خطرناک لاشیں

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اچانک عمران کی نظریں ایک آدمی پر رک گئیں جو ان سے تھوڑے ہی فاصلے پر بیٹھا پائپ میں تمباکو بھر رہا تھا۔ یہ وہی آدمی تھا جس نے پچھلی شام کیفے کاسینو میں ہلدا کے قریب سگریٹ کا خالی پیکٹ پھینکا تھا۔

یہ تھا تو دیسی ہی لیکن وجیہہ اور جامہ زیب آدمی تھا۔ چہرے پر معصومیت تھی جس کی بنا پر یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی غلط راستے کا راہرو ہوگا۔

اس نے صفدر کو بھی دیکھا جو لان پر اوندھا پڑا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد لڑکی وہاں سے تنہا رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔جب وہ پھاٹک سے گزر گئی تو عمران نے صفدر کو بھی اٹھتے دیکھا۔

شاہد جانوروں کے کٹہرے کی طرف چلا گیا، لیکن وہ آدمی جہاں تھا وہیں بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ گویا اسکا کام یہ تھا کہ وہ اسی وقت ہلدا پر نظر رکھے جب تک شاہد اسکے ساتھ دیکھا جائے۔

یہ چیز عمران کے لئے غیر متوقع بھی نہیں تھی، اس نے پچھلی شام ہی اندازہ کر لیا تھا کہ خود لڑکی کے آدمی بھی اسکی نگرانی کرتے ہیں اور یہی دیکھنے کے لئے وہ اس وقت یہاں آیا تھا، مگر یہ چیز اسکے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ اس وقت بھی اسی آدمی سے مڈ بھیڑ ہو گی جس نے سگریٹ کا پیکٹ پھینکا تھا۔

اس اتفاق نے اس کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی تھیں، اگر اس آدمی کے علاوہ کوئی دوسرا اس وقت لڑکی کی نگرانی پر مامور ہوتا تو شاید عمران کو اس کا علم ہی نہ ہو سکتا کہ لڑکی کی نگرانی ہو رہی ہے کیونکہ وہ آدمی بھی اسی آدمی کی طرح وہیں بیٹھا رہ جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔شاہد اپنی راہ لگتا اور ہلدا اپنی راہ؟

یہ آدمی عمران کو ہلدا سے زیادہ اہم معلوم ہو رہا تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھا اور عمران نے اسکا تعاقب شروع کر دیا لیکن اب ایک نئی دشواری آ پڑی تھی۔ عمران نے سوچا کہ اگر وہ پیدل ہی چلتا رہا تو خود اسکی گاڑی میونسپل گارڈن کے باہر ہی کھڑی رہ جائے گی مگر باغ کے باہر پہنچتے ہی عمران کی باچھیں کھل گئیں کیونکہ یہ مشکل بھی آسان ہو گئی تھی، وہ آدمی ایک موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا اسے اسٹارٹ کر رہا تھا۔

بس تھوڑی دیر بعد عمران کی کار موٹر سائیکل کے پیچھے لگ گئی، موٹر سائیکل کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ شاید وہ آدمی اس معاملے میں کافی حد تک محتاط تھا۔

ہلدا کے مقابلے میں اس آدمی کو اہمیت دینے کا مقصد یہ تھا کہ عمران جلد از جلد اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ سکے کیونکہ وہ اب مطمئن تھا۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ان لوگوں کا تعلق انہیں پر اسرا لاشوں سے ہوگا۔ ہو سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی دوسرے چکر میں ہوں اور ان سے اتفاقاً ہی ٹکراؤ ہو گیا ہو۔

ہلدا کے متعلق تو ابھی تک کی رپورٹوں کا ماحصل صرف اتنا ہی تھا کہ وہ ایک مشن ہسپتال میں نرس ہے اور ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی بھی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہو سکا تھا کہ اسکے ملنے جلنے والوں سے متعلق بھی معلومات حاصل ہو سکیں لیکن اس میں ناکامی ہی ہوئی تھی۔ ویسے ایک عمران کو ملا تھا مگر اسکا رویہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہی تھا کہ دونوں کے تعلقات کی نوعیت پر روشنی نہیں پڑ سکتی تھی۔ وہ تو بس اسکی نگرانی کرتا تھا اور اس رویہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ آدمی بھی کسی کو جواب دہ ہوگا۔ مگر نہیں، عمران نے سوچا، یہ بھی ممکن ہے کہ صرف انہیں دونوں نے کسی قسم کا کھیل شروع کر رکھا ہو اور کسی تیسرے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

موٹر فراٹے بھرتی رہی اور اسکا تعاقب جاری رہا، تھوڑی دیر بعد عمران نے اسے ایک تار گھر کے سامنے رکتے دیکھا۔ وہ موٹر سائیکل سے اتر کر اندر چلا گیا۔ عمران بھی گاڑی روک کر اترا، دوسرے ہی لمحے میں وہ بھی تار گھر کے کمپاؤنڈ میں تھا۔

پھر اس نے اسے کھڑکی سے تار کا فارم لیتے دیکھا، وہ کھڑکی ہی پر جلدی جلدی فارم پر کچھ لکھنے لگا تھا جیسے ہی اس نے فارم لکھ کر کاؤنٹر کلرک کو دیا، عمران ٹیلی فون بوتھ میں گھس گیا اور پھر اس نے بڑی پھرتی سے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔ یہاں ایکس ٹو کا لہجہ اختیار کرنے کا موقع نہیں تھا اس لئے اس نے اسے عمران ہی کی حیثیت میں مخاطب کیا۔

اسکی نظر کلائی کی گھڑی پر تھی اور وہ ماؤتھ پیس میں کہہ رہا تھا۔ "جولیا، کریم پورہ کے تار گھر سے تین بج کر سترہ منٹ پر ایک تار دیا گیا ہے، فوراً پتہ لگاؤ کہ تار کسے اور کہاں دیا گیا ہے اور تار دینے والے کا نام اور پتہ بھی چاہئے۔ ارے ہاں میں عمران ہوں جلدی کرو۔۔۔۔۔فوراً۔۔۔۔۔؟"

اس نے سلسلہ منقطع کر دیا اور بوتھ میں رک کر اس آدمی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ پھر جب اسکی موٹر سائیکل کافی فاصلے پر پہنچ گئی تو عمران نے بوتھ سے نکل کر تعاقب کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ سلسلہ گرین اسکوائر کی ایک کوٹھی میں ختم ہوا۔ عمران عمارت پر نظر ڈالتا ہوا آگے نکل گیا، کچھ دور جا کر اس نے کار روک دی اور نیچے اتر آیا۔

اب وہ کوٹھی کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ پھاٹک پر اسے کسی کی نیم پلیٹ نہیں نظر آئی، ویسے وہ آس پاس کی شاندار عمارتوں میں سے تھی۔ عمران نے کوٹھی کے محلِ وقوع پر تفصیلی نظر ڈالی اور پھر اپنی کار میں آ بیٹھا۔۔۔۔۔۔۔اب وہ واپس جا رہا تھا۔

اپنے فلیٹ پر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے جولیا کو فون کیا، اس بار وہ ایکس ٹو کی حیثیت سے بول رہا تھا۔ "کیپٹن خاور سے کہو کہ گرین اسکوائر میں پیٹرک بار کے سامنے والی کوٹھی کی نگرانی کرے۔۔۔۔۔۔۔اس میں خصوصیت سے ایسے آدمی پر نظر رکھنی ہے جسکی چال میں خفیف سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔ وہ آدمی اس وقت اسی عمارت میں ہے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"بہت بہتر جناب۔"

"یہ کام جلد سے جلد شروع ہونا چاہئے، اسے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ اس عمارت میں کون رہتا ہے اور اس آدمی کا اس سے کیا تعلق ہے جسکی چال میں ۔۔۔۔۔۔۔ لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔"

"بہتر جناب۔"

"عمران نے جس تار کے متعلق تم سے کہا تھا اس کے لئے کیا ہوا۔"

"اوہ۔۔۔۔۔۔وہ، جی ہاں، اس سلسلے میں لیفٹیننٹ صدیقی تفتیش کر رہا ہے۔"

"ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی۔"

"جی نہیں ۔۔۔۔۔۔"

"جیسے ہی معلوم ہو مجھے مطلع کرنا۔"

"تو عمران کو اطلاع نہ دی جائے۔"

"نہیں۔۔۔۔۔۔تم براہِ راست مجھے اطلاع دو گی۔"

"بہت بہتر جناب۔"

عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

اس نے کپڑے اتارے اور صرف انڈر ویئر اور بنیان ہی میں رہا، حالانکہ سردیوں کے دن تھے اور یہاں کمرے میں ٹھنڈک بھی تھی لیکن موج ہی تو ہے، آرام کرسی پر نیم دراز ہو کر اس نے سلیمان کو آواز دی اور وہ پہلے ہی سے چائے کی ٹرے سنبھالے ہوئے ادھر ہی آ رہا تھا۔

"ابے تو بولتا کیوں نہیں؟"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"جب آ ہی رہا تھا تو بولنے کی کیا ضرورت تھی۔" سلیمان نے کہا۔

"اچھا جی، اگر آتے وقت کوئی تمھاری گردن اڑا دیتا تب بھی تم خاموش ہی رہتے۔"

"نہیں صاحب، لپٹ پڑتا اس سے، خون پی لیتا۔"

"لپٹ پڑتے۔" عمران دہاڑا۔ "ابے تو پھر ان قیمتی برتنوں کا کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔نمک حرام کہیں کے۔"

"نمک حرام نہ کہا کیجئے صاحب۔" سلیمان نے برا مان کر کہا۔

"کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔" عمران نے آنکھیں نکالیں۔

"اگر نمک حرام ہوتا تو دو آنے سیر کبھی نہ بکتا بلکہ بوتلوں میں پچپن روپے فی بوتل کے حساب سے فروخت ہوتا اور لوگ نمکین پکوڑے کھا کر ادھر ادھر غل غپاڑے مچاتے پھرتے۔"

"تیری باتیں سمجھنے کے لئے ارسطو کا دماغ چاہئے، میری سمجھ میں تو نہیں آتیں۔ ابے تو کھڑا منہ کیا دیکھ رہا ہے۔"

سلیمان نے چائے کی کشتی میز پر رکھ دی اور روہانسی آواز میں بولا۔ "آج میں بالکل پھکڑ ہوں اور بلبل ٹاکیز میں زندہ ناچ گانے کا آج آخری پروگرام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔میرے خدا میں کیا کروں۔"

"خدا تیرے گناہ معاف کرے سلیمان۔" عمران ٹھنڈی سانس لیکر بولا۔

"وہ تو روز کے روز معاف ہوتے رہتے ہیں صاحب، آپ ان کے لئے پریشان نہ ہوں، اب اگر آج ہی آپ صرف ایک شو کے پیسے دلوا دیں تو واپسی پر خوب توبہ کروں گا۔۔۔۔۔۔سر پیٹوں گا۔۔۔۔۔۔ناک رگڑوں گا اور گڑ گڑاؤں گا، اللہ رحم کرے گا اور میرے آج کے گناہ معاف ہو جائیں گے، ہائے کیا آپ نے یہ شعر نہیں سنا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں رحمت کو بے پناہ کیے جا رہا ہوں میں"

"سلیمان۔"

"جی صاحب۔"

"اب تو میرے لائق نہیں رہ گیا۔"

"کیوں صاحب۔"

"تیرے لئے پیری مریدی زیادہ مناسب رہے گی، کیوں خواہ مخواہ میری عاقبت اور اپنی دنیا برباد کر رہا ہے۔"

"میں نے بھی سوچا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔مگر نہیں چلے گی۔" سلیمان نے پیالی میں جائے انڈیل کر شکر ملاتے ہوئے کہا۔

"کیوں نہیں چلے گی۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ابھی میری شادی نہیں ہوئی اس لئے ڈاڑھی نہیں رکھ سکوں گا۔"

"شادی کے بغیر مر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟"

"اب تو یہی سوچا ہے کہ اگر سال تک شادی نہ ہوئی تو مر ہی جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سلیمان۔"

"جی صاحب۔"

"میں تجھے ڈس مس کر دوں گا اگر تو نے شادی کی۔"

"شادی نہ ہوئی تو میں خود ہی اپنے کو ڈس مس کر لوں گا صاحب۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"جی ہاں، یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ نہ کسی سے لڑائی نہ جھگڑا نہ گالی گلوچ نہ جوتم نہ پیزار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو تنگ آ گیا ہوں ایسی چپ چپاتی زندگی سے۔"

عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔۔۔۔یہ عمران کا فون تھا، ایکس ٹو کا نہیں۔

"ابے دیکھ تو کون ہے۔" عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔

سلیمان نے کال ریسیو کی اور ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کر عمران سے کہا۔ "کیپٹن فیاض صاحب ہیں۔"

"اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔" عمران مکا ہلا کر بولا۔ "کہہ دو صاحب مر گئے۔"

"صاحب مر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" سلیمان نے ببانگ دہل کہا اور فوراً ہی سلسلہ منقطع کر دیا۔

"ابے۔۔۔۔۔۔یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔کیا؟"

"جو کچھ آپ نے کہا تھا۔" سلیمان نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔

"غصے میں کہا تھا۔" عمران غصیلی آواز میں بولا۔

سلیمان پھر فون کی طرف جھپٹا۔۔۔۔۔۔۔۔اور عمران نے ڈانٹ کر پوچھا۔

"اب کیا ہے۔"

"کپتان صاحب کو بتا دوں کہ غصے میں مر گئے تھے۔"

"ابے اس شہر میں رہنا محال ہو جائے گا۔"

"پھر بتایئے نا کیا کروں؟" سلیمان اپنی پیشانی پر دو ہتھڑ مار کر بولا۔

"بلبل ٹاکیز۔" عمران اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔

"خدا آپ کو سلامت رکھے صاحب، صرف تین روپے۔۔۔۔۔۔سالوں نے بارہ آنے والی سیٹیں پیچھے پھینکوا دی ہیں۔۔۔۔۔۔۔بھلا بتایئے اتنی دور سے کیا مزا آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔مس بمبولا فلم اسٹار ڈانس کرے گی۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر تجھے بلبل ٹاکیز کی گیٹ کیپری مل جائے تو کیسی رہے گی۔"

"ہاں۔۔۔۔۔۔۔بہت اچھا ہوتا۔" سلیمان مایوسانہ لہجے میں بولا۔

"مگر پھر آپ کو رات کا کھانا ایک بجے سے پہلے نہیں مل سکتا۔"

"ابے میں تجھے ڈس مس کر دینے کے متعلق سوچ رہا ہوں۔"

"ذرا کر کے تو دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ ہی سے اپنی گردن ریت ڈالوں گا۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ کو قاتل کا سراغ لگانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔اس سے کیا فائدہ؟"

دفعتاً پرائیوٹ فون کی گھنٹی بجی اور عمران چائے چھوڑ کر اس کمرے میں چلا آیا جہاں پرائیوٹ یعنی ایکس ٹو کا فون تھا۔

دوسری طرف سے جولیا بول رہی تھی۔ "جولیانا سر، وہ تار کسی مسٹر داور نے دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔تار کا مضمون تھا کہ وہی پھر اسکے ساتھ تھا۔ یہ تار مقامی ہی تھا۔ سول لائن کے کسی ڈاکٹر گلبرٹ کے لئے تھا۔ پتہ ایک سو تیرہ اے، سول لائنز۔"

"تار دینے والے کا پتہ۔" عمران نے پوچھا۔

"گرین اسکوائر کی گیارہویں عمارت۔"

"گڈ۔۔۔۔۔۔۔۔" عمران نے ایکس ٹو کے لہجے میں کہا۔ "اب صدیقی سے معلوم کرو کہ گرین اسکوائر کی وہ گیارہویں ہی عمارت تو نہیں ہے جسکی نگرانی کے لئے اسے ہدایت کی گئی ہے۔"

"جی ہاں۔۔۔۔۔وہی عمارت ہے، صدیقی نے ابھی ابھی اپنی رپورٹ دی ہے اور اس شخص کا نام بھی داور ہے جسکی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔"

"بہت خوب۔" عمران نے کہا۔ "تم بہت اچھی جا رہی ہو۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"بہت بہت شکریہ جناب۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "صفدر کی رپورٹ بھی سن لیجئے، وہ اس لڑکی کو ہسپتال تک پہنچا کر واپس آ گیا ہے۔ اسکے علاوہ اور کوئی خاص قابل ذکر بات نہیں ہے۔"

"اچھا۔۔۔" عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

وہ اس ڈاکٹر گلبرٹ کے متعلق سوچنے لگا تھا جسے تار دیا گیا تھا۔

وہ نشست کے کمرے میں آ کر پھر چائے پینے لگا۔ سلیمان کچن میں جا چکا تھا۔ وہ بھی اچھا ہی ہوا تھا کیونکہ اب عمران تفریح کے موڈ میں نہیں تھا بلکہ کچھ دیر سنجیدگی سے سوچنے کے لئے وقت چاہتا تھا۔

لیکن اسے وقت نہ مل سکا کیونکہ کوئی باہر سے کال بل کا بٹن دبا رہا تھا۔ عمران نے جسم پر بے رنگ گاؤن ڈالا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ جانتا تھا کہ آنے والا کیپٹن فیاض کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا، اس نے دروازے کی چٹخنی گرا دی۔

فیاض آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا۔

"اوہ۔۔۔۔۔تو تم موجود ہو۔" اس نے غرا کر کہا۔

"کیوں۔۔۔۔۔۔میں نے کہا خیریت ہے نا۔"

"اب تمھارے نوکروں کو بھی یہ مجال ہو گئی ہے کہ میرا مذاق اڑائیں۔"

"کیوں؟ کیا ہوا؟" عمران نے حیرت ظاہر کی پھر یک بیک چہرے پر شرمندگی کے آثار پیدا کر کے بولا۔ "ارے ہاں۔۔۔۔۔۔میں اس سور کو عنقریب ڈس مس کرنے والا ہوں، ابھی جب میں نے یہاں قدم رکھا تو وہ شراب کے نشے میں دھت تھا اور یہ دیکھو۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

عمران نے لبادے کی ڈوری کھول دی اور صرف انڈر ویئر اور بنیان میں اس کے سامنے کھڑا رہا۔

"کیا مطلب۔" فیاض نے تیکھے لہجے میں کہا۔

"روزانہ صرف کوٹ اتارا کرتا تھا، آج کمبخت نے نشے میں پتلون بھی کھینچ لی۔۔۔۔۔۔اب تم ہی بتاؤ، مگر تمھاری شان میں کیا گستاخی کی اس گدھے نے۔"

"میں نے فون پر تمھارے متعلق دریافت کیا تھا، بولا کہ صاحب مر گئے۔"

"حد ہو گئی نمک حرامی اور بد خواہی کی۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ "حالانکہ وہ سور اچھی طرح جانتا ہے کہ میں آج کل بالکل مفلس ہو رہا ہوں، مر گیا تو کفن کہاں سے آئے گا۔"

فیاض کچھ نہ بولا، برا سا منہ بناتے ہوئے بیٹھ گیا۔

"چائے سوپر فیاض۔"

"نہیں شکریہ، تم میرے لئے بے حد تکلیف دہ ہوتے جا رہے ہو۔"

"اتفاق سے یہی شکایت مجھے بھی تم سے ہے۔"

"کیوں، میں نے کیا کیا ہے۔"

"آخر کار تمھارے آدمیوں نے عقلمندی کا ثبوت دینا شروع کر دیا۔"

"کیا تمھارا اشارہ اس لڑکی ہلدا کے معاملے کی طرف ہے۔"

"یقیناً"

"تم اسکے بارے میں کیا جانتے ہو۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"جب یہ معلوم ہے کہ تمھارا آدمی اس سے ربط و ضبط بڑھا چکا ہے تو میں نے کچھ معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔"

"لیکن اسکے باوجود بھی پچھلی شام کیفے کاسینو میں نظر آئے تھے۔" فیاض کا لہجہ طنزیہ تھا۔

"اور یہ واقعی ایک بہت بڑا گناہ تھا کیونکہ اتفاق سے انسپکٹر شاہد اور ہلدا بھی وہیں موجود تھے۔"

"میں یقین نہیں کر سکتا کہ تم وہاں اتفاقاً گئے تھے۔"

"یقین نہ کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ میں بہرحال وہاں موجود تھا۔"

"خیر اس سے بحث نہیں ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ تم اس لڑکی کے چکر میں نہ پڑو۔" فیاض مسکرایا۔

"تب تو پھر میرا خیال ہے کہ تمھارا اندازہ غلط ہی نکلا ہے۔"

"قطعی غلط! مجھے یقین ہے کہ تصویر کی شناخت میں غلطی ہوئی تھی۔"

"ہاہا۔۔۔! میں تو جانتا ہی تھا! مگر چلو خیر اچھا ہے۔ شاہد کی شامیں کچھ دنوں تک دلچسپی میں گزریں گی۔"

فیاض کچھ نہ بولا! عمران اپنے لئے چائے کی دوسرے پیالی تیار کر رہا تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ہاں۔۔۔ تو پھر اب کس سمت تمہارے گھوڑے دوڑ رہے ہیں!" عمران نے ہنس کر پوچھا۔

"سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے!"

"جس دن سمجھ میں آ گیا تم اپنے جامے سے باہر نظر آؤ گے۔"

"کیا مطلب!"

"کچھ بھی نہیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ یہ جامے سے باہر ہونا بھی شاید ایک محاورہ ہے!"

"میں اس وقت محاوروں پر بحث سننے نہیں آیا!"

"پھر تم جو حکم دو!" سوپر فیاض۔

"اس کیس میں میری مدد کرو، ورنہ بڑی بدنامی ہو گی۔"

"اب بتاؤ! میں کیا کروں!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ "ایک لڑکی ہاتھ لگی تھی وہ بھی اس طرح نکلی جا رہی ہے!"

"ابھی تک اس کے متعلق اس سے زیادہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ اقوام متحدہ کے ادارہ خدمت خلق کی طرف سے یہاں بھیجی گئی ہے اور امریکن مشن ہسپتال کے ایک کمرے میں اس کا قیام ہے!"

"آھ کل کے زمانے میں اتنی ہی معلومات بہت کافی ہیں۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

"کیا تم اس سے زیادہ جانتے ہو۔" فیاض اسے گھورنے لگا۔

"ہرگز نہیں۔ بھلا میں اس سے زیادہ کیسے جان سکتا ہوں۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"نہیں تمہارے انداز سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔"

"ابے تم کون ہو میرے ناز و انداز دیکھنے والے۔" عمران نے غصیلے لہجہ میں کہا۔

"بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔" فیاض نے کہا اور سگریٹ سلگانے لگا۔

دفعتا فون کی گھنٹی بجی اور عمران نے آگے بڑھ کر ریسیور اٹھایا۔

" ہیلو۔۔۔!" عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا۔

"میں ہوں سلیمان۔۔۔ صاحب!" دوسرے طرف سے آواز آئی۔ "یہاں پرائیویٹ فون پر آپ کی کال تھی۔ میں نے ڈس کنکٹ کر کے۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ اب آپ کو اطلاع دے رہا ہوں۔"

"اچھا، اچھا۔ میں آ رہا ہوں۔" عمران نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔

سلیمان نے اس وقت بڑی ذہانت سے کام لیا تھا۔ پرائیوٹ فون کی گھنٹی بجی تھی۔ اس نے ریسیور اٹھا کر سلسلہ منقطع کر دیا تھا اور پھر عمران کے ذاتی فون کے نمبر ڈائیل کئے تھے۔ اس طرح دونوں کمروں کے درمیان رابطہ قائم ہو گیا تھا۔

پرائیویٹ فون پر جولیا کے علاوہ اور کس کی کال ہوتی۔

"کیا تمہیں باہر جانا ہے۔" فیاض نے پوچھا۔

"نہیں تو۔"

"مگر تم نے ابھی کسی سے وعدہ کیا ہے۔"

"آہا۔۔۔!" عمران نے جھینپتے ہوئے انداز میں قہقہہ لگایا اور پھر بولا۔ "یار فیاض یہ نہ جانے کون لڑکی ہے خواہ مخواہ فون پر بور کیا کرتی ہے۔ کہتی ہے آ جاؤ۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔ آ جاؤ۔ پھر اس کے علاوہ میں کیا کہوں کہ اچھا آ رہا ہوں!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"شاید میرے دماغ کی خرابی ہی مجھے اس طرف لائی ہے۔" فیاض بڑبڑایا۔

"قطعی قطعی سوپر فیاض۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ " میں کہتا ہوں کہ اگر تم صرف ایک ہی رات اس چھت کے نیچے گزارو تو پاگل کتے بھی تم سے پناہ مانگنے لگیں گے۔"

"عمران پچھتاؤ گے کسی دن۔ یہ میری وارننگ ہے۔" فیاض اٹھتا ہوا بولا۔

"آخری وارننگ تو نہیں ہے سوپر فیاض۔" عمران نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں پوچھا۔

لیکن فیاض اس کا جواب دیئے بغیر باہر نکل گیا۔

عمران نے بہت احتیاط سے دروازہ بند کیا اور پھر اس کمرے سے چلا آیا جہاں پرائیویٹ فون تھا۔ اس نے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔ دوسری طرف سے جلد ہی جواب ملا۔

"میں نے ابھی آپ کو رنگ کیا تھا جناب۔" جولیا نے کہا۔ " صفدر پھر ہسپتال جا پہجچا ہے۔"

"مگر میں نے منع کر دیا تھا۔"

"میں اسے مطلع کرنا بھول گئی تھی جناب۔ معافی چاہتی ہوں۔ مگر اس وقت اس کی طرف سے ملی ہوئی اطلاع اہم بھی ہو سکتی ہے۔"

"ارے پوری بات بھی تو بتاؤ نا۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"لڑکی کسی سے خائف معلوم ہوتی ہے۔ اپنے کمرے میں بند ہو گئی ہے۔ کئی آدمی اس کا کمرہ کھلوانے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن انہیں ناکامی ہوئی ہے۔"

"تب پھر کہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خائف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مر گئی ہو۔"

"میں نے بھی صفدر سے یہی سوال کیا تھا۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ لڑکی زندہ ہے اور وہ دروازہ کھول کر باہر آنے سے انکار کر رہی ہے۔"

"اور کچھ۔۔۔!"

"دروازہ کھلوانے والوں میں ایک لڑکی بھی ہے جس کا تعلق ہسپتال سے نہیں ہے اور یہ لڑکی بھی غیر ملکی ہی ہے۔ صفدر اس کی قومیت کا اندازہ نہیں کر سکا۔"

فکر نہیں۔ ساری دنیا کی عورتیں ایک ہی قوم ہیں۔" عمران نے کہا۔

"میں نہیں سمجھی جناب۔"

"کچھ نہیں۔" عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

وہ بحثییت ایکس ٹو ان سے غیر ضروری گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔

وہ پھر اپنی نشست کے کمرے میں آیا۔ کپڑے پہننے اور باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا اور خنکی بھی بڑھ گئی تھی۔

وہ اس حصے تک پیدل آیا جہاں کرائے پر گیراج لے رکھا تھا۔ گیراج میں داخل ہو کر اس نے دروازہ بند کر دیا۔

پھر کار کی ڈگی سے وہ سوٹ کیس نکالا جس میں میک اپ کا سامان رہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے چہرے کی بناوٹ میں خاصی تبدیلیاں نظر انے لگیں۔ اب وہ کار گیراج سے نکال رہا تھا۔ گیراج کے چوکیدار اسے پہچانتے تھے اس لئے اس نے فلٹ ہیٹ کا گوشہ نیچے جھکا لیا تھا اور کوٹ کے کالر کھڑے کر لئے تھے۔کار تیزی رفتاری سے امریکن مشن ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئی۔ عمران سوچ رہا تھا کہ فیاض کے آدمیوں سے بہت بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے۔ پتہ نہیں اس کا انجام کیا ہو۔ یہ تو کھلی ہوئی بات تھی کہ وہ کسی دوسرے کے لئے ہی کام کر رہی تھی۔۔۔ اور ایسے لوگ جو دوسروں کے لئے کوئی غیر قانونی حرکت کرتے ہیں اگر پولیس کی نظروں میں آ جائیں تو ان کی زبان کھلنے کے خوف سے کام لینے والا ان کی زندگیوں کے خواہاں ہو جاتا ہے۔

عمران نے کار کی رفتار تیز کر دی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کیپٹن فیاض نے ابھی ابھی گھر میں قدم رکھا تھا۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے وہ اپنا موڈ ٹھیک کر لینا زیادہ مناسب سمجھتا تھا۔ کیونکہ اس کی بیوی اس کی پیشانی پر شکنیں دیکھ کر اور زیادہ بور کرنا شروع کر دیتی تھی۔

لیکن جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، فون کی گھنٹی بجی اور اس کے ہونٹوں پر بکھری ہوئی زبردستی کی مسکراہٹ غضب آلود کھنچاؤ میں تبدیل ہو گئی۔

وہ ہر سامنے آتی ہوئی چیز کو ٹھوکر سے ہٹاتا ہوا فون کی طرف جھپٹا۔

"ہیلو!" وہ ماؤتھ پیس میں غرایا۔

دوسری طرف سے خالص اختری بائی فیض آبادی کے اسٹائل میں آواز آئی۔ "دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔"

"کون بیہودہ ہے؟"

"سوپر فیاض! وہی پرانا خادم!" فیاض نے اب عمران کی آواز پہچان لی اور دانت پیس کر بولا۔ " اب کیا ہے؟"

"امریکن ہسپتال پہنچ کر اپنی عقل مندی کا ثبوت ملاحظہ کرو۔ مگر ان برخوردار شاہد سلمہا کو ساتھ لانا مت بھولنا۔"

"آخر بات کیا ہے؟" فیاض کا لہجہ نرم ہو گیا۔

"ہلدا پاگل ہو گئی ہے۔"

"نہیں۔۔۔!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"ہاں پیارے۔ پاگل پن کے معاملے میں ہمیشہ بے حد سنجیدہ رہتا ہوں۔ تم آؤ تو!"

"تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔"

" میں اس وقت ہسپتال سے زیادہ دور نہیں ہوں!"

"اچھا میں آ رہا ہوں! لیکن یہ بات غلط نکلی تو اچھا نہ ہو گا۔"

"آو بھی۔۔۔!" دوسری طرف سے کہا گیا اور پھر سلسلہ منقطع ہونے کے آواز آئی۔

اب فیاض نے انسپکٹر شاہد کو فون پر تلاش کرنے کی مہم شروع کر دی۔ بدقت تمام وہ مل سکا اور فیاض نے اسے امریکن ہسپتال پہنچنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی جلد ہی پہنچ جائے گا۔

پھر فیاض نے کسی طرح ایک پیالی چائے حلق میں انڈیلی اور امریکن مشن ہسپتال کی طرف خود بھی روانہ ہو گیا۔ اس کی کار ہوا سے باتیں کرتی جا رہی تھی۔

ہسپتال میں پہنچنے پر شاہد سے جلد ہی ملاقات ہو گئی۔ وہ بہت زیادہ بوکھلایا ہوا نظر آ رہا تھا۔

"وہ پاگل ہو گئی ہے جناب۔ اس وقت آپریشن تھیٹر میں بے ہوش پڑی ہے۔" اس نے کہا۔

"کیا قصہ ہے؟"

"کچھ دیر قبل کسی نے اس کے کمرے کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر کئی آدمیوں نے کوسس کی۔ آخر کار وہ کمرے سے نکل ائی۔ اپنے کپڑے چیر پھاڑ ڈالے۔۔۔! اچھلتی کودتی رہی پھر گر کر بے ہوش ہو گئی! اکثر لوگوں پر چیزیں بھی کھینچ ماری تھیں!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"سب سے پہلے کس نے دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تھی!"

"یہی سوال یہاں بھی دہرایا جا رہا ہے! لیکن اھی تک معلوم نہیں ہو سکا! ہسپتال کا عملہ اس سے لاعلمی ظاہر کرتا ہے!"

"شاید۔!"

"جی۔۔۔!"

"یہ سب کچھ محض تمہاری حماقتوں کا نتیجہ ہے! تم سے کس گدھے نے کہا تھا کہ اس سے مل بیٹھو!"

"مم! میں نے سوچا تھا جناب!"

"خاموش رہو! دوسروں کو ہنسنے کا موقع دیتے ہو! ایک بہترین گواہ ہاتھ سے نکل گیا!"

شاہد کچھ نہ بولا! سر جھکائے کھڑا رہا۔ فیاض کچھ سوچنے لگا تھا!

یک بیک اس نے کہا! "مگر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی وقتی قسم کا دورہ ہو!"

"نہیں جناب! ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ وہ یک بیک ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ اس قسم کے دورے اس پر کبھی نہیں پڑھے۔ خیال ہے کہ وہ مستقل طور پر پاگل ہو سکتی ہے!"

فیاض پھر خاموش ہو گیا! کچھ دیر پہلے ہی وہ عمران کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہلدا کوئی غیر متعلق لڑکی ہے اور تصویر شناخت کرنے والے سے غلطی ہوئی تھی! پھر یک بیک اسے ہو کیا گیا۔

کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس حادثے میں کسی آدمی کا ہاتھ ہو!

پھر اب کیا کرنا چاہیے!

فیاض کو اس وقت کلی طور پر یقین ہو گیا تھا کہ عمران اس کیس کے سلسلے میں اس سے کہیں زیادہ باخبر ہے!

پھر کیا؟ اسے عمران ہی کو ٹٹولنا چاہیے! مگر یہ آسان کام نہیں تھا۔ اور اب تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ شتر غمزے دکھائے گا۔

"جاؤ اب آرام کرو!" اس نے شاہد سے زہریلے لہجے میں کہا۔ "کھیل بگڑ چکا ہے!"

"مجھے بے حد شرمندگی ہے! کپتان صاھب! میں معافی چاہتا ہوں! جی ہاں! مجھ سے حماقت سرزد ہوئی تھی!"

فیاض دوسری طرف مڑ گیا! اس نے ہسپتال میں پوچھ گچھ کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

دوسرے صبح عمران نے بلیک زیرو کو فون کیا!

"کیا خبر ہے! وہ ہوش میں آئی یا نہیں؟"

"آ گئی ہے جناب! مگر پھر بھی بے ہوش ہی ہے!"

"کیوں؟"

" نہ تو وہ کسی کو پہچانتی ہے اور نہ ہوش کی باتیں کرتی ہے۔"

"لیکن اس کے باوجود تمہیں اس پر نظر رکھنی ہے۔"

"بہت بہتر جناب۔"

عمران نے سلسلہ منقطع کر کے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔

اس کی طرف سے بھی فورا ہی کال ریسیو کی گئی۔

"رپورٹ۔۔۔ فٹنر واٹر۔" عمران نے ایکس ٹو کے لہجے میں پوچھا۔

"پچھلی رات لیفٹیننٹ صدیقی نے اس آدمی کا تعاقب کیا تھا جس کی چال میں لنگراہٹ پائی جاتی ہے۔"

"اس آدمی کا نام کیا ہے۔"

.نن۔۔۔ نام! دیکھئے جناب! نام تو مجھے یاد نہیں رہا۔"

"یہ کیا حماقت ہے! مجھے بھی نام تم ہی سے معلوم ہوا تھا۔ لیکن تم اسے بھلا بیٹھی ہو! نہیں جولیا اس طرح کام نہیں چلے گا۔ ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ کان کھلے رکھو! کیا سمجھیں!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"میں معافی چاہتی ہوں جناب۔ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو گی!"

"اس کا نام داور ہے!" عمران نے کہا۔

"اوہ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ داور، داور۔۔۔! ذہن میں تو تھا لیکن بس زبان پر ہی نہیں آ رہا تھا۔"

"اچھا۔۔۔ صفدر!"

"صفدر اس لڑکی کے پیچھے ہے جس نے ہلدا کے کمرے کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تھی۔ اس لڑکی کا تعلق ہسپتال سے نہیں ہے۔ وہ بارٹل سٹریٹ میں رہتی ہے۔ ہوٹلوں میں بیٹھنا اس کا ذریعہ معاش ہے۔"

"اس کے متعلق کوئی اہم بات۔"

"کوئی اہم بات ابھی تک نہیں معلوم ہو سکی۔"

"داور کے بارے میں کوئی خاص بات!"

" اس نے رات کا کچھ حصہ ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں گزارا تھا۔ اور کچھ حصہ گرینڈ میں! تقریبا تین بجے گھر واپس آیا تھا۔ بعد کی رپورٹ ابھی تک نہیں ملی۔"

"سول لائنز والے ڈاکٹر پر کون ہے۔"

"کیپٹن خاور۔۔۔ لیکن وہ ابھی تک اس کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا۔"

"اس ڈاکٹر کا نام یاد ہے۔"

"جی ہاں۔ ڈاکٹر گلبرٹ، یہ انگریز ہے۔"

"کیا وہ اپنے مکان میں موجود نہیں ہے۔"

"یہ بھی نہیں معلوم ہو سکا۔ لیکن مکان پر ڈاکٹر گلبرٹ کا نام کی تختی موجود ہے۔"

"مجھے شام تک اس کے متعلق بہت کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ سمجھیں۔" عمران کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔

"میں خود بھی کوشش کروں گی جناب۔"
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”