پختون کی بیٹی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

لاس اینجلس کے درمیان ایک جگہ LaBrea Tarpit کہلاتی ہے۔ پیج میوزیم اس کی احاطہ میں بنایا گیا ہے۔ یہ میوزیم دنیا کی سب سے بڑی ice age کی حیوانی اور نباتاتی fossil کی collection رکھتا ہے۔ اس جگہ پرآپ دس سے چالیس ہزار سال پہلے کا لاس اینجلس دیکھ سکتے ہیں۔ لاس اینجلس کے خشک دریا میں عظیم الجــثہ جانور اور ایسے شیرجن کےدانت ہاتھی کی طرح تھےگھومتے پھرتےتھے۔ لبریا ٹار پٹ، تارکول کی جھیل ہے۔ٹار ایک سیاہ اورگاڑہ تیل ہے یہ لکڑی یا کوئلہ کی اجاڑ کے عرق کشی سے بنتا ہے۔ یہ بہت چپکنے والا گاڑا تیل ہے۔اگر کوئ جانور اس کو چھوۓ تو وہ اس میں چپک جاۓگا، یقیناً نکلنے کی کوشش میں نڈھال ہوجاۓ گا اور بھر بھوک سے مرجاۓ گا۔ دوسرے جانور اس کوکھانے آئیں گے اور وہ بھی چپک جائیں گے۔ ہر دوسرے یا تیسرے سال ایک بڑا جانور اس میں چپک جاتا تھا۔ پیج میوزیم میں ان کے ڈھانچوں کی بحالی پر کام ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔

جب سعدیہ نے اپنا اسائنمنٹ ختم کرلیا تواباجان نے کہا ـ” ہم لوگ یہاں ہیں تو قریب میں Beverley Hills میں LaCienga Bkvd. پر GayLord ریسٹورنٹ میں کھا نا کھالیتے ہیں“۔
ہم سب نے اقرار سے سر ہلایا۔

سعدیہ نے مختلف چیزوں تھالی منگوائ جس میں تندوری چکن ، روغنی گوشت، بکری کا گوشت پلاؤ ، لہسن نان اور پاپڑ شامل ہیں۔ پینے کو روح افزا اور میٹھے میں گلاب جامن۔

ماں نے بغیرگوشت کی تھالی منگوائ۔ جس میں مٹر پنیر، دال، بیگن کا بھرتہ، پلاؤ اور پوری تھی۔

اباجان نے تندوری تھالی منگوائ۔ جس میں تندوری چکن، بکری کےگوشت کے سیخ کباب، پیاز کلچا ، پلاؤ اور پاپڑ۔

میں نے اپنی پسندیدہ تھالی لیمب چاپ ، سبزی، پیاز کلچا منگوایا، پینے کو لسّی اورقلفی کھانے کے بعد۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اماں جان نے گفتگو شروع کی۔ آج ہم پختون ولی کاجائزہ لیں گے۔
پختون یا پٹھان کا اجتماعی رہن سہن کئ رسم و رواج کے مجموعے پر منحصر ہے جو ’ پختون ولی ‘ کہلاتا ہے۔
پختون ولی ، پختون کو ’ ننگ‘ یا ناموس (عزت) کے اصول بتاتے ہیں۔ پختون کے لیے ’ عزت‘ بہت اہم ہے۔
سعدیہ نے پوچھا”۔ پختون ولی کو کس نے اور کب لکھا؟“
ماں نے کہا۔” جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس کو کسی ایک شخص نے نہیں لکھا۔ پانچ ہزار سال سے یہ رسم و رواج ایک پشت سے دوسری پشت کو سکھاۓ گیے ہیں“۔
” ماں بولی۔ ” پٹھان کے لیے ’ عزت‘ زبردست ذمہ داری ہے اور وہ عزت یا بے عزتی کو دنیا کی دوسرے معاشروں کی طرح نہیں دیکھتا۔ یہ قوانین پختون کے قول واعمال پر بہت اثر کرتے ہیں اور پشت در پشت پختون ولی کے رسم و رواج پاک سمجھے گیے ہیں“۔
پختون کا ایک بہت مشہور شاعرخوشحال خان خٹک کہتا ہے”۔ میں اس شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو اپنی زندگی عزت سے نہ گزارے۔لفظ عزت مجھ کو غصہ دلاتا ہے“۔
” ماں عزت کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟“
” پختون ولی کے رسم و رواج ، پختون پر چار ذمہ داریاں واجب کرتے ہیں“۔
” پہلی، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کوختم کرنا ہے ، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہے اور مجرم کو پناہ دینا۔ یہ ’ نَنَواتے ‘ کہلاتاہے۔
دوسری، دو فرقوں کے درمیان خون خرابی کو روکنے کے لیے جرگہ کا التواۓ جنگ فیصلہ۔ یہ ’ تیگہ ‘ کہلاتاہے۔
تیسری، انتقام لینے کا فرض۔ یہ ’ بدل ‘ کہلاتا ہے۔
چوتھی، مہمان داری ، عالی ظرفی، دلاوری، سچائ، سیدھا پن ، ملک سے محبت اوراس کی خدمت۔ یہ ’ میلمستیا ‘ کہلاتاہے“۔
پختون ولی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنےکہ پختون۔ تما م پختون لوگوں کو اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ ان پر عمل نہ کرنے کا مطلب معیوب اور بے قدر ہونا ہے اور اس کی سزا فرد اور یا اس کے سار ے خاندان کو قبیلے سے نکال دینا ہے۔ پختون اور پختون ولی ایک بن چکے ہیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]نَنَواتے[/center]


” سعدیہ بیٹا، ننواتے کے کیا چار مقاصد ہیں؟“
” ایک۔ پرانی دشمنیوں اور خون خرابے کوختم کرنا ہے۔ دو ، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہے تین، پناہ دینا اور چار مہمان نوازی“۔
اماں نے کہا”۔ جب ایک لڑنے والا شخص نادم اور شرم گزار ہو کر قبیلہ کے بڑوں کے پاس آتا ہے اور وہ اس بات پر مکمل تیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے دشمن کے ساتھ امن سے رہے گا۔ مہمان جو کہ بدلہ لیناچاہتا تھا بزرگوں کو صلح و صفائ کا موقع دیتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مسئلہ حل نہ ہو سکے۔ مسئلہ حل ہونے کے بعد رحم طلب کرنے والا اپنی اوقات کے مطابق ایک بھینس ، گاۓ ، کچھ دُنبے یا بکریاں ذبح کرکے سب کی دعوت کرتا ہے“۔
ماں یہ تو ایک شریف النفسی ہے۔ ا س میں کیا خرابی ہے؟ میں نے پوچھا۔
ماں نے کہا۔ ” مجرم کو پناہ دینا۔ دوسرے معاشرے جو وقت کے ساتھ انسانیت کے اصول میں اصلاح کرتے ہیں۔ انہوں نے جرم کرنے والوں سے پناہ کا حق چھین لیا آپ اگر مجرم ہیں تو آپ کو قانون کے حوالے کیا جاۓ گا“۔
” کیا پختونوں نے ایسا نہیں کیا؟“۔ میں نے سوال کیا۔
” بہت پہلے پختونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پناہ کے عمل کو جرم پر فضلیت دیں گے۔ پناہ پر کوئی پابندی نہیں ہے“۔
”اس کا کیا مطلب ہے؟“ سعدیہ نے پوچھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

” کسی بھی پختون کے گھر میں کوئ بھی شخص اپنا پیچھا کرنے والے دُشمنوں سے پناہ لے سکتا ہے۔ پناہ لینے والا کسی بھی ذات، عقیدہ، رُتبہ کا ہو، دوست ہو اور یا دُشمن ہو“۔
” میں تم کو اس کی دو مثالیں دوں گی“۔ ماں نے کہا۔
پہلی مثال یہ ہے:
” ایک دفعہ پختونخواہ میں قرضہ دینے والے او ر قرضہ دارمیں جھگڑا ہوا اور قرضہ دینے والا مارا گیا۔ قرض دار نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے تمام راستے بند کردۓ۔ جب نکلنے کی کوئ صورت نظر نہیں آئ تو قاتل نےگاؤں کے ٹاور کا رخ کیا اور ٹاور پر پہنچ کر چلایا۔ اللہ کے نام پر مجھ کو پناہ دو۔
ٹاور میں رہنے والے سردار نے قاتل سے معلومات کئیں اور اس کو پتہ چلا کہ جو شخص قتل ہوا وہ اس کا بھائ تھا۔ سردار نے کہا ـ” تم نے میرے بھائ کو قتل کیا ہے، مگر کیوں کہ اللہ کے نام پر تم نے پناہ مانگی ہے اس لیے اللہ کے نام پر میں تم کو پناہ دیتاہوں“۔ سردار نے قاتل کو اندر آنے دیا۔
جب تعاقب کرنے والے وہاں پہنچے تو سردار نے ان کو سختی سے چلے جانے کو کہا۔جب تعاقب کرنے والے چلے گئے اس نے قاتل سے کہا کہ میں تم کو ایک گھنٹہ کا وقت دیتا ہوں تم یہاں سے سلا متی سے چلے جاؤ۔
قاتل اُس وقت تو بچ گیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

دوسری مثال یہ ہے۔
آٹھارہ سو ستّر میں کچھ مفرور لوگوں نے آدم خیل آفریدی کے ایک قبیلہ ’ جوواکیس‘ کے لوگوں سے پناہ لی۔ انگریزحکومت نے جوواکیس کے سرداروں کو حکم دیا کہ مفروروں کو حکومت کےحوالے کیا جاۓ ، جوواکیس کے لوگوں نے انکار کیا۔
حکو مت نے پانچ ہزار سپاہیوں کی فوج بھیجی۔ ہر دُرّہ اور وادی میں فوج نے قبضہ کیا۔ ہرٹاور کو برباد کیا ، بہت مویشی مارے گئے۔ لوگوں کا جاڑے کی سردی میں برا حال ہوگیا تب قبیلوں کے سردار انگریزی سپہ سالار کے پاس آۓ اور ہتھیار ڈالنے کی شرط پوچھی۔
انگریز نے کہا۔نقد جرمانہ ، مُہم کی قیمت، کچھ ہتھیاروں کی حوالگی اور دو مشہور مفرور لوگوں کی سپردگی”۔
سرداروں نے کہا ـ” تمام دوسری شرطیں منظور ہیں لیکن جو لوگوں ہماری پناہ میں ہیں، ہم سپرد نہیں کریں گے۔ تم نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہے، رکھ لو۔ ہم کہیں اور گھر بنائیں گے۔ لیکن جن کو ہم نے پناہ دی ان کی ہم حفاظت کریں گے۔ ان کو ہم سپرد نہیں کریں گے“۔
سعدیہ نے کہا ـ” ماں اگر پختون دو مجرموں کے لیے جان اور مال بربا د ہونے دیتے ہیں۔ شکست کھاتے ہیں اور ملک کو چھوڑ سکتے ہیں۔ایک بھائ اپنے بھائ کے قاتل کو جانے دیتا ہے۔
لیکن اپنی بیٹی اور بہن پر ظلم ہونے دیتے ہیں ، کیا گل ہمیشہ کے لیے مرگئ؟“
ماں نے سعدیہ کو دلاسہ دیا ـ” تم اپنے ہم عمر کے پختونوں سے صلاح لوگی۔ وہ عقل والی ہیں۔ لیکن وہ اُس معاشرہ میں پابند ہیں۔ ہر ماں باپ کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد ان سے بہتر زندگی گزارے۔ اس نسل نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے معاشرے میں کیا تبدیلیاں چاہئیں۔ وہ اپنی گلُوں کے لیے ان حالات کو تبدیل کریں گی“۔

” اگر ایک پختون عورت اپنے باپ، اپنے شوہر، اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں اور اپنے دیوروں کے لیے جان دے سکتی ہے۔ لیکن وہ اتنی کمزور ہے کہ ننھی کو بار بار مر نے دے“۔ سعدیہ نے پرسوز آواز میں کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]بدل یا بدلہ[/center]


اپنی عزت اورsensitivity to insult پختون کی ایک خاصیت ہے۔ ہر پختون اپنے کو آپ کو کسی سے کم نہیں سمجھتا۔ ایک بے عز تی کا نتیجہ قتل ہوسکتا ہے۔کسی کا اس کی عورت سے چھپا عشق گھر کے کسی فرد کا یا ہمسایہ کا قتل ہونا۔تھوڑی سی ذیادتی یا ملکیت کے نقصان پر بھی انتقام لیا جاتا ہے۔

پختون یقین کرتا ہے کہ اسلامی شعریت کے مطابق آنکھ کا بدلا آنکھ، اور خون کا بدلہ خون ہے۔ اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ بے عز تی کا بدلہ لینے سے وہ بے عز تی دُھل جاتی ہے۔ وہ اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ پختون اُس بے عز تی کا بدلہ نہیں لیتا جو کہ غلطی سے ہوئ ہو۔ جو پختون اپنی بے عز تی کا بدلہ نہیں لیتا اس کو قبیلہ میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اسٹار نے جس نے بہت عرصہ پختونخواہ میں گزارا، لکھتا ہے۔ ایک دفعہ ایک بڈھا ہسپتال میں آیا۔اُس کو cataract کی وجہ دھندلا دکھائی دیتا تھا۔

جب اُس کا نمبر آیا تو اس نے کہا ـ” مجھے میری آ نکھیں پھر سے دے دو تا کہ میں رائفل استمال کر سکوں“۔
ڈاکٹر نے پوچھا۔ ’کیوں؟“

بڈھے نے جواب دیا ـ” سولہ سال ہوگۓ میں اب تک اپنے بیٹے کے قتل کا انتقام تک نہیں لے پایا“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]میلمستیا[/center]

میلمستیا پختون میں مہمان داری کی رسم ہے۔ یہ مہمان داری دشمن اور دوست اور اجنبی میں امتیاز نہیں کرتی۔

ہرگاؤں میں سب کے ملنے کی ایک جگہ ہوتی ہے جسے ’ ہجرہ ‘ کہتے ہیں۔ مہمان عموماً ہجرہ میں ٹھہرتے ہیں۔

میزبان ، مہمان کے لیے دنبہ یا بکرے کا گوشت اور حلوہ تیار کرتا ہے۔ اگر میزبان اس قابل نہیں کہ دنبہ یا بکرا کرے تو وہ مرغی بناتا ہے۔
ہر کلہ راشہ،
پہ خیر راغلے ،
ستڑے مہ شے ،
اور تکڑہ یے؟

ان کا مطلب ہے کہ ہمیشہ آؤ، خوش آمدید، امید ہے کہ تم تھکے نہ ہو۔ کیا تم اچھے ہو؟

مہمان خوشی سے کہتا ہے۔
پہ خیر اوسے،
خداۓ دے مل شہ،
خوشحالہ اوسے،
خوار مہ شے۔

جن کا مطلب ہے۔ خدا تم کو حفاظت سے رکھے، خدا تمہارے ساتھ ہو، تم خوشحال اور خوش رہو، تم خراب نہ ہو۔ پہلے چاۓ پیش کی جاتی ہے اور پھر حلوہ ، پلاؤ اور دوسرے لوازمات۔ جب مہمان رخصت ہوتا ہے تو پہ مخہ دے خہ۔تمہارا سفر بغیر خطرہ اور اچھا رہے۔

ہر مہمان سارے گاؤں کا مہمان سمجھا جاتاہے۔ اور ہجرہ میں سب اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔اور مہمان دسترخوان پرگاؤں کے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ پختون کا اصول ہے کہ مہمان خواہ اس کا پیٹ بھرا ہو پھر بھی گاؤں کے لوگوں کے ساتھ کم از کم چند لقمے کھاۓ۔ کھانے کے بعد نماز پڑھتے ہیں اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کے لیے دعا ما نگی جاتی ہے۔


ڈاکٹر پینل بنوں اور اس کے اردگرد کے علاقے میں مشنری ڈاکٹر تھا۔ وہ لکھتا ہے۔
” ایک موقع پر وہ اور اس کا ایک ساتھی ایک گاؤں میں رات کو دیر سے پہنچے۔ سردار گھر پر موجود نہیں تھا اس کا لڑکا بڑے خلوص سے ملا اور فوراً مرغ اور پلاؤ بنواکر پیش کیا۔ سردار رات کو گھر دیر سے پہنچا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ بنوں کے پادری صاحب اس کے مہمان ہیں اور اس کے لڑکے نے صرف مرغ اور پلاؤ کھانے میں پیش کیے اس نے فوراً باورچی سے دنبہ ذبح کروا کر پکوایا“۔

ماں نے مجھ سے پوچھا۔”پختون کی مہمان نوازی کی کیا خصوصیات ہیں؟“
میں نے جواب دیا۔
ایک۔ دوست ، دشمن یا اجنبی ہر شخص کے ساتھ مہمان نوازی۔
دو۔ ہجرہ میں مہمان کو ٹھہرانا۔
تین۔ حیثیت سے بڑھ کر کھانا بنانا۔
چار۔ مہمان، پورے گاؤں کا مہمان ہوتا ہے۔
پانچ۔ مہمان گاؤں کے بڑوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کم از کم چند لقمے کھاۓ۔
چھ۔ کھانے کے بعد نماز اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کے لیے دعا ما نگی جاتی ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]پختونخواہ اور پختون[/center]


پاکستان کے شمال مغرب کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اس سرحدی علاقے میں 8 مشہور درّے ہیں۔ درّۂ خیبر، درّۂ مالاکنڈ ، درّۂ گنداب، درّۂ کوہاٹ، درّۂ لواری، درّۂ گومل ، درّۂ ٹوچی اور درّۂ بولان۔ پانچ دریا ہیں۔ پختونخواہ میں دریاۓ سوات، دریاۓ کُرم ، دریاۓ ٹوچی اوردریاۓ گومل بہتے ہیں۔ پختونخواہ میں رہنے والے پشتون، پختون اور پٹھان کہلاتے ہیں۔

پختون کون ہیں اور کہاں سے اس علا قہ میں آۓ کسی کو اس کا صحیح پتہ نہیں۔ لیکن ان کے متعلق چار قیاس آرائیاں ہیں۔

مشہور عالم البیرونی نے جو دسویں صدی میں غزنی میں رہا اس نے’ تاریخ الہند ‘ میں پختون کے متعلق لکھا ہے۔ ” ایک باغی اور جنگلی قوم ہندوستان کے مشرق میں بستی ہے“۔

میجر راورٹی ای ریج وے نے اٹھارویں صدی میں اپنی کتاب ’ پٹھان‘ میں لکھا۔ پٹھان حضرت سلیمان کے سپہ سالار جری مایہ کے بیٹے افغانہ کی اولاد ہیں”۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جوزف کی اولاد ہیں۔ جوزف کا قبیلہ اُن دس یہودی قبیلوں میں شمار ہوتا ہے جو کھوۓ ہوۓ لوگ کہلاتے ہیں۔

بعض تاریخ دان کہتے ہیں کہ پختون کے نقش و نگا ر اُن قوموں سے جو دریاۓ سندھ کی دوسری طرف رہتی ہیں ملتے ہیں۔ان میں ترکی اور ایران بھی شامل ہیں۔

اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان قوم عرب سے قریب ہیں۔جب ہم عرب اور پٹھان قوم کی قبیلہ بندی اور سماجی استعمال کا مطالعہ کتے ہیں تو دونوں میں حیرت انگیز مشابہت ہے۔

اسلام سے پہلے عرب میں بھی آزادی سے عشق، شجاعت، برداشت، مہمان نوازی، اور انتقام لینا کے فرائض موجود تھے۔
پختون مرد عموماً ڈھیلی قمیض اور شلوار پہنتا ہے اور ایک بڑی پگڑی باندھتا ہے۔ اپنے کندھے پر ایک چادر اور ایک رائفل رکھتا ہے۔ پختون عورتیں عموماً چھاپے ہوۓ کپڑے پہنتی ہیں۔

تمام حملہ آور ایرانی، یونانی، ترکی، مغل، افغانی، سکھ اور انگریز جنہوں نے شمالی ایشا کو فتع کیا پختون کو نہ ہرا سکے۔

پہاڑی پختون جن میں یوسف زئی ، مھمند ، آفریدی ، شنواری، اورکزئ ، طوری، بنگش، خٹک ، وزیر، اورمحسود ، مردوں کی سوسائٹی ہے۔ وہ نۓ قوانین کو بالکل نہیں مانتے۔ پختون بڑے مغرور لوگ ہیں۔

پختون لیڈر خان ولی خان نے ایک دفعہ کہا۔ ”میں پانچ ہزار سال سے پختون ہوں اور مسلمان چودہ سو سال سے اور پاکستانی صرف چالیس سال سے“۔

دو خیال۔

’ مہمان نوازی ‘ اور مجرموں کو پناہ دینا دونوں مختلف چیزیں ہیں، ایک چیز نہیں ہیں۔ پختون کے علا قہ اورپختون کی فلاح و بہبود کے لیے ان کو علیحدہ کرنا چائیے۔

’ آزادی ‘ کا مطلب قتل، بلیک میل، فدیہ یا randsom اور نشہ نہیں ہے۔ دنیا میں ہرجگہ تعلیم پھیلائ گئ، لوگوں کی فلاح و بہبود کی گئی اوران قبیلوں کی فوجوں کو ملک کی فوجوں میں نوکری دی گئ۔ اس کی مثال سنٹرل ایشیا کے ـ ’ باسماچیز‘ ہیں۔ جب انہو ں نے tzarist فوج سے لڑائ کی ان کو شکست ہوئ۔ یہ قیبلے پختون لوگوں کی طرح تھے۔ مگر وقت کے ساتھ بدل گیے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]اسلام [/center]


علمِ فقہ کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔
ایک - قرآن کا قانون بنانے والا حصہ
دو - سنّت۔ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری
تین - حدیث ، روایت پر

اس کے علاوہ اجماع یامطابقت، قیاس یایکسانیت۔ سببِ یکسانیت کو دلیل میں استعمال کرنا، اجتہاد۔ تجدریجی یکسانیت ،جو چیزیں ان چاروں اصول میں شامل ہوں، اسلامی قانون کے منبعے ہیں۔

فقہ کی بنیادیں ’ منفرد اور اس کا سماجی طور‘ کے لیے عمل کے اصول رائج کرتی ہیں۔ مجموعۂ قانون سماجی اطوارکو سات حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

1۔ لازم
2۔ قابل
3۔ تعریف
4۔ جائز
5۔ ناجائز
6۔ عیب
7۔ منع

اسلامی مدرسۂ قانون کی چار شاخیں جو اس وقت سنّی اسلام میں موجود ہیں۔

شمالی اور مغربی افریقہ میں مَالَکی، توریک؟؟؟؟؟ ایشیا میں حنّفی، شَافِعی مصر ، مشرقی افریقہ، جنوبی مغربی ایشیا اور حَنبلی سعودی عرب میں۔

ان شاخوں میں کچھ مذہبی ارکان اور ان کی تعمیل میں اختلا ف راۓ ہے۔ شیعوں کا شرعی قانون فقۂ جعفری یا بارہ امام ہے۔

مسلم مُلا ،اسلام کو د ینِ مقرر قرار دیتے ہیں ، یعنی اللہ تعالی نے اسلام پر مذہب کو مکمل کردیا ہے اور اب یہ اصول اور احکام ہر دور اور زمانہ کے لیے ہیں۔اس لیے اسلامی فقہ میں کوئ تبدیلی جائزنہیں ہے۔

اسلام کا عظیم اور جلیل دور جو کہ ساتویں صدی سے بارویں صدی تک تھا مسلمانوں نے اجتہاد کو اپنایا۔ بارویں صدی میں امام ابنِ تیمیہ جو کہ اسلامی متعلمِ قانون اور فلاسفر تھا اس نے نۓعلمِ برتاؤ اور سمجھ دانی کو سماج کی ضرورت سے یکسانیت دکھائ۔ لیکن دوسرے علماء نےغیرمتحرک رویہ اختیار کرلیا۔ انہوں نے اسلامی قوانین کی ترقی کو روک دیا۔ جب الغزالی ، جمال الدین الافغانی اور محمد عبدہ جیسے علماء پیدا ہوۓ تو انہوں نے پھر سے اسلامی فقہ میں جان ڈال دی اور اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ مارڈن زندگی کی انفرادی اور اجتماعی تضاد کو حل کرنے کا کام شروع کیا۔

ایک حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” مذہب وہ نہیں ہے جو آپ رسموں کی طرح باقاعدہ مشق کرتے ہیں بلکہ وہ ہے جو آپ اپنا تے ہیں اورایک دوسرے سے حصہ کرتے ہیں“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]اسلام [/center]


علمِ فقہ کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔
ایک - قرآن کا قانون بنانے والا حصہ
دو - سنّت۔ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری
تین - حدیث ، روایت پر

اس کے علاوہ اجماع یامطابقت، قیاس یایکسانیت۔ سببِ یکسانیت کو دلیل میں استعمال کرنا، اجتہاد۔ تجدریجی یکسانیت ،جو چیزیں ان چاروں اصول میں شامل ہوں، اسلامی قانون کے منبعے ہیں۔

فقہ کی بنیادیں ’ منفرد اور اس کا سماجی طور‘ کے لیے عمل کے اصول رائج کرتی ہیں۔ مجموعۂ قانون سماجی اطوارکو سات حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

1۔ لازم
2۔ قابل
3۔ تعریف
4۔ جائز
5۔ ناجائز
6۔ عیب
7۔ منع

اسلامی مدرسۂ قانون کی چار شاخیں جو اس وقت سنّی اسلام میں موجود ہیں۔

شمالی اور مغربی افریقہ میں مَالَکی، توریک؟؟؟؟؟ ایشیا میں حنّفی، شَافِعی مصر ، مشرقی افریقہ، جنوبی مغربی ایشیا اور حَنبلی سعودی عرب میں۔

ان شاخوں میں کچھ مذہبی ارکان اور ان کی تعمیل میں اختلا ف راۓ ہے۔ شیعوں کا شرعی قانون فقۂ جعفری یا بارہ امام ہے۔

مسلم مُلا ،اسلام کو د ینِ مقرر قرار دیتے ہیں ، یعنی اللہ تعالی نے اسلام پر مذہب کو مکمل کردیا ہے اور اب یہ اصول اور احکام ہر دور اور زمانہ کے لیے ہیں۔اس لیے اسلامی فقہ میں کوئ تبدیلی جائزنہیں ہے۔

اسلام کا عظیم اور جلیل دور جو کہ ساتویں صدی سے بارویں صدی تک تھا مسلمانوں نے اجتہاد کو اپنایا۔ بارویں صدی میں امام ابنِ تیمیہ جو کہ اسلامی متعلمِ قانون اور فلاسفر تھا اس نے نۓعلمِ برتاؤ اور سمجھ دانی کو سماج کی ضرورت سے یکسانیت دکھائ۔ لیکن دوسرے علماء نےغیرمتحرک رویہ اختیار کرلیا۔ انہوں نے اسلامی قوانین کی ترقی کو روک دیا۔ جب الغزالی ، جمال الدین الافغانی اور محمد عبدہ جیسے علماء پیدا ہوۓ تو انہوں نے پھر سے اسلامی فقہ میں جان ڈال دی اور اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ مارڈن زندگی کی انفرادی اور اجتماعی تضاد کو حل کرنے کا کام شروع کیا۔

ایک حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” مذہب وہ نہیں ہے جو آپ رسموں کی طرح باقاعدہ مشق کرتے ہیں بلکہ وہ ہے جو آپ اپنا تے ہیں اورایک دوسرے سے حصہ کرتے ہیں“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]سماجی طریقہ اور اسلامی اخلاقیات [/center]


ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوۓ اور دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ذکر کر رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ شخص سارا دن مسجد میں گزارتا ہے اور دوسروں کو بھی تبلیغ کرتا ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔کہ یہ اپنی روزی کیسے کماتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ایک خدا پرست تاجر اس کے اخراجات ادا کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ان دونوں میں تاجر کا درجہ بڑا ہے۔

ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” اگرکوئ تمہارے درمیان کسی کو غلطی کرتا دیکھے تواس کا فرض ہے کہ ہاتھوں (یعنی عمل، خوش اطوار اصرار سے) اس کو روکے۔ اگر نہیں تو پھر زبان سے یعنی اس کے خلاف بولے۔اگر تب بھی غلطی موجود رہے تو خاموشی سے ناپسندیدگی کا اظہار کرے اور اگرسامنے نہیں تو دل میں کرے۔ دل میں ناپسندیدگی کا اظہار کا درجہ واثق کی نشانی ہے“۔

ایمان کی زندگی عبادت ہے، انسانیت کی فلاح و بہبود کرنے سے خدا ملتا ہے۔ اکھٹا فضیلت اور اخلاقیت قرآن میں برابری، انصاف و عدل، ا یمان داری، بھائ بندی ، رحم، ہمددری، اتحاد، خود اختیاری۔

اسلام میں بھی فرد کے حقوق اوربہبودگئ رعایا میں رشتہ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے حقوق مانگے، فرد کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]اسلام ، بالغیت، عورت اور شادی[/center]


1۔ اسلا م میں چار عورتوں تک شادی جائز ہے۔ " اگر یہ خوف ہے کہ تم یتیموں ( جن کو تم نے رکھا ) کے ساتھ انصاف نہ کرو گے تو جو تم کو اچھی لگیں ان دو یا تین یا چارعورتوں سے شادی کرلو۔اگر تم ان کو حق نا دے سکو تو ایک سے شاہی کرو۔ "(سورۃ ا لنساء )
2 ۔ اسلام میں عورت کو ڈاوری یا مہر یا والور دینا جائز ہے۔ " اور عورتوں کو ڈاوری کا تحفہ دو۔لیکن اگر اپنی مرضی سے اسکے کچھ حصہ تم کو دیں تو تم اس کو خوشی سے لے لو۔" (سورۃ ا لنسا ء )
3 ۔ اسلام میں لڑکی اپنی پہلی ماہواری کے بعد بالغ کہلاتی ہے۔ بعض علاقوں میں لڑکیوں کی ماہواری ٩ سال سے١٢سال کی عمرمیں ہوتی ہے۔ " کچھ اور تمہاری عورتیں جو کے ماہواری سےگزر چکی ہیں۔اگر تم کو شک ہو تو تین مہینہ کا انتظارکروـ" (سورۃ ا لنسا ئ)
4 ۔" یتیموں کوجانچوں اگر وہ شادی کی عمر کے ہیں اور تم ان کو سمجھ دار سمجھتے ہو توان کو ان کی ملکیت واپس دے دو۔" (سورۃ ا لنسا ء )
5 ـ " اورمرد بالغ جب ہوجاتا ہے جب وہ چالیس سال کا ہوجاتاہے۔"(سورۃ الاحقاف)

اسلام اور بدلہ۔

اسلام میں اللہ کی راہ میں بدلہ لینا جائز ہے۔

.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]نظم و نسق[/center]

دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لے مل کر کام کرنا نظم و نسق یا آرگینایئزیشن کہلاتا ہے۔نظم و نسق کے لے کوئ مقصد کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، منصوبہ بندی، ذرائع منظمی ، رہبری عملداری اور سپردگی کی مشق کو جماعت منتظمان کہتے ہیں۔
منصوبہ بندی مقصدوں کی شناخت، وضع ، ذرائع جو کہ مقصد کو حاصل کرنے کے ضروری ہیں۔ منصوبہ بندی کیئ قسم کی ہوتی ہے۔ تذویری,بیو,ار اور بھی بہت سی دوسری قسم کی منصوبہ بندی ہوتی ہیں
تذویری پوری ارگینایئزیسن کے لیے ہوتی ہے۔۔ مقصدکیا ہے؟ مقصد کس طرح حاصل کرنا ہے؟ کیسے جانچے کے مقصد حاصل ہو گیا؟ ۔
بیوپار کی منصوبہ بندی صرف product کے لیے ہوتی ہے۔ مقصد کیا ہے؟ مقصد کس طرح حاصل کرنا ہے؟ کیسے جانچے کے مقصد حاصل ہو گیا؟ ۔
ذرایئع منظمی ذرائع کو اکٹھا کرنا اور ان کا مؤثر طریقہ سے استعمال کرنا ۔
رہبری جو لوگ آپ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کو مقصد کا بتانا، مقصد کو حاصل کرنے کے طریقوں سے آگاہ کرنااور ٹریننگ دنیا۔
عملداری دو یا دو سے زیادہ لو گوں کا ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لے مل کر کام کرنا نظم و نسق یا آرگینایئزیشن کہلاتا ہے۔نظم و نسق کے لے کویئ مقصد کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کی شناخت کے لے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقصد پر پہنچنے تجاویزکی اطلا ع دہی اور پھر ان عمل کرنا۔
عملداری یاکنٹرولینگ نظم و نسق یا سسٹم ، کام کے طریقے یا پروسس کی اطلا ع اور ان پر نگاہ رکھنا اور ٹریکینگ دینا۔
سپردگی بہت سی صورتوں میں ایک ناظم ا پنے کا کام تھوڑا حصہ ایک یا ذیادہ لوگوں میں باٹتا ہے۔ان لوگوں کو ان کاموں کی تکمیل کرنے کی پوری ذمہ داری بھی دیتا ہے۔جس کی وجہ سے ان نایئبوں کو ذرائع استمعال کرنے کا ا خیتاری مل جا تا ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ہے۔اس نے اپنے بالوں میں ایک پھول پہنا ہے ، آنکھوں میں سرمہ لگایا ہے اور اخروٹ کی چھال سے سرخ کیے ہونٹ ہیں۔اسکے ایک ہاتھ میں ستار ہے اور کندھے پر رائفل۔اس کی آنکھیں دلیر، خطرے سے نا وافتہ ہیں اور نہیں جانتی کہ اتنی دیر تک زندہ نہیں رہیں گی کہ جان سکیں موت کیا ہے؟
یہ بہادر پختون کا بیٹا جب خطرہ سے گزر رہا ہوتا ہے ہنستا ہے اور گانا گاتا ہے۔ یہ شکیل اور قوئ جواں مرد پختون جلد ہی ایک جنگ میں مرجائے گا۔ یہ مرد صر ف محبت کرنے، ہنسنے اور لڑنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔اس کو اور کچھ نہیں سکھایا گیا ہے۔ ایک دن وہ اپنی ماں کو بتاتا ہے کہ اس کو ایک لڑکی پسند ہے۔ ماں لڑکی کے ہاتھوں حنّا لگانے اپنی بہترین لباس میں ملبوس عورتوں کو لیکر لڑکی والوں کے ہاں جاتی ہے۔
ایک دن وہ گھر سے باہر نکلتا ہے۔ اور ہنستا ہوا اپنے ہی خون اورنسل کے مرد کی گولی کا شکار ہو جاتا ہے۔اسکی بیوی کو وراثت میں ایک خوشی کا لمحہ، دو لڑکے اور زندگی بھر کا غم ملتا ہے۔وہ شوہر کی رائفل کو لٹکا دیتی ہے اور بچوں کوستار دے د یتی ہے۔
وہ اپنے آنسوں چھپانا سیکھ لیتی ہے۔ وہ بڑے بیٹے کو بہت چاھتی ہے کیوں کہ اس میں باپ سے بہت مشابہت ہے۔ اور چھوٹے کو کیوں کہ وہ اپنے با پ کی طرح مسکراتا ہے۔ جب شام میں وہ تینوں آگ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں اور بچے پوچھتے ہیں " ۔ ہمارا باپ کون تھا؟۔" وہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ ایک مشہور ڈاکٹر، فلاسفر، یا عالم تھا۔دہ صرف یہ کہتی ہے ۔ " وہ ایک بہت بڑا آدمی اور ایک بہادر سپاہی تھا" اور پھر وہ انکو وہ اُس جنگ گانے سننا تی ہے جس میں انکا باپ اور اپنے تین بھائیوں اور پانچ چچازاد بھائیوں کے ساتھ مارا گیا۔
پٹھان کا دل نازک ہے لیکن وہ اس کو چھپاتا ہے۔
وہ ایک اچھا سپاہی ہے جواپنی کردار کی کمزوری کو ظاہر نہ ہونے دے گا۔" شیرین مت ہو۔" " لطا فت کی ، تو لوگ تم کو ہضم کر جایئیں گے اور حد د سے ذیادہ تلخی کی تو وہ اُگل دیں گے "
حفاظتِ ذات : لطافت کو میں تلخی چھپانا ہے۔ و ہ تند مزاجی، مضبوط جسم اور نرم دل کا زندہ مجموعہ ہے لیکن یہ تو ایک شاعر ی کے لے ایک رنگین موضوع ہے۔ چہرے پہ کھردراپن۔ ـ" کیونکہ وہ تمہیں اپنی نم آنکھوں نہیں دیکھنا چاھتا۔وہ تمہیں اپنا کھردراپن دیکھاے بجاے اسکے کہ تم اسکی آنکھیں بیوی کے غم میں نم دیکھو"
اسکے ماں باپ اپنی زندگی کے تجربات سے اسکو آگاہ کرتے ہیں " کبوتر کی آنکھیں پیاری ہیں لیکن فضا شاہین کے لئے بنایئ گئ ہے۔ تم اپنی آنکھوں کو چھپاؤ اور اپنے پنجوں کو بڑھاؤ۔ "
لیکن کبھی جب وہ شام میں تنہا بیٹھتا ہے تو وہ کبوتر کیطرح کو کو کرتا ہے۔وہ شادی کے بغیر محبت کو مکمل نہی سمجھتا۔لیکن اگر وہ محبت کرنے کی جرائت کرتا ہے تو یہ جانتے ہوے کے اسکا قتل عام ہوگا۔
پٹھان اپنی بیٹی کے معشوق کو گولی مار دیگا لیکن وہ عشق کی عظمت کے گانے گائے گا۔ جب وہ محبت کا ساز بجاتا ہے توآنکھیں نم ناک ہوکر خوابوں میں ڈوب جاتی ہیں۔
[/size]
.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]پختون کی سیاست[/center]

پٹھان صاف اور سیدھا ہوتا ہے۔ ہر پٹھان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سکندرِاعظم ہے۔ اور وہ سب لوگ اس با ت کو منظو ر کریں۔ اس وجہ سے بیٹا باپ سے، بھائ بھائ سے اورکزن کزن سے لڑتا ہے۔ پختون ایک بڑی قوم نہیں بن سکتی اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہرگھر میں ایک مطلق العنان ہوتا ہے جو کہ اپنا گھر جلادیگا بجاے اس کے کہ اسکا بھائ حکومت کرے۔
پٹھان کے عمدہ خیال کے وسیلے غصہ کرنا ، زبردستی کرنا اور گہری جہالت ہیں۔اگر وہ کوہاٹ کا ناظم اعلیٰ نہیں بن سکتا تو اسے کوہاٹ سے حقارت ہو جاتی ہے اوروہ اپنے ڈھائ مٹی کے گھر کو کوہاٹ سمجھنے لگتا ہے۔
موقع شناسی کا اس کو علم نہیں۔ سوچ سے کام لینے کے بجاے وہ ہمشہ طاقت کے بل پر مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔ بلند نظری بغیر صبری کی وجہ سے جوانی میں مرتا ہے۔
اسکا دل بڑا اور دماغ چھوٹا۔ اسی دجہ سے وہ ایک دل فریب دوست اور ایک اچھا میزبان ہے۔ وہ ڈاکہ اس لئے ڈالتا ہے کیونکہ اسکا دماغ مغرور ہے اور پیٹ خالی ہے۔
جب اسے خیرات اور فدیہ کے درمیان پسند کرنا ہوتا ہے تو وہ فدیہ کو قبول کرتا ہے ۔
کیونکہ وہ آدمی ہے کیڑا نہیں۔ دیکھواس کی خوبصورت جوان بیوی کے پھٹے کپڑے اور بچے کی بھوکی آنکھیں۔وہ دانت پیس کر رائفل اٹھا تا ہے اور ایک کے لے ایک گز کپڑا اور دوسرے کے لے ایک منہ بھر غذا کے لے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ جب ایک معاشرہ اس کے پیاروں کے لے زندگی کے سامان نہیں مہیا کرتا تو وہ اسکو اپنے پاوں تلے روند دیتا ہے۔
وہ بھیک مانگنے کے بجاے چوری کرنا اچھا سمجھتاہے۔ وہ خدا کے اور انسان کے قہر کو قبول کرنے کو تیار ہے لیکن غریبی کی شرم و ذلت اور تحقیر کو برداشت نہیں کر سکتا۔
انگریزوں نے دو سو سال تک اس کو رشوت دے کر بگاڑا ہے۔ انہوں نے اس کے ملاؤں، خانوں اور فقیروں کو خرید لیا۔

.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]پختون کی بیٹی کا مسئلہ[/center]
اباجان نے سب کو نچلی منزل کے زمین دوز(بیس مینٹ) کمرے میں جمع ہونے کا کہا۔ یہ کمرہ ہمارا انٹرٹینمیٹ روم ہے۔ اس میں ایک سارے گھر کی سہولیات ہیں۔ پورا کیچن، ڈایئنیگ ٹیبل، مشروبات کا بار، باتھ روم، جم ،گیم ٹیبل اور کمپوٹر روم اور سیٹیلائٹ کنشن ۔
اِنٹرٹینٹ مینٹ سینٹر میں ماڈرن پراجیکشن سسٹم ہے۔ جو پلازمہ کے اسکرین پر فلم کو دیکھاتا ہے۔سکرین ساؤنڈ اس کمرہ کو تھیٹر بنادیتا ہے۔دس لوگ آرامدہ صوفوں میں بیٹھ کر فلم دیکھ سکتے ہیں۔ ہم لوگ مگر چھہ ہیں۔ اباجان، اماجان، نورا، سکینہ، سعدیہ اور میں۔
نورا نے کھانے کی میز پر پھل، ڈرائ فروٹ، مٹھایئ ، اور چائے لگا رکھی تھی۔ میں نے سب کو پانچ منٹ دیے تاکہ وہ پیلٹ اور چائے لیے لیں۔ پھر میں نے کھڑے ہوکر کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]پختون کی بیٹی کا مسئلہ[/center]
اباجان نے سب کو نچلی منزل کے زمین دوز(بیس مینٹ) کمرے میں جمع ہونے کا کہا۔ یہ کمرہ ہمارا انٹرٹینمیٹ روم ہے۔ اس میں ایک سارے گھر کی سہولیات ہیں۔ پورا کیچن، ڈایئنیگ ٹیبل، مشروبات کا بار، باتھ روم، جم ،گیم ٹیبل اور کمپوٹر روم اور سیٹیلائٹ کنشن ۔
اِنٹرٹینٹ مینٹ سینٹر میں ماڈرن پراجیکشن سسٹم ہے۔ جو پلازمہ کے اسکرین پر فلم کو دیکھاتا ہے۔سکرین ساؤنڈ اس کمرہ کو تھیٹر بنادیتا ہے۔دس لوگ آرامدہ صوفوں میں بیٹھ کر فلم دیکھ سکتے ہیں۔ ہم لوگ مگر چھہ ہیں۔ اباجان، اماجان، نورا، سکینہ، سعدیہ اور میں۔
نورا نے کھانے کی میز پر پھل، ڈرائ فروٹ، مٹھایئ ، اور چائے لگا رکھی تھی۔ میں نے سب کو پانچ منٹ دیے تاکہ وہ پیلٹ اور چائے لیے لیں۔ پھر میں نے کھڑے ہوکر کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سعدیہ نے ایک سویچ کو آن کیا اور اسکی سلایڈ پلازمہ اسکرین پر نظر آئ۔
پختون کی لڑکیوں کا مسئلہ

سعدیہ نے گہری سانس لی۔ اسکا جسم تنا ہوا تھا۔"
بھیا نے کہا تھا کہ تین گہری سانس لینا اور پھر سب کودیکھنا۔ تم ہم سب سے ہر روز باتیں کرتی ہو۔ سوچو کہ یہ دن دوسرے دِنوں کی طرح ہے۔ جب بے چینی یا گھبراہٹ ہو میر ی طرف دیکھنا "۔
سعدیہ نے دوسری گہری سانس لی اور اپنی توجہ حاضرین کی طرف کی۔ابا جان کی آنکھوں میں بیٹی پر فخر تھا۔ اماجان کی آنکھوں میں پیار تھا۔ نورا کی آنکھوں میں چاھت تھی اور بھیا، بھیا کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ صرف سکینہ کی آنکھوں میں اشتیاق تھاا ور میں فیصلہ کیا اگرمیں نے بے چینی محسوس کی تو سکینہ کی آنکھوں سے آرام اور بہلاؤ حاصل کروں گی۔
سعدیہ نے تیسری گہری سانس لی۔
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
روح القدوس نےاپنے نور سےایک روح کوجدا کیا اور اسکو خوبصورت کی صفات دی۔
اللہ تعالیٰ نے اس روح کو خوش اسلوب اور رحم دلی کی برکت دی۔
پھر اس روح کو خوشی کا پیالہ عطا کیااور فرمایا۔' اس پیالہ سے اسوقت تک مت پینا جب تک کہ تم ماضی اور مستقبل کو نہ بھول جاؤ۔
وقتِ حال کی خوشی کے سوا کوئ خوشی نہیں۔
' پھر اللہ تعالیٰ اس روح کوغم کا پیالہ دیا اور فرمایا ' ا گر اس پیالے سے پیو تو چند روزا خوشی اور مستقیل غم ہوگا۔
تب روح القدوس نے عورت کو ایسی محبت دی جس کو وہ دنیاوی دل جوئ کے خاطر ، وہ کھودئے گی۔ اور جھوٹی تعریفوں کی وجہ سے اپنی لطافت اور نرمی کو چھوڑ دے گی۔
اللہ نے عورت کو جنت سے عقل مندی عطا کی تاکہ وہ صحیح راستہ پر چلے۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک آنکھ رکھی جو کے نہ دیکھی ہوئ چیزوں کو دیکھ سکے اور اس کو ہر چیز سے الفت اور ا چھائ کی خوبی دی۔
روح القدوس نے اس کو امید کا لباس پہنایا جس کو جنت کے فرشتوں نے قوس و قزح سے بنایا اور اسکو پریشانی دماغ کا جامہ پہنا یا جو کہ زندگی کی صبح اور روشنی ہے۔
اس کے بعداللہ تعالی نے غصہ کی آگ سے جہالت کے ریگستان کی خشک ہوا اور نفس پرستی کے سمندر کے کناروں کی چاقو کی طرح تیز ریت اورکُھردری ، مددتوں پرانی زمین کی مٹی کو ملا کر آدمی بنایا۔
اللہ تعالی نے مرد کوایسا اندھی قوت دئی جواسکو دیوانا بنادتی ہے اور وہ اس خواہش تکمیل کیلئے وہ موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہنسا اور رویا۔ اُس نے مرد کیلے شفقت اور ترس محسوس کیا۔اور اس نے مرد کو اپنی نمائندگی میں لے لیا۔
سعدیہ نے سانس لی۔اور بولی۔
"خلیل جبران نے اپنی مشہور کتاب ' Prophet 'میں یہ لکھاتھا۔" سعدیہ نے ہنس کر کہا۔
"مرد کوبہت ریاعت حاصل ہے" ۔
" لیکن اللہ تعالی نے ہم عورتوں کو عقل مندی، گہری سمجھ ، الفت و اچھائ اور امید بخشی ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »


خواتین و حضرات،
ہم اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ سینکڑوں لڑکیوں کی زندگی ہر سال تباہ ہوتی ہے۔وہ میری تمہاری بہن ہیں ۔
سلائیڈ پر لکھا تھا۔

پختون کی لڑکیوں کا مسئلہ

آپ سوال کریں گے کہ کیا مسئلہ؟
پختون کی لڑکیوں کا کیا مسئلہ؟ " سعیدہ نے سلایڈ کوآگے بڑا یا۔

1 - کم عمری میں شادی
2 - بچہ کی پیدائش کے دوران مرنا
3 - شوہر اور اس کے خاندان کیطرف سے ظلم اُٹھانا۔
یہ تو بہت بھیانک خرابی ہے۔
٭
ماں باپ لڑکی کی کم عمر کی شادی کیوں کرتے ہیں اس کئی وجہ ہیں۔ سعیدہ نے گہرا سانس لیا۔
پہلی اور سب سی اہم وجہ ۔ بالغ ہو نے کی عمر۔ اسلامی قانون میں بالغیت کا تصور۔
دوسری اہم وجہ ۔ رسم و رواج ۔ پختونولی۔ پختون کے رسم و رواج۔ تیسری اہم وجہ ۔والور۔ لڑکیاں آمدنی کا زریع بن گی ہیں۔
چوتھی اہم وجہ ۔ غریبی۔ ایک پیٹ کم بھرنے کو۔
پانچویں اہم وجہ ۔ ا سلامی قانون۔ حکومت پاکستان کاا سلامی قانون جولڑکی کوسولہ سال کی عمر میں بالغ کرتا ہے
مگراس قانون کا صحیح معنی میں نفاظ نہیں ہے۔
چھٹی اہم وجہ ۔ کلچر۔ صوبہ سرحد کی حکومت کا رسمووں کی سرپرستی۔

پیدائش کے دوران ننھی ماں کیوں مرتی ہے

کم عمری۔ ہر تیرا سال کی لڑکی دماغی اور جسمانی طور پر بچے کی پیدایئش کیلئے تیار نہیں ہوتی۔

تعلمِ صحت کی کمی۔ اسپتال کی صولتوں کی غیر دستیابی۔ ڈاکٹر اور اسپتال دور دور ہیں۔

شوہر اور اس کے خاندان کا ظلم روائت۔ شادی کے بعد شوہر کے خاندان کا برتاؤ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]ہمارا مقصد [/center]

پختون کی لڑکیوں کی فلاح و بہبود ی :
خان اور ملک کے ہاں پلنے والی لڑکیوں میں خود اختیاری کے بیج بونا جن کی عمریں انداز اً چھ سال سے بارہ سال کی ہیں۔ انکو زریعوں اور وسئلوں سے آگائ کرانا جن سے وہ مدد حاصل کرسکیں۔
تعلیم ۔اردو، پشتو اخبار اور باہر نکلے کی آزادی۔
ذرایئع۔ خان ذادیاں اور ملک ذادی، پختون کی لڑکیوںکو تعلییم و تربیت دیں گی۔
تعلیم ۔ وہ ان بچوں کو نئے آداب زندگی سکھلایئں گی۔ اردو زبان اب بہت مقبول ہو چکی ہے اور اسکا بولنا، لکھ نا بہت ضروری ہے، اور اخبار پڑنا کا پڑھنا ہمیں ہمارے شہر، ملک اور ہمارے معاشرے سے مطلق خبریں مہیا کرتا ہے۔پشتو۔بولنا، لکھنا،اورپشتو کا اخبار پڑسکنا بھی ضروری ہے۔ پشتو زبان ہم کو اپنے کلچر سے قریب رکھتی ہے۔
انگریزی۔ الفابیٹ ،اور دو سو سے تیں سو روزا میں استعمال ہونے والے اردو، انگریزی کامن الفاظ کا جاننا ، ریڈیو اور ٹلیویزن کو سننے اور سمجھنے میں مدد کرے گا۔ آجکل اردو اور پشتو زبانیں انگریزی کامن الفا ظ استمعال کرتی ہیں۔
سو تک گنتی کا گننا، آٹھ سے دس تک پہاڑے جانا ، جمع، تفریق، ضرب، اورتقسیم میں مہارت ہونا ۔ بازار میں سامان خریدنے کی قابلیت پیدا کرتاہے۔ اور دوسروں کی محتاجی سے بچا تاہے۔

وقت تکمیل

میرے خیال میں ابتدائ نتیجہ پہلے چھ سال میں نکلے گا اور ہم پندرہ پرسنٹ لڑکیوں کی کم عمری میں مرنے کو ختم کرسکتے ہیں ۔یہ چارٹ سے یہ عیاں ہوگا

مکمل تبدیلی کا اندازاً وقت

١٥ (%) - ٥٠ (%) - ٧٥ (%) - ٩٠ (%)
٦ سال - ١٢ سال - ١٨ سال - ٢٤ سال

کامیابی ہوسکنے کی وجہ
خان زادیاں اور ملک زادیاں کو پختون کی لڑکیوں تک رسائ حاصل ہے۔ پختون کی لڑکیوں اُ ن کی پاس میں پانچ سے چھ سال تک ہوتی ہیں۔
اب ہم دس منٹ کا وقفہ لیں گے۔ اس کے بعد میں آپ سوالوں کا جواب دوں گی۔
Post Reply

Return to “ناول”