پختون کی بیٹی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]تعلیم خصوصی

میں 101 Freeway سے Wilshire East پر نکلا اور پُل کے نیچے سےگزر کر پہلی ٹریفک لائٹ پر Westwood village کے لیے لفٹ ٹرن لیا۔ تین بلاک کے بعد ہم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس ( اُ کلا ) کے کیمپس میں داخل ہو رے تھے۔
اُکلا، امریکہ کی دس مشہور یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جگہ میرے لیے دوسرا گھر ہے۔ اباجان اور اماجان نے یہاں تعلیم پائ اور یہاں ہی دونوں پہلی بار ملے اور اب اباجان یہاں فلسفہ پڑھاتے ہیں اور ماں نفسیات۔ میں بھی یہاں پڑھتا ہوں اور دو سال کے بعد سعدیہ بھی یہیں پڑھی گی۔ یہ میں کیوں بتارہا ہوں؟ اس لیے کہ یہ ہماری فیمیلی کی ’ یونی‘ بن گئ ہے۔
اُکلا کیلیفورنیا کی پبلک یونیورسٹی ہے۔ اس کی فیکلٹی کااسٹاف33 ہزار سے ذیادہ ہے۔ ان میں سے 5 نوبل پرائزیا فتہ ہیں۔ 26 ہزار انڈر گریجویٹ طالب علم اور تیرہ ہزارگریجویٹ طالب علم ہیں۔ اس کی لائبریری میں سات ملین کتابیں ہیں۔ اس میں ایک سو چوہتّر بلڈنگ ہیں جو چار سو اُنیس ایکڑ پر پھیلی ہیں۔
آج ہم اباجان سے تعلیمِ خصوصی پر گفتگو کریں گے۔ اور اکلا کے علاوہ لاس اینجلس میں اور کس جگہ کو یہ امتیاز مل سکتا ہے؟ میں اور سعدیہ کیرکا ف ہال کے سیکنڈ فلور پر کھلے ہوۓ برآمدے میں اباجان اور اماجان کا انتظارکررہے ہیں۔ یہ کیمپس کے درمیان تین منزلہ لال اینٹوں اور کنکریٹ کی خوبصورت بلڈنگ ہے۔ سعدیہ نے اوپر سے اباجان اور ماں کو آتے دیکھا۔ اس نے کہا چلو اندر کافی ہاؤس میں آرام سے بیٹھتے ہیں۔
جیسے ہی سب بیٹھے۔ماں نے ہم سب کے لیے گرم چاۓ اور کوراسانٹ( فرنچ پپڑی دار پیسٹری ) کا آرڈر دے دیا۔
[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]” سعدیہ بیٹا تم تعلیم حاصل کررہی ہو“۔ اباجان نے کہا۔
سعدیہ نے کہاـ” جی جی“۔
” تم مجھے بتاؤ کہ تم مکمل تعلیم سے کیا مطلب سمجھتی ہو؟ـ“
سعدیہ اس سوال کے لیے تیار نہیں تھی۔اس نے ہڑبڑا کر کہاـ” علم کو حاصل کرنا اور کسی ہنر کو سیکھنا “۔
اباجان نے مجھ سے کہا”سعدیہ نے کہا۔ علم کو حاصل کرنا۔ تم اس کا کیا مطلب سمجھے؟“
” علم کو جاننا“۔ میں نے کہا۔
” علم کو جاننااور سمجھنا دو مختلف درجے ہیں۔ علم کو بغیر جانے سمجھا نہیں جاسکتا اور علم کو بغیر سمجھے اس کا استعمال مشکل ہے“۔ اباجان نے کہا۔
” تعلیم اور ’ تعلیم کُلیت‘ میں امتیاز کرنا چاہیے ؟” سعدیہ نے کہا۔
” ہاں“۔ سعدیہ سمجھ گئ۔ اباجان نے مسکرا کر کہا۔
اباجان نے کہا ـ” سعدیہ کا جواب اچھا ہے۔ تعلیم یافتہ کہلانے کے لیے تین درجوں سےگزر نا پڑتاہے“۔
” وہ درجے کیا ہیں ابا جان؟“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ میرے خیال میں سعدیہ کا جواب مکمل تھا۔
” ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال“۔ جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔
” ایک قسم تعلیمِ عامہ کہلاتی ہے اور دوسری قسم تعلیمِ مخصوصہ“۔
تعلیم عامہ سے مراد ’ تعلیم کا حصول اوراس کو سمجھنا ‘ ہے۔ پروفیسر تعلیمِ عامہ کے ماہر ہوتے ہیں۔وہ تعلیم کو پیش کرتے ہیں۔ تعلیم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کو کمانے میں نہیں کرتے۔
تعلیم مخصوصہ سے مراد ’ تعلیم کا استعمال‘ کسی مقصد کو حاصل کرنے میں۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔
اباجان نے کہا۔ ” تعلیم صرف ایک صورتِ امکانی ہے۔ یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو مقصد کے حصول کے لیے منظم کیا جاتا ہے ا ور اس کا رُخ مقرر خاتمہ کی طرف کیا جاۓ۔سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئ شخص اسکول نہ جاۓ تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن ایک اٹالین لفظ ’ ایڈوکو‘ سے بنی ہے۔ جس کے معنی ’ اندر سےابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص وہ ہو جس کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہے، تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کسی کا حق مارے بغیر ہر اس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]اباجان نے ا پنی بات کو جاری رکھا۔” میں تم کو ہنری فورڈ کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ جس نے امریکہ میں پہلی سستی، مضبوط اور کم خراب ہونے والی ماڈل ٹی کار بنائ۔ ہنری فورڈ ایک بہت مال دار شخص تھا۔ ایک دفعہ شکاگو کے ایک اخبا ر نے اس کو’ جاہل صلح پسند‘ کہا۔ فورڈ کو اپنے بارے یہ راۓ زنی پسند نہیں آئ۔ فورڈ نے اخبار پر تحریر باعثِ ہتک کا مقدمہ کردیا۔ عدالت میں وکیلِ دفاع نے فورڈ سے کافی مشکل اور تفصیل وار سوال پوچھے۔تھوڑی دیر تک مسٹر فورڈ ان سوالوں کا جواب دیتے رہے۔ اس کے بعد ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میری ڈیسک پر دسیوں الیکٹریک پُش بٹن ہیں، اگر مجھ کو اس سوال کا جواب چاہے ہوتا تو میں ایک بٹن کو دباؤں گا اور اس فیلڈ کا ایک ماہر میرے آفس میں اس کا جواب لےکر موجود ہوجاۓ گا۔ میں کیوں اپنے دماغ کو تعلیمِ عامہ سے بھردوں جب کہ میرے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ کو اس کے جواب سے آگاہ کر سکتے ہیں“۔
” سعدیہ بیٹی کیاعام تعلیم کے لیے تعلیم گاہ ضروری ہے“۔ ابا جان نے سعدیہ سے سوال کیا۔
” نہیں ابا جان۔ عام تعلیم کے لیے تعلیم گاہ جانا ضروری نہیں ہے“۔ سعدیہ نے مسکرا کر کہا۔
” بیٹا، تعلیمِ مکمل کیسے کہتے ہیں؟“
” ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال۔ جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔ میں نے اباجان کے الفاظ دہراۓ۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]تصور

” انسان ہر وہ چیز کرسکتا ہے جس کو وہ سوچ سکتا ہے“۔ اباجان نے کہا۔
” وہ کیسے؟“سعدیہ نے سوال کیا۔
ابا جان نے سوچ کو ایک کارخانے سے تشبیہ دی اور عقل و شعور کو ایک کمہار سے۔
” آپ سوچ کو ایک کارخانہ سمجھ لیں۔ اس کارخانے میں خواہش سے ہم منصوبے بنا تے ہیں اور جس طرح ایک کمہار چکنی مٹی سے مٹکا بناتا ہے اس طرح عقل و شعور ، خواہش کو شکل و صورت دیتی ہے۔ خواہش کو ایک راہ میں ڈھالنا ، گھڑنا اور منصوبے پر عمل ہونا دماغ کے عقل و شعور میں ہوتا ہے۔ انسان نےعقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیےاور قدرتی قوتوں کو قابو کیا ہے ابا جان نے بتایا۔”سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ اگر ہم پرانے قیاس، خیال، سوچ اور منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں تو یہ سوچ ، ترکیبی سوچ ہے“۔
” سوچ موجدہ میں الہامی خیال، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ دوسرے انسانی دماغ سے رابطہ قائم کرلیتا ہے”۔اباجان نے دوسری سوچ کے متعلق بتایا۔
اباجان نے پوچھا۔” تم نے’ خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس‘ کی کہانی سنی ہے؟ “
سعدیہ اور میں نے ایک ساتھ کہا۔” نہیں“۔
جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس کالج کے طالب علم تھے انہوں نے اپنے کالج کے نظامِ تعلیم میں بہت سے نقص دیکھے۔اس نے سوچا کہ اگر وہ کالج کے منتظم ہوتے تو وہ ان کی اصلاح کر دیتے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک نیا کالج شروع کرے گا جس میں وہ اپنے منصوبوں کو بغیر پرانے رسمی طریقِ تعلیم کے نافذ کریں گے۔اس کام کو کرنے کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت تھی۔کہاں سے اتنی بڑی رقم ملے گی؟
خطیب تمام کامیابی کے اصول جانتا تھا۔ وہ جانتا تھاکہ مقصدِ مقرر سے کامیابی کی شروعات ہوتی ہے۔کوئ اور شخص اپنے آپ سے کہتا کہ یہ خیال تو اچھا ہے مگر میں کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کام کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ڈاکٹر ایسا دو سال سے سوچ رہا تھا۔ ایک سنیچر کی شام اس نے اپنے آپ سے کیا کہ دو سال سے میں دن رات اس کے متعلق سوچتا ہوں لیکن میں نے اس کے لیے کیا ،کیا ہے؟ ڈاکٹر نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ ایک ہفتہ میں ا یک ملین ڈالر حاصل کرلےگا۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس رقم کو ایک ہفتہ میں حاصل کرے گا۔ ایک بھروسے اور یقین کی کیفیت اس پر طاری ہوگئ۔
اس نے فوراً مقامی اخباروں میں ایک اشتہار چھپوایا۔” اگر میرے پاس ایک ملین ڈالر ہوں تو میں یہ کروں گا“۔اس کے بعد اس نے بیٹھ کرایک خطاب لکھا۔ اس کو اپنے منصوبے کی ایک ایک بات پتہ تھی۔ جب وہ خطبہ گاہ پر پہنچا تو اس کو خیال آیا کہ اس جوش و جذبہ میں وہ اپنے وعظ کوگھر بھول آیا ہے۔اس نے اس خطبہ کو اپنی خوابوں کی روح اور دل سے دیا۔ اس نے کہا کہ وہ کس طرح سے ایک ملین ڈالرسے کالج کھولے گا جو نہ صرف لوگوں کو”درسی تعلیم”جو ان کے دماغوں کو روشن کرے بلکہ ’ ہُنر‘ کی بھی تعلیم دے گا۔
جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس نے اپنا واعظ ختم کیا اور بیٹھ گۓ۔ایک شخص سامعین میں سے منبر پر آیا اور ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر کہا۔ میرا نام فلیپ ارمر ہے اور مجھے تمہارا وعظ پسند آیا۔تم کل میرے آفس آؤ تو میں تم کو ایک ملین ڈالر دوں گا۔ ڈاکٹرگن زاؤلس دوسرے دن مسٹر ارمر کے آفس پہنچا۔ مسٹر ارمر نے ڈاکٹرگن زاؤلس کو ایک ملین ڈالر پیش کیے۔
آج اس کالج کا نام Illinois Institute of Technology ‘ ہے۔
” پہلے دو سال اور اس ہفتہ میں کیا فرق تھا؟“۔
” دیکھو ، جب خطیب ڈاکٹر نے فیصلۂ مقرر کیااور منصوبۂ مقرر بنایا تو 36 گھنٹے بعد اس کو اس کی خواہش کا صلہ ملا“۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]منظم منصوبہ بندی

اماں جان کو بونا وینچر ہوٹل میں ارگینائزیشن پرایک سلائیڈ پریزینٹیشن کرنی تھی ۔بونا وینچر ہوٹل کا شمار پانچ اسٹار ہوٹلوں میں ہوتا ہے ۔ یہ بہت خوبصورت پچیس منزیلہ سلنڈریکل بلڈنگ ہے ۔ تمام بیرونی کھڑکیاں سلورکے رنگ کی ہیں مگرشیشے کی بنی ہوئ ہیں ۔یہ ہوٹل ڈاون ٹاون لاس انجلس کے فاینینشل ڈسٹریکٹ میں ہے ۔اسکا ریوالوینگ لا ؤنچ اور روف ٹاپ اسٹک ہاوس، ایل اے پرائم سے آپ لاس انجلس کا خوب صورت نظارہ کرسکتے ہیں ۔میں نے appetizer کے لئےlobster briscuit اور Main course کے لئے Newyork Sirlion Steak کے لئےcrème Brule آرڈرکیا ۔ سادیہ نے baked Oyster Rockefeller ، Chilean bass , tiramisu ۔ اماں اور اباجان نے oysters and seafood salad آرڈر کیا ۔
” ہر چیز، جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے وہ خواہش سے شروع ہوتی ہے“۔
خواہش کا پہلا قدم بلاوجود سے وجود میں تبدیل ہونا ، قوت متصورہ کے کارخانہ میں ہوتا ہے ۔جہاں پر اسکی تبدل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔قائداورمعتقد کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط ، انصاف پسندی ، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی ، خوش گوار شخصیت ، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا مہارت ، ذمہ داری اور مل کر کام کرنے کی صفا ت ہو تی ہیں ۔ معتقد لوگ ، قائد کا کہا مانتے ہیں ۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں ۔ بہت دفعہ ایک قائد، معتقد میں سے ہی بنتا ہے ۔
وہ قائد ، اپنے مقصد میں کا میاب نہیں ہوتے ہیں جوکام کی تفصیل سے بھاگتے ہیں اور صرف وہ کام کرنا چاھتے ہیں جوانکی حیثیت کے برابر ہوں ہو، چھوٹا کام کرنا نہیں پسند کرتے ۔ وہ اپنی تمام قابلیت، یعنی اپنی تعلیم کے مطابق صلہ مانگتے ہیں اپنے کام کے مطابق نہیں ۔جومتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوے گھبراتے ہیں ۔ جن میں صورت متخیلہ نہیں ہوتی اور خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں ۔

منظم منصوبہ بندی کے اصول

1 ۔ جتنے ساتھیوں کی اپنے منصوبہ پر عمل کرنے کےلے ضرورت ہے ان کو اپنے مہتممِ دماغ علم یا ماسٹر مائنڈ کا پارٹنر بنالیں ۔
2 ۔ تمام شرکا اور شریکِ کار کو پتہ ہو نا چاہیے کہ اس شرکت میں انکی کیا ذمہ داری ہے ۔
3 ۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجاے، تمام شرکا اور شریکِ کارکو کم از کم ہفتہ میں دو دفعہ ملنا چاہے ۔
4 ۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجاے تمام شرکا اور شریکِ کار کو میل اور اتفاق سے رہنا چایئے ۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]اراد ہِ مصمم اور فیصلہ
کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کسی کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلا تؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور جب فیصلہ کرلیں تو اس فیصلہ کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔
جب تم نے اپنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلیا تو دوسروں کی راۓ سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل مت کرو۔
دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو اور پھر بتاؤ۔
فیصلہ کی قیمت کا انحصار جرات پر ہے۔ دنیا کے وہ فیصلے جن سے تہذیب کی بنیادیں رکھی گئیں، ان فیصلوں کے نتائج کو حاصل کرنے میں جانیں تک خطرے میں تھیں۔
سقراط پر جب یہ دباؤ ڈالا گیا کہ اگر اس نے اپنے خیالات نہ بدلے اور جمہوریت کی باتیں کرتا رہا تو اس کو زہر پی کر مرنا پڑے گا۔ سقراط نے اپنے خیالات نہیں بدلے اور اس کو زہر کا پیالہ دیا گیا۔
ظلم سے آزادی کی خواہش آزادی لاے گی ۔ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]ثابت قدم

ثابت قدمی کو صلہ میں تبدیل کرنے کے لیے اصرار اور خواہش کا ہونا لازمی ہے۔ قوتِ ارادہ سے ثابت قدم اور اصرار بنتے ہیں۔
ثابت قدمی کوسیکھا جاسکتا ہے۔ ثا بت قدمی کی بنیاد وضاحت پر ہے۔ ارادۂ شافی، خواہش، جرات، منصوبہ ، صحیح علم، مل کر کام کرنا ، قوت ارادی، صحیح عادت اس کے وجوہ ہیں۔ جب ہم غیر جانبداری سے پیغمبروں،فلسفیوں ،کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ثابت قدمی، جدوجہد کی یکجائ اور عزمِ شافی کی بناء پر انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرآپ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس دورِحاضر کے تمام کامیاب لوگوں کی ز ندگیوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سب میں ثابت قدمی کی خصوصیت موجودہے۔
اُنیس سو بتیس میں’ محمت ایساد بے ‘ نے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کتاب لکھی اس کا کتاب نام ’ حیرت انگیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی تھے۔وہ صوفی نہیں تھے۔ اُنہوں نے اسکول میں نہیں پڑھا اور اُنہوں نے اسلام کی تبلیغ چالیس سال تک نہیں شروع کی۔ جب اُنہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اللہ تعالٰی کے پیغمبر ہیں اور ایک سچے مذہب کا بتارہے ہیں تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور خبطی، پاگل اور بےوقوف بھی کہا۔ بچوں نے اڑنگے لگاۓ اور عورتوں نے ان پر نے غلاظت پھینکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مکہ سے نکال دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مانے والوں سے ان کی جائیدادیں چھین لیں اور ان کو بھی مکہ سے نکال دیا۔10 سال تک اسلام کو پھیلالینے کی کوشش کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ گنے چنے لوگ تھے۔ جنہوں نے اسلام قبول کیا وہ غربت کی اور تحقیر آمیز زندگی بسر کررہے تھے۔ مگر اس سے پہلے کہ دوسرے دس سال گزرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے عرب کے حکمران اور دنیا کے آخری صاحب الکتاب مذہب کے پیغمبر تھے۔ اس سے پہلے کے اس کا بل ٹوٹتا یہ مذہب ڈنیوب سے پایرینیس تک پھیلا۔
اس کے بل کی بنیاد تین چیزوں پر تھی۔ الفاظ کی قوت ، دعا کی اثر اور انسان کا ا للہ سے روحانی رشتہ۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

  • [list]ماسٹرمایئنڈ


” علم ایک طاقت ہے“۔اباجان نے کہا۔ کامیابی کے لیے طاقتِ علم کا ہونا ضروری ہے“
” منصوبے بغیر معقول طاقتِ علم کے غیرمؤثراور بے کار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا“۔
” دما غی قوت ، یہاں ایک منظم اوردانش مند علم کو مسئلۂ مرکوز پر توجہ کرنے کے معنی میں استمعال کی گئ ہے“۔
علم کے حاصل کرنے کے تین ذرائع ہیں۔
ایک۔ لا محدود قابلیت۔
دو۔ جمع کیا ہوا علم، پبلک لائبریری، پبلک سکول اور کالج۔
تین۔ تجربات اور تحقیقات، سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے“۔
علم کو ان ذرائع سے حاصل کر کے منصوبۂ مقرر میں مننظم کرنا اور پھر منصوبوں کو عمل میں تبدیل کرنا، دماغ کی طاقتِ علم ہے۔
اگر منصوبہ وسیع ہے تو آپ کو دوسرے لوگوں کے دماغ کی طاقتِ علم کی مدد کی ضرورت گی“۔
” جب دو یا دو سے ذیادہ لوگ ایک مقرر اور مخصوص مقصد کو حاصل کر نے کے لیے علم کی ہم آہنگی کرتے ہیں تو وہ ماسٹرمائنڈ کہلاتے ہیں“۔
انسان کے دماغ کو ایک بجلی کی بیٹری سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ اگر دو بیٹریز کو سیزیز میں ملایا جاۓ تو آپ کو دوگنی بجلی ملتی ہے۔انسان کا دماغ بھی اسی طرح ہے۔ [/list][/size]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]جب انفرادی دماغ مل کر کسی کام میں ایک تال اور سُرسے ملتے ہیں تواس سے پیدا کی ہوئ مجموعی طاقتِ اجتماع اُن سب کو دستیاب ہوتی ہے۔
گاندھی کی مثال لیں۔ وہ مہاتما اس لیے بنا کہ اس نے دو سوکروڑ لوگوں کی جسم اور جان کو ایک مقصد مقرر کے لیے ملا دیا۔ اور ان کی مجموعی طاقتِ اجتماع نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
گاندھی نے کہا میں تم کو ایک طلسم دیتا ہوں جب بھی تم کو شبہ ہو اور یا دھیان خود کی طرف جانے لگے تو اپنے ذہن میں ان کمزور اور غریب لوگوں کے چہرے لاؤ، جن کو تم نے دیکھا ہے اور اپنے آپ سے یہ سوال کرو۔
یہ قدم جو تم اُ ٹھا رہے ہو کیا ان کی مدد کرےگا ؟
کیا ان کو اس سے کوئ فائدہ ہوگا ؟
کیا اس سے ان کو اپنی زندگی اور اپنی نصیب کو خود ڈھالنے کا موقع ملے گا ؟
دوسرے الفاظ میں کیا یہ راستہ اُن کی آزادی کی طرف لے جاۓ گا ؟
تب تم دیکھو کہ تمہارے شبہات اورخود شناسی غائب ہوجاۓ گی۔[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کامیابی کے اصول۔ ایک نظر ثانی

[list]ہم لوگ ’ گارڈن آف دی ورلڈ ‘ کی سیر کرنے آۓ ہیں۔ یہ جگہ لاس اینجلس کے ایک suburb میں ہے۔ ہم لوگ جاپانیز گارڈن میں ہیں۔ باغ کا رقبہ 5 ایکڑ ہے۔ اس جگہ میں پانچ مختلف گارڈن ہیں۔ فرانسیسی بٹرفلائی اور فاؤنٹین گارڈن، اٹالین گارڈن، انگلش روز گارڈن ، جاپانی باغ اور اسپین کے مشن کی کورٹ یارڈ جو کہ گارڈنوں کے درمیان ہے۔ سعدیہ نے گرم گرم چاۓ سب کو دی۔
” کیا ہماری گل پھر سے بلبل ہو سکتی ہے؟“۔ اباجان نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ” ہاں“ اوراس کا جواب بھی خود دے دیا۔” تم اس بات کو جانتے ہوکہ دنیا کا ہرکام ممکن ہے۔ ہزارہا لوگوں نے اس کو بار بار ثابت کیا ہے“۔
” توکیا پختون عورتوں کوآزادی دلانا ایک ممکن حقیقت ہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔
سعدیہ نے کہا۔” آزادی ایک فطری حق ہے اور جو لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو دنیا کی کوئ طاقت آزادی حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی ہے“۔
” ہم جا نتے ہیں کہ پختون عورتوں پر ظلم ہورہاہے۔ ظالم جانتا ہے۔ لیکن مظلوم کو اس کا پتہ نہیں“۔ ماں نے کہا۔
” مظلوم کو بتایا گیا ہے کہ وہ قوم اور گھر کی عزت کی ذمہ دا ر ہے۔اور یہ ذمہ داری اس سے قربانی مانگتی ہے۔یہ ظلم رسم و رواج کے نام پرکیا جارہا ہے“۔ میں نے ما ں کی بات میں اضافہ کیا۔
اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔ ” تو ہم اس جدوجہد کا کس کوذمہ دار ٹھہرائیں؟“۔
” پختون عورتویں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں۔ یہ ذ مہ داری تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کی ہے“۔ میں نے کہا۔
اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” وہ چار اہم چیزیں کیا ہیں جو پختون عورتوں کو حاصل کرنی ہیں“۔
“ تقدیر پر خود مختیا ری ، خود اعتمادی ، سیاسی قوت، تنظیم”
[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]سعدیہ نے کہا۔ ” ہمارا کام پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کی تقدیر پر خود مختیا ری حاصل کرانا ہے۔ ہرپختون کی بیٹی میں خود اعتمادی پیدا کرنی ہے اور تمام پختوں عورتوں کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنانا ہے۔ان کا شعور بلند کرنا ہے ان کو منظم ہونا سیکھانا ہے۔ہماراکام ان کو وسیلہ مہیا کرنا ہے“۔
ان مقاصد کو حاصل کرنے کے کیا بنیادی اصول ہیں؟ اباجان نے مجھ سے سوال کیا؟
” سوچ جب مقصد مقرر ، مستقل مزاجی، اورخواہشِ شدید“۔
ہر کام کا آغاز سوچ سے ہوتاہے۔ ہم کو سوچ کی اہمیت کو ان کی ذہنوں ہیں نقش کرانا ہے۔ ان کو بتا دینا ہے کہ مقصدِ مقرر ، مزاج ِقائم اور خواہشِ شدید کس طرح سوچ کوبلندکرتی ہے اور اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے۔انسان کا دماغ جو سوچتا ہے اور اس پریقین کرتا ہے دماغ اس کو حاصل کر لیتا ہے۔ جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے سے نہیں ڈرتے۔ اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے“۔
”یقین ِکامل، سوچ کو کس طرح مضبوط کرتاہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔
” یقین ِکامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور اُن کے ملنے کو محسوس کر لیتا ہے اورتحت الشعور، سوچ کو ایک روحانی کیفیت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس کو علمیت لامحدود میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ دعا اللہ کو پہنچتی ہے“۔ سعدیہ نے بڑے فخر سے کہا۔
اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں کون سے تین جذبات سب سے ذیادہ طاقتور ہیں؟“
میں نے کہا۔” ایمان ، محبت، شہوت کے جذبات سب سے ذیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین جذبات ملتے ہیں وہ خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیال ایک دم سے تحت ا لشعور میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں روحانی کیفیت بن کر وہاں سے جواب لاتا ہے۔ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہََََََََ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کو جواب دینے کی ترغیب کرتی ہے“۔
” ایمان کا دوسرا کام کیا ہے؟“۔
” آٹو سیجیشن کیا ہے؟“
” جس طرح نماز میں اللہ تعالٰی سے شعوری طور سے دُعا مانگی جاتی ہے۔اور ایمان اس دُعا کو روحانی طور مضبوط کرتا ہے تاکہ دُعا تحت الشعوراللہ تعالٰی تک پہنچ جاۓ اسی طرح آٹو سیجیشن میں ہم ایک مقصدکو بار بار دُہراتے ہیں۔یہ دُہرانا، ہمارے مقصد کو شعور سے تحت الشعور میں منتقل کرتا ہے۔ تحت الشعور، یقینِ کامل کی وجہ سے اس مقصد کو حاصل میں تیزہو جاتا ہے“ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]” حواس خمسہ کیا ہیں ؟ اور اُن کے کام کیا ہیں؟“
آنکھیں، کان ، ناک ، منہ ، ہاتھ حواس خمسہ ہیں۔آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ کان کی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواس خمسہ سے دماغ کوترغیب ملتی ہیں اور دماغ ان کا جواب دیتا ہے۔
اباجا ن میری طرف متوجہ ہوۓ۔” کیا ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہم کو مکمل حل ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؟“
میں نے کہا۔” اگر آپ کی کوئ خواہش ہے تواس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ انتظارنہ کریں کہ جب میرے پاس اس کو حل کرنے کے لیے مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا“۔
اباجا ن نے کہا۔ مگر ہمارے پاس اس مسئلہ کا حل بھی موجود نہیں؟“۔
” اس حل یا منصوبہ کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ چھٹی حس کی وجہ سے جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چمکے۔ اس غیبی مدد کو شاعر’ آمد ، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے۔کامیابی کو حاصل کرنے کا پہلا اصول اس مقصد کی خواہش شدید اور دوسرا اصول کامیابی کا یقین ہونا ہے“۔
اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” تعلیم کیا ہے؟ “۔
” علم کاحاصل کرنا ، اس کا سمجھنا اور اور اس کو استعمال کرنا ہے“

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔”علم کی کتنی قسمیں ہیں؟“
” علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم عامہ اورعلم مخصوصہ“۔
” علم عامہ کیا ہے ؟“
” علم عامہ ،علم کا حصول اوراس کو سمجھناہے۔پروفیسر علم کو بخشتے ہیں۔ وہ علم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کمانے میں نہیں کرتے۔ وہ علم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔
” اور علم مخصوصہ کیا ہے؟“
” علم مخصوصہ ، کسی مقصد کو حاصل کرنے میں علم کا استعما ل تعلیم مخصوصہ ہے۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔وہ علم مخصوصہ کے ماہر ہوتے ہیں[/list]
“۔ گی“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]” تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے؟“
” ہزاروں لوگ مغالطے میں ہیں کہ تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے۔ تعلیم صرف ایک ’ صورتِ امکانی ‘ ہے یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو ’ مقصد مقرر‘ کے لیے’ منظم‘ کیا جاۓ ا ور اس کا رُخ ’ مخصوص اختتام‘ کی طرف کیا جاۓ“۔
” صحیح تعلیم سے کیا مراد ہے؟“۔
” سینکروں لوگ یہ سمجھتے ہیں اگر کوئ شخص سکول نہ جاۓ تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن اٹالیین لفظ ایڈوکو سے بنی ہے۔ جس کے معنی ہیں’ اندر سے ابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہو۔ تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کویہ تربیت دی ہے کہ تعلیم یافتہ شخص بغیر کسی کا حق مارے ہراس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔
” علم کے حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں؟“
” علم کے حاصل کرنے کے چار ذرائع ہیں۔
خود کی تربیت اور تعلیم۔
لا محدود قابلیت۔
جمع کیا ہو علم۔ پبلک لائبریری، پبلک سکول اور کالج، تجربات اور تحقیقات۔ سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے”۔
” سوچ کیا ہے؟”
” سوچ ایک کارخانہ ہے جس میں منصوبے بنتے ہیں۔ عقل و شعور میں خواہش ایک راہ کی طرف ڈھلتی ، گھڑتی اور عمل وار ہوتی ہے“۔
” کیا انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے؟“
” انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے۔ انسان نے عقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیا اور قدرتی قوتوں کو قابو میں کیا ہے“۔
” سوچ کی کتنی قسمیں ہیں؟“
سوچ دو طر ح کی ہوتی ہیں۔ایک اختراعی ترکیبی سوچ ہے۔ اور دوسری موجدہ سوچ کہلاتی ہے“
” اختراعی سوچ کیا ہوتی ہے؟“
اختراعی سوچ میں آپ پرانے خیال، منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں۔ یہ غیر موجدہ قوت ہے۔
” مجودہ سوچ کیا ہوتی ہے؟“ [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »


” مجودہ سوچ میں الہامی خیال ، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ غیر محدود دماغی قابلیت سے رابطہ قائم کرلیتا ہے“۔
” ہر وہ چیز جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے اس کی شروعات کہاں سے ہوتی ہے؟“
” خواہش سے شروع ہوتی ہے۔ خواہش کا پہلا قدم انتخاب ہے صفات کا اضافہ قوت متصورہ کے کارخانے میں ہوتا ہے۔جہاں پر اس کی تبدّل کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے“۔
” قائد یا لیڈر اورمعتقدکی صفات کیا ہیں؟“
” دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔قائداورمعتقد۔کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط، انصاف پسندی، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی، خوش گوار شخصیت، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا ماہر، ذمہ دار اور مل کر کام کرنے کی صفا ت ہو تی ہیں۔ معتقد لوگ، قائد کا کہا مانتے ہیں“۔
” قائد کیسے بنتے ہیں؟“
” اگر انسان قائد کی صفات کو حاصل کرے اور ان پر عمل کرے تو قائد بن سکتا ہے۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں۔ بہت دفعہ معتقد بھی قائد بن سکتے ہیں“۔
” قائد ناکامیاب کیوں ہوتا ہے؟“
” کچھ قائد ناکامیاب اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ تفصیل کے ماہر نہیں ہوتے اورہر کام کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ ا پنی قابلیت کاصلہ مانگتے ہیں اس کے استعمال کا نہیں۔معتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوۓ گھبراتے ہیں۔ان میں سوچ کی کمی ہوتی ہے۔ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے قائد سے غیروفاداری کرتے ، بے اعتدالی اور ذیادتی ، حوصلہ افزائ کے بجاۓ رُعب اور دبدبہ کا استمعال کرتے ہیں۔
” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟“
” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کوئ کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلاتؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور کیے ہوۓ فیصلے کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔ جب تم ا پنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلو تو دوسروں کی راۓ سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل نہ کرو۔ دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے اور پھر بتاؤ۔
” فیصلہ کی قیمت کیسے جانتے ہیں؟ “
” فیصلہ کی قیمت ، فیصلہ پر عمل کرنے کی جرات کے مطابق ہوتی ہے“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]” خواہش کو صلہ میں کس طرح سے تبدیل کرتے ہیں؟“
” خواہش کو صلہ میں قائم مزاجی کے بغیر نہیں تبدیل کیا جاسکتا۔ قائم مزاجی اور اصرار، قوت ارادہ سے بنتے ہیں۔ ظلم سے آزادی کی خواہش صرف آزادی سے ہی مل سکتی ہے“۔
” کیا قائم مزاجی کو سیکھا جاسکتا ہے؟“
” قائم مزاجی کی بنیاد مقصد مقرر پر ہے اور خواہش ارادۂ شافی ، منصوبۂ مقرر ، صحیح علم ، مل کرکام کرنا ، قوت ارادی، صحیح عادت اس کی وجوہ ہیں“۔
” پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں میں کونسی کامیابی کی خصوصیت ایک جیسی ہوتی ہے؟”
” جب ہم غیر جانبداری سے پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ثابت قدمی، جدوجہد کی یکجائ ، اور عزم شافی کی بناء پر انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرآپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تجزیہ کریں اور تمام کامیاب لوگوں کی (اس دورِحاضر میں) تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سب میں ثابت قدمی کی خصوصیت موجود ہے“۔
” کیا کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ ہونا ضروری ہے؟“
“ کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ کا ہونا ضروری ہے۔منصوبے بغیرمعقول طاقت کے غیرمؤثراور بیکار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ ماسٹر ماینڈ ، ایک سے زیادہ منظم اوردانش مند علم کے لوگ اجتماع پرتوجہ مسئلہ پر مرکوز کرتے ہں“۔
[/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

[list]رجب کی پہلی تاریخ تھی۔شام ہوچکی تھی۔ نورا (ہاوس کیپر) نے چاۓ بنا کر سب کو پیش کی۔ وہ افغانی ہے۔ ابا اور اماں جان کے ساتھ پچیس سال سے ہے۔اس نے ہمیں پالنے میں ماں کی مدد کی ہے۔ اس کی ملاقات ابا اوراماں جان سے افغانستان میں ہوئ تھی۔ اور پھراس نے ابا اوراماں جان کے ساتھ امریکہ آنے کا فیصلہ کیا۔
سورج ایک نارنگی کی طرح نارنجی تھا، مغرب میں تیزی سے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔
اباجان نے کہا۔ ہماری ساری گفتگو کا لبِّ لباب یہ ہے:
” کامیابی کے اصول بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استمعال ہو سکتے ہیں۔ یہ مقصد دولت ، شُہرت ، محبت اور علمیت بھی ہوسکتی ہے۔ جب ہم تصور اور آٹوسجیشن کے ذریعے خواہش کو شدید اور مقرر خواہش میں تبدیل کرتے ہیں، اس کو حاصل کرنے کے لیے مصنوبہ بناتے ہیں ، تعلیمِ خصوصی حا صل کرتے ہیں اورماسٹر ما ئنڈ کو جمع کرتے ہیں پھر یقین کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور ثابت قدمی سے اس فیلصہ پر قائم رہتے ہیں تو ہمیں مکمل کامیابی حاصل ہوتی ہے”۔ اماں نے کہا”۔ کل سے میری باری ہے۔ میں تم کو
پختون ولی
اسلام اور عورت
پختون کی نفسیات اور سیاست
اور مینیجمینٹ، ارگنائزیشن کے اصولوں
سے آگاہ کروں گی۔
اباجان کے کامیابی کے اصول ، میری پختون سے متعلق انفارمیشن تمہارا عزم مضبوط کریں گی۔ پھر مینجمنٹ اور ارگنائزیشن کو استعمال کرکے تم اپنےگول کوعملی جامہ پہنا سکوگے۔
اندھیرا ہوگیا تھا۔ ہرطرف تاریکی چھا رہی تھی۔ سعدیہ نے کہا۔ ” کیا میں لائٹ کو آن کروں“؟
ماں نے کہا۔” بیٹا ، اوپرآسمان پر دیکھو”۔
آسمان میں گہرے اندھیرے کی وجہ سے ستارے اور بھی چمکنے لگے۔سارا آسمان ستاروں سے بھرا تھا۔ اچانک ایک ستارہ جنوب میں زمین کی طرف پرواز کرنے لگا۔
میں نے کہا۔ ”سعدیہ ، وہ دیکھو۔ شوٹنگ اسٹار“۔
نورا نے سعدیہ کے لمبے بالوں میں کنگھی کرتے ہوۓ کہا۔ ”بیٹی ، جب ہم شوٹینگ اسٹار دیکھتے ہیں تو ہم اپنی خواہش کی کامیابی کی دُعا مانگتے ہیں“۔
ہم سب نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے اور ایک دائرہ بنایااور سعدیہ نے کہا۔ ” اللہ تعالٰی ، ہم تیرے حقیر بندے ہیں، ہم تہہ دل سے دُعا کرتے ہیں کہ تو ہماری پختون بہنوں پررحم فرما اور جو ظلم ان کے ساتھ ہو رہا ہے ان کو اس سے نجات دلا“۔
پھرسعدیہ کی آواز بھراگئ۔ اور اس کی دُعا ایک وعدے میں تبدیل ہوگئ۔ ” اے میرے معبود میں تجھ سے آج یہ وعدہ کرتی ہوں کہ گل کی پوتی اس ظلم سے آزاد ہوگی اور وہ حقیقت میں پختون کی بیٹی کہلائی [/list]
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]
پختون کی بیٹی
تیاری
سید تفسیر احمد
باب سوئم۔عمل
[/center]


1۔ پختون ولی
2۔ نَنَواتے
3۔ کانڑے یا تیگہ
4۔ بدل
5۔ میلمستیا
6۔ پختونخواہ اور پختون
7۔ اسلام
8۔ سماجی طریقہ اور اسلامی اخلاقیات
9۔ اسلام ، بالغیت، عورت اور شادی
10 ۔حدود ارڈیننس( جرمِ زنا)
11 ۔ نظم و نسق
12 ۔پختون کی نفسیات
13۔ پختون کی سیاست
14۔ پختون کی لڑکیوں کا مسئلہ

سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »



[center]
” خلیل جبران نے اپنی مشہور کتاب “ ایک آنسو ایک مسکراہٹ“ میں یہ لکھاہے”۔ سعدیہ نے ہنس کر کہا۔

اس نے اپنے سے ایک روح کو جدا کیا اور اس کوخوبصورتی کے صفات دیۓ۔ اس نے روح کوخوش اسلوبی اور رحم دلی کی برکت دی۔ پھراس روح کو خوشی کا پیالہ عطا کیا اور فرمایا۔ ’ اس پیالہ سے اس وقت پینا جب تم ماضی اور مستقبل کو بھول جاؤ۔ وقتِ حال کی خوشی کے سوا کوئ خوشی نہیں ‘۔

پھراس نے اس روح کو غم کا پیالہ دیا اور فرمایا "ا گر اس پیالے سے پیوگے تو چند روز خوشی اور مستقل غم ہوگا۔ تب اس نے عورت کو ایسی محبت دی جو کہ دنیاوی دل جوئ کے خاطر وہ اس محبت کو کھودے گی اور جھوٹی تعریفوں کی وجہ سے اپنی لطافت اور نرمی کو چھوڑ دے گی اور اللہ نے عورت کوجنت سے عقل مندی عطا کی تاکہ وہ صحیح راستہ پر چلے۔

اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک آنکھ رکھی جو کہ اَن دیکھی ہوئ چیزوں کو دیکھ سکے اور اس کو ہر چیز سے الفت اور ا چھائ کی خوبی دی۔ اس نے اس کو امید کا لباس پہنایا جس کوجنت کے فرشتوں نے قوس و قزح سے بنایا اور اس کو پریشانئ دماغ کا جامہ پہنایا جو کہ زندگی کی صبح اور روشنی ہے۔

اس کے بعد غصہ کی آگ ، جہالت کے ریگستان کی خشک ہوا اور نفس پرستی کے سمندر کے کناروں کی چاقو کی طرح تیز ریت اورکُھردری مدتوں پرانی زمین کی مٹی کو ملا کر آدمی بنایا۔ مرد کو ایسی اندھی قوت دی جواس کو دیوانہ بنادیتی ہے اور وہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔ وہ ہنسا اور پھر رویا۔ اُس نے مرد کے لیے شفقت اور ترس محسوس کیا۔اور مرد کو اپنی نمائندگی میں لے لیا”۔

” ممکن ہے کہ دنیا نے مرد کویہ رعایت دی ہو ہے“۔

” مگر اللہ تعالٰی نے ہم عورتوں کو عقل مندی ، گہری سمجھ ، الفت و اچھائ اور امید بخشی ہے“۔
[/center]

سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »


” ماں”۔ سعدیہ نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔
اماجان جانتی ہیں کہ جب سعدیہ ایسا کرے یا وہ کچھ چاہتی ہو اور ہمیشہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں لیکن یہ اُ س کو ماں کوپیار کرنے کا بہانہ دیتی ہیں۔
” کیا بات ہے ، بیٹا ؟“۔ ماں سعدیہ کو پیار سے بیٹا کہتی ہیں۔
”مجھے پیج میوزیم جانا ہے۔ مجھے LaBrea Tarpit پر ایک مضمون لکھنا ہے”۔
” بھیا کے ساتھ چلی جاؤ“۔
” وہ راستہ بھر میرا دماغ چاٹ جائیں گے“۔
” بالکل غلط، ماں یہ میرا دماغ کھا جاۓگی”۔ میں نے ماں کے گھر والے آفس میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔
” اماں، ان کی شکل دیکھیں۔ جھوٹے ہیں نا“
” پگلی“
” پاگل“
” الّو“
” تم خود“
” الو“
” کچالو ، پکوڑے، سموسے۔اب مزا آیا۔ پھر کہو الّو“
” رس ملائ ، گلاب جامن اور قلاقند“
” مٹھائ کی دکان ، کانٹے“
” چنبیلی، خُوشبو“
” کدو، گاجر اور مولی“
” صبح، شبنم کا قطرہ اور اوس کا موتی“
اماں نے کہا۔ ” یہ طوطے کی طرح ٹیں ٹیں ختم کرو۔ اور جاؤ دونوں تیار ہوجاؤ“
سعدیہ نے مجھے اپنی زبان نکال کر دکھائی۔
Post Reply

Return to “ناول”