جڑوں کی تلاش

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"بہت بہت شکریہ جناب!" دفعتاً سر سوکھے نے انگلی اٹھا کر اسے خاموش رہنے کاا شارہ کیا اور اس کے چہرے پر ایسے آثار نظر آئے جیسے کسی کی آہٹ سن رہا ہو! جولیا بھی ساکت ہوگئی اس نے بھی کسی قسم کی آواز سنی تھی!

اچانک سرسوکھے خوف زدہ انداز میں دہاڑا۔ "کون ہے؟"

کسی کمرے میں کوئی وزنی چیز گری اور بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز آئی ایسا لگا جیسے کوئی دوڑتا ہوا زینے طے کر رہا ہو۔۔!

سرسوکھنے جیب سے پستول نکال لیا! لیکن جولیا اس کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ رہی تھی!

"ٹھہریئے"۔ جولیا اٹھتی ہوئی بولی۔ "میں دیکھتی ہوں"۔

"اوہ۔۔ نہیں! پتہ نہیں کون تھا؟ بہرحال آپ نے دیکھ لیا تھا!" اس نے کہااور دروازے کی طرف بڑھا۔ جولیا بھی اس کے پیچھے بڑھی! انہوں نے سارے کمرے دیکھ ڈالے۔ برابر والے کمرے میں دیوار کے قریب ایک چھوٹی سی میز گری ہوئی نظر آئی!

"یہ دیکھیئے۔۔" سرسوکھے نے کہا۔ "کوئی اس میز پر کھڑا ہو کر روشندان سے ہماری گفتگو سن رہا تھا!"

جولیا نے میز کی سطح پر ربر سول جوتے کے نشانات دیکھے۔

"آپ اس میز کو کسی کمرے میں مقفل کرادیجیئے! یہ نشانات عمران کے لئے کارآمد ہوسکتے ہیں"، جولیا نہ کہا۔

"گڈ۔۔!" وہ خوش ہو کر بولا! "اب دیکھیئے یہ آپ کی ذہانت ہی تو ہے! مجھے اس کا خیال نہیں آیا تھا۔ اوہ مس جولیانامجھے یقین ہے کہ اب میری پریشانیوں کا دور ختم ہوجائے گا۔ مجھے یقین ہے"۔

"آپ بالکل فکر نہ کریں۔۔" جولیا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ "آپ کے پاس بلڈ ہاؤنڈز بھی ہیں"!

"نہیں۔۔ کیوں۔۔!" "اگر کوئی ہوتا تو اسے اس آدمی کی راہ پر بہ آسانی لگایا جاسکتا تھا جو اس وقت ہماری گفتگو سن رہا تھا!"

سرسوکھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں! "اوہ۔۔ مس جولیانا! آپ کی ذہانت کی کہاں تک تعریف کی جائے آپ تو بہت گریٹ ہیں! عمران صاحب کی صحبت نے آپ کو بھی اچھا خاصہ جاسوس بنادیا ہے۔ کاش آپ ہمارے ساتھ ہوتیں! میں چین کی نیند لے سکتا! ساری تشویش ختم ہوجاتی۔۔!" سرسوکھے نے خاموش ہو کر ٹھنڈی سانس لی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

﴿﴾ ﴿﴾ ﴿﴾

اندھیری رات تھی۔ سڑک پر ویرانیاں رقص کر رہی تھیں! اور ان کا رقص دراصل جوزف کے وزنی جوتوں کی تال پر ہو رہا تھا! وہ اونٹ کی طرح سر اٹھائے چلا جا رہا تھا۔ گو اس وقت وہ فوجی لباس میں نہیں تھا! اور اس کے دونوں ریوالور بھی ہولسٹروں کی بجائے جیب میں تھے۔

اس سڑک پر الیکٹرک پول اتنے فاصلے پر تھے کہ دو روشنیوں کے درمیان میں ایک جگہ ایسی ضرورملتی تھی جہاں اندھیرا ہی رہتا تھا۔ درمیان میں دو پول چھوڑ کر بلب لگائے گئے تھے۔ یہ شہر سے باہر کا حصہ تھا۔ اگر ان اطراف میں دو چار فیکٹریاں نہ ہوتیں تو یہ سڑک بالکل ہی تاریک ہوتی۔

جوزف اس وقت کتھئی سوٹ اور سفید قمیض میں تھا! ٹائی تو وہ کبھی استعمال ہی نہیں کرتا تھا! آج کل وہ بالکل ہی دیو معلوم ہوتا تھا! عمران کی ڈنڈبیٹھکوں نے اس کا جسم اور زیادہ نمایاں کردیا تھا!

وہ یکساں رفتار سے چلتا رہا اور اس کے وزنی جوتوں کی آوازیں دور دور تک گونجتی رہیں۔ فیکٹریوں کے قریب پہنچ کر وہ بائیں جانب مڑ گیا!۔۔ یہ فیکٹریوں کی مخالف سمت تھی! ادھر دور تک ویرانہ ہی تھا۔ ناہموار اور جھاڑیوں سے ذھکی ہوئی زمین میلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔

اچانک جوزف رک گیا! وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ رہا تھا۔۔ تقریباً سو گز کے فاصلے پر مشرق کی طرف اسے کوئی ننھی سی چمکدار چیز دکھائی دی اور وہ دوسرے ہی لمحے زمین پر تھا! اب وہ گھنٹوں اور ہتھیلیوں کے بل بالکل اسی طرح آہستہ آہستہ چل رہا تھا جیسے کوئی تیندوا شکار کی گھات میں ہو!

رخ اسی جانب تھا جہاں وہ ننھی سی چمکدار چیز نظر آئی تھی۔

"جوزف۔۔!" اس نے ہلکی سی سرگوشی سنی!۔۔ اور وہ کسی وفادار کتے کی طرح اچھل کر ادھر ہی پہنچ گیا!

"شش۔۔"!

جوزف جھاڑیوں میں دبک گیا پھر کوئی اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

" چند منٹ یہیں رکو"۔

جوزف جس پوزیشن میں تھا اسی میں رہ گیا! یہ اس کی عجیب وغریب عادت تھی۔ جب بھی اسے مخاطب کیا جاتا تو ہو اسی طرح ساکت ہوجاتاکہ اٹھا ہوا ہاتھ اٹھا ہی رہ جاتا! جماہی آ رہی ہوتی تو منہ پھیلا کر ہی رہ جاتا اور تاوقتیکہ کوئی نہ کہہ دی جاتی پھیلا ہی رہتا۔۔!

تھوڑی دیر بعد کہا گیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"جوزف کیا تم اس وقت بہت خوش ہو"؟

"ہاں۔ باس بہت زیادہ۔۔ کیونکہ میں آج ایک نئی چیز دریافت کی ہے"۔

"اچھا۔۔!"

"ہاں باس! اگراسپرٹ اور پانی میں تھوڑا سا جنجر ایسنس بھی ملا لیا جائے تو بس۔۔ مزہ ہی آجاتا ہے"۔

"تم نے پھر اسپرٹ شروع کردی ہے؟"


"ہاں۔۔ باس۔۔"۔ "ایک ہزار ڈنڈ۔۔!"

"نن۔۔ نہیں۔۔ باس!" جوزف بوکھلا کر بولا! "نشہ اتر جائے گا! کھوپڑی بالکل خالی ہوجائے گی! اور میں کیچوا بن کر رہ جاؤں گا۔۔!"

"چلو اٹھو!۔۔

" عمران نے اسےٹھوکا دیا۔

"ہم کہاں چلیں گے باس۔۔؟"

"کالا گھاٹ۔۔ تم نے دیکھا نا؟"

"ہاں۔۔ باس۔۔"۔

"وہاں ایک شراب خانہ ہے!" "میں جانتا ہوں باس!"۔۔ جوزف خوش ہو کر بولا! "وہاں تاڑی بھی ملتی ہے"۔

"ہوم۔۔! اس شراب خانہ کے پاس ندی کی سمت جو ڈھلان شروع ہوتی ہے!تمہیں وہاں رکنا ہوگا!"

"ڈھلان پر رک کر کیا کروں گا باس! کہ آپ شراب خانہ میں جائیں اور میں ڈھلان پر کھڑا رہوں"۔

"چلتے رہو۔۔!"

وہ اندھیرے ہی میں ناہموار راستے طےکرتے رہے! کبھی کبھی محدود روشنی والی چھوٹی سی ٹارچ روشن کرلی جاتی! جوزف کچھ بڑبڑا رہا تھا!

"خاموشی سے چلتے رہو"۔ کہا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ ایک ڈھلوان راستے پر چل رہے تھے جہاں سے ندی کے کنارے والے چراغوں کے سلسلے صاف نظر آنے لگے تھے!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ایک بار پھر سنو جوزف!" اس سے کہا گیا۔

"تم شراب خانے کی پشت پر ندی والی ڈھلان پر ٹھہرو گے"۔

"اچھا باس!" جوزف نے بےحد اداس لہجے میں کہا۔

"مگر تم وہاں کیوں ٹھہرو گے؟"

"جماہیاں لینے اور آنسو بہانے کے لئے!" جوزف کی آواز دردناک تھی! عمران ہنس پڑا۔

"مگر باس ! تم اپنے محل میں کیوں نہیں آتے۔۔؟" جوزف نے کہا!

"یہ ایک درد بھری کہانی ہے۔۔ جوزف!" عمران غمناک لہجے میں بولا۔ " میری آخری بیوی کے رشتے دار مجھے قتل کردینا چاہتے ہیں۔۔!"


"اف۔فوہ! "جوزف چلتے چلتے رک گیا۔ اسے وہ پھرتیلا بوڑھا یاد آگیا تھا جس نے دو تین دن پہلے رانا پیلس میں اپنی چلت پھرت کا مظاہرہ کیا تھا! بلیک زیرو کو علم ہی نہیں تھا کہ عمران کہاں ہوگا اس لئے یہ کہانی عمران تک نہیں پہنچ سکی تھی! اتفاق سے آج صبح جوزف ہوا خوری کو نکلا تھا۔ راستے میں ایک لڑکے نے اسے ایک خط دیا جو عمران کی طرف سے ٹائپ کیا گیا تھا اور جس میں جوزف کے لئے ہدایت تھی کہ وہ رات کو فلاں وقت فلاں مقام پر پہنچ جائے۔ جوزف اس معاملہ میں اتنا محتاط ثابت ہوگا کہ اس نے اس کا تذکرہ بلیک زیرو (طاہر صاحب) سے بھی نہیں کیاتھا۔ حالانکہ وہ خود بھی دھوکا کھا سکتا تھا۔ کیونکہ وہ خط ٹائپ کیا ہوا تھا اور اس کے نیچے بھی عمران کے دستخط نہیں تھے بلکہ نام ہی ٹائپ کردیا گیا تھا! لیکن اس نے کسی وفادار کتے کی طرح اس میں عمران کی بو محسوس کی تھی اور نتیجے کے طور پر وہ اس وقت یہاں موجود تھا!

"کیوں رک گئے؟" عمران نے ٹوکا۔

اس پر اس نے جڑی بوٹیاں فروخت کرنے والے بوڑھے کی داستان دہرائی اور بتایا کہ کس طرح اس نے اس کی جیب سے پستول نکال لیا تھا۔ عمران سوچ میں پڑ گیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس پر عمران ہونے کی بنا پر حملے ہو رہے تھے یا اس لئے کوئی اس کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ رانا تہور علی صندوقی کا راز معلوم کرسکے۔ یا پھر حملہ آواروں کی نظروں میں بھی تہور علی اور عمران ایک ہی شخصیت کے دو مختلف روپ تھے۔۔!

"بس اسی سے اندازہ کرلو۔ جوزف۔۔ کہ آج کل میں کتنی الجھنوں میں گھرا ہوا ہوں۔۔!"

"مجھے ان کا پتہ بتاؤ باس! ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گا"۔ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا!

"چلتے رہو۔۔!" عمران بولا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دے گا ورنہ اس کا امکان بھی ہے کہ اسی سلسلے میں ڈھمپ اینڈ کو کا راز ہی فاش ہوجائے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ہاں تو باس! مجھے ڈھلان پر کیا کرنا ہوگا؟"

"اگر میری عدم موجودگی وہاں کوئی سبز رنگ کا موٹر بوٹ آئے تو تم فوراً ہی ایک ہوائی فائر کردینا"۔

"بس صرف ہوائی فائر کردوں گا!" جوزف نے پھر مایوسانہ انداز میں پوچھا۔

"تم پر خون کیوں سوار رہتا ہے جوزف؟"

"نہیں تو باس!۔۔ وہ دراصل میں سوچتا ہوں کہ مجھے پھانسی کیوں نہ ہوجائے میں نے سنا ہے کہ اب اسپرٹ میں لائسنس کے بغیر نہیں ملا کرے گی۔ مجھے کون لائسنس دے گا! اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں کسی کو قتل کرکے جیل چلا جاؤں!"

"اور اگر میں ہی تمہیں قتل کردوں تو۔۔!"

"نہیں! اس کی بجائے میری بوتلوں میں اضافہ کردو۔ باس!" جوزف گھگھیا۔

"اب روزانہ پانچ ہزار ڈنڈ۔۔!"

"مم۔۔ مرا۔۔ نہیں۔۔ نہیں باس میرے پھیپھڑے پھٹ جائیں گے"۔

"خاموش رہو۔ ہم شراب خانے کے قریب ہیں! تم یہیں سے اسی پگڈنڈی پر مڑ جاؤ! آگے چل کر یہ دو مختلف سمتوں میں تقسیم ہوگئی ہے مگر تم بائیں جانب مڑ جانا۔ پگڈنڈی نہ چھوٹنے پائے۔ اس طرح تم تھیک اسی جگہ پہنچو گے جہاں ٹھہر کر تمہیں میرا انتظار کرنا ہے"۔

"اچھا باس!"جوزف کسی بہت ہی ستم رسیدہ آدمی کی طرح ٹھنڈی سانس لے کر پگڈنڈی پر مڑ گیا۔۔!

عمران جو اب روشنی میں آچکا تھا یعنی طور پر جوزف کے لئے ایک مسئلہ بن کر رہ جاتا!۔۔ اسی لئے اور بھی اس نے اسے اندھیرے ہیں میں رخصت کردیا تھا! وہ دراصل ایک بوڑھے بھکاری کے روپ میں تھا اور اس کے جسم پر چیتھڑے جھول رہے تھے!

جوزف چلتا رہا! اس مقام کو پہچاننے میں بھی اسے کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔ جہاں پگڈنڈی دو شاخوں میں بٹ کر مخالف سمتوں میں مڑ گئی تھی! وہ عمران کی بتائی ہوئی سمت پر چلنے لگا!۔۔

ہوٹل کی پشت پر پہنچ کر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں! گہرا اندھیرا فضا پر مسلط تھا! کہیں کہیں روشنی کے نقطے سے نظر آرہے تھے!

جوزف لاکھ ڈفر سہی لیکن خطرات کے معاملہ میں وہ جانوروں کی سی حس رکھتا تھا! اس نے سوچا کہ فائر کرنے کے بعد وہ کیا کرے گا! اگر کچھ لوگ آگئے اور وہ پکڑ لیا گیا تو۔۔! کیا باس اسے پسند کرے گا!۔۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اب وہ کوئی ایسا درخت تلاش کرنے لگا جسے فائر کرنے کے بعد اپنے بچاؤ کے لئے استعمال کرسکے! اچانک ایک موٹر بوٹ گھاٹ سے آلگی۔۔

جوزف نے تیزی سے جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن پھر آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا! بھلا اندھیرے میں موٹر بوٹ کا رنگ کیسے نظر آتا! ہیڈ لیمپ کی روشنی بھی اسے نہ ظاہر کرسکتی تھی!۔۔

"او۔۔ باس!" جوزف دانت پیس کر بڑبڑایا۔

"تم نشے میں تھے یا مجھے ہی ہوش نہیں تھا! سبز رنگ۔۔ ہائے سبز رنگ۔۔ زرد نکلے تو کیا ہوگا۔۔ نیلا۔۔ اودا۔۔ کتھئی۔۔ زعفرانی۔۔ اب میں کیا کروں۔۔؟ او باس!۔۔ وہ کھڑا دانت پیستا رہا پھر اپنے سر پر مکے مارنے لگا!

بہرحال اب اس کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ عمران کو تلاش کرکے پوچھتا کہ اندھیرے میں موٹر بوٹ کا رنگ کیسے دیکھا جائے؟

وہ شراب خانے کے صدر دروازے کی طرف چل پڑا۔ اسے یقین تھا کہ عمران شراب خانے ہی میں ملے گا!۔۔ شاید اس نے کہا بھی تھا!۔۔

شراب خانہ پوری طرح آباد ملا! اس کی چھت زیادہ اونچی نہیں تھی! دیواریں اور چھت سفید آئل پینٹ سے رنگی گئی تھیں! بس ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی بہت بڑے بحری جہاز کا شراب خانہ ہو! لیکن یہاں اتنی صفائی اور خوش سلیقگی کو دخل نہیں تھا۔ لوگ میلی کچیلی میزوں پر بیٹھے تاڑی یا دیسی شراب پی رہے تھے! ویسے بھی یہاں قیمتی شرابیں شاذونادر ہی ملتی تھیں! یہاں پہنچ کر جوزف کی پیاس بری طرح جاگ اٹھی۔ وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور چندھیائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتا رہا! لیکن یہاں کہیں اسے عمران نہ دکھائی دیا!

وہ جو ابھی زیادہ نشے میں نہیں تھے اسے گھورنے لگے تھے!

دفعتاً ایک بوڑھا آدمی جھومتا ہوا اپنی میز سے اٹھا اور جوزف کی طرف بڑھنے لگا! اس کے ہاتھ میں گلاس تھا! اس کی ہیت کذائی پر جوزف کو ہنسی آگئی۔ یہ ایک پست دبلا پتلا آدمی تھا! چہرے پر اگر ڈاڑھی نہ ہوتی تو بالکل گلہری معلوم ہوتا! آنکھیں دھندلی تھیں۔

جوزف کے قریب پہنچ کر وہ رک گیا اور اس طرح سر اٹھا کر اس کی شکل دیکھنے لگا جیسے کسی منارہ کی چوٹی کا جائزہ لے رہا ہو!۔۔

"کیا ہے۔۔؟" جوزف کھسیانے انداز میں ہنس کر پوچھا۔

"مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہارے کانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مجھے۔۔لاؤڈ اسپیکر نہ استعمال کرنا پڑے!"

"ہام!" جوزف اسے پکڑنے کے لئے جھکا اور وہ اچھل کر پیچھے ہٹ گیا!

"خفا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بہت غم زدہ آدمی ہوں"۔ بوڑھے نے رونی آواز میں کہا۔ وہ انگریزی ہی میں گفتگو کر رہا تھا!

"کیا ہوا ہے تمہیں"۔ جوزف غرایا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ادھر چلو۔ میں تمہیں پلاؤں گا! تمہیں اپنی دکھ بھری داستان سناؤں گا! مجھے یقین ہے کہ تم میری مدد کرو گے! بہت زیادہ لمبے آدمی عموماً مجھ پر رحم کرتے ہیں"۔

"میں نہیں پیوں گا۔۔!" جوزف نے احمقانہ انداز میں کہا اور پھر چاروں طرف دیکھنے لگا۔

"کیا تمہیں کسی کی تلاش ہے"۔ بوڑھے نے پوچھا۔

"نہیں۔!"

"تو پھر آؤ۔ نا۔۔ غم غلط کریں۔ تم مجھے کوئی بہت شریف آدمی معلوم ہوتے ہو"۔

"ہاں۔!" جوزف نے سر ہلا کر پلکیں جھپکائیں۔

"آؤ۔۔ دوست آؤ۔ تمہار دل بہت نورانی ہے!" جوزف سچ مچ خوش ہوگیا! اپنی صفائے دل کے متعلق کسی سےکچھ سن کر وہ نہال ہوجاتا تھا۔ ایسے مواقع پر اسے فادر جوشوا یاد آجتے جنہوں نے اسے عیسائی بنایا تھا اور جو اکثر کہا کرتے تھے کہ "تم سفید فاموں سے افضل ہو کیونکہ تم کالوں کے دل بڑے نورانی ہوتے ہیں"۔

بوڑھا اسے اپنی میز پر لے آیا۔

"اوہ۔۔ شکریہ! میں گھر سے باہر کبھی کچھ نہیں پیتا!" جوزف نے کہا۔

"یہ بہت بری عادت ہے دوست! گھر پر پینے سے کیا فائدہ۔ کیا دیواروں سے دل بہلاتے ہو!" "عادت ہے۔۔! جوزف نے خواہ مخواہ دانت نکال دیئے۔

"نہیں میری خاطر! پیو! میں بہت غم زدہ آدمی ہوں۔۔ میری بات نہ ٹالو! ورنہ میرے غموں میں ایک کا اور اضافہ ہوجائے گا!"

"تمہیں کیا غم ہے؟"

"ایک دو۔ نہیں۔۔ ہزاروں میں!۔۔ بس تم پیو پیارے۔۔ یہی میرے غم کا علاج ہے۔ تم بہت نیک آدمی ہو ضرور پیو گے مجھے یقین ہے۔۔!"

"کیا میرے پینے سے تمہارے غم دور ہوجائیں گے!" جوزف نے بڑی معصومیت سے پوچھا!

"قطعی دور ہوجائیں گے۔۔!" "اچھا تو پھر میں پیوں گا! خدا تمہاری مشکل آسان کرے!" جوزف نے انگلیوں سے کراس بنایا۔

"کیا پیو گے؟"

"تاڑی۔۔ سالہاسال ٍذرے کہ میں تاڑی نہیں پی۔۔!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"مذاق مت کرو پیارے۔!" بوڑھے نے کہا۔ "میں مذاق نہیں کر رہا"۔ جوزف کو غصہ آگیا!

"اچھا۔۔ اچھا۔۔ تاڑی ہی سہی"۔ بوڑھے نے کہا اور اٹھ کر کاؤنٹر کی طرف چلا گیا۔ واپسی پر اس کے ہاتھوں میں تاڑی کی بوتل اور گلاس تھے۔ جوزف نے حلق تر کرنا شروع کیا! جب کھوپڑی کچھ گرم ہوئی تو میز پر گھونسہ مار کر بولا۔

"بتاؤ کس کی وجہ سے تمہیں اتنے دکھ پہنچے ہیں؟"

"ابھی بتاؤں گا۔۔ سن سے پہلے آج کا غم دہراؤں گا!" تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر بوڑھے نے کہا۔


"ہزارو روپے کی شراب برباد ہوجائے گی۔ اگر میں نے دو گھنٹے کے اندر ہی اندر کوئی قدم نہ اٹھایا!"

"شراب برباد ہوجائے گی!"

جوزف نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔

"ہاں! پانچ بیرل۔ یہاں سے تقریبا ایک میل کے فاصلے پر جنگل میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ہی انہیں وہاں چھپایا تھا۔ اب اطلاع ملی ہے کہ پولیس کو شبہ ہوگیا ہے! اس لئے وہ عنقریب وہاں گھیرا ڈالنے والی ہے۔ کاش میرے بازؤوں میں اتنی قوت ہوتی کہ میں ان بیرلوں کو قریب ہی کے ایک کھڈ میں لڑھکا سکتا!"

"یہ کون سی بڑی بات ہے"۔ جوزف اکڑ کر بولا۔ "میں چل کر لڑھکا دوں گا!"

"اوہ۔۔ اگر تم ایسا کرسکو تو ایک بیرل تمہارا انعام۔۔!"

"لاؤ۔۔ ہاتھ"۔ جوزف میز پر ہاتھ مار کر بولا! "بات پکی ہوگئی! میں لڑھکاؤں گا اور تم اس کے عوض مجھے ایک بیرل دو گے!" پھر تاڑی کی مزید دو بوتلیں ختم ہونے تک بات بالکل ہی پکی ہوگئی اور جوزف لڑکھڑاتا ہوا اٹھا۔۔ بوڑھا آدمی کسی ننھے سے بچے کی طرح اس کی انگلی پکڑے چل رہا تھا!۔۔ یہ جوڑا دیکھ کر لوگ بےتحاشہ ہنسے تھے۔۔ اور جوزف تو اب اسے قطعی فراموش کرچکا تھا کہ یہاں کیوں آیا تھا!۔۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

﴿﴾ ﴿﴾ ﴿﴾

(۲)

ایکس ٹو نے اپنے ماتحتوں کو باقاعدہ طور پر ہدایت کردی تھی کہ وہ عمران کے متعلق کسی چکر میں نہ پڑیں۔ نہ تو اس کے فلیٹ کے فون نمبر رنگ کئے جائیں اور نہ کوئی ادھر جائے! جولیا کو اس قسم کی ہدایت دیتے وقت اس کا لہجہ بےحد سخت تھا!

جولیا اس پر بری طرح جھلا گئی تھی! لیکن کرتی بھی کیا! ایکس ٹو بہرحال اپنے ماتحتوں کے اعصاب پر سوار تھا! وہ اس سے اسی طرح خائف رہتے تھے جیسے ضعیف الاعتقاد لوگ ارواح کے نام پر لرزہ براندام ہوجاتے ہیں!

مگر جولیا الجھن میں مبتلا تھی۔ آج کل ایک ناقابل فہم سی خلش ہر وقت ذہن میں موجود رہتی اور اس کا دل چاہتا کہ وہ شہر کی گلیوں میں بھٹکتی پھرے! چھتوں اور دیواروں کے درمیان گھٹن سی محسوس ہوتی تھی!

آج صبح اس نے فون پر بڑے جھلائے ہوئے انداز میں ایکس ٹو سے گفتگو کی تھی۔ اسے بتایا تھا کہ سرسوکھے کی بھاگ دوڑ کا اصل مقصد کیا ہے! پھروہ اس کے لئے عمران کو تلاش کرے یا نہ کرے!۔۔

"بس اسی حد تک جولیا ناکہ وہ مطمئن ہوجائے!" ایکس ٹو نے جواب دیا تھا! " اسے یہ شبہ نہ ہونا چاہیئے کہ تم اسے ٹال رہی ہو! بلکہ عمران کی گمشدگی پر پریشانی بھی ظاہر کرو!"

جولیا برا سا منہ بنا کر رہ گئی تھی! سرسوکھے کی فرمائش کے مطابق آج اسے عمران کی تلاش میں اس کا ساتھ دینا تھا! سب سے پہلے وہ عمران کے فلیٹ میں پہنچے لیکن سلیمان سے یہی معلوم ہوا کہ عمران پچھلے پندرہ دنوں سے غائب ہے! پھر جولیا نے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران وہاں کا مستقل ممبر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں اس کےمتعلق کچھ معلومات حاصل ہوسکیں۔

وہ ٹپ ٹاپ کلب پہنچے۔ یہاں بھی کوئی امید افزا صورت نہ نکل سکی! آخر سرسوکھے نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔ "اب کہاں جائیں۔ میں واقعی بڑا بدنصیب ہوں مس جولیانا۔ آيئے کچھ دیر یہیں بیٹھیں!"

جولیا کو اس پہاڑ نما آدمی سے بڑی الجھن ہوتی تھی! اس کے ساتھ کہیں نکلتے ہوئے اس کے ذہن میں صرف یہی ایک خیال ہوتا تھا کہ وہ بڑی مضحکہ خیز لگ رہی ہوگی۔ آس پاس کے سارے لوگ انہیں گھور رہے ہوں گے!

مگر اس کمبخت ایکس ٹو کو کیا کہیئے جس کا حکم موت کی طرح اٹل تھا!

وہ سرسوکھے کے ساتھ بیٹھی اور بور ہوتی رہی! لیکن پھر اس نے ریکرئیشن ہال میں چلنے کی تجویز پیش کی!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

مقصد یہ تھا کہ وہاں کوئی نہ کوئی اس سے رقص کی درخواست ضرور کرے گا اور سرسوکھے سے پیچھا چھوٹ جائے گا! سرسوکھے اس تجویز پر خوش ہوا تھا!

وہ ریکریشن ہال میں آئے۔ یہاں ابھی آرکسٹرا جاز بجا رہا تھا! اور چند باوردی منتظمین چوبی فرش پر پاؤڈر چھڑکتے پھر رہے تھے۔ وہ گیلری میں جا بیٹھے! تھوڑی دیر بعد رقص کے لئے موسیقی شروع ہوئی!

"کیا میں آپ سے رقص کی درخواست کرسکتا ہوں!" سرسوکھے نے ہچکچاتے ہوئے کہا!

"آپ!" جولیا نے متحیرانہ لہجے میں سوال کیا! اس کا سر چکرا گیا تھا!

"اوہ"۔ دفعتاً سرسوکھے بےحد مغوم نظر آنے لگا! کرسی کی پشت سے ٹکتے ہوئے اس نے چھت پر نظریں جما دیں! جولیا کو اپنے رویے پر افسوس ہونے لگا کیونکہ سرسوکھے کی آنکھیوں میں آنسو تیر رہے تھے! جولیا نے محسوس کیا کہ اس کا وہ "آپ" گویا ایک تھپڑ تھا جو سرسوکھے کے دل پر پڑا تھا! کیونکہ "آپ" کہتے وقت جولیا کےلہجے میں تحیر سے زیادہ تضحیک تھی!

"اوہو۔۔ تو پھر۔۔ آپ اٹھیئے نا!" جولیا نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ ہنسنے لگا۔ بےتکی سی ہنسی! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے خود اسے بھی احساس ہو کہ وہ یوں ہی احمقانہ انداز میں ہنس پڑا ہے۔ پھر وہ آنکھیں ملنے لگا!

"نہیں ۔!" وہ کچھ دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

"میں اپنی اس بےتکی درخواست پر شرمندہ ہوں! میں آپ کو بھی مضحکہ خیز نہیں بنانا چاہتا !"

وہ پھر ہنسا مگر جولیا کو اس کی ہنسی دردناک معلوم ہوئی تھی! ایسا لگا تھا جیسے متعدد کراہوں نے ہنسی کی شکل اختیار کرلی ہو! "مس فٹز واٹر!" اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ "ہڈیوں اور گوشت کا یہ بنجر پہاڑ ہمیشہ تنہا کھڑا رہے گا۔ میں نے نہ جانے کس رو میں آپ سے درخواست کردی تھی! اداس اور تنہا آدمی بچوں کی سی ذہنیت رکھتے ہیں"۔ گوشت اور ہڈیوں کے اس بےہنگم سے ڈھیر میں چھپا ہوا سرسوکھے رام بچہ ہی تو ہے جو بڑی لاپروائی سے اس بدنما ڈھیر کو اٹھائے پھرتا ہے۔ اگر باشعور ہوتا تو۔۔"

"اور دیکھیئے! آپ بالکل غلط سمجھے سرسوکھے! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا! دراصل مجھے اس پر حیرت تھی کہ۔۔!"

"نہیں۔ مس جولیانا! میں خود بھی تماشہ بننا پسند نہیں کروں گا!" وہ ہاتھ اٹھا کر دردناک آواز میں بولا۔ جولیا خاموش ہوگئی! رقص شروع ہوکا تھا! سرسوکھے رقاصوں کو کسی بچے ہی کے سے انداز میں دیکھتا رہا۔۔! نہ جانے کیوں جولیا سچ مچ اس کے لئے مغوم ہوگئی تھی!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

﴿﴾ ﴿﴾ ﴿﴾

جوزف بس چلتا ہی رہا! اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنا چل چکا ہے۔ اور کب تک چلتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی زبان ہی چل رہی تھی ۔ نوجوانی کے قصے چھیڑ رکھے تھے!

نوجوانی کے قصے بھی جوزف کی ایک کمزوری تھی۔ وہ مزے لے لے کر اپنے کارنامے بیان کرتا تھا اور ان کہانیوں کے درمیان قبیلے کی ان لڑکیوں کا تذکرہ ضرور آتا تھا جو اس پر مرتی تھیں۔ اس مرحلہ پر جوزف کے ہونٹ سکڑ جانے اور آواز میں سختی پیدا ہوجاتی۔ ایسا لگتا جیسے حقیقتاً اسے کبھی ان کی پرواہ نہ ہوئی ہو! اس وقت وہ بوڑھے سے کہہ رہا تھا۔ "بھلا بتاؤ۔ مجھے ان باتوں کی فرصت کہاں ملتی تھی۔ میں تو زیادہ تر رائفلوں اور نیزوں کے کھیل میں الجھا رہتا تھا۔ جب بھی سفید فام شکاری میرے علاقہ میں داخل ہوتے تو انہیں تندوے کی تلاش ضروری ہوتی تھی! میں ہی ان کی رہنمائی کرتا تھا۔ ان کی زندگیاں میری مٹھی میں ہوتی تھیں۔۔ اب بتاؤ۔۔ تم ہی بتاؤ۔۔ میں کیا کرتا! نگانہ جو قبیلے کی سب سے حسین لڑکی تھی! اس نے مجھے بددعائیں دی تھیں۔۔ آہ۔۔ آج میں اسی لئے بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ مگر بتاؤ! اس کے لئے کہاں سے وقت نکالتا۔۔!"

جوزف نے پھر بکواس شروع کردی۔ تاڑی کی تین بوتلیں ہٹلر بھی بن سکتی ہیں اور علم الکلام کی ماہر بھی۔۔!

اچانک بوڑھا چلتے چلتے رک گیا۔ اور خوش ہو کر بولا! "واہ۔۔ اب تو وہ بیرل یہاں سے لے جائے بھی جاسکتے ہیں! میرے آدمی ٹرک لے آئے ہیں لیکن پولیس کا کہیں پتہ نہیں ہے۔۔!"

"ہائیں!" جوزف منہ پھاڑ کر رہ گیا۔ پھر بولا! "اب میرے انعام کا کیا ہوگا!"

"ایک بیرل تمہارا ہے دوست!" بوڑھے نے اس کی کمر تھپتھپا کر کہا! "تم اب انہیں ٹرک میں چڑھانے میں مدد دو گے"۔ ٹرک قریب ہی موجود تھا۔ اس کا پچھلا ڈھکنا زمین پر ٹکا ہوا تھا۔ جوزف نے چندھائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا! یہ ایک ویرانہ تھا۔ گھنیرے درخت اور جھاڑ جھنکار قریب وجوار کے اندھیرے میں کچھ اور اضافہ کرتے ہوئے سے معلوم ہو رہے تھے۔

"چلو۔ اندازہ کرلو کہ تم بیرل اوپر چڑھا سکو گے یا نہیں!" بوڑھے نے کہا اور ٹرک پر چڑھ گیا۔ جوزف کی رفتار سست تھی۔ لیکن وہ بھی اوپر پہنچ ہی گیا! ٹرک تین طرف سے بند تھا اور اس کی چھت کافی اونچی تھی! لیکن جوزف جیسے لمبے تڑنگے آدمی کو تو جھکنا ہی پڑا تھا۔

"چڑھا سکو گے نا؟" بوڑھے نے پوچھا۔

"بل۔۔ بل۔۔ بلکول۔۔" جوزف لڑکھڑایا اور آندھی سے اکھڑتے ہوئے کسی تناور درخت کی طرح ڈھیر ہوگیا! اسے اس پر بھی غور کرنے کا موقعہ نہیں مل سکا تھا کہ کھوپڑی پر ہونے والے تین بھرپور وار زیادہ نشہ آور ہوتے ہیں۔۔ یا تاڑی کی تین بوتلیں۔۔!

اس کا ذہن تاریکی کی دلدل میں ڈوبتا چلا گیا! پھر دونوں ٹرک کے اگلے حصے میں چلے گئے! تھوڑی دیر بعد ٹرک چل پڑا!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

﴿﴾ ﴿﴾ ﴿﴾

صفدر نے اس دن کے بعد سے اب تک ڈھمپ اینڈ کو کے دفتر کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ جب وہاں عمران کی موت کی اطلاع لے کر گیا تھا! ایکس ٹو کی طرف سے اسے یہی ہدایت ملی تھی!

لیکن وہ عمران کے متعلق الجھن میں تھا! کبھی یقین کرنے پر مجبور ہوتا کہ اب عمران اس دنیا میں نہیں! اور کبھی پھر کئی طرح کے شبہات سر اٹھاتے! مگر یہ تو اس کی آنکھوں کے سامنے کی بات تھی کہ عمران چیخ مار کر ندی میں جا پڑا تھا! کچھ بھی ہو دل نہیں چاہتا تھا کہ عمران کی موت پر یقین کرے!

جولیا نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ عمران زندہ ہے اور اسے اس واقعہ کے بعد اس کی کوئی تحریر ملی تھی! ایکس ٹو تو اسے یقینی طور پر صحیح حالات کا علم تھا۔ ورنہ وہ جولیا کو فون پر سرزنش کیوں کرتا۔ یہی سوچ کر جولیا نے اس سے بھی اس مسئلہ پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کی تھی!

بہرحال صفدر آج کل زیادہ تر گھر ہی میں پڑا رہتا تھا۔۔ اس وقت بھی وہ آرام کرسی میں پڑا اونگھ رہا تھا! اچانک فون کی گھنٹی بجی جو ان دونوں شاذونادر ہی بجتی تھی!

وہ اچھل پڑا۔۔! "ہیلو۔۔!" اس نے ماؤتھ پیس میں کہا۔

"ہائیں۔۔!" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "کیا تم زندہ ہو؟"

"ارے!" صفدر پرمسرت لہجے میں چیخا! "آپ۔۔!" اس نے عمران کی آواز صاف پہچان لی تھی۔

"اتنی زور سے نہ چیخو کہ تمہاری لائن کو شادیٴ مرگ ہوجائے۔ ویسے میں عالم بالا سے بو ل رہا ہوں!"

"عمران صاحب خدا کے لئے بتایئے کہ وہ سب کیا تھا؟"

"یار بس کیا بتاؤں"۔ دوسری طرف سے مغوم لہجے میں کہا گیا! " میں تو یہی سمجھ کر مرا تھا کہ گولی لگ چکی ہے۔ مگر فرشتوں نے پھر دھکا دے دیا! کہنے لگے کھسکو یہاں سے۔ یہاں چارسو بیسی نہیں چلے گی۔ گولی وولی نہیں لگی۔ آئندہ اچھی طرح مرے بغیر ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔ نہیں تو اب کی دم لگا کر واپس کئے جاؤ گے!

" صفدر ہنسنے لگا! وہ بےحد خوش تھا۔ اس کی بیک بہت بڑی الجھن رفع ہو گئی تھی!

"جولیا بے حد پریشان تھی۔۔!" صفدر نے کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"پچھلے سال میں اس سے ساڑھے پانچ روپے ادھار لیئے تھے نا۔۔ آج تک واپس نہیں کرسکا۔۔!" "عمران صاحب خدا آپ کو جمالیاتی حس بھی عطا کردے تو کتنا اچھا ہو!"

"تب پھر لوگ مجھے جمال احمد کہیں!" عمران خوش ہو کر بولا۔ "اور میں جمالی تخلص کرنے لگوں! خیر اس پر کبھی سوچیں گے۔ اس وقت تمہیں ایک آدمی کا تعاقب کرنا ہے جو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کے بلیرڈ روم نمبر۳ میں بلیرڈ کھیل رہا ہے۔ اس کے جسم پر سرمئی آئیرن کا سوٹ ہے اور گلے میں نیلی دھاریوں والی زرد ٹائی۔ اگر وہ تمہارے پہنچنے تک وہاں سے جاچکا ہو تو پھر وہیں ٹھہرنا"۔

دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا!

صفدر کو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب پہچنے میں بیس منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے! وہ آدمی اب بھی بلیرڈ روم میں موجود تھا جس کے متعلق عمران نے بیس منٹ پہلے اس سے فون پر گفتگو کی تھی۔ یہ ایک لمبا تڑنگا اور صحت مند جوان تھا۔ جبڑوں کی بناوٹ اس کی سخت دلی کا اعلان کر رہی تھی۔ البتہ آنکھیں کاہلوں اور شرابیوں کی سی تھیں۔ آنکھوں کی بناوٹ اور جسم کے پھرتیلے پن میں بڑا تضاد تھا۔

صفدر اس طرح ایک خالی کرسی پر جا بیٹھا جیسے وہ بھی کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہو! یہاں چار بلیرڈ روم تھے اور ہر کمرے میں دو دو میزیں تھیں! اس کمرے کی دونوں میزوں پر کھیل ہو رہا تھا!

بھاری جبڑے والے کا ساتھی تھوڑی دیر بعد ہٹ گیا! اور بھاری جبڑے والے صفدر سے پوچھا!

"کیا آپ کھیلیں گے؟"

"جی ہاں۔۔!" صفدر اٹھ گیا۔ دونوں کھیلنے گے! کچھ دیر بعد صفدر نے محسوس کیا کہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں کیسے وہ عورتوں اور آرائشی مصنوعات کا تذکرہ نکال بیٹھا تھا!

"کیا خیال ہے آپ کا یہ عورتیں سال میں کتنی لپ اسٹک کھا جاتی ہوں گی؟" اس نے پوچھا!

"ابھی تک میں عورتوں کے معاملات سمجھنے کے قابل نہیں ہوا"۔ صفدر نے جواب دیا۔ "اوہو۔۔ تو کیا بھی تک سنگل ہی ہو یار۔۔!"

"بالکل سنگل۔۔!"

"یہ تو بہت بری بات ہے کہ تمہاری آمدنی کا بہت بڑا حصہ لغویات پر نہیں صرف ہوتا"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"تم شائد بہت زیادہ زیربار ہوجاتے ہو"۔ صفدر مسکرایا۔

"دو بیویاں ہیں! لیکن ایک کو دوسری کی خبر نہیں۔۔!"

"یہ کیسے ممکن ہے؟"

"دن ایک کے ہاں گزرتا ہے، رات دوسری کے ہاں"۔ ایک سمجھتی ہے کہ میں فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں! وہی جس کے ہاں رات بسر ہوتی ہے۔ اور دوسری سمجھتی ہے کہ میں ایک مل میں اسسٹنٹ ویونگ ماسٹر ہوں اور ہمیشہ رات کی ڈیوٹی پر رہتا ہوں"۔

"تو تم حقیقتا" کیا کرتے ہو؟"

"فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں۔۔!" اس نے جواب دیا۔

"اور یہ کہانیاں کہیں بھی بیٹھ کر لکھی جاسکتی ہیں! اور کبھی ناوقت سیٹ پر جانا پڑا تو اس وقت والی بیوی سمجھتی ہے کہ اوورٹائم کر رہا ہو۔ یا شوٹنگ طویل ہوگئی ہے۔۔!"

"کما ل کے آدمی ہو۔۔!" "بیویوں کو دھوکا دینا میری تفریح ہے!۔ اب تیسری کے امکانات پر غور کر رہا ہوں لیکن وقت کیسے نکالوں گا"۔

"واہ۔۔ تیسری بھی کرو گے۔۔!"

"کرنی ہی پڑے گی۔ دیکھو یار قصہ دراصل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شادیاں کرنے سے سالیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ اور سالیاں۔۔ ہا۔۔ اگر سالیاں نہ ہوں تو دنیا ویران ہوجائے!"

"مجھے تو اس نام ہی سے گھن آتی ہے"۔ صفدر نے کہا۔

"آہا۔ تو تم انہیں سالیوں کی بجائے بتاشیاں یا جلیبیاں کہہ لیا کرو! کیا فرق پڑتا ہے"۔ صفدر ہنسنے لگا اور تھوڑی دیر بعد یہ بھول ہی گیا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔ کھیل ختم ہوجانے کے بعد وہ ڈائننگ روم میں آ بیٹھے۔ بھاری جبڑے والا ایک لاپرواہ اور فضول خرچ آدمی معلوم ہوتا تھا۔ کافی پیتے وقت اس نے صفدر سے کہا۔"یا مجھ پر ایک احسان کرو"۔

"کیا؟" صفدر چونک پڑا۔ اس نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ "چھ بج رہے ہیں لیکن میں رات والی بیوی سے آج پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ میں اس سے کہوں گا کہ تم اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہو۔ آج رات بھی شوٹنگ ہوگی۔ اس لئے ڈائریکٹر نے تمہیں ساتھ کردیا ہے تاکہ تم مجھے اپنے ساتھ ہی لے جاؤ! ساڑھے سات بجے ہم گھر ہی پر رات کا کھانا کھائیں گے۔ تم برابر کہتے رہنا، بھئی جلدی چلو اور بس ہم آٹھ بجے تک گھر سے نکل آئیں گے۔کیوں؟ پھر ہم دونوں دوست ہوجائیں گے۔ اور تم آئندہ بھی ایسے مواقع پر میرے کام آیا کرنا!"

صفدر ہنسنے لگا۔ مگر بھاری جبڑے والے کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"میں سنجیدہ ہوں دوست!" اس نے کہا۔ "اگر تم یہ کام نہ کرسکو تو صاف جواب دو۔ تاکہ میں کسی دوسرے کو پھانسوں! بس کسی اور کے ساتھ کچھ دیر کھیلنا پڑے گا! سارے ہی آدمی تمہاری طرح ٹھس تھوڑا ہی ہوں گے۔ ایڈوینچر کا شوق کسے نہیں ہوتا! بہتیرے پھنسیں گے!"

صفدر نے سوچا چلو دیکھا ہی جائے گا کہ یہ آدمی کس حد تک بکواس کر رہا ہے اور اسے بہرحال اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی تھیں! پہلے چوری چھپے یہ کام سرانجام دینا پڑتا۔ مگر اب۔۔ اب تو وہ اسے کھلی ہوئی کتاب کی طرح پڑھ سکے گا۔ اس نے حامی بھر لی۔

باہر نکل کر بھاری جبڑے والے نے کہا۔ "یہ تو اور اچھی بات ہے کہ تمہاری کار بھی موجود ہے! اب وہ شبہ بھی نہ کرسکے گی کہ میں اسے الو بنا رہا ہوں۔ وہ تمہارے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پر ایمان لے آئے گی"۔

"قطعی۔!" صفدر یوں ہی بولنے کے لئے بولا۔

وہ صفدر کی رہنمائی کرتا رہا اور پھر ماڈل کالونی کی ایک دور افتادہ عمارت کے سامنے کار روکنے کو کہا۔ عمارت نہ خوبصورت تھی اور نہ بڑی تھی۔ پائیں باغ ابتر حالت میں تھا۔ جس سے مالک مکان کی لاپرواہی یا مفلوک الحالی ظاہر ہو رہی تھی! اس نے اسے نشست کے کمرے میں بٹھایا اور خود اندر چلا گیا!

صفدر سوچ رہا تھا کہ اسے فلموں یا فلموں کی شوٹنگ کے متعلق بالکل کچھ نہیں معلوم! اگر اس کی بیوی اس سلسلے میں اس سے کچھ پوچھ بیٹھی تو کیا ہوگا۔۔!

لیکن اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے تین چار آدمی اس پر ٹوٹ پڑے۔ حملہ پشت سے ہوا تھا۔ اس لئے اسے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔

ایک نے اس کا منہ دبالیا تھا اور دو بری طرح جکڑے ہوئے دروازے کی جانب کھینچ رہے تھے۔ لیکن جب وہ اس طرح اسے کمرے سےباہر نہ لے جاسکے تو تین مزید آدمی ان کی امداد کے لئے وہاں آپہنچے۔ اور صفدر کشاں کشاں ایک تہہ خانے میں پہنچا دیا گیا۔ تہہ خانے کا علم تو اسے اس وقت ہوجا جب اس کی آنکھوں پر سے پٹی کھولی گئی۔ بعد میں آنے والے تین آدمیوں میں سے ایک نے اس کی آنکھوں پر رومال باندھ دیا تھا اور کسی نے دونوں ہاتھ پشت پر جکڑ دیئے تھے۔ لیکن جب آنکھوں پر سے رومال کھولا گیا تو اس کے سامنے صرف ایک ہی آدمی تھا اور یہ تھا وہی بھاری جبڑے والا جو اسے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب سے یہاں تک لایا تھا!

"مجھے افسوس ہے دوست!" اس نے سر ہلا کر مغوم لہجے میں کہا۔ "اس وقت دونوں بیویاں یہاں موجود ہیں! اس لئے یہ ابتری پھیلی ہے۔ سالیوں کی بجائے دونوں طرف کے سالے اکھٹے ہوگئے ہیں اور انہیں شبہ ہے کہ تم ہی مجھے بہکایا کرتے ہو!"

صفدر نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ہوئے اسے گھورتا رہا!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

وہ کوشش کر رہا تھا کہ پشت پر بندھے ہوئے ہاتھ آزاد ہوجائیں! لیکن کامیابی کی امید کم تھی۔ اگر کسی طرح وہ اپنے ہاتھ استعمال کرنے کے قابل ہوسکتا تو اس بھاری جبڑے کے زاویوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور نظر آتیں کیونکہ وہ ایک بےجگر فائٹر تھا!

دفعتاً بائیں جانب دیوار میں ایک دروازہ نما خلاء نمودار ہوئی اور جوزف جھکا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس کے سر پر پٹی چڑھی ہوئی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے! سر شاید زخمی تھا! شاید یہ صفدر کی چھٹی حس ہی تھی جس نے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نہ پیدا ہونے دیئے اور جوزف تو پہلے ہی سے سر جھکائے کھڑا ہوا تھا! اس نے کسی طرف دیکھنا بھی نہیں تھا! اس کے چہرے پر نظر آنے والے آثار اکھڑے ہوئے نشے سے پیدا ہونے والی بوریت کی غمازی کر رہے تھے۔ زیادہ دیر تک شراب نہ ملنے پر اس کی پلکیں ایسی ہی بوجھل ہوجاتی تھیں کہ وہ کسی کی طرف دیکھنے میں بھی کاہلی محسوس کرتا تھا!

اچانک بھاری جبڑے والے نے صفدر سے پوچھا۔

" یہ کون ہے؟"

"میں کیا جانوں!" صفدر غرایا۔

"کہیں تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا!"

بھاری جبڑے والے کا قہقہہ کافی طویل تھا لیکن جوزف اب بھی سر جھکائے کسی بت کی طرح کھڑا رہا!ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ آوازیں اس کے کانوں تک پہنچی ہی نہ ہوں۔ جو آدمی اسے یہاں لایا تھا اس کی رائفل کی نال اب بھی اس کی کمر سے لگی ہوئی تھی!

"تم بکواس کرکے کامیاب نہیں ہوسکتے دوست"۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔

"تم عمران کے آدمی ہو! اور اس وقت بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ ندی پر مقبرہ کے قریب گھیرا گیا تھا"۔

"مجھے اس سے کب انکار ہے مگر میں اس آدمی کو نہیں جانتا"۔ صفدر نے لاپروائی سے کہا۔

"یہ عمران کا ملازم نہیں ہے؟" بھاری جبڑے والے نے غرا کر کہا۔ "میں نے تو کبھی عمران کے ساتھ نہیں دیکھا"۔

صفدر نے جواب د یا! وہ جانتا تھا کہ جوزف اب عمران کے ساتھ اس کے فلیٹ میں نہیں رہتا بلکہ مستقل طور پر رانا پیلس ہی میں اس کا قیام ہے۔ اس لئے وہ اس کے معاملے میں محتاط ہو کر زبان کھول رہا تھا!

"رانا تہور علی کو جانتے ہو؟" "یہ نام میرے بالکل نیا ہے"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

صفدر نے متحیرانہ لہجے میں کہا۔ "او۔۔ حبشی۔۔!"

دفعتاً وہ جوزف کی طرف مڑکر گرجا!

"اب تم اپنی زبان کھولو۔ ورنہ تمہارے جسم کا ایک ایک ریشہ الگ کردیا جائے گا"۔

"جاؤ۔۔" جوزف سر اٹھائے بغیر بھرائی سی آواز میں بولا! "پہلے میری پیاس بجھاؤ! پھر میں بات کروں گا۔ تم لوگ بہت کمینے ہو۔ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ شراب ہی میری زبان کھلواسکے گی"۔

"شراب نہیں مل سکے گی"۔

"تب پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں! جو تمہارا دل چاہے کرو"۔

"ادھر دیکہو۔ کیا تم اس آدمی کو پہچانتے ہو؟"

اشارہ صفدر کی طرف تھا۔

"کیوں دیکھوں؟ کیسے دیکھوں؟ میری آنکھوں کے سامنے غبار اڑ رہا ہے۔ مجھے اپنے پیر بھی صاف نہیں دکھائی دیتے۔ شراب لاؤ۔ یا مجھے گولی مارد"۔

"پلاؤ۔ اسے۔ پلاؤ"۔


دفعتاً بھاری جبڑے والا دونوں ہاتھ ملا کر غرایا ۔

"اتنی پلاؤ کہ اس کا پیٹ پھٹ جائے"۔

رائفل والا جوزف کے پاس سے ہٹ کر پچھلے دروازے سے نکل گیا۔

"عمران کہاں ہے؟" وہ پھر صفدر کی طرف متوجہ ہوا۔

"اگر تم یہ جانتے ہو کہ میں اس دن عمران کے ساتھ تھا جب ہم پر چاروں طرف سے گولیاں برس رہی تھیں تو یہ بھی جانتے ہو گے کہ عمران کام آگیا تھااور میں بچ کر نکل گیا تھا"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

رائفل والا جوزف کے پاس سے ہٹ کر پچھلے دروازے سے نکل گیا۔

"عمران کہاں ہے؟" وہ پھر صفدر کی طرف متوجہ ہوا۔

"اگر تم یہ جانتے ہو کہ میں اس دن عمران کے ساتھ تھا جب ہم پر چاروں طرف سے گولیاں برس رہی تھیں تو یہ بھی جانتے ہو گے کہ عمران کام آگیا تھااور میں بچ کر نکل گیا تھا"۔

"ہمیں تو اس پر یقین تھا کہ تم بھی نہ بچے ہوگے! لیکن آج تم ہاں میرے سامنے موجود ہو! تم اتنی چالاکی سے نکل گئے تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا تھا"۔

"عمران گولی کھا کر دریا میں گر گیا تھا"۔ صفدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا! لیکن وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں جوزف یہ جملے سن کر چونک نہ پڑے۔ اس وقت کی گفتگو سے اچھی طرح اندازہ کرچکا تھا کہ وہ رانا تہور علی اور عمران کی الجھن میں پڑ گئے ہیں۔ لیکن صفدر کے اندیشے بےبنیاد ثابت ہوئے کیونکہ جوزف کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی اس نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ کسی طرف دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی اور رائفل والا دیسی شراب کی دو بوتلیں لئے دروازے سے اندر داخل ہوا۔

"ایک بوتل کھول کر اس کے منہ سے لگا دو"۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔

تعمیل کی گئی! جوزف کے موٹے موٹے ہونٹ بوتل کے منہ سے چپک کر رہ گئے! بڑا مضحکہ خیز منظر تھا۔ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسے کسی بھوکے شیرخوار بچے نے دودھ کی بوتل سے منہ لگا کر چسر چسر شروع کردی ہو۔ آدھی بوتل غٹا غٹ پی جانے کے بعد اس نے بوتل کا منہ چھوڑ کر دو تین لمبی لمبی سانسیں لیں اور مسکرا کر بولا۔

"تم بڑے اچھے ہو! بڑے پیارے آدمی ہو! تم پر آسمان سے برکتیں نازل ہوتی رہیں! اور آسمانی باپ تمہیں اچھے کاموں کی توفیق دے"۔ بھاری جبڑے والا کینہ توز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سالہا سال سے اسے مار ڈالنے کی خواہش پال رہا ہو! جوزف نے بقیہ آدھی بوتل بھی ختم کردی! اب وہ کسی جاگتے ہوئے آدمی کی سی حالت میں آگیا تھا۔ آنکھیں سرخ ہوگئیں تھیں اور چہرے کی سیاہی چمکنے لگی تھی!

"ارے۔۔ یہ آدمی۔۔" دفعتاً اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

"ہاں! مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اسے ایک آدھ بار مسٹر عمران کے ساتھ دیکھا تھا"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"لیکن میں نے تو تمہیں کبھی نہیں دیکھا"۔

صفدر نے غصیلی آواز میں کہا۔ "یہ بھی ممکن ہے مسٹر کہ تمہاری نظر مجھ پر کبھی نہ پڑی ہو"۔

"عمران کہاں ملے گا؟" بھاری جبڑے والا غرایا۔

"میں کیا بتا سکتا ہوں مسٹر"۔ جوزف نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔

"بہت دنوں کی بات ہے جب میں مسٹر عمران کے ساتھ تھا۔ لیکن وہ میرے پینے پلانے کا بار سنبھالنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے خود ہی میرا پیچھا چھوڑ دیا۔۔ اس طرح میں نے اطمینان کا سانس لیا! ورنہ مجھے تو اس کا غلام رہنا ہی پڑتا ہے جو مجھے زیر کرلے۔ اور پھر میرا تو ڈاکٹر طارق والا مقدمہ بھی چل رہا ہے"۔

"کیسا مقدمہ۔۔؟" اس پر جوزف نے ڈاکٹر طارق کی کہانی دہراتے ہوئے کہا۔ ماسٹر عمران نے مجھے بہت پیٹا تھا۔ وہ شاید پولیس کے لئے کام کرتے ہیں۔۔!"

بھاری جبڑے والا تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا!

"رانا کون ہے؟"

"باس ہے میرا۔ جوزف نے فخر سے سینہ تان کر کہا۔

"وہ کہاں ملے گا۔۔؟"

"میں نہیں جانتا۔ ان سے تو بس کبھی کبھی ملاقات ہوتی ہے"۔

"عمران سے اس کا کیا تعلق ہے۔۔؟"

"میں کیا بتاسکتا ہوں مسٹر۔ میں کیا جانوں! میں نے کبھی ان کے ساتھ مسٹر عمران کو نہیں دیکھا"۔

"تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟"

"بس یوں ہی میں ایک دن سڑک پر جا رہا تھا کہ ایک کار میرے پاس رکی! اس پر سے رانا صاحب اترے اور کہنے لگے میں نے پچھلے سال شاید تمہیں نیٹال میں دیکھا۔ میں نے کہا کہ میں تو دس سال سے اس ملک میں ہوں!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں کوئی اور ہو۔ پھر وہ مجھ سے میرے متعلق پوچھ گچھ کرنے لگے!۔۔

یہ۔۔ دوسری بوتل بھی مسٹر۔۔ خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور عورت کے سائے سے بچائے۔ تم بہت نیک ہو"۔

بھاری جبڑے والے کے اشارے پر دوسری بوتل بھی کھولی گئی! اور جوزف چوتھائی پینے کے بعد بولا۔

"ہاں تو تم کیا پوچھ رہے تھے۔ برادر۔۔!"

"تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟"

"ہاں۔۔ ہاں۔۔ شاید میں یہی بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے میرے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے!"

"چلو کہتے رہو! رکو مت!"

بھاری جبڑے والا بولا۔

"میں نے انہیں بتایا کہ مجھے نوکری کی تلاش ہے۔ انہوں نے پوچھا باڈی گارڈز کے فرائض انجام دے سکو گے!

اوہ۔۔ بڑی آسانی سے میں نے انہیں بتایا اور یہ بھی کہا کہ میرا نشانہ بڑا عمدہ ہے اور میں کبھی ہیوی ویٹ چیمپین بھی رہ چکا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے نوکر رکھ لیا! میں ان کے پیسنے کی جگہ خون بھی بہا سکتا ہوں۔ لارڈ آدمی ہیں۔ کبھی نہیں پوچھتے کہ میں دن بھر میں کتنی بوتلیں صاف کردیتا ہو"۔

بھاری جبڑے والا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اس کے بیان پر تذبذب میں پڑ گیا ہو۔

دوسری طرف صفدر پر جوزف کے جوہر پہلی بار کھلے تھے! وہ اب تک اسے پرلے درجے کا ایڈیٹ ہی تصور کرتا رہا تھا! لیکن اس وقت تو عمران ہی کا یہ قول کرسی نشین ہوا تھا کہ جوزف ایک نادر الوجود شکاری کتا ہے۔ سادہ لوحی اور چیز ہے! لیکن بےضرر نظر آنے والاے کتے بھی شکار کے وقت اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں! بشرطیکہ وہ شکاری ہوں! جوزف پر صحیح معنوں میں یہ مثال صادق آتی تھی۔ "دیکھو میں تمہاری ہڈیاں چور کردوں گا۔ ورنہ مجھ سے اڑنے کی کوشش نہ کرو"۔

"بس یہ بوتل ختم کر لینے دو! اس کے بعد جو دل چاہے کرنا!"

جوزف نے ہونٹ چاٹتے ہوئے کہا۔

"صرف ایک دن کی مہلت اور دی جاتی ہے۔ تم عمران کا پتہ بتاؤ اور تم رانا تہور علی کا۔۔!"
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”