خوفناک عمارت

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

خوفناک عمارت

Post by سیدتفسیراحمد »

[center]

خوفناک عمارت


ابن صفی


[/center]
Last edited by سیدتفسیراحمد on Tue Oct 21, 2008 1:50 am, edited 2 times in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 1

Post by سیدتفسیراحمد »

باب نمبر 1

سوٹ پہن چکنے کے بعد عمران آئینے کے سامنے لچک لچک کر ٹائی باندھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ ”اوہنہ ....پھر وہی ....چھوٹی بڑی ....میں کہتا ہوں ٹائیاں ہی غلط آنے لگی ہیں ۔ “ وہ بڑبڑاتا رہا ۔ ”اور پھر ٹائی ....لاحول والا قوۃ ....نہیں باندھتا !“

یہ کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ صرف گردن سے جالگی بلکہ اتنی تنگ ہوگئی کہ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھیں ابل پڑیں ۔

”بخ ....بخ ....خیں“....اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں اور وہ پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے چیخا۔”ارے مرا ....بچاو ؟ سلیمان“

ایک نوکر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ....پہلے تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں کیونکہ عمران سیدھا کھڑا ہوا دونوں ہاتھوں سے اپنی رانیں پیٹ رہا تھا !

”کیا ہوا سرکار۔ ” سلیمان بھرائی ہوئی آواز میں بولا !

” ارے ....لیکن ....مگر ....؟“

”لیکن ....مگر ....اگر ....”عمران دانت پیس کرناچتا ہوا بولا “ابے ڈھیلی کہ “

”کیا ڈھیلی کروں !“نوکر نے متحیر آمیز لہجے میں کہا ۔

”اپنے باوا کے کفن کی ڈوری ....جلدی کر....ارے مرا۔“

” تو ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں؟“نوکر بھی جنجھلا گیا ۔

”اچھا بے تو کیا میں غلط بتا رہا ہوں ! میں یعنی عمران ایم ایس سی پی ، ایچ ڈی کیا غلط بتا رہا ہوں ابے کم بخت اسے اردو میں استعارہ اور انگریزی میں مٹیا فرکہتے ہیں ۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو باقاعدہ بحث کر مرنے سے پہلے یہ ہی سہی ۔

نوکرنے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی ۔ جس کی گرہ گردن میں بری طرح سے پھنسی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھولی۔

”اگر میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آئی !“ عمران گرج کر بولا ۔

”غلطی ہوئی صاحب !“

”پھر وہی کہتا ہے ، کس سے غلطی ہوئی ؟“

” مجھ سے !“

” ثابت کرو کہ تم سے غلطی ہوئی ۔ “عمران ایک صوفے میں گرا کر اسے گھورتا ہوا بولا ۔ نوکر سرکھجانے لگا ۔

” جوئیں ہیں کیا تمہارے سر میں !“عمران نے ڈانٹ کر پوچھا ۔

” نہیں تو “

” تو پھر کیوں کھجا رہے تھے ؟“

’ ’یونہی “

” جاہل .... گنوار ....خواہ مخواہ بے تکی حرکتیں کرکے اپنی انرجی برباد کرتے ہو ۔ ، نوکر خامو ش رہا ۔

”یونگ کی سائیکالوجی پڑھی ہے تم نے ؟“عمران نے پوچھا ۔

نوکر نے نفی میں سر ہلادیا ۔

” یونگ کی ہجے جانتے ہو ۔“

” نہیں صاحب !“نوکر اکتا کر بولا ۔

”اچھا یاد کراو....جے ....یو....این....جی ....یونگ ! بہت سے جاہل اسے جنگ پڑھتے ہیں اورکچھ جونگ ....!جنہیں قابلیت کا ہیضہ ہوجاتا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور لکھنے لگ جاتے ہیں ....فرانسیی میں جے ”ژ“کی آواز دیتا ہے مگر یونگ فرانسیی نہیں تھا ۔“

”شام کو مرغ کھائیے گا ....یا تیتر۔“ نوکر نے پوچھا ۔

”آدھا تیتر آدھا بٹیر ۔“عمران جھلا کربولا ۔ ” ہاں میں ابھی کیا کہہ رہا تھا ....“وہ خاموش ہوکر سوچنے لگا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”آپ کہہ رہے تھے کہ مسالہ اتنا بھوناجائے کہ سرخ ہوجائے ۔ “ نوکر نے سنجیدگی سے کہا ۔ ”ہاں اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھونو ! “عمران بولا ۔ ”کفگیر کو اس طرح دیگچی میں نہ ملاو کہ کھنک پیدا ہو اور پڑوسیوں کی رال ٹپکنے لگے ۔ ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہوکہ میں کہاں جانے کی تیاری کررہا تھا۔“

”آپ!“نوکر کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ”آپ میرے لئے ایک شلوار قمیض کا کپڑا خریدنے جارہے تھے ! بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کےلئے بوسکی ۔“

”گڈ! تم بہت قابل اور نمک حلال ہو اگر تم مجھے یاد نہ دلاتے رہو تو میں سب کچھ بھول جاوں ۔“

” میں ٹائی باندھ دوں سرکار! نوکر نے بڑے پیار سے کہا ۔

”باندھ دو۔“

نوکر ٹائی باندھتے وقت بڑبڑاتا جارہا تھا ۔” بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کےلئے بوسکی ۔ کہئے تو لکھ دوں !“

” بہت زیادہ اچھا رہے گا !“ عمرا ن نے کہا ۔

ٹائی باندھ چکنے کے بعد نوکر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر اس کی طرح بڑھادیا ۔ ” یوں نہیں !“عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بولا ” اسے یہاں پن کردو ۔“ نوکر نے ایک پن کی مدد سے اس کے سینے پر لگادیا ۔

”اب یاد رہے گا ۔ ” عمران کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا !....راہداری طے کرکے وہ ڈرائنگ روم میں پہنچا ....یہاں تین لڑکیاں بیٹھی تھیں ۔

” واہ عمران بھائی ! “ ان میں سے ایک بولی ۔ ” خوب انتظار کرایا ! کپڑے پہننے میں اتنی دیر لگاتے ہیں ۔“

”اوہ تو کیا آپ لوگ میرا انتظار کررہی تھیں۔

” کیوں ! کیا آپ نے ایک گھنٹہ قبل پکچر چلنے کا وعدہ نہیں کیا تھا ؟“

” پکچر چلنے کا ! مجھے تو یاد نہیں .... میں تو سلیمان کے لئے ....”عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

” یہ کیا ؟“ وہ لڑکی قریب آکر آگے کی طرف جھکتی ہوئی بولی۔” بیس ہزار کا لٹھا ....اور بو سکی ! یہ کیا ہے ....اس کا مطلب؟ “

پھر وہ بے تحاشہ ہنسنے لگی ....عمران کی بہن ثریا نے بھی اٹھ کر دیکھا لیکن تیسری بیٹھ رہی ۔ وہ شاید ثریا کی کوئی نئی سہیلی تھی !

”یہ کیا ہے“ثریا نے پوچھا ۔

” سلیمان کے لئے شلوار قمیض کا کپڑا لینے جارہا ہوں ۔“

” لیکن ہم سے کیوں وعدہ کیا تھا !“ وہ بگڑ کر بولی ۔

”بڑی مصیبت ہے ! “عمران گردن جھٹک کر بولا ۔” تمہیں سچا سمجھوں یا سلیمان کو ۔“

” اسی کمینے کو سچا سمجھئے ! میں کون ہوتی ہوں !“ثریا نے کہا ۔ پھر اپنی سہیلیوں کی طرف مڑ کر بولی ۔”اکیلے ہی چلتے ہیں !آپ ساتھ گئے بھی تو شرمندگی ہی ہوگی....کر بیٹھیں گے کوئی حماقت !“

”ذرا دیکھئے آپ لوگ !“ عمران رونی صورت بنا کر درد بھری آواز میں بولا ۔”یہ میری چھوٹی بہن ہے مجھے احمق سمجھتی ہے ثریا میں بہت جلد مرجاؤں گا! کسی وقت جب ٹائی غلط بندھ گئی ! اور بیچارے سلیمان کو کچھ نہ کہو !وہ میرا محسن ہے ! اس نے ابھی ابھی میری جان بچائی ہے !“

”کیا ہوا تھا ۔“ثریا کی سہیلی جمیلہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا ۔

”ٹائی غلط بندھ گئی تھی !“عمران انتہائی سنجیدگی سے بولا ۔ً

جمیلہ ہنسنے لگی ۔ لیکن ثریا جلی کٹی بیٹھی رہی ۔ اس کی نئی سہیلی متحیر انہ انداز میں اس سنجیدہ احمق کو گھوررہی تھی۔

”تم کہتی ہو تو میں پکچر چلنے کو تیار ہوں ۔“عمران نے کہا ۔”لیکن واپسی پر مجھے یاد دلانا کہ میرے سینے پر ایک کاغذ پن کیا ہوا ہے ۔“

”تو کیا یہ اسی طرح لگا رہے گا ۔ “جمیلہ نے پوچھا ۔

”اور کیا ۔“

”میں تو ہرگز نہ جاؤں گی ۔ “ثریا نے کہا ۔

”نہیں عمران بھائی کے بغیر مزہ نہ آئے گا ۔ “ جمیلہ نے کہا ۔

”جینو!“عمران خوش ہوکر بولا ۔ ” میرادل چاہتا ہے کہ تمہیں ثریا سے بدل لوں ! کاش تم میری بہن ہوتیں ۔

دانشکدہِ تفسیرسیدتفسیراحمد
رکن رکین


مراسلات: 4267
تاریخ شمولیت:: بدھ جون 18, 2008 12:26 am
ذاتی پیغامبرقی خط
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

یہ نک چڑھی ثریا مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی ۔“

”آپ خود نک چڑھے !آپ کب اچھے لگتے ہیں ۔ “ثریا بگڑ کربولی ۔

”دیکھ رہی ہو ، یہ میری چھوٹی بہن ہے !“

”میں بتاوں ! “جمیلہ سنجیدگی سے بولی !آپ یہ کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیجئے میں یاد دلادوں گی ۔“

’’ اور اگر بھول گئیں تو ....ویسے تو کوئی راہ گیر ہی اسے دیکھ کر مجھے یاد دلادے گا ۔“

”میں وعدہ کرتی ہوں !“

عمران نے کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیا ....ثریا کچھ کھنچی کھنچی سی نظر آنے لگی تھی ۔

وہ جیسے ہی باہر نکلے تو ایک موٹر سائیکل پورٹیکومیں آکر رکی جس پرایک باوقار اوربھاری بھرکم آدمی بیٹھا ہوا تھا۔

”ہیلو سو پر فیاض !“عمران دونوں ہاتھ بڑھا کر چیخا۔

”ہیلو! عمران ....مالی لیڈ ....تم کہیں جارہے ہو ۔ “موٹر سائیکل سوار بولا ۔ پھر لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔ ”اوہ معاف کیجئے گا ....لیکن یہ کام ضروری ہے۔

عمران جلدی کرو۔“

عمران اچھل کر کیرئیر پربیٹھ گیا اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے گزر گئی ۔

”دیکھا تم نے ۔“ثریا اپنا نچلا ہونٹ چباکر بولی ۔

”یہ کون تھا ....!“جمیلہ نے پوچھا ۔

”محکمہ سراغرسانی کا سپرنٹنڈنٹ فیاض ....مگر ایک بات سمجھ نہیں آسکی کہ اسے بھائی جان جیسے خبطی آدمی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ۔ یہ اکثر انہیں اپنے ساتھ لے جایا کرتا ہے ۔“

” عمران بھائی دلچسپ آدمی ہیں !“جمیلہ نے کہا ۔” بھئی کم از کم مجھے تو ان کی موجودگی میں بڑا لطف آتا ہے ۔“

ایک پاگل دوسرے پاگل کو عقل مند سمجھتا ہے !“ثریا منہ بگاڑ کر بولی ۔

”مگر مجھے تو پاگل نہیں معلوم ہوتے ۔“ثریا کی نئی سہیلی نے کہا ۔

اور اس نے قریب قریب ٹھیک ہی بات کہی تھی ۔ عمران صورت سے خبطی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ خاصاً خوبرو اور دلکش نوجوان تھا عمر ستائیس کے لگ بھگ رہی ہوگی !خوش سلیقہ اور صفائی پسند تھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

تندرستی اچھی اور جسم ورزشی تھا ۔مقامی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری لے کر انگلینڈ چلا گیا تھا اور وہاں سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کر واپس آیا تھا ۔ اس کا باپ رحمان محکمہ سراغرسانی میں ڈائریکٹر جنرل تھا ۔ انگلینڈ سے واپسی پر اس کے باپ نے کوشش کی تھی کہ اسے کوئی اچھا سا عہدہ د لادے لیکن عمران نے پرواہ نہ کی ۔

کبھی وہ کہتا کہ میں سائنسی آلات کی تجارت کروں گا ! کبھی کہتا کہ اپنا ذاتی انسٹی ٹیوٹ قائم کرکے سائنس کی خدمت کروں گا ....بہر حال کچھ !گھر بھر اس سے نالاں تھا اور انگلینڈ سے واپسی کے بعد تو اچھا خاصا احمق ہوگیا تھا ۔ اتنا احمق کہ گھر کے نوکر تک اسے الو بنایا کرتے تھے ۔ اسے اچھی طرح لوٹنے اس کی جیب سے دس دس روپے کے نوٹ غائب کردیتے اوراسے پتہ تک نہ چلتا ۔

باپ تو اس کی صورت تک دیکھنے کا بھی روادار نہیں تھا صرف ماں ایسی تھی کہ وہ اس کی بدولت وہ اس کوٹھی میں مقیم تھا ۔ ورنہ کبھی کا نکال دیا گیا ہوتا ۔اکلوتا لڑکا ہونے کے باوجود بھی رحمن صاحب اس سے عاجز آگئے تھے !

”پاگل وہ اسی وقت نہیں معلوم ہوتے جب خاموش ہوں ۔ “ ثریا بولی ۔ ” دو چار گھنٹے بھی اگر ان حضرت کے ساتھ رہنا پڑے تو پتہ چلے ۔“

” کیا کاٹنے دوڑتے ہیں ۔ “جمیلہ نے مسکرا کرکہا ۔

”اگران میں اسی طرح دلچسپی لیتی رہیں تو کسی دن معلوم ہوجائے گا ۔ “ثریا منہ سکوڑ کر بولی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 2

Post by سیدتفسیراحمد »


باب 2


کیپٹن فیاض کی موٹرسائیکل فراٹے بھر رہی تھی اور عمران کیرئیر پر بیٹھا بڑبڑاتا جارہا تھا ۔ “ شلوار کا لٹھا ۔بوسکی کی
قمیض ....شلوار کا بوسکا....لٹھی ....لٹھی....کیا تھا لاحولولا قوۃ بھول گیا دیکھو۔ یار ....رکو....شاید “

فیاض نے موٹر سائیکل روک دی ۔

“ بھول گیا ! “ عمران بولا ۔

“ کیا بھول گئے ۔”

“ کچھ غلطی ہوگئی۔”

“ کیا غلطی ہوگئی ۔” فیاض جھنجھلا کر بولا ۔ “ یار کم از کم مجھے تو الو نہ بنایا کرو۔”

“ شاید میں غلط بیٹھا ہوا ہوں ۔” عمران کیریئر سے اترتا ہوا بولا ۔

“ جلدی ہے یار! “ فیاض نے گردن جھٹک کر کہا ۔

عمران اس کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گیا ۔

“ یہ کیا؟” فیاض نے حیرت سے کہا....

“ بس چلو ٹھیک ہے۔”

“ خدا کی قسم تنگ کرڈالتے ہو۔” فیاض اکتا کر بولا۔

“ کون سی مصیبت آگئی! “ عمران بھی جھنجھلانے لگا۔

“ مجھے بھی تماشابناو ¿گے۔ سیدھے بیٹھونا! “

“ تو کیا میں سر کے بل بیٹھا ہوا ہوں! “

“ مان جاو ¿ پیارے ! “ فیاض خوشامدانہ لہجے میں بولا ۔ “ لوگ ہنسیں گے ہم پر ! “

“ یہ تو بڑی اچھی با ت ہے”

“ منہ کے بل گروگے سڑک پر ! “

“ اگر تقدیر میں یہی ہے ! تو بندہ بے بس و ناچار ۔” عمران نے دریشانہ انداز میں کہا
۔
“ خدا سمجھے تم سے ۔” فیاض نے دانت پیس کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کردی اس کا منہ مغرب کی طرف تھا اور عمران کا مشرق کی طرف ! اورعمران اس طرح آگے کی طرف جھکا ہوا تھا جیسے وہ خودہی موٹر سائیکل ڈرائیور کررہا ہو! راہ گیر انہیں دیکھ دیکھ کرہنس رہے تھے ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ دیکھا یاد آگیا نا ! “ عمران چہک کر بولا شلوار کا لٹھا اور قمیض کی بوسکی ....میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کوئی غلطی ہوگئی ہے ۔”

“ عمران! تم مجھے احمق کیوں سمجھتے ہو! “ فیاض نے جھنجھلا کر کہا ۔ “ کم از کم میرے سامنے تو خبطی پن سے باز آجایا کرو ۔”

“ تم خود ہو گے خبطی! “ برا مان کر بولا۔

“ آخر اس ڈھونگ سے کیا فائدہ۔”

“ ڈھونگ !کمال کردیا ۔ اف فوہ ! اس لفظ ڈھونگ پرمجھے وہ بات یاد آگی ہے جسے اب سے ایک سال پہلے یاد آنا چاہیے تھا ۔”

فیاض کچھ نہ بولا ۔ موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرتی رہی ۔

“ ہائیں! “ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔ “ یہ موٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہی ہے ۔ارے اس کا ہینڈل کیا ہوا ....پھر اس نے بے تحاشہ چیخنا شروع کردیا ۔” ہٹو ....بچو....میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔”

فیاض نے موٹر سائیکل روک دی اور جھینپے ہوئے انداز میں راہ گیروں کی طرف دیکھنے لگا ۔

“ شکر ہے خدا کا کہ خود بخود رک گئی ! “ عمران اترتا ہوا بڑبڑایا ....پھر جلدی سے بولا ۔” لاحول ولاقوۃ اس کا ہینڈل پیچھے ہے ! اب موٹر سائیکلیں بھی الٹی بننے لگیں ۔”

“ کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کررہے ہو؟ “ فیاض نے بے بسی سے کہا ۔

“ تنگ تم کررہے ہو یا میں !....الٹی موٹر سائیکل پرلئے پھرتے ہو! اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو! “

“ چلو بیٹھو ۔” فیاض اسے کھینچتا ہوا بولا ۔

موٹر سائیکل پھر چل پڑی ۔

“ اب تو ٹھیک چل رہی ہے ۔” عمران بڑبڑایا۔

موٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جارہی تھی اور عمران نے ابھی تک فیاض سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جارہاہے ۔

“ آج مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہے “ فیاض بولا۔

“ لیکن میں آج کل بالکل مفلس ہوں ۔ “ عمران نے کہا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ دیکھا یاد آگیا نا ! “ عمران چہک کر بولا شلوار کا لٹھا اور قمیض کی بوسکی ....میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کوئی غلطی ہوگئی ہے ۔”

“ عمران! تم مجھے احمق کیوں سمجھتے ہو! “ فیاض نے جھنجھلا کر کہا ۔ “ کم از کم میرے سامنے تو خبطی پن سے باز آجایا کرو ۔”

“ تم خود ہو گے خبطی! “ برا مان کر بولا۔

“ آخر اس ڈھونگ سے کیا فائدہ۔”

“ ڈھونگ !کمال کردیا ۔ اف فوہ ! اس لفظ ڈھونگ پرمجھے وہ بات یاد آگی ہے جسے اب سے ایک سال پہلے یاد آنا چاہیے تھا ۔”

فیاض کچھ نہ بولا ۔ موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرتی رہی ۔

“ ہائیں! “ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔ “ یہ موٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہی ہے ۔ ارے اس کا ہینڈل کیا ہوا ....پھر اس نے بے تحاشہ چیخنا شروع کردیا ۔” ہٹو ....بچو....میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔”

فیاض نے موٹر سائیکل روک دی اور جھینپے ہوئے انداز میں راہ گیروں کی طرف دیکھنے لگا ۔

“ شکر ہے خدا کا کہ خود بخود رک گئی ! “ عمران اترتا ہوا بڑبڑایا ....پھر جلدی سے بولا ۔” لاحول ولاقوۃ اس کا ہینڈل پیچھے ہے ! اب موٹر سائیکلیں بھی الٹی بننے لگیں ۔”

“ کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کررہے ہو؟ “ فیاض نے بے بسی سے کہا ۔

“ تنگ تم کررہے ہو یا میں !....الٹی موٹر سائیکل پرلئے پھرتے ہو! اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو! “

“ چلو بیٹھو ۔” فیاض اسے کھینچتا ہوا بولا ۔

موٹر سائیکل پھر چل پڑی ۔

“ اب تو ٹھیک چل رہی ہے ۔” عمران بڑبڑایا۔

موٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جارہی تھی اور عمران نے ابھی تک فیاض سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جارہاہے ۔

“ آج مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہے “ فیاض بولا۔

“ لیکن میں آج کل بالکل مفلس ہوں ۔ “ عمران نے کہا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ اچھا تو کیا میں تم سے ادھارمانگنے جارہا تھا”

“ پتہ نہیں ۔ میں یہی سمجھ رہا تھا ! ارے باپ رے پھر بھول گیا! ....لٹھ مار کا....پانجامہ ....اور قمیض ....لاحول ولاقوة .... بوسکا....”

“ پلیز شٹ اپ....عمران....یوفول! “ فیاض جھنجھلا اٹھا۔

“ عمران....” کیپٹن فیاض نے ٹھنڈی سانس لے کر پھر اسے مخاطب کیا۔

“ اوں....ہا۔”

“ تم آخر دوسروں کو بےوقوف کیوں سمجھتے ہو۔”

“ کیونگہ ....ہا....ارے باپ رے یہ جھٹکے ....یار ذرا چکنی زمین پر چلاو ؟! “

“ میں کہتا ہوں کہ اب یہ ساری حماقتیں ختم کرکے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔”

“ ڈھنگ ....لویار....اس ڈھنگ پر بھی کوئی بات یاد آنے کی کوشش کررہی ہے۔”

“ جہنم میں جاو ¿۔” فیاض جھلا کر بولا۔

“ اچھا ۔” عمران نے بڑی سعادت سے گردن ہلائی۔

موٹر سائیکل ایک کافی طویل و عریض عمارت کے سامنے رک گئی جس کے پھاٹک پر تین چار باوردی کانسٹیبل نظرآرہے تھے۔
“ اب اترو بھی ۔ “ فیاض نے کہا۔

“ میں سمجھا شائد اب تم مجھے ہینڈل پر بٹھاو ¿ گے ۔” عمران اترتا ہوا بولا ۔

وہ اس وقت ایک دیہی علاقہ میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیادہ دور نہ تھا یہاں بس یہی ایک عمارت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے کچے پکے مکانوں پر مشتمل تھی اس عمارت کی بناوٹ طرز قدیم سے تعلق رکھتی تھی !چاروں طرف سرخ رنگ کی لکھوری اینٹوں کی کافی بلنددیواریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھاٹک تھا جو غالباً صدر دروازے کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا ہوگا۔

کیپٹن فیاض عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں داخل ہوگیا ....اب بھی عمران نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ اسے کہاں اور کس مقصد کے تحت لایا ہے ۔

دونوں ایک طویل دالان سے گزرتے ہوئے ایک کمرے میں آئے اچانک عمران نے اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لئے اور منہ پھیر کر کھڑا ہوگیا ۔ اس نے ایک لاش دیکھ لی تھی جو فرش پراوندھی پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ انا للہ وانا الیہ راجعون” وہ کپکپاتی آواز میں بڑبڑارہا تھا ۔

“ خدا اس کے متعلقین کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اسے صبر کی توفیق عطا فرمائے”

“ میں تمہیں دعائے خیر کرنے کے لئے نہیں لایا۔” جھنجھلا کر بولا۔

“ تجہیز و تکفےن کے لئے چندہ وہاں بھی مانگ سکتے تھے آخر اتنی دور کیوں گھسیٹ لائے۔”

“ یار عمران خدا کے لئے بور نہ کرو! میں تمہیں اپنا ایک بہترین دوست سمجھتا ہوں ۔” فیاض نے کہا۔

“ میں بھی یہی سمجھتا ہوں ۔مگر پیارے پانچ روپے سے زیادہ نہ دے سکوں گا ۔ ابھی مجھے....لٹھی کا بوسکا خریدنا ہے !....کیا لٹھی ....لویار پھر بھول گیا !کیا مصیبت ہے۔”

فیاض چند لمحے کھڑا اسے گھورتا رہا پھر بولا۔

“ یہ عمارت پچھلے پانچ برسوں سے بند رہی ہے ۔ کیا ایسی حالت میں یہاں ایک لاش کی موجودگی حیرت انگیز نہیں ہے ۔”

“ بالکل نہیں۔” عمران سرہلاکر بولا۔ “ اگر یہ لاش کسی امرود کے درخت پر پائی جاتی تو میں اسے عجوبہ تسلیم کرلیتا۔”

“ یار تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ ہوجاو ؟۔”

“ میں شروع ہی سے رنجیدہ ہوں ۔ “ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا

“ رنجیدہ نہیں سنجیدہ “ فیاض نے اسے مخاطب کیا ۔

عمران خاموشی سے لاش کی طرف دیکھ رہا تھا ....وہ آہستہ سے بڑبڑایا ۔ “ تین زخم”

فیاض اسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا ۔

“ پہلے پوری بات سن لو ! “ فیاض نے اسے مخاطب کیا ۔

“ ٹھہرو ۔” عمران جھکتا ہوا بولا ۔ وہ تھوڑی دیر تک زخموں کو غورسے دیکھتا رہا پھر سراٹھا کر بولا “ پوری بات سنانے سے پہلے یہ بتاو کہ اس لاش کے متعلق تم کیا بتاسکتے ہو”

“ آج بارہ بجے دن کو یہ دیکھی گئی :! “ فیاض نے کہا ۔

“ او نہہ!میں زیادہ عقل مندانہ جواب نہیں چاہتا ۔ “ عمران ناک سکوڑ کر بولا۔

“ میں یہ جانتا ہوں کہ کسی نے اس پر تین وار کئے ہیں “
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ اور کچھ ! “ عمران اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

“ اور کہا! “ فیاض بولا۔

“ مگر ....شیخ چلی دوئم....یعنی علی عمران ایم ایسی ۔سی۔پی ۔ایچ۔ڈی کا خیال کچھ اور ہے۔”

“ کیا؟”

“ سن کر مجھے الو سہی احمق بنادو سمجھنے لگوگے۔”

“ ارے یار کچھ بتاو بھی تو سہی ۔”

“ اچھا سنو ! قاتل نے پہلا وار کیا!....پھر پہلے زخم سے پانچ پانچ انچ کا فاصلہ ناپ کر دوسرا اور تیسرا وار کیا ور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ زخم بالکل سیدھ میں رہیں ۔ نہ ایک سوت ادھر نہ ایک سوت ادھر ۔”

“ ناپ کر دیکھ لو میری جان اگر غلط نکلے تو میرا قلم سر کر دینا ....آں....شائد میں غلط بول گیا ....میرے قلم پہ سر رکھ دینا ....”

عمران نے کہا اورادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور پھرجھک کر زخموں کادرمیانی فاصلہ ناپنے لگا فیاض اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔

“ لو” عمران اسے تنکا پکڑاتا ہوا بولا ۔ “ اگر یہ تنکا پانچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈاڑھی تلاش کرنا۔

“ مگر اس کا مطلب ! “ فیاض کچھ سوچتا ہوا بولا۔

“ اس کا مطلب یہ کہ قاتل و مقتول دراصل عاشق و معشوق تھے ۔”

“ عمران پیارے ذرا سنجیدگی سے ۔”

“ یہ تنگا بتاتا ہے کہ یہی بات ہے ۔” عمران نے کہا “ اور اردو کے پرانے شعراءکا بھی یہی خیال ہے ۔ کسی کا بھی دیوان ٹھا کر دیکھ لو ! دو چار شعر اس قسم کے ضرور مل جائیں گے جن سے میرے خیال کی تائید ہوجائے گی ۔ چلو ایک شعر سن ہی لو۔

موچ آئے نہ کلائی میں کہیں
سخت جاں ہم بھی بہت پیارے

“ مت بکواس کرو ۔ اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو صاف صاف کہہ دو۔” فیاض بگڑ کر بولا ۔

“ فاصلہ تم نے ناپ لیا !اب تم ہی بتاو کہ کیا بات ہوسکتی ہے “ عمران نے کہا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فیاض کچھ نہ بولا۔

“ ذرا سوچو تو ۔” عمران پھر بولا ۔ “ ایک عاشق ہی اردو شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بناکر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں ۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرنے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جومزاج یار میںآئے.... “

“ پرانی شاعری اورحقیقت میں کیا لگاو ہے ؟” فیاض نے پوچھا ۔

“ پتہ نہیں ۔ “ عمران پر خیال انداز میں سرہلا کربولا ۔ “ ویسے اب تم پوری غزل سناسکتے ہو۔ مقطع میں عرض کردوں گا۔”

فیاض تھوڑی دیر خاموش رہا پھربولا۔ “ یہ عمارت تقریباً پانچ سال سے خالی رہی ہے!....ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کے لئے اسے کھولا جاتا ہے”

“ کیوں ؟”

“ یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے ۔”

“ چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔” عمران نے پوچھا ۔

“ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ جن لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اوران سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کوقبر کی دیکھ بھال کرلیا کرے!....یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی ۔ بہر حال آدمی آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی ۔”

“ تالابند تھا ! “ عمران نے پوچھا ۔

“ ہاں ۔اوروہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں ا س قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناءپر کہا جاسکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو” ۔

” تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی! “ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔” بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کرو جس کی قبر....”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فیاض کچھ نہ بولا۔

“ ذرا سوچو تو ۔” عمران پھر بولا ۔ “ ایک عاشق ہی اردو شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بناکر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں ۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرنے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جومزاج یار میںآئے.... “

“ پرانی شاعری اورحقیقت میں کیا لگاو ہے ؟” فیاض نے پوچھا ۔

“ پتہ نہیں ۔ “ عمران پر خیال انداز میں سرہلا کربولا ۔ “ ویسے اب تم پوری غزل سناسکتے ہو۔ مقطع میں عرض کردوں گا۔”

فیاض تھوڑی دیر خاموش رہا پھربولا۔ “ یہ عمارت تقریباً پانچ سال سے خالی رہی ہے!....ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کے لئے اسے کھولا جاتا ہے”

“ کیوں ؟”

“ یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے ۔”

“ چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔” عمران نے پوچھا ۔

“ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ جن لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اوران سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کوقبر کی دیکھ بھال کرلیا کرے!....یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی ۔ بہر حال آدمی آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی ۔”

“ تالابند تھا ! “ عمران نے پوچھا ۔

“ ہاں ۔اوروہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں ا س قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناءپر کہا جاسکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو” ۔

” تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی! “ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔” بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کرو جس کی قبر....”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ پھر بہکنے لگے ! “ فیاض بولا۔

“ اس عمارت کے مالک کون ہیں اور کیسے ہیں ! “ عمران نے پوچھا۔

“ وہی میرے پڑوس والے جج صاحب ۔” فیاض بولا۔

“ ہائے وہی جج صاحب! “ عمران اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ہونٹ چاٹنے لگا۔

“ ہاں وہی ....یار سنجیدگی سے....خدا کے لے۔”

“ تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔‘ ‘عمران مایوسانہ انداز میں سرہلا کر بولا ۔

“ کیوں”

“ تم نے میری مدد نہیں کی؟”

“ میں نے ۔” فیاض نے حیرت سے کہا ۔” میں نہیں سمجھا۔”

“ خود غرض ہونا ۔بھلا تم میرے کام کیوں آنے لگے۔”

“ ارے تو بتاو نا۔میں واقعی نہیں سمجھا۔”

“ کب سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے میری شادی کرادو۔”

“ مت بکو....ہر وقت بے تکی باتیں۔ “

“ میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں ۔” عمران نے کہا ۔

“ اگر سنجیدگی سے کہہ رہے ہو تو شائد تم اندھے ہو۔”

“ کیوں ۔”

“ اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے ۔”

“ اس لئے تو میں اسے سے شادی کرناچاہتا ہوں ۔ وہ مجھے اور میرے کتوں کو ایک نظر سے دیکھے گی۔”

“ یار خدا کے لئے سنجیدہ ہوجاو “

“ پہلے تم وعدہ کرو۔” عمران بولا۔

“ اچھا بابا میں ان سے کہوں گا۔”

“ بہت بہت شکریہ! مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہوگیا ہے ....کیا کہتے ہیں اسے ....لویار بھول گیا....حالانکہ کچھ دیر پہلے اسی کا تذکرہ تھا۔”

“ چلو چھوڑو کام کی باتیں کرو۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ نہیں اسے یادہی آجانے دو۔ورنہ مجھ پر ہسٹیر یا کادورہ پڑجائے گا۔”

“ عشق ۔” فیاض منہ بنا کر بولا۔

“ جیو!شاباش! “ عمران نے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔” خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے۔اچھا اب یہ بتاو کہ لاش کی شناخت ہوگئی یا نہیں ۔”

“ نہیں! نہ تو اس علاقہ کا باشندہ ہے اور نہ جج صاحب کے خاندان والے ہیں اس سے واقف ہیں۔”

“ یعنی کسی نے اسے پہچانا نہیں۔”

“ نہیں! “

“ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پرروشنی پڑسکے۔”

“ کوئی نہیں....مگر ٹھہرو! “ فیاض ایک میز کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔واپسی پر اس کے ہاتھ میں چمڑے کا تھیلا تھا۔

“ یہ تھیلا ہمیں لاش کے قریب پڑا ملا تھا۔” فیاض نے کہا۔

عمران تھیلا اس کے ہاتھ سے لے کر اندر کی چیزوں کا جائز لینے لگا۔

“ کسی بڑھئی کے اوزار۔” اس نے کہا ۔” اگر یہ مقتول ہی کے ہیں تو....ویسے اس شخص کی ظاہری حالت اچھی نہیں ....لیکن پھر بھی یہ بڑھئی نہیں معلوم ہوتا....! “

“ کیوں! “

“ اس کے ہاتھ بڑے ملائم ہیں اور....ہتھیلیوں میں کھردراپن نہیں ہے ۔ یہ ہاتھ تو کسی مصور یا رنگساز ہی کے ہوسکتے ہیں ۔” عمران بولا۔

“ ابھی تک تم نے کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔” فیاض نے کہا۔

“ ایک احمق آدمی سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔” عمران ہنس کر بولا۔

“ اس کے زخموں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے ۔” فیاض نے کہا

“ اگر تم نے میرے زخموں پر مرہم رکھا ....تو میں ان زخموں کو بھی دیکھ لوں گا۔”

“ کیا مطلب۔”

“ جج صاحب کی لڑکی ! “ عمران اس طرح بولا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو! “ اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پاس ضرور رہتی ہوگی۔”

“ ہاں ایک ان کے پاس بھی ہے ۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ ہے یا تھی”

“ یہ تو میں نے نہیں پوچھا! “

“ خیر پھر پوچھ لینا ۔ اب لاش کو اٹھواو ....پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں زخموں کی گہرائیوں کا خاص خیال رکھا جائے ۔”

“ کیوں ! “

“ اگر زخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسرے کے برابر ہوئیں تو سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حرکت ہے ۔”

“ کیوں فضول بکواس کررہے ہو۔”

“ جو کہہ رہا ہوں ....اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہوتو علی عمران ایم۔ایس ۔سی ۔پی ۔ایچ۔ڈی کی خدمات حاصل کرنا ۔ور نہ کوئی....کیا نہیں ....ذرابتاو تو میں کون سا لفظ بھول رہا ہوں”

“ ضرورت! “ فیاض براسامنہ بنا کربولا ۔

“ جیتے رہو ....ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔”

“ تمہاری ہدایت پر عمل کیا جائے گا !اور کچھ !۔

“ اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چاہتا ہوں ۔” عمران نے کہا۔

پوری عمارت کا چکر لگالینے کے بعد وہ پھراسی کمرے میں لوٹ آئے ۔

“ ہاں بھئی جج صاحب سے ذرا یہ بھی پوچھ لینا کہ انہوں نے صرف اسی کمرے کی ہیئت بدلنے کی کوشش کیوں کرڈالی ہے جبکہ پوری عمارت اسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے ....کہیں بھی دیوار پر پلاسٹر نہیں دکھائی دیا ....لیکن یہاں ہے....”

“ پوچھ لوں گا۔”

“ اور کنجی کے متعلق بھی پوچھ لینا !....اور ....اگر وہ محبوبہ یک چشم مل جائے تو اس سے کہنا کہ تیرے نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے!....شائد غالب کی محبوبہ بھی ایک ہی آنکھ رکھتی تھی ....کیونکہ تیر نیم کش ا کلوتی ہی آنکھ کا ہوسکتا ہے ۔”

“ تو اس وقت اور کچھ نہیں بتاو گے ۔” فیاض نے کہا ۔

“ یار بڑے احسان فروش ہو ....فروش....شائد میں پھر بھول گیا ۔ کونسا لفظ ہے ۔”

“ فراموش “

“ جینو ۔ ہاں تو بڑے احسان فراموش ہو ۔اتنی دیر سے بکواس کررہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتایا ہی نہیں۔”دانشکدہِ تفسیر
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ ہے یا تھی”

“ یہ تو میں نے نہیں پوچھا! “

“ خیر پھر پوچھ لینا ۔ اب لاش کو اٹھواو ....پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں زخموں کی گہرائیوں کا خاص خیال رکھا جائے ۔”

“ کیوں ! “

“ اگر زخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسرے کے برابر ہوئیں تو سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حرکت ہے ۔”

“ کیوں فضول بکواس کررہے ہو۔”

“ جو کہہ رہا ہوں ....اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہوتو علی عمران ایم۔ایس ۔سی ۔پی ۔ایچ۔ڈی کی خدمات حاصل کرنا ۔ور نہ کوئی....کیا نہیں ....ذرابتاو تو میں کون سا لفظ بھول رہا ہوں”

“ ضرورت! “ فیاض براسامنہ بنا کربولا ۔

“ جیتے رہو ....ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔”

“ تمہاری ہدایت پر عمل کیا جائے گا !اور کچھ !۔

“ اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چاہتا ہوں ۔” عمران نے کہا۔

پوری عمارت کا چکر لگالینے کے بعد وہ پھراسی کمرے میں لوٹ آئے ۔

“ ہاں بھئی جج صاحب سے ذرا یہ بھی پوچھ لینا کہ انہوں نے صرف اسی کمرے کی ہیئت بدلنے کی کوشش کیوں کرڈالی ہے جبکہ پوری عمارت اسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے ....کہیں بھی دیوار پر پلاسٹر نہیں دکھائی دیا ....لیکن یہاں ہے....”

“ پوچھ لوں گا۔”

“ اور کنجی کے متعلق بھی پوچھ لینا !....اور ....اگر وہ محبوبہ یک چشم مل جائے تو اس سے کہنا کہ تیرے نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے!....شائد غالب کی محبوبہ بھی ایک ہی آنکھ رکھتی تھی ....کیونکہ تیر نیم کش ا کلوتی ہی آنکھ کا ہوسکتا ہے ۔”

“ تو اس وقت اور کچھ نہیں بتاو گے ۔” فیاض نے کہا ۔

“ یار بڑے احسان فروش ہو ....فروش....شائد میں پھر بھول گیا ۔ کونسا لفظ ہے ۔”

“ فراموش “

“ جینو ۔ ہاں تو بڑے احسان فراموش ہو ۔اتنی دیر سے بکواس کررہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتایا ہی نہیں۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 3

Post by سیدتفسیراحمد »


باب نمبر 3


دوسرے دن کیپٹن فیاض نے عمران کو اپنے گھر میں مدعو کیا ۔ حالانکہ کئی بار کے تجربات نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظاہر کرتا ہے نہ وہ احمق ہے اور نہ خبطی ! لیکن پھر بھی فیاض نے اسے موڈ میں لانے کے لئے جج صاحب کی کانی لڑکی کو بھی مدعو کرلیا تھا ! حالانکہ وہ عمران کی اس افتاد طبع کو بھی مذاق ہی سمجھا تھا لیکن پھر بھی س نے سوچا کہ تھوڑی تفریح ہی رہے گی ۔ فیاض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیاض نے اس اس کے ”عشق “کی داستان سنائی تو ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہوگیا ۔

فیاض اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظارکررہا تھا ۔ اس کی بیوی اور جج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی موجود تھیں ۔

”ابھی تک نہیں آئے عمران صاحب! “فیاض کی بیوی نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

”کیا وقت ہے ۔“فیاض نے پوچھا ۔

”ساڑھے سات“

”بس دو منٹ بعد وہ اس کمرے میں ہوگا ۔ “فیاض مسکرا کر بولا ۔

”کیوں ۔ یہ کیسے؟“

”بس اس کی ہر بات عجیب ہوتی ہے ! وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کرتا ہے ۔ اس نے سات بج کر بیس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا ۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہمارے بنگلے کے قریب کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوگا ۔“

”عجیب آدمی معلوم ہوتے ہیں ۔“رابعہ نے کہا۔

”عجیب ترین کہئے ! انگلینڈ سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کرآیا ہے ۔ لیکن اس کی حرکات وہ بھی دیکھ لیں گی ۔ اس صدی کا سب سے عجیب آدمی ....لیجئے شاہد وہی ہے ۔“

دروازے پر دستک ہوئی۔
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”