پختون کی بیٹی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب 3 کا اختتام
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

پختون کی بیٹی

سید تفسیر احمد

باب چہارم ۔ ( فتح )





1 ۔ بلاوا
2 ۔ گلابوں کا شہر
3 . فیشن شو
4 . تعارف
5 . مجھ سے شادی کرلو
6. اعلان
7. سیر سپاٹا
8 . ٹرینیگ
9 . میٹر ہارن
10 . چترال
11. افغانہ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

۝۝۝

سعدیہ اور میں نے بچپن میں ایک سو مقاصد کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔

میری ننھی ہمشہ چاہتی تھی کہ وہ بھی سب کچھ کرے جو میں کروں۔
اِن مقاصد میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔
مشکل والے مقاصد کی فہرست میں
'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا،
انگلیش چینل میں تیرنا،
پانچ زبانوں میں بولنا
اور کسی کی محبت میں گرفتار ہوجاناتھا۔
آسان گولوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا،
پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا،
ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دوہنا، اور گلایئڈر اڑنا ۔

میں نے پچیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلئے ہیں


۝۝۝
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

1 ۔ بلاوا


ہفتہ کی صُبح تھی۔ میں سمندر کی طرف کے برآمدہ میں آرامدے کرسی پر آنکھ بند کئے لیٹا تھا اچانک زلزلہ سا آیا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لئے ہاتھ پیر چلائے اور میری آنکھیں کھل گیں۔ میں نے گرتے گرتے سعدیہ کو پکڑ نے کی کوشش کی اور ہم دونوں فرش پر لوٹ پوٹ رہے تھے۔ سعدیہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے ٹھوسے مار رہی تھی اور زور زور سے ہنس رہی تھی۔ میرے پاس کویئ چارہ نہیں تھا کہ اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لوں۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔

نورا نے برآمدے میں آکر مجھے فون دے دیا۔

" جی"

"سلام۔ میں سکینہ بول رہی ہوں۔ "

" سلام ۔ اچھا میں تو سمجھ رہا تھا کہ میرے کانوں میں مدہم ستار بج رہا ہے" ۔

" کیا کہا آپ نے؟" لیکن فوراً سمجھ گی کہ میں کیا کہہ رہا تھا۔ اور وہ کِھل کِھلا کرہنس پڑی جیسے ستار نے ایک راگ سنایا۔

" میں نے آپ دونوں کو پئسیڈینا کے ہوٹل رٹز کارلٹن میں ایک استقبالیہ میں بُلانے کے لے فون کیا تھا۔" ستار پھر سے بجا۔

" میں آپ کی ملاقات میرے دوستوں سے کرانا چاہتی ہوں"۔

میں نے کہا۔" کب اور کتنے بجے"۔

" آج شام کو سات بجے"۔ اُس نے ہنس کر کہا۔

" تم کو ملنے کیلئے میں تو صوبہ سرحد بھی آسکتا ہوں۔"

" جھوٹا ، ایک دن میں بلاؤں گی، دیکھوں گی کہ آتے ہو؟۔" سکینہ نے قہقہ لگایا

" ڈریس فارمل۔"

" کس بات کا استقبالیہ؟ " میں نے پوچھا۔

" صوبہ سرحدکے شادی کے لباس کا فیشن شو"

" دوستور موافق، کیا میں شلوار کرتا پہنوں؟

"سعدیہ پہن سکتی ہے۔ تم نہیں"۔ وہ زور سے ہنسی

" تم سعدیہ سے خود بات کرلو۔ االلہ حافظ"۔

"اللہ حافظ۔" اس کی شیرین آواز نے کہا۔

میں نے فون سعدیہ کو دیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

2 ۔ گلابوں کا شہر


1770 ء تک پیسیڈینا، شوشون قبیلہ کا ملک تھا۔ ان کے گاؤں آرریو سیکو پہاڑوں میں اوراسکی وادیوں کے کناروں پر پھیلے تھے۔ اسپین نے طاقت کے بل پر مقامی انڈین کو عیسائ بنایا اور ان سے زبردستی کی مزدوری لینے لگے۔ 1833ء میں میکسیکو نے اسپین کو ہرا کر سان گیبریل کے مشن کو غیر مذہبی بنادیا۔ 1852 میں کیلفورنیا ، یونائیٹڈ اسٹیٹس کا ممبر بن گیا۔

پیسیڈینا کی پہلی ' گلابوں کی پیریڈ 1890میں ہوئ اور گلابوں کی پیریڈ ' ٹورنامینٹ' شروع ہوا۔ ہر سال پہلی جنوری گلابوں کی پیریڈ کا ٹورنامینٹ ہوتا ہے ۔ ساری دنیا اور امریکہ کے شہروں اور پرائیویٹ کمپنیاں اپنے پھولوں سے بنائے ہوئے “ فلوٹ “ کی پریڈ کی طرح نمائش کرتی ہیں۔ ان فلوٹ اور اپنی اوپن گاڑیوں میں موؤی اسٹار بھی اور پیسیڈینا کے معزز شہری حصہ لتے ہیں۔

مشہور کالج CalTech بھی پیسیڈینا میں ہے ۔ انیس سو تیس میں جیٹ پروپلشن لیب نے ایکس پلورر راکٹ بنایا۔ جے پی ایل او رناسا مل کر کام کرتے ہیں۔ یہاں پر پاتھ فاینڈر پروگرام کے لئے لینڈ روور بنایا گیا تھا جو مریخ میں کامیابی سے اترا اور گاڑی کی طرح چلا۔

میں گاڑی چلارہا تھا اور سعدیہ برابر کی سیٹ پر تھی۔ ہم ٹو ٹین فری وے سے لیک اسٹریٹ پر نکلے اور نول پارک ایوینو پر موڑے۔ سڑک کے دونوں طرف کجھور کے درخت ہیں اور محلوں کی دیواریں رنگ بھرے پھولوں سے سجی ہیں۔ ہوا میں چنبلی کی خو شبو پھلی ہے۔ پیساڈینا دولت والے امیروں کے رہنے کی جگہ ہے۔ وہ امیر لوگ جن کو دولت وراثت میں ملتی ہے 'پرانی دولت' والے امیر کہلاتے ہیں، جیسے راک فیلر پرانی دولت والے امیر ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی دولت خود کمایئ ہے وہ ' نئی دو لت' والے کہلاتے ہیں جیسے مائکروسافٹ کا بل گیٹس ۔ تقریباً ایک میل کے بعد اس سڑک پر رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔ ماونٹ سین گیبریل کے دامن میں 33 ایکر کے خوبصورت باغ پر ایک عظیم الشان قعلہ کی طرح کی بلڈنگ رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔
.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

3 ۔ فیشن شو
ہم نے ہوٹل کے پیش دہلیز پرگاڑی روکی۔ خدمتگار نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ میں نے اُسکو گاڑی کی چابی دی۔ میں اور سعدیہ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ صوبہ سرحد کا فیشن شو باہرجاپانی گارڈن میں تھا۔ راستہ میں سکینہ ملی۔ ہم نے سکینہ کو ہماری فرانسی رسم کے مطابق دونوں گالوں پر پیار کیا۔ ہماری امی فریچ ہیں اور اباجان پاکستان سے۔

" تم سامنے کی نشیت پر بیٹھنا میں افغانہ کو اپنے ساتھ لےجاتی ہوں ہم ایک ماڈل کم ہیں۔ افغانہ اسکی جگہ لے گی"۔
سیکنہ نے سعدیہ کا فرضی نام لیا۔

میں نے قہقہ لگاکر کہا۔ "اللہ تمہارا نگہابان ہو ننھی"۔

میں نے گارڈن کا رُخ کیا۔ لال دروا زہ پر پگوڈا کیطرح چھت تھی۔ دروا زہ کے دونوں طرف پتھرکا ایک مشرقی شیر بیٹھا ہے۔ یہ چھوٹی وادی داخل ہونے پر صنوبر، میپل اور پھلوں کے درختوں سے بھری ہے۔ میں پگوڈا میں داخل ہوا۔ شہر کے سو کے قریب معزیز حضرات جھیل کیطرف منہ کئے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میں پہلی قطرمیں جاکر بیٹھ گیا اور اپنے برابر بیٹھے ہوئے جوان لڑکے سے اپنا تعارف کرایا ۔میں اسکو میرا نام بتاتا ہوں وہ مجھے اپنا نام شانہے اس کا آخری نام سکینہ والا ہے۔ میں نام سے پہچان جاتا ہوں کہ یہ سکینہ کا چھوٹا بھائی ہے۔ جھیل کے پانی پر بنے ہوے اسٹیج پر سکینہ نظر آتی ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

وہ مائک پر اعلان کرتی ہے۔ "خواتین و حضرات میں آپ کی خدمت میں پختون کے 'پارٹی لباس' پیش کرتی ہوں"۔

سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری پہلی ماڈل مس مِیرا"

ایک خوبصورت اورحسین لڑکی اسٹیج پرآئی۔

" مِیرا ،گھٹنوں تک لمبی ریشم اور شیفان کی سفید قمیض پہنے ہیں آستینں کھلی ہیں۔ قمیض کا نچلا حصہ سیاہی ملا سفید رنگ ہے۔ گلے اور بغل کے اردگرد ریشمی کشیدہ کاری کی گی ہے۔ مِیرا ، ملتی جُلتی سفید باریک ریشمی شلوار پہنے ہیں۔ ڈوپٹہ پرنٹڈ شیفان کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اور گھونگرو پرنٹڈ ہیں۔"

مِیرا، سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی۔ اورر آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی، پھر اسٹیج پر catwalk کرتی ہے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے تالیاں بجایئں۔

سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری دوسری ماڈل مس عِفَت"۔

ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔

عِفَت ، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہویئ ریشم کی گلابی قمیض پہنے ہیں۔ انکی ہرے رنگ کی پتلی شلوار کے پائنچوں اور سامنے کی طرف کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ گلابی رنگ کا ہے جس کا پَلّو ہرے رنگ کا ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

عِفَت سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اور میرا ، کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے پھر تالیاں بجایئں۔

سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری تیسری ماڈل مس عمان"۔

ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔

"عمان ریشم اور شیفان کی فیروزی اوراعودے رنگ کی دوہری قمیض پہنے ہیں جس کے گلے اور دامن پر ہاتھ سے کشیدا کاری کی گی ہے۔ شلوارکریپ سِلک ٹایئ اینڈ ڈائ۔ ڈوپٹہ شیفان ڈائ اینڈ ڈائ"

عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے ایک دفعہ اور تالیاں بجائیں۔

سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری چوتھی ماڈل مس آمینہ"۔

ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔

"آمینہ کھلے آستینوں کی گھٹنوں تک ریشمی شیفان کی لمبی نیلی قمیض پہنے ہیں۔ گلے اور بغل کے اردگرد ریشم میں کشیدہ کاری کی گی ہے۔ ملتی جُلتی نیلی باریک ریشمی شلوار پہنے ہیں ۔ باریک ڈوپٹہ پرنٹڈ ریشمی شیفان ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے تالیاں بجایئں۔

سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری مہمان ماڈل مس افغانہ"۔

افغانہ اسٹیج پرآئ۔

شان نے کہا۔" سبحان االلہ ۔ یہ تو سب سے پیاری لڑکی ہے۔ جیسے چاند نکل آیا" ۔

میں نے کہا ۔"اسٹیج پر سب سے پیاری تو اناؤنسر ہے۔"

شان نے غصہ سے کہا۔ "مسٹر، وہ میری بہن ہے" ۔

میں نے کہا۔" تو تعریف کرنا کوئ برائ بات تو نہیں۔تم نے میری بہن کو بھی تو پیاری لڑکی کہا۔"

"افغانہ تمہاری بہن ہے۔" شان نے حیرت سے کہا اور پھر چپ ہوگیا۔

سکینہ نے کہا۔ " افغانہ ، ریشم، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہوی کالی قمیض پہنے ہیں۔ کالی رنگ کی پتلی شلوارکے پائنچوں پر ریشم کی کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ بھی کا لے رنگ کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اور گھونگرو پرنٹڈ ہیں"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

افغانہ سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے خوب تالیاں بجایئں۔

"خواتین و حضرات میں اب ہم پندرہ منٹ کا وقفہ لیں گے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں صوبہ سرحد کے' فارمل یا شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرئیں گے"۔

اس وقفہ میں کچھ ویٹرس تھالوں میں چپلی کباب اور نان اور دوسرے روح افزا کا شربت لےکر گھوم رہے تھے۔ کچھ تھالوں میں گلاب جامن، جلیبی اور قلاقند تھے۔

میں نے ایک رکابی میں نان رکھااور اس پر چپلی کباب پھر کرسی پر بیٹھ کر مزے سے کھایا۔

وقفہ میں سعدیہ میرے پاس آئ ۔ میں نے اسکا شان سے تعارف کرایا۔ اس لڑکے کا نام شان ہے۔اس نے کہا کہ تم اسٹیج پر سب سے پیاری لڑکی ہو اور یہ تمہیں پسند کرتا ہے۔" شان کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔ میں نے کہا تم دونوں باتیں کرو میں میٹھا کھانے جاتا ہوں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"خواتین و حضرات میں ہم آپ کی خدمت میں پختون کے' فارمل اور شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرتے ہیں"۔

سکینہ نے پکارا۔ "مس مِیرا "۔

مِیرا اسٹیج پر آئ۔

" میرا نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا فیروزی لینگا اور گلابی چولی پہنی ہے۔ دونوںکاتان ریشم ہیں ان پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںریشم کا کام ہے"۔

مِیرا سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے تالیاں بجایئں۔

سکینہ نے پکارا۔ "مس عِفَت"۔

عِفَت اسٹیج پر آئ۔

" عِفَت نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا ہرا لینگا اور اعودہ چولی پہنی ہیں۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر داباکا، ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے ۔ عِفَت بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوں میں کنگن اورپیروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میںمندی کا کام ہے " ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

عِفَت سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے میر ا کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے تالیاں بجایئں۔

سکینہ نے پکارا ۔ " مس عمان"۔

عمان اسٹیج پر آئ۔

"عمان نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا نارنگی لینگا اورپیلی چولی پہنی ہے۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیدا کاری ہے ۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں ریشم کا کام ہے ۔عمان کے بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مندی کا کام ہے اور عمان نے چنبیلی کا عطر لگایا ہے "

عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے تالیاں بجایئں۔

سکینہ نے پکارا ۔ " مس آمینہ"۔

آمینہ اسٹیج پر آئ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

آمینہ، نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا چاندی کے رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوںخالص ریشم کی ہاتھ سے بناے گے ہیں ان پر ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص چاندی کا کام ہے۔آمینہ کے بالوں میںچاندی کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کا نوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور آمینہ نے بھی چنبیلی کا عطر لگایا ہے " ۔

آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ اور رآہستہ سے مکمل دو دفعہ گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے تالیاں بجایئں۔

سکینہ نے پکارا ۔ ہماری مہمان مس افغانہ۔

افغانہ اسٹیج پر آئ۔

شان نے کہا۔" سبحان اللہ ۔ امیں آپ کی بہن سے شادی کروں گا۔ کیا آپ کی اجازت ہوگی" ۔

میں نے ہنس کر کہا ۔" پہلے اُسکا دل جیتو۔ پھراُس سے ہی اجازت لو۔ "

سکینہ نے کہا۔ " افغانہ نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا لال رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوں خالص ریشم کے ہاتھ سے بناے گے ہیںان پر ڈائمنڈ اور خالص سونے کا کام ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص سونے کا کام ہے ۔افغانہ کے بالوں میں سونے کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور افغانہ نے گلاب کا عطر لگایا ہے " ۔

افغانہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اور آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔

سامعین نے ذیادہ دیر تک تالیاں بجایئں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

4 ۔ تعارف

.
سکینہ نے کہا ـ " اُپ اور سعدیہ اپنی گاڑی میں ہماری گاڑی کا پیچھا کریں۔ ہماری رہائیش یہاں سے صرف پانچ منٹ ہے " ۔

کچھ منٹ بعد ہم سان مارینو کے علاقہ میں ایک حویلی میں داخل ہو رہے تھے۔ سکینہ نے مین گیٹ پر بٹن دبایا اور انٹرکام پر گارڈ سے بات کی۔ دروازہ کھلا اور ہماری دونوں کاریں حویلی میں داخل ہو گئیں ۔ مین گیٹ خود بہ خود بند ہو گیا۔ ہم نے سکینہ کی کار کا پورچ تک پیچھا کیا اور وہاں گاڑی روک دی۔ گاڑی سے نکل کر ہم مکان میں داخل ہوئے۔ اسٹیڈی سے گزرکر ہم ایک کو رڈو ر میں آکر بائیں ہاتھ کے کمرے میں داخل ہوگئے۔کمرے میں میری عمر کے سات لوگ میز کے دونوں طرف بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر سب خاموش ہوگے۔ سکینہ میز کے شروع میں بیٹھی اور مجھے اپنے سیدھے ہاتھ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ادر سعدیہ کو الٹے ہاتھ پر بیٹھنے کو کہا۔ ہم ایک نیا پروگرام شروع کررہے ہیں۔ میں نے آپ لوگوں کو پروگرام کے لےے چنا ہے۔ سکینہ نے یہ کہہ کر سعدیہ کی طرف سے لوگوں کا تعارف شروع کیا۔

افغانہ جب تک شان امریکہ میں ہے افغانہ اسکے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لیے گی۔
شان ، شان کوہا ٹ میں فلیڈورک کرتا ہے۔ یہ ان لڑکیوں کی مدد کرتا ہے جو شوہر اور خاندان کے ظلم کا شکار ہیں۔ کام بہت خطرناک ہے اس لے شان کا کام انڈر کور ہے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

انور بوسٹن میں رہتے ہیں اور یہ نیٹ ورک انجینر ہیں۔ ان کی ہی مدد سے میں آپ لوگوں سے باتیں کرتی ہوں۔

اِرم نیویارک سے ہیں۔ انکی تعلیم انفارمیشن ٹیکنا لوجی میں ہے۔ ارم ویب ماسٹر ہیں۔

نسیمہ میڈیکل اسٹوڈینٹ ہیں اور لاس انجیلس میں ہمارے پروگرام کے لئے فنڈ حاصل کرتی ہیں۔

سونیہ شکاگو سے ہیں ۔ یہ قانون کی طالبہ ہیں اور یہ' تبادلہ خیال کی نگراں ہوگی۔
اکرم برکلے یونیورسٹی میں صوبہ سرحد کی تاریخ پر' پی ایچ ڈی' کررہے ہیں۔

جمیل کولمبیا یونیورسٹی کے ٹیچر ٹرینیگ کالج کے اسٹودنٹ ہیں۔

نیدو صوبہ سرحد کی اسمبلی کی ممبر ہیں۔

یہ سب احباب پختون ہیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سکینہ نے مائک میری طرف بڑھایا۔ میں نے میرے سامعین کی طرف دیکھا تمام جوان، قابل اور پڑھے لکھے احباب۔ ان کو کیسے بتایا جائے کہ میرا طریقہ بہتر ہے اور اسکا نتیجہ کامیابی ہوگا؟۔ میں کیوں نا ان ہی سے کہلوادوں کہ یہ طریقہ مناسب ہے۔
میں نے سوال کیا۔ تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟"

طالب علم کو ایک مخصوص تربیت کے لئے تیار کرنا۔ " جمیل نے سرسری طور سے کہا۔

انور، ارم اور نسیمہ نے جمیل سے اتفاق کیا۔

اکرم نے کہا۔ " یہ صرف ایک تعریف ہے۔ طالب علم اسلے تعلیم حاصل کرتا ہے کہ ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاح کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے" ۔

سونیہ نے کہا ۔ " تعلیم حاصل کرنے کا مقصد علم کو سیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا ہے"۔

نیدو نے کہا ۔" تعلیم برین واشنگ کے لئے دہی جاتی ہے ۔ تاکہ لوگوں کے عقائد بدلے جایئں"۔

میں نے کہا۔ "آپ لوگ کی تعریف صحیح ہیں مگر وہ تعلیم حاصل کرنے کے فائدے اور نقصان بتاتی ہیں ۔ خاصیت نہیں۔ جب ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں عقل و دماغ پر اسکا کیا اثر ہوتا ہے؟"

شان بولا۔" ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے"

سعدیہ بولی۔" اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

جمیل نے قہقہ لگا کر کہا۔" خصوص تربیت برابر سوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔

سونیہ نے قہقہ لگا کر کہا۔"علم کو سیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا برابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔

اکرم نے قہقہ لگا کر کہا۔" ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاع کرے۔ اور مستقبل کی پہچان کرے بر ابر سوچ میں اصا فہ اور خیالات کا تجزیہ"

نیدو نے قہقہ لگا کر کہا۔ " برین واشنگ عقاید بدلنا برابر سوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"

میں نے کہا۔ " دوسرے الفاظ میں یہ تعریف ' علم سے ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں' تمام دوسری تعریفوں کا مجموعہ ہے"۔

"ہمارا خیال ہے کہ اگر ہمارے ویب سائٹ ان تمام تعریفوں کا مجموعہ ہو تو ہم بہت جلد اس اور اسطرح کے غیر اسلامی اور نقصان دہ عقاید کو موجودہ دور کے انسانیت سے مطالق عقایئد میں تبدیل کرسکتے ہیں"۔

سکینہ نے کہا۔ "ہمارا پہلا مقصد ان لڑکیوں کو علم کے وہ اوزار دےنا ہے جو زبان، آداب اور تاریخ کہلاتے ہیں"۔

انور نے کہا۔" زبان سے آپ کا مطلب ا، ب، پ۔ ہم چھوٹے تھے۔ اماں مارتی تھیں ۔ہم روتے تھے یا ذیادتی کے خلاف جہاد "

انور کی بات پر سب ہنس پڑے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"پاکستان میں اردو بولی جاتی ہے۔ دفتروں اورعدالتوں میں انگریزی لکھی جاتی ہے ۔ پختونستان میں پشتو بولی جاتی ہے۔ اب دنیا میں اسی بھی کروڑں پاکستاں کی لڑکیاں ہیں جو اردو بولتی ہیں لیکن پڑ ھ نہیں سکھتیں۔ وہ رومن اردو ایٹرنیٹ میں استمال کرتی ہیں" سکینہ نے جواب دیا۔

"ہم پختون کی لڑکیوں کو آسانی والا اردو اور پشتو کا اخبار پڑھنا سیکھانا چاھتے ہیں۔ ہم انکو اردو کو رومن اسکریپٹ میں لکھنا سیکھا نا چاہتے ہیں۔ ہم انکو انگریزی کے وہ الفاظ سیکھا نا چاھتے ہیں جو پاکستان میں روز مرہ اخبار، ریڈ یواور ٹیلیویزن میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ان کے علم کو حاصل کرنے کی وجہ ہونگے۔یہ چھ سال کا نصاب ہے۔اس کو جمیل خصوص تربیت کہتے ہیں ۔سکینہ نے زبان کی اہمیت بیان کی۔

"اور آداب!" ، سوینہ نے پوچھا۔

" ہاں آداب۔" سکینہ نے مسکرا کر کہا۔ " جس کو میں اچھی دھلائ کہتی ہوںدو الفاظ میں برین واشینگ۔ پختون والی کے کچھ آداب موجودہ زمانے میں معاشرہ کی بھلائ کے بجاے برائی کا سبب ہیں۔ اسلام کے کچھ آداب میں موجودہ زمانے سے اختلاف ہے۔ ہمیں ان لڑکیوں کو اجتہا سیکھانا ہے۔ ہم ان کا بدل سکھائیں گے۔ ان کو ملک کے مطالق اچھی باتیں بتائیں گے۔اور ملک کی تاریخ کی اچھی مثالوں سے روشناس کریں گے "۔ سکینہ نے کہا۔

" تاریخ! " نسیمہ نے پوچھا۔

" اکرم نے بلکل صحیح کہا کہ ماضی کو جانے بغیر نہ تو حال کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مستقبل کی پہچان۔ ہم ان کو آسان لفظوں میں سکھا نا چاہتے ہیں کے وہ کون تھے اور ا ب وہ کیا ہیں"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ارم نے سوال کیا۔ " ہم کسطرح سے خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کو اس پروگرام میں شامل کریں گے؟"

سیکینہ نے کہا "

ایک ، ہم میں سے جو بھی کسی خانذادی اور ملک ذادی کو جانتا ہے وہ اسکو ممبر بنانے کی کوشش کرے گا۔

دو۔ ویب سا ئیٹ پر تبادلہ خیال اور نظم و نثر کے دو سیکشن جو ان خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کی کشش کے لئے ہیں۔ اس کو بھی استمعال کیا جاسکتا ہے۔

تین ۔ جب ایک خاندان میں ایک خان ذادی اس کام کے لئے تیار ہو گی تو وہ ا پنے خاندان میں اور دوسری لڑکیوں کو بھی راضی کرسکتی ہے"۔

چار۔ صوبہ سرحدمیں بارہ مشہور قبیلے ہیں۔ اور تقریاً اتنی ہی اُنکی شاخیں ہیں۔

" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اس پروگرم میں کیوں شامل ہوں گی؟ "

نیدو بولی ۔" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود چاہتی ہیں۔ وہ اس مصلہ سے بھی واقف ہیں۔ اور جانتی ہیں کہ اگر پختوں کی عورت کو زمانے کے ساتھ ترقی کرنی ہے تو تمام پختون کی عورتوں کو اس میں حصہ لینا ہوگا "۔

نسیمہ نے سوال کیا۔ " کیا اس پروگرام میں حصہ لینا خان ذدایوں اورملک ذادیوں کےلئے خطرناک ہے" ۔

" نہیں۔ کیونکہ ظاہری طور پر فوراً کوئ تبدیلی نہیں ہوگی جو کہ سرپرستوں کو خبردار کرے۔ خان ذادیاں اور ملک ذادیاں ان بچیوں کو اب بھی اپنی بہنوں کیطرح رکھتی ہیں۔" سکینہ بولی۔

جمیل نے مسکرا کر کہا۔ " یہ نہ صرف ایک عمدہ بلکہ نیک نیت کام ہے۔میں تیار ہوں "۔

ارم، نسیمہ اور سونیہ نے اپنے سر اثابت سے ہلائے
۔
"کسی بھی کام کو کرنے کے روپیہ پیسہ کی ضررورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے فنڈ ایڈورٹائزمینٹ سے حاصل کریں گے۔ ویب سایٹ پر این جی او اور ہمارے مقصد سے ملتی جلتی دوسری آرگینایئزیشن کی جو ہمیں اجرا دیں ان کی ایڈورٹائزمینٹ کی جاسکتی ہے۔ "سکینہ نے میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

5 ۔ مجھ سے شادی کر لو

سمندرکا پانی واپس جا چکا تھا اور گیلی ریت پر رنگ بکھرا ہوا تھا۔ سورج نے افق پر نارنجی کا رنگ اختیارکرلیا تھا۔ سعدیہ نے ایک سفید لمبا ڈریس پہنا ہوا تھا۔ اس کے لمبے کھلے بال ہوا سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ اُسے سمندر سے بہت محبت تھی۔ اس کو یہ معلوم تھا اُس جگہ جہاں سمندر کا کھارا پانی ریت سے ملتا ہے دنیا کے ہر مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ بھیا نے کتنی دفعہ کہا تھا، سعدیہ اگر تم آپنے ذہن کو خاموش کرلو تو تم ہر چیز کی آواز کو سن سکتی ہو۔

" شان اور وہ آج یہا ں کیوں کھانا کھایئں گے؟ " وہ پوچھنا چاہتی تھی مگر دل نے کہا انتظار کرو۔ حالانکہ اسکو اندازہ تھا کہ شان کا سوال کیا ہوگا؟۔

یہاں آنے سے پہلے انہوں نے بیورلی ڈرایؤ پر رُک کر 'گنگاجن' رسٹورانٹ سے پِکنِک کی باسکٹ بنوالی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور کھانا شروع کیا۔ آلو بھرے سموسے، پاپڑ ، کباب کی پلیٹ جس میں سیخ کباب، تنگری کباب، چکن تکہ اور تندوری چکن تھا، گارلک نان اور قلاقند ۔ کھا نا بڑا مزے دار تھا۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور چائے پی۔

سعدیہ سوچ میں غرق تھی کہ شان مجھے یہاں کیوں لایا ہے۔ اور شان اس سوچ میں تھا کہ سعدیہ میرے سوال کا کیا جواب دے گی؟ سوچ میں گم دونوں نے ایک دوسرے کی نگاہوں میں دیکھا۔
“شان“
“سعدیہ“
دونوں نے ایک دوسرے کا نام ایک ساتھ لیا۔
Post Reply

Return to “ناول”