حیوانوں کی بستی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • اگلا ہفتہ ریمشاں نےڈاکٹر جمیلہ کی زیرعلا ج میں گزارا – میں ا سے ہرروز دوگھنٹے کے لیے باہرکوہاٹ دیکھانے لے جاتا۔ ہم کوہاٹ یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی ( کُسٹ) دیکھنےگے۔ کُسٹ ، صوبہ سرحد کی تین آی ٹی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ دوسری مالا کنڈ اور ہزارہ میں ہیں۔ ریمشان نےایک دن وہاں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم سکینہ رسوخ کی بنا پر پاکستان ائر فورس کا بیس دیکھ سکے۔ انگریزوں نےاس بیس کو قائم کیا اور اب یہ پاکستان ائرفورس کا ٹرینگ سینٹر ہے۔ ریمشان نے پہلی بارہوائی جہاز قریب سےدیکھے۔ ہم نےسمینٹ فیکٹری میں سمینٹ بنتے دیکھا۔ کیڈٹ کالج بھی گے- کیڈٹ کالج کااپنا ترانہ ہے جس کو معروف شاعراحمد فراز نےلکھا ہے - احمدفراز جن کا اصلی نام احمد شاہ ہے کوہاٹ میں پیدا ہوۓ- ہم گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بھی گے -
    “بھائ جان - ایک بات پوچھوں”۔
    " بولو"۔
    " کیا آپ میری کہانی لکھیں گے؟"
    " کیا تم ایسا چاہتی ہو ؟ "
    “ نہیں“
    " ٹھیک ہے۔ میں نہیں لکھوں گا" -
    " کیا مطلب؟ "
    " کیا مطلب ؟ "
    " میں نے ' کیا مطلب' آپ سے پہلے کہا تھا آپ جواب دیجۓ " - اُس نے آہستہ میرے بازو پر چٹکی لی۔
    " اف۔ یہ تم نے کہاں ‌سے سیکھا؟"
    " سادیہ بہن سے۔ انہوں مجھےاس کی مکمل اجازت دئے دی ہے" ۔
    " کیا بات کرتی ہو؟ تم نےسادیہ سے کب بات کی؟ "
    “سکینہ باجی نے کل بات کروائ تھی اور سادیہ بہن نے کہا کہ اگر وہ صحیح جواب نہ دیں تو زور سے چٹکی لینا۔ میں نےتو آہستہ لی ہے“۔ ریمشاں نے شرارت سے کہا۔
    “ کیا سب بہنیں پگلی ہوتی ہیں”۔
    “ آپ بدھو ہیں۔اتنا بھی نہیں جانتے”۔
    “ تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری کہانی نہ لکہوں “
    ‘ نہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ لکھیں۔ لکین یہ میری کہانی ہے میں اس میں خود حصہ لیناچاہتی ہوں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]میں سکینہ سے اس کا ذکر کیا۔
“ وہ مکمل کہانی ایک وقت میں نہیں بتاۓ گی۔ وہ اس کہانی میں خود حصہ لیناچاہتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ کہانی دوران سفر قسطوں میں لکھنا ہوگا“۔
" وہ کسی صورت میں اس پر تیار ہے نہیں کہ مجھے پوری کہانی ایک ہی وقت میں بتاۓ۔ نفساتی لحاظ سے ڈاکٹر جمیلہ اس سےاتفاق رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں یکدم ایسا کرنےسےاسےشدیدا فسردگی کا دورہ پڑھ سکتا”۔ میں نے کہا۔
“ تو پھر، پریشانی کیا۔ یہ تو ممکن ہے -“ سکینہ نے کہا
“وہ قندھار کےقریب ایک گاوں میں رہتی تھی- تم جانتی کےوہاں اور اس کےارگرد کیا ہو رہا ہے؟
" اس کا مطلب ہےکہ تمہں اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اوراپنی بھی۔ تم افغانی نہیں لگتے، امریکن لگتے ہو“ ۔ سکینہ نے ہنس کر کہا۔
" اپنےسیکشن سے کچھ کو لوگ اپنےساتھ لےجاؤ۔تمہارا گروپ تو یہ کام دن رات کرتا ہے”۔
" ٹھیک میں آفریدی اورخٹک کوساتھ لے جاؤں گا۔ مگر ان کےاخراجات کہاں سےآیئں گے“ِ
" ہم ان کے اخراجات کو ڈپارٹمنٹ کےسالانہ تخمینہٴ حساب میں جذب کرلیں گے”۔
" لیکن ان کو بھیس بدلے ہوۓ شامل ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ بات ریمشاں سے چُھپانی ہوگی۔ وہ ان تجربات کوان کی اصلی شکل میں محسوس کرنا چاہتی ہے"۔
“ کرو جو ضروری ہے۔ کہانی کیا ہے”۔
" مجھے نہیں پتہ" ۔ میں نے قہقہہ لگایا۔
میں نےداڑھی اور مونچھوں کو بڑھنے دیا تا کہ چہرہ کا کچھ حصہ چھپ جاۓ۔ بالوں کوبڑھنے دیا۔ تاکہ ان کومقامی طریقہ سے کاٹا جاۓ۔ میں نے پشتوسیکھنے کے لیے ایک ذاتی معلم کی مدد حاصل کی۔ میں پشتو بولتا ہوں ایک ماہ کی کوچینگ بعد میرا امریکی لہجہ افغانی بننے لگا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]میں ، سکینہ اور نسیم کانفرنس روم میں تھے۔ ڈاکٹرجمیلہ ، سادیہ اور شان آڈیّو لنک پر۔
شان نے پوچھا کے یہ کانفرنس کس لیے ہے؟
“ہمیں ایک سچی کہانی کا پتہ چلا ہے جو کہ نہ صرف ہمارے معاشرہ کی بلکہ ہرمعاشرہ کی برائی ہے”۔ نسیم نے کہا۔
لیکن اس کی لکھائی میں چار مسئلہ ہیں جن کے حل کۓ بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سکینہ نے بات آگے بڑھائ۔
وہ کیا ہیں؟ سادیہ نے پوچھا۔
ایک۔ کہانی ہمارے مشن سے باہر ہے۔ نسیم بولا
دو۔ ریمشاں، اپنی ماں کی کہانی کو re-live کرنا چاہتی ہے - ڈاکٹر جمیلہ نےدخل دیا۔
تین۔ اس لیے کہانی آفس میں بیٹھ کر نہیں لکھی جاسکتی- سکینہ نےاس جملہ کومکمل کیا۔
چار - وسائل کی تنگی ۔میں کہا۔
وہ کیوں؟ - شان نے سوال کیا۔
“ اخراجات”۔ میں نے کہا۔
“ اس میں ، افغانستان ، پاکستان، میڈل ایسٹ اور یورپ کا سفر شامل ہے -“ ڈاکٹر جمیلہ نے پھرمداخلت کی۔
“ہمیں یہ کیسے پتہ ہے؟ سادیہ نے پوچھا۔
“ بات یہ ہے سادیہ ۔ ڈاکٹرجمیلہ کویہ کہانی علاج بذریعہ عمل توجہ میں پتہ چلی ہے“ سکینہ نےجواب دیا۔
“ اورمیں قانونی، اخلاقی اصول کی بنا پریہ کہانی میں آپ کونہیں بتاسکتی”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے پھردوباہ مداخلت کی۔
“ ریمشاں کی خواہش ہے کہ صرف آپ اس کو لکھیں گےاورصرف وہ آپ کے ساتھ جاۓ گی”۔ ڈاکٹرجمیلہ کااشارہ میری طرف تھا۔
“ پہلےتومیں دوسرے کام کر رہا ہوں۔ دوسرے یہ خرچہ میری حیثیت سے باہر ہے میری آمدنی وہ ہی ہے جو دوسال پہلے تھی”۔ میں نے مسکرا کر کہا۔
سادیہ نے پوچھا”۔ کتنے کہ بات ہے؟“ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]“ کم سے کم دس ہزار ڈالر کی“۔
" میں دوسری ارگینائزیشن سے خرچہ بانٹنے کی بات کر رہا ہوں وہ بھی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ شا ئع کریں گے - اس کے بدلے میں وہ ریمشاں کے اَدھے اخراجات اُٹھانے کے لیے تیار ہیں”۔ نسیم نے کہا۔
"اور ہماری شرکت، لکھنے والے کو تنخواہ سمیت چھٹی دینے کی ہے "- سکینہ نےقہقہ لگا کر کہا۔
"میں اس PSTD ہر مؤقف شائع کرسکتی ہوں اوراس سے حاصل ہوا پیسہ ریمشاں کودئے سکتی ہوں اور ان ٹریپ کےدوران اس کی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرسکتی ہوں"۔ ڈاکٹر جمیلہ نے کہا۔
" میرا خیال ہے کہ بقیہ پیسہ ہم امدای سرمایہ میں جمع کرسکتے ہیں - لا س انجلیس کی طرف سے پانچ ہزار لکھ لیں۔ شروع میں شان اور میں یہ پیسہ ہمارے پاس سےدیں گے۔ جب کتاب شائع ہوجاۓ تو ریمشاں کو امریکہ امدای سرمایہ حاصل کرنے میں شرکت کے لیے آنا ہوگا۔اس کےجہاز کا کرایہ بھی ہم دیں گے”۔ سادیہ نے کہا –
“ اوراگراتنا فنڈ نہیں ملا اوراگر میں لکھنےوالا ہوں تو مجھے بھی آنا چاہیے“۔ میں نےقہقہ لگا کر کہا۔
“ دیکھا نا شان - بھائی بالکل ویسے کہ ویسے ہی بدھوہیں – نسیم اورسکینہ کی صحبت میں بھی نہیں بدلے”۔ سادیہ نے بھی قہقہ لگایا۔
“ ارے یہ تو سب جانتے کہ اگرمصنف کو کتا بیں بیچنا ہوں تواس کو آٹوگراف دینا ہوگا اس لیے آپ کو بھی ُبلاناہوگا۔ لیکن آپ کا ٹکٹ میں خود دوں گی۔ مجھےمیرے پیارے بھیا کو پیار کرنا ہے“
“اب آپ کی باری ہے”۔ نسیم نے ہنس کر کہا۔
“میں اس کتاب کو لکھوں گا اورتمام خراجات نپٹانے کے بعد جو کچھ بھی بچا وہ ریمشاں کےایجوکیشن فنڈ میں جاۓ گا”۔ میں نے کہا۔
" بہت خوب ، بہت خوب "۔ سادیہ چلائی۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]میں ریمشاں سے ملنے ڈاکٹر جمیلہ کے گھر پر پہونچا۔ میں نے دستک دینے کے لیے ہاتھ اُٹھایا تھا کہ دروازہ کھٌلا اوراس سے پہلے کے میں قدم اُٹھاؤں میں زمین پرتھااور ریمشاں بےتحاشہ میرے گالوں اور پیشانی کو چوم رہی تھی۔ میں نے آہستہ سےاس کوالگ کیا۔
مجھے پتہ ہے بھیا۔ مجھے پتہ ہے۔ وہ چلائی۔
پگلی تجھے کیا پتہ ہے؟ وہ بہت خوش تھی - میں نےدل میں کہا۔ یہ توبالکل سادیہ ہے۔
آپ میری سچی کہانی پر ایک کتاب لکھیں گۓ۔ بولیں نا ؟
میں نےاس کے چہرے سےخوشی کوگزرتےاور رنج کوابھر تے دیکھا۔ جوچہرہ لمحوں پہلے ایک تازہ گلاب تھا اب ایک مُرجھایا ہوا پھول تھا۔ وہ مڑی اور روتی ہوئی گھر میں بھاگی۔ میں اس کے پیچھے بھاگا۔ اس سے پہلے کہ میں ریمشاں کو پکڑ تا۔ ڈاکٹر جمیلہ نےمجھے روک لیا۔
میں ریمشاں کی دیکھ بھال کرتی ہوں آپ ڈرا ئینگ میں بیٹھیں - ریمشاں بائی پولر ہے۔ بائ پولر کےمریض کے مزاج کی کیفیت مزاج تیزی سے ذیادتی یا کمی میں تبدیل ہوتی ہے۔ اُن کےخوشی اورغم کےلحموں میں انتہا ہے۔ اُن کا موڈ ایک لحمہ خوش ہوسکتا ہے اور دوسرے لمحے رنجیدہ ۔ ریمشاں کو کچھ وقت دو، وہ آۓ گی۔
ڈاکٹر جمیلہ صحیح تھی۔ ریمشاں دس منٹ میں آئ اور میری گود میں سرکرلیٹ گی۔
“ بھیا مجھےمعاف کردیں“
اس کے با لوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوۓ میں نے پیار سے کہا۔ “میری پگلی“
اور میرے آنسوں کی بوندیں اس کےگالوں پرگریں۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
تیسری قسط


قندھار
[/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]افغانستان جانے کے لئےسرحد دو جگہ سے کراس کی جاسکتی ہے۔ ایک راستہ تُرخم پردُرہ خیبر سے ہے جو پشاور کو افغانستان کےشہر جلال آباد سےملاتا ہے - دوسرا بلوچستان میں کوئٹہ چمن سے ہے جو کوئٹہ کو افغانستان میں قندھارسےملاتا ہے۔ قندھار جانے کا قریبی راستہ کوئٹہ کی سڑک کےذریعہ ہے۔ اس ٢٠٠ میل کے سفر کے لیے ایک ٹوٹی اورگھڑوں سے بھری ہوی دو طرفہ سڑک ہے۔ راستہ نہ صرف دشوار ہے بلکہ رات کا سفر خطرناک بھی ہے۔ رات کولٹیرے اور ڈاکو اس پر حکومت کرتے ہیں۔
ہمیں سفر کےلیےضروری کاغذات بھی لینے تھے۔ قبائلی علاقہ میں سفر کےلئے“ نوابجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ہوتا ہے۔

بس کی سرویس بند تھی لہذا ایک منی وین اور ایک نوجوان ڈرایئور کو نوکر کیا۔ ہم نےیہ فیصلہ کیا کہ ریمشاں اور میں شوہراور بیوی کی حیثیت سےسفر کریں گے۔ آفریدی اورخٹک بھی اس وین میں ہوں گے۔ وہ اجنبیوں کیطرح ہمارے ساتھ سفر کریں گے۔ رات کاسفردیادہ خطرناک ہے لہذا ہم نےدوسری صبح کو نکلنے کا منصوبہ بنایا-
کوئٹہ اپنےدُرہ بولان کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ درہ کوئٹہ اورقندھار کو ملا تا ہے۔ شہر کا بڑا بازار جناح روڈ پرواقع ہے۔ دوسرے بازار قنداری، لیاقت اورسورج گنج ہیں۔ ہم نےدوپہر میں ساج کھائی۔ ساج، دنبہ کا روسٹ کیا ہوا گوشت ہوتاہے اور کوئٹہ میں بہت شوق سے کھایاجاتا ہے۔ کوئٹہ کی کباب کی دوکانیں بھی بہت مشہور ہیں۔
مشرق میں دس کلومیٹر پرایک خوبصورت جھیل ہے جس کا نام حنّا ہے۔ ریمشاں پیڈل بوٹ میں بیٹھ کر بہت خوش ہوئی۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
٥٠ کیلومیڑ ہر خوبصورت وادیِ پِشین ہے جہاں پہاڑوں میں سوراخ کرکےانگوری باغوں کے لئے پانی حاصل کیاگیا ہے۔ یہاں سیب، انگور، آلو بخارہ، آڑو اورخوبانی کی پیداوار ہوتی ہے۔ جھیل سےشام کو واپس آ کرہم نے کیفے بلدیہ میں مقامی بکرے کےگوشت سے تیار کیا ہوابہترین پُلاؤ کھایا۔

سورج کی پہلی کرن سے پہلے ہم لوگ منی وین میں سوارتھے - تھوڑ١ فاصلہ تہہ کرنے کے بعد شہر کی گہماگہمی اور کھچا کھچ ختم ہوگی لیکن سڑک مصروف رہی۔ کار، ٹرک، بائسکل، رکشا ، گدھاگاڑیاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ہماری وین ہندو کش پرچڑھ رہی تھی۔ ہندوکش کا شمار پاکستان کےاونچے پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک مقام ہراسکی اونچائی ٢٥ ہزار فیٹ سے ذیادہ ہے۔ ہماری سڑک سانپ کیطرح قدم قدم پر بل کھاری ہے۔ اور یہ لگاتاہےکہ بس کےڈرایئور کی ایک غلطی اورہم اللہ سے باتیں کررہے ہونگے۔

اچانک ہمیں ہرطرف خیمے ہی خیمےنظر آتے ہیں۔ یہ سرحدی شہراسپن بلڈوک ہے۔ اسکےاردگرد میلوں تک خیموں کا شہرآباد ہے۔ افغانستان کے ہزاروں مہاجرخاندان ان خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ریمشان اُداس ہوگی۔ یہاں پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں -

سڑک جو اب تک پکی تھی۔ یہاں سےگڑھوں کا ایک مجموع بن گی ہے۔ ہرقدم پر ہماری منی وین اُچھل رہی ہے اور ہمارا سر اُسکی چھت سےٹکرا رہاہے۔ دھول اُڑ رہی ہے اور درجہ حرارت ١٢٠ ڈگری ہے۔ سڑک کےدونوں طرف ہر قسم کی گاڑیوں کے ڈھانچےنظر آتے ہیں جو ہمیں حطرناک روڈ اور ایکسیڈینٹ کا احساس دِلاتے ہیں-

تین بجےہم قندھار کےاطراف میں تھے۔ ریمشاں بہت خوش تھی ۔ وہ مجھے اپنا شہردیکھانا چاہتی تھی۔ ہم نےاس کےگھر کی طرف جانے کےلئےلمبا راستہ لیا۔

کابل کےبعد قندھار افغانستان کا بڑا شہر ہے ۔ اسکی آبادی ٢٥٠ ہزار ہوگی۔ یہ دنبہ، اُون، کاٹن، غذا، اناج ، تمباکو، تازہ اورخشک پھلوں کی تجارت کا مرکز ہے۔ اسکا انٹرنیشل ائرپورٹ اسکو کابل، حیرات، کوئٹہ اور روس کے پرانی مملکتوں سےملاتا ہے -
٤ صدی ب س میں الکیزینڈردی گریٹ قندھار آیا۔ہندوستان اور ایران میں اس کی ملکیت پر جنگیں ہوئیں کیونکہ قندھار وسط ایشیا کے تجارتی راستہ پر ہے۔ ٧ صدی میں عربوں نے قندھار کو فتح کرلیا۔ ١٠ صدی میں ترکی کےغزنووں نےاس پر حکمرانی کی۔ ١٢ صدی میں چنگیزخان نےاس شہر کو تباہ کردیا۔١٤ صدی میں ایران کے تِیمُور نے منگولوں کو شکست دی - ١٦ صدی میں بابر نےقندھار کومُغل سلطنت میں شامل کرلیا۔ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں قندھار میں پیدا ہوئ تھی۔ نیا قندھار احمد شاہ بابا دُرانی نے بسایا۔ قندھار ١٧٤٨ سے١٧٧٣ تک افغانستان کا دارلسلطنت تھا۔ ا حمدشاہ بابا دُرانی موجودہ افغانستان کا بانی تھا۔ اسکا لقب دارِدُرانی ( موتیوں کا موتی ) تھا یہ لقب اسکو اس افغانستان کے روحانی بزرگ پیرصابرشاہ نےدیا۔ احمد شاہ دُرانی نے ١٧٤٧ سے لیکر١٧٧٢ تک بادشاہت کی۔ احمد شاہ دُرانی نے نیا قندھار ایک چوکونے کی طرح بنایا۔ چرسق چوک شہر کے درمیان میں ہے۔ جہاں چارخاص بازار ملتے ہیں۔ کابل بازار پرجامع موی مبارک ہے۔یہ مسجد جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رسول صلم کے بال اس مسجد میں موجود ہیں۔ دوسرے طرف حیرت بازار مشرق کیطرف جاکر شہیدان چوک پر ختم ہوتا ہے۔ یہاں پر ایک توپ اور یادگار بنی ہے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ہم نےآفریدی اور خٹک کوشاہدان چوک پراتاردیا وہ دونوں نورجہاں ہوٹل میں ٹھہریں گے۔

ریمشاں نے ڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا ۔
“ یہ شاہ بازار ہے۔ یہاں قندھار کی سب سے خوبصورت بلڈنگ ہے، یہ ہمارے جدید افغانستان کے بانی کا مقبرہ ہے۔اس کے اٹھ کونے کتنےاچھے لگتے ہیں۔“

“بھائ جان یہ دیکھئے اس درگاہ شریف زیارت میں حضور صلم کاایک لبادہ ہے جو کہ بخارہ کےامیر نے بابا دُرانی کو تحفہ میں دیا تھا۔“
“ کیا اُسے عام لوگ دیکھ سکتے ہیں۔“ میں نے پوچھا -
“ نہیں بھائ جان۔ میں نے نانی سے سنا تھا کے کہ انہوں نے٢٠ سال کی عمر میں اس کو دیکھا تھا۔ اب محافظوں کےعلاوہ اس کو دیکھنے کا اعجاز صرف طالبان کے مُلا عمرکو ملا تھا“
“ چلیں چیہلزنہ دیکھیں “
“وہ کیا ہے؟ “ -
وہ ایک غار ہے جو چالیس سیٹرھیوں کی اونچائ پر ہے۔ وہاں سے آپ سارے شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔“
“ وہ کہاں ہے؟“
“ ہم اب شہیدان چوک پرہیں - وہ مشرق میں چار کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ سیڑھیاں چٹانوں کو کاٹ کربنائی گی ہیں “۔
“ دیکھے بھائ کتنا پیارا نظارہ ہے نا“
“ اب میں آپ کو قبرستان لےچلتی ہوں“ ۔ اس نےڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا۔
“ وہ کیوں؟“
“ یہاں میرے مجاہدین دفن ہیں - جن پر مجھ کو فخراور ناز ہے“ ۔ ریمشاں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
“ یہاں طالبان اور القاعدہ کےممبر دفن ہیں۔ یہاں ایک عورت اور 80 غیرملکی مرد دفن ہیں جنہوں نے قندھار کےائر پورٹ اور اسپتال کونارتھ الائنس اور امریکوں کے قبضہ سے بچانے کے لئے جان دے دی“۔

“ بھائ آپکو پتہ ہے۔ انہیں موقع تھا کہ چلے جاتےاور انہیں پتہ تھا کہ ٹھہرے توموت لازمی ہے وہ جمےرہے اوراپنی جان دے دی“ ۔
“ مجھے پتہ ہے میں یہاں تھی“ ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
میں نے اپنےرومال سےاسکی بھیگی آنکھیں صاف کیں۔
“ نانی کہتی تھیں اس قبرستان کی راکھ میں شفا ہے“ ۔ ریمشاں نے جھک کرتھوڑی مٹی اٹھائی اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی۔
“ اب ہم میرےگھرچلتے ہیں۔“ اُس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
ریمشاں نے وین کے ڈرایئور کو اپنےگھر کے راستہ کی راہ نمائی کی۔ ہر سڑک پر ٹینک کےگزرنے کے نشانات ہیں - شہر سے باہر سڑک کے کنارے ٹوٹی ہوئی دوکانوں میں دوکان دار اپنا مال بیچ رہے ہیں ۔ چوراہے کو کراس کرنے سے پہلے ہماری منی وین رکی ، ایک بچی کہولوں کے بل گھسیٹی ہوئی وین کے نزدیک آئی۔

ریشماں نے بسورتے ہوئے کہا- “بھائی جان اس کو کچھ پیسے دے دیں“۔

پہلے میں نے سوچا کہ اس غریب لڑکی نے کسی کا کیا بیگاڑا تھا لیکن میں فورا سمجھ گیا کہ اس بچی کا قصور افغانستان میں پیدا ہونا ہے۔

گاوں کی زیادہ ترگھر برباد ہوچکے تھے - ہرگھر پرگولیوں کےنشان تھے۔ جدھر نگاہ دوڑاؤ - لولے، لنگڑے بچے اور لولے، لنگڑے بڑے موجود ہیں۔ امریکنوں ایسی mines استعمال کی تھیں جو کھلونوں کی طرح لگتی ہیں اور بچےان کو کھلونا سمجھ کے اٹھالیتے تھے۔
.
ہم اب گاوں کی آخری سرے پر تھے۔گھرسامنےتھا۔ میں نےڈرائیور کو کہا کہ وہ جا کرگاوں کی سرائے ٹھہرجائے ۔
سامنےاُجڑے ہوئے میوے کے باغات تھے ۔ جن میں کبھی پھل اُگتے ہوں گے - سیدھ ہاتھ پربہتا ہوا پانی تھا۔ اوراس کے کنارے پردو کچے مکان تھے۔ جن کی دیواریں گولیوں کے نشانوں سے بھری تھیں۔ اور ایک گھر کا اگلا حصہ غائب تھا۔ ریمشاں رو رہی تھی ۔
“یہ میراگھر ہے جہاں میری نانی نےمجھ کو پالا۔“ ریمشاں نے روتے ہوے کہا۔
“ وہ راستہ میرے اسکول کوجاتا ہے“ ۔
“یہ باغ ہے جہاں میں زبیدہ کےساتھ آنکھ مچولی کھیلتی تھی“ ۔
“بھائی آپ میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیں نا“ ۔
اس نےمیرا ہاتھ پکڑ کرمجھ ایک درخت کی پیچھے کھڑا کردیا۔
اس نےانکھیں اپنےننھے ہاتھوں سےچھپالیں۔
“میں ١٠ تک گنوں گی آپ چھپ جائیں“ -
ایک - دو - تین - چار - پانچ - چھ - سات - آٹھ - نو - دس“ ۔ ریمشاں نے روتے ہوئےگننا۔
مجھ ایسا لگا جیسے کوئ میرے دل میں چاقوچُبھا رہا ہو۔ میں بڑھ کراسےاپنےگلے سےلگا لیا۔
ہم گھر کےاندرداخل ہوئے۔ دلان میں ہرطرف اونچی سوکھی گھانس اُ گ رہی تھی۔ ایک کونےدو کچی قبریں تھیں۔
“وہ میری نانی اور ماں کی قبریں ہیں“۔ وہ قبروں کے درمیان زمین پرلیٹ گی اورایک ایک ہاتھ دونوں قبروں پہ رکھ دیا -
میں چبوترے پر لیٹ گیا۔ اور خاموشی اُسے دیکھتا رہا۔ پتہ نہیں کب میری انکھ لگ گی۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
ریمشاں نے مجھے جھنجوڑیاں دے رہی تھی۔
“بھائی جان ناشتہ کا وقت ہو گیا “ ۔
میں جاگ گیا۔
“ میں آپ کے لئے بازارسےناشتہ لائی ہوں ۔“
میں نے باہر جاکر بہتے پانی میں منہ دھویا اور کُلی کی۔
ناشتہ کےبعد ہم دیوڑھی میں آئے۔ ریمشاں ٹوٹی ہوئی جھولا کرسی میں بیٹھ گی۔
“ یہ میری نانی کی کرسی ہے۔“ اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔
“ اور میں یہاںان کے پیروں کے پاس بیٹھتی تھی۔“
میں نے اس کےطرزِکلام میں تبدیلی محسوس کی ۔ جیسےوہ ٹرانس میں ہو۔ اسکی آواز بدل گئی۔
“ ریمی بیٹا ، میرے کو سردی لگ رہی ہے۔ میری ٹانگوں ہرچادرڈال دو“
“ جی نانی جی میں ابھی لائی“ ۔
“ میں بہت بوڑھی ہوں اور میں شاید جلد ہی اللہ کوپیاری ہوجاؤں - میں آج تمہاری ماں کی کہانی تمہیں سنناتی ہوں“ ۔
“ مجھے محسوس ہوا کہ یہ ریمی نہیں ہے“ ۔

. ٭٭٭ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"[list] تم بلکل ویسی ہی لگتی ہو جیسی تمہاری ماں تھی جب وہ بارہ سال کی تھی وہ بھی ان باغوں میں اپنی سہیلی جویریہ کے ساتھ تمہاری طرح سارا دن آنکھ مچولی کھیلتی تھی - وہ دیکھو وہ جویریہ کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ دونوں بہت ہی اچھی دوست ہیں ۔ جویریہ کےگھر کی دیوارہمارے گھر سےملتی ہے۔ یہ دیکھو یہ درمیانی دیوار میں سوراخ ہے۔ یہ تمہاری ماں اور جویریہ نے بنایا ہے - رات ہوگی ہے جویریہ کے ابا سوگے ہیں ۔ وہ سوراخ کے ذریعہ ہماری طرف آجاتی ہے اور وہ دونوں ایک بستر میں لیٹ کر گھنٹوں باتیں کررہی ہیں۔ جویریہ کی ماں اورمجھے پتہ ہے مگر ہم نےان کےاباؤں کو نہیں بتائیں گے۔
وہ دیکھو وہ جویریہ کا بڑا بھائی حسن ہے ۔ وہ عمر میں کافی بڑا ہے۔ اس نے پشاور دیکھا ہے۔ وہ میری بیٹی اور اپنی بہن کو پشاور کے قصےسنارہا ہے۔ انہیں شہر کی باتیں سننا کر سُہانے خواب دیکھلاتا ہے۔ مجھے یہ لڑکا بلکل پسند نہیں۔ مگرجویریہ کو اس کے قصوں کو سننےمیں مزا آتا ہے “ ۔
“آج میری بیٹی اسکول سے واپس نہیں آی - بہت ڈھونڈا مگر اسکا نشان نہیں ملا۔ حسن کا بھی پتہ نہیں تھا۔“
آج میری بیٹی کا خط آیا ہے۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہے؟ -
دیکھو ریمی بیٹا ، میں نے یہ سب خط تمہارے لئے سنھبال کر رکھے ہیں۔
وہ مجھےاب خط کیوں نہیں لکھتی ۔
آج میری بیٹی لوٹ کرگھر آگی - مگرتواتنی بیمار کیوں ہے؟
یہ کون ہے؟ یہ تو میری پوتی ہے۔ بیٹی تم مجھ کو دو سال کی لگتی ہو۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]نانی ، وہ میری ماں کو زمین میں کیوں چھپا رہے ہیں ؟“
ریمی کپکپا رہی تھی۔ میں نے سفری تھیلے سےکمبل نکال کر اس پر پھیلا دیا۔
جب میں اردگرد دیکھ کر واپس لوٹا تو وہ جاگ گی تھی اور مکان سے دور بیٹھی تھی۔ مجھےدیکھ کر وہ میری طرف دوڑی۔
“بھائی جان۔ آپ مجھے اکیلاچھوڑ گے۔ اب کبھی ایسا نہ کرین۔ وعدہ کریں“
“ میں وعدہ کرتا ہوں ۔ کیوں کیا ہوا“۔
“مجھےلگا ہے کہ ماں اور نانی کی روحیں گھراندر ہیں۔
“ تم ُان سے ڈرتی کیوں ہو۔ وہ تو تمہاری ماں اور نانی ہیں“-
“ نہیں میری ماں اور نانی مرچکی ہیں“ اس نے مصومیت سے کہا۔
“اچھا - بتاو تمہاری نانی کا انتقال کب ہوا۔“
“ جس رات انہوں نے مجھے ماں کےخط دیئے۔ میں نے ان کو صبح اس جھولا کرسی پر مرا پایا“۔
“ تمہارے یہاں کوئی رشتہ دار ہیں “
“نہیں - نانی کہتی تھیں کہ سب لڑایئوں اور بم باریوں میں مرگئے۔“
“ اور تم نے نانی کی موت کے بعد کیا کیا“۔
“ میں ایک قافلے کے ساتھ پاکستان چلی گئی“
“بھائی جان “
“کیا؟“
“واپس چلیں مجھے یہاں ڈر لگتا ہے۔“[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]
حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
چوتھی قسط

پشاور [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]

ماں

ماں ایک سال ہوگیا میں نےبابا اورتم کونہیں دیکھا۔ مجھ پتہ ہے کہ ماں میں نےتجھ کو بہت دکھ پنہچایا ہے۔ حسن نےمجھ سے کہاتھا کہ وہ اورمیں پاکستان جاکرشادی کرلیں گے۔ میں اس کےدھوکےمیں آگئی۔ جب ہم پشاور کی سرحد پر پہنچےتواس نےمجھےایک عورت کےساتھ بھیج دیا اور کہا کہ میں بازار سےسامان لےکرآتا ہوں۔
وہ دن اور آج کا دن میں نےاس کونہیں دیکھا۔ ماں میں اب آپ کو اپنا منہ نہیں دیکھنے کےقابل نہیں رہی۔ میں اب پاک نہیں ہوں ماں۔ مجھ کومعاف کردو -

تیری بیٹی[/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ہمیں قندھارسےلوٹےہوۓ دو دن ہوۓ تھے۔ ریمشاں، ڈاکٹرجمیلہ کی طیبی نگرانی میں تھی۔
میرے فون کی گھنٹی بجی۔
“ کیا ریمشاں آپ کےساتھ ہے”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے پوچھا۔
“ نہیں۔ کیا ہوا۔ وہ توآپ کے پاس تھی”۔ میں گھبرایا۔
“ میں آفس سےگھر آئی تو وہ یہاں نہیں تھی۔ گھر کی دیکھ بھال کرنےوالی نےبتایا کہ بی بی جی نےایک گھنٹہ پہلےٹیکسی منگوائی تھی“۔
میں نےٹیکسی کی تفصیلات لے کرآفریدی کےدفترمیں کال کیا۔
“ گھڑ بڑ ہوگی”
“ کیا”۔ آفریدی نےسوال کیا
“ ریمشاں گھر سے بھاگ گی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ پشاور کا رُخ کرےگی۔ کیاپشاور میں اس وقت اپنےلوگ ہیں؟”
“ ہاں”
“ ٹیکسی کا اڈے ، افغانستان کی سرحد اور مہاجروں کے کیمپ پر اپنے آدمی لگا دو۔ اور جیسے ہی کوئ اطلاع ملے بتانا “
“ ٹھیک ہے”۔ آفریدی نے کہا-
میں سکینہ کےدفتر کوکال کرنےوالا ہی تھا کہ سکینہ میرے دفتر میں داخل ہوئ۔
“ وہ لڑکی بےوقوف ہے۔ ڈاکٹرجمیلہ کی کال آئ تھی“۔ سکینہ نےغصہ میں کہا۔
میں نے کوہاٹ اور پشاور کےڈی۔آئ۔جی پولیس سےذاتی درخواست کی ہے کہ وہ اس کوڈھونڈنےمیں میری مدد کریں”۔
“ ارے اپنی زبان سنھبالیے۔ آپ میری بہن کو بےوقوف کہہ رہیں ہیں”۔ میں ہنسا۔
“ تو پھر کیا کہوں؟ وہ اسے کام کیوں کرتی ہے؟” سکینہ نےمعصومیت سے کہا۔
“ تم اس کو پگلی کہہ سکتی ہو۔ وہ بیمار ہے” میں نے ہنس کر کہا۔
“ میں یہ خبرسن کر بہت پریشان ہوں”۔ سکینہ نے کہا۔
“ اس سے پہلے کہ وہ کسی خطرے میں پڑے ہم اس کو تلاش کرلیں گے”۔ میں نےسکینہ کو تسلی دی لیکن میرا دل بھی ڈوب رہاتھا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
٭٭٭

رات کے ایک بجے فون کی گھنٹی بجی۔ آفریدی کی کال تھی۔
“ پشاورکی پولیس کومعلوم تھا کہ وہ کہاں ہوگی۔ وہ عبدل غفارخان کےحویلی پرتھی۔ ریمشاں، سرحد پراپنےآپ کو بیچ چکی تھی۔ خریدار، عبدل غفارخان کےلوگ تھے۔ بڑی مشکل سےچارگنا قیمت پرواپس کرنے پرتیار ہوۓ۔ ہم اسے ڈاکٹر صاحبہ کےگھر لےجارہے ہیں”۔ آفریدی نے کہا۔
میں نےسوچا کےننھی کواس وقت سہارے کی ضرورت ہوگی۔
“ میری بات کراسکتے ہو”۔ میں نے کہا-
“ ہاں” آفریدی نے ریمشاں کو فون دیا- [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ریمشاں۔ تم میری پیاری ننھی ہو ، میں تم سے بالکل ناراض نہیں ہوں۔ ہم کل صبع ملیں گے”۔
“ اچھا بھائی جان”۔ اس کی آواز میں اجنبیت تھی۔
عبدل غفارخان کا شمار پشاور کے معزز لوگوں میں ہے۔ ان کی پہونچ حکومت کےتمام اداوں میں ہے۔ اور پولیس کمشنراورنظام اعلٰی ان کےحلقہ احباب میں ہیں۔ وہ بہت کی نمازی اور پرہیزگارسمجھےجاتے ہیں۔ آپ تسبی کوان سےجدا نہیں کرسکتے۔ ان کی حویلی شہر سے باہر ہے- وہ افغانی نابالغ لڑ کےاور لڑکیوں، اور عورتوں کی تجارت کرتے ہیں۔
عبدل غفارخان کےایجنٹ ان کی لڑکیوں کو کئی طریقےسے حاصل کر تے ہیں۔ جب کم عمر بچےاور بچیوں والی افغانی فیملی سرحد پر پہنچتی ہے عبدل غفارخان کےایجینٹ اس فیملی پرنگاہ رکھتےہیں۔ وہ اس فیملی کو کیمپ میں جگہ لینے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک ایجینٹ یہ ظاہر کرتا ہے کے وہ ان کی ایک لڑکی سےشادی کرناچاہتاہے اور پیسوں کے بدل وہ اس پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ شادی جھوٹی ہوتی ہے اور لڑکی عبدل غفارخان کی حویلی میں منتقل کردی جاتی ہے۔ کچھ بچوں کواغوا کیاجاتا ہے کچھ کوخریدلیاجاتا ہے۔ وہ غریب ماں باپ جن کے چھ سات بچے ہوتے ہیں اپنے ایک بچے کو پیسے کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ بعض خوبصورت بالغ لڑکیوں کو روزگاری دلانے کے بہانےحویلی پہنچا دیاجاتا ہے۔
نیلام گھرمیں اس مال کوعمر، خوبصورتی، اور کنوارنا پن کےمطابق تقسیم کیاجاتا ہے۔ ہراتوار یہ نیلام ہوتا ہے۔ پاکستان کا امیرطبقہ ان لڑ کے، لڑکیاں اورعورتوں کوجنساتی غلام بنانے کے لیےخریدتے ہیں۔ کچھ تاجر، ان کو پنجاب اور کراچی کےطوائف خانوں کےلیےخریدتے ہیں۔ نوجوان خوبصورت لڑکے، بچیاں اورعورتیں مشرق وسطی والےخریدار اپنےشیخوں کے لیےخریدتے ہیں جوان کو جنساتی غلامان کی طرح رکھتے ہیں۔ خریدنےوالوں میں یورپ کےطوائف خانوں کے بھی تاجرہوتے ہیں - پاکستان کی منڈی سے یہ مال ہرسال ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ملکوں کو برآمد کیاجاتا ہے۔اس مال میں پاکستانی، افغانی، ایرانی، بنگلادشی، فلیپینی، برمی اور تھائی مال بھی شامل ہے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • دوسرا خط

    ماں
    میں ننگی ہوں - ایک عورت مجھے پردئے کے پیچھے سے اسٹیج پردھکیلتی ہے۔ماں ، کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ میں اپنے کوچھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔ مگر کہاں اور کیسے ؟ میرا کندھا اس عورت کی جکڑ میں ہے۔ میں ایک ہاتھ سےاپنا اوپراور ایک ہاتھ سے نیچے کا حصہ چھپانے کی کوشش کرتی ہوں۔ ایک مرد ، عورت سے کہتا ہے کہ اس لڑکی کے ہاتھ ہٹاؤ۔ وہ میرے ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔ دوسرا مرد کہتا ہے اس کوموڑو۔ایک مرد پوچھتا ہے کیا یہ کنواری ہے۔ عورت بلند آواز میں کہتی ہے۔ یہ دونوں طرف سے کنواری ہے۔
    ایک ہزار۔۔۔ دو ہزار۔۔۔ تین ہزار۔۔۔ چار ہزار۔۔۔
    پانچ ہزار ایک - پانچ ہزار دو - بانچ پزار تین۔ بولی بند۔
    ماں تیری بیٹی کی عصت کی قیمت پاکستان میں صرف پانچ پزار رو پیہ ہے۔

    تیری بیٹی
٭٭٭
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ڈاکٹرجملیہ نےدروازہ کھولا۔
“ ریمشاں نہا رہی ہے۔ چاۓ بنواؤں” اور بغیرجواب کا انتظار کےگھر کی دیکھ بھال کرنےوالی کوناشتہ تیار کرنے کو کہا”۔
“ یہ ریمشاں کا معاملہ ، کیا ہوا”۔ میں نےسوال کیا۔
“ وہ کل صبع تک بالکل ٹھیک تھی”۔ ڈاکٹرجملیہ نے کہا۔
“ تمہارا کیا خیال ہے”۔
“ وہ اپنے عمل سےخود کوخطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس لیے میں آپ کو بتارہی ہوں۔ مگریہ آپ تک رہےگیا”۔ڈاکٹر کی نظریں اُس دروازے پرتھیں جو باتھ روم کی طرف جاتا ہے۔
“ وہ اپنی ماں کے کے خط پڑھ رہی ہے۔ اوراُس سفر پرجانا چاہتی ہے جواُس کی ماں سے زبردستی کروایا گیا تھا”۔ [/list]
Post Reply

Return to “ناول”