حیوانوں کی بستی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ہال سے قدموں کی آواز آئ اور ہم دونوں خاموشی سےچاۓ پینے لگے۔ ریمشاں نے کمرے میں دا خل ہوکر مجھےسلام کیا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گی۔
میں اپنی کرسی سےاُٹھ کراس کےنزدیک والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
“ کیا میری بہن مجھ سے پیار نہیں کرتی”
“ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔ مگرمجھے پتہ ہے کہ آپ کیا کہیں گے”
“ کیا“۔ میں نےشرارتی لہجہ میں پوچھا۔
“ تم نے ہم سب کوڈرادیا۔ تم نے یہ بیوقوفانا حرکت کیوں کی؟ اپنےآپ کوخطرے میں کیوں ڈالا؟ تمہارا مقصد کیاتھا۔ جانتی ہوتم کیا کر رہی تھیں۔ اگرتم کو کچھ ہوجاتا۔۔۔ ” ریمشاں خاموش ہوگی۔
“ تم رات ٹھیک سے سوئیں۔ میں تو تم سےصرف یہ پوچھنے والا تھا”۔ میں نےاس کی گردن کو سہلاتے ہوۓ پیار سےکہا۔
“ جی بھائی جان”
“ اب تم نے بات کی ہے تو بتاو کیا تمہاری ماں نےساتھ ایساہوا تھا”۔
“ اس کو حسن نے5 ہزار روپے میں بیچ دیا تھا۔ اس کی انکھوں سےآنسوں کے دوقطرے نکل کرگالوں سے پھسلنے لگے
“ تم وہی سفر کرناچاہتی ہو جوتمہاری ماں سے زبردستی کروایا گیا۔ میں آج شام تم کواسی جگہ لےجاؤں گا جہاں عورتوں اور بچوں کی تجارت ہوتی ہے“ میں نے کہا۔
“ ہاں۔ میں ہر وہ چیز خود کرناچاہتی ہوں۔ جومیری ماں سے زبردستی کروائی گی”۔
“ یہاں سے ہمارا راستہ جدا ہوجاتا ہے۔ ”
“ وہ کیوں ابھی ابھی تو آپ نے کہا تھا۔۔۔ ”
میں نے ریمشاں کا جملہ کاٹ دیا” میں نے کہا تھا تم وہی سفر کرنا چاہتی ہو جو تمہاری ماں سے زبردست کروایا گیا۔ کیا میں نے کہا کہ خود ؟”
“ جی نہیں “۔
“ یہ سفر تم کو میری حفاظت میں کرنا گا۔ اور تم اس کو دیکھوگئ ، محسوس کروگی مگراس کا حصہ نہیں بنو گی۔ تم میری ننھی ہواور تم کو میری بات مانی پڑھےگی۔ اگر منظور ہے تو۔۔۔ ”۔
" منظور۔ میں نےسب کچھ کھودیا ہے۔ آپ ہی تو ایک رہ گۓ ہیں”۔
ریمشاں نے میری بات کاٹ دی اور اپنے بازو میری گردن میں ڈال کر اپنا سرمیرے کندہے پر رکھ دیا”۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
پشاور میں شام ہو رہی تھی۔ آفریدی نےگاڑی بڑا روڈ سےخیبر روڈ پرموڑی۔ میں نے ریمشاں کی طرف دیکھا۔ وہ اس لباس اور میک اپ میں ایک عام شکل صورت کا مرد لگ رہی تھی۔ سکینہ نےساری دوپہر اس کومرد بنانےمیں لگادی۔ ایک فلم میک اپ آرٹسٹ سےاس کا مردوں والا نیچرل میک اپ کروایا۔ اس کےبال لڑکوں کی طرح کٹواۓ اور رنگ کیا۔ اس کے جسم پر پیڈینگ لگائی تا کہ اس کا جسم مردوں سا لگے۔ یہ سب اس لیے کہ ہم عبدل عفار خان کی حویلی میں جارہے تھے۔ جہاں خریدار مرد ہوتے ہیں اور بچے بچیوں، لڑکے لڑکیوں اور عورتوں کا نیلام ہوتا ہے۔ اور اگر عبدل عفارخان کو یہ پتہ چل گیا کہ خریداروں میں ایک لڑکی بھی موجود تو ہمارا وہاں سے زندہ نکلنا مشکل ہوجاۓگا۔ سکینہ بہت فکر مند تھی۔ اس لیے آفریدی کےعلاوہ وہاں ہمارے کچھ دوسرے حفاطت کرنے والے بھی موجود ہونگے۔
اب ہم ائر پورٹ کے سامنے سےگزر رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں صاحب زاد گل روڈ آگیا۔ آفریدی نےگاڑی جمرود روڈ کی طرف موڑی۔
“ ہم اب بھی واپس لوٹ سکتے ہیں” ۔ میں نے ریمشاں سے کہا۔
“ نہیں“۔ ریمشاں نےسختی سے جواب دیا۔
“ تمہیں میری ہدایات یاد ہیں”۔ میں نے پوچھا۔
“ کسی بھی حالت میں بات نہ کرنا۔ کسی حا لت میں آنسونہ بہانا یا رونا۔ کسی صورت میں مجھ سے یا آفریدی سے ایک فٹ سے ذیادہ دور نہ جانا۔ کسی صورت میں مجھے یا آفریدی کو مت چھونا ”۔ ریمشاں نےطوطے کی طرح دوہرایا"۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]آفریدی نےگاڑی ایک پرائیوٹ روڈ پرموڑ دی۔ سڑک کے آخرمیں ایک عالیشان حویلی تھی۔ دوردور تک کوئ مکان یا حویلی نہیں تھی۔ دروازے پر دوگارڈ بندوقیں لیےکھڑے تھے ان میں سے ایک نےہم سے کاغذات طلب کیے۔ آفریدی نے ہم سب کے شناخی کاغذات گارڈ کےحوالے کردیے۔گارڈ نےانہیں اپنی لسٹ سے ملاکر دیکھا۔ اس نے کچھ وقت لیا اور میں نےاپنی پشانی پر پسینہ محسوس کیا۔گارڈ نے آفریدی کواندر جانے کا اشارہ کیا۔ دوسرےگارڈ نےگیٹ کھولا۔ ہماری گاڑی اندر چلی اور نےگارڈ نےہمارے پیچھےدروازہ بند کردیا۔ میں نے رومال سے اپنی پیشانی پر سے پسینہ صاف کیا۔ سڑک کےدونوں طرف درخت تھےاور تقربیا سوگز کے فاصلے پرحویلی تھی۔ محل کےدروازے پر پھر سے کاغذات دیکھے گے اور پھر ہم اندر داخل ہوۓ۔ ایک خوبصورت ہوسٹیس نےہمارا استقبال کا اور ہمیں ایک کمرے میں لےگی جہاں اندازً بیس یا پچیس میزیں لگی تھیں۔ ہوسٹیس نے ہمیں ایک ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جس پرصرف تین کرسیاں تھیں۔ ہم نے ریمشاں کو اپنے درمیان میں جگہ دی۔

کمرہ کی لمبای اور چوڑائ میں 25 سے 30 فٹ کے برابر لگ رہا تھا۔ کمرے کے بیچ میں اسٹیج تھا۔ میزوں اور کُرسیوں کو اسٹیج کےاردگرد اس طرح لگایا گیا تھا کہ ہرمہمان اسٹیج کو مکمل طور پر دیکھ سکے۔ ایک خوبصورت سی لڑکی ہماری میز پرآئ۔ اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کرایا۔
“ میرا نام شرین ہے۔ میں آپ کی ہوسٹیس ہوں”
“ آپ لوگ کچھ پینا پسند کریں گے؟”۔
میں نےتینوں کےلے ٹھنڈا سوڈا آرڈر کردیا۔
جب سب جگاہیں بھرگیں تو دروازے سے ایک عمر رسیدہ شخص داخل ہوا اور اسٹیج کےقریب بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں تسبی تھی۔ وہ تسبی پڑھ رہا تھا۔
آفریدی نےمیری طرف جھک کر کہا“۔ یہ عبدل غفارخان ہے”۔
اسٹیج کے پردے کے پیچھے سےایک صحت مند عورت اسٹیج پرآئ اوراس کےساتھ 20 تقریباً کم عمر بچے تھے جن کی عمریں10 سے 12 سال کےدرمیان ہونگی۔ بچے ایک قطار بنا کر کھڑے ہوگۓ۔ ان کےدونوں طرف گارڈ تھے۔ لڑکےخوف ذرہ اور گھبراۓ ہوۓ سے تھے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »


  • عورت نے قطار سے پہلے لڑکے کوسامنے آنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ ایک گارڈ نے اس کوذرا سا دھکادیا۔ لڑکا سہما سہما آگے بڑھا۔
    5 ہزار روپیہ ایک ، کمرے میں کئی ہاتھ اٹھے۔
    5 ہزار ایک سو، ایک ۔ہاتھوں کی تعداد کم ہوگئ۔
    5 ہزار ایک سو، دو ۔ تین ہاتھ اوپر رہ گئے۔
    5 ہزار دو سو، ایک۔ ایک ہاتھ اوپر رہ گئے
    5 ہزار دو سو، دو۔
    5 ہزار دو سو، تین ۔
    گارڈ نے بچے کی قمیض پرخریدار کی میز کا نمبرلکھ دیا۔
    سب سے بڑی بولی 5500 تک پہونچی
    ایک خریدار نے5 بچے ایک ساتھ خریدے۔
    آفریدی نے دھیرے سے کہا۔ یہ مشرق وسطی کاخریدار ہے۔
    اس طرح ایک کے بعد ایک بچوں کا نیلام ہوا۔
    اب کم عمر لڑکیوں کی باری تھی۔ 10 سے 12 سالہ خوف ذدہ لڑکیاں کمرے داخل ہوئیں۔ بولی 7000 ہزار پرشروع ہوئ۔ اور 15 منٹ میں تمام لڑکیاں بک چکی تھیں۔
    کمرے میں اب ایک ذیادہ عمر کی لڑکی داخل ہوئ اس کی عمر شاید 15 سے 16 سال ہوگی۔ بولی 8000 شروع ہوئی۔
    کسی نے کہا “ مال دیکھاؤ”۔ عورت نےلڑکی کو کرتہ اتارنے کو کہا۔ جب لڑکی نےحکم نہیں مانا۔ گارڈ نے اسکےہاتھ پکڑ لیےاور عورت نے قینچی سےاس کی قمیض کاٹ دی۔ لڑکی نے اپنی چھاتی کو ہاتھوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ قیمت اب 9000 تک پہونچ گئی۔
    اور دیکھاؤ۔گارڈ نے پھرہاتھ کو پیچھے کر کے پکڑ لیا۔ عورت نےبڑھ کر لڑکی کی شلوارگرادی۔ لڑکی نےایک ہاتھ سی چھاتی اور دوسرے سےسامناچھپا نے کی کوشش کی۔ وہ رو رہی تھی۔ عورت نےاس کو زبردستی موڑا اور اس کی گردن پکڑ کر اس کو کمر کے بل جھکا دیا۔
    “ کیا یہ کنواری ہے۔ ”
    “ ہاں “۔ عورت بولی۔
    10000 ایک۔۔۔
    10000 دو۔۔۔
    10000 تین
    میں نے ریمشاں کی طرف دیکھا۔ اس نےدھیرے سے کہا " بھیا میں اُلٹی کرنے والی ہوں”۔ میں نےفوراً اس کا ہاتھ ایک طرف سے پکڑا اورآفریدی نے دوسری طرف سےاور ہم ہوا کی طرح سےحویلی سے باہرتھے۔ ریمشاں نےحویلی کے باہر اُلٹی کردی۔
    “ کیا ہوا؟”۔ ایک گارڈ نے پوچھا۔
    ” میرے دوست کی طبیت خراب ہوگی۔ ہم لوگ اگلے ہفتہ آئیں گے”۔ آفریدی نےگارڈ سے کہا۔
    ریمشاں سارا راستہ اپنے ماں کا نام لے کر روتی رہی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
پانچویں قسط


لاہور [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]لاہور

ماں۔ میں ایک اندھیرے کمرے میں ہوں ، میرے ہاتھ پیچھے بندھے ہوۓ ہیں۔ میرا ایک پاؤں چار پائ کےسیدھی طرف اور دوسرا الٹی چارپائ سے بندھاہے میرے منہ پرٹیپ لگی ہے۔ مرد ایک کے بعد ایک آتےہیں۔ میں تکلیف سے چیغتی ہوں مگرمیری آواز منہ سے باہرنہیں نکل سکتی۔ ماں اتنا درد ہےاورمیں چلا بھی نہیں سکتی ماں [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • پُرانےلاہور کی چار دیواری کےاندرشمالی حصہ میں تین اور چارمنزلوں کی عمارتوں سے بنی ہوئ ایک بستی ہے جس کا نام شاہی محلہ ہے مگریہ جگہ ہیرا منڈی کےنام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کےایک زمانےمیں یہاں فنکار رہتےتھے۔ میں اور ریمشاں الفیصل ہوٹل کےریسٹورانٹ میں بیٹھےچائے پی رہے ہیں۔ یہاں کھانےمیں دال، سبزی، دبنہ اور بکری کا سالن اور روٹی ملتی ہے۔ کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ یہ جگہ روشنی گیٹ کےقریب ہے۔ سڑک پر ٹھیلے والےگنے کا رس بیچ رہے ہیں۔ کچھ ٹھیلوں میں آموں سے بھری ہوئ بالٹیاں ہیں۔ ریسٹورانٹ میں عورتوں کےبیٹھنے کی جگہ کےاردگرد پردہ ہے - الفیصل ہوٹل فورٹ روڈ پرواقع ہے۔ فورٹ روڈ مسجد سےگزرتا ہوا روشنی گیٹ پرختم ہوتا ہے یہاں سےاندرونی شہر کےلوگ حضوری باغ میں داخل ہوتے ہیں پھروہ بادشاہی مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں یا عالمگیر دروازے کےذریعےقعلہ میں جاسکتے ہیں۔ یہاں سےفورٹ روڈ قعلہ کی دیوار کےساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہاں پر رکشہ، موٹراور بائسیکل کوٹھیک کرنےوالوں کی دوکانیں ہیں۔ حجام فٹ پاتھ پربیھٹے لوگوں کے بال کاٹ رہے ہیں۔چوک کےدوسری طرف شرفاء کا محلہ شروع ہوجاتاہے۔
    ہم یہاں چار دن سے ہيں۔ دن میں ہم لاہور کےمختلف سیرگاہوں میں گھوتےہیں اورشام، ہیرا منڈی میں گرازتے ہيں۔ ریمشاں ہمشہ برقعے میں ہوتی ہے تاکہ لوگ اس کی طرف توجہ نہ دیں اور ہم اندرونی علاقہ میں نہیں جاتے۔ ہر روز کی طرح آج بھی آفریدی تحقیق کرنےچلا گیا۔ وہ ہرروز گلیوں میں گھومتا ہے اور کنجریوں سےگفتگو کرتا ہے۔ اس کا مقصدایسی طوائف کو تلاش کرنا ہے جو پندرہ ، بیس سال پہلےیہاں کام کرتی تھی –
    پاکستان میں عورت اورمرد کا بغیرشادی کےہم بستری کرنا قانونی طور پرجرم ہے۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی ہے ہیرا منڈی جوکہ دن میں ایک عام تجارت کا بازار ہے اب جسموں کی تجارت کا بازار بن جاتا ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ایک زمانہ تھا کہ چکلہ نےبہت فروغ پایا۔ اس وقت چکلوں میں خوبصورت عورتوں گاہک سےہم بستری کم کرتی تھیں انکے ساتھ بیٹھ کران سے ادب، شاعری اور فنون لطیفہ پرباتیں ذیادہ کرتی تھیں ، اس کےعلاوہ مجرا یا ناچ کرنےوالی عورتیں امیروں کا دل ناچ کرلبہا تی تھیں ۔ طوائف کوٹھا اس زمانے میں زی عزت جگہ سمجھی جاتی تھی جہاں پرامراء ، تعلیم یافتہ اور شریف خاندان کےلوگ اور روشن خیال طبقہ اپنے لڑ کوں کلاسیکل موسیقی ، اردو شاعری آداب اور تہذیب سیکھنے بھیجتا تھا۔ ان کوٹھوں میں سے کچھ پر مصنف ، موسیقار اور ادیب تخلیقی خیالات کے لیے جمع ہوتےتھے۔ یہ ایک لذائذ نفسانی اور خوشیوں کی دنیا تھی۔ ان جگہوں کی طوائفیں مال دار، با رسوق اور اعلي عہدے کے لوگوں کی معاشوقہ بن جاتی تھیں۔ یہ طوائفیں اعلی درجہ کی طوائفیں کہلاتی تھیں۔ ان کے نیچے کی دوسرے درجہ کی طوائفیں تھیں جن کی کیفالت کرنے والے ملازم پیشہ اور کم مال دار لوگ تھے۔سب سے نیچلا درجہ ان طوائفوں کا تھا جن کی کمائی کا ذریعہ جسم بیچنے پر محدود تھا۔ آج کا ہیرا منڈی صرف جسموں کی تجارت ہے۔
پردے کے پیچھےسے کسی نے کھانس کر کہا"۔ میں عدنان ہوں صاب"
عدنان ہمارا ہیرا منڈی کا گائیڈ تھا۔ اصل میں عدنان ایک بھڑوا ہے جو رنڈیوں کے لےگاہک لاتا ہے۔ " صاب ۔ میں نے ایک پرانی مائی کو تلاش کر لیا ہے جو30 سال پہلےیہاں کوٹھہ چلاتی تھی- اب وہ صرف اپنی لڑکیوں کی مائی ہے۔ ہمیں تببی گلی میں جانا ہوگا"۔ عدنان خاموش ہوگیا۔
" اچھا کام کیا ، چلو" ۔
" صاب کیا بی بی جی کا آنا ضروری ہے"-
" کیوں"۔ میں نے سوال کیا۔
" صاب بڑی خراب جگہ ہے"۔
" کیا مطلب"۔ میں پوچھا۔
" صاب ہرطرف چور ، لٹیرے اورخراب عورتیں ہیں" –
میں نے آفریدی اور کٹک کی طرف اشارھ کیا۔" وہ دونوں کی جیب میں پستول ہیں اوروہ یہاں ہماری حفاظت کے لئے ساتھ ہیں"۔
تببی گلی میں جانے کے کئ راستے ہیں۔ ایک راستہ تکسالی گیٹ سے ہے۔ ہم الٹے ہاتھ دو دفعہ مڑے اور اب ہمارے سامنے بلڈنگوں کےدرمیان ایک پتلی اور لمبی گلی تھی جس کےدونوں طرف چھوٹے راستےتھے۔ سسّتے میک اپ میں بنی سجی عورتیں دروازوں سے ٹیک لگاۓ کھڑی تھیں۔ ہم کھلےدروازوں سے پلنگوں پرلیٹی ہوئ عورتوں کودیکھ سکتے ہیں۔ کجھ جوان عورتیں اپنےسہلیوں سے باتیں کررہی تھیں اور ساتھ ساتھ کولھو مٹکا رہی تھیں۔ عدنان کی وجہ سے کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ ان کے لئے ہم عدنان کےگاہک تھے۔
ہم ایک گلیارا میں مُڑے اور ایک بلڈنگ میں داخل ہوۓ ۔
عدنان نے کہا۔" صاب ، دوسری منزل پراوراسکا نام نازیہ ہے"۔
میں نےاپنے بٹوے میں سےایک ہزار کا نوٹ نکال کرعدنان کو دیا"۔
" شکریہ صاب، نازیہ 5 ہزار پر راضی ہوئ ہے"۔
میں اور ریمشاں سیڑھیاں چڑھ کراوپر پہونچے ۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
دوسری منزل پرایک ادھیڑ عمرکی عورت نے ہم سےملی جس کا نام نازیہ ہے ۔ اس کی چال اور چہرہ سے پتہ چلتا تھا کہ ایک زمانے میں اس کے کوٹھے کے سامنے لائن ہوتی ہوگی اور اس نے ہزاروں دل توڑے ہوں گے۔
نازیہ کےساتہ ہم سامنے کے کمرے میں داخل ہوئے۔ کمرے میں نازیہ نےاسکی4 لڑکیاں سےملوایا جن کی عمریں تقریباً 10 سے 18 سال کے درمیان ہوں گی۔ ایک عمر رسیدہ عورت بھی کمرے میں موجود تھی۔ یہ میری ماں ہیں۔ اس نے کہا۔
بیٹھتے ہی نازیہ کا پہلا سوال تھا ۔" میرے 5 ہزار "۔
میں بٹوے سےہزار ہزار کے5 نوٹ میز پر رکھ دیے۔
نازیہ نےنوٹوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
" اتنی جلدی نہیں" ۔ ریمشاں نےاپنا ہاتھ نوٹوں پر رکھ دیا۔
" تم ہیرا منڈی میں کب سے ہو؟"
" میں پیدا ہی یہاں ہوئی تھی۔ ایک زمانےمیں میری ماں کا شاہی محلہ میں اپنا جھرونکا تھا۔ اس گلی میں تو ہم حالات تبدیل ہونے کے بعد آئے "۔
" لڑکیاں جو باہر ملکوں کو بھیجی جاتی ہیں۔ ان کے متعلق پتہ ہے تم کو؟
"ہاں میری ماں ۔ پشاور جاکرلڑکیاں لاتی تھی ۔ان لڑکیوں کا کنواری ہونا بہت ضروری تھا۔"
ریمشاں نے اپنے پرس میں سے اپنی ماں کی ایک میلی سے تصویر نکال کرنازیہ کودیکھائ ۔
نازیہ نےتصویر کو کچھ دیردیکھا اور اپنی ماں کی طرف بڑھادیا۔ اسکی ماں نےاپنا چشمہ صاف کرکے تصویر کو دیکھااور پھر ریمشاں کی طرف دیکھا۔ اس نے پھرتصویرکوغورسےدیکھا اورتصویرنازیہ کودے دی ۔
" پہچانی" - نازیہ نےماں سے سوال کیا ۔
" ہاں یہ وہ ہی تو ہے جواپنی ماں کو یاد کر کے ہروقت روتی رہتی تھی"۔ نازیہ کی ماں نے کہا۔
" میرا خیال بھی یہ ہی ہے۔ یہ وہ ہی ہے" ۔ نازیہ نے کہا۔
" مجھے بتا کیا ہوا؟" ریمشاں نے بے تاب ہو کر کہا۔
" ہم نےاس کوشادی کرنےدوبئ بھیج دیا"۔
" کیا مطلب؟"
" کنواری لڑکیوں کی دوبئ میں بہت بڑی قیمت ہے۔ شیخ ان لڑکیوں کےلئےلاکھوں روپےدیتے ہیں۔ وہ ان سےایک دن کے لئے شادی کرتے ہیں ۔"
" اس کے بعدان لڑکیوں کا کیا ہوتا ہے؟" میں نےغصہ سے پوچھا۔
" اگران کے بچہ ہوجاۓ توشیخ ان کوماہانہ لگا دیتا ہے ورنہ ایک مقررہ قیمت دے دیتا ہے اوروہ یہاں کے لوگوں سےشادی کرلیتی ہیں"۔
" میں نہیں سمجھا کھ ایک طوائف کیوں شادی کرے گی"۔
" ارے بدھو ، پاکستان اسلامی ملک ہے۔ ہم اگر جسم نیلام لیں تو مجرم ہیں۔ اس لئے متعہ یا نکاح مؤقت کی شادی لازمی ہے۔ میرے یہ تیسری شادی ہے"۔
" میں نہیں سمجھی" ۔ ریمشاں نے کہا۔
میں نے ریمشاں کوسمجھایا۔ اسلام میں تھوڑے عرصے کی شادیاں، جائزشادی سمجھی جاتی ہیں۔ اور مرد اُس عورت کےساتھ سب کچھ کرسکتے ہیں جو کہ طوائف کےساتھ کیاجاتا ہے۔ میں تم کو اسکی تفصیل گھرچل کربتاؤں گا"۔
" تو پھراس لڑکی کا کیا ہوا؟"
" اسےشیخ نے رکھ لیا تھا"۔
" کبھی اس نےتم سےخط و کتابت کی؟"
" وہ اپنی ماں کے لئے خط بھیجتی تھی جوایک لفافے میں رکھ کر ہم اسکی ماں کوڈاک میں بھیج دیتےتھے وہ کچہ عرصہ آئےاور پھر بند ہوگے "۔
" یہ کام دلالوں کی مدد سے ہوتا ہے۔"
" کیا کام"۔
" شادی کا"۔
"ہاں"
" تمہارے پاس اس دلال کا نام ہے؟"
" ارے رحیم یار ۔ ہاں"۔
"رحیم یار کا پتہ؟"
" اسکا آفس مال روڈ پر ہے۔ عدنان جو تم کویہاں لایا ہے اس کو پتہ ہے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]" نازیہ تم نےایک ہزار اور کمانا ہیں"۔ ریمشاں نےسوال کیا۔
" ہاں وہ کیسے؟"
" میں یہاں تمہارے ساتھ ایک دن اور ایک رات گزارناچاہتی ہوں" ۔
" یہ کیا ہورہا ہے"۔ میں نے ریمشاں سےسوال کیا۔
" بھائی جان ، ہمارا نازیہ سے ملنے کا ایک مقصد یہ بھی تو ہے کہ ماں کی طرح میں بھی یہاں رہ کر دیکھوں"۔
" نہیں" ۔
" ہاں" ۔
" نہیں" ۔
" ہاں" ۔
" تم یہاں کیوں ٹھہرنا چاہتی ہو؟" نازیہ نےپوچھا۔
" بس میں تم لوگوں کی زندگی دیکھنا چاہتی ہوں " ۔ ریمشاں نے کہا۔
" صاحب ، میری دو لڑکیاں ہیں شایداسکی ہم عمرہوں۔ یہ ان ساتھ رہ سکتی ہے ۔میں اور میری لڑکیاں اوراس پرآنچ تک نہیں آنےدئیں گے"۔ نازیہ بولی
میں نےروکہے لہجہ میں کہا۔" میں تم پر کیسے بھروسہ کروں"۔
" صاحب۔ ہم کنجر ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ شہر کے معزز اپنی بیٹیوں کومیرے مجرہ خانے میں کلاسیکل موسیقی، اردو شاعری ، اوراعلیٰ خاندان کےآداب سیکھنے لے لیے بھیجتے تھےاورہاں ہرطوائف اپنا جسم نہیں نیلام کرتی ہے۔ میں ایک نواب کی دوسری بیوی تھی۔ نازیہ ایک نواب کی بیٹی ہے۔ ہمیں اس بیٹی کوہمارا ماحول دیکھنے پر اعتراض نہیں ہے"۔ نازیہ کی ماں بولی۔
" بھائی جان ۔میں مہاجر کیمپ میں اکیلی رہی اور اپنی حفاظت خود کی۔ آپ اطمیناں رکھیں"۔
"مجھےیہ بالکل پسند نہیں"۔ میں نے کہا۔
ریمشاں نےمیری ضرور سے چٹکی لی۔ میری چیخ نکل گی۔ نازیہ، اسکی ماں اور لڑکیاں زور سے ہنس پڑ ئیں۔
ریمشاں نےمیری گردن میں اپنے بازو ڈال کر کہا " میں ناراض ہوجاؤں گی اور کبھی نہیں بولوں گی آپ سے"۔
" ٹھیک ہے یہ میری شرائط ہیں۔ ایک، آفریدی باہرموجود رہےگا ۔سونے کے وقت وہ اندر برآمدے میں چار پائی پرسوئےگا۔دو ، تم موبل فون اپنے پاس ہر وقت رکھوگی۔ میں ایک بٹن کال پروگرام کردیتا ہوں ہے۔ بٹن نمبر ایک آفریدی کا موبل نمبر ہوگا اور نمبر دو میرا موبل نمبرہوگا"
نازیہ، اس کی ماں اور لڑکیاں قہقہہ لگاتےہوئے دوہری ہورہی تھیں۔
" بھائی جان۔ اب جب آپ نے وعدہ کرلیا تو بتادیتی ہوں۔ میں آپ سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوسکتی۔ ہاں لیکن میں ضدی ضرور ہوں اور آپ سے وعدہ لئے بغیر نہیں چھوڑتی"۔
" اور تم سمجھتی ہو کہ مجھے تمہاری چال پتہ نہیں تھی"۔ میں نےقہقہہ لگا کرکہا۔
" بھائی اپنی تعریف آپ کرنا اچھی بات نہیں ہے"۔
" آج کی رات اور کل کا دن۔ کل شام میں آ کر لئےجاؤں گا۔ آفریدی یہاں رہےگا اور میں خٹک کے ہاتھ تمہاری ضروریات کی چیزیں بھیج دوں گا "۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ریمشاں کوشمیم اور تسنیم سے دوستی کر نےمیں کوئی وقت نہیں لگا۔ اور وہ تینوں چار پائ پر بیٹھ گئیں اورگھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ دونوں کی عمروں میں شاید ایک سال کا فرق ہو۔ اور وہ ریمشاں کی ہم عمر بھی تھیں۔ وہ دونوں ہیرا منڈی میں ہی پیدا ہوئ تھیں ۔
شام ہونے لگی اور دونوں نے میک اپ کا سامان نکال کے اپنے چہرے پوتنےشروع کیے ۔
تقریبا ہر15 منٹ بعد ایک مرد اندرداخل ہوتا اور سجی سجای شمیم اور تسنیم میں سے ایک کو پسند کرتا اور وہ دونوں دوسرے کمرے میں چلے جاتے۔ پانچ یا دس منٹ میں وہ دونوں باہر آتےاور مرد اپنی پتلون کے بٹن لگاتا ہوا تیزی سے رخصت ہوجاتا۔ مرد بدصورت ، موٹے اور بڑی عمر کے تھے۔ کچھ میں سے تو عجیب سی بدبو بھی آرہی ہوتی۔
ان گاہکوں کی درمیاں لڑکیوں سے ریمشاں کو پتہ چلا۔ کہ جب نازیہ کے پاس اتنے پیسہ ہوجاتے ہیں کہ وہ پشاور جا کرایک لڑکی خرید سکے وہ خرید لاتی ہے۔ اگر لڑکی معمولی شکل کی ہے تو وہ یہیں کام کرے گی۔ مقامی گاہکوں کو وقت نہیں ہوتا اُن کوتجربہ کار لڑکی چاہیے۔ معمولی شکل کی لڑکیوں کو گاہکوں کے لیے تیار کرنے کے لئے اس کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہیں اور ٹانگیں کھول کر پلنگ کے پایوں سے باندھ دیتے ہیں اورگلی کے بھڑوے ایک بعد ایک آتے ہیں اور زنا کرتے ہیں۔ دس بارہ مردوں سےہم بستری ہونے کے بعد وہ کوٹھے پر بیٹھانے کے قابل ہوجاتی ہے۔
" کیا ایسا تمھارے ساتھ ہوا "۔ ریمشان نے پوچھا
" ہاں ، مگر ہم اس گھر میں پیدا ہوۓ ہیں۔اور کسی کو ہمیں باندھنا نھیں پڑا ۔ہم نےتوخوشی سےاور اپنی پسند کےمردوں کےساتھ اپنا کنوارہ پن کھویا۔" شمیم نے ہنس کر کہا۔
" تم کیا ابھی تک کنواری ہو" ۔ تسنیم نے پوچھا۔
" اگرلڑکی اچھی شکل کی ہوتو؟ " ریمشاں نےتسنیم کے سوال کو نظرانداز کردیا ۔
تواس کو ناچنا سیکھایا جاتا ہے۔اور رحیم یار سے بات کی جاتی ہے ۔ رجیم یار ہر تین ماہ کے بعد دوبئ کو ایک ڈانس گروپ بھیجتا ہے ۔ یہ لڑکیاں وہاں اچھی ہوٹلوں میں ٹھہرتی ہیں اور وہاں شام میں ڈانس پروگرام کرتی ہیں اور رات میں ان سے پیشہ کرایاجاتا۔ ایک سال میں وہ اس ماحول میں بس جاتی ہیں۔ ریمشاں کو یہ ممکن نہیں لگا۔ شممیم نے کہا۔ اس نےصرف دو دفعہ ایسا دیکھا کہ لڑکی نےخود کشی کرلی مگر ایسا کم ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ایک لڑکی بھاگ میں کامیاب ہوگی۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]" اگرلڑکی خوبصورت ہو؟ " ریمشاں سوال دوسرا سوال کیا۔
اگرلڑکی حسین ہو تو اس کے لئے رحیم یار خان خود کسی شیح سےاسکا سودا کرتا ہے۔ یہ لاکھوں والا معاملہ ہے ۔ شیخوں کو کنواری لڑکی چاہیے ۔ وہ ان کو لڑکی کا کنوارہ پن توڑ نا پسند ہے ۔وہ سمجھتے کہ یہ عمل ان کو جوان بناتا ہے۔ اس کے بعد لڑکی باپ سے بیٹے کو ملتی ہے ۔ اور15 یا20 دن میں جب بیٹے کا دل بھر جاتا ہے توشیخ لڑکی کو یہاں واپس بھیج دیتے ہیں۔ اگرلڑکی کے بچہ ہوجائے تو شیخ اس کےتمام اخراجات اٹھاتا ہے۔
ریمشاں نے پوچھا ۔" وہ کیوں ۔شیخ کیوں اخراجات اٹھاتاہے ۔
" اس لئے کہ یہ شادیاں ہوتی ہیں ۔تمہیں نہیں پتہ اسلام میں یہ اصول خاص طور پر بنایاگیا۔ اس کو متحہ کہتے ہیں۔ یہ ہم طوائفوں کو قانون سے بھی بچاتا ہے۔یہ مشرق وسطی میں عام ہے"۔
تم دونوں اچھی شکل کی ہو۔ ریمشاں نے کہا۔ شمیم نےہنس کر کہا میری بہن ہے اس سے پوچھو ۔ مجھے تو صرف ڈانس کے گروپ میں کام ملا۔ اس نے تو شیخ کےساتھ بیس دن گزارے۔
تسنیم نے کہا۔ "ہاں۔ لیکن افسوس ہے کہ میں پیٹ سے نہیں ہوئ۔ ماں کو ماہانہ پیسے ملتے" ۔
" وہ کیوں" ۔ ریمشاں نے سوال کیا۔
" شیخ نےمجھ سے ہم بستری نہیں کی۔ اس نےمیرا کنواراپن اپنے ہا تھ سےتوڑا اس نےکلائ تک اپنے ہاتھ پرچکنائ لگائ اورپھر ہاتھ میرے اندر میں داخل کردیا میں درد سے بےہوش ہوگی۔ دس دن تک میں محل کے ڈاکٹر کی نگرانی میں تھی اور باقی دس دن تک اس محل میں آرام کیا۔ مجھےدنیا کی تمام سہولتیں مہیا تھیں۔ وہ ہر روز مجھے تازہ پھول بھیجتا تھا۔ وہ ابھی تک مجھ تحفے بھیجتا ہے
ایک گاہک نےریمشاں کو کمرے میں چلنے کو کہا۔ مگر تسنیم اسکا گاہک ہاتھ پکڑ کر اپنےساتھ کمرے میں لےگی۔
ریمشاں کی آنکھوں سےآنسوچھلک آئےاور وہ خاموشی سے کھڑکی کے قریب کھڑی ہوگی۔ اس کے دل میں یہ سوال اٹھا۔ کیا کہیں عورتوں کا بھی خدا ہوتا ہے؟ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]جب سے ریمشاں ہیرا منڈی سے واپس آئ وہ بالکل خاموش ہوگی۔ میں نےاسکا دل بہلانے کی لئےمیں نے اس کولاہور دیکھانے سوچا۔
لاہور دریاے راوی کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ پرانےلاہور کےتیرا دروازے ہیں ان میں سےایک دروازہ چھوٹا ہےجس کوموری دروازہ کہتےہیں۔ مشرقی دروازے کر دہلی دروزہ کہتے ہیں کیونکہ اس کا ایک رُخ د ہلی کی طرف ہے۔ دروازے کے باہر ریلوے اسٹیشن ہے ۔اسی دروازے کےاندر ایک سیدھی سڑک قلعہ کوجاتی۔ یہاں مسجد وزیرخان اورسراۓ وزیرخان اور وزیرخان حمام ہے۔ اکبری دروازہ محمد جلال الدین اکبر کےنام سےموسوم ہے۔یہاں ہر قسم کےغلہ کی منڈی ہے جواکبرمنڈی کہلاتی ہے۔ اب صرف منڈی رہ گئ ہے۔ موتی دروازہ جو کہ موچی دروازہ بھی کہلاتا ہے۔ یہ دروازہ جمعدار موتی رام کےنام سےموسوم ہے۔ موتی رام اکبر کے زمانےمیں اس دروازے کی حفاظت پر تعینات تھا۔ سکھوں کے عہد میں اسکا نام موچی دروازہ میں بدل گیا۔ اب صرف اسکی یادگار باقی ہے دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ عالمگیردروازہ ، اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے کے نام سے موسوم ہے۔ دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پرمغل حویلی ہے، لال خو اور سادہکرن مسجد محمد صالح ہے۔ اس پتلےبازارمیں دونوں طرف آتش بازی کا سامان فروخت ہوتا ۔ یہاں پرسوسال سےایک کباب اور ایک مٹھائ کی دوکان ہے جولاہوری اسٹائل میں کھانےاور مٹھائ بناتےہیں۔ لہاری دروازہ کام نام لاہور ی دروازہ ہے جو بگڑ کرلُہاری ہوگیا۔ محمودغزنوی نےاس جگہ راجہ جیپال سےجنگ جیتی۔ غزنوی نےشہر کوآگ لگادی اور رعایا کا قتل عام کیا۔ یہ شہر کچھ عرصے تک غیر آباد رہا۔ ملک ایاز کے زمانےمیں شہر کی نئ آبادی اسی محلہ سے ہوئ جس کولاہور منڈی کہتے ہیں۔ موری دروازہ لوہاری اور بھاٹی کے درمیاں فیصل برج کے نزدیک ہے۔ یہ بھی ملک ایاز سے موسوم ہے۔ پنجابی زبان میں موری اس بدررو کو کہتے ہیں جس میں سے پانی گہر کا نکلتا ہو کہتے ہیں۔ مشہور انارکلی کا بازار یہاں پر ہے چٹ خارا ہاوس میں لاہوری اسٹائیل کا کھانا ملتا ہے۔
پہاڑی دروازہ ، بہاٹ کی قوم سے موسوم ہے۔ سرکولر، راوئ روڈ ، لوارمال، موہنی روڈ، بلال گنج اور لوہارہ کی سڑکیں یہاں ملتی ہیں حضرت داتا گنج کا مزارقریب ہے۔ اس چوک پر کھانے پینے کی چیزوں کےاسٹال بھی ہیں ۔ ٹکسالی دروازہ کےاندر ایک زمانےمیں ایک سکہ بنا کرتا تھا۔ روشنائ دروازہ مسجد بادشائ اور قعلہ لاہور کےدرمیان ہے۔اس دروازہ کے اندرونی میدان اور باہر روشنی کی جاتی تھی، اسلئے یہ روشنائ دروازہ کہلایا۔ یہ قعلہ کا بھی دروازہ ہے۔ مستی دروازہ ایک شاہی ملازم کے نام سے مشہور ہے جس کا نام مستی بلوچ تھا۔اب یہ ایک چھوٹا گیٹ ہے۔کشمیری دروازہ کا رخ کشمیر کی طرف ہے ۔یہاں شاید کشمیری آباد کئےگے تھے۔ خضری دروازہ کےسامنےایک زمانے میں دریاے راوی تھا۔ اسلئےاس کودریا کی نزدیکی کی بنا پرخضری دروازہ کہاجاتا تھا۔ اب لوگ اس کوشیروں والا دروازہ کہتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کےزمانےمیں ہمشہ دوشیروں کے پنجرے رکھے ہوتے تھے۔ تیرواں ذکی دروازہ المعروف مکی یہ دروازہ پیرذکی شہید کےنام سےمشہور ہے [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
"چوتھی منزل"۔ عدنان نےایک سات منزلہ عمارت کی طرف اشارہ کیا۔
بلڈنگ ماڈرن اور خوبصورت تھی ۔
چوتھی منزل پرایک دروازے پر" رحیم یار ٹریڈر" کا بورڈ تھا۔ آفس کے سامنے والے کمرے میں ایک شخص نے ہمیں روک دیا۔
" کس سےملنا ہے"۔ اس نےریمشاں کی طرف دیکھتےہو ے کہا۔
" رحیم یار سے"۔ میں نے کہا۔
" یہاں انتظار کرو" ۔
تھوڑی دیر بعد ایک دروازے سےایک رحیم یار باہر آیا اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس نےدروازہ بند کردیا۔
" تمہاری بہن" ۔ وہ بولا
" ہاں" ۔ میں بولا۔
" نقاب اٹھاؤ"۔
ریمشاں نے اپنا نقاب اٹھادیا۔
" ٹھیک ہے ۔5 ہزار۔ ایک پیسہ بھی ذیادہ نہیں"۔
"مجھےنازیہ نے تمہارا نام دیا تھا"۔ میں نے ہزار ہزار کے5 نوٹ میز پر رکھ دیئے۔ رحیم یار کا منہ کھلا رہ گیا۔ وہ مجھےحیرت سےدیکھ رہا تھا۔
" یہ لڑکی ایک شیخ کے لئے ہے۔ مجھےاس لڑکی کو دوبئ لےجانا ہے۔ کیا تم ٹرانسپورٹ کا انتظام کرسکتے ہو۔ ہم دونوں کے لئے "۔
رحیم یار بولا ۔ " دس ہزار ہوں گے دونوں کے"۔
میں نے ہزار کے10 نوٹ اور میز پر رکھ دیے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
چھٹی قسط


کراچی [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]

کراچی


ریمشاں اور دوسری لڑکیاں ایک اندھیری گلی میں کھڑی تھیں۔ ایک ادھیڑ عورت اور مرد ان کی نگرانی کررہے تھے ۔ایک لڑکی نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی اورادھیڑ عورت نےاتنی زور سےاس کے منہ پر چانٹا مارا کہ وہ سڑک پرگری۔اس کے بعد کسی لڑکی کی ہمت نہیں ہوئ کہ وہ کچھ کہتی۔گاڑی کےانجن کی آواز آئ اور ایک ٹرک گلی میں داخل ہوا۔ ٹرک کےرکتے ہی عورت نے لڑ کیوں کو ٹرک میں دھکیلنا شروع کردیا۔ ٹرک میں سب لڑکیوں کےلیے جگہ کم تھی۔ سب بدن سے بدن لگا کر کھڑی ہوگئیں۔ عورت نے چلا کر کہا اگر کسی نے تھوڑی سی آواز نکالی تو میں اسکا منہ توڑ دوں گی۔ اور ٹرک کا دروازہ بند کردیا۔
ریمشاں کو ٹرک کی اندرونی دیوار کے پاس جگہ ملی۔ اسکی پیٹھ کو دیوار کا سہارا تھا۔ دوسری لڑکیاں ایک دوسرے کےسہارے پر کھڑی تھیں۔ ٹرک کے دھیرے ہونےیا روکنےاور چلنےسےلڑکیاں ایک دوسرے پرگرتیں۔آخر کار ٹرک ایک مقررہ رفتار سےچلنےلگا۔وہ شاید بڑی شاہراہ پرتھے۔
گرمی کےمارے برا حال تھا۔ ٹرک میں کوئ کھڑکی نہیں تھی اور لڑکیاں پسینےمیں نچڑ رہی تھیں۔ سانس لینا دشوار تھا۔ یہاں ٹرک نےاُچھلنا شروع کیا۔ سڑک ناہموار تھی ۔ ٹرک کی دیواریں لکڑی کےتختےتھےاور ریمشاں ان کے درمیان سے باہر دیکھ سکتی تھی۔ پٹوکی اوراکارا کے شہرگزرتے ہوے ساہیوال آیا۔ ساہیوال سےخانیوال تک کی سڑک ٹھیک تھی۔ سڑک کے دونوں طرف جہاں تک نگاہ پہنچتی تھی کھیت ہی کھیت نظر آتے تھے۔ ٹرک شام میں ملتان پہنچا۔ وہ ایک مکان کےسامنے رکے۔ مکان کےاندر عورت کی نگرانی میں دو دو لڑکیوں کوجوڑے کی صورت میں رَفع حاجت کو جانےکی اجازت ملی۔ کھانے کے لیے ایک ملازم نے پتلی دال اور چاول لا کر رکھے ۔
عورت نےریمشاں کو اپنےساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دوسرے کمرے میں آفریدی بیٹھا تھا۔ اس نےمقامی ہالی ڈے ان کا کھانا ریمشاں کےسامنےرکھ دیا۔ ریمشاں کھانے پرٹوٹ پڑی اور ٹھنڈے پانی کےدوگلاس پی گئی۔آفریدی نے پوچھا ٹھیک ہو۔ ریمشاں نےسرہلایا۔ عورت نےریمشاں کوچلنے کا اشارا کیا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ملتان سےلودھران تک سڑک ہموار تھی۔ خان بیلا، پی۔اس۔او پر ٹرک ڈرائیور نے پٹرول ڈلوایا۔اور رحیم یارخان کی طرف چلا۔ رحیم یارخان میں ٹرک نہیں رکا اور سندھ کی طرف مڑ گیا۔ یہاں سے سڑک کے دونوں طرف لمبےدرخت شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ گھوٹکی میں ایک مکان کے سامنے رکے۔ پھر وہی دال چاول۔ اس دفعہ ریمشاں کو دوسرے کمرے میں تلا ہوا گوشت اور سڑک کے کیفےسےلایا ہوا نان ملا۔ یہاں سب نےزمین پرسو کےرات گزاری۔ سکر کا نیا براج بہت خوبصورت ہے۔ سکر کے بعد سڑک کےساتھ ساتھ کھجوروں کےدرخت شروع ہوجاتے ہیں۔ میلوں تک پیلی کھجورں کےگچھےلٹکتے نظر آئے۔ سڑک کے کنارے گدھےگاڑیاں اور ٹریکٹر ٹرالیاں کھجوروں سےلددی چلی جارہی ہیں۔ کوٹ ڈیگی کا قلعہ سامنے سےگزرا ۔ہالےجی اور حیدرآباد سےگزرتے ہوے سڑک پھر ناہموار ہوگی ہے
ہالےجی اور حیدر آباد کے بعد کراچی تک کی سڑک اچھی ہے ۔ آخرسہراب کوتھ سامنے نظر آتا ہے۔اور پھرکراچی شروع ہوگیا۔
شاراع فیصل سےٹرک ایک پل پرمُڑا۔ پہلا اسٹاپ ناظم آباد تھا۔ 5 لڑکیوں کو یہاں اُتاردیا گیا۔ ایک بعدایک جگہ آئ۔ عائیشہ منزل، فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، مچھر کالونی اورگلشن اقبال۔ ہراسٹاپ پر لڑکیاں کم ہوتی گئیں۔ آخرمیں ریمشاں رہ گی۔
"چلو اترو ، تمہارہ سفر ختم ہوا"۔ عورت نے کہا
عورت نے ریمشاں کو ٹرک سےدکھا دئے کراتارا۔ ریمشاں کو سمجھ نہیں آیا کہ عورت نےاس کو دکھا کیوں دیا۔ اس عورت کو آفریدی 5 ہزار روپے دئےتھے تاکہ وہ ریمشاں کی حفاظت کرے۔ اور کراچی پہنچنے پر بیچ لگزری ہوٹل پراتاردئے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]عورت نےایک بار ریمشاں کو زور سےدکھا دیا۔ ریمشاں زمین پرمنہ کے بل گری۔ اٹھ ، کھڑی ہو حرام زادی جاسوس۔ ریمشاں کے منہ سےخون نکل رہا تھا۔ اس نےاپنی قمیض سےخون پوچھا اوراس سے پہلے کہ عورت ایک اوردکھادیتی وہ اس گھر کی طرف چل پڑی جس کی طرف عورت نےاشارہ کیا تھا۔
کمرے میں چار آدمی تھے۔
" یہ ہے وہ حرام زادی"۔ عورت نے کہا۔
" کیا اِسکا پولیس سےتعلق ہے"۔ ایک عمر رسیدہ آدمی جو تسبی پڑھ رہا تھااس نےعورت سےسوال کیا۔
" ہاں ، بیج دو سالی کو"۔عورت نےزہریلےلہجے میں کہا ۔
" ہم اسے زیادہ دن یہاں نہیں رکھ سکتے"۔ عمر رسیدہ آدمی بولا
ایک آدمی جو تینوں میں کم عمر تھا۔وہ ریمشاں کے قریب آیا اور اسکے اردگرد گھومااور پھراس نےاپنا ہاتھ ریمشاں کےسینہ پر پھرا اوراسکی چھاتیوں کواپنےدونوں ہاتوں سےدبایا۔
ریمشاں نےاس کوچانٹا مارا۔ عورت نےفورا ریمشاں کے ہاتھ پکڑ لیا اوران کومروڑا۔ ریمشاں دوہری ہوگی۔ آدمی نےاسکےدونوں کولھو کو اپنےہاتھوں سےمحسوس کیا۔
ریمشاں نے پیچھےلات مارنے کوشش کی اور وہ منہ کےبل گری۔ اسکی ناک سےخون بہنے لگا۔
" مجھ سے سودا کرلو۔ 8 ہزار “۔ نوجوان نےبولی لگائ
" 9 ہزار " دوسرا آدمی بولا۔
" کم عمر آدمی خاموش رہا "۔
" 10ہزار " تیسرا آدمی بولا۔
" 12 ہزار۔ چھاتی اور کولھے بہت چھوٹے ہیں۔ میں اس سے ذیادہ نہیں دے سکتا اوراگر یہ پولیس والی ہے تو وہ اس کےلئےضرورآئیں گے۔ میں ایک دن میں اسےدوبئی بھیج دوں گا" نوجوان نے کہا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]" تم میں سے کوئ بولی بڑھاناچاہتا ہے"۔ عمررسیدہ شخص نےدوسروں سے پوچھا۔
" میں بڑے نیلام انتطار کروں گا۔ مجھے12 یا 13 سال سے کم کی بنگالن چاہیے۔ ایک مرد نے کہا
" مجھے تھائ لڑکی چاہیے 10سا ل سے کم کی”۔ دوسرا بولا۔
" ٹھیک ہے۔ یہ تمہاری ہے مگرتم اس کوجلد سے جلد کراچی سےنکالو" عمر رسیدہ آدمی نےتسبی پراُ نگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔
" ایک رات کے لیےاسے مجھےدے دو۔ ایک ہزار دوں گا "۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا
" نہیں ، شیخ کنواری پسند کرتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے ۔ میرا لگایا پیسہ ذائع ہوجاۓ گا "۔ نوجوان نے کہا۔
نوجوان نے اپنا بٹوہ کھول کر12 ہزارگننےاور عمر رسیدہ شخص کےسامنےرکھ دیے۔
اس نےریمشاں کو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ ریمشاں نےلڑنے کی کوشش کی ۔
نوجوان نےعمر رسیدہ شخص سےرخصت چاہی اور ریمشاں کو دروازے کی طرف دکھیلا۔
ریمشاں نےسٹرک پرچلانے کی کوشش کی۔ نوجوان نےاسکا منہ بند کرکےاس کومسافر کی طرف سےکار میں دھکیل کردروازہ لاک کردیا۔
جب نوجوان گاڑی میں داخل ہوا تو ریمشاں نےاس پر حملہ کردیا۔
" میں تمھارا ساتھی ہوں۔ کراچی پولیس۔ اسپیشل برانچ "۔ نوجوان چلایا۔
" مجھےمیرے بھائ کے پاس لےچلو"۔ ریمشاں چلائ۔
" تمہارا بھائ۔ کیا مطلب تم لاہور کی خفیہ پولیس نہیں ہو؟ " نوجوان سٹپٹا گیا۔
" میرے ڈیپارٹمنٹ کے پیسے" ۔ نوجوان نےغصہ سے کہا۔
" میرا بھائ۔ تم کو دگنے پیسے دئے گا" ۔
" تمہارا بھائ کہاں ہے"۔
ریمشاں نے اسےاپنے بھیا کا موبل نمبر دیا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]پولیس افسر نعمان ، آفریدی، میں اور ریمشاں ہوٹل بیچ لگزری کے لان میں بیٹھے تھے۔ ریمشاں سےمیں پوری بات سن چکا تھا۔ اور جس عورت پر ہم نے بھروسہ کیا تھا اسں نے ہمیں دھوکا دئےدیا تھا،
میں نےنعمان کواس کے پیسے لوٹا دیے اور اسکا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
" ایک مسئلہ ہے"۔ نعمان نے کہا۔
میں نے نعمان کی طرف دیکھا۔
" اگرمیں آپ کی بہن کو واپس نہیں لےجاتا اور دوبئ نہیں پہنچاتا تو میں ان انسانوں کےتاجروں کو مکمل طور ہرپکڑسکتا۔ وہ سمجھ جائیں کہ میں بھڑوا نہیں ہوں اورہم دونوں خفیہ پولیس سے تھے۔ اگرمیں مقامی گروپ کوگرفتار کرلوں تو پورا رینگ نہیں ٹوٹےگا"۔ نعمان نے کہا۔
" تم کہنا کیا چاہتے ہو؟۔" میں نے پوچھا۔
" اگرمیں ریمشاں کواس وقت تک اپنے ساتھ تک رکھنا چاھتا ہوں جب تک کہ مجھےانکے دوبئی کےمکمل رابطےکا پتہ چل جائیں۔ میں ایک پولس افسر کی حیثت سےریمشاں کی پوری حفاظت کا وعدہ کرتا ہوں"۔
" نہیں۔ ریمشاں کےلئےیہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ بھول جاؤ"۔
" دیکھو ریمشاں میں نےتم کو بےعزتی ، بےحرمتی اورایک ظوائف کی زندگی سےبچایا۔ کیا تم نہیں چاہوگی کہ ان لوگوں کا رینگ ٹوٹےاور وہ سب گرفتار ہوں''۔ نعمان نےریمشاں سےسوال کیا۔
" ہاں ، مگر بھائ جان کی مرضی کےبغیرنہیں "۔
نعمان نے میری طرف دیکھا۔ [/list]
Post Reply

Return to “ناول”