خوفناک عمارت

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ لاحول ولا قوۃ ۔” وہ آنکھیں ملا کر بولا اور کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا!

اور پھر لیڈی جہانگیر کو بھی ہنسی آگئی ....لیکن وہ جلد ہی سنجیدہ ہوگئی ۔

“ تم یہاں کیوں آئے تھے ؟”

“ اوہ!میں شائد بھول گیا....شائد اداس تھا ....لیڈی جہانگیر تم بہت اچھی ہو! میں رونا چاہتا ہوں۔

“ اپنے باپ کی قبر پر رونا ....نکل جاویہاں سے ! “

“ لیڈی جہانگیر ....کنفیوشس....! “

“ شٹ اپ ! “ لیڈی جہانگیر اتنے زور سے چیخی کہ اس کی آواز بھراگئی۔

“ بہت بہتر! “ عمران سعادت مندانہ اندازمیں سرہلاکر بولا !گویا لیڈی جہانگیر نے بہت سنجیدگی اور نرمی سے اسے کوئی نصیحت کی تھی ۔

“ یہاں سے چلے جاو! “

“ بہت اچھا ۔” عمران نے کہا اور اس کمرے سے لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں چلا آیا ۔

وہ اس کی مسہری پر بیٹھنے ہی جارہا تھا کہ لیڈی جہانگیر طوفان کی طرح اس کے سرپر پہنچ گئی ۔

“ اب مجبوراً مجھے نوکروں کو جگانا پڑے گا ؟” اس نے کہا ۔

“ اوہو تم کہاں تکلیف کروگی ۔ میں جگائے دیتا ہوں ۔ کوئی خاص کام ہے کیا ۔”

“ عمران میں تمہیں مارڈالوں گی ؟” لیڈی جہانگیر دانت پیس کر بولی ۔

“ مگر کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا ورنہ پولیس ....خیر میں مرنے کے لئے تیار ہوں ؟اگر چھری تیز نہ ہو تو تیز کردوں ! ریوالور سے مارنے کا ارادہ ہے تو میں اس کی رائے نہ دوں گا !سناٹے میں آواز دور تک پھیلتی ہے ۔ البتہ زہر ٹھیک رہے گا ۔”

“ عمران خدا کے لئے ! “ لیڈی جہانگیر بے بسی سے بولی ۔

“ خدا کیا میں اس کے اونے غلاموں کے لےءبھی اپنی جان قربان کرسکتا ہوں ....جو مزاج یار میں آئے ۔”

“ تم چاہتے کیا ہو ! “ لیڈی جہانگیر نے پوچھا ۔

“ دو چیزوں میں سے ایک ....”

“ کیا ؟”

“ موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند! “

“ کیا تم گدھے ہو۔”

“ مجھ سے پوچھتیں تو میں پہلے ہی بتادیتا کہ بالکل گدھا ہوں ۔”

“ جہنم میں جاو “ لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میںچلی گئی عمران نے اٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا جوتے اتارے اور کپڑوں سمیت بستر میں گھس گیا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 6

Post by سیدتفسیراحمد »

یہ سوچنا قطعی غلط ہوگا۔ عمران کے قدم یونہی بلامقصد ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کی طرف اٹھ گئے تھے ۔ اسے پہلے ہی سے اطلاع تھی کہ سرجہانگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں ہے اور وہ یہ بھی جانتا تھاکہ ایسے مواقع پرلیڈی جہانگیر اپنی راتیں کہاں گزارتی ہے ۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ لیڈی جہانگیر کسی زمانے میں اس کی منگیتر رہ چکی تھی اور خود عمران کی حماقتوں کے نتیجے میں یہ شادی نہ ہوسکی
۔
سرجہانگیر کی عمر تقریباً ساٹھ سال ضرور ہی ہوگی لیکن قویٰ کی مضبوطی کی بناءپر بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہوتا تھا ....!
عمران دم سادھے لیٹا رہا....آدھ گھنٹہ گزر گیا ! ....اس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر خواب گاہ کی روشنی بند کردی۔

پنجوں کے بل چلتا ہوا سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آیا جو اندر سے بند تھا اندر گہری نیلی روشنی تھی ! عمران نے دروازے کے شیشے سے اندر جھانکا لیڈی جہاگیر مسہری پر اوندھی پڑی بے خبر سورہی تھی اور اس کے ماتھے سے فاکس لیریئر کا سراس کی کمر پر رکھا ہواتھا اور وہ بھی سوررہاتھا ۔

عمران پہلے کی طرح احتیاط سے چلتا ہوا سر جہانگیر کی لائبریری میں داخل ہوا ۔

یہاں اندھیرا تھا! عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی یہ ایک کافی طویل و عریض کمرہ تھا چاروںطرف بڑی بڑی الماریاں تھیں اور درمیان میں تین لمبی لمبی میزیں !بہر حال یہ ایک ذاتی اور نجی لائبریری سے زیادہ ایک پبلک ریڈنگ روم معلوم ہورہا تھا ۔

مشرقی سرے پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی ۔ عمران سیدھا اسی کی طرف گیا جیب سے وہ پرچہ نکالا جو اسے اس خوفناک عمارت میں پراسرار طریقے پر مرنے والے کے پاس ملا تھا وہ اسے بغور دیکھتا رہا پھر میز پہ رکھے ہوئے کاغذات الٹنے پلٹنے لگا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ایک رائننگ پیڈ کے لیٹرہیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دبے ہوئے کاغذ کے سرنامے اور اس میں کوئی فرق نہ تھا ۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اور یہ نشانات سرجہانگیر کے آباو اجداد کے کارناموں کی یاد گا ر تھے جوانہوں نے مغلیہ دور حکومت میں سرانجام دیئے تھے سر جہانگیر ان نشانات کو اب تک استعمال کررہا تھا !
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اس کے کاغذات پر اس کے نام کی بجائے عموماً یہی نشانات چھپے ہوئے تھے ۔

عمران نے میز پر رکھے کاغذات کو پہلی ہی ترتیب میں رکھ دیا اور چپ چاپ لائبریری سے نکل آیا ۔ لیڈی جہانگیر کے بیان کے مطابق سر جہانگیر ایک ماہ سے غائب تھے ....تو پھر!

عمران کا ذہن چوکڑیاں بھرنے لگا!....آخر ان معاملات سے جہانگیر کا کیاتعلق خواب گاہ میں واپس آنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر اس کمرے میں جھانکا جہاں لیڈی جہانگیر سورہی تھی ....اور مسکراتا ہوا اس کمرے میں چلا آیا جہاں اسے خود سونا تھا ۔

صبح نو بجے لیڈی جہانگیر اسے بری طرح جھنجوڑ جھنجوڑ کرجگا رہی تھی
۔
“ ویل ڈن ! ویل ڈن ۔” عمران ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا اور مسہری پر اکڑوں بیٹھ کر اس طرح تالی بجانے لگا جیسے کسی کھیل کے میدان میں بیٹھا ہوا کھلاڑیوں کو داددے رہا ہو!۔

“ یہ کیا بے ہودگی ! “ لیڈی جہانگیر جھنجھلا کر بولی ۔

“ اوہ ! ساری ! “ وہ چونک کر لیڈی جہانگیر کو متحیرانہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا ۔

“ ہےلو! لیڈی ....جہانگیر ! فرمائیے صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی۔”

“ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ؟” لیڈی جہانگیر نے تیز لہجے میں کہا ۔

“ ہوسکتا ہے ! “ عمران نے براسامنہ بنا کر کہا ۔ اور اپنے نوکروں کے نام لے لے کر انہیں پکارنے لگا ۔

لیڈی جہانگیر اسے چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی۔

“ براہ کرم اب تم یہاں سے چلے جاو ۔ورنہ ....”

“ ہائیں تم مجھے میرے گھر سے نکالنے والی کون ہو؟” عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا ۔

“ یہ تمہارے باپ کا گھر ہے ؟” لیڈی جہانگیر کی آواز بلند ہوگئی ۔

عمران چاروں طرف حیرانی سے دیکھنے لگا ۔ اس طرح اچھلا جیسے اچانک سر پر کوئی چیز گری ہو۔

“ ارے میں کہاں ہوں! کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہوتا” ۔

“ اب جاو ۔ ورنہ مجھے نوکروں کو بلاناپڑے گا ۔”

“ نوکروں کو بلا کر کیاکروگی ؟ میرے لائق کوئی خدمت ! ویسے تم غصے میں بہت حسین لگتی ہو۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

شٹ اپ “

“ اچھا کچھ نہیں کروں گا ! “ عمران بسور کر بولا اور پھر مسہری پربیٹھ گیا ۔

لیڈی جہانگیر اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورتی رہی ۔ اس کی سانس پھول رہی تھی اور چہرہ سرخ ہوگیا تھا ۔ عمران نے جوتے پہنے ۔ کھونٹی سے کوٹ اتارا اور پھر بڑے اطمینان سے لیڈی جہانگیر کی سنگھار میز پر جم گیا اور پھر اپنے بال درست کرتے وقت اس طرح گنگنا رہا تھا جیسے سچ مچ اپنے کمرے ہی میں بیٹھا ہو۔ لیڈی جہانگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ ہی بے بسی کی ساری علامتیں بھی اس کے چہرے پرامنڈآئی تھیں ۔

“ ٹاٹا! “ عمران دروازے کے قریب پہنچ کرمڑا اور احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا باہر نکل گیا اس کا ذہن اس وقت بالکل صاف ہوگیا تھا پچھلی رات کے معلومات ہی اس کی تشفی کے لئے کافی تھیں ۔سر جہانگیر کے لیٹر ہیڈ کا پراسرار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں پایا جانا اسپر دلالت کرتا تھا کہ اس معاملہ سے سر جہانگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے !۔اور شائد سر جہانگیر شہر ہی میں موجود تھا !ہوسکتا ہے کہ لیڈی جہانگیر اس سے لاعلم رہی ہو۔

اب عمران کو اس خوش رو آدمی کی فکر تھی ۔ جسے ان دنوں جج صاحب کی لڑکی کے ساتھ دیکھاجارہا تھا۔

“ دیکھ لیا جائے گا ! “ وہ آہستہ سے بڑبڑایا ۔

اس کا ارادہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جائے مگر جانا ہی پڑا ۔ گھر گئے بغیر موٹر سائیکل کس طرح ملتی اسے یہ بھی تو معلوم کرنا تھا کہ وہ” خوفناک عمارت” دراصل تھی کسی کی ؟اگر اس کا مالک گاوں والوں کے لئے اجنبی تھا تو ظاہر ہے کہ اس نے بھی اسے کسی سے خریدا ہی ہوگا۔

گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اسے پکارا ۔ بڑی بی شائد پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھیں ۔عمران کی صورت دیکھتے ہی آگ بگولہ ہوگئیں !

“ کہاں تھے رے....کمینے سور! “

“ اوہو ! اماں بی۔ گڈ مار ننگ ....ڈیئر سٹ! “

“ مارننگ کے بچے میں پوچھتی ہوں رات کہاں تھا ۔”

“ وہ اماں بی کیا بتاوں ۔ وہ حضرت مولانا....بلکہ مرشدی و مولائی سید ناجگر مراد آبادی ہیں نا ....لاحول ولا قوۃ ....مطلب یہ کہ مولوی تفضل حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر تھا ! اللہ اللہ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

....کیا بزرگ ہیں ....اماں بی ....بس یہ سمجھ لیجئے کہ میں آج سے نماز شروع کردوں گا ۔”

“ ارے ....کمینے....کتے ....تو مجھے بے وقوف بنارہا ہے ۔ “ بڑی بی جھنجھلائی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں
۔
“ ارے توبہ اماں بی ! “ عمران زور سے اپنا منہ پیٹنے لگا ۔ “ آپ کے قدموں کے نیچے میری جنت ہے ۔”

اور پھر ثریا کو آتے دیکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں سے کھسک جانا چاہا ! بڑی بی برابر بڑبڑائے جارہی تھیں ۔

“ اماں بی ! آپ خواہ مخواہ اپنی طبیعت خراب کررہی ہیں !دماغ میں خشکی بڑھ جائے گی ۔ “ ثریا نے آتے ہی کہا ۔” اور یہ بھائی جان ! ان کو تو خدا کے حوالے کیجئے ۔”

عمران کچھ نہ بولا !اماں بی کو بڑبڑاتا چھوڑ کر تو نہیں جاسکتا تھا ؟

“ شرم تو نہیں آتی ۔ باپ کی پگڑی اچھالتے پھررہے ہیں ۔ “ ثریا نے اماں بی کے کسی مصرعہ پر گرہ لگائی!

“ ہائیں تو کیا ابا جان نے پگڑی باندھنی شروع کردی ۔ “ عمران پرمسرت لہجے میں چیخا ۔

اماں بی اختلاج کی مریض تھیں ۔ اعصاب بھی کمزور تھے لہٰذا انہیں غصہ آگیا ایسی حالت میں ہمیشہ ان کا ہاتھ جوتی کی طرف جاتا تھا ۔

عمران اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا ....اور پھر تڑاتڑا کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہیں سن سکا ۔ اماں بی جب اسے جی بھر کے پیٹ چکیں تو انہوں نے رونا شروع کردیا !....ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ لے گئی ....عمران کی چچا زاد بہنوں نے اسے گھیر لیا ۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور کوئی ٹائی کی گر ہ درست کررہی تھی ۔ ایک نے سر پر چمپی شروع کردی ۔

عمران نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائی اور اس طرح گھڑارہا جیسے وہ بالکل تنہا ہو ۔ دو چار کش لے کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی اور اس کی چچا زاد بہنیں زرینہ اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں ۔ عمران نے کمرے میں آکر فلٹ ہیٹ ایک طرف اچھال دی ۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور ایک آرام کرسی پر گرکر اونگھنے لگا ۔

رات والا کاغذ اب بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا ! س پر کچھ ہند سے لکھے ہوئے تھے ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کچھ پیمائش تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی نے کوئی چیز گھڑنے سے پہلے اس کے مختلف حصوں کی تناسب کا اندازہ لگایا ہو!بظاہر اس کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ لیکن اس کاتعلق ایک نامعلوم لاش سے تھا۔ایسے آدمی کی لاش سے جس کاقتل بڑے پراسرار حالات میں ہوا تھا ۔ اور ان حالات میں یہ دوسرا قتل تھا !

عمران کو اس سلسلے میں پولیس یا محکمہ سراغرسانی کی مشغولیات کاکوئی علم نہیں تھا !اس نے فیاض سے یہ بھی معلوم کرنے ی زحمت گوارہ نہیں کی تھی ۔ کہ پولیس نے ان حادثات کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے ۔

عمران نے کاغذ کا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا اور دوسرا سوٹ پہن کر دوبارہ باہر جانے کے لئے تیار ہوگیا ۔

تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل اسی قصبہ کی طرف جارہی تھی ۔ جہاں وہ “ خوفناک عمارت” واقع تھی قصبے میں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت تھی ۔ عمران اس خاندان کے ایک ذمہ دار آدمی سے ملا جس نے عمارت جج صاحب کے ہاتھ فروخت کی تھی ۔

“ اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔” اس نے بتایا “ ایاز صاحب نے وہ عمارت ہم سے خریدی تھی ۔ اس کے بعد مرنے سے پہلے وہ اسے شہر کے کسی جج صاحب کے نام قانونی طور پر منتقل کرگئے ۔”

“ ایاز صاحب کون تھے ۔ پہلے کہاں رہتے تھے ۔” عمران نے سوال کیا ۔

“ ہمیں کچھ نہیں معلوم ۔ عمارت خریدنے کے بعد تین سال تک زندہ رہے لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہوسکا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہاں رہتے ًتھے ان کے ساتھ ایک نوکر تھا جو اب بھی عمارت کے سامنے ایک حصے میں مقیم ہے ۔”

“ یعنی قبر کا وہ مجاور! “ عمران نے کہا اور بوڑھے آدمی نے اثبات میں سر ہلادیا وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔

“ وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے دریافت کی تھی ۔ ہمارے خاندان والوں کو تو اس کا علم نہیں تھا۔ وہاں پہلے کبھی کوئی قبر نہیں تھی ۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔”
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 4:19 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ اوہ ! “ عمران گھورتا ہوا بولا۔ “ بھلا قبر کس طرح دریافت ہوئی تھی ۔”

“ انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس جگہ کوئی شہید مرد دفن ہیں ۔ دوسرے ہی دن قبر بنانی شروع کردی ۔”

“ خود ہی بنانی شروع کردی ۔ “ عمران نے حیرت سے پوچھا ۔

“ جی ہاں وہ اپنا سارا کام خود ہی کرتے تھے ۔ کافی دولت مند بھی تھے ! لیکن انہیں کنجوس نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ دل کھول کرخیرات کرتے تھے ۔”

“ جس کمرے میں لاش ملی تھی اس کی دیواروں پر پلاسٹر ہے ۔ لیکن دوسرے کمروں میں نہیں ۔ اس کی وجہ ہے” ۔
“ پلاسٹر بھی ایاز صاحب ہی نے کیا تھا ۔”

“ خود ہی ۔”

“ جی ہاں! “

“ اس پر یہاں قصبے میں تو بڑی چہ میگوئیاں ہوئی ہوں گی ۔”

“ قطعی نہیں جناب!....اب بھی یہاں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایاز صاحب کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ ان کا نوکر بھی ....بزرگی سے خالی نہیں ۔”

“ کبھی ایسے لوگ بھی ایاز صاحب سے ملنے کے لئے آئے تھے جو یہاں والوں کے لئے اجنبی رہے ہوں۔”

“ جی نہیں ....مجھے تو یاد نہیں ۔ میراخیال ہے کہ ان سے کبھی کوئی ملنے کے لئے نہیں آیا ۔”

“ اچھا بہت بہت شکریہ ! “ عمران بوڑھے سے مصافحہ کرکے اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گیا ۔

اب وہ اسی عمارت کی طرف جارہا تھا اوراس کے ذہن میں بیک وقت کئی خیال تھے !ایاز نے وہ قبر خود ہی بنائی تھی اورکمرے میں پلاسٹر بھی خود ہی کیا تھا ۔ کیاوہ ایک اچھا معمار بھی تھا ؟قبر وہاں پہلے نہیں تھی ۔ وہ ایاز ہی کی دریافت تھی ۔ اس کا نوکر ابھی قبر سے چمٹا ہوا ہے ۔ آخر کیوں؟ اسی ایک کمرے میں پلاسٹر کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔

عمران عمارت کے قریب پہنچ گیا ۔ بیرونی بیٹھک جس میں قبر کا مجاور رہتا تھا کھلی ہوئی تھی اور وہ خود بھی موجود تھا۔عمران نے اس پر ایک چٹتی سی نظر ڈالی ۔ یہ متوسط عمر کا ایک قومی ہیکل آدمی تھا چہرے پر گھنی داڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں ۔ شائد وہ ہمیشہ ایسی ہی رہتی تھیں۔
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 4:20 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

عمران نے دو تین بار جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور پھر اس کے چہرے پر اس پرانے احمق پن کے آثار بھر آئے ۔

“ کیا بات ہے ۔” اسے دیکھتے ہی نوکر نے للکارا ۔

“ مجھے آپ کی دعاسے نوکری مل گئی ہے ۔” عمران سعادت مندانہ لہجے میں بولا ۔” سوچا کچھ آپ کی خدمت کرتا چلوں ۔”

“ بھاگ جاو ۔” قبر کا مجاور سرخ سرخ آنکھیں نکالنے لگا ۔

“ اب اتنا نہ تڑپائیے ! “ عمران ہاتھ جوڑ کر بولا۔” بس آخری درخواست کروں گا ۔”

“ کون ہو تم ....کیا چاہتے ہو ۔” مجاور یک بیک نرم پڑگیا ۔

“ لڑکا ۔ بس ایک لڑکا بغیر بچے کے گھر سونا لگتا ہے یا حضرت تیس سال سے بچے کی آرزد ہے ۔”

“ تیس سال! تمہاری عمر کیا ہے ! “ مجاور اسے گھورنے لگا !

“ پچیس سال ! “

“ بھاگو! مجھے لونڈا بناتے ہو ! ابھی بھسم کردوں گا ....”

“ آپ غلط سمجھے یا حضرت ! میں اپنے باپ کے لئے کہہ رہا تھا ....” دوسری شادی کرنے لگے ہیں ! “

“ جاتے ہویا ....” مجاور اٹھتا ہوا بولا۔

“ سرکار ....” عمران ہاتھ جوڑ کرسعادت مندانہ لہجے میں بولا ۔” پولیس آپ کو بے حد پریشان کرنے والی ہے ۔”

“ بھاگ جاو پولیس والے گدھے ہیں !وہ فقیر کی بگاڑیں گے ! “

“ فقیر کے زیر سایہ دو خون ہوئے ہیں” ۔

” ہوئے ہوں گے ! پولیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ ایک مسٹنڈے کو لے کر یہاں کیوں آئی تھی ۔”

“ یا حضرت پولیس واقعی گدھی ہے ! آپ ہی کچھ رہنمائی فرمائیے ۔”

“ تم خفیہ پولیس میں ہو۔”
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 4:20 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ نہیں سرکار میں ایک اخبار کا نامہ نگار ہوں ۔ کوئی نئی خبر مل جائے گی تو پیٹ بھرے گا۔”

“ ہاں اچھا بیٹھ جاو ۔ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا کہ وہ مکان جہاں ایک بزرگ کا مزار ہے ۔ بدکاری کا اڈہ بنے پولیس کو چاہیے کہ اس کی روک تھام کرے۔”

“ یا حضرت میں بالکل نہیں سمجھا ۔” عمران مایوسی سے بولا ۔

“ میں سمجھتا ہوں ۔” مجاور اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑ کر بولا۔” چودہ تاریخ کو جج صاحب کی لونڈیا اپنے ایک یار کو لے کر یہاں آئی تھی ....اور گھنٹوں اندر رہی ! “

“ آپ نے اعتراض نہیں کیا ....میں ہوتا تو دونوں کےسر پھاڑ دیتا ۔ توبہ توبہ اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر ....” عمران اپنا منہ پیٹنے لگا !
“ بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا ....کیا کروں ! میرے مرشد یہ مکان ان لوگوں کو دے گئے ہیں ورنہ بتا دیتا ۔”

“ آپ کے مرشد ؟”

“ ہاں ....حضرت ایاز رحمتہ اللہ علیہ ! وہ میرے پیر تھے اس مکان کا یہ کمرہ مجھے دے گئے ہیں ۔تاکہ مزار شریف کی دیکھ بھال کرتارہوں ۔

“ ایاز صاحب کامزار شریف کہاں ہے ۔” عمران نے پوچھا۔

“ قبرستان میں....ان کی تووصیت تھی کہ میری قبر برابر کردیجائے ۔ کوئی نشان نہ رکھا جائے ۔”

“ تو جج صاحب کی لڑکی کو پہچانتے ہیں آپ! “

“ ہاں پہچانتا ہوں ! وہ کانی ہے ۔”

“ ہائے ! “ عمران نے سینے پر ہاتھ مارا ....اور مجاور اسے گھورنے لگا ۔

“ اچھا حضرت !چودہ کی رات کو وہ یہاں آئی تھی اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی ۔”

“ ایک نہیں ابھی ہزروں ملیں گی ۔” مجاور کو جلال آگیا “ مزار شریف کی بے حرمتی ہے ! “

“ مگر سرکار !ممکن ہے کہ وہ اس کا بھائی رہا ہو! “

“ ہرگز نہیں جج صاحب کے کوئی لڑکا نہیں ہے ۔”

“ تب تو پھر معاملہ ....ہپ ! “ عمران اپنا داہنا کان کھجانے لگا !

عمران وہاں سے بھی چل پڑا وہ پھر قصبے کے اندر واپس جارہاتھا ۔ دو تین گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کرتارہا اور پھر شہر کی طرف روانہ ہوگیا ۔
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 4:21 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 7

Post by سیدتفسیراحمد »

باب 7

کیپٹن فیاض کام میں مشغول تھا کہ اس کے پاس عمران کا پیغام پہنچا اس نے اس کے آفس کے قریب ہی ریستوران میں بلوا بھیجا تھا ۔ فیاض نے وہا ں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائی عمران ایک خالی میز پر طبلہ بجا رہا تھا ۔ فیاض کو دیکھ کر احمقوں کی طرح مسکرایا۔

” کوئی نئی بات ؟” فیاض نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔

“ میر تقر میرغالب تخلص کرتے تھے ! “

“ یہ اطلاع تم بذریعہ ڈاک بھی دے سکتے تھے ۔” فیاض چڑ کر بولا۔

“ چودہ تاریخ کی رات کو وہ محبوبہ یک چشم کہاں تھی ؟”

“ تم آخر اس کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو ۔”

“ پتہ لگا کر بتاو ....اگر وہ کہے کہ اس نے اپنی وہ رات اپنی کسی خالہ کے ساتھ بسر کی تو تمہارا فرض ہے کہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کرکے ہمدرددواخانہ کو فوراً مطلع کردو ، ورنہ خط و کتابت صیغہ راز میں نہ رکھی جائے گی ۔ “

“ عمران میں بہت مشغول ہوں! “

“ میں بھی دیکھ رہا ہوں ! کیا آج کل تمہارے آفس میں مکھیوں کی کثرت ہوگئی ہے ! کثرت سے یہ مراد نہیں کہ مکھیاں ڈنڈ پیلتی ہیں ۔”

“ میں جارہا ہوں ۔” فیاض جھنجھلا کر اٹھتا ہوا بولا۔

“ ارے کیاتمہاری ناک پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں ۔” عمران نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا۔

فیاض اسےگھورتا ہوا بیٹھ گیا ! وہ سچ مچ جھنجھلا گیا تھا ۔

“ تم آئے کیوں تھے ۔” اس نے پوچھا ۔

“ اوہ ! یہ مجھے بھی یاد نہیں رہا! ....میرا خیال ہے شائد میں تم سے چاول کا بھاؤ پوچھنے آیا تھا ....مگر تم کہو گے کہ میں کوئی ناچنے والی تو ہو ں نہیں کہ بھاؤ بتاوں ....ویسے تمہیں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ ان لاشوں کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں محبوب یک چشم کا قدم ضرور ہے ....میں نے کوئی غلط لفظ تو نہیں بولا....ہاں! “

“ اس کا قدم کس طرح ! “ فیاض یک بیک چونک پڑا ۔

“ انسائیکلو پیڈیا میں یہی لکھا ہے ۔” عمران سرہلا کر بولا ۔ “ بس یہ معلوم کرو کہ اس نے چودہ کی رات کہاں بسر کی ! “
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 4:13 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ کیا تم سنجیدہ ہو۔”

“ اف فوہ! بے وقوف آدمی ہمیشہ سنجیدہ رہتے ہیں ! “

“ اچھا میں معلوم کروں گا ۔”

“ خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے ۔ دوسری بات یہ کہ مجھے جج صاحب کے دوست ایاز کے مکمل حالات درکار ہیں وہ کون تھا
کہاں پیدا ہوا تھا کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کے علاوہ دوسرے اعزہ کہاں رہتے ہیں ! سب مرگئے یا ابھی کچھ زندہ ہیں ۔”

“ تو ایسا کرو ! آج شام کی چائے میرے گھر پر پیو ۔” فیاض بولا۔

“ اور اس وقت کی چائے ۔” عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا

فیاض نے ہنس کر ویٹر کو چائے کا آرڈر دیا ....عمران الووں کی طرح دیدے پھر رہا تھا!وہ کچھ دیر بعد بولا۔

“ کیا تم مجھے جج صاحب سے ملاو گے ۔”

“ ہاں میں تمہاری موجودگی میں ہی ان سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا ۔”

“ ہی....ہی....مجھے تو بڑی شرم آئے گی ۔ “ عمران دانتوں تلے انگلی دبا کر دہرا ہوگیا۔

“ کیوں ....کیوں بور کررہے ہو ....شرم کی کیا بات ہے ۔”

“ نہیں میں والد صاحب کو بھیج دوں گا ۔”

“ کیا بک رہے ہو۔”

“ میں براہ راست خود شادی نہیں طے کرنا چاہتا “

“ خدا مجھے سمجھے ! ارے میں ایاز والی بات کررہا تھا۔”

“ لاحول ولا قوۃ ۔” عمران نے جھینپ جانے کی ایکٹنگ کی ۔

“ عمران آدمی بنو۔”

“ اچھا ! “ عمران نے بڑی سعادت مندی سے سرہلایا

چائے آگئی تھی ....فیاض کچھ سوچ رہا تھا! کبھی بھی وہ عمران کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو اپنے سامنے والی دیوار پرلگے ہوئے آئینے میں دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہا تھا ۔ فیاض نے چائے بنا کر پیالی اس کے آگے کھسکا دی ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ یار فیاض !....وہ شہید مرد کی قبر والا مجاور بڑا گریٹ آدمی معلوم ہوتا ہے “ عمران بولا ۔

“ کیوں؟”

“ اس نے ایک بڑی گریٹ بات کہی تھی ۔”

“ کیا....! “

“ یہی کہ پولیس والے گدھے ہیں ۔”

“ کیوں کہا تھا اس نے۔” فیاض چونک کر بولا

“ پتا نہیں ، لیکن اس نے بات بڑے پتے کی کہی تھی۔”

“ تم خواہ مخواہ گالیاں دینے پر تلے ہوئے ہو۔”

“ نہیں پیارے !اچھا تم یہ بتاو وہاں قبرکس نے بنائی تھی اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ۔”

“ میں فضولیات میں سر نہیں کھپاتا ! “ فیاض چڑ کر بولا۔” اس معاملہ سے ان کا کیا تعلق ۔”

“ تب تو کسی اجنبی کی لاش کا وہاں پایا جانا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا “ عمران نے کہا ۔

“ آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔ “ فیاض جھنجھلا کر بولا۔

“ یہ کہ نیک بچے صبح اٹھ کر اپنے بڑوں کو سلام کرتے ہیں ۔ پھر ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرتے ہیں....پھر سکول چلے جاتے ہیں کتاب کھول کر الف سے الو!ب سے بندر ....پے سے پتنگ ....! “

“ عمران خدا کے لئے! “ فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔

“ اور خدا کو ہر وقت یاد رکھتے ہیں ۔”

“ بکے جاو۔”

“ چلوخاموش ہوگیا ۔ ایک خاموشی ہزار بلائیں ٹالتی ہے ....ہائیں کیا ٹلائیں ....لاحول ولا قوۃ ....میں نے ابھی کیا کہا تھا ؟”

“ اپنا سر” ۔

“ ہے! “

“ بھئی یہ بات تو کسی طرح میرے حلق سے نہیں اترتی ! سنا میں نے بھی ہے “ جج صاحب بولے ! “ اس کی موت کے بعد قصبے کے کچھ معزز لوگوں سے ملا بھی تھا انہوں نے بھی یہی خیال ظاہر کیا تھا کہ وہ کوئی پہنچا ہوا آدمی تھا ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا ۔ اس کی شخصیت پراسرار ضرور تھی ....مگر ان معنوں میں نہیں ! “
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 4:22 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ اس کے نوکر کے متعلق کیا خیال ہے جو قبر کی مجاوری کرتا ہے ۔” فیاض نے پوچھا ۔

“ وہ بھی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ۔ “ عمران تڑ سے بولا۔اور جج صاحب پھر اسے گھورنے لگے لیکن اس بار بھی انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔

“ کیا وصیت نامے میں یہ بات ظاہرکردی گئی ہے کہ قبر کا مجاور عمارت کے بیرونی کمرے پر قابض رہے گا ۔” فیاض نے جج صاحب سے پوچھا ۔

“ جی ہاں ! قطعی ! “ جج صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ۔بہتر ہوگا کہ ہم دوسری باتیں کریں اس عمارت سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہے کہ میں قانونی طور پر اس کا مالک ہوں ۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میرے گھر کے کسی فرد نے آج تک اس میں قیام نہیں کیا ۔”

“ کوئی بھی ادھر گیا بھی نہ ہوگا ! “ فیاض نے کہا ۔

“ بھئی کیوں نہیں !شروع میں تو سب ہی کو اسکو دیکھنے کا اشتیاق تھا ! ظاہر ہے کہ وہ ایک حیرت انگیز طریقے سے ہماری ملکیت میں آئی تھی “

“ ایاز صاحب کے جنازے پر نور کی بارش ہوئی تھی ۔” عمران نے پھر ٹکڑا لگایا ۔

“ مجھے پتہ نہیں ۔” جج صاحب بیزاری سے بولے ۔” میں اس وقت وہاں پہنچا تھا جب وہ دفن کیا جاچکا تھا ۔”

“ میرا خیال ہے کہ وہ عمارت آسیب زدہ ہے ۔” فیاض نے کہا ۔

“ ہوسکتا ہے ! کاش وہ میری ملکیت نہ ہوتی ! کیا اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں گے ۔”

“ معاف کیجئے گا ۔ “ فیاض اٹھتاہوا بولا ۔” آپ کو بہت تکلیف دی مگر معاملہ ہی ایسا ہے ۔”

فیاض اورعمران باہر نکلے !فیاض اس پر جھلایا ہوا تھا ۔باہر آتے ہی برس پڑا ۔

“ تم ہر جگہ اپنے گدھے پن کا ثبوت دینے لگتے ہو۔”

“ اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہیں گولی ماردوں۔ “ عمران بولا۔

“ کیوں میں نے کیا کیا ہے ؟”

“ تم نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ محبوبہ یک چشم ،چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھی ۔ “

“ کیوں بور کرتے ہو! میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے ۔”

“ خیر مجھے کیا میں خود ہی پوچھ لوں گا ۔” عمران نے کہا “ سر جہانگیر کو جانتے ہو۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ “ ہاں کیوں ؟”

“ وہ میرا رقیب ہے ۔”

“ ہوگا تو میں کیا کروں ۔”

“ کسی طرح پتہ لگاو کہ وہ آج کل کہاں ہے” ۔

“ میرا وقت برباد نہ کرو۔” فیاض جھنجھلا گیا۔

’تب پھر تم نے بھی وہیں جاؤ جہاں شیطان قیامت کے دن جائے گا ۔” عمران نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا جج صاحب کے گیراج کی طرف چلا گیا ۔ یہاں سے رابعہ باہر جانے کے لئے کار نکال رہی تھی ۔

“ مس سلیم “ عمران کھنکار کر بولا۔ “ شائد ہمارا تعارف پہلے بھی ہوچکا ہے ۔”

“ اوہ جی ہاں جی ہاں۔” رابعہ جلدی سے بولی۔

“ کیا آپ مجھے لفٹ دینا پسند کریں گی ۔”

“ شوق سے آئیے ....! “

رابعہ خود ڈرائیور کررہی تھی ! عمران شکریہ ادا کرکے اس کے برابر بیٹھ گیا ۔

“ کہاں اترئیےگا ۔” رابعہ نے پوچھا ۔

“ سچ پوچھئے تو میں اترنا ہی نہ چاہوں گا “

رابعہ صرف مسکرا کر رہ گئی ۔ اس وقت اس نے ایک مصنوعی آنکھ لگا رکھی تھی ۔ اس لئے آنکھوں پر عینک نہیں تھی ۔

فیاض کی بیوی نے اسے عمران کے متعلق بہت کچھ بتایا تھا ۔ اس لئے وہ اسے عاشق سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھی....!

“ کیا آپ کچھ ناراض ہیں ۔” عمران نے تھوڑی دیر بعد پوچھا ۔

“ جی ! “ رابعہ چونک پڑی ۔” نہیں تو۔” ....پھر ہنسنے لگی ۔

“ میں نے کہا شائد مجھ سے لوگ عموماً ناراض رہا کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں انہیں خواہ مخواہ غصہ دلادیتا ہوں۔”

“ تب تو یہ میری خوش قسمتی ہے ۔” عمران نے کہا ۔ ویسے اگر میں کوشش کروں تو آپ کو غصہ دلاسکتا ہوں ۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

رابعہ پھر ہنسنے لگی ! “ کیجئے کوشش! “ اس نے کہا ۔

“ اچھا تو آپ شاید یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے ۔ “ عمران نے احمقوں کی طرح ہنس کرکہا ۔

“ میں تو یہی سمجھتی ہوں ۔ مجھے غصہ کبھی نہیں آتا ۔”

“ اچھا تو سنبھلئے ! “ عمران نے اطرح کہا جیسے ایک شمشیر زن کسی دوسرے شمشیرزن کو للکارتا ہوا کسی گھٹیاسی فلم میں دیکھا جاسکتا ہے ۔

رابعہ کچھ نہ بولی ۔ وہ کچھ بورسی ہونے لگی تھی ۔

“ آپ چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھیں ۔ “ عمران نے اچانک پوچھا ۔

“ جی....” رابعہ بے اختیار چونک پڑی ۔

“ اوہ ! اسٹیرنگ سنبھالئے ! کہیں کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے ! “ عمران بولا “ دیکھئے میں نے آپ کو غصہ دلادیا نا ۔ “ پھر اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اپنی ران پیٹنے لگا ۔

رابعہ کی سانس پھولنے لگی تھی اور اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پرکانپ رہے تھے ۔

“ دیکھئے ۔” اس نے بانپتے ہوئے کہا ۔” مجھے جلدی ہے ....واپس جانا ہوگا....آپ کہاں اتریں گے ۔”

“ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا ۔” عمران پر سکون لہجے میں بولا۔

“ آپ سے مطلب ! آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے” ۔

“ دیکھا....آگیا غصہ ! ویسے یہ بات بہت اہم ہے اگر پولیس کے کانوں تک جاپہنچی تو زحمت ہوگی! ممکن ہے میں کوئی ایسی کارروائی کرسکوں جس کی بناءپر پولیس یہ سوال ہی نہ اٹھائے ۔”

“ رابعہ کچھ نہ بولی وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی ۔”

“ میں یہ بھی نہ پوچھوں گا کہ آپ کہاں تھیں ۔” عمران نے پھر کہا ۔” کیونکہ مجھے معلوم ہے مجھے آپ صرف اتنا بتا دیجئے کہ آپ کے ساتھ کون تھا ؟”

“ مجھے پیاس لگ رہی ہے ۔” رابعہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی ۔

“ اوہو! تو روکئے ....کیفے نبراس کا نزدیک ہی ہے ۔”

کچھ آگے چل کر رابعہ نے کار کھڑی کردی اور وہ دونوں اتر کر فٹ پاتھ سے گزرتے ہوئے کیفے نبر اس کا میں چلے گئے ۔
عمران نے ایک خالی گوشہ منتخب کیا ! اور وہ بیٹھ گئے !....چائے سے پہلے عمران نے ایک گلاس ٹھنڈے پانی کے لئے کہا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ مجھے یقین ہے کہ واپسی میں کنجی اس کے پاس رہ گئی ہوگی ۔ “ عمران نے کہا۔

“ کس کے پاس ؟” رابعہ پھر چونک پڑی ۔

“ فکر نہ کیجئے ! مجھے یقین ہے کہ اسنے آپ کو اپنا صحیح نام اور پتہ ہرگز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کردینے کے بعد سے اب تک ملا بھی نہ ہوگا ۔”

رابعہ بالکل نڈھال ہوگئی اسنے مردہ سی آواز میں کہا ۔” پھر اب آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں ۔”

“ آپ اس سے کب اور کن حالات میں ملی تھیں ۔”

“ اب سے وہ ماہ پیشتر! “

“ کہاں ملا تھا ۔”

“ ایک تقریب میں ! مجھے یہ یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا تھا ۔”

“ تقریب کہاں تھی ۔”

“ شائد سرجہانگیر کی سالگرہ کا موقع تھا ۔”

“ اوہ! “ ....عمران کچھ سوچنے لگا ۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا ۔ “ کنجی آپ کو اس نے کب واپس کی تھی ۔”

“ پندرہ کی شام کو۔”

“ اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی ۔” عمران نے کہا

“ رابعہ بری طرح ہانپنے لگی ۔ وہ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر کرسی کی پشت سے ٹک گئی ۔ اس کی حالت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی ننھی منی چڑیا سے مشابہ تھی ۔”

“ پندرہ کے دن بھر کنجی اس کے پاس رہی ! اس نے اس کی ایک نقل تیار کراکے کنجی آپ کو واپس کردی ! اس کے بعد پھر وہ آپ سے نہیں ملا ۔غلط کہہ رہا ہوں ؟”

“ ٹھیک ہے ۔” وہ آہستہ سے بولی۔” وہ مجھ سے کہا کرتا تھا کہ وہ ایک سیاح ہے ! “

“ جعفر یہ ہوٹل میں قیام پذیر ہے ....لیکن پرسوں میں وہاں گئی تھی....”

وہ خاموش ہوگئی ۔ اس پر عمران نے سر ہلا کر کہا ۔” اور آپ کو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی ٹھہر اہی نہیں” ۔
“ جی ہاں ۔” رابعہ سرجھکا کر بولی۔

“ آپ سے اس کی دوستی کا مقصد محض اتنا ہی تھا کہ وہ کسی طرح آپ سے اس عمارت کی کنجی ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں ! “
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ مجھے یقین ہے کہ واپسی میں کنجی اس کے پاس رہ گئی ہوگی ۔ “ عمران نے کہا۔

“ کس کے پاس ؟” رابعہ پھر چونک پڑی ۔

“ فکر نہ کیجئے ! مجھے یقین ہے کہ اسنے آپ کو اپنا صحیح نام اور پتہ ہرگز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کردینے کے بعد سے اب تک ملا بھی نہ ہوگا ۔”

رابعہ بالکل نڈھال ہوگئی اسنے مردہ سی آواز میں کہا ۔” پھر اب آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں ۔”

“ آپ اس سے کب اور کن حالات میں ملی تھیں ۔”

“ اب سے وہ ماہ پیشتر! “

“ کہاں ملا تھا ۔”

“ ایک تقریب میں ! مجھے یہ یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا تھا ۔”

“ تقریب کہاں تھی ۔”

“ شائد سرجہانگیر کی سالگرہ کا موقع تھا ۔”

“ اوہ! “ ....عمران کچھ سوچنے لگا ۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا ۔ “ کنجی آپ کو اس نے کب واپس کی تھی ۔”

“ پندرہ کی شام کو۔”

“ اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی ۔” عمران نے کہا

“ رابعہ بری طرح ہانپنے لگی ۔ وہ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر کرسی کی پشت سے ٹک گئی ۔ اس کی حالت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی ننھی منی چڑیا سے مشابہ تھی ۔”

“ پندرہ کے دن بھر کنجی اس کے پاس رہی ! اس نے اس کی ایک نقل تیار کراکے کنجی آپ کو واپس کردی ! اس کے بعد پھر وہ آپ سے نہیں ملا ۔غلط کہہ رہا ہوں ؟”

“ ٹھیک ہے ۔” وہ آہستہ سے بولی۔” وہ مجھ سے کہا کرتا تھا کہ وہ ایک سیاح ہے ! “

“ جعفر یہ ہوٹل میں قیام پذیر ہے ....لیکن پرسوں میں وہاں گئی تھی....”

وہ خاموش ہوگئی ۔ اس پر عمران نے سر ہلا کر کہا ۔” اور آپ کو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی ٹھہر اہی نہیں” ۔
“ جی ہاں ۔” رابعہ سرجھکا کر بولی۔

“ آپ سے اس کی دوستی کا مقصد محض اتنا ہی تھا کہ وہ کسی طرح آپ سے اس عمارت کی کنجی ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں ! “
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 8

Post by سیدتفسیراحمد »

باب 8

عمران فٹ پاتھ پر تنہا کھڑا تھا ! ....رابعہ کی کار جاچکی تھی ۔ اس نے جیب سے ایک چیونگم نکالی اور منہ میں ڈال کر دانتوں سے اسے کچلنے لگا ....غوروفکر کے عالم میں چیونگم اس کا بہترین رفیق ثابت ہوتا تھا ....جاسوسی ناولوں کے سراغر سانوں کی طرح نہ اسے سگار سے دلچسپی تھی اور نہ پائپ سے ! شراب بھی نہیں پیتا تھا ۔

اس کے ذہن میں اس وقت کئی سوال تھے اور وہ فٹ پاتھ کے کنارے پر اس طرح کھڑا ہوا تھا جیسے سڑک پار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ....مگر یہ حقیقت تھی کہ اس کے ذہن میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا ۔

وہ سوچ رہا تھا کہ ان معاملات سے سرجہانگیر کا تعلق ہوسکتا ہے دوسری لاش کے قریب اسے کاغذ کا جو ٹکڑا ملا تھا وہ سرجہانگیر ہی کے رائٹنگ پیڈ کا تھا ۔ رابعہ سے پراسرار نوجوان کی ملاقت بھی سر جہانگیر ہی کے یہاں ہوئی تھی .... اور لیڈی جہانگیر نے جس خوبصورت نوجوان کا تذکرہ کیا تھا وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا ....لیکن لیڈی جہانگیر بھی اس سے واقف نہیں تھی ۔ لیڈی جہانگیر کی یہ بات بھی سچ تھی کہ اگر وہ شہر کے کسی ذی حیثیت خاندان کا فرد ہوتا تو لیڈی جہانگیر اس سے ضرور واقف ہوتی ! فرض کیا کہ اگر لیڈی جہانگیر بھی کسی سازش میں شریک تھی تو اس نے اس کا تذکرہ عمران سے کیوں کیا ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی دوسری زندگی سے واقف نہ رہی ہو لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے تذکرہ کیا ہی کیوں ؟وہ کوئی ایسی اہم بات تھی ! سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کے چکر میں رہے ہوں گے ۔ چاہے وہ پانی بھرنے کے مشکیزے سے بھی بدتر کیوں نہ ہوں ! پھر ایک سوال اس کے ذہن میں اور ابھرا ! آخر اس مجاور نے پولیس کو رابعہ کے متعلق کیوں نہیں بتایا تھا ....قبر اور لاش کے متعلق تو اس نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔فکر اس بات کی تھی کہ وہ لوگ کون ہیں اور اس مکان میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں اگر وہ سر جہانگیر ہی ہے تو اس کا اس عمارت سے کیا تعلق؟....سر جہانگیر سے وہ اچھی طرح واقف تھا لیکن یوں بھی نہیں کہ اس پر کسی قسم کا شبہ کرسکتا ۔سر جہانگیر شہر کے معززترین لوگوں میں تھا ۔ نہ صرف معزز بلکہ نیک نام بھی !
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 4:19 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

تھوڑی دیر بعد عمران سڑک پار کرنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ رکتی ہوئی آ کر اس کی راہ میں حائل ہوگئی ۔ یہ رابعہ ہی کی کارتھی ۔

“ خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے ۔” اس نے کھڑکی سے سرنکال کر کہا ۔

“ میں جانتا تھا کہ آ پکو پھر میری ضرورت محسوس ہوگی ! “ عمران نے کہااور کار کادروازہ کھول کر رابعہ کے برابر بیٹھ گیا !....کار پھر چل پڑی ۔

“ خدا کے لئے مجھے بچائیے ۔” رابعہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ۔ “ میں ڈوب رہی ہوں! “

“ تو کیا آپ مجھے تنکا سمجھتی ہیں ۔ “ عمران نے قہقہہ لگایا ۔

“ خدا کے لئے کچھ کیجئے ۔ اگر ڈیڈی کو اس کا علم ہوگیا تو....؟”

“ نہیں ہونے پائے گا۔” عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔ “ آپ لوگ مردوں کے دوش بدوش جھک مارنے میدان میں نکلی ہیں ....مجھے خوشی ہے ....لیکن آپ نہیں جانتیں کہ مرد ہر میدان میں آ پکو الو بناتا ہے ....ویسے معاف کیجئے مجھے نہیں معلوم کہ الو کی مادہ کو کیا کہتے ہیں ۔”

رابعہ کچھ نہ بولی اورعمران کہتا رہا ۔ “ خیر بھول جائیے اس بات کو میں کوشش کروں گا کہ اس ڈرامے میں آپ کا نام نہ آنے پائے ! اب تو آپ مطمئن ہیں نا....گاڑی روکئے ....اچھا ٹاٹا....”

“ ارے ! “ رابعہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اس نے پورے بریک لگادیئے ۔

“ کیا ہوا ! “ عمران گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔

“ وہی ہے ۔” رابعہ بڑبڑائی ۔” اترئیے ....میں اسے بتاتی ہوں ۔”

“ کون ہے ۔ کیا بات ہے ۔”

“ وہی جس نے مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے ۔”

“ کہاں ہے ۔”

“ وہ .... اس بار میں ابھی ابھی گیا ہے وہی ، وہی تھا ....چمڑے کی جیکٹ اورکتھئی پتلون میں ....”

“ اچھا تو آپ جائیے ! میں دیکھ لوں گا ! “

“ نہیں میں بھی ....”

“ جاو! “ عمران آنکھیں نکال کر بولا! رابعہ سہم گئی ! اس وقت احمق عمران کی آنکھیں اسے بڑی خوفناک معلوم ہوئیں ۔ اس نے چپ چاپ کار موڑلی ۔

عمران بار میں گھسا!....بتائے ہوئے آدمی کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی ۔ وہ ایک میز پر تنہا بیٹھا تھا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ ہیلو !سوپر....ہاں میں ہی خیریت کہاں....زکام ہوگیا ہے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ میں جو شاندہ پی لوں ! ....ارے تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے ....دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر اس عمارت کے گرد مسلح پہرہ لگ جانا چاہیے ....بس بس آگے مت پوچھو ! اگراس کے خلاف ہوا توآئندہ شرلاک ہومزڈاکٹر وٹسن کی مدد نہیں کرے گا ۔ “

ٹیلی فون بوتھ سے واپس آکر عمران نے پھر اپنی جگہ سنبھال لی ۔ جیکٹ والا دوسرے آدمی سے کہہ رہا تھا ۔

“ بوڑھا پاگل نہیں ہے س کے اندازے غلط نہیں ہوتے ۔”

“ اونہہ ہوگا ۔” دوسرا میز پر خالی گلاس پٹختا ہوا بولا۔” صحیح ہویا غلط سب جنہم میں جائے لیکن تم اپنی کہو ۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات ہوگئی تو کیا کروگے ۔”

“ اوہ! “ جیکٹ والا ہنسنے لگا ۔ “ معاف کیجئے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔”

“ ٹھیک ! لیکن اگر وہ پولیس تک پہنچ گئی تو ۔”

“ وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتی ....بیان دیتے وقت اسے اس کا اظہار بھی کرنا پڑےگا کہ وہ ایک رات میرے ساتھ اس مکان میں بسر کرچکی ہے اور پھر میرا خیال ہے کہ شائد اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے ۔”

“ عمران کافی کا آرڈر دے کر دوسرے چیونگم سے شغلَ کرنے لگا اس کے چہرے سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ سارے ماحول سے قطعی بے تعلق ہو ۔لیکن یہ حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس کی یاد داشت ہضم کرتی جارہی تھی ۔”
“ تو کیا آج بوڑھا آئے گا ۔ “ دوسرے آدمی نے پوچھا۔

“ ہاں ! آج فیصلہ ہوجائے ۔” جیکٹ والے نے کہا۔

دونوں اٹھ گئے ۔ عمران نے اپنے حلق میں بچی کھچی کافی انڈیل لی ۔ بل وہ پہلے ہی ادا کرچکا تھا ۔ وہ دونوں باہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہوگئے اور پھر انہوں نے ایک ٹیکسی رکوائی کچھ دیر بعدان کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی جارہی تھی جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا ہوا سرکھجا رہا تھا ۔ حماقت انگیز حرکتیں اس سے اکثر تنہائی میں بھی سرزد ہوجاتی تھیں ۔
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”