ آنے لگتی۔یوگا میں دلچسپی بڑھی تو وہ کتابیں چھپنے لگیں۔پھر امریکہ اور یورپ کے ایک پورے گروپ کا ظہور ہوا جو یہاں کی اصطلاحات میں بات کرنے لگا اور اسی ڈکشن میں بات کرنے لگا جو عصری عہد کا آدمی سمجھتا ہے۔اب ایک تو دیکھا دیکھی کی دلچسپی ہے‘وہ اپنی جگہ درست کہ جو چیز انگریزی میں آ رہی ہے وہ انگریزی پڑھا لکھا طبقہ سلام کر کے قبول کرتا ہے۔لیکن پچھلے بیس برسوں میں جو چیزیں پیش کی گئیں ان کی مثال اس سے پہلے کے تیس برسوں میں نہیں ملتی اور وہ ذہنی سطح پر کلام کرتی ہیں۔جدید پڑھنے والوں میں اس کی ایک خاص کشش اور وقعت ہے۔اس میں دیکھا دیکھی کا عنصر تو ہوا‘ بہت سا عنصر یہ ہے کہ اس زبان میں کتاب آ رہی ہے جس کو وہ باآسانی سمجھنے لگا ہے جبکہ پچھلی جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا ان میں اور آج کے قاری کے درمیان ایک ذہنی خلیج ہو گئی ہے اور ایسے میں کسی نہ کسی ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو اس خلیج کو پاٹ کر یا اس خلاءکو بھر کر رابطہ بحال کر دے۔
دوسری بات جو اشفاق صاحب نے فرمائی کہ شریعت اور طریقت ایک ہیں‘ بالکل درست ہے۔سبھی مستند لوگ یہی کہتے ہیں۔البتہ وہ جس کنڈر گارٹن کا حوالہ دے
رہے ہیں وہ عجیب ہے کہ کنڈرگارٹن بھی ہے اور پی ایچ ڈی کا مقام بھی رکھتی ہے۔
ادبِ لطیف:جنابِ واصف کی توجہ درکار ہے۔
حضرت واصف علی واصف ؒ:
تصوف اور اس کے تاثرات اور اس کا ارتقا ءاور اس کی طرف رجحان‘ یہ تو بعد میں سوچا جائے گا۔پہلے تو یہ ہلکی پھلکی وضاحت ہونی چاہئے کہ تصوف ہے کیا….؟ تاکہ ہمیں سمجھ آ جائے۔آپ کی‘ سہیل عمر کی اور اشفاق احمد صاحب کی بات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ تصوف‘ شریعت یا دین کی کوئی Application ہے‘ اس انداز کی کہ جس سے آسانی پیدا ہو اور محبت پیدا ہو یاآپ یوں کہہ لیں کہ یہ تصوف کوئی Applied Religion بن جاتا ہے۔میرا جہاں تک خیال ہے‘ میں تو یوں کہوںگا‘ ذرا اس انداز سے ہم سوچ سکتے ہیں کہ ایک مذہب کو ہم لوگوں نے یاانسانوں نے Defendکر رکھا ہے عمل کے ذریعے۔ہم اس پر چلتے رہے کہ مسلمانوں کا عمل ہے کہ اسلام محفوظ ہے۔اس کے اندر یہ بھی واقعہ ہے کہ اسلام کی حفاظت اللہ کریم نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور جس نے اسے محفوظ فرمایا ہے وہ اسی اسلام کی حفاظت کے لئے اپنے اس دین کے ماننے والوں میں ایک خاص قسم کا شعور اور خاص قسم کا عرفان عطا فرماتا ہے۔اس کا فارمولا یہ نہیں ہے کہ مغرب نے کچھ کر لیا ہے تو مشرق بھی ضروروہی کرے گا۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے بیس برسوں میں‘جن کا ذکر آپ نے کیا ہے عنایات کاسلسلہ زیادہ ہوگیا ہے‘ اللہ کریم کی طرف سے۔جب ہم تصوف کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہر صوفی الگ الگ انداز سے آیا ہے۔ دین ایک ہے۔شریعت ایک ہے۔تصوف کے سلسلے بہت ہیں‘ چشتی‘ قادری‘ نقشبندی‘ سہروردی ….تو اتنے سلسلوں کے ہونے کی پھر کیا وجہ ہے؟ان سلسلوں کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس ملک کے جغرافیائی حالات پر شریعت کے نافذ ہونے یعنی قلوب
پر نافذہونے کے لئے اور لوگوں میں آسانی پیدا کرنے کے لےے خاص طریقت‘ خاص مزاج دیا۔اگر کسی کو موسیقی کا شعور ہے تو اس کو چشتی طریقت میں وابستہ کر دیا جاتا ہے۔نعت‘ قوالی اور منقبت اس کے انگ میں شامل ہوتے ہیں اور دین کا شعور بھی حاصل کرتا ہے لیکن اپنے انداز سے کرتا ہے۔مطلب یہ کہ ہر دور میں اپنے وقت کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا انتظام کیا ہے کہ لوگوں کو دین کے قریب لانے کے لئے کسی نہ کسی شخص کو عرفان‘ صداقت یا محبت عطا کر دی جاتی ہے۔
ایک چیز بڑی غور والی ہے کہ شریعت پر عمل کرنے والے کو کیوں ضرورت محسوس ہو گی کہ وہ تصوف کی طرف آئے یا ادھر آنا لازم ہے۔غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ شریعت‘ اہلِ ظاہر عبادت کرتے کرتے یا دین کو تبلیغ میں شامل کرتے کرتے یا بے تعلق تبلیغ میں چلتے چلتے ‘تبلیغ اس مقام تک چلی جاتی ہے کہ لوگوں کے دل آپس میں مانوس نہیںہوتے یا ان میں محبت نہیں بڑھتی‘ تبلیغ پھیلتی چلی جاتی ہے اور دل جدا ہوتے رہتے ہیں۔تو اس سلسلے کو دُور کرنے کے لئے پھر ایک اہلِ دل آ جاتا ہے۔وہی اہلِ دل جو پرانے زمانے میں آیا کرتا تھا اور خدانخواستہ لوگوں کو مذہب سے جو مایوسی ہو رہی ہوتی ہے اس سے بچانے کے لئے کہتا ہے کہ میرے قریب آﺅ۔وہ تیمارداری کرتا ہے۔ تیمارداری اس کی یہی ہے کہ آپ جو بیمار ہو چکے ہیں‘ قریب آﺅ‘ ہم آپ کو اللہ کے قرب کا رستہ بتا دیتے ہیں۔دین بھی انہی لوگوں کے ذریعہ پھیلا۔مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں خاص طور پر پچھلے زمانے سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگوںکا دین سے محبت کے طور پر کسی ایک ایسے عمل میں شریک ہو جانا‘ یہ تصوف کا عمل ہے۔
اب اس میں ایک چیز‘کہ انسانی سطح پر کسی شخص کا باشعور ہو جانا‘ وابستہ ہو جانا یا گہرائی میں چلے جانا‘اس سے کسی سماج کا کوئی تعلق نہیں‘یہ اسی طرح ہے جس طرح‘ خدانخواستہ کوئی خدا ہو جائے‘ بے شک ہو جائے‘ بلند ہو جائے‘ اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا
ہے‘ مقصد یہ ہے کہ جو اہلِ دل لوگ ہیں ان میں بے شمار ایسے تصوف والے ہیں جو بہت بلندیوں تک گئے ہیں‘جن کا ذکر ایسے کسی تذکرے میں نہیں ہے۔ کوئی ایسا انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ اذن عطا فرمایا ہو کہ وہ اپنے تصوف یا اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اللہ تعالیٰ کے محبوب A کی امتکو اجتماعی طور پر اس محبت کی دعوت میں شامل کرتا ہے۔
یہاں پر ایک بڑی عجیب سی بات ہو گی۔تصوف اور شریعت کے درمیان کچھ فرق کے طور پر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کربلائے معلیٰ میں جو واقعہ ہوا کہ حضرت امام عالی مقام علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد لوگوں نے نماز ادا کی۔شریعت والوں نے شریعت ادا کی‘ طریقت کو پہچانے بغیرکہ اللہ‘ اللہ کے رسول اور اہلِ بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی محبت کیا ہوتی ہے۔محبت کو ترک کر کے دین کے ایک بنیادی اصول (As a principle)کے طور پر اس پر چلتے گئے‘ Person کو نکال کر….تو تصوف جو ہے وہ Person (فرد) کو اہمیت دیتا ہے اور اس کے ذریعے سے‘ اس ریفرنس کے ذریعے لوگوں کے اندر صداقت کا شعور پیدا کرتا ہے۔آپ پاکستان کی تخلیق دیکھیں‘سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الہٰ الا اللہ ….حالانکہ پاکستان کا مطلب یہ نہیں …. پاکستان کا مطلب ملک ہے۔لا الہٰ الا للہ کا مطلب تو کچھ اور ہی ہے ناں….یعنی کہ جو مذہب ہے وہ ایک ایسے Practical انداز میں لوگوں کے مزاج میں شامل ہو گیا کہ لوگ وابستہ خیال ہو گئے….تو تصوف کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں کا شریعت کے اندر محبت کے طور پر دین میں شامل ہو جانا۔یعنی دین کو‘ شریعت کو‘محبت کے ساتھ سجدہ کرنا۔ایک آدمی سجدہ کر رہا ہے اور ایک دوسرا آدمی بھی سجدہ کر رہا ہے،جو محبت کے ساتھ سجدہ کر رہا ہے اس کو ہم کہیں گے اہلِ تصوف ….اور جو صرف سجدہ کر رہا ہے اس کو اہلِ ظاہر کہیں گے یعنی شریعت والا۔
شریعت کے ساتھ اگر محبت شامل ہو تو اسے ہم کہیں گے طریقت۔طریقت میں اپنے شیخ‘ اپنے رہبر کے ساتھ‘ اپنے گرو کے ساتھ جو وابستگی ہے یہ بھی ضروری ہے۔تصوف اس شیخ کے بغیر نہیں چل سکتا اور جس طرح اللہ کریم نے اسلام کی حفاظت اپنے ذمے لی ہے‘اللہ ہی کی طرف سے ان لوگوں کو شعور عطا ہوتا ہے کہ عام لوگوں کو مایوسی سے نکالا جائے اور اب جو آپ نے کہا کہ پچھلے بیس برسوںمیں تصوف کی طرف زیادہ رجحان ہوا ہے تو اشفاق صاحب ! یہ بات بڑے غور والی بات ہے۔
اشفاق احمد : جی میں سن رہا ہوں۔
حضرت واصف علی واصف ؒ :
اس کی بڑی وجہ جو آپ نے بیان کی وہ صحیح ہے۔اس کے برعکس بھی صحیح ہے کہ لوگ مذہب کے زنگ سے بچنے کے لئے تصوف کی طرف مائل ہوئے۔یعنی مذہب کے اندر جو سختی نظر آئی‘ جو اہلِ شریعت کے اندر تیزی اور سختی اور دوسرے واقعات نظر آئے ‘ ان سے بچنے کے لئے دل والوں کی تلاش شروع کر دی اور دل والوں کی تلاش کرنے والے‘ دل والے ہی ہو جایا کرتے ہیں۔
ادبِ لطیف:واصف صاحب!کیا ہمارے عہد کی جو معاشی مجبوریاں ہیں اور جو معاشرتی ٹوٹ پھوٹ ہے‘ اس میں لوگ ایک طلب کے لئے‘توجہ چاہنے کے لئے اور ایک تسلی کے لئے تصوف کی طرف آ رہے ہیں؟
حضرت واصف علی واصف ؒ:
ہم تصوف کی ایک اور تعریف کرتے ہیں۔زندگی کا عمل‘انفرادی زندگی کا عمل‘اگر یہ عمل ہم ذہن کے حوالے سے کریں تو ہم کہیں گے کہ وہ مفکر ہے۔جو اپنی زندگی کے تمام عوامل کو ذہن کے حوالے سے گزارے ‘ہم کہیں گے فکر والا ہے‘ مفکر ہے‘
اگر دل کے حوالے سے ہر واقعے کو گزارے تو آپ کہیں گے کہ یہ شخص شاعر ہے۔اسی طرح کوئی شخص یہ عمل روح کے حوالے سے گزارے تو کہا جائے گا کہ وہ روحانیت والا آدمی ہے۔تصوف کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے اندر ہونے والے ہر واقعہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانے یعنی اس کے حوالے سے گزارے۔پھر ہم کہیں گے کہ اس کے اندر تصوف کا خیال پیدا ہو گیا ہے۔
ادبِ لطیف:یہاں سے ایک اور سوال کی جسارت ….تصوف کے لئے آپ نے زور دیا تصورِ شیخ پر….یا توجہ پر؟
حضرت واصف علی واصف ؒ: یا تعلق پر!
ادبِ لطیف:جی….تو ہمارے ہاں عموماًیوں ہوتا ہے کہ بعض اوقات خدانخواستہ ….جو کم ظرف مرید ہوتے ہیں وہ صرف شیخ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔خدا پیچھے رہ جاتا ہے۔شاید اس وجہ سے بھی لوگ تصوف سے بدکتے ہوں گے؟
حضرت واصف علی واصف ؒ:
نہیں‘ تصوف سے بدکنے کی اور وجوہات ہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ جب آستانوں پر یا شیخ کے پاس جاتے ہیں تو ان میں سے اکثرلوگ اپنی آرزوئیں لے کر آستانوں پر جاتے ہیں۔آرزو پوری ہو گئی تو تب بھی تعلق ختم ہو گیا‘ آرزو پوری نہ ہوئی تو پھر بھی تعلق ختم ہو گیا۔یہ وابستگی عارضی ہوتی ہے۔وہ لوگ جو سیدھا عرفانِ ذات کے لئے چلتے ہیں‘ان کو شیخ اگر صحیح مل جائے یا غلط مل جائے‘ ان کی منزل پوری ہو جاتی ہے۔اس میں یہ حوالہ نہیں ہے کہ کیا وجہ ہے؟عام طور پر بدکنے والی بات آپ نے
ٹھیک کی ہے۔ایک شخص کہتا ہے کہ میں اتنا عرصہ شیخ کے پاس رہا ہوں‘ ایک تو میرا کام نہیں ہوا‘ دوسرا میں نے نوٹ کیا ہے کہ شیخ کے ظاہر و باطن اور علم اور عمل میں فرق نظر آیا۔اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ شیخ کی کسی خامی کی وجہ سے راستہ ترک نہیں کرنا چاہئے۔راستہ ترک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے دن ہی سے صداقت نہیں تھی۔ صداقت کا راستہ کبھی ترک نہیں ہوتا۔چاہے اس کے سامنے سارا ماحول کاذب ہو جائے‘ پرواہ نہیں۔اس لئے جو بدکنے والے ہیں وہ بدکنے کی وجہ دریافت کر ہی لیتے ہیں مگر ساتھ چلنے والے چل بھی رہے ہیں۔
حوالہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس کو عملی طور پر کر کے دکھاﺅ مثلاً اسلام کہتا ہے کہ معاف کر دو۔مگر کیسے معاف کر یں….؟جس نے آج تھپڑ لگایا ہے اسے معاف کیسے کریں؟وہ پھر کر کے دکھاتا ہے کہ یوں کر دو‘ کل جو آیا تھا وہ میرے بھائی کا قاتل تھا۔ہم نے اسے کھانا کھلایا تھا‘ ہم نے اسے معاف کر دیا۔وہ جو عمل ہے ‘وہ اس شیخ نے کر کے دکھایا ہے۔اس لئے اس کو عملی سطح پر قابلِ عمل دکھایا۔عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ اہلِ تصوف یا جو بزرگ ہیں ‘ اسلام کا وہ عمل جو بظاہر مشکل ہے‘ وہ کر کے دکھادیتے ہیں یعنی وہ فکر ان کے حال پر نافذہوتا ہے اس لئے وہ صاحبِ حال کہلاتے ہیں۔
ادبِ لطیف:واصف صاحب ! تصوف کی ایک کڑی اہلِ ملامت کی بھی ہے‘ ذرا اس پر بھی روشنی ڈال دیں۔
حضرت واصف علی واصفؒ :
اہلِ ملامت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ایک انسان جب اللہ کریم کے راستے کی طرف جاتا ہے تو وہ ایک چیز سے بہت ہی خوف زدہ ہوتا ہے اور اس کو پہلے دن بتا دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے تجھے راستے میں روکا تو یہ بیماری ہوگی‘ اس سے راستہ رک جایا
کرتا ہے‘تو راستہ کس سے رکتا ہے….؟ راستہ تعریف سے رکتا ہے۔تعریف سے بچنا چاہئے۔ تعریف قاتل ہے۔اہلِ ملامت وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیںکہ جب ان کا فقر یا ان کا تصوف تعریف کے اندر آنے لگے یعنی لوگ ان کی تعریف کرنے لگیںتو پھر اس سے نجات کی راہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ تعریف سے بچنے کے لئے کچھ بد تعریفی کا پہلو نمایاں ہو بلکہ ایک ڈیفنس بنایا ہے۔
ایک درویش نے روزہ رکھا ہوا ہے‘ ایک بستی سے گزر ہوتا ہے۔بستی کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ سرکار تشریف لائے ہیں۔سارے لوگ استقبال کے لئے آ گئے۔آپ نے سب کے سامنے کچھ کھانا شروع کر دیا۔لوگوں نے باتیں بنائیں کہ یہ ہیں شیخ! ایسے ہوتے ہیں شیخ؟ان کے جو ساتھی تھے‘ جو مرید تھے‘ انہوں نے پوچھا سرکار یہ آپ نے کیا کیا….؟انہوں نے کہا دیکھو‘ ساٹھ روزے کفارے کے رکھنے میرے لئے آسان ہیں مگر اس مصیبت سے بچنا میرے لئے مشکل تھا۔گویا تعریف سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ملامت ایک تو تحفظ دیتی ہے ….دوسرا نفس کے لئے ملامت ایک تازیانہ ہے۔ عام طور پر انسان دو چیزوں سے چلتا ہے….شوق سے چلتا ہے یا خوف سے چلتا ہے۔ملامت سے اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔کہتے ہیں کہ نفس کی اصلاح ذکر سے زیادہ ملامت میں ہے۔ایک اور فیصلہ ملامت کے بارے میں‘ایک بزرگ نے کہا‘ دیکھو‘ اگر ملامت ہی اپنانی ہے تو کیا یہ ملامت کافی نہیں ہے کہ اس ماحول میں نماز پڑھنے جائے جب کہ لوگ کہیں تو جھوٹی نماز پڑھ رہا ہے۔
ملامت والوں کا پورا ایک طبقہ ہے۔وہ اہلِ دل ہیں‘ وہ قرآن پڑھنے والے ہیں‘ اللہ کی یاد کرنے والے ہیں مگر انہوں نے لوگوں سے راستہ مخفی کر لیا ہے۔بابا بلھے شاہؒ نے کہا تھا:۔
شرع کہے چل مسجد اند ر حق نماز ادا کر لے
اور اس کے مقابلے میں:
عشق کہے بوہا یار دا کعبہ پی کے شراب نفل پڑھ لے
شرع کہے اساں شاہ منصور نوں سولی اتے چاڑھیا سی
عشق کہے تسی چنگا کیتا بوہے یار دے واڑیا سی
ملامت یہ ہے کہ مجھے سید نہ کہو‘کیوں نہ کہو؟کیونکہ ہمارا عمل اس طرح کا نہیں ہے۔
ادبِ لطیف:واصف صاحب‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسے سب لوگوں کے فرائضِ منصبی ہیں‘جسے عام زبان میں کہا جاتا ہے کہ ”ڈیوٹی“ ہے۔تو کیا اہلِ ملامت کا یہ فرض نہیں کہ یہ بھی عام لوگوں کو فیض پہنچائیں۔
حضرت واصف علی واصفؒ :
تصوف فیض پہنچانے کا پابند نہیں ہے۔دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔کچھ لوگ اپنی نجات چاہتے ہیں۔تصوف اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہے:
غلام فریدا اوہدیاں او جانے‘ تو اپنی توڑ نبھا
یہ بھی تصوف والے لوگ ہیں۔ان سارے گروہوں میں سے کسی نہ کسی کو فائز کر دیا جاتا ہے کہ اب ہم لوگوں کی اصلاح کرو….لوگوں کی ایک بیماری ہوتی ہے۔کیا؟ بڑی عجیب بیماری ہوتی ہے یعنی مایوسی۔اور کوئی بیماری نہیں ہوتی۔تصوف اسی بیماری کا علاج ہوتا ہے کہ مایوسی سے بچاﺅ‘اپنے آپ سے مایوس ہونا‘اپنے خدا سے مایوس ہونا۔باقی امیری بھی آتی ہے‘ غریبی بھی رہتی ہے‘ غریب بھی پرامید ہو سکتا ہے اور امیر بھی۔لیکن مایوسی جو ہے‘ فرسٹریشن‘ تصوف اس سے نکالتا ہے….اور ہر تصوف والا بھی یہ نہیں کرتا۔ہر کسی کو اجازت ہی نہیں ہوتی‘باقی تصوف والے تو اپنی تکمیل کرتے ہیں‘ عروج کرتے ہیں‘مکاشفات ہوتے ہیں‘ مراقبے کرتے ہیں ۔یہ کوئی کوئی آدمی ہوتا ہے جسے بتایا جاتا ہے کہ تم آگے لوگوں کو بتاﺅ۔حضور پاک Aکی امت کے لئے یہ لوگ Contributeکرتے ہیں۔اہلِ تصوف میں سے ہی ان کے مقامات الگ ہوتے ہیں اور ان کا ایک مقام ہوتا ہے۔میں بتاتا ہوں کہ یہ مقام کیا ہوتا ہے؟….جب ان کو دیدار کا وقت آ گیا‘بلند دیدار کا‘ تو انہوں نے سر جھکا لیا اور کہا ہمارا دیدار یہی ہے کہ آپ Aکی امت سرفراز ہو جائے۔آپ ان پر احسان کر دیں‘میرے لئے یہی دیدار ہے۔مقصد یہ ہے کہ اس امت کو مایوسی سے نکالو تو میرا دیدار اتنا ہی ہے۔یہی صورت ہے جب اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی قبولیت کا وقت آ گیاہے۔لوگوں کا خیال‘قوم کا خیال‘ ملک کا خیال‘ ہر آدمی کے پاس یہ نہیں ہوتا….یہ عمل تصوف والا ہے‘ چاہے اس کا مرتبہ کچھ بھی ہو۔
بے شمار ایسے بزرگ ہیں‘ چاہے قادری سلسہ ہو‘چشتی سلسلہ ہو‘ یہی وجہ ہے کہ آگے ہر آدمی اپنی طریقت کو الگ کرتا رہتا ہے۔سارے اصلاح پر فائز نہیںہوتے۔وہ کہتے ہیںاللہ خود کر لے گا‘وہ خود جاننے والا‘ بہترجاننے والاہے ….تُو ضبط سے ذکر کر۔ بہر حال ایسے لگتا ہے کہ دین کا چراغ‘اہلِ ظاہر کے کسی عمل کے سبب بجھنے سے بچانے کے لئے ان اہلِ دل کو مقامات دیئے جاتے ہیں۔
پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔اس وقت جو مقامات تھے‘ غوث‘ قطب‘ ابدال‘ قلندر زیادہ نمایاں تھے۔اس کے بعد یہ مقامات نہیں آئے۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ مسلمانوں میں ان مقامات کا اظہار منع ہے…. کہ کوئی اہلِ دل‘ کوئی صوفی‘ کوئی صاحبِ تصوف باقی مسلمانوں میں اپنے آپ کو‘ اپنے تعلق کو اتنا نمایاں نہ کرے کہ باقی لوگ بددل ہو جائیں۔پہلے معاملہ غیر مسلموں کے ساتھ تھا۔غیر مسلم جوگی بن کے آتے تھے اور ہمارے بزرگ ‘یہ قطب اور ابدال ہوتے تھے۔
ادبِ لطیف: شاید اسی وجہ سے کشف المحجوب میں حضرت داتا صاحبؒ نے فرمایا ہے کہ صوفی کے لئے کشف و کرامات دکھانا زیادہ ضروری نہیں۔
حضرت واصف علی واصفؒ:
بلکہ غیر ضروری ہے‘ منع فرما دیا گیا تھا۔کشف و کرامت کے لئے کہتے ہیں کہ یہ بھی حضور پاکA کے معجزوں میں سے ایک واقعہ ہے۔یہ انہی کی عطا ہے۔وہ کرائیں تو کرائیں‘ ورنہ کچھ نہیں۔ پچھلے برسوں میں جو خصوصیت سے اثر پڑا ہے‘پڑنا ہی تھا۔ بہر حال ہماری تو ابتداءہی تصوف سے ہوئی ہے۔
ادبِ لطیف:شاہین حنیف رامے!….آپ سے پوچھنا ہے‘ آپ پچھلے کچھ برس خاصا عرصہ امریکہ میں رہ کے آئی ہیں‘جیسے اشفاق صاحب اور سہیل عمر صاحب نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں تصوف پر بہت کام ہو رہا ہے اور دلچسپی لی جا رہی ہے۔بظاہر تو یہ معاملہ کمرشل ہے۔مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بھی ہماری طرح اندر سے ہلے ہوئے ہیں۔انہی برسوں میں ایک روسی مصنف کی کتاب بھی تصوف پر آئی ہے۔وہ برصغیرمیں بھی آیا تھا‘تو آپ نے وہاں کوئی ایسا تجربہ کیا؟یہاں آ کر آپ جناب واصف علی واصف صاحب کی روحانی محفلوں میں آ رہی ہیں۔کچھ آپ بھی ارشاد کریں۔
شاہین حنیف رامے:اشفاق احمد نے جو بات کی تھی اسلام کے حوالے سے کہ اسلام تصوف کے زور پر پھیلا ہے،اور واصف صاحب نے جیسے فرمایا کہ تصوف والے لوگ جو ہوتے ہیں ان کا طریقہ محبت کا ہوتا ہے اورمحبت سے دوسرے لوگوں کو زیادہ اپنے قریب کیا جا سکتا ہے۔پھر یہ جو شریعت اور طریقت کی بات ہے‘اسلام میں بھی اس طرح کے دو
گروپ ہیں۔ایک تو ملّا اِزم ہے۔ملّا کاطریقہ شریعت کاہے اور ملّا دین سے ایک طرح سے لوگوں کو بھگا دیتا ہے کیونکہ وہ حقیقت میں ظاہر بھی ہوتا ہے اور باطن بھی‘جس طرح بادام ہے‘ایک چھلکا ہے اور ایک مغز۔شریعت پر چلنے والے لوگ جو ہوتے ہیں یعنی ملّا جو ظاہر پر زور دیتے ہیں‘ باطن کا ذکر ہی نہیں کرتے۔نماز پڑھانا یا شلوار کے پائنچے اتنے اونچے ہونے چاہئیں وغیرہ۔وہ انہی باتوں پر زور دیتے ہیں۔لیکن اصل میں آپ لوگ اگر مذہب کی پوری تاریخ دیکھیں تو شریعت اور طریقت نے دو واضح گروپ پیدا کئے ہیں۔شریعت پر چلنے والے جو لوگ ہیں ‘ عام طور پر ہمارے ہاں انہیں یہودیت سے ملا دیا جاتا ہے کیونکہ یہودیوں میں یہ ہے کہ قانون پر بہت زور ہے۔شریعت پر بہت زور ہے لیکن محبت کا سبق نہیں ہے۔اس کے بعد ردعمل ہوا تو عیسائیت میں معاملہ دوسری طرف چل نکلا‘ محبت کی طرف۔محبت یعنی طریقت کی طرف چل نکلے اور اسے انہوں نے طریقت کی بجائے رہبانیت کا نام دیا۔
جب رسول کریم آئے تو انہوں نے ان دونوں چیزوں کو ملایا‘ ظاہر اور باطن کو‘ تزکیہ کو اور شریعت کو۔جہاں ہم دیکھتے ہیںکہ انہوں نے بادشاہت بھی کی‘عام آدمی کی زندگی بھی گزاری‘ جنگیں بھی لڑیں لیکن ان کی زندگی کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ وہ غارِ حرا میں بھی جا کر بیٹھے تھے۔یوں ان کی زندگی کے ارد گرد ایک خول بھی بنتا ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات صرف ظاہری نہیں‘ باطنی بھی ہے اسلام کے حوالے سے۔میں واصف صاحب سے پوچھنا چاہوں گی کہ حضور نبی کریمAکی زندگی میں شریعت اور طریقت دونوں ملی ہوئی ہیں اور میں سوچتی ہوںکہ ایک صوفی جو ہے وہ شریعت کو Negate نہیں کرتا (نفی نہیں کرتا) ‘شریعت پر وہ بھی چلتا ہے مگر محبت کے ساتھ۔وہ دل کو گداز کرتا ہے اور میں اس طرف بھی آﺅں گی کہ امریکہ میں رہ کر میں نے کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا۔
واصف صاحب سے میں یہ پوچھنا چاہوں گی کہ کیا رسول کریم صوفی تھے؟ کیا ہم انہیں صوفی کہہ سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ ہے جو میں اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہی ہوں کہ میں تو زیادہ سے زیادہ اپنی ذات کے حوالے سے ‘ واردات کے حوالے سے بات کر سکتی ہوں اور وہی بات سچی ہوتی ہے جو آپ کے اندر سے پھوٹے اور نکلے اور جب آپ کے اندر تلاش ہو تو پھر آپ کو کسی صادق سے ملا دیا جاتا ہے۔میرے اندر یہ تلاش تھی‘ وہ بھی میں مشاہدہ کرتی رہی۔خود حنیف صاحب کئی راستوں پر چلے ہیں۔بہت خاک چھانی ہے۔جس میں مغرب کے بھی کچھ طریقے تھے جو میںبہت نزدیک سے دیکھتی رہی تھی۔مگر میرا دل اس طرح سے کبھی کسی راستے کی طرف نہیں لگا کہ میں اعلان کروں کہ میں نے راستہ پا لیا ہے۔ اب یہ ہے کہ اتنی عمر گزارنے کے بعد….میں اللہ کی شکرگزار ہوں کہ اس نے ایک ایسے صاحبِ حال شخص سے مجھے ملایا ہے جس کی صداقت اور سچائی میرے دل تک پہنچتی ہے اور جو ملبہ اندر تھا‘ جس کے نیچے سچائی چھپی ہوئی ہوتی ہے‘ سچائی ہر انسان کے اندر ہوتی ہے‘صرف ملبہ ہٹانے کے لئے کسی صاحبِ کیفیت شخص کی ضرورت ہوتی ہے اور تصوف میں یہی ہے کہ طریقت کسی زندہ مرشد کے بغیر سمجھ نہیں آ سکتی۔
یہ ٹھیک ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسولِ کریم کو دیکھے بغیر‘ ان کے قریبی صحابہؓ سے بھی زیادہ محبت کی۔لیکن طریقت کی بات یہ ہے کہ جب تک آپ ایک صاحبِ حال کی صحبت میں نہ بیٹھیں تو آپ کو وہ بات سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی‘ دل آپ کا گداز ہو ہی نہیں سکتا۔آپ کے دل اور روح پر جو ملبہ پڑا ہوا ہے اسے ہٹانے کے لئے صاحبِ حال کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔میں یہ نہیں کہتی کہ میرا ملبہ ہٹ گیا ہے‘ بہرحال میری تلاش کی ابتدا یا آغاز ہو چکا ہے۔
مغرب میں‘ جیسے اشفاق صاحب نے کہا ہے کہ ہم مغرب کو دیکھ کر بطور فیشن
تصوف کی طرف مائل ہوئے ہیں۔لیکن جو اسلامی تصوف ہے یا جو طریقہ اسلام کا ہے‘ میں نے جو وہاں دیکھا ہے یہ وہ نہیں ہے۔وہ رہبانیت کی طرف زیادہ مائل ہیں۔دنیا کو چھوڑنے کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔میں اپنے حوالے سے بات کر رہی ہوں کہ ان کا زور زندگی پر ہوتا ہے کہ زندگی کو آسان کیسے بنایا جا سکتا ہے۔یہ اس تفصیل میں نہیں پڑتے کہ نماز ایسے پڑھنی ہے یا یہ کرنا ہے‘ بلکہ زندگی کو اپنے لئے اپنے قریبی لوگوں کے لئے آسان کرنا ہے۔انسان کی ایک اپنی ذات ہے۔اس کی بھی حقیقت ہے۔اس کی بھی ایک اہمیت ہے۔اس کا بھی باطن ہے۔آپ تواللہ تعالیٰ کی ذات کا بھی پوری طرح احاطہ نہیں کر سکتے۔آپ حقیقت کے باطن میں بھی اتر کر نہیں دیکھ سکتے۔ہمارے مرشد تو کہتے ہیں کہ اپنی بھی اہمیت کو مانو اور یہی اسلامی تصوف کا پس منظر ہے اور یہی لگن آپ کو کسی مقام پر رسول کریمA اور ذاتِ باری کے قریب بھی لے جاتی ہے۔
ادبِ لطیف: ابتدا میں شاہین‘ آپ نے واصف صاحب سے سوال کیا تھا کہ کیا رسول کریم بھی صوفی تھے؟
حضرت واصف علی واصف ؒ:
آپ صوفی ہی کیا‘ اصفیا گر ہیں۔ آپ ہی کی برکت سے سارا کارخانہ چلتا ہے‘ سارے علوم چلتے ہیں۔مگر جہاں دقت پیدا ہوتی ہے‘ غور کرنے میں‘ جب ایک عمل دے دیا شریعت نے‘دین مکمل ہو گیا تو اس کے بعد اس دین میں اضافے کی گنجائش نہیںہے۔حضورپاک کے پاس کوئی آدمی آیا اور عرض کیا کہ حضور ! میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔آپA نے فرمایا! کلمہ پڑھو۔اس نے پوچھا‘ اب کیا کروں؟ارشاد ہوا جو کچھ ہم کر رہے ہیں۔امن کا زمانہ ہے تو کچھ کاروبار کر لو‘جہاد کا زمانہ ہے تو ہمارا ساتھ دو۔کتاب نہیں پڑھنے کو دی۔آپ کے فیض سے سارا تصوف چلتا ہے بلکہ اس حد تک کہ ایک صوفی اور ایک ظاہری شریعت والا دونوںاکٹھے ہوں‘ ان سے پوچھا جائے کہ دین کیا ہے؟حضور پاک کے حوالے سے وہ یہ کہے گا کہ دین یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لانا‘ جیسے حکم ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں پر ایمان لانا۔صوفی یہ کہے گا دین مجھے یہ سمجھ میںآیا ہے کہ دین بھی حضور پاک پر نثار ہے۔یہ بات حضور پاک Aسے محبت کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتی اور اگر محبت نہ ہو تو یہ کہنا جرم ہے اور منع ہے….اور یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ حضور پاک کی ہستی واحد ہستی ہے اس کائنات میں‘ آج تک جس پر نعت کہی جار ہی ہے۔دیکھنے والوں نے کیا کہا‘ دیکھے بغیر والوں نے کیا کہا اور ان کے نعت کے انداز میں غور سے بیٹھنے والا شاعر یہ نہیں کہے گاکہ بغیر آنسوﺅں کے نعت ہوئی۔گویا آج تک ان کی توجہ رائج چلی آ رہی ہے۔
ادبِ لطیف: غیر مسلموں نے بھی عقیدت کے ساتھ نعتیں کہی ہیں۔
حضرت واصف علی واصف ؒ: جی ہاں غیر مسلموں نے آنسوﺅں کے ساتھ نعت لکھی ہے۔یہ ایک واقعہ ہے جسے آپ یوں کہہ سکتے ہیںکہ وہ نگاہ ‘آج بھی اپنے اسی انداز سے کام کر رہی ہے جس انداز سے آپکی محفل میںموجود رہنے والوں کے لئے کارگر تھی۔ایک شعر شاید اس کیفیت کو زیادہ واضح کر دے۔۔۔
اُس نظر میں فاصلے صدیوں کے بھی حائل نہیں
اپنے درویشوں سے وہ ہر دور میںآ کر ملے
آپ کے بعد‘ آپ کے جانشینوں میں جہاںشریعت ظاہری ضرورت میں
چلی گئی‘ اہلِ باطن ان راستوں سے گزرے جن راستوں سے کوئی گزر ہی نہیں سکتا تھا‘ ابتلاءکا راستہ‘ کربلا کا راستہ‘ خاموشی کا راستہ‘بعض اوقات بے شمار دقتوں کا راستہ۔
اہلِ دل اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں ظاہراً شریعت والے نہیںپہنچ سکتے۔آپ یوں کہہ لیں کہ عام آدمی اپنا حق مانگے گا اور جو صاحبِ تصوف ہے وہ اپنا حق بھی دے دے گا۔یہی لوگ ہیںجن کے دم سے اسلام کے اندر رونق اور چراغاں ہے۔رسول پاک کو صوفی کہنے کا معاملہ….تو پیغمبر کو پیغمبر ہی کہو۔رسول کو رسول ہی کہو۔ان کو آپ دوسرا نام نہ دیں بلکہ کسی صوفی کو بھی صوفی نہ کہو۔کسی انسان کو انسان کہو۔دل والے کو دل والا کہو۔تصوف کا کسی شعبے کے طور پر جائزہ نہ لو۔
اب یہ بات کہ گزشتہ کچھ عرصے سے تصوف کی طرف زیادہ رجحان ہے اور شاید اسی حوالہ سے نعت زیادہ لکھی جا رہی ہے۔نعت اگر ضرورت بن جائے‘ سیاسی ضرورت بن جائے تو یہ بھی فائدہ نہیں لائے گی۔ممکن ہے کچھ لوگوں کے لئے یہ سیاسی ضرورت ہو اور اگر یہ محبت کے طور پر ہو رہی ہے تو مبارک ہو۔اصل بات یہ ہے کہ تصوف سمجھو‘اللہ کریم کی عنایت سمجھو‘حضور پاک A کی محبت سمجھو‘ اپنی صداقت سمجھو یااچانک اپنی روحانیت سمجھو کہ اس ملک کے لئے ضرور خوش خبری کا موقع ہے اور یہاں اہلِ دل حضرات ضرور اپنا پارٹ پلے کریں گے۔
ادبِ لطیف:یہ آپ نے تصوف کے جتنے سلسلے بھی بتائے‘ چشتی‘ قادری‘ سہروردی ۔۔۔ان سب کا سلسلہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔ایک سلسلہ صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہے۔اس میں کیا کوئی خاص وجہ ہے کہ باقی تمام سلسلے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رجوع کرتے ہیں اور صرف ایک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔
حضرت واصف علی واصف ؒ:
انسانوں کے اندر مزاج کا فرق ہے اور دین پر کاربند ہونے کے لئے یعنی زندگی بذاتِ خود ایک آزمائش ہے۔اوپر سے دین کے فرائض لگے ہوئے ہیں۔انسان تو بے چارہ پریشان ہو جائے گا۔انسان کا جو مزاج ہے‘ طریقت اس کے مطابق چلتی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سلسلہ ملا ہے یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جا ملتا ہے اور آخر میں حضور پاک سے جا ملتا ہے۔ بات ساری حضور پاک Aکی اہمیت کی ہے۔کوئی سلسلہ زیادہ چلا اور ان کے زیادہ لوگ اس برصغیر میں آ گئے۔کچھ لوگ ادھر چلے گئے۔اس لئے تقریباً سارے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے سلسلے چلے ہیں۔ہمارے برصغیر میں یہ حوالہ زیادہ ہے۔ہمارے ہاں جو نقشبندی سلسلہ ہے وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہے۔مجدّد صاحبؒ نے بڑی عطا کی ہے‘بڑی توجہ لوگوں کی ادھر کرائی ہے۔انہوں نے عبادت کے سلسلے میں تاکید کی ہے‘ پابندی لگائی ہے تا کہ دینِ الٰہی جیسے واقعات ظہور پذیر نہ ہوں۔اگر لوگ قوالی کو ہی دین بنا لیں تو عزیز میاں جیسے لوگ آ جائیں گے۔داتا صاحبؒ کا عرس ہو تو وہاں حضرت داتا صاحبؒ کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔اس سے بچنے کے لئے کہا گیا کہ دین پر پورے کاربند ہو جاﺅ۔
سہیل عمر: گفتگو کے آغاز میں جو آپ نے فرمایا تھا مختلف سلاسل کے اپنے اپنے رنگ ڈھنگ ہونے کا….تصوف کی تاریخ کے حوالے سے۔تصوف کا جو صدیوں میں سفر ہے اس سے کیا ہم اس طرح سوچ سکتے ہیں کہ اس سکیم کے پیچھے ایک طرح کی ڈیوائن جیومیٹری کام کر رہی ہے جو مختلف انداز‘ نسل‘ مزاج یا جغرافیائی ضرورتوں سے زیادہ مطابقت رکھنے والے سلسلوں کی پٹیاں سی مقرر کر دیں کہ اس سے باہر وہ بڑھا ہی نہیں۔
حضرت واصف علی واصف ؒ:
بالکل….بلکہ یہ تو ثبوت ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ جب تشریف لائے تو آپؒ نے وہاں کے لوگوں سے محبت ہی شروع کر دی۔لوگ جب آپؒ کے قریب آئے تو حضرتؒ کا حسن و جمال تھا‘ آپؒ کا خیال تھا‘ بات کرنے کا انداز تھا۔لوگ متاثر ہو کر کلمہ پڑھنے لگے‘مسلمان ہو گئے۔کچھ دنوں کے بعد آپؒ کو پتہ چلا کہ لوگ کلمہ پڑھ گئے ہیں اور رات کو پھر مندر جاتے ہیں۔آپؒ نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے‘ اِدھر کلمہ پڑھتا ہے‘ اُدھر مندر میں جاتاہے۔اس نے کہا سرکار‘بھجن سے پرانی محبت ہے‘ یہ ہم سے نہیں چھوٹتی۔حضرت ؒنے کہا‘ اس کا بھی انتظام کرواتا ہوں۔آپؒ نے یہ شروع کرا دیا۔
تورے چرن لاگی‘ اب کت جاﺅں
خواجہ گریب نواج
گویا یہ اس وقت کی ضرورت تھی….میں کہتا ہوں دین جہاں Degenerateہوتا ہے‘ وہاں روکنا چاہئے تھا۔وہاں نہیں روکا مگر خواجہ صاحبؒ کی موجودگی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوالی دینی فعل ہے۔خواجہ صاحبؒ جیسا کوئی بندہ نہ ہو تو قوالی دین کے علاوہ ہے۔اسی طرح خانقاہیں ہیں‘وہاں سجادہ نشیں بیٹھے ہوں گے۔آپ ان کے پاس جائیں۔ انہیں کہیں کہ اس وقت یہ ملکی ضرورت ہے‘ حالات کی ضرورت ہے۔وہ آپ کو یہ جواب دیں گے ‘یہ ہمارے بزرگ کی بیٹھک ہے‘ یہ ان کی چلّہ گاہ ہے‘ یہ ان کا لنگر خانہ ہے‘ یہاں قوالی ہوتی تھی‘ ہم وہیں کرواتے ہیں۔سارا کچھ وہی ہے ‘ہم نے تو سب کچھ قائم رکھا ہو اہے۔وہ اپنے زمانے میں قائم رکھے ہوئے تھے‘ یہ اپنے زمانے میں اسے قائم رکھے ہوئے ہیں۔تبھی تو لوگ بیزار ہو کر آ جاتے ہیں۔مطلب تو یہ ہے کہ اس چیز کو موجودہ دور پر اپلائی(apply) کرناہے۔تصوف میں Application(اطلاق) زیادہ ہے جیسے سہیل عمر صاحب نے کہا تھا‘ وقتی طور پر جغرافیائی حالات اور تاریخی حالات‘ وہاں کے عوامل کے ساتھ تصوف زندگی کی طرح ہر چیز میں شامل ہو جاتا ہے۔یہ کوئی آرڈر نہیں کرتا بلکہ وابستہ ہو جاتا ہے۔
ادبِ لطیف:سہیل عمر صاحب!آپ اس سلسلے میں کوئی سوال کریں گے؟
سہیل عمر:واصف صاحب نے ابتدا میں تصوف کی تعریف کے حوالے سے کہا تھا کہ
تصوف اپنا Basic Data (اساسی مواد) وہی دیتا ہے جو شریعت کا ہے۔البتہ اس میں اس کی نظر‘ اس کی گہرائی ذرا مختلف ہوتی ہے۔دین کے جس طرح دو پہلو ہیں‘تعلیم و تعلم اور دوسرا تصرف‘ محنت‘ توجہ کا۔ایک آدمی جس طرح ظواہرِ دین سیکھتا ہے اسی طرح اس کی حقیقت بھی سیکھتا ہے۔اگر وہ ظاہرمیں نماز سیکھتا ہے تو حقیقت میں نماز بھی کسی سے سیکھنے جائے گا۔ایک حکم ہوا۔ایک Corresponding (مطابقت میں) کیفیت ہوئی محبت کی….تو جس طرح ہم کسی فوارے کے پاس کھڑے ہوں تو خود بخود پھوار مل جاتی ہے اور جب صدیوں کے صحرامیں سے زندگی کا سفر گزرے تو پھر وہی نمی‘ فوارے سے دور ہونے کے سبب ان چھاگلوں میںرہ جاتی ہے جو انسان کے سینے میں ہوتی ہے۔اب یہاں سے میں اس ابتدائی سوال کی طرف آنا چاہتا ہوں جہاں سے ”ادبِ لطیف“ نے گفتگو کا آغاز کیا تھا کہ پچھلے بیس برسوں میں اس نمی کی تلاش کے لئے کچھ دلچسپی‘ کچھ فروغ زیادہ ہو رہا ہے تو کیوں ….؟لوگوں کو اپنے کئے….کا احساس زیادہ ہونے لگا ہے….کیوں؟
حضرت واصف علی واصف ؒ:
اب آپ اصل کی طرف آ جائیں۔تصوف آخر کیوں….؟کوئی چیز تو ایسی ہے جو اس کے بغیر حل نہیں ہوتی۔چھوٹی سے بات ہے‘دو شخص بیک وقت یکساں طور پر نماز پڑھنے والے‘ دین میں چلنے والے‘ حج کرنے والے‘ ساری عمر اکٹھا رہنے والے….عین ممکن ہے ان میںسے ایک مسلمان ہو اور دوسرا منافق….منافقت جو کہ دین کے عمل میں شامل ہوتی ہے۔منافقت کو سماج سے نکالنے کا واحد طریقہ تصوف ہے اور چونکہ ہم منافقت سے Oppressed(مغلوب) ہو گئے ہیں لہٰذا اس کا تصوف کے بغیر کوئی چارہ نہیں‘کوئی راستہ نہیں‘ تولوگ ادھر چل پڑے‘آستانے کی طرف لوگ چل پڑے‘یہ جانتے ہوئے کہ اس کے پیچھے ایک بات ہے یعنی اپنے اندر صداقت پیدا ہونی شروع ہو گئی۔تصوف ہی ایسا مقام ہے جہاں ہم منافقت کو ختم کر سکتے ہیں اور کوئی طریقہ ہی نہیں۔کیونکہ منا فقت وہی عمل کرے گی جو دین والا کر رہا ہے۔تصوف جو ہے‘ اصلاحِ نیت ہے اور منافقت سے بچنے کا طریقہ بھی ہے۔
اشفاق احمد: ویسے بھی تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک عجیب تضاد ہے‘ وہ جو آستانے تھے وہ بڑے گڑھ بن گئے منافقت کے۔میں خدا نخواستہ کسی شخصیت پر حملہ نہیں کر رہا۔
حضرت واصف علی واصفؒ :
جی ہاں شخصیت کی بات نہیں۔
اشفاق احمد: وہ پھر منافقت کی طرف لوٹ گئے اور وہاں صرف منافقت پھوٹتی رہی۔
حضرت واصف علی واصف ؒ:
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس طرح نبوّت موروثی نہیں ہوتی‘ اسی طرح تصوف بھی وراثت نہیںہے۔آستانوں کے اندر صادق مشائخ کرام نے کسی نہ کسی طور
پر اپنے جانشین مقرر کر دیئے۔سجادگان اور خلفاءبھی آ گئے۔خواجہ معین الدین چشتیؒ کا جہاںذکر آئے گا‘ بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا عثمان ہارونی ؒآپؒ کے مرشد ہیں۔یعنی مرشد اتنا نمایاں نہیں ہوا جتنا مرید ہو گیا۔داتا صاحبؒ کے مرشد کا کسی کو پتہ نہیں اور آپؒ اتنے اہم ہیں۔سجادے کا مقرر کرنا یا خلیفے کا مقرر کرنا اس صفت کے بغیر‘ جو ان کے پاس تھی۔لہٰذا نتیجہ کیا نکلا؟
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
آستانہ بنانا‘خانقاہ کے طور پر چلانا‘ یہ نظام اس طرح نہیں ہونا چاہئے۔ خانقاہی نظام اس طرح نہیں چلنا چاہئے۔داتا صاحبؒ واحد فقیر ہیںجنہوں نے خانقاہی نظام میں Contribute نہیں کیا۔انہوں نے کوئی خلیفہ مقرر نہیں فرمایا تھا۔بعد میں خانقاہ بن گئی ہو تو یہ دوسری بات ہے۔
ادبِ لطیف: سہیل عمر صاحب !آپ سے ایک سوال….ابھی کچھ دیر پہلے شاہین صاحبہ نے بھی رہبانیت کا ذکر کیا تھا۔ہمارے ہاں عام طور پر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ تصوف بھی ترکِ دنیا ہے۔اب کی صورتِ حال کا تو اندازہ نہیں‘اب سے کچھ برس پیشتر اشفاق احمد صاحب نے کچھ ٹی وی ڈرامے لکھے تھے ‘جن میں انہوں نے بھی اپنے ڈرامے کے ہیرو کو یوں دکھایا تھا کہ جب وہ سب طرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو آ کر پیر کے ڈیرے پر بیٹھ جاتا ہے۔یعنی جدوجہد ختم اور سوچ لیا کہ جو کچھ ملنا ہے‘ اب یہیں سے ملنا ہے۔تصوف میں رہبانیت سے ملتا جلتا جو تصوف ہے‘ آپ اس کے متعلق کچھ گفتگو کریں گے؟
سہیل عمر: اصولاً تو یہ سوال اشفاق احمد صاحب ہی سے ہونا چاہئے تھا کہ انہوں نے
اپنے جس کردار کو اس روپ میں پیش کیا‘ اس کا پس منظر کیا تھا اور ان کا کیا تجربہ یا کیا تصور تھا؟….باقی یہ سوال….بہت پیچیدہ ہے۔اس میںشخصی رجحانات‘ طبیعتیں ہیں۔ بہت سارے لوگ جنہیں کوئی مایوسی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی تصوف کو اپنا لیں گے۔اور کسی حد تک یہ بھی درست ہے‘ وہ مایوس ہو کر ادھر کا رخ کرتے ہیں اور یہ وہ دلیل ہے جو Orientalistsآغاز سے اب تک تصوف کے وجود کے بارے میں پیش کرتے رہے ہیں۔زمانے کی ٹوٹ پھوٹ ‘سماجی حالات اور اس سے مایوسی وغیرہ وغیرہ۔
اپنے ذاتی تجربے اور مطالعے کے تحت میںتو کسی طرح اس کی تائید نہیںکر سکتا۔یہ بنیادی کشش کی وجہ ہے جو جاتی ہے تصوف کی جانب۔یہ کسی کا شخصی تجربہ تو ہو سکتا ہے‘ اصول نہیں بنایا جا سکتا۔اور یہاں سے میں سوال واصف صاحب کی خدمت میں لوٹانا چاہوں گا کہ ان کی گفتگو میں سے ایک سوال ضمناً یہ ابھرتا ہے‘ جہاں خواجہ معین الدین چشتیؒ کے بارے میںانہوں نے فرمایا کہ ایک وسیلے کو خواجہ صاحبؒ نے وقت کی ضرورت کے پیش نظر اختیار کیا اور جب وہ ہٹ گئے‘ ضرورت ہٹ گئی تو وہ وسیلہ ایک کھوکھلی تکرار بن گیا۔اور تاریخ میں ایسی چیزیں چلی آ رہی تھیں۔وہ فیصلہ کن حدِ فاصل ہم کیسے کریںگے؟….یا انسانوں کو وہ درجہ یا مقام دینے کا کس طرح فیصلہ کریںگے کہ جو سوانگ اور خول ‘وقتی ضرورت اور عقلی ضرورت‘ اصل اور فرع کے درمیان فرق کرے؟
حضرت واصف علی واصف ؒ:
اس فرق کوبیان کرنے والا یا اس کی پہچان دینے والا….اس کو صاحبِ حال صوفی کہتے ہیں۔یہ واقعہ چلتا آتا ہے۔جہاں رکاوٹ آ گئی‘ وہاں ایک اہلِ تصوف آ گیا جو وضاحت کرتا ہے۔اس طرح دین محفوظ ہوتا رہتا ہے۔اگر خالی تقلید رہ گئی تو تحقیق سے بات چلی گئی۔تحقیق بھی ہونی چاہئے۔تحقیق ایسی نہ ہو کہ محبت ختم ہو جائے اور تقلید ایسی نہ ہو
کہ تحقیق ختم ہو جائے۔اس لئے وہ آ کر بتلاتے رہتے ہیں۔یہ آپ تصوف والے بھی جانتے ہیں کہ خالی قوالی منشائے اسلام نہیں ہے۔اسی طرح خالی نعت کہنا بھی منشائے اسلام نہیں ہے۔یہی کچھ آپ کی اسلام پسندی کا ثبوت نہیں ہے۔بالکل اسی طرح خالی شریعت کا نافذ کر دینا بھی اسلام نہیں ہے۔اس کے ساتھ زندگی بھی نافذ ہونی چاہئے‘محبت بھی نافذہونی چاہئے‘ کچھ حقوق نافذ ہونے چاہئیں‘ کچھ اور آسانیاں بھی نافذ ہونی چاہئیں۔
سوال یہ ہے کہ حدِ فاصل کا فیصلہ کون کرے گا؟یہ فیصلہ کرنے والا ہی تو صاحبِ حال ہوتا ہے۔وہی تو وقت کا صوفی ہوتا ہے جو بتاتا ہے کہ سماج میں یہاں دراڑ آ گئی‘ یہاں ٹوٹ پھوٹ ہو گئی‘ اس چیز کو یہاں روک دیا جائے جیسے پرانے زمانے سے لوگ چلے آ رہے ہیںجو اپنے دور میں نشان دہی کر لیتے ہیں کہ یہاں سے یہ واقعہ گزر رہا ہے‘اسے یہاں سے لے کر نکل جاﺅ۔تو جو درویش وقت کی ڈیوٹی پر ہو گا وہ بتائے گا کہ اس کو ایسے کر لینا چاہئے۔وہی حدِ فاصل طے کرتا ہے۔
ادبِ لطیف:اشفاق صاحب‘ایک سوال کا گیند عمر صاحب نے آپ کی کورٹ میں پھینک دیا ہے کہ آپ کے ڈرامے کے ایک کردار کے حوالے سے ترکِ دنیا کا تصور ابھرتاہے۔
اشفاق احمد:میں ذاتی طور پر ترکِ دنیا کو برا نہیں سمجھتا ۔اگر کوئی کرسکے تو ….دنیا سے اتنے وابستہ رہنا جتنے کہ ہم ہیں یہ بھی کوئی خوبی کی بات نہیں۔چونکہ میں اس پر ایک لمبی سی تحریر لکھ رہا ہوں‘ اس لئے میں آپ کو کام کی باتیں تو نہیںبتا سکوں گا ورنہ میری تحریر پھسپھسی ہو جائے گی۔
ترکِ دنیا کا تاریخی طور پر خدا جانے یہ شوشہ کہاں سے آ گیا کہ یہ رہبانیت ہے۔ہمارا کام ‘تلوار لے کر لڑتے جانا اور بزنس کرتے جانا اور لوگوں کو ایکس پلائٹ (exploit) کرتے جانا‘ یہ بہت بڑی خوبی کی بات ہے۔دنیا کے ہر ذہن میں ‘چاہے وہ کتنا بھی پاکیزہ‘اچھا اور مفرح قسم کا کیوں نہ ہو‘ دنیا سے تعلق ہو تو اس میں استحصال کا عنصر ضرور آئے گا۔اس لئے آپ کی زندگیوں میں بھی جب کبھی صاحبِ حال‘ اہلِ دل اور اہلِ نظر لوگ آئیںگے اور اللہ آپ کو یہ صلاحیت دے گاکہ آپ انہیں غور سے دیکھ سکیں تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ یہ دنیا کے پیچھے بھاگنے والا آدمی نہیں۔دنیا کو پسند کرتا ہے‘ خوبصورت سمجھتا ہے اور وہ اس حوالے سے خوبصورت سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں اللہ نے اپنا قرآن نازل کیا‘اسی دنیا میں خدا نے پیغمبر بھیجے ‘اس سے خوبصورت تو کوئی کرّہ ہے ہی نہیں‘اسی لئے دنیا کو پسند کرتا ہے۔لیکن یہ کہ میں اس سے منفعت حاصل کروں اور جتنی آسانیاں ہیں وہ مجھے ہی ملتی جائیں‘یہ بات نہیں۔تو تارکِ دنیا ہونا ہرگز بالکل اتنا برا نہیں جتنا کہ مغرب سے لے کر مشرق کے فلسفیوں نے بتایا اور اگر میرا کوئی معمولی درجے کا کردار رہ جاتا ہے تو وہ اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ میںہوں‘ اللہ کی طرف سے ہوں اور اب میں اس مقام پر پہنچ چکا ہوں کہ میں تجویز کرنے سے عاری ہوں۔میں تجویز نہیں کروںگا اور میں بہت خوش ہوں گا کہ آج بہت زیادہ گرمی ہے تو یہ علیمِ مطلق کی عطا کردہ ہے‘سردی بھی اسی کی عطا کردہ ہے۔
باقی کھانا پینا‘ روٹی پانی‘ یہ تو اللہ دیتا ہی جاتا ہے۔لیکن اگر آپ یہ کہیں گے کہ یہ جو برانڈرتھ روڈ کے لوگ ہیں یہ بہت اچھے لوگ ہیں‘ تارک الدنیا کے مقابلے میں‘یا شاہ عالمی کے لوگ یا بہت زیادہ کوشش کرنے والے لوگ یا لاٹ صاحب کے دفتر کے لوگ ‘تو میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ان کے مقابلے میں تارک الدنیا بہت اچھا انسان بھی ہے اور بہت اعلیٰ پائے کا صوفی بھی۔
سہیل عمر: کیا اس ساری بحث سے جو لوگوں میں چلتی ہے‘ ترکِ دنیا اور حُبّ دنیا کی‘ کیااس کے پیچھے آج کل ایک کنفیوژن یہ نہیں کہ ترکِ دنیا کرنے والا‘جس معنی میں بھی وہ کر رہا ہے‘ جو عمل اس کا ہے ‘ اسے دوسرے حضرات عمل نہیں سمجھ رہے؟وہ ان کے خیال میں عمل نہیں۔کیا یہ کنفیوژن اس کے پیچھے ہے؟
اشفاق احمد:سو فی صد….بالکل سو فی صد۔
شاہین رامے:ترکِ دنیا کے سلسلے میں اشفاق صاحب سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ترکِ دنیا کا اگر ہم یہ مطلب لیں کہ دنیا چھوڑ کر جنگلوں کو نکل جانا ‘بلکہ آرام کی جو خواہش ہے یا جو اپنی خواہشات ….زندہ رہنے کے علاوہ…. ہیں ان کو کسی طرح سے دبانا….جیسے واصف صاحب اکثر فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم A کی جو طرزِ زندگی تھی‘ وہ اس زمانے کے غریب ترین انسان سے بھی نیچی تھی۔انکا رتبہ تو جو ہے وہ سب کے سامنے ہے۔تو کیا یہ بھی ترکِ دنیا ہے؟ میں تو سمجھتی ہوں کہ ترکِ دنیا کرنے والا وہ ہے جس نے خواہش‘ خواب اور خیال کو ترک کر دیا ہو اور پھر بھی وقت کی نبض پر اس کا ہاتھ ہو یا کوئی شخص جو کچھ بھی کرے‘وہ اپنے لئے نہ کرے بلکہ دوسروں کو منفعت پہنچانے یا فیض پہنچانے کے لئے کرے۔
اشفاق احمد:لیکن وہی شخص اگر جنگل میںچلا جائے اور لوگوںسے بالکل نہ ملے اور لوگوں کے لئے دعا کرے تو آپ تو اسے راہب کہیں گے‘ تارک الدنیا کہیں گے۔میں اسے ہر گز تارک الدنیا نہیں کہتا جو لاکھوں لوگوں کے لئے بیٹھا دعا کر رہا ہے۔
سہیل عمر:یہیں سے پھر میری بات سامنے آتی ہے کہ جو کام وہ کر رہا ہے اس کی اہمیت ہے بلکہ کیا چند ایسے لوگ نہیں ہونے چاہئیں؟
حضرت واصف علی واصفؒ :
جو شخص جنگل میں جار ہا ہے اور صاحبِ حال ہے‘ کچھ عرصے کے بعد اس کے پاس بھی میلہ لگنا شروع ہو جائے گا اور کچھ عرصہ بعد وہاں بھی خانقاہ بن جائے گی۔تارک الدنیا سے مراد یہ ہے ‘ میرے خیال میں کہ وہ انسان طالبِ دنیا نہ ہو‘ مال کی محبت میں مبتلا نہ ہو اور آسائشِ وجود میں مبتلا نہ ہو‘ دنیا میں رہ کر بھی وہ تارک الدنیا ہو گیا ہو۔اگر ہم Define کریں (واضح کریں) کہ تصوف کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دوسرے انسانوں کے لئے بے ضرر ہو جانا اور اس کا پھر لوگوں کے لئے منفعت بخش ہو جانا….تو لوگوں کے لئے ہی جب ایسا کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ شخص تارکِ دنیا ہو ہی نہیں سکتا‘ ممکن ہی نہیں۔نہ سوچ الگ ہو سکتی ہے‘ نہ وجود الگ ہو سکتا ہے‘ نہ ہمارا غم الگ ہو سکتاہے‘ نہ خوشی الگ ہو سکتی ہے۔نظرہماری….نظارہ ہمارا….تارک الدنیا کیسے ہو گیا؟….تو ہماری ساری ٹریننگ اسی دنیا کے اندر ہے۔تارک الدنیا تو ناممکنات کا نام ہے۔
اشفاق احمد:جو شخص بہت بڑا استحصال پسند ہے وہ تارکِ دنیا کہلا سکتا ہے۔جو بلیک مارکیٹنگ کرتا ہے‘ جو رشوت خور ہے‘ جو ظالم ہے وہ تارک الدنیا ہے۔اگر کوئی شخص دنیا کو گزند پہنچانے کے خوف سے گریز کر کے چھپ کے بیٹھا….ابھی منزل پر نہیں پہنچاتو میں سمجھتا ہوں اس سے بڑا نیک اور با عمل کوئی نہیں۔
حضرت واصف علی واصفؒ :
داتا صاحبؒ ایک جگہ فرماتے ہیں وہ شرابی جو شراب خانے میں لوگوں کے لئے بے ضرر ہو چکا ہے ‘ وہ اس عالمِ دین سے بہت بہتر ہے جو مسندِ رسالت پر کھڑا ہو کر
طالبِ دنیا ہے۔
اشفاق احمد:واہ! بڑوں کی بڑی بات ہے۔
ادبِ لطیف:اگر کوئی اور سوال نہ ہو تو ہمارا خیال ہے‘ اسی دوٹوک‘ کھرے اور واضح استدلال کے بعد آج کی گفتگو کا اختتام کیا جائے۔
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

بہت خوبصورت باتئیں ہیں میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔آپ کے اس اقتباس پر کوئی تبصرہ کرنا سورج کو چراغ دیکھانے کے برابر ہے
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
rohaani_babaa
دوست
Posts: 220
Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
جنس:: مرد
Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by rohaani_babaa »

حضور والہ یہ اکتساب بھی ہے یعنی اگر کوئی کسب فیض کرنا چاہے تو میدان کھلا ہے۔
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

شفاق احمد زاویہ 3 ناشکری کا عارضہ صفحہ 15

ہم سارے موسموں سے اس لیے پیار کرنا شروع کر دیں کہ گرمی سے گندم پکتی ہے ۔

چونسا اور لنگڑا پک کر آتا ہے ۔

یہ کس قدر مہربان موسم ہے ۔

سردی میں مونگ پھلی کے نظارے ہیں ۔

بادام، چلغوزہ تیار ہوگا ۔

بارش برسے گی تو دریاؤں ، نہروں میں پانی آئے گا ۔

کھیت سر سبز ہوں گے خوشحالی آئے گی ۔

کہیں کہ خزاں کتنی اچھی ہے بہار کی نوید لاتی ہے ۔

ہم بجائے کسی بات کو نیگیٹو لینے کے پازیٹو لینا شروع کر دیں ۔

اور آدھے خالی دریا کو آدھا بھرا دریا کہنا شروع کر دیں تو جو بہتری ممکن ہے وہ ہمارے کئی منصوبوں اور اسکیموں سے بھی نا ممکن ہے ۔
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by چاند بابو »

بہت خوب ذرہِ بے نشاں صاحب.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
میاں محمد اشفاق
منتظم سوشل میڈیا
منتظم سوشل میڈیا
Posts: 6107
Joined: Thu Feb 09, 2012 6:26 pm
جنس:: مرد
Location: السعودیہ عربیہ
Contact:

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by میاں محمد اشفاق »

بہت خوب شئیر کرنے کا شکریہ
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
اے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

اصلاح نفس کے چار اصول ہیں

1 "مشارطہ" اپنےنفس کیساتھ"شرط" لگانا کہ"گناہ" نہیں کروں گا
2 " مراقبہ" کہ آیا"گناہ" تونہیں کیا
3"محاسبہ" کہ اپناحساب کرےکہ کتنے "گناہ"کیے اور کتنی "نیکیاں" کیں
4"مواخذه" کہ"نفس" نےدن میں جو "نافرمانیاں" کیں ہیں اسکو انکی"سزا"دینا وہ سزا یہ ہے کہ اسپر"عبادت" کا "بوجھ" ڈالے:

{امام غزالی رح}
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب سے اقتباس


جنوری 2002 کو ملا عبدالسلام ضعیف کو اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا۔ سیاہ رنگت والے ایک بھاری بھرکم فوجی افسر نے ضعیف سے کہا کہ امریکہ ایک بہت بڑی طاقت ہے، کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔ امریکہ کو پوچھ گچھ کیلئے آپ کی ضرورت ہے لہٰذا آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ ضعیف نے اس سیاہ رنگ شخص سے بحث شروع کردی لیکن اس ”فہیم“ شخص سے بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ضعیف کو گرفتار کرکے پشاور لے جایا گیا۔...
تین دن کے بعد انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایئرپورٹ لے جایا گیا جہاں ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑا تھا۔ پاکستانی حکام نے اپنے قیدی کو جیسے ہی امریکیوں کے حوالے کیا تو انہوں نے ملا عبدالسلام ضعیف پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی۔ پھر چاقوؤں سے اس باریش قیدی کے تمام کپڑے پھاڑ دیئے گئے اور زمین پر الٹا لٹا کر مارا گیا۔ تشدد کے دوران ضعیف کی آنکھوں پر بندھی پٹی اتر گئی تو انہیں نظر آیا کہ ایک طرف قطار میں پاکستانی فوجی اور ان کی گاڑیاں کھڑی تھیں اور دوسری طرف امریکی انہیں بے لباس کرکے مار رہے تھے۔

ضعیف لکھتے ہیں کہ ”ان لمحات کو میں قبر تک نہیں بھول سکوں گا...۔“
پشاور سے بگرام لے جاکر ملا عبدالسلام ضعیف کو بغیر کپڑوں کے برف پر پھینک دیا گیا اور امریکہ کی فوجی خواتین ایک بے لباس مسلمان کے سامنے کھڑے ہو کر تین گھنٹے تک گانے گاتی رہیں۔ بگرام میں کئی دن کی مار پیٹ کے بعد ضعیف کو قندھار بھجوایا گیا۔ قندھار میں ایک دفعہ پھرضعیف اور دیگر قیدیوں کو ننگا کرکے سب کی تصاویر لی گئیں۔ایک دن قندھار جیل میں ضعیف نماز فجر کی امامت کروا رہے تھے جیسے ہی وہ سجدے میں گئے تو ایک امریکی فوجی ان کے سر پر بیٹھ گیا۔ یہ نماز ضعیف کو دوبارہ پڑھنی پڑی۔ اپنی کتاب میں ملا عبدالسلام ضعیف لکھتے ہیں کہ امریکیوں کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ ہم ہر قسم کا تشدد برداشت کرلیتے ہیں لیکن قرآن مجید کی توہین برداشت نہیں کرتے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ قندھار جیل میں امریکی فوجی (نعوذباللہ) قرآن مجید پر پیشاب کرکے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے تھے اور قیدی یہ منظر دیکھ کر روتے تھے۔ آخر کار قیدیوں نے اپنے تمام قرآن اکٹھے کرکے ہلال احمر کو دے دیئے تاکہ ان کی توہین نہ ہو۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ قندھار جیل سے انہیں گوانتا ناموبے جیل منتقل کیا گیا اور بد قسمتی سے یہاں بھی قرآن مجید کی توہین کا سلسلہ جاری رہا۔ اس امریکی جیل میں ساڑھے تین سالہ قید کے دوران کم از کم دس مرتبہ قرآن مجید کی توہین ہوئی۔ ضعیف کے بقول ”امریکی قرآن کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ تم ہمارے غلام اور تمہارا دین و قرآن ہمارے لئے قابل احترام نہیں۔“
گوانتا ناموبے جیل میں امریکی فوجیوں کے ظلم و زیادتی کے خلاف ملا عبدالسلام ضعیف نے کئی مرتبہ بھوک ہڑتالیں کیں۔ ایک سے زائد مرتبہ کرزئی حکومت کے نمائندے انہیں ملنے جیل آئے اور مشروط رہائی کی پیشکش کی، ضعیف انکار کرتے رہے۔


ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب سے اقتباس
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: ذرہِ بے نشاں کے منتخب ۔۔۔۔۔۔۔اقتباسات

Post by Zarah-e-bey Nishan »

ایک نامی گرامی بادشاہ کی چہیتی بیٹی بیمار پڑی ۔ اس عہد کے بڑے اطباء اور صادق حکیموں سے اس کا علاج کروایا لیکن مرض بگڑتا گیا ۔
آخر میں وہاں کے سیانے کو کو بلا کر مریضہ کو دکھایا گیا اس نے مریضہ کے سرہانے بیٹھ کر لا اِلٰہ کا ورد شروع کر دیا ۔
طبیب اور حکیم اس کے اس فعل کو دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہا کہ محض الفاظ جسم پر کس طرح اثر انداز ہونگے ! تعجب !۔
اس صوفی نے چلا کر کہا "خاموش ! تم سب لوگ گدھے ہواور احمقوں کی سی بات کرتے ہو ۔ اس کا علاج ذکر ہی سے ہوگا"۔
اپنے لیے گدھے اور احمق کے الفاظ سن کر ان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ان کے جسموں کے اندر خون کا فشار بڑہ گیا۔ اور انہوں نے صوفی کے خلاف مکے تان لیے ۔
صوفی نے کہا " اگر گدھے کے لفظ نے تم کو چراغ پا کر دیا ہے اور تم سب کا بلڈ پریشر ایک دم ہائی ہو گیا ہے اور تم نے میرے خلاف مکے تان لیے ۔ تو کیا ذکر اللہ اس بیمار بچی کے وجود پر کوئی اثر نہیں کرے گا "۔
ان سب حکیموں نے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ۔
اگر عام زندگی میں دیکھا جائے تو اور دنیوی سطح پر اس حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو یقین کی طرف قدم بڑہے گا ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 438
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
Post Reply

Return to “باتوں سے خوشبو آئے”