پرسرار چیخیں

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

پرسرار چیخیں

Post by سیدتفسیراحمد »

موڈی ایک رومان زدہ نوجوان امریکن تھا۔ مشرق کو بیسویں صدی کے سائنسی دور میں بھی پراسرار سمجھتا تھا۔۔۔ اس نے بچپن سے اب تک خواب ہی دیکھے تھے۔۔۔ دھندلے اور پراسرار خواب۔ جن میں آدمی کا وجود بیک وقت متعدد ہستیاں رکھتا ہے۔۔۔!

بہرحال اس کی سریت پسندی ہی اسے مشرق میں لائی تھی۔۔۔ اس کا باپ امریکہ کا ایک مشہور کروڑ پتی تھا۔۔۔ موڈی بظاہر مشرق میں اسکی تجارت کا نگران بن کر آیا تھا۔۔۔ لیکن مقصد دراصل اپنی سریت پسندی کی تسکینی تھا۔۔۔!

وہ شراب کے نشے میں شہر کے گلی کوچوں میں اپنی کار دوڑاتا پھرتا۔۔۔ ایسے حصوں میں کم از کم ایک با رضرور گزرتا تھا جہاں قدیم اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں ہوتی تھیں۔۔۔ شام کا وقت اس کے لئے بہت موزوں ہوتا تھا۔۔۔ سورج کی آخری شعاعیں صدہاسال پرانی عمارتوں کی شکستہ دیواروں پر پڑ کر عجیب سا ماحول پیدا کرتی تھیں۔۔ ۔ اور موڈی کو اپنی روح ان ہی سال خوردہ دیواروں کے گرد منڈلاتی ہوئی محسوس ہوتی۔۔۔

آج بھی وہ عالمگیری سرائے کے علاقے میں اپنی کار دوڑاتا پھررہا تھا۔۔۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔۔۔ دھندلکے کی چادر آہستہ آہستہ فضا پر مسلط ہوتی جا رہی تھی۔

موڈی کی کار ایک سنسان اور پتلی سی گلی سے گزر رہی تھی۔ رفتار اتنی دھیمی تھی کہ ایک بچہ بھی دروازہ کھول کر اندر آسکتا تھا۔

موڈی اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا ہولے ہولے کچھ گنگنا رہا تھا۔۔۔ اچانک کسی نے کار کا پچھلا دروازہ زور سے سو کیا۔۔۔ آواز کے ساتھ ہی موڈی چونک کر مڑا۔ لیکن اندھیرا ہونے کی بنا پر کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوسرے ہی لمحے میں موڈی نے اندر روشنی کردی اور پھر اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر کانپ کر رہ گئے۔

"بجھا دو!۔۔۔ خدا کے لئے۔۔۔ بجھا دو!" اس نے ایک کپکپاتی ہوئی آواز سنی۔

موڈی نے غیر ارادی طور پر سوئچ آف کردیا۔۔۔ اندر پھر اندھیرا تھا۔

"مجھے بچاؤ!" پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ لہجہ مشرقی مگر زبان انگریزی تھی۔

"اچھا۔۔۔ اچھا!" موڈی نے بوکھلا کر سرہلاتے ہوئے کہا اور کار فراٹے بھرنے لگی۔۔۔!

کافی دور نکل آنے کے بعد نشے کے باوجود بھی موڈی کو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔۔۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر وہ اسے کس طرح بچائے گا۔۔۔ کس چیز سے بچائے گا؟

"میں تمہیں کس طرح بچاؤں؟" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

"مجھے کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دیجئے۔۔۔ میں خطرے میں ہوں۔"

"کوتوالی۔۔۔!" موڈی نے پوچھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"نہیں نہیں!" لڑکی کے لہجے میں خوف تھا۔

"کیوں! اگر تم خطرے میں ہو۔۔۔ تو اس سے بہتر جگہ اور کیا ہوسکتی ہے۔"

"آپ سمجھتے ہیں! اس میں عزت کا بھی تو سوال ہے!"

"میں تمہاری بات سمجھ ہی نہیں سکتا۔۔۔ بہرحال جہاں کہو اتار دوں!"

"میرے خدا۔۔۔ میں کیا کروں!" لڑکی نے شاید خود سے کہا۔ اس کی آواز میں بڑی کشش تھی۔ خوابناک سی آواز تھی۔ اتنی ہی دیر میں موڈی کو اس آواز میں قدیم اسرار کی جھلک محسوس ہونے لگی تھی۔

"کیا تمہارا اپنا گھر نہیں!" موڈی نے پوچھا۔

"ہے تو۔۔۔ لیکن اس وقت گھر کا رخ کرنا موت کو دعوت دینا ہوگا۔"

"تم بڑی عجیب باتیں کر رہی ہو!"

"مجھے بچائیے۔ میں آپ پر اعتماد کرسکتی ہوں کیونکہ آپ ایک غیر ملکی ہیں۔"

"بات کیا ہے۔۔۔!"

"ایسی نہیں جس پر آپ آسانی سے یقین کر لیں۔"

"پھر بتاؤ۔۔۔ میں کیا کروں۔" موڈی نے بے بسی سے کہا۔

"مجھے اپنے گھر لے چلئے۔۔۔ لیکن اگر وہاں کتے نہ ہوں۔ مجھے کتوں سے بڑا خوف معلوم ہوتا ہے۔"

"گھر لے چلوں!" موڈی تھوک نگل کر رہ گیا۔ اچانک اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے خوابوں میں سے ایک نے عملی جامہ پہن لیا ہو۔ وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ پھر بولا۔ "کتے ہیں تو مگر خطرناک نہیں۔" موڈی نے کار اپنے بنگلے کی طرف موڑدی۔

"لیکن خطرہ کس قسم کا ہے!" اس نے لڑکی سے پوچھا۔

"اطمینان سے بتانے کی بات ہے۔" لڑکی بولی۔ "اگر میں یہیں بتانا۔۔۔ شروع کردوں تو آپ ہنسی میں اڑا دیں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ کار سے اتر جانے کو کہیں۔"

موڈی خاموش ہوگیا۔ اس نے اس لڑکی کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی اور سر سے پیر تک لرز کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس نے مشرق قدیم کے متعلق بہت کچھ پڑھا تھا۔۔۔ بچپن ہی سے پڑھتا آیا تھا۔۔۔ اس لٹریچر کی پراسرار مشرقی حسینائیں اس کے خوابوں میں بس گئی تھیں!۔۔۔ بار بار اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اندر روشنی کرکے اسے ایک بار پھر دیکھے۔۔۔ کتنا پراسرار چہرہ تھا کیسی خوابناک آنکھیں۔۔۔ اسے اس کے گرد روشنی کا ایک دائرہ سا نظر آیا تھا۔ پتہ نہیں یہ اس کا واہمہ تھا یا حقیقت تھی اس نے سوئچ آن کرنا چاہا لیکن ہمت نہ پڑی۔ لڑکی بھی خاموش ہو گئی تھی لیکن اس کی آواز اب بھی موڈی کے ذہن میں گونج رہی تھی۔

بنگلہ آگیا اور کار کمپاؤنڈ کے پھاٹک میں موڑ دی گئی۔۔۔ موڈی کار کو گیراج کی طرف لے جانے کی بجائے سیدھا پورچ کی طرف لیتا چلا گیا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس کے سامنے اس کے خوابوں کی تعبیر کھڑی تھی۔ ایک نوجوان مشرقی لڑکی جس کے خدوخال موڈی کو بڑے کلاسیکل قسم کے معلوم ہو رہے تھے۔۔۔ وہ مشرقی ہی لباس میں تھی لیکن لباس سے خوشحال نہیں معلوم ہوتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا چرمی سوٹ کیس تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"بب ۔۔۔ بیٹھو!" موڈی نے ہکلا کر صوفے کی طرف اشارہ کیا!

لڑکی بیٹھ گئی۔ موڈی اس انتظار میں تھا کہ لڑکی خود ہی گفتگو کرے گی لیکن وہ خاموش بیٹھی فرش کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے وہ یہاں آنے کا مقصد ہی بھول گئی ہو۔۔۔ موڈی کچھ دیر تک انتظار کرتا رہا لیکن جب اس کی خاموشی کا وقفہ بڑھتا ہی گیا تو اس نے کہا۔

"مجھے اب کیا کرنا چاہیئے۔" لڑکی چونک پری اور اس طرح چونکی جیسے اسے موڈی کی موجودگی کا احساس ہی نہ رہا ہو۔

"اوہ۔۔۔" اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کرکہا۔

"میری وجہ سے آپ کوبڑی تکلیف ہوئی۔"

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں!" موڈی بولا!"کچھ پئیں گیآپ؟"

"جی نہیں شکریہ!" لڑکی نے سوٹ کیس کو فرش پر رکھتے ہوئے کہا۔ وہ پھر خاموش ہو گئی۔۔۔ اب موڈی کو الجھن ہونے لگی۔۔۔ آخر اس نے اسے اصل موضوع کی طرف لانے کے لئے کہا۔ "میں ہر طرح آپ کی مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔"

"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ سے کیا کہوں اور کس طرح گفتگو شروع کروں۔" لڑکی بولی!

"آپ کچھ کہئے بھی تو۔" موڈی نے جھنجھلا کر کہا۔ دراصل اس کا نشہ اکھڑ رہا تھا۔ ایسی حالت میں وہ ہمیشہ کچھ چڑ چڑا سا نظر آنے لگتا تھا۔

"ذرا۔۔۔ ایک منٹ ٹھہریئے۔" لڑکی سوٹ کیس کو فرش سے اٹھا کر صوفے پر رکھتی ہوئی بولی۔ "میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ مجھے یہاں تک لائے۔ اب میں آپ سے ایک درخواست اور کروں گی۔"

"کہیئے۔۔۔ کہیئے!" موڈی سیگرٹ سلگاتا ہوا بولا۔

"میں کچھ دنوں کے لئے اپنی ایک چیز آپ کے پاس امانتا رکھوانا چاہتی ہون۔" لڑکی نے کہا اور سوٹ کیس کھول کر اس میں سے آبنوس کی ایک چھوٹی سی صندوقچی نکالی۔۔۔ اور پھر جیسے ہی موڈی کی نظر اس صندوقچی پر پڑی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔ کیونکہ اس صندوقچی میں جواہرات جڑے ہوئے تھے!

"یہ ہمارے ملک کی ایک قدیم ملکہ کا سنگاردان ہے۔" لڑکی اسے موڈی کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ "آپ اسے کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھئے۔"

"کیوں۔۔۔ وجہ؟"

"بات یہ ہے کہ میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں۔ کچھ لوگ اس کی تاک میں ہیں۔ آج بھی انہوں نے اسے اڑانا چاہا تھا۔۔۔ لیکن میں کسی طرح بچا لائی۔ گھر میں تنہا رہتی ہوں۔۔۔؟"

"مگر یہ آپ کو ملا کہاں سے؟"

"کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں کہیں سے چرا لائی ہوں۔"

"اوہو! یہ مطلب نہیں!"موڈی جلدی سے بولا۔"بات یہ ہے کہ۔۔۔!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"بب ۔۔۔ بیٹھو!" موڈی نے ہکلا کر صوفے کی طرف اشارہ کیا!

لڑکی بیٹھ گئی۔ موڈی اس انتظار میں تھا کہ لڑکی خود ہی گفتگو کرے گی لیکن وہ خاموش بیٹھی فرش کی طرف دیکھتی رہی۔۔۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے وہ یہاں آنے کا مقصد ہی بھول گئی ہو۔۔۔ موڈی کچھ دیر تک انتظار کرتا رہا لیکن جب اس کی خاموشی کا وقفہ بڑھتا ہی گیا تو اس نے کہا۔

"مجھے اب کیا کرنا چاہیئے۔" لڑکی چونک پری اور اس طرح چونکی جیسے اسے موڈی کی موجودگی کا احساس ہی نہ رہا ہو۔

"اوہ۔۔۔" اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کرکہا۔

"میری وجہ سے آپ کوبڑی تکلیف ہوئی۔"

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں!" موڈی بولا!"کچھ پئیں گیآپ؟"

"جی نہیں شکریہ!" لڑکی نے سوٹ کیس کو فرش پر رکھتے ہوئے کہا۔ وہ پھر خاموش ہو گئی۔۔۔ اب موڈی کو الجھن ہونے لگی۔۔۔ آخر اس نے اسے اصل موضوع کی طرف لانے کے لئے کہا۔ "میں ہر طرح آپ کی مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔"

"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ سے کیا کہوں اور کس طرح گفتگو شروع کروں۔" لڑکی بولی!

"آپ کچھ کہئے بھی تو۔" موڈی نے جھنجھلا کر کہا۔ دراصل اس کا نشہ اکھڑ رہا تھا۔ ایسی حالت میں وہ ہمیشہ کچھ چڑ چڑا سا نظر آنے لگتا تھا۔

"ذرا۔۔۔ ایک منٹ ٹھہریئے۔" لڑکی سوٹ کیس کو فرش سے اٹھا کر صوفے پر رکھتی ہوئی بولی۔ "میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ مجھے یہاں تک لائے۔ اب میں آپ سے ایک درخواست اور کروں گی۔"

"کہیئے۔۔۔ کہیئے!" موڈی سیگرٹ سلگاتا ہوا بولا۔

"میں کچھ دنوں کے لئے اپنی ایک چیز آپ کے پاس امانتا رکھوانا چاہتی ہون۔" لڑکی نے کہا اور سوٹ کیس کھول کر اس میں سے آبنوس کی ایک چھوٹی سی صندوقچی نکالی۔۔۔ اور پھر جیسے ہی موڈی کی نظر اس صندوقچی پر پڑی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔ کیونکہ اس صندوقچی میں جواہرات جڑے ہوئے تھے!

"یہ ہمارے ملک کی ایک قدیم ملکہ کا سنگاردان ہے۔" لڑکی اسے موڈی کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ "آپ اسے کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھئے۔"

"کیوں۔۔۔ وجہ؟"

"بات یہ ہے کہ میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں۔ کچھ لوگ اس کی تاک میں ہیں۔ آج بھی انہوں نے اسے اڑانا چاہا تھا۔۔۔ لیکن میں کسی طرح بچا لائی۔ گھر میں تنہا رہتی ہوں۔۔۔؟"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"مگر یہ آپ کو ملا کہاں سے؟"
"کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں کہیں سے چرا لائی ہوں۔"
"اوہو! یہ مطلب نہیں!"موڈی جلدی سے بولا۔"بات یہ ہے کہ۔۔۔!"
میری ظاہری حالت ایسی ہے کہ میں اس کی مالک نہیں ہوسکتی۔" لڑکی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دکھائی دی۔
"آپ میرا مطلب نہیں سمجھیں۔"
"دیکھئے میں آپ کو بتاتی ہوں۔" لڑکی نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔
"میں دراصل یہاں کے ایک قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں یہ سنگار دان مجھ تک وراثت میں پہنچا ہے۔۔۔ اب میں اس خاندان کی آخری فرد ہوں۔"
"سچ مچ!" موڈی بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید عنقریب اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل جائے گی۔
"ہاں تو آپ یہ خیال دل سے نکال دیجئے کہ میں اسے کہیں سے چرا کر لائی ہوں۔"
"دیکھئے آپ زیادتی کر رہی ہیں!" موڈی نے ملتجانہ انداز میں کہا۔
"میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ میں اس کی حفاظت کروں گا۔ شہزادی صاحبہ!"
"بہت بہت شکریہ۔۔۔ لیکن اب میں آپ کو ایک خطرے سے آگاہ کردوں! ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اسے حاصل کرنے کے سلسلہ میں آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیں۔"
"ناممکن!" موڈی اکڑ کر بولا۔ "میں اڑتے پرندوں پر نشانہ لگا سکتا ہوں۔ یہاں کس کی مجال ہے کہ میری کمپاؤنڈ میں قدم رکھ سکے۔"
"ایک بار پھر سوچ لیجئے!" لڑکی نے اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ کر کہا۔
"میں نے سوچ لیا! میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابھی آپ کہہ رہی تھیں کہ آپ تنہا رہتی ہیں!"
"جی ہاں۔۔۔"
"لیکن آپ اسے واپس کب لیں گی۔"
"جب بھی حالات سازگار ہوگئے۔ اسی لئے میں آپ سے کہہ رہی تھی کہ مدد کرنے سے پہلے حالات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے۔"
"پروا نہ کیجئے! میں اب کچھ نہ پوچھوں گا۔ جو آپ کا دل چاہے کیجئے۔"
"اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ اسے کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھ لیں۔"
"میں تیار ہوں۔ لیکن کیا آپ کبھی کبھی ملتی رہا کریں گی۔"
"یہ سب حالات پر منحصر ہے۔"
"لیکن اب آپ کی واپسی کس طرح ہوگی؟ کیا باہر وہ لوگ آپ کی تاک میں نہ ہوں گے۔"
"ہوا کریں لیکن اب وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"کیوں۔ کیا ابھی کچھ دیر قبل آپ ان سے خائف نہیں تھیں؟"

"ضرور تھی لیکن اب وہ چیز میرے پاس نہیں ہوگی جس کی وجہ سے میں خائف رہتی تھی۔"

"ممکن ہے وہ آپ کو قابو میں کرنے کے بعد آپ پر جبر کریں۔"

"میرا دل کافی مضبوط ہے۔"

"آپ پولیس کو کیوں نہیں مطلع کرتیں۔"

"اوہ اس طرح بھی ایک خاندانی چیز کے ضائع ہوجانے کا امکان باقی رہ جاتا ہے۔ حکومت ایسی صورت میں یہ ضرور چاہے گی کہ اسے آثار قدیمہ کے کسی شعبے میں رکھ لیا جائے۔"

"ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔" موڈی نے سر ہلا کر کہا۔

"نہ میں پولیس کو اطلاع دے سکتی ہیں اور نہ فی الحال اپنے پاس رکھ سکتی ہوں۔۔۔ اف میرے خدا میں کیا کروں۔ یہ دونوں ہی صورتیں مجھے پولیس کی نظر میں مشتبہ بنا دیں گی۔ اس لئے خاموشی ہی بہتر پالیسی ہوگی۔"

"آپ ٹھیک کہتی ہیں شہزادی صاحبہ۔ میں اس کی پوری پوری حفاظت کروں گا۔"

"بہت بہت شکریہ!"

"کیا میں آپ کا نام اور پتہ پوچھنے کی جرات کرسکتا ہوں۔"

"نام۔۔۔ میرا نام دردانہ ہے۔۔۔ اور پتہ۔۔۔ نہیں پتہ نہ پوچھئے۔۔۔ آپ نہیں سمجھ سکتے کہ میں کن پریشانیوں میں مبتلا ہوں۔۔۔ میں آپ سے ملتی رہوں گی۔"

"بہت اچھا! میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا۔ کیا آپ رات کا کھانامیرے ساتھ پسند کریں گی۔"

"نہیں شکریہ!" لڑکی اٹھتی ہوئی بولی۔ "آپ ذرا تکلیف کرکے مجھے پھاٹک تک چھوڑ آئیے۔" موڈی چاہتا تھا کہ وہ ابھی کچھ دیر اور رکے۔۔۔ لیکن دوبارہ کہنے کی ہمت نہ پڑی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ لڑکی شہزادیوں کے سے انداز میں اس سے تحمکانہ لہجے میں گفتگو کرے اور وہ ایک غلام کی طرح سر جھکائے کھڑا سنتا رہے۔

وہ اس کے ساتھ پھاٹک تک آیا۔۔۔ اور اس وقت تک کھڑا سے جاتے دیکھتا رہا جب تک کہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ موڈی نے اسے کہا بھی تھا کہ وہ جہاں کہے اسے کار پر پہنچایا جائے لیکن لڑکی نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔

موڈی اس کے جانے کے بعد کافی دیر تک کھڑا اندھیرے میں گھورتا رہا پھر واپس چلا آیا۔ سب سے پہلے اس نے وہسکی کے دو تین پگ پئے اور پھر سنگار دان کو ڈرائنگ روم سے اٹھا کر اپنے سونے کے کمرے میں لایا۔ اس پر جڑے ہوئے جواہرات بجلی کی روشنی میں جگمگا رہے تھے۔۔۔ موڈی نے اسے کھولنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ وہ پھر اپنے پراسرار خوابوں میں کھو گیاتھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اب سے پانچ سو سال قبل کی دنیا میں سانس لے رہا ہو اور اس کی حیثیت کسی شہزادی کے باڈی گارڈ کی سی ہو! وہ اس کے دشمنوں سے جنگ لڑ رہا ہو۔۔۔ نشے میں تو تھا ہی اس نے سچ مچ خیالی شہزادی کے خیالی دشمنوں سے جنگ شروع کردی۔ اس کا پہلا گھونسہ دیوار پر پڑا، دوسرا میز پر اور تیسرا غالبا اس کے سر پر۔۔۔ وہ غل غپاڑہ مچا کہ سارے نوکر اکٹھا ہوگئے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

عمران اپنے آفس میں بیٹھا ایک فائیل کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ عمران اور آفس۔۔۔ بات حیرت انگیز ضرور ہے۔ مگر وہ بیچارہ زبردستی کی اس پکڑ دھکڑ کو کیا کرتا جو سرکاری طور پر اس کے لئے کی گئی تھی۔۔۔ لی یوکا کی گرفتاری کے بعد سے وہ کسی طرح بھی خود کو نہ چھپا سکا تھا۔ پھر ویران عمارت والا کیس بھی منظر عام پر آگیا تھا۔ یہ دونوں ہی کیس ایسے اہم تھے کہ انہیں نپٹانے والے کی شخصیت پردہ راز میں رہ ہی نہیں سکتی تھی! عمران کے والد جو محکمہ سراغرسانی کے ڈائریکٹر جنرل تھے خبط الحواس بیٹے کی ان صلاحیتوں پر بمشکل یقین کرسکے۔ وہ تو اسے گاؤدی، احمق اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے تھے۔

آنریبل وزیر داخلہ نے عمران کو مدعو کرکے بہ نفس نفیس محکمہ سراغرسانی میں ایک اچھے عہدی کی پیش کش کی اور عمران سے انکار کرتے نہ بن پڑا۔۔۔ لیکن اس نے بھی اپنی شرائط پیش کیں، جو منظور کر لی گئیں۔۔۔ اس کی سب سے پہلی تجویز تو یہ تھی کہ وہ اپنے طور پر جرائم کی تفتیش کرے گا۔ اس کا ایک الگ سیکشن ہوگا اور اس کا تعلق براہ راست ڈائریکٹر جنرل سے ہوگا اور وہ ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ اور کسی کو جوابدہ نہیں ہوگا اور وہ اپنے سیکشن کے آدمیوں کا انتخاب خود کرے گا۔ ضرور نہیں کہ وہ اس کے لئے نئی بھرتیوں کی فرمائش کرے۔ جب بھی اسے محکمے ہی کا کوئی ایسا آدمی ملے گا، جو اس کے کام کا ہو وہ اسے اپنے سیکشن میں لینے کی سفارش ضرور کرے گا۔ اس کے سیکشن کے عملے کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہوگی۔"

شرائط منظور ہوجانے کے بعد عمران نے اپنی خدمات پیش کردیں لیکن رحمان صاحب کو اس وقت بڑی شرمندگی ہوئی جب انہوں نے سنا کہ عمران اپنے عملے کے لئے انتہائی ناکارہ اور اونگھتے ہوئے سے آدمیوں کو منتخب کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ابھی تک چار آدمی منتخب کیے تھے اور یہ چاروں بالکل ہی ناکارہ تصور کیے جاتے تھے۔ کوئی بھی انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھنا پسند نہیں کرتا تھا، اور ان بیچاروں کی زندگی تبادلوں کی نذر ہو کر رہ گئی تھی! ان کی شخصیتیں صفر کے برابر تھیں! دبلے پتلے جھینگر جیسے؟ کاہل، نکمے اور کام چور۔۔۔انہیں بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔۔۔ عمران جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آخر وہی ہوا جس کی توقع تھی۔۔۔ رحمان صاحب نے اسے آفس میں بلا کر اچھی طرح خبر لی۔

"میرا بس چلے تو میں تمہیں دھکے دلوا کر یہاں سے نکلوا دوں۔" انہوں نے کہا۔

"میں اس جملے کی سرکاری طور پر وضاحت چاہتا ہوں!" عمران نے نہایت ادب سے کہا۔ اس پر رحمان صاحب اور زیادہ جھلا گئے۔ لیکن پھر انہیں فورا خیال آگیا کہ وہ اس وقت اپنے بیٹے سے نہیں بلکہ اپنے ایک ماتحت آفیسر سے مخاطب ہیں۔

"تم نے ایسے نکمے آدمیوں کا انتخاب کیوں کیا ہے؟" انہوں نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔

"محض اس لئے کہ میں اس محکمے میں کسی کو بھی نکما نہیں دیکھ سکتا۔" عمران کا جواب تھا۔ رحمان صاحب دانت پیس کر رہ گئے۔ لیکن کچھ بولے نہیں۔ عمران کا جواب ایسا نہیں تھا جس پر مزید کچھ کہا جاسکتا! بہرحال انہیں خاموش ہوجانا پڑا۔۔۔ کیونکہ عمران نے اپنے معاملات براہ راست وزارت داخلہ سے طے کئے تھے۔ کچھ لوگ عمران کی ان حرکتوں کو حیرت سے دیکھتے اور کچھ اس کا مضحکہ اڑاتے! لیکن عمران ان سب سے بے پروا اپنے طور پر اپنے سیکشن کے انتطامات مکمل کر رہا تھا۔

اس وقت بھی اس کے سامنے ایک فائیل رکھا ہوا تھا! اس میں چند ایسے کیسوں کے کاغذات تھے جن میں محکمے کو کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ اس فائیل کو دیکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ایک بہت پرانے کیس میں دوبارہ جان پیدا ہو چلی تھی۔ یہ کیس دس سال پرانا اور نامکمل تھا۔ محکمہ سراغرسانی اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ دس سال پہلے تو وہ اتنا عجیب واقعہ نہیں تھا۔ مگر اب۔۔۔ اب تو اس نے ایک حیرت انگیز شکل اختیار کر لی تھی کہ سارا شہر سناٹے میں آگیا تھا۔ کیس کی نوعیت عجیب تھی۔۔۔ اب سے دس سال پیشتر شہر کے مشہور رئیس نواب ہاشم کو کسی نے اس کی خوابگاہ میں قتل کردیا تھا۔۔۔ مگر پھر اچانک دس سال بعد نواب ہاشم دوبارہ گوشت پوست کی شکل میں دکھائی دیا۔۔۔ وہ کسی طویل سفر سے واپس آیا تھا۔

عمران نے فائیل بندکرکے میز کے ایک گوشے پر رکھ دیا اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکال کر اس کا کاغذ پھاڑنے لگا! اتنے میں سپرنٹنڈنٹ فیاض کے اردلی نے آکر کہا۔۔۔

"صاحب نے سلام بولا ہے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"وعلیکم السلام" عمران نے کہا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بندکرلیں۔ اردلی بوکھلا کر رہ گیا۔۔۔ وہ انگریزوں کے وقت کا آدمی تھا۔۔۔ اور۔۔۔۔ "سلام" کا مقصد اس دور میں بلاوے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا جب کسی انگریز آفیسر کو اپنے ماتحت آفیسر کو بلوانا ہوتا تو وہ اپنے اردلیوں سے اسی طرح سلام بھجوایا کرتا تھا۔۔۔ لیکن آج فیاض کے اردلی کو عمران کے "وعلیکم السلام" نے بوکھلا دیا۔۔۔۔ وہ چند لمحے عمران کی میز کے قریب کھڑا بغلیں جھانکتا رہا۔ پھر الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔۔۔ خود اس کی ہمت تو نہیں پڑی کہ وہ کیپٹن فیاض تک عمران کا "وعلیکم السلام" پہنچاتا۔ لیکن اس نے اس کا تذکرہ فیاض کے پرسنل اسسٹنٹ سے کردیا۔ یہ پرسنل اسسٹنٹ ایک لڑکی تھی۔ وہ کافی دیر تک ہنستی رہی پھر اس نے سلام کا جواب فیاض تک پہنچا دیا۔۔۔ فیاض بھنا گیا۔۔۔ وہ عمران کا دوست ضرور تھا۔ لیکن جب سے عمران اس محکمے میں آیا تھا اسے اپنا ماتحت سمجھنے لگا تھا۔ اس بار اس نے اردلی کو بلا کر کہا "جا کر کہو! صاحب بلا رہے ہیں۔"

اردلی چلا گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد عمران کمرے میں داخل ہوا۔

"بیٹھ جاؤ!" فیاض نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ عمران بیٹھ گیا۔ فیاض چند لمحے اسے گھورتا رہا پھر بولا "دوستی اپنی جگہ۔۔۔ لیکن آفس میں تمہیں حفظ مراتب کا خیال رکھنا ہی پڑے گا۔"

"میں سمجھا نہیں! تم کیا کہہ رہے ہو۔"

"میں تمہارا آفیسر ہوں۔"

"اخاہ۔" عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔ یہ تم سے کس گدھے نے کہہ دیا ہے کہ تم میرے آفیسر ہو! دیکھو میاں فیاض! میرا اپنا الگ ڈیپارٹمنٹ ہے اور میں اس کا اکلوتا انچارج ہوں۔۔۔ اور میں براہ راست ڈائریکٹر جنرل صاحب کو جواب دہ ہوں! سمجھے!"

"سمجھا۔" فیاض طویل سانس لے کر بولا اور کچھ نرم پڑ گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس اپنی تقری کا "معجزہ" یاد آگیا ہو۔ وہ پہلے صرف انسپکٹر تھا۔ لیکن پانچ سال کے اندر حیرت انگیز طور پر سپرنٹنڈنٹ ہو گیا تھا۔۔۔ اس کا دل ہی جانتا تھا کہ اس ترقی کے لئے عمران نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔"

"دیکھو میرا مطلب یہ تھا کہ تم آفس میں بھی اپنے الو پن سے باز نہیں آتے۔"

"یہ کہاں لکھا ہے کہ اس آفس میں الوؤں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔!"

"او بابا ختم بھی کرو۔۔۔ میں تم سے ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا تھا!"

"میرا خیال ہے کہ میرا الو پن بھی نہایت اہم ہے۔۔۔ کیونکہ اسی الو پن کی وجہ سے میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ ویسے میں جانتا ہوں کہ تم نواب ہاشم کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہو!"

"تم نے پورا کیس سمجھ لیا۔"

"سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر اسے قتل کیوں قرار دیا گیا۔ ہزار حالات ایسے تھے کہ اسے خودکشی بھی سمجھا جا سکتا تھا۔"

"مثلا۔۔۔!" فیاض نے اسے معنی خیز نظروں سے دیکھ کرپوچھا۔

مثلا یہ کہ فائر اس کے چہرے پر کیا گیا تھا۔ بندوق بارہ بورکی تھی اور کارتوس ایس جی کے۔ چہرے کے پرخچے اڑ گئے تھے شکل اس طرح بگڑ گئی تھی کہ شناخت مشکل تھی۔۔۔ وہ صرف اپنے لباس اور چند دوسری نشانیوں کی بنا پر پہچانا گیا تھا! بندوق اس کے قریب ہی پڑی ہوئی ملی تھی اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے کہ گولی بہت ہی قریب سے چلائی گئی تھی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کہتی ہے کہ بندوق کے دہانے کا فاصلہ چہرے سے ایک بالشت سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔۔۔"

"گولی مارو یار۔" فیاض میز پر ہاتھ مار کر بولا۔"وہ کم بخت تو زندہ بیٹھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بعض وجوہ کی بنا پر کسی کو کچھ بتائے بغیر گھر سے چلا گیا تھا۔ اتنے دنوں تک جنوبی براعظموں کی سیاحت کرتا رہا اور اب واپس آیاہے۔۔۔ اس کی خوابگاہ میں کس کی لاش پائی گئی۔۔۔؟ نواب ہاشم اس سے لاعلم ہے۔"

"ذرا ٹھہرو!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جس رات لاش پائی گئی تھی اس دن وہ اپنے گھر ہی میں رہا ہوگا۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ظاہر ہے۔"

"تو پھر اسی رات کو۔۔۔ گھر سے روانہ ہوا۔۔۔ اور رات کو ایک ایسے آدمی کو اس کی خوابگاہ میں حادثہ پیش آیا جو اسی کے سلیپنگ سوت میں ملبوس تھا۔"

"بات تو یہی ہے۔" فیاض نے سیگرٹ سلگاتے ہوئے کہا۔

عمران چند لمحے کچھ سوچتا رہا۔ پھر بولا۔ "اب وہ اس لاش کے متعلق کیا کہتا ہے۔"

"اس کا جواب صاف ہے۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ بھلا میں کیا بتا سکتا ہوں۔ گھر والوں کی غلطی ہے۔ انہوں نے لاش اچھی طرح شناخت نہیں کی تھی!"

"لیکن کسی کو کچھ بتائے بغیر اس طرح غائب ہوجانے کا کیا مقصد تھا۔"

"عشق!" فیاض ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔

"اوہ تب تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "مثل مشہور ہے کہ عشق کے آگے بھوت بھی بھاگتا ہے۔"

"سنجیدگی عمران سنجیدگی!"

"میں بالکل سنجیدہ ہوں! اگر وہ اس طرح گھر سے نہ بھاگتا تو اسے سچ مچ کسی سے عشق ہو جاتا۔"

"بکواس مت کرو۔۔۔ عشق میں ناکام رہنے پر وہ دل شکستہ ہو گیا تھا۔ اس لئے اسے یہاں سے چلا جانا پڑا۔۔۔"

"خدا سے ڈرو فیاض وہ جنگ کا زمانہ تھا اور اس زمانے کا رواج یہ تھا کہ لوگ عشق میں ناکام ہونے پر فوج میں بھرتی ہو جایا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں ساحی کا دستور نہیں تھا۔"

"میرا دماغ خراب مت کرو!" فیاض جھنجھلا کر بولا۔ "جاؤ یہاں سے۔" عمران چپ چاپ اٹھا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس کے کمرے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ اس نے ریسیور اٹھایا۔

"ہیلو۔۔۔ ہاں عمران کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔۔۔ کون۔۔۔! موڈی کیا بات ہے آخر کچھ بتاؤ بھی تو۔۔۔ ارے بس یار کان نہ کھاؤ۔۔۔ اچھا میں ابھی آرہا ہوں۔"

ریسیور رکھ کر وہ دروازے کی طرف مڑا۔ جہاں اس کا ایک مریل سا ماتحت کھڑا اسے گھور رہا تھا۔۔۔ اس کے چہرے کی رنگت زرد تھی۔ گال پچکے ہوئے اور بال پریشان تھے۔

"ہوں۔۔۔ کیا خبر ہے۔" عمران نے اس سے پوچھا۔

"جناب! میں نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں۔"

"شاباش۔ دیکھا تم نے۔ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ معلومات تم سے دور بھاگتی ہیں مگر اب۔۔۔ اب تم اچھے خاصے جا رہے ہو۔ عنقریب سارجنٹ ہو جاؤ گے۔۔۔ لیکن میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ دوسروں کو الو بنانے کا سائنٹیفک طریقہ یہ ہے کہ خود الو بن جاؤ سمجھے!"

"جی جناب! میں بالکل سمجھ گیا۔۔۔ خیر رپورٹ سنئے! نواب ہاشم حویلی سے باہر نہیں نکلتا! آج ایک سرخ رنگ کی کار حویلی میں دو بار آئی تھی۔۔۔ حویلی کی کمپاؤنڈ میں ایک لڑکا تقریبا آدھے گھنٹے تک منہ سے طبلہ بجا بجا کر فلمی گیت گاتا رہا۔ پھر گیارہ بجے ایک نہایت شوخ اور الہڑ قسم کی مہترانی حویلی میں داخل ہوئی اور اس کے بائیں گال پر سیاہ رنگ کا ابھرا ہوا سا تل تھا۔۔۔ چہرہ بیضوی! آنکھیں شربتی قد ساڑھے چار اور پانچ کے درمیان میں۔۔۔"

"ہائیں۔۔۔ واقعی تم ترقی کر رہے ہو۔" عمران مسرت بھرے لہجے میں چیخا۔ "شاباش۔۔۔ ہر چیز کو بہت غور سے دیکھو۔۔۔ کار جو دوبار آئی تھی اس کا نمبر کیا تھا۔۔۔"

"اس پر تو میں نے دھیان نہیں دیا جناب۔"

"فکر نہ کرو۔۔۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اچھا اب جاؤ چار بجے شام پھر وہیں تمہاری ڈیوٹی ہے۔۔۔!"

عمران نے باہر آکر سائبان کے نیچے سے اپنی سیاہ ٹوسیٹر نکالی اور موڈی کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گیا۔ موڈی اس کے گہرے دوستوں میں سے تھا، عمران جب وہاں پہنچا تو موڈی شراب پی رہا تھا۔۔۔ وہ تقریبا ہروقت نشے میں رہتا تھا۔ عمران کو دیکھ کر وہ کرسی سے اٹھا اور لکھنوی انداز میں اسے سلام کرتا ہوا پیچھے کی طرف کھسکنے لگا! وہ مشرقی طرز معاشرت کا دلدادہ تھا اور مشرقیوں کے ساتھ عموما انہیں کا انداز اختیار کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

موڈی نے اپنی داستان شروع کردی تھی! عمران بغور سن رہا تھا۔

"تو وہ سنگار دان میرے پاس چھوڑ کر چلی گئی!" موڈی نے بیان جاری رکھا اور اسی رات کو کچھ نامعلوم افراد نے میرے بنگلے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

"کیا تم جاگ رہے تھے؟" عمران نے پوچھا۔

"میں رات بھر جاگتا رہا تھا۔ میں نے انہیں دیکھا، دو تین فائر کیے۔۔۔ اور وہ ڈر کر بھاگ گئے، لیکن دوسرے ہی دن سے یہاں اجنبیوں کا تار بندھ گیا ایسی ایسی شکلیں دکھائی دیں کہ میں حیران رہ گیا۔ ان میں سے کوئی نوکری کے لئے آیا تھا۔ کوئی امریکی طرز حیات کے متعلق معلومات چاہتا تھا کوئی محض اس لئے آیا تھا کہ مجھ سے دوستی کرنا چاہتا تھا!۔۔۔ تقریبا دس پندرہ آدمی اسی طرح مجھ تک پہنچے۔ اس سے پہلے یہاں کوئی نہیں آتا تھا۔۔۔ پھر شام کو ایک عجیب و غریب آدمی آیا۔ اس کے چہرے پر سیاہ رنگ کی گھنی داڑھی تھی اور آنکھوں پر تاریک شیشے کی عینک۔۔۔ اس نے کہا کہ وہ میرے بنگلے کا مالک ہے۔ واضح رہے کہ میں نے یہ بنگلہ ایک ایجنسی کی معرفت کرایہ پر حاصل کیا ہے اور اس عجیب نووارد نے مجھ سے کہا کہ اسے ایجنسی والوں پر اعتماد نہیں ہے! میں ذرا بنگلے کی اندرونی حالت دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔! تم خود سوچو عمران ڈیئر، میں الو تو تھا نہیں کہ اسے اندر داخل ہونے کی اجازت دیتا اور پھر ایسے حالات میں۔۔۔ لو میری جان! تم بھی پیو۔۔۔"

"نہیں شکریہ!۔۔۔ ہاں! پھرکیا ہوا؟"

"تم جانتے ہو کہ میں خود بڑا پراسرار آدمی ہوں۔" موڈی نے موڈ میں آکر کہا "مجھے کوئی کیا دھوکا دے گا۔۔۔ میں نے اسے ٹہلا دیا!" موڈی نے دوسرا گلاس لبریز کرکے ہونٹوں سے لگالیا!۔۔۔

"لڑکی پھر آئی تھی؟" عمران نے پوچھا۔

"ہائے یہی تو داستان کا بڑا پردرد حصہ ہے! میرے دوست!" موڈی ایک سانس میں گلاس خالی کرکے اسے میز پر پٹختا ہوا بولا۔ "وہ آئی تھی۔۔۔ آج سے دس دن پہلے کا واقعہ ہے۔ آئی اور کہنے لگی کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟ ایسی چیز کو اپنے پاس کیسے رکھوں، میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں، میری گردن ضرور کٹ جائے گی!۔۔۔ میں نے کہا کہ وہ اسے کسی معقول آدمی کے ہاتھ فروخت کیوں نہیں کردیتی! اس طرح اس کی مالی حالت بھی درست ہو جائے گی!۔۔۔ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد وہ راضی ہوگئی، میں نے اسے پچیس ہزار کا آفر دیا!۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی کہ نہیں یہ بہت زیادہ ہے۔ اس کی دانست میں اس کی قیمت زیادہ نہیں تھی! میں نے سوچا کتنی بھولی ہے!۔۔۔ ہائے عمران پیارے وہ اب بھی! ہائے۔۔۔ میں نے اسے زبردستی پچیس ہزار کے نوٹ گن دیئے۔۔۔! اس دوران میں ہر رات مجھے ریوالور لے کر اس سنگار دان کی حفاظت کے لئے جانگا پڑتا تھا۔۔۔!

"ارے وہ ہے کہاں؟ میں بھی تو دیکھوں۔" عمران بولا۔

"ٹھہرو۔۔۔ دکھاتا ہوں۔۔۔" یک بیک موڈی کا موڈ بگڑ گیا۔۔۔ اس کا اوپری ہونٹ بھینچ گیا تھا اور آنکھوں سے خون سا ٹپکتا ہوا معلوم ہو رہا تھا!۔۔۔ عمران نے اس کے جذباتی تغیر کو حیرت سے دیکھا۔ لیکن بولا کچھ نہیں۔۔۔ موڈی جھٹکے کے ساتھ اٹھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا! عمران چپ چاپ بیٹھا رہا۔ دفعتا اس نے دوسرے کمرے میں شور و غل کی آوازیں سنیں اور ساتھ ہی نوکر بھاگتا ہوا کمرے میں آیا!۔۔۔

"صاحب" اس نے ہانپتے ہوئے عمران سے کہا۔ "موڈی صاحب کو بچائیے۔"

"کیا ہوا؟" عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ نوکر نے کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی بھاگتا ہوا اسی کمرے میں چلا گیا! عمران جھپٹ کر کمرے میں پہنچا!۔۔۔ موڈی عجیب حال میں نظر آیا! دو تین نوکر اس کی کمر سے لپٹے ہوئے تھے اور وہ ایک سیاہ رنگ کے ڈبے سے سر پھوڑ رہا تھا!۔

"ہٹ جاؤ۔۔۔ ہٹ جاؤ!" وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا اور ساتھ ہی ڈبے سے اپنے سر پر ضربیں لگاتا جا رہا تھا!۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

عمران نے بدقت تمام وہ ڈبہ اس کے ہاتھ سے چھینا۔۔۔ اور نوکروں نے کسی نہ کسی طرح اسے دھکیل کر ایک صوفے میں ڈال دیا۔ عمران نے ڈبے کو ہاتھوں میں تول کر دیکھا اور پھر اس کی نظر ان چجواہرات پر جم گئی، جو ڈبے کے چاروں طرف جڑے ہوئے تھے!۔

"یہی ہے!" موڈی صوفے سے اٹھ کر دھاڑا۔۔۔"یہی ہے!"

"ہوش میں آجاؤ بیٹا۔ ورنہ ٹھنڈے پانی کی بالٹی میں غوطہ دوں گا!" عمران بولا۔

"میں بالکل ہوش میں ہوں" موڈی نے حلق پھاڑ کر کہا۔ "جب سے میں نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔۔۔ چین سے رات بھر سوتا ہوں۔ سمجھے تم۔۔۔ یا ابھی اور حلق پھاڑوں؟"

"اب تم سوجاؤ!" عمران نے کہا۔ "پھر کبھی بات کریں گے۔۔۔!"

"کیا۔۔۔ ارے کیا! اب تم بھی کام نہ آؤ گے؟"

"تو پھر تم ہوش کی باتیں کرو!"

"ارے بابا۔" موڈی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ "اس کے خریدنے کے بعد سے اب تک ایک بھی پراسرار آدمی دکھائی نہیں دیا۔ کسی نے بھی اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔"

"ہام۔۔۔" عمران ایک طویل سانس لیتا ہوا بولا۔ " تو یہ کہو۔۔۔ میں سمجھ گیا۔

"سمجھ گئے نا!"

"ہاں۔۔۔ اور اگر تمہاری اسرار پرستی کا یہی عالم رہا تو تم یہاں سے کنگال ہو کر جاؤ گے۔۔۔ ارے مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں تم کچھ دنوں بعد گنڈے اور تعویزوں کے چکر میں نہ پڑ جاؤ!"

"یہ کیا چیزیں ہیں؟"

"کچھ نہیں!۔۔۔ اس لڑکی کا پتہ معلوم ہے؟"

"وہ عالمگیری سرائے میں رہتی ہے۔"

"عالمگیری سرائے بہت بڑا علاقہ ہے۔۔۔!" عمران بولا۔

"لیکن یہ بتاؤ کہ اب میں کیا کروں؟۔۔۔ مجھے پچیس ہزار روپوں کی پروا نہیں ہے! میں تو ہائے۔۔۔ میں اسے دھوکے باز کس طرح سمجھوں! وہ تو مجھے ایک ایسی عورت معلوم ہوتی ہے، جو کہ ہزاروں سالوں سے زندہ ہو۔۔۔ تم نے رائیڈرز ہیگرڈ کا ناول "شی" پڑھا ہے؟"

"او موڈی کے بچے تیرا دماغ خراب ہو جائے گا۔" عمران اسے گھونسہ دکھا کر بولا۔۔۔!

"نہیں! میں تم سے زیادہ ہوشمند ہوں۔" موڈی ہاتھ جھٹک کر بولا!

"کیا تم نے اس کے جواہرات کہیں پرکھوائے ہیں؟"

"پرکھوائے ہیں!۔۔۔ مجھے اس کی پروا نہیں کہ مجھے دھوکا دیا گیا۔۔۔! ہائے مصیبت تو یہ ہے کہ میں اسے دھوکا باز کیسے سمجھوں؟۔۔۔ نہیں وہ شہزادی ہے۔"

"ابے چپ! ڈفر کہیں کے۔۔۔! کیا تم نے اس سے دوبارہ ملنے کی کوشش بھی کی؟"
"نہیں! میری ہمت نہیں پڑی!" عمران اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھ کر رہ گیا۔
"ان پتھروں کا تخمینہ کیا ہے؟" اس نے موڈی سے پوچھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

پتھر نہیں بلکہ۔۔۔ پتھروں کی نقل کہو۔" موڈی بولا۔ "ان سب کا تخمینہ ڈیڑھ سو سے زائد نہیں ہے!"

"او موڈی خدا تم پر رحم کرے!" عمران نے کہا اور موڈی اپنے سر پر ہاتھوں سے صلیب کی شکل بنانے لگا! تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر عمران نے کہا "لڑکی کا مکمل پتہ ہے تمہارے پاس!"

"ہے۔۔۔ لیکن کیا کرو گے۔۔۔؟"

"کچھ بھی نہیں! طاہر ہے کہ وہ اب وہاں نہ ہوگی یا ممکن ہے پہلے بھی نہ رہی ہو۔"

"ہائے! تو تم بھی یہی ثابت کر رہے ہو کہ وہ دھوکے باز ہے!۔۔۔"

"اب تم بکواس نہ کرو! ورنہ گولی ماردوں گا!"

"گولی ماردو! مگر میں یہ یقین نہیں کروں گا کہ وہ دھوکہ باز ہے! وہ بہار کی ہواؤں کی طرح ہولے ہولے چلیتی ہے!۔۔ اس کے رخساروں سے صبح طلوع ہوتی ہے!۔۔۔ اس کے گیسوؤں میں شامیں انگڑائی لیتی ہیں!"

"اور میرا چانٹا تمہاری آنکھوں میں دنیا تاریک کردے گا۔ میں کہتا ہوں مجھے اس کا پتہ چاہئے اور کچھ نہیں۔۔۔!"

"سرائے عالمگیری کے علاقے میں۔۔۔ صرف اتنا ہی اور اس کے آگے میں کچھ نہیں جانتا!"

لیکن عمران موڈی کو گھور کر بولا! "تم نے مجھے کیوں بلایا تھا! جب کہ تمہیں ہاتھ سے گئی رقم کا افسوس بھی نہیں ہے!۔"

"پیارے عمران! میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم ثابت کردو کہ وہ دھوکے باز نہیں ہے!۔۔۔ تم چونکہ سرکاری آدمی ہو! اس لئے میں تمہاری بات قطعی تسلیم کرلوں گا! ویسے اگر کوئی دوسرا کہے تو ممکن ہےمجھے یقین نہ آئے!"

"اچھا بیٹا!" عمران نے سر ہلا کر کہا۔ "میں کوشش کروں گا کہ محکمہ سراغرسانی میں شعبہ عشق و عاشقی بھی کھلوا دوں اور پھر تم یہ ساری باتیں فون پر بھی تو کہہ سکتے تھے۔"

"آہ! میں تمہیں کیسے سمجھاؤں! فون پر آپریٹر بھی سنتے ہیں! میں نہیں چاہتا کہ کوئی شہزادی دردانہ کو دھوکہ باز سمجھے۔۔۔ آہ۔۔۔ شہزادی۔۔۔!"

"شہزادی کے بھتیجے میں چلا۔۔۔ آئندہ اگر میرا وقت برباد کیا تو میں تمہیں برباد کردوں گا! اچھا۔۔۔ میں اس سنگار دان کو اپنے ساتھ لئے جا رہا ہوں!"

"ہرگز نہیں!" موڈی نے عمران کا ہاتھ پکڑ لیا، "میں مرتے دم تک اس کی حفاظت کروں گا! خواہ شہزادی کے دشمن کوہ قاف تک میرا پیچھا کریں!"

"تمہارا مرض لاعلاج ہے" عمران نے مایوسی سے سرہلا کر کہا اور سنگاردان کو میز پر رکھ کر کمرے سے نکل گیا۔۔۔ موڈی حلق پھاڑ پھاڑ کر اسے پکار رہا تھا!۔۔۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

تھوڑی ہی دیر بعد عمران کی ٹو سیٹر ہاشم کی حویلی کے سامنے رکی!۔۔۔ عمارت قدیم وضع کی تھی۔ لیکن پائیں باغ جدید ترین طرز کا تھا اور اس کے گرد گھری ہوئی قد آدم دیوار بھی بعد کا اضافہ معلوم ہوتی تھی! عمران نے گاڑی باہر ہی چھوڑ دی اور خود پائیں باغ میں پھاٹک سے گزرتا ہوا داخل ہوا۔ پاٹھک سے ایک روش سیدھی حویلی کے برآمدے کی طرف چلی گئی تھی! جیسے ہی سرخ رنگ کی بجری جوتوں کے نیچے کڑکڑائی نہ جانے کدھر سے ایک بڑا سا کتا آکر عمران کے سامنے کھڑا ہوگیا!۔

"میں جانتا ہوں!" عمران آہستہ سے بڑبڑایا "بھلا اپ کے بغیر ریاست مکمل ہو سکتی ہے! براہ کرم راستے سے ہٹ جائیے!۔۔۔"

کتا بھی بڑا عجیب تھا! نہ تو اس نے اپنے منہ سے آواز نکالی اور نہ آگے ہی بڑھا۔ دوسرے ہی لمحے عمران نے کسی کی آواز سنی جو شاید اس کتے ہی کو ریگی۔۔۔ ریگی کہہ کر پکار رہا تھا۔ آواز نزدیک آتی گئی اور پھر مالتی کی جھاڑیوں سے ایک آدمی نکل کر عمران کی طرف بڑھا! یہ ادھیڑ عمر کا ایک مضبوط جسم والا آدمی تھا! آنکھوں سے عجیب قسم کی وحشت ظاہر ہوتی تھی۔ چہرہ گول اور ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز! سر کے بال کھچڑی تھے۔ ہونٹ کافی پتلے اور جبڑے بھاری تھے۔ اس نے شارک اسکن کی پتلون اور سفید سلک کی قمیض پہن رکھی تھی!"

"فرمائیے!" اس نے عمران کو گھور کر دیکھا۔

"میں نواب صاحب سے ملنا چاہتا ہوں!"

"کیوں ملنا چاہتے ہیں؟"

"ان سے کھادوں کی مختلف اقسام کے متعلق تبادلہ خیال کروں گا۔"

"کھادوں کی اقسام!" اس نے حیرت سے دہرایا! پھر بولا۔ "آپ آخر ہیں کون؟"

"میں ایک پریس رپورٹر ہوں۔"

"پھر وہی پریس رپورٹر!" وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ پھر بلند آواز میں بولا۔ "دیکھئے مسٹر میرے پاس وقت نہیں ہے۔"

"مگر میرے پاس کافی وقت ہے! عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ "میں دراصل آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دس سال قبل وہ لاش کس کی تھی؟ کیا آپ اس پر روشنی ڈال سکیں گے؟"

"بس خدا کے لئے جائیے!" وہ بیزار سے بولا۔ "میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا! اگر مجھے پہلے سے اس عجیب و غریب واقعہ کا علم ہوتا تو شاید میں یہاں آنے کی زحمت ہی گوارا نہ کرتا!"

"مجھے سخت حیرت ہے!" عمران نے کہا "آخر آپ نے کس رفتار سے اپنی روانگی شروع کی تھی کہ آپ کو اپنے قتل کی اطلاع نہ مل سکی!۔۔۔"

"دیکھو! صاحبزادے میں بہت پریشان ہوں! تم کبھی فرصت کے وقت آنا!" نواب ہاشم نے کہا۔

"اچھا یہی بتا دیجئے کہ آپ ایسے حالات میں کیا محسوس کر رہے ہیں!"

"میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ پاگل ہو گیا ہوں!۔۔۔ پولیس میری زندگی میں بھی مجھے مردہ تصور کرتی ہے!۔۔۔ میرا بھتیجا میری املاک پر قابض ہے!۔۔۔ میں مہمان خانے میں مقیم ہوں!۔۔۔ میرا بھتیجا کہتاہے کہ آپ میرے چچا کے ہمشکل ضرور ہیں۔۔۔ لیکن چچا صاحب کا انتقال ہو چیکا ہے۔ عدالت نے اسے تسلیم کر لیا ہے لہٰذا آپ کسی قسم کا دھوکہ نہیں دے سکتے!"

"واقعی یہ ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ہے نا!" نواب ہاشم بولا۔ "اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے نواب ہاشم تسلیم کرتے ہیں!"

"قطعی جناب! سو فیصدی! آج کل ہر بات ممکن ہے! میں اپنے اخبار کے ذریعے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ واقعی بعید از قیاس نہیں!"

"شکریہ! شکریہ! میرے ساتھ آئیے۔ میں آپ سے گفتگو کروں گا!" نواب ہاشم ایک طرف بڑھتا ہوا بولا۔ عمران اس کے ساتھ ہو لیا۔۔۔ دونوں ایک کمرے میں آئے۔۔۔

"مگر حیرت ہے کہ آپ کے بھتیجے نے آپ کو یہاں کیوں قیام کرنے دیا؟" عمران بیٹھتا ہوا بولا "ایسی صورت میں تو اسے آپ سے دور ہی رہنا چاہیئے تھا!"

"میں خود بھی حیران ہوں!" نواب ہاشم نے کہا۔ "میرے ساتھ اس کا رویہ برا نہیں۔۔۔ وہ کہتا ہے چونکہ آپ میرے چچا سے بڑی حد تک مشابہت رکھتے ہیں اس لئے مجھے آپ سے محبت معلوم ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو زندگی بھر میرے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ میں ہمیشہ آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ لیکن یہ کبھی نہ کہیئے گا کہ آپ ہی نواب ہاشم ہیں۔"

"بڑی عجیب بات ہے!" عمران سرہلا کر رہ گیا! کچھ دیر خاموشی رہی پھر نواب ہاشم نے کہا۔ "بھلا آپ کس طرح ثابت کیجئے گا کہ میں ہی نواب ہاشم ہوں؟"

"ہر طرح کوشش کروں گا جناب!" عمران نے کہا۔ چند لمحے خاموش رہا پھر رازدارانہ لہجے میں بولا۔ "یہاں اس شہر میں آپ کی دوچار پرانی محبوبائیں تو ہوں گی ہی!"

"کیوں! اس سے کیا غرض؟" نواب ہاشم اسے تیز نظروں سے گھورنے لگا!

"اوہو! بس آپ دیکھتے جائیے! ذرا مجھے ان کے پتے تو بتائیے گا! سب معاملہ آن واحد میں فٹ کرلوں گا۔ جی ہاں!"

"آخر مجھے بھی تو کچھ معلوم ہو!۔۔۔"

"ٹھہرئیے! ذرا ایک سوال کا جواب دیجئے۔ کیا آپ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو نواب ہاشم ثابت کر دیا جائے؟"

"آپ میرا وقت برباد کر رہے ہیں!" دفعتا نواب ہاشم جھنجھلا گیا!

"میں یہ کہنا چاہتا ہوں نواب صاحب کہ اگر آپ کو نواب ہاشم ثابت کر دیاگیا تو پولیس بری طرح آپ کے پیچھے پڑ جائے گی۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ شاید آپ پولیس کے چکر میں پڑ ہی گئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ پولیس اس آدمی کے متعلق آپ کو ضرور پریشان کرے گی، جس کی لاش نے آپ کے نام سے شہرت پائی تھی!"

"میرے خدا! میں کیا کروں۔۔۔ کاش مجھے ان واقعات کا پہلے سے علم ہوتا۔۔۔ میں ہرگز واپس نہ آتا!"

"لیکن اب آپ کہیں جا بھی نہیں سکتے!"۔۔۔ عمران نے کہا!

"میں خود بھی یہی محسوس کرتا ہوں!" نواب ہاشم نے مضطربانہ انداز میں کہا۔

"آخر آپ اتنے پراسرار طریقے پر غائب کیوں ہو گئے تھے؟" عمران نے پوچھا!

"ختم کرو میاں، جو کچھ ہوگیا۔ دیکھ لیا جائیگا۔ میں پرانی باتیں کرید کر عوام کے لئے گفتگو کا موضوع بننا پسند نہیں کروں گا اور پھر میں تم سے ایسی باتیں کیا کروں صاحبزادے۔"

"نہ کیجئے! لیکن میں جانتا ہوں کہ عنقریب آپ کسی بڑی مصیبت کا شکار ہو جائیں گے۔" عمران اٹھتا ہوا بولا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ذرا ٹھہرئیے گا!" ۔۔۔ نواب ہاشم بھی اٹھتا ہوا بولا۔ "آپ میرے متعلق کیا لکھیں گے؟"

"یہ کہ آپ نواب ہاشم نہیں ہیں!" عمران نے رک کر کہا۔ لیکن مڑے بغیر جواب دیا!۔

"میں تمہارے اخبار پر مقدمہ چلا دوں گا!"

"ہاں یہ بھی اسی صورت میں ہوگا! جب آپ کو عدالت نواب ہاشم تسلیم کرلے!" عمران نے پرسکون لہجے میں کہا۔

"تم ایسا نہیں کرسکتے!" نواب ہاشم چیخ کر بولا!

"مجھے کوئی نہیں روک سکتا!" عمران بھی اسی انداز میں چیخا۔

"میں تمہیں گولی مار دوں گا!" نواب ہاشم کے چیخنے کا انداز بدستور باقی رہا۔

"دیکھوں تو کہاں ہے آپ کی بندوق؟" عمران پلٹ پڑا۔ "منہ پر گولی مارنے کے لئے!" عمران بھٹیارنیوں کے سے انداز میں ہاتھ ہلا کر نواب ہاشم سے لڑنے لگا! سب کچھ ہوگیا! بس ہاتھا پائی کی نوبت نہیں آئی! باہر کئی نوکر اکٹھے ہو گئے تھے! پھر ایک خوشرو اور قوی ہیکل آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ تیس سال رہی ہوگی! انداز سے کافی پھرتیلا آدمی معلوم ہوتا تھا!

"کیا بات ہے" اس نے گرجدار آواز میں پوچھا؟

"یہ۔۔۔ یہ" نواب ہاشم عمران کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ "کسی اخبار کا رپورٹر ہے۔"

"ہوگا! لیکن غل مچانے کی کیا ضرورت ہے!"

"یہ میرے خلاف اپنے اخبار میں مضمون لکھنے کی دھمکی دیتا ہے!"

"کیوں جناب! کیا معاملہ ہے؟"۔۔۔ وہ عمران کی طرف مڑا۔

"آپ شاید نواب ساجد ہیں!۔۔۔"

"جی ہاں! لیکن آپ خوامخواہ۔۔۔!"

"ذرا ٹھہریئے!" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "میں دراصل آپ سے ملنا چاہتا تھا اور درمیان میں یہ حضرت آکودے۔ کہتے ہیں کہ میں نواب ہاشم ہوں!"

"کیوں جناب!" وہ نواب ہاشم کی طرف مڑا۔ "میں نے آپ کو منع کیا تھا نا کہ فضول باتیں نہ کیجئے گا!"

"ارے او ساجد! تجھ سے خدا سمجھے، میں تیرا چچا ہوں!"

"اگر آپ میرے چچا ہیں تو میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ یہاں سے چپ چاپ چلے جائیے! ورنہ پولیس آپ کو بہت پریشان کرے گی!" پھر اس نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا۔ "کیوں جناب؟"

"قطعی قطعی!" عمران سر ہلا کر بولا۔ "بلکہ بالکل جناب!"

"اچھا جناب! آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے!"

"آہا۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ سے کتوں کے متعلق تبادلہ خیال کرنا چاہتا تھا!"

نواب ساجد عمران کو گھورنے لگا۔۔۔ وہ کتوں کا شوقین تھا اور شہر بھر میں اس سے زیادہ کتے اور کسی کے پاس نہیں تھے!۔۔۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

آپ کی صورت سے تو نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کو کتوں سے دلچسپی ہو" نواب ساجد تھوڑی دیر بعد بولا۔

"اس میں شبہ نہیں کہ ابھی میری صورت آدمیوں جیسی ہے۔۔۔ لیکن میں کتوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔۔۔!"

"کیا جانتے ہیں!"

"یہی کہ بعض اوقات کتے بلا وجہ بھی بھونکنے لگتے ہیں!۔۔۔"

"ہوں! تو آپ سی آئی ڈی کے آدمی ہیں۔" نواب ساجد عمران کو گھورنے لگا۔

"میں اے سے لے کر زیڈ تک کا آدمی ہوں۔ آپ اس کی پروا نہ کیجئے لیکن میں آپ سے کتوں کے متعلق تبادلہ خیال ضرور کروں گا!۔۔۔"

"کیجئے جناب!" نواب ساجد کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔ "آپ یہی بتا دیجئے کہ شکاری کتے کتنی قسم کے ہوتے ہیں! اس سے میں آپ کے متعلق اندازہ لگا لوں گا۔"

"کتے کی ہرقسم میں شکار کی لت پائی جاتی ہے۔"

"شکاری سے میری مراد ہے اسپورٹنگ پریڈس!"

"تو یوں کہیئے نا!۔۔۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "اچھا گنئے انگلیوں پر!۔۔۔ ہیسنچی، بورزوتی، ڈیکشنڈ، گرے ہاؤنڈ، افغان ہاؤنڈ، آئرش الف ہاؤنڈ، ہیگل، فش ایئپٹر، ہیر بیئر۔۔۔ فوکس ہاؤنڈ، اوٹر ہاؤنڈ، بلڈ ہاؤنڈ، ڈئیر ہاؤنڈ، الک ہاؤنڈ، بیسٹ ہاؤنڈ، سلوکی اور خدا آپ کو جیتا رکھے۔۔۔ وہپسٹ۔۔۔ ہاں اب کہیے تو یہ بھی بتاؤں کہ کون کس قسم کا ہوتا ہے۔۔۔ ان کی عادات و خصائل سیاسی اور سماجی رحجانات پر بھی روشنی ڈال سکتا ہوں۔۔۔!"

"نہیں بس!۔۔۔ آپ کو یقینا کتوں سے دلچسپی ہے!۔۔۔ ہاں آپ کتوں سے متعلق کس موضوع پر گفتگو کریں گے؟"

"میں دراصل کتوں کی گمشدہ نسلوں کے متعلق ریسرچ کر رہا ہوں!" عمران بولا!

"گمشدہ نسلیں۔۔۔؟"

"جی ہاں! بھلا آپ اپنے یہاں کے کتوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟"

"دیسی کتے!" نواب ساجد نے نفرت سے منہ سکوڑ کر کہا!

"جی ہاں، دیسی کتے!۔۔۔ آج بھی ان پر ولایتی کتے مسلط ہیں! یہ بڑے شرم کی بات ہے!۔۔۔ آپ ولایتی کتوں کو سینے سے لگاتے ہیں اور دیسی کتے قعر مذلت میں پڑے ہوئے ہیں۔"

"اوہو!۔۔۔ کیا آپ دیسی نسل کے کتوں کے لیڈر ہیں؟" نواب ساجد ہنسنے لگا۔

"چلئے یہی سمجھ لیجئے! ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔"

"ٹھہریئے! میں دیسی کتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔" نواب ساجد اٹھتا ہوا بولا۔ "میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی کچھ نہ کچھ مصروفیت ضرور ہوگی۔" وہ عمران اور نواب ہاشم کو کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا۔

چند لمحے خاموشی رہی! نواب ہاشم عمران کو عجیب نظروں سے گھور رہاتھا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا "آخر تم ہو کیا بلا!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"میں علی عمران! ایم۔ ایس سی۔ ڈی۔ ایس۔ سی ہوں!۔۔۔ آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی فرام سنٹرل انٹیلی جیجن بیورو۔ اب گفتگو کیجئے مجھ سے!"

"اوہ تب تو میرا بھتیجا بڑا چالاک معلوم ہوتا ہے!" نواب ہاشم ہنستا ہوا بولا۔ "ٹھہریئے! میں اسے بلاتا ہوں!۔۔۔"

"ٹھہریئے! مجھے جو کچھ معلوم کرنا تھا کرچکا!"

"یار تم اس قابل ہو کہ تمہیں مصاحب بنایا جائے!۔۔۔"

"اس سے زیادہ قابل ہوں نواب صاحب! میں دعوٰی سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ہی نواب ہاشم ہیں۔"

"پھر قلابازی کھائی"۔۔۔ نواب ہاشم نے قہقہہ لگایا۔۔۔ پھر سنجیدہ ہو کر بولا۔ "اب جاؤ! ورنہ میں پولیس کو فون کردوں گا!"

"مشورے کا شکریہ!" عمران چپ چاپ اٹھا اور باہر نکل گیا!۔۔۔ روش طے کرتے وقت اتفاقا اس کی نظر مالتی کی بے ترتیب جھاڑیوں کی طرف اٹھ گئی اور اس نے محسوس کیا کہ وہاں کوئی چھپا ہوا ہے!۔۔۔ دوسرے ہی لمحے اس نے اپنی رفتار تیز کردی! باہر نکل کر کار میں بیٹھا اور ایک طرف چل پڑا ڈیش بورڈ پر لگے ہوئے عقب نما آئینے میں ایک کار دکھائی دے رہی تھی جس کا رخ اسی کی طرف تھا!۔۔۔ اور کار حویلی ہی سے نکلی تھی۔"

عمران نے یونہی بلا وجہ اپنی کار ایک سڑک پر موڑ دی!۔۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد عقب نما آئینے کا زاویہ بدلنے پر معلوم ہوا کہ اب بھی وہی کار اس کی کار کا تعاقب کر رہی ہے۔۔۔ عمران تھوڑی دیر ادھر ادھر چکراتا رہا اور پھر اس نے کار شہر کی ایک بہت زیادہ بھری پری سڑک پر ڈال موڑ دی۔ دوسری کار اب بھی تعاقب کر رہی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ کار قریب آگئی۔ ساتھ ہی چوراہے کے سپاہی نے ٹریفک روکنے کا اشارہ کیا!۔۔۔ کاروں کی قطار رک گئی۔ تعاقب کرنے والی کار عمران کی کار کے پیچھے ہی تھی!۔۔۔ عمران نے مڑ کر دیکھا! دوسری کار میں اسٹیرنگ کےپیچھے نواب ہاشم کا بھتیجا ساجد بیٹھا ہوا تھا۔!

عمران کے کار آگے بڑھائی۔۔۔ ایک چوراہے پر اسے پھر رکنا پڑا۔ پچھلی کار بدستور موجود تھی! اس بار عمران نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا ساجد نے ہاتھ ہلا کر اسے کچھ اشارہ کیا! سگنل ملتے ہی پھر عمران کی کار چل پڑی!۔۔۔ اس بار وہ زیادہ جلدی میں نہیں معلوم ہوا تھا۔۔۔!

تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے کار فٹ پاتھ سے لگا کر کھڑی کردی! سامنے ایک ریستوران تھا۔۔۔ عمران اس کے دروازے کے قریب کھڑا ہو کر نواب ساجد کو کار سے اترتے دیکھتا رہا! وہ تیر کی طرح عمران ہی کی طرف آیا!

" آپ سنتے ہی نہیں!" اس نے مسکرا کر کہا "چیختے چیختے حلق میں خراشیں پڑ گئیں!"

"معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دیسی کتوں کی حالت زار پر سنجیدگی سے غور کیا ہے!"

"چلئے! اندر گفتگو کریں گے!"

"لیکن موضوع گفتگو صرف دیسی کتے ہوں گے"۔ عمران نے ریستوران میں داخل ہوتے ہوئے کہا!۔

وہ دونوں ایک خالی کیبن میں بیٹھ گئے! عمران نے بیرے کو بلا کر چائے کے لئے کہا۔

"میں نے چھپ کر آپ دونوں کی گفتگو سنی تھی!" ساجد بولا۔

"میں جانتا ہوں!" عمران نے خشک لہجے میں کہا!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"تو آپ واقعی سی آئی ڈی کے آدمی ہیں!"

عمران جیب سے ملاقاتی کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ "اگر وہ واقعی نواب ہاشم ہیں تو آپ کو ایک بہت بڑی جائیداد سے ہاتھ دھونے پڑیں گے!"

"کیا محض مشابہت کی بنا پر۔۔۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔" ساجد نے کہا۔

"دس برس پہلے جب نواب ہاشم کی لاش ملی تھی تو کوٹھی میں کون کون تھا؟"

"صرف مرحوم چند نوکروں کے ساتھ رہتے تھے۔"

"آپ کہاں تھے؟"

"میں اس وقت زیر تعلیم تھا اور قیام میسور کالج کے ایک ہوسٹل میں تھا۔"

"کفالت کون کرتا تھا آپ کی؟"

"چچا جان مرحوم! آہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی اور جب میں نے اس آدمی میں ان کی مشابہت پائی تو میرے دیدہ و دل فرش راہ ہو گئے۔۔۔ اگر وہ یہ کہنا چھوڑ دے کہ وہ نواب ہاشم ہے تو میں ساری زندگی اس کی کفالت کرتا رہوں گا!"

"کیا آپ بتا سکیں گے کہ نواب ہاشم کا قتل کیوں ہوا تھا؟"

"میں اسے قتل تسلیم کرنے کے لئے آج بھی تیار نہیں!" ساجد کچھ سوچتا ہوا بولا "دو سو فیصدی خود کشی تھی۔"

"آخر کیوں؟"

"حالات۔۔۔ مسٹر عمران۔۔۔ بندوق قریب ہی پائی گئی تھی اور چہرے پر باردو کی کھرنڈ ملی تھی! قتل کا معاملہ ہوتا تو باتیں نہ ہوتیں۔ قاتل ذرا فاصلے سے بھی نشانہ لے سکتا تھا! میرا خیال ہے کہ انہوں نے بندوق کا دہانہ چہرے کے قریب رکھ کر پیر کے انگوٹھے سے ٹریگر دبا دیا ہوگا۔"

"بہت بہت شکریہ!" عمران سنجیدگی سے بولا۔ "آپ نے معاملہ بالکل صاف کردیا!۔۔۔ لیکن اب خودکشی کے اسباب تلاش کرنے پڑیں گے؟" اتنے میں چائے آگئی اور عمران کو خاموش ہونا پڑا۔۔۔ جب ویٹر چلا گیا تو اس نے کہا۔

"کیا آپ خود کشی کے اسباب پر روشنی ڈال سکیں گے!"

"اوہ۔۔۔ وہ شاید کچھ عشق و عاشقی کا سلسلہ تھا!" نواب ساجد جھینپے ہوئے انداز سے بولا۔

"خوب" عمران کچھ سوچنے لگا! پھر کچھ دیر بعد بولا۔ "کیا ان کی محبوبہ کا پتہ مل سکے گا!"

"مجھے علم نہیں"

"جس رات یہ حادثہ ہوا تھا۔ آپ کہاں تھے؟"

"ہوسٹل میں!"

"اچھا! اب اگر یہ ثابت ہوگیا کہ نواب ہاشم یہی صاحب ہیں تو آپ کیا کریں گے۔۔۔؟"

"میں پاگل ہو جاؤں گا!" نواب ساجد جھلا کر بولا۔

"بہت مناسب ہے!" عمران نے سنجیدگی سے گردن ہلائی۔ "وہ اس وقت پرلے سرے کا احمق معلوم ہو رہا تھا۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

جی!" ساجد اور زیادہ جھلا گیا!

"میں نے عرض کیا کہ اب آپ پاگل ہو کر پاگل خانے تشریف لے جائیے اور دس سال بعد پھر واپس آئیے۔ اس وقت تک نواب ہاشم کا انتقال ہو چکا ہوگا!"

"آپ میرا مضحکہ اڑا رہے ہیں!" نواب ساجد بھنا کر کھڑا ہو گیا۔

"جی نہیں! بلکہ آپ دونوں چچا بھتیجے قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں!"

"پھر آپ نے چچا کا حوالہ دیا۔"

"بیٹھئے جناب!" عمران نے آہستہ سے کہا "اب یہ بتائیے۔۔۔ کہ اصل واقعہ کیا ہے؟"

"میں آپ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتا!"

"اچھا خیر! جانے دیجئے! اب ہم کتوں کے متعلق گفتگو کریں گے!"

ساجدبیٹھ گیا لیکن اس کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہے۔

"میں اس کتے ریگی کے متعلق پوچھنا چاہوں گا!"

"یہ اسی شخص کا ہے!" نواب ساجد نے کہا۔

"بھلا کس نسل کا ہوگا؟"

"دوغلا ہیگل ہے!۔۔۔"انتہائی کاہل اور کام چور کتا ہے! اگر یہ اصیل ہوتا تو کیا کہنا تھا! واہ واہ!"

"کیا پہلے بھی کبھی نواب ہاشم نے کتے پالے تھے؟"

"نہیں انہیں کتوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے!"

"آپ اسے حویلی سے نکال کیوں نہیں دیتے؟" ساجد کچھ نہ بولا۔ عمران اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا! کچھ دیر بعد اس نے کہا!"آپ جانتے ہیں! وہ کیا کر رہا ہے؟"

"میں کچھ نہیں جانتا! لیکن وہ مجھے بڑا پراسرار آدمی معلوم ہوتا ہے۔"

"وہ یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے میرے محکمے کے سپرنٹنڈنٹ سے ملا تھا اور اس نے اسے اپنے کاغذات دکھائے تھے!"

"کیسے کاغذات؟"

"دو سال تک وہ اتحادیوں کے ساتھ نازیوں سے لڑتا رہا تھا! وہ یعنی نواب ہاشم ولد نواب قاسم عہدہ میجر کا تھا!۔۔۔ بھلا ان کاغذات کو کون جھٹلا سکتا ہے!۔۔۔ آج وہ بین الاقوامی حیثیت رکھتے ہیں۔"

"میرے خدا۔۔۔" ساجد حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا! چند لمحے خاموش رہا۔ پھر ہذیانی انداز میں جلدی جلدی بولنے لگا! "ناممکن۔۔۔ غلط ہے۔۔۔ بکواس ہے۔۔۔ وہ کوئی فراڈ ہے۔۔۔ میں اسے آج ہی دھکے دلوا کر حویلی سے نکلوا دوں گا!"

"مگر اس سے کیا ہوگا؟۔۔۔ اس کا دعوٰی بدستور باقی رہے گا؟"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"پھر بتایئے میں کیا کروں؟" ساجد بے بسی سے بولا۔ "میں نے اسے حویلی میں ٹھہرنے کی اجازت دے کر سخت غلطی کی۔"

"اگر یہ غلطی نہ کرتے تو اس سے کیا فرق پڑتا؟"

"پھر میں کیا کروں؟"

"پتہ لگائیے کہ نواب ہاشم کا قتل کن حالات میں ہوا تھا۔"

"میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ وہ کسی عورت کا چکر تھا!۔۔۔"

"کون تھی۔۔۔ کہاں تھی۔۔۔؟"

"میں تفصیل نہیں جانتا۔ چچا جان نے شادی نہیں کی تھی۔۔۔ البتہ ان کی شناسا بہتیری عورتیں تھیں! اس زمانے میں کسی عورت کا بڑا شہرہ تھا، جو عالمگیری سرائے میں کہیں رہتی تھی! چچا جان اس سلسلے میں کسی کے ساتھ جھگڑا بھی کر بیٹھے تھے!۔۔۔ بہرحال یہ اڑتی اڑتی خبر تھی! میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حقیقت ہی تھی۔۔۔"

"عالمگیری سرائے!" عمران کچھ سوچتا ہوا بڑبڑایا "لیکن محض اتنی سی بات پر تو کوئی سراغ نہیں مل سکتا!"

"دیکھئے ایک بات اور ہے!" ساجد نے کہا!۔۔۔ "مگر آپ میرا مضحکہ اڑائیں گے۔"

"کیا یہ کوئی پردار چیز ہے؟" عمران نے پوچھا۔

"کیا چیز؟" ساجد اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔

"یہی مضحکہ!"

"نہیں تو۔۔۔" ساجد کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل گیا!

"بھلا پھر کیسے اڑے گا؟" عمران سر جھکا کر تشویش آمیز انداز میں بڑبڑایا! پھر سر اٹھا کر آہستہ سے بولا!۔

"آپ جو کہنا چاہتے ہیں بے تکلف ہو کر کہیئے۔ ہم لوگوں کو مضحکہ اڑانے کی تنخواہ نہیں ملتی۔"

"دیکھئے! بات ذرا بے تکی سی ہے! اس لئے۔۔۔ لیکن سوچتا ہوں کہ کہیں وہ حقیقت ہی نہ ہو!"

"اگر حقیقت نہ ہو۔ تب بھی سننے کے لئے تیار ہوں!" عمران اکتا کر بولا!

"میں عالمگیری سرائے کی ایک ایسی لڑکی کو جانتا ہوں، جو چچا مرحوم سے کافی مشابہت رکھتی ہے!"

"بھلا یہ کیا بات ہوئی!"

"ہوسکتا ہے کہ وہ چچا جان کی کوئی ناجائز اولاد ہو!"

"کیا عمر ہوگی۔۔۔!"

"بیس سے زیادہ نہیں۔"

"تو وہ اس زمانے میں دس سال کی رہی ہوگی! مگر کسی ایسی عورت کے لئے جو دس سال کی لڑکی بھی رکھتی ہو قتل وغیرہ نہیں ہوسکتے۔۔۔ کیا خیال ہے آپ کا؟"
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”