حیوانوں کی بستی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]" میرا جواب اب بھی نہیں ہے"۔ میں نے کہا۔
اس سے پہلے کے میں یا آفریدی داخل انداز ہوتےنعمان نے پھرتی سے ریمشاں کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دی اوراپنی پستول نکال کر کہا کہ ریمشاں ایک سرکاری گواہ ہے اوراس وقت تک پولیس کی خفاظت میں رہ گی جب تک یہ کیس عدالت میں نہیں جاتا۔ پھراس نےاپنےموبیل فون میں کہا۔ مجھے فورا بیچ لگژری پر بیک آپ چاہیے۔
" بھائ۔گھبرائیں نہیں۔ اگر اسے اپنے کیس کی مجھ سے ذیادہ پرواہ ہوتی تو یہ مجھےآپ کے پاس نہیں لاتا۔ آپ اس کی بات توسن لیں" ریمشاں نے کہا۔
نعمان نے بتانا شروع کیا۔ ہمیں پتہ کے کس طریقہ سےلڑکیوں کو بنگلہ دیش ، ایران ، افعانستان ، چائینا ، تھائ لینڈ اور برما سے حاصل کرے اسمگلر پاکستان کی سرحد پار کرتے ہیں اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ کراچی بیرون دنیا کے لئے انسانوں کی تجارت کا اڈا ہے۔ لیکن ہمیں دوبئی لنک کی مکمل معلومات نہیں ۔ ہم چھوٹی مرغی نہیں پکڑنا چاہتے ہم سور پکڑنا چاہتےہیں۔ ہم پانی کے راستوں ، کشیتوں اوران کےمالکوں کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ ان کوگرفتار کر کےاس رینگ کو ٹوڑا جاۓ۔ ملک سے باہرہم انٹر پول ایجنسی اور دوبئ کی خفیہ پولیس کے ساتھ کام کررہے ہیں۔میں ایک سال سےاس پرخفیہ کام کررہا ہوں۔ یہ میرے لئے ایک بہترین موقع ہوگا۔
" ریمشاں کو جانے دو ۔ میں کل جواب دوں گا"۔ میں نے کہا۔
" میں ریمشاں کوصرف دوگھنٹےسےجانتا ہوں لیکن مجھےاس کا جواب پتہ ہے وہ آج بھی ہاں ہے اور کل بھی ہاں ہوگا۔اگر اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئ خاص وجہ نہ ہواورایک سولہ سال کی لڑکی اپنے آپ کواس خطرناک صورت حال میں نہیں ڈالتی۔ اور تم، تم میری تحقیقات کرنا چاہتے۔ ہم کل ملیں گے "۔نعمان نے ہنس کر کہا۔
نعمان نے ریمشاں کی ہتھکڑیاں نکال دیں۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
ساتویں قسط


سفر کی تیاری [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]سفر کی تیاری


نعمان کےجانے کے بعدمیں نےسکنیہ کو کال کراسکوتمام تفصیل بتائیں اوراسکونعمان سےمتعلق معلومات دیں-
" کیا تم ایک دن میں ان کی تصدیق کرسکتی ہو؟ میں تمہیں نعمان کی موبل فون کیمرہ سےلی ہوئ تصویر بھیج رھا ھوں"۔
" وہ توہوسکتاہے۔ انٹلیجینس سروس میں کچھ لوگ میرے جاننےوالےہیں ۔اگر نعمان سےمتعلق باتیں تصدیق بھی ہوجائیں ۔ پھر بھی میرا خیال ہے کہ یہ میل جھول ریمشاں کےلیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے"۔ سکنیہ نےاپناخدشہ ظاہر کیا۔
" مجھے پتہ ہے۔ لیکن یہ نہیں پتہ کہ اس کو کیسے رُوکوں گا۔ دوسرے وہ ریمشاں پرغلط الزام لگا ہم سب کو پریشان کرسکتا ہے"۔ میں نےسکینہ کوجواب دیا۔
" میں تمہیں شام میں کال کروں گی۔ اللہ حافظ "۔
"اللہ حافظ"۔
٭٭٭
" چلو کلفٹن چلیں۔ تم نےکبھی اونٹ کی سواری کی ہے" ۔ میں ریمشاں سے پُوچھا۔
" نہیں، میں نےتو نہیں بھائی جان " ۔ ریمشاں نےمعصومیت سے کہا۔
میں نےگیراج سےکرائے کی گاڑی نکالی اور ہم پہلےشہر کی طرف چلے۔ برنس روڈ پر بڑی بھیڑ تھی۔ گاڑی پارک کرنےکی جگہ نہیں ملی۔ میں نےڈی۔جے سائینس کالج کےقریب ایک گلی میں گاڑی پارک کے لاک کردی- اور ہم پیدل برنس روڈ کی طرف چلے۔ جامع کلاتھ مارکیٹ سے گزرتےہوئے ریمشاں نےمیرا کندھا ہلا کر کہا۔ "چوڑیاں ۔بھائی جان مجھےچوڑیاں دلائے ۔ میں چوڑیاں پہنوں گی"۔
" ٹھیک ہے لیکن اپنی پسند سےلینا مجھ سےنہ پوچھنا کہ کونسی پسند ہیں"۔
" نہیں پوچھوں گی۔ مجھےمیری پسند پتہ ہے"۔ ریمشاں نےاترا کے کہا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
تقریبا بیس پچیس سٹ دیکھنے کے ریمشاں نےہا ر مان لی۔ اس نےبسورتےہوے کہا۔" گاؤں میں تو لال، ہری ، نیلی اور پیلی چوڑیاں ہوتی تھیں۔ اتنے رنگ اور ڈیزائن تو نہیں ہوتےتھے۔ بھائی جان آپ بتائیں نا کونسی لوں"۔
" میں نے کیا کہا تھا؟"
" مجھےتو بالکل یاد نہیں نا۔ آپ بتائیں نا "۔ ریمشاں نے معصومیت سے کہا
" ان سب میں سے چھ ڈیزائن چنو"۔
" مگربھائ جان"۔
" دیرمت کرو"
" یہ والے۔ مگر مجھےان کے رنگ نہیں پسند"
میں نےدوکان دار کی طرف اشارہ کیا۔ ان کو بتاو کہ کس ڈیزائن میں کونسا رنگ چاہیے۔
پندرہ منٹ کے بعد ہم بندوخان کے دوکان پر کگڑے تھے۔ لڑکے نے پراٹھےاور نہاری کا ڈنر باکس یمارے ہاتھ میں دیا اور میں نے اس کی قیمت چُکائی ۔
جب کلفٹن پر پہنچےتوشام ہوگی تھی۔ ہم نےکلفٹن گارڈن میں بیٹھ کر بندوخان کےمشہور پراٹھےاور نہاری کھائی۔ ہم دونوں کےہاتھ چکنائی سے بھرگے۔ ریمشاں نےتھرماس سےگرم گرم چائےنکال کرمجھےدی اور خود کےلیے بھی نکالی۔
" بھائی آپ نے کہا تھا کہ اونٹ کی سواری کریں گے۔ مجھےتوآپ کےعلاوہ کوئی نہیں نظر آرہا "۔
" وہاں دیوار تک جا کرساحل سمندر کو دیکھواونٹ کی بہن" ۔ میں نے ہنس کر کہا۔
" ارے یہ توہہت ہی خوبصورت نظارہ ہے ۔ میں نےدیکھ لیا- وہ رہا اونٹ بان ۔ بھائی جان نیچے چلیں نا آپ ہر کام میں اتنی دیر کیوں کرتے ہیں"۔
تھوڑی دیرمیں ہم سمندر کی گیلی ریت پرچل رہے تھے ۔ ریمشان ایک بچے کی طرح سمندر سے کھیل رہی تھی۔ جب پانی واپس جارہا ہوتا تو وہ اس کو پکڑ نے کےلیےدوڑتی۔ جب پانی ساحل کےطرف لوٹتا تو وہ اس سے بچنے کے لیےساحل کی طرف بھاگتی۔ ایک دفعہ وہ ساحل کی طرف تیز نہیں بھاگ سکی اور لہر نےاس کو پکڑ لیا۔ ریمشاں پانی میں گر کرمکمل بھیگ گئ۔ اس کو یہ اچھا لگا اور پھروہ ساحل کےمتوازی پانی میں بھاگنے لگی۔ میں اس کے لڑکپن کودیکھ رہا تھا - مجھےسادیہ کی بےحدیاد آئی۔
" صاب ، میم صاب۔ آپ اونٹ کی سواری کرے گا"۔
میں نے پیچھےموڑ کردیکھا۔ اونٹ بان نےاونٹ کومیرے قریب بیٹھا دیاتھا۔
"ریمشاں"۔ میں چلایا۔
ریمشاں نےہماری دیکھا اوردوڑتی ہوئی آئ۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
اونٹ سواری کے بعد میں ساحل سمندر کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ ریمشاں نے پیچھے کھڑے ہو کراپنی باہیں میرے گلے میں ڈال دیں ۔اور اپنی تھوڈی کومیرے سر پر رکھ دیا۔
" بھائی جان ، مجھے پتہ ہے آپ کےدل میں کیا ہے ؟ اور یہ خاطریں کیوں ہیں؟ اور ہم سمندر کے کنارے کیوں ہیں؟" ریمشاں زور سے ہنسی ۔
" اچھا، ایک بھائ کو بہن کی خاطر کرنا منع ہے کیا؟"
" میرا ایک بھائ ہے جو مجھے بہت بہت پیارا ہے ، جسے جب کوئ چیز پریشان کرتی ہے توسمندر کی طرف بھاگتا ہے- آپ اسلئے پریشان ہیں کہ آپ کو پتہ ہے کہ میرے دل میں کیا ہے؟ " ریمشان نےسامنےآ کر میرا ماتھا پیار سےچوما اور آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر کہا۔
" تو سادیہ کی طرح میرا دل کتاب کی طرح کھول لیتی ہے" ۔ میں نے کہا۔
" لو، یہ کیا بات ہوئ ۔ آپ کےدل کا تارا ہوں میں ۔میں تو وہیں رہتی ہوں نا " ۔ ریمشاں شرارت سےکہا۔
" کیا تیرا نعمان کےساتھ جانے کا فیصلہ بدل سکتا ہے؟ " مجھے پتہ تھا کہ اسکا کیا جواب ہوگا۔
" بھائ جان ۔ جو بولیں میں آپ کےلیےکروں گی۔ لیکن آپ کو پتہ ہے کہ میرا زندہ رہنے کا مقصد ایک ہی ہے میں وہی دکھ اٹھانا چاہتی ہوں جو میری ماں نےسہےاوراس راہ پرسفر کرناچاہتی ہوں جس پرمیری ماں کوچلنے پرمجبور کردیاگیاتھا "۔ ریمشاں بسورنےلگی۔
" تم کرتو رہی ہو، میری مدد سے"۔ میں نےجھنجلا کر کہا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]" بھائ جان مجھےجانےدو"۔ ریمشاں نے میرے بازو پرچٹکی لی ۔
میرے موبل فون کی گھنٹی بجی ۔
" بھائ جان "۔ سادیہ فون پرتھی ۔
" ننھی، تم اتنی صبح" ۔
" ریمشاں کا کال آیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ مدد چاہیے" سادیہ بولی۔
" وہ کیوں؟ میں جو ہوں یہاں" ۔ میں نےحیرت سے پوچھا۔
" اس نے کہا کہ آپ دو ہاتھ کی چٹکیوں سے باز نہیں آو گے۔ چار ہاتھ چاہیں" سادیہ نےقہقہہ
لگایا۔
اچانک میرے سمجھ میں آیا کہ کیا ہورہا ہے۔ دونوں بہنیں میرے خلاف ایک دوسرے سےمل گی ہیں ۔
" ریمشاں صحیح ہے اور آپ کے پاس کوئ چارہ نہیں ہے "۔
" وہ کیسے، میں اس کو کمرے میں بند کرسکتا ہوں۔ پھر کہاں جائے گی؟ "
میں نےدیکھا ریمشان یہ سن کرہنسنے لگی۔
" آپ بھول رہے ہیں کہ نعمان اسکوگرفتار کرسکتا ہے اور اس سے اس کا سفر رک جائےگا"۔ سادیہ نےمجھےیاد دلایا۔
"دوسرے ، آپ سکینہ سےاسکی شناخت کروا رہے ہیں اس طرح ہمیں اس کی نوکری اور کردار کا پتہ چل جائےگا ، تیسرے، ریمشاں کو نعمان پر بھروسہ ہے ۔ چوتھے، آپ اور آفریدی ان پر نگاہ رکھیں گے" ۔ سادیہ نےسنجیدگی سے کہا۔
"اور آخری وجہ ، وہ آپ کی بات نہیں مانےگی۔ میں نےاسےسمجھا کردیکھ لیا"۔
" لگتا ہے توعقل مندہوگئی ہے"۔ میں نےہنس کر کہا۔
" ہوگئی کہاں سے ، جب عقل بٹ رہی تھی میں آپ کےساتھ ہی تو لائن میں کھڑی تھی۔ بھول گئے"۔ سادیہ نےہنس کر کہا۔
" تم سے کون بحث کرے اب UCLA کی اسٹودینٹ ہونا"۔
" یہ تو صحیح ہے ۔ تو پھرمیں ریمشاں کو بتادوں کہ آپ مجھ سےہارگئے؟"۔
" وہ کیوں ۔ کیا میں نہیں بتا سکتا؟"
" بھائ جان۔ آپ فون ریمشاں کودیں اور ساحل سمندر پرچہل قدمی کریں"۔ سادیہ بولی۔
" تم نےمجھ کوڈانٹ پڑوادی" ۔ میں نے منہ بسورتے ہوے فون ریمشاں کو دے دیا –[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]سکینہ کی کال رات بارہ بجے آئی ۔
" میں تم کو انفارمیشن فیکس کر رہی ہوں ۔ خلاصہ یہ ہے ۔ بندہ ، 28 سال کا ہے۔ اور سی۔ آی۔ ڈی میں آٹھ سال سے ہے ۔ ہمبرگ یونیورسٹی جرمنی سے کرِمینالوجی میں ڈاکٹر ہے اور پاکستانی انٹرسروس انٹلیجینس نے اسے ٹریننگ دی ہے۔ باپ ، وزارتِ دفاع میں انڈر سیکرٹری ہے ۔ ماں ، وزارتِ انصاف و عدل میں سرکاری وکیل ہے ۔ دوچھوٹی بہنیں ہیں ۔ ایک اسکول اور دوسری کالج میں ۔افسروں کی رائے میں سنجیدہ اور پیشہ ور ہے اور جذبات کے بجائےعقل سے کام لیتا ہے۔ کردار کی جانچ پڑتال سے پتہ چلا کہ صحیح ہے۔ اب تک کئی امتیازی تمخےحاصل کرچکا ہے" ۔سکینہ سانس لینے کےلیے رکی۔
" یہ تواچھی خبر کیونکہ ریمشاں اپنی بات پر اَ ڑھی ہوئ ہے" میں نے کہا۔
" مجھے پتہ ہے ۔تم نےسولہ سال کی لڑکی سےہا ر مان لی"۔ سکینہ نےقہقہہ لگایا۔
" کیا مطلب ؟" میں نےپوچھا۔
" اب بہت ہوشیار مت بنو ۔تمہیں پتہ ہے کہ سادیہ اور میں ایک دوسرے کےکتنےقریب ہیں۔ اگرسادیہ کھانسے بھی تو مجھے بتاتی ہے کہ آج وہ کتنی دفعہ کھانسی"۔ سکینہ نے کہا۔
" شب الخیر"۔
" سہانےخواب "۔ اور سکینہ نےہنس کر بن کردیا۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ریمشاں ، آفریدی اور میں میکلوڈ روڈ پر سی۔آئ۔ڈی کی آفس بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ فرنٹ لوبی میں ائیر پورٹ کی طرح سےچیکینگ کروا کرہم کھلےحصہ میں پہنچے۔ پولیس وردی میں ایک شخص ہماری طرف بڑھا ۔
" آپ لوگ ڈی۔آجی نعمان سےملنے آئیں ہیں؟"
" میں نےاثابت میں سر ہلایا "-
" میں ان کا پی۔ اے ہوں - کیا میں آپ کے آی۔ڈی کارڈ دیکھ سکتاہوں "
آفریدی اور میں نےاپنےشناختی کارڈ دیکھائے۔
" آپ کا شناختی کارڈ مس ریمشاں "۔ اسے ریمشاں کا نام پتہ تھا۔
" میرے پاس نہیں ہے۔ تم نعمان کو کال کرو" ۔ ریمشان نےرعب سے کہا۔
افسر نےموبل پرایک بٹن دبایا- اور ریمشاں کےحلیہ اورقدوقامت کو بیان کیا۔
" آپ لوگ میرے ساتھ آئے"۔ افسر بولا۔
کئ راستوں اور دروازوں سےگزر کرہم ایک وسیع کمرے میں داخل ہوئے - نعمان نےمیز کے پیچھےسےاٹھ کرہم سب سےہاتھ ملایا۔ اور ہم کوصوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور پی۔ اے کو چائے لانے کو کہا۔
" آپ نےسکینہ کےذریعےمیرے متعلق سب تصدیق کرلیا ہوگا"۔ نعمان نےہنس کر کہا۔
میں سمجھ گیا کہ اس نےہمارے بارے میں بھی تحقیقات کیں ہیں۔
" دنیا کے بڑے اور سنگین جرائم میں انسانوں کی تجارت تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ اس وقت دنیا میں 2 کروڑ 70 لاکھ انسان غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عورتوں کا عالمی بیوپار ایک نیا مسلہ نہیں ہے۔ لیکن اب جرائم کے پیشہ ور نیٹ ورک اس جرم کو کنڑول کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسحلہ اور ناجائز نشہ ور چیزوں کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔ اسلئے ہمارے پاس دو مسائل ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے بنیادی انسانی حقوق اور ان کی جانی حفاظت "۔نعمان نے بولنا شروع کیا۔
عورتوں اور بچوں کوجنسیاتی اور مزدوری کےغلام بنانے کی تجارت کا منبع اور نقل و مقام ہے ایشیا میں پاکستان ہے۔
نیپالی، بنگلا دیشی ، ہندوستانی، ایرانی ، برمی، افغانی ، کازخستانی ، کرگز رتانی ، ترکمینستانی ، ازبکستانی عورتیں کو پاکستان لایا جاتا ہے اورانہیں یہاں سے مشرق وسطہ ، یورپ اور امریکہ میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جہاں یہ عورتیں جنسی غلامی میں بیچ دی جاتی ہیں ۔
یہ مسئلہ پاکستان کا اپنا اندونی بھی ہے۔جو کہ ہمارے رسم ورواج نے پیدا کیا ہے۔ مگراس سے توتم لوگ واقف ہو۔
یو۔ایس۔اے کےاسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی 2004 کی رپورٹ " انسانوں کا بیوپار" کے مطابق ہرسال 6 سے8 لاکھ عورتیں اور بچوں کا عالمی حدود کے آرپار بیوپار ہوتا ہے۔ان میں سے 70% عورتیں اور 30% بچےہوتےہیں ذیادہ ترملظوم کو عصمت فروشی کےلیے بیچااورخریداجاتا ہے۔
پاکستان میں 2002 کا آرڈیننس نےفیڈرل انویسٹگشن ایجنسی کےاندرانسانوں کے بیوپار کے خلاف کےایک یونٹ بنایا ہے اس کوانٹی۔ٹرافکینگ۔یونٹ کہتے ہیں۔ میں آج کل کراچی میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
2004 میں ہم نے 479 کیس پر کام کیا، 289 لوگوں کوپکڑا ، 248 کورٹ میں مقدمے کیے اور 72 افراد کوسزا دلوائی۔ لیکن ہم اس منحوسیت کو کم کرنےمیں کامیاب نہیں ہوئےہیں ۔
جس کیس میں اس وقت میں کام کر رہا ہوں اس میں ہمیں امید ہے کہ ہم ایک بڑےگروہ کوتباہ کرنےمیں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ مسئلہ یہ کہ ہرچیزہمارے پلان کےمطابق کام کررہی تھی اورتم لوگ نمودارہوگے۔ اب معاملہ کی نوعیت بدل گی۔اگر ریمشاں اس میں حصہ نہیں لے گی تو مجھےاپنے کواس تحقیقات سےعلحیدہ کرنا پڑےگا اورہمارا اس گروہ تعلق ختم ہوجائےگا۔ اورہم ان کی نگرانی نہیں رکھ سکیں گے" ۔
نعمان خاموش ہوگیا۔ افسر نےداخل ہو کرسب کوگرم گرم چائےدی۔
" میرے پاس تم لوگوں کی پوری رپورٹ ہے اور مجھےاب یہ بھی پتہ ہے کے ریمشاں تمہارا سفر کیا ہے۔ تمہارا بھائی تم کو یہاں سے آگےنہیں لےجاسکتا۔ میں اب تمہارا ہم سفرہوں"۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
آٹھویں قسط


سفر [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]سفر
ماں ۔ میں ایک20 فٹ کےٹین کے ڈبےمیں بند ہوں ۔ دسیوں میری ہم عمر لڑکیاں اس ڈبہ میں بغیرآواز رورہی ہیں دھوپ سےچھت تپ رہی ہے۔ ہم سب پسینےشرابور ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ باہر پہرا ہے اور اگر ہم نےکوئی آوازیں نکالیں تووہ ہمیں جان سےمار دیں گے۔ [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ریمشاں نےچھ انچ کی جالی میں سےکنٹینر کے باہردیکھا۔ وہ سب سےاوپر والے بسترے پرتھی۔ ریمشاں سامان اٹھانےوالی بڑی بڑی کرینوں کو بندرگاہ پردیکھ سکتی تھی۔ اور کچھ دورسمندر کا پانی سورج کی کرنوں سےجھلملارہاتھا۔ اسکی شلواراورقمیض پسینےمیں بھیگ کراسکےجسم سی چپک گی تھیں۔ ایسا لگتا تھاجیسےاس نے کپڑے پہنےغسل کیا ہو۔ وہ بالکل ننگی لگ رہی تھی۔ رات ہونےمیں چارگھنٹےاور باقی تھےجوانہیں اس ڈبےمیں گزارنےہوں گے۔ یہ صرف اس کو پتہ تھا۔
نعمان نےاس کو بتایا تھا کہ کراچی سے بلوچستان کا سفر مکران کوسٹل ہائی وے این10 پر ہوگا - کراچی سےگوادہرکی بندرگاہ کا سفر بارہ گھنٹے کا ہے۔ لڑکیوں لاریوں کے ذریع گوادہر کی بندرگاہ پر لےجایا جائےگا اور وہاں ان کوایک کنٹینر میں مقفل کردیا جائےگا۔ رات کےاندھیرے میں کرین اس کنٹینر کو پانی کے ایک جہاز پرلاد دےگی۔اوردوبئی کا سفرشروع ہوگا۔ دو دن کے بعد جہاز پورٹ راشد پر پہنچ جائے گے۔ نعمان نے کہا تھا کہ وہ اس سےدور نہیں ہوگا۔
کنٹینر میں اس کوملا کر40 لڑکیاں تھیں۔ کنٹینر میں دس قطاریں تھیں۔ ہرقطارمیں ایک بنک بیڈ تھا۔ ہر بنک بیڈ پرچار بستر، چار منزل کا بسترخانہ بنا رہے تھے۔ بستر دو دو فٹ چوڑے ، دو فٹ اونچےاور ساڑھے پانچ فٹ لمبے تھےاس کا اندازہ ریمشاں نےاپنےقد سے لگایا۔ ہر بستر کےسرہانےایک چھ انچ کا سوراخ تھا۔ جس پر لوہے کی جالی تھی۔ اس جالی سے ہوا اور کچھ روشنی کنٹینر میں داخل ہورہی تھی۔
ریمشاں نے کھڑکی کے باہر دیکھا سورج نےمغرب کی طرف اپنا سفرجاری رکھا۔سورج ایک نارنگی بن گیا۔ اور اسس رنگ نے بادلوں میں قوس و قزح کا ایک سماں پیدا کردیا ۔ ریمشان نے اندازہ کیا کہ باہرکا درجہ حرارت اب کم ہوگیا ہے ۔ لیکن ڈبہ کی گرمی میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔
ریشماں صرف اوپری منزل کے بستر دیکھ سکتی تھی۔ وقت گرازنےکے لئےریمشاں نےان لڑکیوں کی شہریت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اس کےدائیں طرف چارلڑکیوں کے بسترتھے اور بائیں جانب پانچ ۔وہ سب مختلف ملکوں سےتعلق رکھتی تھیں- [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]سفید رنگ والی شاید ایران ، افغانستان ، یا صوبہ سرحداور کالے رنگ والی بنگلہ دیش، ہندوستاں اور پاکستان سے ہونگی۔ اسےذیادہ ملکوں اوران کےجغرافیہ کی علمیت نہیں تھی۔ گرمی اور حبس میں کچھ کمی ہونے لگی ۔ باہراندھیرا ہوگیا تھا۔
ریمشاں کو اپنی ماں یاد آئی۔ میری ماں یہاں تھی۔ یہ لڑکیاں اسکی ماں کی طرح ہیں۔ جنہیں کچھ نہیں پتہ ھے کہ وہ کہاں ہیں ، کیوں ہیں اور کہاں لیےجائےجارہی ہیں؟ اس نےاپنی ماں کی بے بسی اور بے چینی محسوس کی۔ ریمشاں نے ایک سبکی لی اور اسکی آنکھوں سےآنسو بہنے لگے۔ ماں، ماں اس نے کہنے کی کوشش کی۔ میں تمہارے پاس ہوں نا ، ماں ۔ تم اب مت ڈرو ۔ میں تمھارے پاس ہوں ماں ۔ اور وہ زارقطار رونےلگی۔
اچانک کنٹینر ہلا اور جھولنا شروع کردیا۔ لڑکیوں نے بستروں کو مضبوطی سے پکڑا۔ مگرخود کو لوٹ پوٹ سے روکنا نا ممکن تھا۔ ریمشاں نے آنسووں کو پوچھ کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ کرین ، کنٹینر کو ایک اونچائی پر لے آئی تھی۔ اوراب جہاز کی طرف لیےجارہی تھی۔ لڑکیاں اب کھڑکی کے باہردیکھ کرخوف میں بستروں سے چپکی تھیں ۔ تھوڑی سی دیرمیں کرین نے کنٹینر کوجہاز کے ڈیک پررکھ دیا۔
کنٹینر نےجیسے پانی کئ جہاز کے ڈیک کو چھوآ جہاز نےچلنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بندرگاہ سےدور تھے۔ ریمشاں نےمڑ کردیکھا اور بلندآوازمیں کہا
" الوعدہ میرے خدا۔اب ہم تیری ملکیت سے باہرہیں۔ ہم تجھےتیری ذمہ دار سے بری کرتے ہیں ۔ اب توہمارا خدا نہیں ہے ۔یہاں سےحیوانوں کی بستی شروع ہوتی ہے۔ یہاں ہمارے خدا دوسرے ہیں"۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]دروازہ کھول کرایک مرد نےچلا کرسب کو باہر آنے کا کہا۔ ریمشاں نےدیکھا کہ اس سے پہلے نکلنے والی لڑکیاں ایک مرد کے پیچھےایک کھلےدروازے کی طرف جارہی تھیں۔ اس نےبھی ان کے پیچھےچلنا شروع کردیا اوردروازے میں میں داخل ہوگئی وہ ایک چبوترہ پرتھی اور اس کے سامنےایک منزل نیچےایک کھلی ھوئی جگہ تھی۔ لڑکیاں سڑھیاں اتررہی تھیں ۔ وہ بھی اترنے لگی۔ کمرے میں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئ ۔ ریمشاں نے بڑی مشکل سےمتلی کو روکا۔ جب آخری لڑکی سیڑھی اترچکی۔ مردوں نےدروازہ بند کردیا۔
ریمشاں نے ایک مدھم بلب کی روشنی کمرے کا جائزہ لیا ۔ وہ تقریبا سوفٹ لمبےاور بیس فٹ چوڑے کمرے میں تھے۔ اس کےدائیں طرف کمرے کے آخر میں ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔ یہ پاخانہ کرنے کی جگہ ہوگی۔اس سے پہلے کہ کسی اور لڑکی کواس کاخیال آتا۔ ریمشاں کمرے کی طرف بڑھی ۔ جیسے جیسے وہ کمرے کے قریب آتی گئی بدبو میں اضافہ ہوتا گیا۔اس نے دروازے کا پردا اٹھا کردیکھا اسکا خیال صحیح تھا۔ ریمشاں اندر داخل ہوئی اور اپنے کوکر رَفع حاجت سےفارغ کیا۔ یہاں ایک ٹوٹا ہوا پانی کا نلکا تھا مگرلوٹا نہیں۔ اس نےاپنےڈوپتے سے کےکنارے سے تین ٹکڑے پھاڑے ایک ٹکڑے سے اپنےآپ کو پُونچھا اور پھر پہلےدوسرا ٹکڑا کو پانی میں گیلا کر کر کے اپنے آپ کو صاف کیا اور تیسرے سے سکھایا۔ ٹوکری اوپر تک بھری تھی۔ ریمشاں نے ڈوپٹے کےگندے ٹکڑوں کو ٹوکری کے اُ بھرتے ہوئے ڈھیر پر ڈال دیا۔
جب ریمشاں باہرنکلی تو پاخانہ کے سامنے ایک لائن بن چکی تھی ۔ پاخانے کےسیدھےہاتھ پر کمبلوں کا ایک ڈھیرتھا ۔ ریمشاں نےلپک کرتین کمبل اٹھا لیےاور کمرے کےاس کونے کا رخ کیا جو پاخانےاورسیٹرھیوں سے بہت دورتھا۔ یکے بعددیگر ے دو لڑکیوں نےاس کی طرف رخ کیا۔
وہ ریمشاں کر قریب آ کر رک گئیں ۔ایک نے اپنا کمبل ریمشاں کر دائیں طرف اور دوسری نے ریمشاں کر بائیں طرف لگا دیا۔ ریمشاں کو ان کا بدن دیکھ کر ایسا لگا جیسے کےوہ دونوں وردیش کرتی ہوں ۔
ریمشاں کی نیند پکی نہیں لگی ۔ تھوڑی تھوڑی دیرمیں اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اس نےکسی کے چلانے اور رونے کی آواز سننی اور مردوں کےڈانٹنے کی اور تھپڑ مارنے کی۔ اس نےگھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر دیکھا۔ چار، یا پانچ مرد لڑکیوں سے زبردستی زنا کررہے تھے۔ وہ کیا کرسکتی تھی۔ کچھ بھی نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نےسیٹرھیوں سےدور جگہ کا انتخاب کیاتھا۔ تھوڑی دیر میں ہنگامہ ختم ہوگیا اورمرد جاچکےتھے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے پھرچلانےاور رونے کی ڈانٹنے اور تھپڑ مارنے کی آوازیں سننی۔ یہ سلسلہ رات پر جاری رہا۔اور ریمشاں کانپتی رہی۔ شاید یہ ڈر تھا یا سردی یا دونوں۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]صبح دروزہ کھلا اورسورج کی روشنی نے کمرے کوچمکا دیا۔ ایک مرد نےاندر آ کر کچھ لڑکیوں کواس کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا۔ لڑکیاں ہچکچائیں۔ مرد نےغصہ سےایک کےچانٹا مارا دوسری کے پیٹ میں لات ماری اور تیسری کے بال پکڑ کرسیڑھی کی طرف کھینچا۔ تینوں لڑکیاں روتی ہوئی اس کے پیچھے چلیں دئیں۔ کمرے میں ایک افسردگی چھاگئی۔ شاید ہرلڑکی اپنے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کے ساتہ کیا ہوگا۔
ایک گھنٹہ بعد ریمشاں نےان تین لڑکیوں کو واپس آتےدیکھا۔ ان کےہاتوں میں بالٹیاں تھیں۔ اور دو مردوں کےہاتھوں میں کاغذ کی پلیٹیں اور پلاسٹک کےچمچےاور پانی کی بالٹیاں۔ تینوں لڑکیوں کےسامنےقطاریں بن گئیں۔
دو دن کےبھوکی پیاسی لڑکیوں کےلیے یہ دلیا اورایک نعمت تھی ۔ ریمشاں نے اپنا حصہ وصول کیا اور اپنے کونے میں واپس آکر بیٹھ گئی اور دلیا کھانے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میری ماں نے بھی اس قسم کے جہاز میں سفر کیا ہوگا۔ مگر وہ تو مجھ سے ذیادہ معصوم ہوگی۔ پچیس سال پہلے تواس کو کچھ بھی نہیں پتہ ہوگا۔ مجھےتوتھوڑا بہت پتہ ہے کہ مجھے کہاں لےجایا جارہا ہے اور میرے ساتھ کیا ہوسکتا ہے ۔
کیا کسی نے ماں کو تھپڑ مارا ہوگا یا کسی نےاس کے بال کھینچے ہونگے؟
کیا کیسی نے اس کے پیٹ پر لات ماری ہوگی؟
کیا اس کےساتھ زنا بلجبر ہوا ہوگا؟
کیا وہ بے بسی اور تکلیف میں وہ نانی کا نام لے کرچلائی ہوگی؟
کیا اس کھوکھلے کمرے میں ماں کی چیخیں ان لڑکیوں کی طرح گونجی ہوں گی؟
کیا ماں کا خدا اس پرہنسا ہوگا ؟
نعمان اس وقت کہاں ہے؟ وہ میری حفاظت کیسے کرےگا؟
بھیا میں وعدہ کرتی ہوں میں آپ کی ہر بات مانوگی۔ مجھے یہاں سے لے جاؤ ۔ان باتیں سوچ کر ان کو زبردست متلی ہوئی اور اس نے قَے کردی۔
سمندر ظغیانی پرتھا۔ موجزن سمندر سےجہاز جھولے کھا رہا تھا۔ بہت سی لڑکیوں کو متلی ہورہی تھی اور کچھ قَے کر رہی تھیں۔
دوپہرمیں لڑکیوں کو ڈیک پر لایا گیا اور پہرے داروں کے درمیان انہوں نے سورج کی روشنی میں سمندر کی کھلی ہوا کو سونگھا۔ ریمشاں کو اتنی بدبو سونگھنے کے بعد تازی ہوا بہت اچھی لگی ۔دونوں لڑکیاں جواس کے قریب سوئی تھیں ڈیک پر بھی اس سے ذیادہ دور نہیں ہوئیں ۔
شام کو پھر وہی دلیا ملا۔ اس دفعہ ریمشان کودلیا اتنا خراب نہیں لگا اور وہ پورا پیالہ کھا گئی ۔ رات آئی اور پھراس نے رونے، چلانےاورالتجاؤں کی آوازیں سننی ۔اس نے روتے ہوتے کہا ۔ کیا خدا بہرا اوراندھا ہے؟ ۔ کیا وہ نہیں دیکھ سکتا کہ ان بیٹیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]رات کے ایک پہر میں شور وغل اور ہنگامہ شروع ہوگیا۔
برابر کی دونوں لڑکیوں نے ایک ساتھ کہا " تم ہمارے ساتھ رہنا"۔
ریمشاں ان لڑکیوں کےساتھ ڈیک پر آئی۔ کچھ دور شہر کی روشنی نظر آرہی تھی۔ تمام لڑکیوں کو ربر کی انجن والی کشتیوں میں اتارا جارہا تھا ریمشاں ان دونوں کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوگئ ۔ کشتیاں تیزی سے ساحل سمندر کی طرف چلی ۔ ساحل پر مردوں نے سب کو ایک گلی کی طرف جانے کا اشارہ جہاں چھ منی وین ان کا انتظار کر رہی تھیں۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]

حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
آخری قسط


دوبئی [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]دوبئی

' ریدا ' ہوٹل، دوبئی سٹی کےگرد و نواح میں ابودھابی سےایک گھنٹے کا فاصلہ پر ہے۔ اس خوبصورت ہوٹل سےایمرت گولف کلب ، دوبئی انٹرنیٹ اینڈ میڈیا سٹی اورجبل علی فری زون بہت قریب ہیں۔ عربی میں ریدا اسے کہتے ہیں جس پرخدا کا فضل و کرم ہو ۔ اس 20 منزلہ ھوٹل ميں400 شاندار کمرے ہیں۔ 150 ایکڑ کی زمین پر باغات، مچھلیوں سے بھرے تالاب اور جگہ جگہ پانی کے آبشار ہیں۔
جب منی وین ہوٹل کے کچن کےدروازے پر پہنچی تو سورج کی پہلی کرن ہوٹل کی جھیل پرتلملارہی تھی۔ پہراداروں نےلڑکیوں کوجلد ہی ملازموں کو لےجانےوالی لفٹ سے پانچویں فلور پرپہنچا دیاگیا۔ یہ سارا فلور، ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' کےلئےمخصوص ہے۔ فلور پر اُن کا اسقتبال پانچ عورتوں نے کیا جن کی عمریں پینتیس سے چالیس کے لگ بھگ ہوں گی۔ یہاں لڑکیوں کو پانچ گروپ میں تقسیم کردیا گیا۔ ہرکمرے میں چار بنک بیڈ تھے۔ چار، چارلڑکیوں کوایک، ایک روم میں رکھاگیا۔ کپڑوں کے کلازٹ عمدہ کپڑوں سےبھرے تھے۔ لڑکیوں کوحکم دیا گیا کہ وہ نہا دھو کراس فلور کی کانفرنس روم میں جمع ہوں۔ ریمشاں اور اسکی ساتھیاں ایک ساتھ رہیں۔ لفٹ کےدروازے پرایک پہرے دار تھا۔اس کےعلاوہ ایسا لگتا تھا کہ ان کے فلور پر چلنے پھرنے پر کوئی کوئی پابندی نہیں تھی ۔
ریمشاں اور اس کی ساتھیوں نےنہا کرسادہ کپڑے پہنےاور راہداری میں چلتی ہوئی کانفرنس روم میں پہنچیں۔ کانفرنس روم میں پانچ لمبی میزیں لگی ہوئی تھیں۔ ہر میز کےاردگرد نو کرسیاں تھیں۔اور میزوں پرناشتہ کے تمام لوازمات تھے۔ ویٹرہاتھ باندھے کھڑے اشارہ کے منتظرتھے۔
ہرایک گروپ کی ذمہ دار ایک عورت تھی جس نے آپنے کو ایک گائیڈ کہا۔ گائیڈ نےاپنی مقررہ لڑکیوں کو اپنےساتھ بیٹھایا۔ سب لڑکیاں ڈری اور سہمی ہوئی تھیں مگراس برتاؤ سےان کےحفاظتی خول کمزور ہونےلگے۔
"یہ تو کوئی بُری جگہ نہیں ہے"۔ ریمشاں کی ایک ساتھی نے بہت دہمی آواز میں دوسری ساتھی سے مسکرا کر کہا۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]" آگے آگےدیکھئے ہوتاہے کیا؟"۔ دوسری ساتھی نےمسکرا کر دہمےسے کہا۔
ریمشاں کوحیرت ہوئ کہ یہ دونوں اسےحالات میں بھی مسکرا سکتی ہیں۔
"میں آپ کو' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' کی طرف سےخوش آمدید کہتا ہوں" ۔ کانفرنس روم کا بڑا سکرین روشن ہوگیا۔ ریمشاں کوسکرین پرتیس پنیتیس کی عمر کا ایک خوبصورت نوجوان تھا۔
" ہماری آرگنائزیشن کا مقصد ملکوں کے کلچر کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔تم اب کو' دوبئی ڈانس انٹرنیشل کی ملازمت میں ہو۔ ہمارے ڈانس انسٹرکٹر تم کو ڈانس کی تربیت دیں گے۔ اورتم ان کو پرائیوٹ پارٹیزمیں پیش کروگئ۔ ہرایک کو تمہارے ملکوں سے یہاں لانے میں ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' نے نوے ہزار درہام خرچ کئے ہیں۔ یہ ہمارا تم کوایڈوانس پیمنٹ ہے ۔ ایک طرح سے بغیر سود کا قرضہ ہے ۔ تمہاری تنخواہ اتھارہ درہام ہوگی ۔ اس وجہ سے تمہارے پہلے چار سال کی تنخواہ اس قرضہ کو نمٹائے گی۔ اس دوران تمہارے رہنے کی جگہ ، کپڑے اور کھانا ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' مہیا کرے گا۔ جس کے لیے تمہیں ہمارے لیےایک سال اور کام کرنا ہوگا۔ سب ملا کر تم ہمارے لیے پانچ سال کام کروگی۔
" میں کام نہیں کروں گی مجھےگھرجانےدو"۔ ایک لڑکی چلائی۔
دو اور لڑکیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
" ٹھیک ہے تم جاسکتی ہو "۔ نوجوان نے مسکرا کرکہا۔
پہرے دار ان لڑکیوں کو کمرے سے باہر لےگے۔
" اب آپ کی گائیڈ آپ کےٹرینگ اسکیجول سےواقف کریں گی"۔ سکرین خالی ہوگیا۔
" چلو ایک فائدہ تو ہوگا" ۔ ریمشاں کی دوسری ساتھی سےدھمی آواز میں کہا۔
" کیا"۔ پہلی نےپوچھا۔
" ڈانس توسیکھنےکو ملےگا"۔ دوسری نے مسکرا کر دہمےسےکہا۔
ریمشاں نےسوچا ، یہ دونوں پاگل ہوگئی ہیں۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]اس دن کے بعد ریمشاں کو وہ لڑکیاں جنہوں نے کانفرنس روم میں آواز نکالی تھیں نظرنہیں آئیں۔ ساتھیوں نے ریمشاں کو بتایا کہ وہ لڑکیاں دوسرے ملکوں کو بیچ دی جائیں گی۔ اگلےدوہفتہ ریمشاں نےایسی فلور پرڈانس اسٹودیو میں ڈانس سیکھنےمیں گزارے۔ ناچ ،انڈین کلاسیکل تھے مگرانداز بہت سکسی تھے۔ لڑکیوں کومردوں کوجنسی طور پر اُکسانے کےطریقے سیکھائے گے۔ گائیڈز کمرے کےعلاوہ ہروقت ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ان کے فلور پر پہرا تھا۔ اور کسی کو فلور سے باہرجانے کی اجازت نہیں تھی۔ دونوں ساتھیاں اب ریمشاں کی اچھی دوست بن گئی تھیں اور ریمشاں ان پر بھروسہ کرنے لگی تھی۔ ایک نے اپنا نام جمیلہ اور دوسری نے نسرین بتایا۔ دو ہفتہ حتم ہونے تک لڑکیوں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہاں سے فرا ر کا راستہ نہیں ہے۔ جن لڑکیوں نے ایسی کوشش کی ان کو مارا گیا۔ ڈانس کے کپڑے بدلنے کےدوران ریمشاں نےان لڑکیوں کے بدن پر نیل کے نشان دیکھے۔ ڈانس سےگریجویشن کی رات آئی۔سب لڑکیوں کو کانفرنس روم میں جمع کیا گیا۔
سکرین چمکا۔
" آج سےتمہاری ملازمت شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی دیرمیں یہاں ہمارے مہمان آئیں گےتمہارا کام ان کوخوش کرنا ہے۔ ان کا دیا ہوا مواضع تمہارا قرضہ نمٹائےگا۔ اگر تم نےایسا نہیں کیا توتمہیں سخت سزا ملےگی"۔
"جب کوئی مہمان تمہں پسند کرےاور تمہارے پاس آئے تواس سے پیار اور محبت سے پیش آو اور اپنے کمرے میں مدعو کرو۔ اسےخوش کرکےیہاں واپس آو۔ ہرایک مہمان کوخوش کرنے میں دس منٹ سےذیادہ نہیں لگانا آج رات تم ہر ایک کے لئے چالیس چالیس مہمان ہیں۔ "۔ گائیڈ نے اپنے اپنے گروپ سے کہا
" ریمشاں۔ تم ہم پرنظر رکھنا جب تک ہم کمرے میں ناجائیں ۔تم اکیلی مہمان کے ساتھ کمرے میں مت جانا"۔ ایک ساتھی نے کہا۔
" سمجھ رہی ہونا"۔ دوسری نےزور دیا۔
" ہاں میں تم دونوں سے پہلے کمرے میں نہیں جاؤں گی۔ مگر یہ سب کیا ہو رہا ہے"۔ ریمشاں سہم گی۔ اس نےدل میں اپنے آپ کو کوسا۔ یہ کسی غلطی ہوئ مجھ سے۔ نعمان کہاں ہے؟ بھیا کہاں ہیں؟[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]کمرا مردوں سے بھرگیا۔ پانچوں گروپ نےایک کے بعدایک ڈانس پیش کۓ۔ ڈانس کے بعد سب لڑکیوں کو ایک لائن میں کھڑا کردیا گیا۔
" ہائے " ۔ ایک ادھیڑعمر کے عربی آدمی جس کی توند چوغےسے بھی نکل رہی تھی اپنےسڑے ہوے دانت نکال کر کہا۔
ریمشاں کواسے دیکھ کر کراہت ہوئی۔ لیکن مگرگروپ گائیڈ کی نظرگروپ کی تمام لڑکیوں پر تھی۔ گائیڈ نے ریمشاں کوآنکھیں نکال کردیکھا۔
" ہائے " ریمشاں نے بناؤٹی مسکراہٹ سے کہا۔
" تم نام کیا؟"۔ عربی نےٹوٹی پھوٹی اردو بولنے کی کوشش کی ۔
" سمیرہ "۔ ریمشاں نےاسکو اپنا دیا ہوا نام بتایا۔
" ہم کو مطلب معلوم سمیرہ ، تم ہمارا دوست آج "۔ یہ کہہ کر اس نے ریمشاں کی کمرمیں ہاتھ ڈال کے اپنی طرف کھینچا۔
شراب کی بدبو نے ریمشاں کی ناک بھردی۔ اس نےگرفت سےنکلنا چاہا۔ مگرگائیڈ نے پھرآنکھیں دیکھائیں ۔
عربی نے ریمشاں کا بوسہ لینے کے لیے منہ بڑھایا۔ریمشاں نے پھرتی سےگال سامنے کردیا۔ عربی کا بوسہ ریمشاں کے لبوں کے بجائےاس کےگال پر پڑا۔ اس نے ریمشاں کےگال کا ایک بڑا بوسہ لیا اوراپنےدونوں ہاتھ ریمشاں کےگرد ڈال کراس کے کولہوں کوپکڑا اور ایک گیند کی طرح دبایا۔ اچانک کیسی نے ریمشاں کے کندھے پرہاتھ کر کہا چلو۔ اس آواز نے ریمشاں میں توانائی ڈال دی ۔اس نےموڑ کر دیکھا۔ اس کی دونوں نستین اور جمیلہ ی اپنے مہمانوں کےساتھ اس کے نزدیک کھڑی تھیں۔ ریمشاں نے پیار سےعربی کوجدا کیا اوراسکاایک ہاتھ پکڑ کردروازے کا رخ کیا۔
وہ مہمانوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے نسرین نے بار پرجاکر گلاسوں میں شراب انڈیلی اور مہمانوں کو پیش کی۔ اس نےتین اورگلاس بنائے اور ایک ریشماں کودیا۔ ریمشاں سے پُشتو میں کہا ۔
" یہ شراب نہیں ہے"۔
ریمشاں حیران رہ گئی ۔ یہ ساتھیاں کون ہیں؟ اس نےسوچا۔[/list]
Post Reply

Return to “ناول”