حیوانوں کی بستی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

حیوانوں کی بستی

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]حیوانوں کی بستی

سید تفسیر احمد

پہلی قسط


کوہاٹ [/center].
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]
کوہاٹ

سکینہ کوجمیتِ اسلامی زنان افغانستان (Revolutionary Association of the Women of (Afghanistan) نے" عورتوں کے حقوق " پر تقریر کے لۓ بلایا تھا۔ کیونکہ میں مصروف نہیں تھا میں بھی ساتھ چلا آیا۔افغانستان کی روشن خیال عورتوں نے" مینا" کی نمائندگی میں افغانستان کی عورتوں کےانسانی حقوق اور سماجی انصاف کے لے 1977 میں ایک تحریک شروع کی جو آج RAWA کہلاتی ہے۔مینا نے کالج کو چھوڑ کر اپنی چھوٹی زندگی کے بارہ سال افغانی عورتوں کے لے گزاردیے۔
1987 میں روس نےحکمت یار کی مدد سے مینا کو کوہاٹ میں گلبدن کےلوگوں سےقتل کروادیا۔ مینا مرگئی لیکن جمیعت آج بھی زندہ ہے اور افغانی عورتوں کی فلاح اور بہبود کے لۓ کام کررہی ہے۔ [/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • سکینہ

    اسٹیج پرتھی اور میں شامیانےمیں۔ جدھر دیکھو عورتیں ہی عورتیں تھیں اور میں اپنے کو بے جگہ محسوس کررہا تھا۔
    " تفسیر جی"۔ کسی نے کہا۔
    میں نے آواز کی جانب نگاہ کی۔
    " آداب عرض ہے"۔
    میری ایک ہم عمر عورت مجھ سے مخاطب تھی ۔
    " آداب "۔ میں نے سر کو ہلاتے ہوۓ کہا۔
    میرا نام ساجدہ ہے اور میں“ راوا “ کےاسپتال میں کام کرتی ہوں۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔
    میں نے اپنا ہاتھ ملانے کےلۓ بڑھایا۔ لیکن اسکا ہاتھ آگےنہ بڑھا۔ میں نےاپنا ہاتھ شرمندگی سےگرادیا۔
    "بُرا نا مانیں - اگر میں آپ کو پاکستان سے باہر ملتی تو نہ صرف آپ سے ہاتھ ملاتی بلکہ گلےلگ جاتی ، آپ میرے ہیرو ہیں۔ آپ ہی کی وجہ ہے کہ میں نیویارک کے بجاۓ یہاں پریکٹس کر رہی ہوں۔
    مجھ کوحیرت میں دیکھ کر وہ ہنسی۔ " میں آپ کو اس لۓ جانتی ہوں کہ دو سال پہلےنیویارک میں نے, آپکی کتاب ' پختون کی بیٹی ' پڑھی تھی۔اس کے پچھلےصفحہ پر آپکی تصویر تھی۔ میں اس کتاب کو پڑھ کر بہت روئی تھی۔ اوراُسی دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میڈیکل کالج ختم کرنے کے بعد میں پاکستان میں پریکٹس کروں گی اور اپنی بہنوں کی خدمت کروں گی"۔
    میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسے موقع پر کیا کہا جاتاہے۔ پہلی بار زندگی میں میرے ساتھ یہ ہورہا تھا۔ میں خاموش رہا۔
    " میں نے آپ کی کوئی دوسری کتاب نہیں دیکھی۔ کیا آپ اب بھی لکھتے ہیں؟
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
"میرا کام اور دوسری مصروفیات اسکی اجازت نہیں دیتے "۔ میں نےاس عورت سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ میں چاہتا تھا کہ یہ موضوع کس طرح جلد ختم ہوجاۓ۔
"اب صرف خبریں رہ گی ہیں اور کہانیاں کھوگی ہیں"۔ میں نے جھنجلا کرجواب دیا۔
" کیااچھاہوتا کہ آپ لکھنا جاری رکھتے۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے آپ کی سب بہنوں کو"۔
" میرے پاس ایک کہانی ہے جو صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیں"۔ ساجدہ نے کہا۔
اس نے سکینہ کو ہماری طرف آتے دیکھا۔
"وہ جو ، ہماری طرف آرہی ہیں کیا آپ کی بیوی ہیں؟"
" آپ ان کونہیں جانتیں، وہ سکینہ ہیں"۔ میں نے قہقہہ لگا کرکہا۔
" جو میں نے پڑھاتھا تو وہ سب حقیقت تھی “۔ ساجدہ نے کہا۔
"اچھا میں چلتی ہوں۔ میں نے جو کہا ہے آپ اس کے بارے میں سوچیں۔ خدا حافظ"۔
" وہ کون تھی؟۔ میں تم کو ایک لمحہ بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتی"۔ سکینہ نے ہنس کر مذاق کیا۔
" وہ ' راوا ' کی ایک ڈاکٹر ہے۔ 5 سال پہلےجس طرح تم نے چاہا تھا کہ میں تمہاری گل کی کہانی لکھوں آج وہ بھی تمہاری ہی طرح یہ چاہتی ہے کہ میں ایک کہانی لکھوں “۔
"ہاں مجھے چھوڑ کے ، تمہں تو جانے کی بہت پریکٹس ہے"۔ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
سکینہ نے اپنا منہ دوسری پھر لیا۔ مجھے پتہ تھا کہ میں غلط تھا۔ مگر ہم بے وقوف مرد ہمشہ عورت کو اپنی کمزوی کا الزام دیتے ہیں۔ایک سکوت طاری ہوگیا۔
گاڑیوں کی بھیڑ میں ہم نےجیپ تلاش کی۔ اور کوہاٹ کا راستہ پکڑا۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]فون کی گھنٹی بجی۔ آفس سکریٹری نے کہا۔ ڈاکڑساجدہ کی کال ہے۔
میں نے کہاـ " کنکٹ کرو"۔
"ہیلو"۔
"تفسیر صاحب"۔
"ساجدہ کیا حال ہیں "
" ٹھیک ہیں۔ آپ نے پھر سوچا۔ کہانی لکھنے کا "۔
" کیا میں نے وعدہ کیا تھا؟ " میں نے بےدلی سے پوچھا۔
" نہیں تو۔ لیکن میں نےسوچا ، میرا ہیرو مجھے مایوس نہیں کرے گا "۔ اس نے ہنس کر کہا۔
"میں نے چند سالوں میں کچھ نہیں لکھا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میں اب لکھ سکتا ہوں "۔
"یہ کہانی اپنےآپ کو خود لکھےگی "۔ ساجدہ بولی
" hmm۔۔۔ آفس کا نمبر کیسے ملا “۔
" کوہاٹ میں کوئی شخص ایسا نہیں جو سکینہ اور اسکے شوہر نسیم اعوان کو نہیں جانتا ہو اس لۓ آفس کا نمبر حاصل کرنا مشکل نہیں تھا "۔
" اچھا۔ میں کہانی لکھنے کے بارے میں سوچوں گا "۔ میں نے بے دلی سے کہا۔
ساجدہ نے کہا۔ فی الحال میرے لۓ یہ کافی ہے۔ میں آپ کو اگلے ہفتہ کال کروں گی۔ خدا حافظ"۔
میں نے فون رکھ دیا۔
سینکہ آفس میں داخل ہوئی۔
کیا ہورہا ہے؟ سکینہ نے کہا۔
" کچھ نہیں۔ وہی جو پہلے تھا۔ میں ناصرہ کو‘ بلا کنڈ ‘ سے نکالنے کا طریقہ کار سوچ رہا تھا "۔
" آج ہمارے گھر کیسے آنا ہوا ؟ " میں نے پوچھا۔
" تم دوپہر کے کھانے پر کیا کررہے ہو؟ "
" کیوں؟ "
" چلو ساتھ کھاتے ہیں "۔ سکینہ نے جواب دیا۔
" کیا آج نسیم آفس نہیں آۓ ؟ "
"وہ ہیں یہاں۔ مگر ان کو پتہ ہے کی میں تمہارے ساتھ لنچ کررہی ہوں "۔
میرے کان کھڑے ہوگے۔ پچھلےدوسالوں میں بہت ہی کم ایساہوا کہ میں اور سکینہ نے اکیلے کھانا کھایا ہو۔ میں ہمشہ اکیلا کھاتا ہوں یا پھر ہم تین ساتھ کھاتے ہیں۔ لیکن میں خاموش رہا۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
شہر کی طر ف جانے کے بجاے سکنیہ نےگاڑی کو ہا نگو ضلع کیطرف موڑ دیا۔ میں جان گیا کہ ہم ٹانڈا ڈیم جارہے ہیں جو دریا ٹوی پر بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیم ، کوہا ٹ سے 7 کلومیٹر پر ہے۔ کوہاٹ کے بیرونی عللاقوں میں پانی کھیت باڑی کا پانی مہیا کرنے کے لۓ ٹانڈا ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔آس پاس کے لوگ بڑی تعداد میں پکنک کے لۓ یہاں آتے ہیں۔ہم نے پانی کے قریب ایک سایہ دار جگہ تلاش کی اور زمین پر دری بیچھا کےاس پر بیٹھ گے۔ سکینہ نےگاڑی سے کھانا نکال کرچادر پرلگایا۔ ہم کھانے کےدوران قدرتی خوبصورتی کا نظرا کرتے رہے۔ کھانے کے بعد سکینہ نے تھرماس سےگرم گرم چاۓ نکالی۔
" تم بدھو ہو "۔ سکینہ نے کہا۔
یہ وہ ہی پرانی سکینہ تھی جیسےمدت ہوۓ میں جانتا تھا۔
" تم ساجدہ کی بات کیوں نہیں مانتے؟ "
" میں اب سمجھا ، تواس لۓ تم نے میرے لۓ یہ مزے دارکھانا بنایا ہے۔
سکینہ نےاقرار کیا کہ ساجدہ نے مجھ کو راضی کرنے کے لۓ اُس سے درخواست کی تھی۔
" اور تم کو بھی کچھ وقت آفس سے دور چاہیے۔ پچھلےدوسال میں تم نے ایک دن کی بھی چھٹی نہیں کی ہے”۔
" آفس سے دور ۔ وہ کیسے؟
" یہ کہانی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے؟۔
" کیا، مطلب ، کہاں ہے؟
"مجھے نہیں پتہ “ سکینہ نے کہا۔
"لیکن تمہیں اس کہانی کو لکھنا چاہیے۔ یہ کام تم کو پھر سے بیدار کردے گا۔ میں تمہیں روز دیکھتی ہوں۔ تم ایسے لگتے ہو جیسے تم کھوگے ہو۔اور نہیں جانتے کہ کیا کرو "۔ سکینہ کی آنکھیں نم ہوگیں۔
" تم میرا پہلا پیار ہو، اور کوئی مجھ کواس پیار سے جدا نہیں کرسکتا ، تم میرے پہلے دوست ہو اور زندگی بھر کے لۓ دوست ہو۔ ہم دونوں نے کچھ فیصلے کۓ ، صحیح یاغلط مگروہ ہماری ، خود کی مرضی تھی۔ اب ہم ان فیصلوں کو بدل نہیں سکتے"۔
میں نےاُن گلابی گا لوں پر دو آنسووں کے قطروں کو پھسلتے دیکھا۔ بڑی مشکل سے میں نےاپنے آپ کو ان موتیوں کو پینے سے روکا۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]پشاور ، کوہاٹ کے جنوب میں 37 میل کے فاصلہ پر ہے اور تقریباً گاڑی کا سفرڈیڑھ دو گھنٹے کا ہے۔ آپ دو راستے لے سکتے یا تو پرانا ، آرمی روڈ جو1901 میں بنایا گیا تھا یہ آرمی روڈ خطرناک سڑک ہے۔ لیکن کوہاٹ پوسٹ خوبصورت نظاروں سے بھری ہے۔ پشاور کا سفراس سے دو گھنٹے کا ہے یا پھر آپ ڈیرہ آدم خیل (کوہاٹ پاس) جو خوبصورت سرنگ کھود کر بنایا گیا ہے یہ بھی کوہاٹ سے پشاور لے جاتا ہے۔ میں ڈیڑھ گھنٹے بعد پشاور میں تھا۔
میں “ راوا “ کےآفس پر روکا۔ ایک نوجوان افغانی سامنے کے کمرے میں بیٹھا لفافے کھول کر بنک چیک اور نقدی کے نذرانوں کو علحیدہ کر رہا تھا۔
"ڈاکٹرساجدہ ہیں؟ " میں پوچھا۔
"وہ آج فیلڈ میں ہیں”۔
"یہ فیلڈ کہاں ہے؟ ۔ تھوڑی دیر میں ڈرائیور وہاں جانے والا ہے۔ آپ اسکا پیچھا کرسکتے ہیں" ۔
"اچھا میں سامنے والی ریسٹورانٹ میں چاۓ پیتا ہوں۔ ڈرا ئیور کو بتادینا”۔
میں نے دودھ میں بنی ہوئی گرم چاۓ کی پیالی خرید ی اور آہستہ آہستہ اس کے مزے سے لطف اندوز ہونے لگا۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]صاحب ، تیار ہو"۔ ڈرائیور نے پوچھا۔
فیلڈ ، انسانوں اور خیموں کا ایک سمندر تھی۔ جگہ جگہ پرغلاضت کےڈھیر تھے۔ ہرطرف پانی کےجوہڑ تھے۔ بچوں کے رونےاور چلانے کی آوازیں آرہی تھی۔ خمیوں کے دروازے کھلے تھے۔ مرد بت بنے بیٹھے تھےاور عورتیں دوپہر کا کھانا بنانے کی تیاریاں کررہی تھیں۔ سب کہ چہروں پر ایک بے کسی تھی۔ میں خاموشی سے ڈرائیور کے پیچھے چلتا رہا۔ آخر ہم ایک کھلی جگہ میں پہنچے۔ وہاں پر ایک بڑا اور ایک چھوٹا خیمہ تھا۔ چھوٹے خیمے کے سامنے ایک لمبی قطار تھی۔قطار میں کوئی چالیس یا پچاس عورتیں اپنے بیمار بچوں کو لۓ کھڑی تھیں۔
ڈرائیور نے کہا۔ "بابو جی، ڈاکٹرنی صاحبہ چھوٹے والے خیمہ میں ہونگی”۔
میں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور خیمہ کیطرف چلا۔
ساجدہ کا سیدھا کندھا دروازے کی طرف تھا اور وہ کسی کو ٹیکے لگا رہی تھی۔ میں نے مداخلت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں کافی دیر کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ ساجدہ نے موڑ کر قطار کو دیکھا اس کی نظر مجھ پڑی اور وہ کھڑی ہوگی۔
میں کہا۔ "تم اپنا کام جاری رکھو میں انتظار کرسکتا ہوں"۔
"اچھا آپ مجھے 15 منٹ دیجۓ۔ نرس ساڑھے بارہ بجے آتی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔
میں جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔
ٹھیک 15 منٹ کے بعد ساجدہ اپنے آفس سے باہر نکلی۔ اس کے ہاتھ میں ایک کھانے کا ٹفن کیریر تھا۔ اس نے زمیں پر چادر بچھائی اور دو پلیٹوں میں گرم گرم پلاؤ نکالا اور کہا “ کھاۓ“۔ مجھے بھوک لگی تھی اور پلاؤ کی خوشبو نے بھی مجبور کردیا۔ میں نےشکریہ کہہ کر کھانا شروع کردیا۔ کھانے کے دوران ساجدہ نے پوچھا توآپ نے فصیلہ کیا؟ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]"میں پہلے کہانی سنناچاہتا ہوں”۔
"یہ میری کہانی نہیں یہ ریمشاں کی کہانی ہے۔ میں آپ کو اس سے ملوادیتی ہوں”۔
"ریمشاں ایک سولہ سال کی افغانی لڑکی ہے۔ وہ یہاں نرس کی مدد کرتی ہے۔ بہت دکھی ہے لیکن کسی کو بتاتی نہیں ، سوتے میں ماں ماں چلاتی ہے۔ اس کی تمام فمیلی مرچکی ہے۔ ' راوا ' کے نفسیات کی ماہر ڈاکٹر جمیلہ کو دکھایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ریمشاں کو کسی طرح بولنا ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے پرابلم کوسطح پر لے آۓ”۔
"ساجدہ رُکو ۔ تم نے کہا تھا۔کہ یہ کہانی ہے جو خود کو لکھواۓ گی”۔
"ہاں تمیں کہانی سننانے والے کو راضی کرنا ہے اور کہانی خود کو لکھواۓ گی”۔
میں جنھجلا کر کہا”۔ تم پاگل ہوگی ہو کیا"۔ اس ماحول نے تم سےعقل چھین لی ہے"
" تم اُس سے صرف ایک دفعہ مل لو - وہ بڑے خیمہ میں ہے"۔
میں اتنی دور تک آیا تھا۔ میرے دل میں ایک دفعہ سے پھرلکھنے کی خواہش پیداہوئی تھی۔ لیکن یہ حالت میری علمیت سے باہر تھی۔ میں ساجدہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوتھے۔ ناجانے کیوں عورت کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا دل پگھل جا تا ہے۔
" کہاں ہے وہ؟ "
" اسپتال میں۔ وہ جو بڑا خیمہ ہے"۔ میں کہا ۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
کھانے کا شکریہ ادا کرکےمیں اسپتال کی جانب چلا۔ خیمہ میں آٹھ دس پلنگ تھے۔ان پر پتلےگدے اورسفید چادریں تھیں۔ تمام بستر مریضوں سے بھرے تھے۔ ایک طرف الماری تھی جسکا دروازہ کھلا تھا اوراس میں کچھ دوائیں رکھی تھیں۔ ایک طرف چھوٹی سی میز پر اور کرسی تھی۔ وہ ایک سفید کوٹ میں تھی۔ ایک پلنگ سے دوسرے پرجاتی اور مریضوں کودوا پلا رہی تھیْ۔ میں دروا زے کی قریب بیٹھ گیا۔ جب وہ دوا دینے سے فارغ ہوئی تو اس نے مجھے وہاں بیٹھا دیکھا۔ مجھ پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہوگی۔ایک اورکچھ وقت گزرگیا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے دیکھا اورنظر انداز کردیا۔ کچھ اور وقت گزرا اور ساجدہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اسں نے مجھے دیکھا اور پھر ریمشاں کو۔
"ادھر آؤ "۔ ساجدہ نے ریمشاں کو آنے کا اشارہ اور میر ے نزدیک زمین پر بیٹھ گئی۔
"یہاں بیٹھو"۔ ریمشاں نے اپنا کوٹ اتار کر میز پر رکھ دیا اور ساجدہ کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔
"یہ تم سے ملنے آے ہیں۔ یہ سچی کہانیاں لکھتے ہیں"۔
نرس خیمہ میں داخل ہوئی اور ساجدہ کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔
ساجدہ نے کہا - “ دیکھوں کیا ہوا”۔
ریمشاں سر جھکاۓ بیٹھی رہی۔
" تمہارا نام ریمشاں ہے"۔
ریمشاں نے سر اٹھا۔ ان آنکھوں میں بے انتہا کرب اور سوز تھا۔
" تم 15 یا 16 سال کی لگتی ہو؟ "
کوئی جواب نہیں۔
" میری ایک بہن ہے جو بلکل تمھاری طرح ہے۔ وہ مجھے بہت پیاری ہے۔ وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔
اس کا نام سعدیہ ہے"۔
کوئی جواب نہیں۔
" کیا تم اردو پڑھ سکتی ہو؟"
کوئی جواب نہیں۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
میں نے اپنے بیک پیک سے میری کتاب " پختون کی بیٹی " نکالی اور اس کے سامنے زمین پر رکھ دی۔
وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ آج زبان نہیں کھولے گی۔
جب تم اس کو پڑھ لو تو ڈاکٹر صاحبہ سے کہنا کی تم مجھے کتاب واپس کروگی۔
ڈاکٹر صاحبہ مجھے فون کردیں گی۔
کوئی جواب نہیں۔
“خدا حافظ“۔
کوئی جواب نہیں۔
مجھے ڈاکٹرساجدہ کو خیمے کے باہر ملی۔ ہم دونوں میری جیپ کیطرف چلے۔ جب ہم خیمےسےدور تھے۔
ڈاکٹر ساجدہ نے کہا۔" میں نے سب سننا”۔
میں نے ہی نرس سے کہا تھا کہ تھوڑی دیر میں آ کرمجھے بلالینا۔
میں نے کہا۔ " دیکھو کیا ہوتا۔ مجھے کوئی امید نہیں"۔
" وہ آپ کی کتاب پڑھےگی۔ وہ دس جماعت تک پڑھی ہوئی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔
“ اس کتاب میں ایک جادو ہے۔ وہ اس سحر سے نہ بچ پاۓ گی۔ ساجدہ نے قہقہ لگایا۔
" میں اسکا انتطار کروں گا “ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]
حیوانوں کی بستی
سید تفسیر احمد
دوسری قسط


ریمشاں
[/center]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]جب کبھی میں اداس ہوتا ہوں۔ تومیں اپنی ننھی بہن کو کال کرتا ہوں۔ میری ننھی سادیہ دنیا کے لیے تییس سال کی شادی شدہ عورت ہے - میری بھانجی سکینہ اب تین سال کی ہے۔ سادیہ نے اپنی بچی کا نام سکینہ جان کرسکینہ کے نام پر رکھا ہے اور سکینہ نےاپنی تین سالہ بیٹی کوسادیہ کا نام دیا ہے۔
میں نےگھڑی میں وقت دیکھا ، اس وقت لاس انجلیس میں رات کےبارہ بجے ہونگے۔ شاید وہ اوراس کا شوہرشان اپنی ننھی کوسُلا کرخود سونے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔ مجھےشام میں کال کرناچاہیے ۔
سکینہ، شان کی بڑی بہن ہے۔ شادی کے وقت سادیہ اور شان کی عمریں اٹھارہ سال کی تھیں- اُن دونوں نے پڑھائ چھوڑ کر کوہاٹ میں پانچ سال پختون کی بیٹیوں کوظلم کے خلاف کام کیا ۔جب میں اپنی خواہشات سے فارغ ہوا تومیں سکینہ کو کھوچکا تھا۔
جب میں چھوٹا تھا تو میں نےسومقصد بناۓ تھے۔ آج وہ تمام مکمل ہوچکے ہیں۔ سکینہ کی زندگی کا مقصد اپنی پختون کی بیٹیوں کو ظلم سے نجات دلا نا تھا۔ اور میرا مقصد پانچ سال میں اپنےمقصدوں کومکمل کرنے کا پروگرام۔ پچیس سال کی عمرمیں میرا آخری مقصد ہمالہ کی چوٹی کوفتح کرنا تھا۔ جس میں مجھ کو کئی شکستوں کے بعد پانچ سال میں فتح ہوئ۔ اس دوران میں سکینہ نے نسیم سے شادی کرلی اوراس کےشوہرنسیم ، سادیہ اورشان نےاس آرگینائزیشن کوسٹ اپ کیا۔ آج ان کی وجہ سے ہزاروں پختون کی بیٹیاں ظلم کےشکنجے سےدور ہیں۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں بلندی پرتو پہنچ گیا لیکن وقت نےمیرے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔ اب میں بلندی سےگر رہا ہوں۔ شاید اس حادثہ کا نام تقدیر ہے۔ جب میں واپس آیا توشان اور سادیہ نےاپنی تعلیم مکمل کر نے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنی تعلیم کوختم کرکے واپس آئیں گےاورمیں نےشان اور سادیہ کی جگہ لے لی ہے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
میں نے رسٹ واچ پر نگاہ ڈالی - اس وقت لاس انجلیس میں صبح کے چھ بجے ہوں گے۔ وہ بے بی سکینہ کا دن بھر کا سامان تیار کر رہی ہوگی تاکہ وہ بیٹی سکینہ کو ماں کے پاس چھوڑ دئےاور وہ دونوں یونیورسٹی جاسکیں۔ سادیہ ماں سےایک میل کےفاصلہ پر رہتی ہے۔
کیا میں اُس کی زندگی میں دخل دوں؟
میرا ہاتھ غیراختیاری طور پر فون کی طرف بڑھا۔
“بھائ جان “۔ سادیہ فون کے دوسرے سِرے پراتنی زور سےچلائ کہ مجھے رسیور رکھ کراسپیکر کوآن کرنا پڑا تاکہ میں آواز کا حجم کنٹرول کرسکوں۔ دوسری طرف شاید نہ صرف شان اُٹھ گیا ہوگا بلکہ مالِیبو شہرمیں تمام لوگوں نےسوچا ہوگا کہ یہ آواز اسپیس شٹّل کی ہے جو موہاوی کے ریگستان میں اتری ہو۔ یہ ریگستان مالِیبوشہر سے پچاس میل کےفاصلہ پر ہے۔
بھائ جان “ میں آپ سے بےحد محبت کرتی ہوں “۔
“ شان سے بھی ذیادہ “ - میں نے مذاق کیا - لیکن مجھےاس کا جواب پتہ تھا۔
“ شرارتی بھائ جان ، وہ محبت الگ ہے - جس میں شان اول ہے اور ہاں وہ یہاں کھڑا سن رہا ہے۔ میں نے شادی سے پہلے ہی اس کو بتا دیا تھا۔ میرے لئے میرا بھائ نمبر ون ہے، اور یہ رشتہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ آپ میری تمام دوسری محبتوں میں اول ہیں”۔ سادیہ نےچیغ کر کہا۔ “
اُسے پتہ تھا کہ اگر کوئ مجھ سے پوچھے تومیرا بھی یہی جواب ہوگا۔ بچپن میں وہ مجھے ستاتی تھی کہ میرا نمبر تیسرا تھا۔ ماں اول، باپ دوئم اور میں سوئم لیکن یہ سب بدل گیا جب اس نے دیکھا کہ یہ بھائ اس کے لیے دنیا کو بدل دئےگا۔ تب سے بھیا سے ذیادہ دنیا میں کوئ پیارا نہیں ہے۔
“ تم چیغ کیوں رہی ہو؟ “ ہمارا فون کنکشن اس وقت اچھا ہے۔
“ اچھا کہیں آپ نے یاد کیسے کیا ہے" [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]" کچھ نہیں"۔
" بولیں، سادیہ میں تم سے محبت کرتا ہوں "۔
میں نے کہا۔" سادیہ میں تم سے محبت کرتا ہوں "۔ اور میں رو پڑا۔ میری بہن بہت ہوشیار ہے۔ اس کو پتہ ہے کہ میں اپنے جذبات کو کتنا ہی چھپاؤں وہ ایک جملہ میں معلوم کرسکتی ہے کہ میں خوش ہوں یا ناخوش۔
“ میں آرہی ہوں۔“
“ تو پگلی ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ بارہ گھنٹے کا سفر ہے۔ اور پھر بےبی اور شان“
“اور آپ بدھو ہیں۔ ماں ، سکینہ کو رکھ لیں گی اور شان کلاسوں میں مصروف ہے ، آجکل اسکےامتحان ہورہے ہیں”۔
“ تب تو ڈبل پگلی ہے”۔
“ بھائ جان الّو ہیں”۔
“ ایک سیکنڈ بھائ جان"۔
" شان تم سکینہ کو ماں کے پاس چھوڑ دو گے؟ میں اپنی گاڑی میں یونی آجاؤں گی“۔ مجھ میرے بھیا سے بات کرنی ہے۔
“ بتاۓ بھیا کس نےآپ کا دل دُکھایا ہے۔ میں اس کی ٹانگ توڑدوں گی۔ تا کہ وہ آپ کوچھوڑ کرنا جاسکے “ سادیہ نے ہنس کر کہا۔
میں نےسادیہ کو اپنی کہانی سنائ - سادیہ خاموشی سے سنتی رہی۔
جب میں روکا تواس نے کہا۔“ بھائ جان۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کویہ پتہ ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے”۔
میں نےتھوڑی دیرسوچا۔ ” لیکن میں تم سے پوچھنا چاہتا تھا”۔
“ آپ کو پتہ اگرآپ کہیں “سادیہ“ اوراس سے پہلے کے دوسرا لفظ بولیں میں جہاز میں سوار ہونگی”۔
“میرے بے وقوف بھائ جان ، اس کام کو کرو۔ یہی ایک کام ہے جو تمہاری زندگی کو پھر سے سیدھی راہ پہ لاسکتا ہے“ -
میں نے کہا۔ ” دنیا میں میرے لیے کسی کی بھی محبت اتنی پاک اور بلند نہیں جتنی میری ننھی کی" -
میں نےسادیہ کو سسکیاں لیتے ہو ۓ سنا۔
اس سے پہلے کہ میں فون ریسیور پر رکھ دوں اس نے کہا”۔ بھائ جان آپ نے یہ کام ایک بارمیرے لیے کیا تھا ، نا - اب آپ اس کام کو اپنے لیےکریں“
اور لائن خاموش ہوگی۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]
میں صبح جلد اٹھ گیا - جب آفس پہنچا توسات بجے ہیں۔ بلڈنگ سنسان پڑی تھی۔ اِسٹاف ، سکینہ اور نسیم آٹھ بجےآفس آتےہیں۔ میرا کوئ ٹائم نہیں تھا۔ کبھی تو میں وہیں سوجاتاہوں اور کبھی دس بجے آتا ہوں۔ آدھا گھنٹہ اور پندرہ فون کال کے بعد میں نے نفسیات کی ماہر ڈاکٹر جمیلہ کا پتہ معلوم کرلیا۔
میں نےسکینہ کو کال کیا۔ ” ڈاکٹرجمیلہ کو کال کر کہو کہ میں ملنے آرہا ہوں”۔ اور دوسرے لحمہ میں گاڑی میں‌ تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ سکینہ کہ پاس دو وثیقہ ہیں۔ اس کاخود کا کام اور دوسرا اسکےخاندان کا نام۔
ضلع کوہاٹ میں خٹک اور بندیش کے بعد تیسری بڑی آبادی اعوان کی ہے۔ ایک اَسّی ہزار کی آبادی میں ان کی تعداد %12 ہے۔ کوہاٹ میں اعوان ، ذیادہ تردریا سندھ کے ساتھ ساتھ جنوبی اور مشرقی علاقوں میں آباد ہیں۔ اعوان کوہاٹ کی سیاست میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں۔ سکینہ ضلع کوہاٹ کی ایک تحصیل کے ناظم کی لڑکی ہے۔
ڈاکٹرجمیلہ کی نوکرانی نے دروازہ کھولا اور مجھے کھانے کے کمرے میں لےگی۔
“ آپ نےناشتہ کیا”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے کہا۔ پھراس کا خود ہی جواب دئے دیا-
“ نورا بی بی ناشتہ لگاؤ”۔
سکینہ نے کہا کہ میں تمہاری مدد کروں۔ یہ کام بہت ضروری ہے۔ میں سکینہ کو“راوا“ کی وجہ سے جانتی ہوں۔ اُس نے آج تک مجھ سے کوئ ڈاریکٹ درخواست نہیں کی۔ کیا تم ایک اہم شخص ہو؟
[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]“ یہ ایک افغانی لڑ کی سے متعلق ہے جس کے لئے ڈاکٹرساجدہ نےآپ سے رائے لی تھی”۔ میں زور سے ہنسا۔
"یہ تو کوئ اتنی اہم بات نہیں کہ ایک اسٹافر کے بجاۓ سکینہ مجھےخود کال کرے”۔ ڈاکٹر نےحیرت سے کہا۔
“ مجھے ریمشاں کے مرض کے متعلق کچھ معلومات چاہیں”۔
" یہ نام تو کچھ جانا پہچانا ہے"۔ ڈاکٹر نےاپنی فائل کی ڈراز کھولی۔اور فائل سےایک کاغذ نکال کرمیری طرف بڑھایا۔
میں‌نے بلندآواز میں پڑھا-
نام : ریمشاں
جنس : لڑکی
عمر: اندازا اٹھارہ سال
قومیت : افغانی
درجہ : مہاجر
قیام : مہاجر کیمپ - چھ ماہ پہلے افغانستان سے آئ ہے -
علامت مرض: بولتی نہیں ہے۔ کسی نےاس کو بولتے نہیں سننا - اردو پڑھ ، لکھ سکتی ہے۔
میڈیکل ڈاکٹر کی تشخیص : مرض جسمانی طور پر صحت مند ہے۔
میڈیکل ڈاکٹر: ڈاکٹرساجدہ
مذکورہ : ماہر نفسیات ڈاکٹر جمیلہ
تشخیص مرض: (Post-Traumatic Stress Disorder (PTSD[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • “ مجھےسمجھ نہیں آئ“۔ کیا تمام گہرے اور شدید ذہنی صدموں (Trauma ) کی بنیاد جسمانی زخم نہیں ہوتے ہیں”۔ میں نے پوچھا۔
    “ لفظ ذہنی صدمہ جنگ، زنا، اغوا، ظلم اورقدرتی عذاب سے منسلک کیاجاتا ہے۔ اس چیزوں کےاثرات مرض پر دماغی دباؤ ڈالتے ہیں۔ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کارایکسیڈینٹ، اہم رشتہ ٹوٹنا، ذلیل ہونا یا کسی چیز میں گہری نامیدی، جان لینےوالی بیماری کا لگنا اور اس بیماری سے آگاہی ہونا شدید صدمہ پیدا کرتی ہیں۔ یہ صورتیں‌ انسان کو مفلوج کرسکتی ہیں۔
    آپ نے شدید صدمہ ہونے کی وجہیں بیان کی ہیں۔ مگر شدید صدمہ کن چیزوں سےمل کر بنتا ہے۔ میں نے سوال کیا۔

    شدید صدمہ کے تین اجزا ہیں۔
    کوئ حادثہ اچانک پیش آیا ہو، وہ شخص اس حادثہ کے لیے تیار نہ ہو، اور اس حادثہ سےمقابلہ کرنےمیں بے بس مجبور یا معذور ہو۔ عموماً حادثہ نہیں بلکہ اس حادثہ سے متعلق ذاتی تجربات ٹرّراما کےذمدارہوتے ہیں۔یہ پیشین گوئ نہیں کی جاسکتی کہ کون کس حادثہ سےمتاثرہو کر ذہنی طور پرزخمی ہو جاۓ گا۔
    “ کیا اسPTSD کا علاج ہے۔
    “ جی ہاں “
    ایک ۔ روائتی علاج بذریعہ عمل توجہ کیاجاتا ہے
    دو ۔ مریض ‌کےخیالات اور عمل میں تبدیلی پیدا کرنا۔ (Cognitive-Behavioral Therapy (CBT
    تین ۔آرام کرنا اور ذہنی بوجھ کو کم کرنے کی مشقیں
    لیکن جب مریض بولنا ہی نہیں چاہے۔۔۔
    ڈاکٹرجمیلہ نے مجھےٹونکا”۔یہی شناخت میں نے کی تھی۔ اس کا کوئ حل نہیں”۔
    ڈاکٹرجمیلہ میری ساتھ گاڑی تک آئ۔ میں نےگاڑی کا دوازہ کھولا اوراس کی طرف ہاتھ ملانے کی لے مڑا
    بجاۓ ہاتھ ملانے کے ڈاکٹر نےاپنےدونوں ہاتھ میرے کندھوں پررکھ دۓ – ڈاکٹر جملیہ کی آنکھیں نم تھیں۔
    “ تم اس کووا پس لاسکتے ہو۔اس کوایک مخلص شخص کی ضرورت ہے جو اس کوپدری یا مادری محبت دئے۔ اور وہ تم ہو۔
    میں نے آج صبح سکینہ کی کال کے بعداور تمہارے آنے سے پہلے ڈاکٹرساجدہ کو کال کیا تھا - ڈاکٹر ساجدہ کہتی ہیں کہ ریمشاں اپنےلنچ کےدوران ہرروز تمہاری کتاب پڑھ رہی ہے ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]اتوار کی صبح تھی میں نےسکینہ کو کال کرکے کہا کہ میں ٹانڈا ڈیم جارہا ہوں - وہ ساتھ آناچابتی تھی مگر میں نے کہا نہیں میں اکیلےمیں کچھ سوچناچاہتا ہوں۔ لنچ کا باکس خریدا اورگاڑی کا رخ ٹانڈا ڈیم کی طرف کر دیا۔ میں مچھلی کی طرح سمندر کی کمی کرتاہوں اورسمندر تومیرا دوست ہے۔ ٹانڈا ڈیم کے تفریحی حصہ میں زمین پردری بچھائ اورآس پاس کا نظارہ کرنے لگا –
کوہاٹ کاشہردریاِ توئ کےالٹے کنارے پرواقع ہے۔دور کوہاٹ کے پہاڑ برف سے لدئے تھے۔ کوہاٹ کےشمال میں آفریدی اوراُرک ذائ پہاڑیاں دیکھائ دئے رہی تھیں۔ مشرق میں دریاۓ سندھ کا شور تھا، جنوب میں ضلع بنوں اور مغرب میںدریاِخرم اور وزیری پہاڑیاں نظرآرہی تھیں۔ ضلع بنوں اور پشاور کی وادیوں کےدرمیان پچاس میل چوڑائ اور ایک سو تین لمبائ کا پہاڑی علاقہ کوہاٹ کہلاتا ہے۔ ضلع کوہاٹ کی آبادی ایک سو بیاسی ہزار ہے۔ ضلع کوہاٹ میں تین تحصلیں ہیں۔ کوہاٹ شمال اور شمال مشرق میں، ہنگو شمال مغرب اورتری جنوب میں ہیں - تمام دریا مشرق سے مغرب کو بہتے ہیں۔ ہرطرف پہاڑ ہیں۔ لیکن ان میں سےصرف چیرات کےسلسلہ کی چوٹی جلالہ سر پانچ ہزار فٹ سےذیادہ بلند ہے۔ چیرات، نیلاب، میرخوالی، سوانی سر، میران دائ اور لاواگر کےسلسلےتین ہزار کی اونچائ پرہیں۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]دوپہر ہوگئی اور میرے پاس ریمشاں کی خاموشی کوختم کرنے کا کوئ حل نہ تھا۔ میں دریا کے کنارے پرٹہلنے لگا۔ شاید اُس کا مردوں پراعتباراُٹھ گیا ہے- شایداس نےاپنےماں باپ اور بہن بھایئوں کوقتل ہوتےدیکھا ہو۔ یا اس کےساتھ زنا بلجبرہوا ہو۔ لیکن جتنا میں سوچتاجاتا تھا اتنا ہی یہ ظاہرہوتا تھا کہ اس خاموشی کو کھولنے کی کنجی اعتباراوراعتماد ہے۔ میں اُس کو کس طرح اس بات کا یقین دلاؤں کہ میں مختلف ہوں اور وہ میرے لیے میری بہن سادیہ کی طرح ہے۔ میں نےدریا کی گہرائی کوجانچا۔ دریا اس مقام پر پانچ یا چھ فٹ گہرا تھا۔ پانی اتنا صاف تھا کہ آپ دریا کے پیندئے میں ریت اور کنکر دیکھ سکتے تھے۔
سہ پہرہوگی اور بات وہیں آ کر رُک گئی۔ کس طرح اس کو پھر سے بولنا سکھا جاۓ ؟
اچانک دماغ میں بجلی کوندگئ۔ اگراُس نےمیری کتاب پڑھ لی تو وہ مجھے پہچان جاۓگی وہ جان جاۓ گی کہ میں اُس کا بھائ ہوں وہ میری بہن ہے۔
یکایک میر ی چھٹی حس جاگ گی میں نے محسوس کیا کی کوئ دبے پاؤں میرے پیچھےآگیا ہے میں جلدی سے مڑا اور اس سے پہلے کہ دو ننھے ہاتھ میرے سینےسےٹکرایں میں نےان کو پکڑ لیا۔ ہماری نگاہیں ملیں اُس کی نگاہیں شرارت سے بھریں تھیں میں نے اپنےآپ کو دریا میں گرنےدیا۔
جب میں پانی سے ابھرا تو وہ خوشی میں چیخیں مار رہی تھی۔ میں نے بھائ جان کودریا میں گرادیا۔ میں دریا سے باہر نکل کر اس کی طرف دوڑا۔ وہ ڈاکٹر جمیلہ کی طرف پناہ لینے کے لیے دوڑی۔ اس سے پہلے کہ وہ اُن تک پہونچتی میں نےاس کو پکڑ لیا اورگود میں اُٹھا کے پانی تک لایا۔ اس نےسہم کر کہا بھائ جان نہیں۔ میں نےاس کو زمین پراتاردیا۔ وہ مجھ سے لپٹ گی۔اور ڈھاڑیں مار کر رونے لگی۔میں نےاسے اپنے بازوں چُھپالیا اور جھک کراس کی پیشانی چُوم لی- لمحےگزرگے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا مگروہ بھی اس بھائ بہن کو جدا نہ کرسکا۔ [/list]
Post Reply

Return to “ناول”