پروین شاکر - مجموعہ کلام

اردوشاعری کی کتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

واہمہ

تُمھارا کہنا ہے
تم مُجھے بے پناہ شِدت سے چاہتے ہو
تُمھاری چاہت
وصال کی آخری حدوں تک
مرے___فقط میرے نام ہوگی
مجھے یقیں ہے___مجھے یقیں ہے،
مگر قسم کھانے والے لڑکے!
تُمھاری آنکھوں میں ایک تِل ہے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ہتھیلیوں کی دُعا پھول لے کے آئی ہو

ہتھیلیوں کی دُعا پھول لے کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حِنائی ہو!

کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بھیجے
کِسی کا پیار ہَوا میرے نام لائی ہو!

گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو
کِسی نے صحن میں مہندی کی باڑھ اُگائی ہو

کبھی تو مرے کمرے میں ایسا منظر بھی
بہار دیکھ کے کھڑکی سے، مُسکرائی ہو

وہ سوتے جاگتے رہنے کا موسموں فسوں
کہ نیند میں ہوں مگر نیند بھی نہ آئی ہو
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

وہ رُت بھی آئی کہ میں پُھول کی سہیلی ہُوئی

وہ رُت بھی آئی کہ میں پُھول کی سہیلی ہُوئی
مہک میں چَمپا کلی،رُوپ میں چنبیلی ہُوئی
میں سرد رات کی برکھا سے کیوں نہ پیار کروں
نہ رُت توہے مرے بچپن کی ساتھ کھیلی ہُوئی
زمیں پہ پاؤں نہیں پڑرہے تکبّر سے
نگارِ غم کوئی دُلہن نئی نویلی ہوئی
وہ چاند بن کے مرے ساتھ ساتھ
میں اُس کے ہجر کی راتوں میں کب اکیلی ہُوئی
جو حرفِ سادہ کی صُورت ہمیشہ لکھی گئی
وہ لڑکی تیرے لیے کِس طرح پہیلی ہوئی
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ہم سے جو کُچھ کہنا ہے وہ بعد میں کہہ

ہم سے جو کُچھ کہنا ہے وہ بعد میں کہہ
اچھی ندیا! آج ذرا آہستہ بہہ

ہَوا! مرے جُوڑے میں پُھول سجاتی جا
دیکھ رہی ہوں اپنے من موہن کی راہ

اُس کی خفگی جاڑے کی نرماتی دُھوپ
پاروسکھی! اس حّدت کو ہنس کھیل کے سہہ

آج تو سچ مچ کے شہزادے آئیں گے
نندیا پیاری! آج نہ کُچھ پریوں کی کہہ

دوپہروں میں جب گہرا سناٹا ہو
شاخوں شاخوں موجِ ہَوا کی صُورت بہہ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

نن

وہ میری ہم سبق
زمین پر جو ایک آسمانی رُوح کی طرح سفر میں ہے
سفید پیرہن،گلے میں نقرئی صلیب
ہونٹ___مستقل دُعا!
میں اُس کو ایسے دیکھتی تھی جیسے ذرہ آفتاب کی طرف نظر اُٹھائے! پر____یہ کل کا ذکر ہے
کہ جب میں اپنے بازؤں پہ سررکھے
ترے لیے بہت اُداس تھی
تو وہ مرے قریب آئی
اور مجھ سے کیٹس کے لکھے ہُوئے کسی خیال تک رسائی چاہنے لگی
سو مَیں نے اُس کو شاعرِ جمال کی شریک خواب،فینی،کا پتہ دیا
مگر وہ میری بات سُن کے سادگی سے بولی:
’پیار کس کو کہتے ہیں؟‘
میں لمحہ بھر کو گُنگ رہ گئی!
دماغ سوچنے لگا
یہ کتنی بدنصیب ہے
جو چاہتوں کی لذتوں سے بے خبر ہے
میں نے اُس کی سمت پھر نگاہ کی
اور اُس سمے
مُجھے مری محبیتں تمام تر دُکھوں کے ساتھ یاد آگئیں
محبتوں کے دُکھ___عظیم دُکھ!
مُجھے لگا
کہ جیسے ذرہ___آفتاب کے مقابلے میں بڑھ گیا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اُس وقت

جب آنکھ میں شام اُترے
پلکوں پہ شفق پُھولے
کاجل کی طرح ،میری
آنکھوں کو دھنک چُھولے
اُس وقت کوئی اس کو
آنکھوں سے مری دیکھے
پلکوں سے مری چُومے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ایک شعر

ہمیں خبر ہے ،ہَوا کا مزاج رکھتے ہو
مگر یہ کیا ، کہ ذرا دیر کو رُکے بھی نہیں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اندیشہ ہائے دُور دراز

اُداس شام دریچوں میں مُسکراتی ہے
ہَوا بھی‘دھیمے سُروں میں،کوئی اُداس گیت
مرے قریب سے گُزرے تو گنگناتی ہے
مری طرح سے شفق بھی کسی کی سوچ میں ہے
میں اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوں
مری نگاہ دھندلکوں میں اُلجھی جاتی ہے
نہ رنگ ہے،نہ کرن ہے،نہ روشنی، نہ چراغ
نہ تیراذکر، نہ تیرا پتہ، نہ تیرا سُراغ
ہَوا سے ،خشک کتابوں کے اُڑرہے ہیں ورق
مگرمیں بُھول چُکی ہُوں تمام ان کے سبق
اُبھر رہا ہے تخیلُ میں بس ترا چہرہ
میں اپنی پلکیں جھپکتی ہوں اُس کو دیکھتی ہوں
میں اس کو دیکھتی ہوں اور ڈر کے سوچتی ہوں
کہ کل یہ چہرہ کسی اور ہاتھ میں پہنچے
تو میرے ہاتھوں کی لکھی ہُوئی کوئی تحریر
جو اِن خطوط میں روشن ہے آگ کی مانند
نہ ان ذہین نگاہوں کی زد میں آجائے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں

اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرادیکھوں
شام بھی ہوگئی،دُھند لاگئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں
ایک اِک کرکے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آکر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ،جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتاہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!
بند کرکے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میںہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی مِیں پوری کروں ،ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پُھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کِھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے،اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

پیش کش

پیش کش
اتنے اچھے موسم میں
رُوٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اُٹھارکھیں
آج دوستی کرلیں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر

سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر

بنارہی ہے تری یاد مُجھ کو سلکِ کُہر
پروگئی مری پلکوں میں آج شبنم پھر

وہ نرم لہجے میں کُچھ کہہ رہا ہے پھر مُجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سُروں میں مدھم پھر

تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سُنوں
اُلجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر

نہ اُس کی بات میں سمجھوں نہ وہ مری نظریں
معاملاتِ زباں ہوچلے ہیں مبہم پھر

یہ آنے والا نیا دُکھ بھی اُس کے سر ہی گیا
چٹخ گیا مری انگشتری کا نیلم پھر

وہ ایک لمحہ کہ جب سارے رنگ ایک ہوئے
کِسی بہار نے دیکھا نہ ایسا سنگم پھر

بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اُسے، لیکن
وہ جاتے جاتے انھیں کرگیا ہے پُرنم پھر
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

چارہ گر، ہارگیا ہو جیسے

چارہ گر، ہارگیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دَوا ہو جیسے
مُجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے
میرے ماتھے پہ ترے پیار کا ہاتھ
رُوح پر دست صبا ہو جیسے
یوں بہت ہنس کے ملا تھا لیکن
دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی رِدا ہو جیسے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اتنا معلوم ہے!

اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز
سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہوگا
میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ وبُو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا
اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہوگا!؟

آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیںآئی ہیں؟
میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہوگا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر
خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہوگا
کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہوگا
وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہوگا
راہداری میں، ہرے لان میں ،پُھولوں کے قریب
اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہوگا

نام بُھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا
ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہوگا
بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بُھولا ہوگا
یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں
اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا
جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہوگا
کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہوگی اُسے
اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہوگا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پاکر
دوستوں کو بھی کسی عُذر سے روکا ہوگا
یاد کرکے مجھے، نَم ہوگئی ہوںگی پلکیں
’’آنکھ میں پڑگیا کچھ‘‘ کہہ کے یہ ٹالا ہوگا
اور گھبراکے کتابوں میں جو لی ہوگئی پناہ
ہر سطر میں مرا چہرہ اُبھر آیا ہوگا
جب ملی ہوئی اسے میری علالت کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا
سوچ کہ یہ، کہ بہل جائے پریشانی دل
یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا!

اتفاقاً مجھے اُس شام مری دوست ملی
مَیں نے پُوچھا کہ سنو۔آئے تھے وہ۔کیسے تھے؟
مُجھ کو پُوچھا تھا؟مُجھے ڈُھونڈا تھا چاروں جانب؟
اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنسی دی
اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے
کیا کہا اُس نے ۔۔ مُجھے یاد نہیں ہے لیکن
اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ایک شعر



ایک شعر
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے اُلجھ جاتی ہیں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

خلش

عجیب طرز ملاقات اب کے باررہی
تمھی تھے بدلے ہوئے یا مری نگاہیں تھیں!
تُمھاری نظروں سے لگتا تھا جیسے میری بجائے
تُمھارے گھر میں کوئی اور شخص آیا ہے
تُمھارے عہدے کی دینے تمھیں مُبارکباد
سو تم نے میرا سواگت اُسی طرح سے کیا
جو افسرانِ حکومت کے ایٹی کیٹ میں ہے!
تکلفاً مرے نزدیک آکے بیٹھ گئے
پھر اہتمام سے موسم کا ذکر چھیڑدیا
کُچھ اس کے بعد سیاست کی بات بھی نکلی
اَدب پہ بھی کوئی دوچار تبصرے فرمائے
مگر نہ تم نے ہمیشہ کی طرح یہ پُوچھا
کہ وقت کیسا گُزرتا ہے تیرا، جانِ حیات
۱پہاڑ دن کی اذیت میں کِتنی شدت ہے!
اُجاڑ رات کی تنہائی کیا قیامت ہے!
شبوں کی سُست روی کا تجھے بھی شکوہ ہے؟
غِم فراق کے قصے ،نشاطِ وصل کا ذکر
روایتاً ہی سہی، کوئی بات تو کرتے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

مِری نظر میں اُبھر رہا ہے
وہ ایک لمحہ
کہ جب کسی کی حسین زُلفوں کی نرم چھاؤں میں آنکھ مُوندے
گئے دنوں کا خیال کرکے
تم ایک لمحے کو کھو سے جاؤ گے اور شاید
نہ چاہ کر بھی اُداس ہوگے
تو کوئی شیریں نوایہ پُوچھے گی
’’میری جاں! تم کو کیا ہُوا ہے؟
یہ کس تصور میں کھوگئے ہو؟
تمھارے ہونٹوں پہ صبح کی اوّلیں کرن کی طرح سے اُبھرے گی مُسکراہٹ
تم اُس کے رُخسار تھپتھپاکے
کہوگے اُس سے
میں ایک لڑکی کو سوچتا تھا
عجیب لڑکی تھی۔۔۔کِتنی پاگل!‘‘
تُمھاری ساتھی کی خُوبصورت جبیں پہ کوئی شکن بنے گی
تو تم بڑے پیار سے ہنسو گے
کہو گے اُس سے
’’ارے وہ لڑکی
وہ میرے جذبات کی حماقت
وہ اس قدر بے وقوف لڑکی
مرے لیے کب کی مر چکی ہے!
پھر اپنی ساتھی کی نرم زُلفوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے تم
کہو گے اُس سے
چلو، نئے آنے والی کل میں
ہم اپنے ماضی کو دفن کریں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

شرط

ترا کہنا ہے
’’مجھ کو خالقِ کون ومکاں نے
کِتنی ڈھیروں نعمتیں دی ہیں
مری آنکھوں میں گہری شام کا دامن کشاں جادو
مری باتوں میں اُجلے موسموں کی گُل فشاں خوشبو
مرے لہجے کی نرمی موجہ گل نے تراشی ہے
مرے الفاظ پر قوسِ قزح کی رنگ پاشی ہے
مرے ہونٹوں میں ڈیزی کے گلابی پُھولوں کی رنگت
مرے رُخسار پر گلنار شاموں کی جواں حِدّت
مرے ہاتھوں میں پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے
مرے بالوں میں برساتوں کی راتیں اپنا رستہ بُھول جاتی ہیں
میں جب دھیمے سُروں میں گیت گاتی ہوں
تو ساحل کی ہوائیں
اَدھ کھلے ہونٹوں میں ،پیاسے گیت لے کر
سایہ گُل میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہیں
مرا فن سوچ کو تصویر دیتا ہے
میں حرفوں کو نیا چہرہ
تو چہروں کو حروفِ نوکارشتہ نذرکرتی ہوں
زباں تخلیق کرتی ہوں۔‘‘

ترا کہنا مجھے تسلیم ہے
میں مانتی ہوں
اُس نے میری ذات کو بے حد نوازا ہے
خدائے برگ وگل کے سامنے
میں بھی دُعا میں ہوں،سراپا شکر ہوں
اُس نے مجھے اِتنا بہت کُچھ دے دیا، لیکن
تجھے دے دے تو میں جانوں!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

بس اِتنا یاد ہے



دُعاتو جانے کون سی تھی
ذہن میں نہیں
بس اِتنا یاد ہے
کہ دو ہتھیلیاں ملی ہُوئی تھیں
جن میں ایک میری تھی
اور اِک تمھاری
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا

وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا

وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا بُلاوا تو اِک بہانہ ہوا

خُدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
یہ آنکھیں جن کو کبھی دُکھ کا حوصلہ نہ ہُوا

کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے
وہ روز صبح کا مِلنا تو اَب فسانہ ہُوا

میں سوچتی ہوں کہ مُجھ میں کمی تھی کِس شے کی
کہ سب کا ہوکے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہُوا

کِسے بُلاتی ہیں آنگن کی چمپئی شامیں
کہ وہ اَب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہُوا

دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے
اب یہ دُکھ ، کہ پہن کرکِسے دِکھانا ہُوا

میں اپنے کانوں میں بیلے کے پُھول کیوں پہنوں
زبانِ رنگ سے کِس کو مُجھے بُلانا ہُوا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح

پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
دست گُل پھیلا ہُوا ہے مرے آنچل کی طرح

کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک
جسم برسات میں بھیگے ہُوئے جنگل کی طرح

اُونچی آواز میں اُس نے تو کبھی بات نہ کی
خفگیوں میں بھی وہ لہجہ رہا کومل کی طرح

مِل کے اُس شخص سے میں لاکھ خموشی سے چلوں
بول اُٹھتی ہے نظر، پاؤں کی چھاگل کی طرح

پاس جب تک وہ رہے ،درد تھمارہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

اَب کسی طور سے گھر جانے کی صُورت ہی نہیں
راستے میرے لیے ہوگئے دلدل کی طرح

جسم کے تیرہ وآسیب زدہ مندرمیں
دل سِر شام سلگ اُٹھتا ہے صندل کی طرح
Post Reply

Return to “اردوشاعری”