خطرناک لاشیں

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کیپٹن فیاض تھکے تھکے سے انداز میں مسکرایا۔ وہ بہت دیر سے عمران کی اوٹ پٹانگ باتین سن رہا تھا۔۔۔ اور انہیں برداشت بھی کر رہا تھا۔ کیونکہ اب اس کی امیدوں کا واحد مرکز عمران ہی تھا۔

عمران جس کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ اس کیس کے سلسلے میں بہت آگے جا چکا ہے۔ بہت کچھ جانتا ہے۔ اتنا مواد اکٹھا کر چکا ہے کہ کسی وقت بھی اسے استعمال کر کے یہ قصہ نپٹا سکتا ہے۔

"سوپر فیاض!" یک بیک عمران سنجیدہ نظر آنے لگا! اور پھر کچھ دیر ٹھہر کر بولا۔ "تم اب اس سلسلے میں قطعی خاموشی اختیار کر لو! ورنہ لاکھ برس بھی کامیابی کی شکل نہ دکھائی دے گی!"

"دیکھو عمران! مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اگر تم ہی یہ قصہ ختم کر دو! مگر دشواری یہ ہے کہ قانون تمہارا ساتھ نہ دے گا۔"

"یہی تو آج تک نہیں سمجھ سکو گے! قانون یقینا تمہارا ساتھ دیتا ہو گا! مگر میرے پیچھے تو دم ہلاتا پھرتا ہے! تم اس کی پرواہ نہ کرو! جب بھی کسی کام میں ہاتھ لگاتا ہوں تو قانون اور مجرم دونوں ہی میری تاک میں رہتے ہیں۔ تم دیکھ ہی رہے ہو۔ میں آج بھی آزادی سے آئس کریم کھا رہا ہوں!"

"تمہاری مرضی!" فیاض نے ایک طویل سانس لی۔

"بس پھر وعدہ رہا کہ یہ کیس میں تمہارے حوالے کر دوں گا۔"

"ارے یار اس کی پرواہ نہیں ہے۔ میں تو دراصل یہ چاہتا ہوں کہ شہر میں جو ہراس پھیلا ہوا ہےکسی طرح اس کا خاتمہ ہو جائے۔"

"ایسا ہی ہو گا۔" عمران نے یقین دلانے کے سے انداز میں سر ہلا کر بولا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی! عمران نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے سلیمان تھا جس نے اسے دوسرے کمرے سے پرائیویٹ فون پر کال کی اطلاع دی۔

عمران باتھ روم کے بہانے کمرے میں آیا۔ سلیمان یہاں موجود تھا۔

"عورت تھی یا مرد!"

"مرد ہی تھی جناب۔"

"تھا!" عمران آنکھیں نکال کر بولا۔ "مجھے غصہ نہ دلایا کرو ورنہ کسی دن بھسم کر دوں گا۔"

پھر اس نے بلیک زیرو کے نمبر ڈائیل کئے!

"کیوں؟" کیا تم نے مجھے رنگ کیا تھا!" عمران نے پوچھا۔

"جی ہاں!" دوسری طرف سے آواز آئی!" اس لڑکی کے متعلق رپورٹ دینی تھی۔"

"کوئی خاص بات!"

"جی ہاں! ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کسی قسم کے زہر کی وجہ سے اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے۔"

"اس خاص بات کا علم تو مجھے پہلے ہی سے تھا۔ اور کچھ!"

"جی نہیں!"

عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ اسے دراصل ڈاکٹر گلبرٹ اور داور کی فکر تھی۔ لیکن ان کے متعلق ابھی تک کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں ہو سکی تھیں۔ وہ اگر چاہتا تو فیاض سے ڈاکٹر گلبرٹ کا ریکارڈ دیکھنے کی خواہش ظاہر کر سکتا تھا اور شاید اس اسٹیج پر فیاض سارا دفتر لا کر اس کے سر پر پٹخ دیتا۔ مگر دشواری یہ تھی کہ عمران فیاض پر اعتماد نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ ڈاکٹر گلبرٹ کا تذکرہ اس سے کر دیتا تو وہ خود یا اس کا کوئی ماتحت ڈاکٹر گلبرٹ کی گود میں جا بیٹھنے کی کوشش شروع کر دیتا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

صفدر تین دن سے اس لڑکی کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ بارٹل اسٹریٹ کی ایک عمارت کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی تھی۔ راتیں ہوٹلوں میں گزارتی تھی اور دن بھر فلیٹ میں پڑی رہتی تھی۔ اس کا نام مارتھا اور یہ یوریشئین تھی۔

پچھلے دنوں اس نے گرینڈ میں ایک شکار پھانسا تھا اور اس پر روغن قاز مل رہی تھی۔ یہ ایک وجیہہ نوجوان تھا۔ لیکن صفدر کا اندازہ تھا کہ عورتوں کے معاملے میں بالکل اناڑی ہی ہے کیونکہ کل سے آج تک اس نے مارتھا پر بڑی رقم خرچ کر دی تھی۔

اس نے مارتھا سے کہا تھا کہ وہ بہت عرصہ سے کسی سفید فام لڑکی سے دوستی کا خواہشمند تھا۔۔۔ اور پھر یہ تھی بتا دیا تھا کہ نہ جانے کیوں اسے انگریز لڑکیوں سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ اس پر مارتھا بہت ہنسی تھی۔

آج بھی وہ دونوں گرینڈ میں تھے اور صفدر انہیں بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نوجوان نے مارتھا کو اپنا نام صادق بتایا تھا۔

"میں پچھلی رات سو نہیں سکا۔" وہ مارتھا سے کہہ رہا تھا۔

"کیوں؟" مارتھا نے پوچھا۔

"بس نیند نہیں آئی تھی۔ تمہارے متعلق سوچتا رہا!"

"کیا سوچ رہے تھے؟"

"یہی کہ تم کتنی اچھی ہو!" کاش ہم بہت دنوں تک دوست رہ سکیں!"

"تم چاہو گے تو ضرور رہ سکیں گے۔"

"یہی تو مصیبت ہے۔۔۔!" صادق نے ٹھنڈی سانس لی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"کیا مصیبت ہے۔۔۔؟" وہ بس یونہی رواداری میں سوالات کرتی جا رہی تھی۔ انداز سے نہیں معلوم ہو رہا تھا کہ اسے اس موضوع سے ذرہ برابر بھی دلچسپی ہو۔

"مصیبت !" صادق نے پھر ٹھنڈی سانس لی "کل اگر کوئی تم سے بھی زیادہ خوبصورت لڑکی مل گئی تو میرا دل چاہے گا کہ اس سے دوستی پیدا ہو جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرو! ویسے ناولوں وغیرہ میں تو یہ پڑھتا ہوں کہ کسی ایک کو کسی ایک سے محبت ہو جاتی ہے اور پھر وہ ساری زندگی کسی دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھتا۔ یعنی اسے اپنی محبوبہ سے زیادہ حسین اور کوئی لڑکی ملتی ہی نہیں ہے۔ پھر مجھے اب تک کوئی ایسی لڑکی کیوں نہیں ملی جس کے آگے اور کوئی پسند ہی نہ آ سکتی!

"ارے ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے" مارتھا مضحکہ اُڑانے والے انداز میں ہنسی، "جب جوان ہو جاو گے تو کوئی ایسی لڑکی بھی مل جائے گی۔"

"کیا ۔ ۔ ۔ ؟" صادق نے کہا ۔ " ابھی تک میں جوان نہیں ہوں"

"ابھی تو تمہارے منہ سے دودھ کی بُو آتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن میں تمہاری پرورش کا ذمہ لیتی ہوں، بہت جلد جوان ہو جاو گے۔ ۔ ۔ لڑکے"

اس نے ویٹر کو آواز دی اور جب وہ قریب آ گیا تو بولی ۔ "بےبی کے لیے ٹافیاں لاو"

ویٹر شاید اسے نشے میں سمجھ کر مُسکراتا ہوا چلا گیا۔

"ارے ۔ ۔ ۔ تم میرا مضحکہ اُڑا رہی ہو" صادق نے حیرت اور غصے کے ملے جُلے اظہار کے ساتھ کہا ۔

"نہیں ڈئیر ۔ ۔ ۔ یہ مضحکہ نہیں بلکہ تمہاری عزت افزائی ہے۔ اس سے پہلے میں نے کسی کو بےبی نہیں کہا"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"کیا میں اتنا چھوٹا ہوں کہ تم مجھے بےبی کہو؟"

"یقینا تم ننھے سے بچے ہو۔ مجھے تم پر بے ھد پیار آتا ہے۔ ۔ ۔ اور اب میں تمہارے لیے لوریاں سیکھوں گی۔"

"دیکھو ۔ ۔ ۔ میرا مذاق نہ اُڑاو ۔ ۔ ۔ ورنہ میں خود کُشی کر لوں گا۔"

مارتھا ہنسنے لگی اور پھر سنجیدہ ہو کر بولی۔ "میرا خیال ہے کہ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔"

نوجوان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں اور اس کے ہونٹوں میں اس قسم کی کپکپاہٹ نظر آنے لگی جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔ لیکن نروس ہو جانے کی وجہ سے کہنے کا ڈھنگ نہ سُوجھ رہا ہو۔

صفدر کی دلچسپی بڑھتی رہی۔

"پچھلی رات میں نے تمہیں خواب میں بھی دیکھا تھا۔" مارتھا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

"مم ۔ ۔ ۔ میں نے بھی" صادق ہکلایا۔

"اوہ ۔ ۔ ۔ تم نے بھی دیکھا تھا۔"

صادق نے کسی شرمیلی لڑکی کی طرح آنکھیں نیچی کر کے سر ہلا دیا۔

"تب تو ۔ ۔ ۔ ہم ہمیشہ دوست رہیں گے۔ ۔ ۔ کیوں؟" وہ ہنس پڑی اور وہ دونوں دیر تک ہنستے رہے۔

اسی رات صفدر نے جولیانا فٹنر کو اطلاع دی تھی کہ مارتھا نے کل جس نوجوان کو پھانسا تھا اُس سے آج اُسے محبت بھی ہو گئی ہے اور وہ دونوں زندگی بھر دوست رہیں گے۔

"میرا خیال تو یہ ہے کہ تم وقت برباد کر رہے ہو۔" جولیا بولی۔

"نہیں میرا خیال ہے کہ میں جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچوں گا۔"

"اس کے علاوہ نہیں کہ دونوں عنقریب شادی کر لیں گے۔" جولیانا نے ہنس کر کہا۔

"دیکھو ، کیا ہوتا ہے؟" صفدر نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کیپٹن فیاض آفس سے اُٹھ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے انسپکٹر شاہد کی آواز آئی۔ "مم ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ شش ۔ ۔ ۔ شاہد ہوں جناب۔ ایک بہت اہم بات ہے۔ ۔ ۔ گستاخی ضرور ہے۔ ۔ ۔ لیکن آپ خود ہی یہاں آجائیں تو بہتر ہے۔ اگر میں یہاں سے ہٹا تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔"

"کہاں آجاوں؟" "ایلمرز ہاوز کے عقبی پارک میں مشرق کی جانب جو مالتی کی کنجی ہے اُس میں۔"

"کیا مطلب ؟ تم کہاں ہو؟ اور کہاں سے نہیں ہٹنا چاہیے؟ فون کہاں سے کر رہے ہو؟"

"یہ نہ پوچھیے، میں اس وقت ایک ٹیلی فون کے کھمبے پر بیٹھا ہوں۔"

"کیا بک رہے ہو؟" فیاض غرایا۔

"حضور والا، میں پہلے ہی معافی مانگ چکا ہوں۔ میں بڑی مصیبت ارر ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ میں اس کنج میں چھپا پوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آپ کو اس کی اطلاع کیسے دوں کہ اچانک قریب کے ایک ٹیلی فون کے کھمبے پر نظر پڑی جس پر ایک مکینک چڑھا ہوا تار کی مرمت کر رہا تھآ اس کے پاس میں نے انسٹرومنٹ بھی دیکھا جس کے ذریعہ شاید وہ ہیڈ آفس سے گفتگو کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے سوچا کہ منہ مانگی مراد ملی ہے بس یہیں سے اسی انسٹرومنٹ پر آپ سے رابطہ قائم کیا جائے ۔ ۔ ۔ بمشکل تمام میں اس مکینک کی ہمدردیاں حاصل کر سکا اور اس نے مجھے انسٹرومنٹ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔"

"تم مجھے وہاں کیوں بلا رہے ہو؟"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"وہ ایک حیرت انگیز سچویشن ہے جناب عالی، میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا۔ وہ پاگل لڑکی ہلدا یہاں ایک درخت کے تنے سے بندھی ہوئی ہے اور ایک آدمی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے منہ پر پانی پھینکتا ہے اور وہ چیخ چیخ کر اُسے گالیاں دینے لگتی ہے۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ دیکھیے ۔ ۔ ۔ اب مجھے اتر جانا چاہیے۔ میرے خدا میں کیا کروں۔ تنہا آئیے گا جناب۔"

اور پھر یک بیک سلسلہ منقطع ہو گیا۔ فیاض نے بھی ریسیور رکھ دیا۔

اس کی کنپٹی کی رگیں اُبھر آئی تھیں اور پھر آنکھیں ایسی ہونے لگیں تھیں جیسے سوچ میں ڈوبا رہنا ہی ان کا مستقل انداز ہو۔

وہ آفس سے باہر آیا ۔ ۔ ۔ شیڈ سے کار نکالی اور ایلمرز ہاوز کی طرف روانہ ہو گیا۔ شاہد اس کا ماتحت تھا اور اس کے سارے ہی ماتحت اس سے بہت زیادہ خائف رہتے تھے ۔ پوری طرح بات کرنا بھی ان کے لیے دشوار ہو جاتا تھا۔ مگر شاہد کی گفتگو بڑی بے تکلفانہ تھی۔ اسی سے فیاض نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ ذہنی الجھاو کا شکار ہو جانے کی بنا پر الفاظ کے انتخاب کا سلیقہ کھو بیٹھآ ہے۔ ہلدا کے متعلق اس نے جو کچھ بھی بتایا تھا یقینا حیرت انگیز تھا۔

ایلمرز ہاوز شہر سے باہر ایک بہت بڑی عمارت تھی ۔ اس سے ملحق ایک شاندار باغ تھا اور عقبی پارک تو گویا اچھی خآصی پولو گراونڈ تھی لیکن اس کے بعض حصوں میں درخت بھی تھے اور خود رو جھآڑیاں بھی۔ یہ عمارت غیر ملکی تجارتی ادارے کی ملکیت تھی۔

فیاض نے کار عمارت سے کافی فاصلے پر چھوڑی اور پیدل ہی عقبی پارک کی طرف روانہ ہو گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور ویرانہ صدہا پرندوں کے شور سے گونجا ہوا تھآ۔ وہ مشرق کی جانب مڑ گیا۔ مالتی کی گنجان جھاڑیوں کا سلسلہ دور ہی سے نظر آ رہا تھآ۔ کچھ دیر بعد وہ جھاڑیوں میں داخل ہوا۔ جھاڑیوں کے درمیان کءی اُونچے اُونچے درخت بھی تھے ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"کھٹاک۔ ۔ ۔ " دفعتا فیاض کے سر پر کوئی وزنی چیز گری اور وہ ارے کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں میں مزید تارے ناچ گئے۔ کیونکہ دوسری چوٹ پہلی چوٹ سے بھی زیادہ حواس باختہ کر دینے والی تھی۔ وہ کسی بے جان لاش کی طرح زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

پھر اسے نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کتنی دیر تک بےہوش رہا تھا اور اس پر کیا گذری تھی۔

ہوش میں آنے کے بعد بھی اسے یقین نہیں تھا کہ وہ ہوش میں ہے۔ اس کے چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اس نے سر پر ہاتھ پھیرا جو تکلیف کی وجہ سے پھوڑا بنا ہوا تھا ۔ پھر آہستہ آہستہ ایک طرف کھسکنے لگا تاکہ جھاڑیوں سے نکل کر کھلے میں آجائے تاریکی کی وجہ سے اس کا دم گھنٹنے لگا تھا۔

لیکن پھر یک بیک وہ رک گیا۔ کیونکہ کوئی ٹھوس چیز اس کی راہ میں حائل ہو گئی تھی۔ اس نے بے خیالی میں اسے ہاتھوں سے دھکیلنے کی کوشش کی اور پھر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ تو دیوار تھی۔

فیاض بوکھلائے ہوئے انداز میں دیوار ٹٹولتا ہوا کمرے میں دوڑنے لگا۔ ۔ ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسی سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ مگر فون پر اس نے شاہد کی آواز پہچان لی تھی۔ تو کیا شاہد بھی اس کے خلاف کسی سازش میں شریک ہو سکتا ہے ؟

وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ سر کی تکلیف نا قابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔

اچانک کمرہ روشن ہو گیا۔ ساتھ ہی فیاض بھی اچھل پڑا۔ اور اب وہ بڑی تیزی سے اپنی جیبیں ٹٹول رہا تھا مگر ریوالور اسے نہ مل سکا۔

دروازہ کھلا اور ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا اور ریوالور کا رخ فیاض ہی کی طرف تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"چلو۔ ۔ ۔ " اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔

"تم کون ہو اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟" اس نے گرج کر پوچھا۔

"میں کچھ نہیں جانتا۔" وہ آدمی بھی غرایا۔ "تم سے جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل کرو ورنہ کتے کی موت مار ڈالے جاو گے۔"

"تم جانتے ہو، میں کون ہوں؟" فیاض غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔

"مجھے ضرورت ہی کیا ہے کہ جانوں۔ چلو ورنہ میں بے دریغ فائر کر دوں گا۔"

فیاض اسے چند لمحے گھورتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھا۔ سر کی تکلیف کی وجہ سے وہ بڑی نقاہت محسوس کر رہا تھا ورنہ شاید وہ اس آدمی سے لپٹ جانے کی کوشش ضرور کرتا۔

ریوالور والا آدمی اسے ایک بڑے کمرے میں لایا ۔ ۔ ۔ اور پھر فیاض کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انسپکٹر شاہد ایک صوفے پر بندھا پوا پڑا تھآ۔

اس نے فیاض کو دیکھتے ہی چیخ کر کہا، "کپتان صاحب، میں بالکل مجبور تھا۔ انھوں نے میری گردن پر رکھ کر مجھ سے فون کروایا تھا۔"

"مگر تم یہاں پہنچے کیسے؟" فیاض نے ماحول سے لاپرواہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔

"پچھلی رات میں فلم دیکھ کر گھر واپس جا رہا تھا۔ اچانک ان لوگوں نے ایک ویران گلی میں گھیر لیا اور زبردستی یہاں لے آئے۔"

فیاض نے چاروں طرف اُچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ یہاں دو متنفس اور بھی تھے ، ایک انگریز مرد اور ایک یوریشین لڑکی جو اندھی معلوم ہوتی تھی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فیاض انگریز کو گھورنے لگا۔ یہ ایک طویل القامت اور قوی الجثہ آدمی تھا۔ چہرے پر بھوری فرنچ کٹ داڑھی تھی اور اس کی آنکھیں سبز تھیں ۔

فیاض کو اس طرح گھورتے دیکھ کر وہ مسکرایا اور ریوالور والے کو کچھ اشارہ کیا۔

"چلو بائیں جانب" ریوالور والا فیاض سے بولا۔

فیاض چپ چاپ بائیں جانب والے دروازے کی طرف مڑ گیا۔ وہ اپنے پیچھے دو آدمیوں کے قدموں کی آوازیں سن رہا تھا۔

"رُک جاو" ریوالور والے نے کہا۔

وہ دوسرے کمرے میں پہنچ چکے تھے۔ فیاض رک گیا۔

"اپنے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل کو رنگ کرو" اس سے کہا گیا۔

"کیوں؟ کیا انہیں بھی یہاں لانے کا ارادہ ہے؟" فیاض نے تلخ لہجے میں پوچھا ۔

"نہیں ۔ ۔ ۔ جو کچھ کہا جا رہا ہے کرو"

"جب تک مقصد نہ معلوم ہو جائے میں رنگ نہیں کروں گا۔"

"اس سے کہو کہ تم مجرموں کی راہ پر لگ گئے ہو اور تم نے انھیں پھانسنے کے لیے ایک جال بچھایا ہے۔ لہذا کل اگر شہر کے کسی حصے میں شاہد کی برہنہ لاش پائی جائے تو اسے اس وقت تک نہ اٹھوایا جائے جب تک کہ تم اس کے لیے اطلاع نہ دے دو۔ اور اس سے یہ بھی کہو کہ کوئی لاش کے قریب نہ جائے کم از کم لاش سے دو گز کے گھیرے میں پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔ اگر لاش کسی سڑک پر پائی جائے تو ٹریفک کے رکنے کی پرواہ کیے بغیر اس کے گرد گھیرا ڈال دیا جائے مگر یہ گھیرا لاش سے کم از کم دو سو گز کے فاصلے پر ہو۔ جب یہ اطلاع دے دوں تو لاش اٹھوا کر مردہ خانے بھجوا دی جائے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"اوہ ۔ ۔ ۔ تو تم شاہد کو مارڈالنا چاہتے ہو؟"

"ہاں" بڑی لاپرواہی سے کہا گیا۔

"آخر کیوں؟"

"سوال نہ کرو ہماری بات سنو۔ جب تم ڈائریکٹر جنرل سے یہ سب کچھ کہو گےتو وہ یقینی طور پر لاش کے متعلق سوال کرے گا۔ اس کے لیے تم کہہ دینا کہ وہ ایک لاوارث مردہ ہے تم نے وہ لاش خیراتی ہسپتال سے حاصل کی ہے اور اس کے چہرے پر انسپکٹر شاہد کا میک اپ کر دیا ہے۔"

"آخر تم لوگ کیا چاہتے ہو؟" فیاض پھر بگڑ گیا۔

"فی الحال اتنا ہی چاہتے ہیں جتنا تم سے کہا جا رہا ہے۔" انگریز بولا۔

"یہ ناممکن ہے۔ میں فون نہیں کروں گا۔"

"تب پھر ہو سکتا ہے کہ کل ایک کی بجائے دو لاشیں دیکھی جائیں۔"

فیاض ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔

"تمہیں اسی طرح فون کرنا ہے جیسے شاہد نے تمہیں کیا تھا۔"

"کیا تم اسے مار ڈالو گے؟"

"ہاں ۔ ۔ ۔ "

"آخر کیوں ۔ ۔ ۔ تم ایسا کر رہے ہو؟"

"انسانیت کی فلاح کے لیے۔"

"کیا بکواس ہے؟"

"تم دیکھ ہی لو گے۔ اور یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ تم کتنے بے بس ہو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم بالکل محفوظ رہو گے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فیاض برابر انکار کرتا رہا۔ لیکن پھر اچانک ان کا رویہ سخت ہو گیا۔ چار آدمیوں نے اسے بےبس کر کے بڑی اذیتیں دیں، اور پھر مجبورا اسے وہ سب کچھ فون پر ہی کہنا پڑا جو انھوں نے کہا تھا۔ رحمان صاحب نے اس سلسلے میں مزید استفسار کرنا چاہا لیکن فیاض کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس سے زیادہ نہ کہے جو کچھ اسے پہلے سے سمجھا دیا گیا ہے۔

پھر اسے اس کمرے میں لایا گیا جہاں شاہد بندھا ہوا پڑا تھا۔ اندھی لڑکی بھی موجود تھی۔ شاہد چیخ رہا تھا۔ "ارے میں بیمار نہیں ہوں۔ پھر مجھے انجکشن کیوں دیا گیا ہے۔ چھوڑو مجھے چھوڑو۔"

"ہاں چھوڑ دیں گے۔ ۔ ۔" انگریز بولا۔ "ابھی ایک انجکشن اور دیا جائے گا ورنہ تم صبح تک مر جاو گے۔"

"چھوڑ دو ، مجھے چھوڑ دو۔"

وی چیختا رہا۔ لیکن انگریز کے اشارے پر ایک بھری ہوئی سرنج لائی گئی اور شاہد کے بائیں بازو میں کوئی سیاہ رنگ کا سیال مادہ انجیکٹ کر دیا گیا۔

فیاض دم بخود کھڑآ دیکھتا رہا۔ ریوالور کی نال اب بھی اس کی گردن سے لگی ہوئی تھی اور اسے اس کا احساس بھی تھا کہ یہ لوگ اسے بڑی بے رحمی سے قتل بھی کر سکتے ہیں۔

"کپتان صاحب،" شاہد حلق پھاڑ کر چیخا۔ "خدا کے لیے مجھے بچائیے۔"

دفعتا انگریز ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "تم لوگوں نے خود ہی اپنے لیے مصیبت کھڑی کی ہے۔ اور میں تم لوگوں سے کینہ رکھتا ہوں کیونکہ تمہاری وجہ سے میری ایک بہترین ساتھی پاگل ہو گئی ہے اگر تم اس کے پیچھے نہ لگتے تو مجھے اس کا دماغ نہ ماوف کرنا پڑتا۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو گئی۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فیاض کچھ نہ بولا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے اور کیا کرت۔

اچانک انگریز غرایا۔ "اندھی لڑکی رقص شروع کرو۔ ۔ ۔ اگر تم نے اس مریض کے دل کا نشانہ نہ لیا تو میں تمہیں کبھی معاف نہین کروں گا۔"

لڑکی کے ہونٹوں پر ایک بڑی بھیانک قسم کی مسکراہٹ نظر آئی۔ شاہد بھی اسی کی طرف دیکھنے لگا تھا ۔

اچانک ایک آدمی نے لڑکی کے ہاتھ میں چمچماتا ہوا خنجر پکڑا دیا۔ پھر ایک جانب رکھے ہوئے گراموفون پر رقص کی موسیقی کا ریکارڈ گردش کرنے لگا۔

موسیقی کی لہریں دیوار سے ٹکرا کر جھنکاریں پیدا کرنے لگیں اور اندھی لڑکی نے ایک طوفانی رقص شروع کر دیا۔ تیز قسم کی روشنی میں چمکتا ہوا خنجر خلاء میں تیرتا پھر رہا تھا اور اندھی لڑکی حیرت انگیز رفتار سے ناچ رہی تھی۔

دفعتا انگریز چیخنے لگا، "یہ موت کا کھیل ہے کیپٹن فیاض۔ ۔ ۔ اندھی رقاصہ کا کمال دیکھو، حیرت انگیز۔ ۔ ۔ حیرت انگیز۔ ۔ ۔ یہ شاہد کے دل کا نشانہ لے گی اور خنجر دستے تک اس کے سینے میں پیوست ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ہاہا"

"ناچو۔ ۔ ۔ اندھی رقاصہ۔ ۔ ۔ ناچو۔ ۔ ۔ کیپٹن فیاض تمہارا کمال دیکھنا چاہتا ہے۔"

"نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔" شاہد دیوانوں کی طرح چیخا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا اور آنکھیں حلقوں سے اُبلی پڑ رہی تھیں۔

لڑکی نے ناچتے ناچتے ایک خالی صوفے پر کچھاک سے خنجر مارا۔ ۔ ۔ اور پھر سیدھی ہو کر ناچنے لگی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

جب بھی وہ ناچتی ہوئی شاہد کے صوفے کے قریب سے گزرتی فیاض آنکھیں بند کر لیتا۔۔۔ اس نے کئی بار اس آدمی کو دھوکا دینے کی کوشش کی مگر وہ گردن سے ریوالور لگائے ہوئے تھا ، کامیابی نہ ہوئی کیونکہ وہ بھی غافل نہیں تھا۔

دفعتا اس نے چیخ کر کہا۔ "شاہد تم خاموش ہی رہنا۔۔۔ ورنہ یہ تمہاری آواز پر آئے گی۔" شاہد کچھ نہ بولا۔ اس کی آنکھوں میں خوف اور بے بسی کے علاوہ اور کسی قسم کے آثار نہیں نظر آ رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور دیوانوں کی طرح ادھر ادھر گردن جھٹکنے لگتا۔

لڑکی ناچ رہی تھی اچانک فیاض کے حلق سے چیخ نکلی۔ اس بار اس نے شاہد پر وار کیا تھا، ساتھ ہی شاہد کی چیخ بھی بلند ہوئی۔

مگر خنجر شاہد کے جسم پر پڑنے کی بجائے شانے کے قریب رکھے صوفے پر پیوست ہو گیا۔

"لڑکی تمہارا نشانہ خطا کر رہا ہے۔۔۔" انگریز نے غصیلے لہجے میں کہا اور لڑکی کے چہرے پر غصے کے آثار نظر آنے لگے۔ خنجر کھینچ کر اس نے پھر ناچنا شروع کر دیا۔

ریکارڈ ختم ہونے پر صرف ایک پل کے لیے سکوت طاری ہوگیا تھا۔ لیکن ساونڈ باکس پھر ریکارڈ کے سرے تک کھینچ کر رکھ دیا گیا۔۔۔ اور لڑکی کا رقص جاری رہا۔

"خدا کے لیے۔۔۔ اس پر رحم کرو۔" فیاض چیخا۔ "اسے کیوں قتل کر رہے ہو۔۔۔ تم دیوانے ہو۔۔۔ پاگل ہو۔"

"میں اس صدی کا سب سے بڑا اور عقل مند ترین آدمی ہوں کیپٹن۔" انگریز چیخ کر بولا۔ موسیقی کی تیز آواز کی بناء پر ایک دوسرے تک اپنی آوازیں پہنچانے کے لیے انہیں حلق پھاڑنا پڑتا تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

شاہد پھر چیخا۔۔۔ اور فیاض کا سر چکرا گیا۔ لڑکی اس پر جُھکی ہوئی تھی اور اس کا ہاتھ۔۔۔

"لڑکی، انگریز دھاڑا۔۔۔ اب میں تمہیں قتل کر دوں گا۔۔۔ تیسرا وار خطا نہ کرے۔۔۔ چلو۔۔۔"

لڑکی نے صوفے سے خنجر کھینچا اور ناچنے لگی۔

اب شاہد اس طرح گڑگڑا رہا تھا جیسے ولیوں اور پیروں سے مدد مانگ رہا ہو۔

وہ ناچ رہی تھی اس کے ہاتھ میں خنجر چمک رہا تھا۔ تیسرا وار۔۔۔ اسے یقینی طور پر موت کے منہ میں لے جائے گا۔ کیپٹن فیاض سوچ رہا تھا۔

"تم کیا کر رہے ہو سور کے بچے؟" وہ ہذیانی انداز میں چیخا۔

"اسے لے جاو یہاں سے دفع کرو۔" انگریز نے گرج کر کہا اور فیاض کو داہنی جانب والے دروازے میں دھکیل دیا گیا۔ وہ فرش پر گر کر کسی چوٹ کھائے ہوئے مینڈک کی طرح کانپنے لگا۔ اس کی کنپٹیاں سنسنا رہی تھیں اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بے ہوش ہو جائے گا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

جولیانافٹنر واٹر کے فون کی گھنٹی بجی اور اس نے ریسیور اُٹھا لیا ، دوسری طرف ایکس ٹو تھا ۔

رپورٹ !!!!! اس کی آواز میں غراہٹ تھی۔

شاہد کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، وہ بالکل نوزائیدہ بچّوں ہی کی طرح رو رہا ہے۔اگر اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تب بھی اس کا رویہ سمجھ دار آدمیوں کا سا نہیں ہوتا ، یہ کیا قصّہ ہے جناب۔

صفدر کی رپورٹ ۔

ابھی تک اس کی طرف سے کوئی رپورٹ نہیں ملی ۔

تم قصّہ پوچھتی ہو ۔

جی ہاں ۔۔۔ ایسی حیرت انگیز باتیں آج تک ۔۔۔۔۔

میری نظروں سے بھی نہیں گذریں ۔لیکن اگر گذریں بھی تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔

آخر یہ لاش بھی اسی طرح دھماکے سے پھٹ کیوں نہیں گئی ۔

یہی تو دیکھنا ہے۔

کیا اس کیس کا بھی اپنے ہی محکمے سے تعلق ہوسکتا ہے۔

ہو یا نہ ہو ۔مگر میں اس میں دلچسپی لے رہا ہوں۔

کیا میں اس سلسلے میں کچھ کرسکتی ہوں؟

نہیں ! ایکس ٹو نے خشک لہجے میں کہا ۔تمہاری لاش شہر کے لیئے وبالِ جان بن جائے گی۔

جولیا کو اس بات پر شرمندگی بھی ہوئی اور غصّہ بھی آیا۔

سنو ! آج مجھے پل پل کی خبریں سناؤ ! دوسری طرف سے آواز آئی۔

بہت بہتر جناب۔

اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

عمران نے بلیک زیرو کے نمبر ڈائل کیئے۔

کیا خبر ہے۔

میں صفدر کا تعاقب کرتا رہا ہوں، لیکن اُس کی دوڑ صرف مارتھا کے گھر تک رہتی ہے۔

آج تم بہت زیادہ ہوشیار ہو گے بلیک زیرو۔

میں ہمیشہ ہی ہوشیار رہتا ہوں جناب۔

صفدر پر نظر رکھو ۔۔۔۔۔ جہاں بھی جائے برابر اس کا تعاقب کرتے رہو۔

بہت بہتر جناب۔

عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

اب وہ کچھ دیر سکون سے بیٹھ کر صرف سوچنا چاہتا تھا۔لیکن اسے اس کا موقع نہ ملا پرائیویٹ فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔

اس نے ریسیور اُٹھایا ، دوسری طرف سے جولیا بول رہی تھی۔

صدیقی کی رپورٹ ہے جناب۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

خاموش مت ہوا کرو ، میں بہت عدیم الفرصت میں رہتا ہوں۔

اس نے ڈاکٹر گلبرٹ کو دیکھ لیا ہے۔یہ ایک لمبا تڑنگا انگریز ہے اور چہرے پر بھوری داڑھی رکھتا ہے۔

پیشہ !“

ڈاکٹر ہے ! وہیں سول لائینز میں مطب کرتا ہے۔

اس کے متعلق کوئی اہم اطلاع ۔

جی نہیں کوئی اہم اطلاع نہیں ہے ! صدیقی نے اتنا ہی بتایا ہے۔

اس دوران میں داور تو اس کے ساتھ نہیں دیکھا گیا ۔

جی نہیں ۔

داور کے متعلق کیا رپورٹ ہے۔

ابھی تک کوئی خاص رپورٹ نہیں ملی ، وہ یا تو ہوٹلوں میں نظر آتا ہے یا پھر اپنی کوٹھی میں ہی نظر آتا ہے۔

پاگل لڑکی کی نگرانی اب کون کر رہا ہے۔

نعمانی ! اور اس نے بھی کوئی خاص رپورٹ نہیں دی، سوائے اس کے کہ وہ زیرِ علاج ہے۔

اور باہر سے دیکھنے کے لیئے کوئی بھی نہیں آیا۔

اور کچھ !!

جی نہیں ۔

عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ "
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

صفدر مارتھا کے فلیٹ والی عمارت سے تھوڑے فاصلے پر تھا دن ختم ہوچکا تھا تاریکی پھیل رہی تھی سڑکیں جگمگا اُٹھی تھیں ۔

مارتھا تقریباً سات بجے فلیٹ سے برآمد ہوئی وہ نیلے اسکرٹ میں تھی اور کافی دلکش نظر آرہی تھی۔

حسبِ دستور تعاقب شروع ہوگیا ۔صفدر اس تعاقب سے کچھ اکتا سا گیا تھا۔کیونکہ ابھی تک کوئی ایسی بات ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی جس کی بناء پر وہ اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ کرسکتا۔بس ہوٹلوں کے پھیرے ہوتے رہتے اور وہ محسوس کرتا کہ مارتھا صادق کے گِرد اپنا جال مضبوط کر رہی ہے۔صرف اسی اتنی سی بات کی بناء پر وہ کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ہوسکتا تھا کہ وہ مارتھا محض ایک پیشہ ور لڑکی ہی ثابت ہوتی۔ایکس ٹو کا یہ خیال غلط ہوتا کہ وہ بھی اس قسم کی لڑکی ہے جیسی ہلدا تھی۔گرینڈ میں داخل ہوتے وقت صفدر نے بہت برا سا منہ بنایا کیونکہ کئی دنوں کی ہوٹل گردی سے وہ تنگ آگیا تھا اور یہ تفریح گاہیں اسے بے حد بورنگ معلوم ہونے لگی تھیں۔

یہاں مارتھا کا نیا شکار صادق موجود تھا۔

اُف فوہ ! میں کتنی خوش ہوئی ہوں تمہیں دیکھ کر !“ مارتھا اس کی میز کے قریب پہنچتی ہوئی بولی ۔ڈر رہی تھی کہ کہیں تمہارا انتظار نہ کرنا پڑے ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ڈرنے کی کیا بات تھی۔صادق بے ڈھنگے انداز میں جھکا ! بیٹھو بیٹھو !“

صفدر نے سوچا کہ وہ عورتوں کے معاملے میں بلکل ہی ڈیوٹ معلوم ہوتا ہے ! وہ بالکل ایسے انداز میں بانچھیں پھاڑے ہوئے تھا جیسے کسی پجاری کو بھگوان نے درشن دے دیئے ہوں اور اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ وہ آرتی اتارے یا قدموں پر سر رکھ دے۔

تم کیا جانو ، وہ ٹھنڈی سانس لے کر مغموم لہجے میں بولی !“ تم نہیں سمجھ سکتے کہ میں تم سے کتنی محبت کرنے لگی ہوں۔

ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔! وہ بے ڈھنگے پن سے ہنس دیا۔ "
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”