خوفناک عمارت

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ارکھیم لین میں پہنچ کر اگلی ٹیکسی رک گئی !وہ دونوں اترے اورایک گلی میں گھس گئے ۔ یہاں عمران ذرا ساک چوک گیا ! اس نے انہیں گلی میں گھستے ضرور دیکھا تھا ۔ لیکن جتنی دیر میں وہ ٹیکسی کاکرایہ چکاتا انہیں کھوچکا تھا!

گلی سنسان پڑی تھی ۔آگے بڑھا تو داہنے ہاتھ کو ایک دوسری گلی دکھائی دی ۔ اب اس دوسری گلی کو طے کرتے وقت اسے احساس ہوا کہ وہاں تو گلیوں کا جال بچھا ہوا تھا !لہٰذا سرمارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا ! وہ اس گلی کے سرے سے تھوڑے ہی فاصلہ پر رک کر ایک بک سٹال کے شوکیس میں لگی ہوئی کتابوں کے رنگارنگ گرد پوش دیکھنے لگا شائد پانچ ہی منٹ بعد ایک ٹیکسی ٹھیک اسی گلی کے دہانے پر رکی اور ایک معمر آدمی اتر کر کرایہ چکانے لگا ۔ اس کے چہرے پر بھورے رنگ کی ڈاڑھی تھی ۔لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ دیکھ کر چونکا ۔ آنکھیں بھی جانی پہچانی سی معلوم ہورہی تھیں۔

جیسے ہی وہ گلی میں گھسا عمران نے بھی اپنے قدم بڑھائے ۔ کئی گلیوں سے گزرنے کے بعد بوڑھا ایک دروازے پر رک کر دستک دینے لگا! عمران کافی فاصلہ پر تھا ! اور تاریکی ہونے کی وجہ سے دیکھ لئے جانے کا بھی خدشہ نہیں تھا وہ ایک دیوار سے چپک کر کھڑاہوگیا ! ادھر دروازہ کھلا اور بوڑھا کچھ بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا ۔ دروازہ پھربند ہوگیا تھا ....عمارت دومنزلہ تھی عمران سر کھجا کر رہ گیا۔ لیکن وہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔ اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کرتا ہوا دروازے تک پہنچ گیا ۔ اور پھر اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ لینی شروع کردی لیکن شائد اس کا ستارہ ہی گردش میں آگیا تھا دوسرے ہی لمحے میں دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور دونوں آدمی اس کے سامنے کھڑے تھے ۔اندرمدھم سی روشنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھائی دیے لیکن وہ کافی مضبوط ہاتھ پیر کے معلوم ہوتے تھے ۔

“ کون ہے ! “ ان میں سے ایک تحکمانہ لہجے میں بولا۔

“ مجھے دیر تو نہیں ہوئی ۔” عمران تڑ سے بولا۔

دوسری طرف سے فوراً ہی جواب نہیں ملا ! غالباً یہ سکوت ہچکچاہٹ کا ایک وقفہ تھا!

“ تم کون ہو! “ دوسری طرف سے سوال پھر دہرایا گیا !

“ تین سو تیرہ ۔” عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا.... لیکن دوسرے لمحے اسے دھیان نہیں تھا !
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اچانک اسے گریبان سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا گیا ۔ عمران نے مزاحمت نہیں کی ۔

“ اب بتاو تم کون ہو ۔” ایک نے اسے دھکا دے کر کہا۔

“ اندر لے چلو۔” دوسرا بولا۔

وہ دونوں اسے دھکے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے یہاں سات آدمی ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بوڑھا جس کا تعاقب کرتا ہوا عمران یہاں تک پہنچا تھا۔ شائد سرگروہ کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ وہ میز کے آخری سرے پر تھا ۔
وہ سب عمران کو تحیر آمیز نظروں سے دیکھنے لگے ۔ لیکن عمران دونوں آدمیوں کے درمیان میں کھڑا چمڑے کی جیکٹ والے کو گھورہا تھا۔

“ آہا ! “ یکایک عمران نے قہقہہ لگایا اور اپنے گول گول دیدے پھراکر اس سے کہنے لگا ۔” میں تمہیں کبھی نہیں معاف کروں گا ۔ تم نے میری محبوبہ کی زندگی برباد کردی ! “

“ کون ہو تم میں تمہیں نہیں پہچانتا ۔” اس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا ۔

“ لیکن میں تمہیں اچھی طرح پہچانتا ہوں ! تم نےمیری محبوبہ پرڈورے ڈالے ہیں ۔ میں کچھ نہیں بولا! تم نے ایک رات اس کے ساتھ بسر کی میں پھر بھی خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح برداشت نہیں کرسکتا کہ تم اسے ملنا جلنا چھوڑ دو۔”
“ تم یہاں کیوں آئے ہو ۔” دفعتاً اب بوڑھے نے سوال کیا اوران دونوں کو گھورنے لگا جو عمران کو لائے تھے ! انہوں نے سب کچھ بتادیا ۔ اس دوران میں عمران برابر اپنے مخاطب کو گھورتا رہا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے دوسرے لوگوں سے اسے واقعی کوئی سروکار نہ ہو۔”

“ پھر اچانک کسی کا گھونسہ عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا کئی قدم پیچھے کھسک گیا ! اس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور اسے اس طرح جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفاقاً اس کے سر سے گرگئی ہو وہ اب بھی جیکٹ والے کو گھورے جارہا تھا۔
“ میں کسی عشقیہ ناول کے سعادت مند رقیب کی طرح تمہارے حق میں دست بردار ہوسکتا ہوں! “ عمران نے کہا ۔

“ بکواس مت کرو۔” بوڑھا چیخا۔” میں تمہیں اچھی طرح جانتاہوں ! کیا ا س رات کو تم بھی وہاں تھے ۔”

“ عمران نے اس کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ یہ زندہ بچ کر نہ جانے پائے ۔” بوڑھا کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“ مگر شرط یہ ہے ۔” عمران مسکرا کر بولا۔ “ میت کی بے حرمتی نہ ہونے پائے ۔”
اس کے حماقت آمیز اطمینان میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ہونے پایا تھا ....تین چار آدمی اس کی طرف لپکے ۔ عمران دوسرے ہی لمحے ڈپٹ کر بولا ۔” ہینڈز اپ ۔” ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے نکلا ۔اس کی طرف جھپٹنے والے پہلے تو ٹھٹکے لیکن پھر انہوں نے بے تحاشہ ہنسنا شروع کردیا ۔ عمران کے ہاتھ میں ریوالور کی بجائے ربڑ کی ایک گڑیا تھی ! پھر بوڑھے کی گرجدار آواز نے انہیں خاموش کردیا اور وہ پھر عمران کی طرف بڑھے ۔ جیسے ہی اس کے قریب پہنچے عمران نے گڑیا کا پیٹ دبادیا ۔ اس کا منہ کھلا اور پیلے رنگ کا گہراا غباراس میں سے نکل کرتین چار فٹ کے دائرے میں پھیل گیا ....وہ چاروں بے تحاشہ کھانستے ہوئے وہیں ڈھیر ہوگئے ۔
“ جانے نہ پائے ! “ بوڑھا پھر چیخا۔
دوسرے لمحے میں عمران نے کافی وزنی چیز الیکٹرک لیمپ پر کھینچ ماری ....ایک زوردار آواز کے ساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا پھیل گیا ۔
عمران اپنے ناک پر رومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کے سرے کی طرف کھسک رہا تھا کمرے میں اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ شائد وہ سب اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسہ کی مشق کرنے لگے تھے عمران کا ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے پر رینگ گیا اور اسے ناکامی نہیں ہوئی جس چیز پر شروع ہی سے اس کی نظر رہی تھی ۔ اس کے ہاتھ آچکی تھی ۔ یہ بوڑھے کا چرمی ہینڈ بیگ تھا ۔
واپسی میں کسی نے کمرے کے دروازے پر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی لیکن اب سامنے کے دو تین دانتوں کو روتا ہوا ڈھیرہوگیا۔
عمران جلد سے جلد کمرے سے نکل جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے حلق میں بھی جلن ہونے لگی تھی ۔ گڑیا کے منہ سے نکالا ہوا غبار اب پورے کمرے میں پھیل گیا تھا ۔
کھانسیوں اور گالیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہوا وہ بیرونی دروازے تک پہنچ گیا ۔ گلی میں نکلتے ہی وہ قریب ہی کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا ۔ فی الحال سڑک پر نکلنا خطرناک تھا۔ وہ کافی دیر تک درپیچ گلیوں میں چکراتا ہوا ایک دوسری سڑک پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھ ہوا اس طرح اپنے ہونٹ رگڑ رہا تھا جیسے سچ مچ اپنی کسی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ اسٹک کے دھبے چھڑ ارہا ہو۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 9 -


دوسری صبح کیپٹن فیاض کے لئے ایک نئی دردسری لے کر آئی ۔ حالات ہی ایسے تھے کہ براہ راست اسے ہی معاملہ میں الجھنا پڑا ۔ ورنہ پہلے تو معاملہ سول پولیس کے ہاتھ میں جاتا ۔ بات یہ تھی کہ اس خوفناک عمارت سے قریباً ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلہ پر ایک نوجوان کی لاش پائی گئی ۔ جس کے جسم پر کتھئی پتلون اور چمڑے کی جیکٹ تھی ۔ کیپٹن فیاض نے عمران کی ہدایت کے مطابق پچھلی رات کو پھر عمارت کی نگرانی کے لئے کانسٹیبلوں کا ایک دستہ تعینات کرادیا تھا ۔ ! ان کی رپورٹ تھی کی رات کو کوئی عمارت کے قریب نہیں آیا اور نہ انہوں نے قرب و جوار میں کسی قسم کی کوئی آواز ہی سنی لیکن پھر بھی عمارت سے تھوڑے فاصلہ پر صبح کو ایک لاش پائی گئی ۔

جب کیپٹن فیاض کو لاش کی اطلاع ملی تو اس نے سوچنا شروع کیا کہ عمران نے عمارت کے گرد مسلح پہرا بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی تھی ؟

ا س نے وہاں پہنچ کر لاش کا معائنہ کیا ۔ کسی نے مقتول کی داہنی کن پٹی پرگولی ماری تھی ! کانسٹیبلوں نے بتایا کہ انہوں نے پچھلی رات فائر کی آواز بھی نہیں سنی تھی ۔

کیپٹن فیاض وہاں سے بوکھلایا ہوا عمران کی طرف چل دیا اس کی طبیعت بری طرح جھلائی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھاکہ عمران نے کوئی ڈھنگ کی بات بتانے کی بجائے میر و غالب کے اوٹ پٹانگ شعرشروع کردیئے تو کیا ہوگا بعض اوقات اس کی بے تکی باتوں پر ا س کا دل چاہتا تھا کہ اسے گولی مار دے مگر اس شہرت کا کیا ہوتا ۔ اس کی ساری شہرت عمران کے دم سے تھی وہ اس کے لئے اب تک کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا ۔ بہر حال کام عمران کرتا تھا اور اخبارات میں نام فیاض کاچھپتا تھا ! ....یہی وجہ تھی کہ اسے عمران کچھ برداشت کرنا پڑتا تھا ۔

عمران اسے گھر ہی پر مل گیا ! لیکن عجیب حالت میں ؟....وہ اپنے نوکر سلیمان کے سر میں کنگھا کررہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ کسی دور اندیش ماں کے سے انداز میں اسے نصیحتیں بھی کئے جارہا تھا جیسے ہی فیاض کمرے میں داخل ہوا ۔ عمران نے سلیمان کی پیٹھ پر گھونسہ جھاڑ کر کہا ! “ ابے تو نے بتایا نہیں کہ صبح ہوگئی۔”
سلیمان ہنستا ہوا بھاگ گیا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ عمران تم آدمی کب بنو گے ۔ “ فیاض ایک صوفے میں گرتا ہوا بولا۔

“ آدمی بننے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ....البتہ میں تھانیدار بننا ضرور پسند کروں گا” ۔

“ میری طرف سے جہنم میں جانا پسند کرو لیکن یہ بتاو کہ تم نے پچھلی رات اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا۔”

“ مجھے کچھ یاد نہیں ۔” عمران مایوسی سے سر ہلا کربولا۔ “ کیا واقعی میں نے کوئی ایسی حرکت کی تھی۔”

“ عمران “ فیاض نے بگڑ کر کہا ۔” اگر میں آئندہ تم سے کوئی مدد لوں تو مجھ پر ہزار بار لعنت ۔”

“ ہزار کم ہے “ عمران سنجیدگی سے بولا ۔ “ کچھ اور بڑھو تو میں غور کرنے کی کوشش کروں گا ۔” فیاض کی قوت برداشت جوب دے گئی اور گرج کر بولا۔

“ جانتے ہو ، آج صبح وہاں سے ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک لاش ملی ہے “

“ ارے توبہ۔” عمران اپنا منہ پیٹنے لگا ۔

کیپٹن فیاض کہتا رہا ۔ “ تم مجھے اندھیرے میں رکھ کر نہ جانے کیا کرنا چاہتے ہو ۔ حالات اگر اور بگڑے تو مجھے ہی سنبھالنے پڑیں گے ۔ لیکن کتنی پریشانی ہوگی ۔ کسی نے اس کی داہنی کن پٹی پر گولی ماری ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حرکت کس کی ہے ۔”

“ عمران کے علاوہ اور کس کی ہوسکتی ہے ! “ عمران بڑبڑایا پھر سنجیدگی سے پوچھا ۔ “ پہرہ تھا وہاں؟”

“ تھا....میں نے رات ہی یہ کام کیا تھا ! “

“ پہرے والوں کی رپورٹ؟”

“ کچھ بھی نہیں ! انہوں نے فائر کی آواز بھی نہیں سنی ۔”

“ میں یہ نہیں پوچھ رہا ....کیا کل بھی کسی نے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی ۔”

“ نہیں ....لیکن میں اس لاش کی بات کررہا تھا ۔”

“ کئے جاو! تمہیں نہیں روکتا ! لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دیے جاو ۔ قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے !....وہ اب بھی وہیں موجودہے یا غائب ہوگیا! “

“ عمران خدا کے لئے تنگ مت کرو”

“ اچھا تو علی ،عمران ایم ایس سی پی ڈی کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتا ۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ تم آخر اس خبطی کے پیچھے کیوں پڑگئے ہو۔”

“ خیر جانے دو! اب مجھے اس کے متعلق کچھ اور بتاو۔”

“ کیا بتاوں !....بتا تو چکا....صورت سے برا آدمی نہیں معلوم ہوتا خوبصورت اور جوان جسم پر چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی رنگ کی پتلون! “

“ کیا ؟” عمران چونک پڑا! اور چند لمحے اپنے ہونٹ سیٹی بجانے والے انداز میں سکوڑے فیاض کی طرف دیکھتا رہا ۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

بے خطرکود پڑا آتش نمرود میں عشق
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

“ کیا بکواس ہے ! “ فیاض جھنجھلا کر بولا۔” اول تو تمہیں اشعار ٹھیک یاد نہیں پھر یہاں اس کا موقع کب تھا....عمران میرا بس چلے تو تمہیں گولی ماردوں۔” ۔

“ کیوں شعر میں کیا غلطی ہے ۔”

“ مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں لیکن مجھے دونوں مصرعے بے ربط معلوم ہوتے ہیں ....” لاحول ولا قوۃ میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا ۔ خدا کے لئے کام کی باتیں کرو ۔ تم نہ جانے کیا کررہے ہو! “

“ میں آج رات کو کام کی بات کروں گا اورتم میرے ساتھ ہوگے لیکن ایک سیکنڈ کے لئے بھی وہاں سے پہرہ نہ ہٹایا جائے....تمہارے ایک آدمی کو ہر وقت مجاور کے کمرے میں موجود رہنا چاہیے ! بس اب جاو ....میں چائے پی چکا ہوں ورنہ تمہاری کافی مدارات کرتا ۔ ہاں محبوبہ یک چشم کو میراپیغام پہنچا دینا کہ رقیب رو سیاہ کا صفایا ہوگیا ! باقی سب خیریت ہے ۔ “

“ عمران میںآسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا ! تمہیں ابھی اور اسی وقت سب کچھ بتانا پڑے گا۔ “

“ اچھا تو سنو!لیڈی جہانگیر بیوہ ہونے والی ہے !....اس کے بعد تم کوشش کرو گے کہ میری شادی اس کے ساتھ ہوجائے ....کیا سمجھ؟”

“ عمران !فیاض یک بیک مار بیٹھنے کی حد تک سنجیدہ ہوگیا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

یس باس۔”

“ بکواس بند کرو ۔ میں اب تمہاری زندگی تلخ کردوں گا ۔‘

“ بھلا وہ کس طرح سوپر فیاض ! “

“ نہایت آسانی سے ! " فیاض سگریٹ سلگا کر بولا۔” تمہارے گھر والوں کو شبہ ہے کہ تم اپناوقت آوارگی اورعیاشی میں گزارتے ہو ! لیکن کسی کے پاس اس کا ٹھوس ثبوت نہیں ....میں ثبوت مہیا کروں گا ۔ ایک ایسی عورت کا انتظام کرلینا میرے لئے مشکل نہ ہوگا جوبراہ راست تمہاری اماں بی کے پاس پہنچ کر انہےںلٹنے کی داستان بیان کردے ۔”

“ اوہ ! “ عمران نے تشویش آمیز انداز میں اپنے ہونٹ سکوڑ لئے پھر آہستہ سے بولا۔

“ اماں بی کی جوتیاں آل پروف ہیں ۔ خیر سوپرفیاض یہ بھی کرکے دیکھ لو تم مجھے ایک صابروشاکرفرزند پاو گے !....لوچیونگم سے شوق کرو ۔”

“ اس گھر میں ٹھکانہ نہیں ہوا تمہارا....” فیاض بولا۔

“ تمہارا گھر تو موجود ہی ہے ۔” عمران نے کہا۔

“ تو تم نہین بتاو گے ۔”

“ ظاہر ہے ۔”

“ اچھا! تو اب تم ان معاملات میں داخل نہیں ہوگے میں خود ہی دیکھ لوں گا ۔ “ فیاض اٹھتا ہوا خشک لہجے میں بولا۔ “ اور اگر تم اس کے بعد بھی اپنی ٹانگ اڑائے رہے تو میں تمہیں قانونی گرفت میں لے لوں گا ۔”

“ یہ گرفت ٹانگوں میں ہوگی یا گردن میں !‘عمران نے سنجیدگی سے پوچھا۔ چند لمحے فیاض کو گھورتا ہوا پھر بولا۔ “ ٹھہرو ! “ فیاض رک کر اسے بے بسی سے دیکھنے لگا !....عمران نے الماری کھول کر وہی چرمی بیگ نکالا جسے وہ کچھ نامعلوم افراد کے درمیان سے پچھلی رات کو اڑا لایا تھا ۔ اس نے ہینڈ بیگ کھول کر چند کاغذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھادیئے ۔ فیاض نے جیسے ہی ایک کاغذ کی تہہ کھولی بے اختیار اچھل پڑا ....اب وہ تیزی سے دوسرے کاغذات پر بھی نظریں دوڑا رہا تھا۔

” یہ تمہیں کہاں سے ملے “ فیاض تقریباً ہانپتا ہوا بولا۔ شدت جوش سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

“ ایک ردی فروش کی دوکان پر ....بڑی دشواریں سے ملے ہیں دو آنہ سیر کے حساب سے۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ عمران!....خدا کے لئے ۔” فیاض تھوک نگل کر بولا۔

“ کیا کرسکتا ہے بے چارہ عمران ! “ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔وہ اپنی ٹانگیں اڑانے لگا تو تم اسے قانونی گرفت میں لے لو گے ۔”

“ پیارے عمران ! خدا کے لئے سنجیدہ ہوجاو۔”

“ اتنا سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی پی کی ٹافیاں کھلا سکتے ہو۔ “

“ یہ کاغذات تمہیں کہاں سے ملے ہیں؟”

“ سڑک پر پڑے ہوئے ملے تھے ! اوراب میں نے انہیں قانون کے ہاتھوں میں پہنچا دیا ۔اب قانونی کا کام ہے کہ وہ ایک ہاتھ تلاش کرے جن میں ہتھ کڑیاں لگاسکے ....عمران نے اپنی ٹانگ ہٹالی ۔ “

فیاض بے بسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا !

“ لیکن اسے سن لو ۔” عمران قہقہہ لگا کر بولا۔ “ قانون کے فرشتے بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے ! “

“ اچھا تو یہی بتادو کہ کہ ان معاملات سے ان کاغذات کا کیا تعلق ہے ! “ فیاض نے پوچھا ۔ “ یہ تمہیں معلوم ہوناچاہیے۔” عمران دفعتاً سنجیدہ ہوگیا ۔ “ اتنا میں جانتا ہوں کہ یہ کاغذات فارن آفس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا ان بدمعاشوں کے پاس ہونا کیا معنی رکھتا ہے ۔”

“ کن بدمعاشوں کے پاس ! “ فیاض چونک کر بولا۔

“ وہی ! اس عمارت میں ....! “

“ میرے خدا ! “ ....فیاض منظربانہ انداز میں بڑبڑایا ۔ لیکن تمہارے ہاتھ کس طرح لگے ! “ عمران نے پچھلی رات کے واقعات دہردیئے! اس دوران میں فیاض بے چینی سے ٹہلتا رہا کبھی کبھی وہ رک کر عمران کوگھورنے لگتا! عمران اپنی بات ختم کرچکا تو اس نے کہا ۔”
“ افسوس ! تم نے بہت برا کیا....تم نے مجھے کل یہ اطلاع کیوں نہیں دی ۔”

“ تو اب دے رہا ہوں اطلاع۔ اس مکان کاپتہ بھی بتادیا جوکچھ بن پڑے کرلو ۔ “ عمران نے کہا ۔

“ اب کیا وہاں خاک پھانکنے جاوں؟”

“ ہاں ہاں کیا حرج ہے ۔”

“ جانتے ہو یہ کاغذات کیسے ہیں ! “ فیاض نے کہا ۔

“ اچھے خاصے ہیں ! ردی کے بھاو بک سکتے ہیں۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ اچھا تو میں چلا ! “ فیاض کاغذ سمیٹ کر چرمی بیگ میں رکھتا ہوا بولا۔

“ کیا انہیں اسی طرح لے جاوگے ! “ عمران نے کہا ۔” نہیں ایسا نہ کرو مجھے تمہارے قاتلوں کا بھی سراغ لگانا پڑے ۔”

“ کیوں؟” ۔

“ فون کرکے پولیس کی گاڑی منگواو ۔” عمران ہنس کر بولا ۔ “ کل رات سے وہ لوگ میری تلاش میں ہیں ۔ میں رات بھر گھر سے باہر ہی رہا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت مکان کی نگرانی ضرور ہورہی ہوگی ! خیر اب تم مجھے بتا سکتے ہو کہ کاغذات کیسے ہیں ۔”
“ فیاض پھر بیٹھ گیا ۔ وہ اپنی پیشانی سے پیسنہ پونچھ رہاتھا ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا ۔”

“ سات سال پہلے ان کاغذات پر ڈاکہ پڑا تھا ؟ لیکن ان میں سب نہیں ہیں ۔ فارن آفس کا ایک ذمہ دار آفسیر انہیں لے کر سفر کررہا تھا ....یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں اور کس مقصد سے جارہا تھا کیونکہ ۔ یہ حکومت کا راز ہے ۔آفیسر ختم کردیا گیا تھا اس کی لاش مل گئی تھی ۔لیکن اس کے ساتھ سیکرٹ سروس کا ایک آدمی بھی تھا اس کے متعلق آج تک نہ معلوم ہوسکا ....!شائد وہ بھی مارڈالا گیا ہو....لیکن اس کی لاش نہیں ملی ۔”

“ آہا....تب تو یہ بہت بڑا کھیل ہے ۔” عمران کچھ سوچتا ہوا بولا! “ لیکن میں جلد ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کروں گا ۔”

“ تم اب کیا کرو گے ۔”

“ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ! “ عمران نے کہا ۔” اور سنوان کاغذات کو ابھی اپنے پاس ہی دبائے رہو اور ہینڈ بیگ میرے پاس رہنے دو۔ مگر نہیں اسے بھی لے جاو !....میرے ذہن میں کئی تدبیر ہیں! اورہاں ....اس عمارت کے گرددن رات پہرہ رہنا چاہیے ! “

“ آخر کیوں ؟”

“ وہاں میں تمہارا مقبرہ بنواوں گا ۔ “ عمران جھنجھلا کر بولا۔

فیاض اٹھ کر پولیس کی کار منگوانے کے لئے فون کرنے لگا۔

اختتام - باب نمبر 9
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 10

Post by سیدتفسیراحمد »

- 10 -


“ اسی رات کو عمران بوکھلا یا ہوا فیاض کے گھر پہنچا! فیاض سونے کی تیاری کررہا تھا ۔ ایسے موقع پر اگرعمران کی بجائے کوئی اور ہوتا تو وہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ۔ مگر عمران کا معاملہ ہی کچھ اور تھا ۔ اس کی بدولت آج اس کے ہاتھ ایسے کاغذات لگے تھے جن کی تلاش میں عرصہ سے محکمہ سراغرسانی سرمار رہا تھا۔ فیاض نے اسے اپنے سونے کے کمرے میں بلوالیا ۔ “

“ میں صرف ایک بات پوچھنے کے لئے آیا ہوں ! “ عمران نے کہا۔

“ کیا بات ہے ....کہو! “

عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔” کیا تم کبھی کبھی میری قبر پر آیا کروگے ۔”

فیاض کا دل چاہا کہ اس کاسردیوار سے ٹکرا کر سچ مچاس کو قبر تک جانے کا موقع مہیا کرے ! وہ کچھ کہنے کی بجائے عمران کو گھورتا رہا ۔

“ آہ! تم خاموش ہو! “ عمران کسی ناکام عاشق کی طرح بولا۔” میں سمجھا! تمہیں شائد کسی اور سے پریم ہوگیا ہے ۔”

“ عمران کے بچے....! “ ۔

“ رحمان کے بچے ! “ عمران نے جلدی سے تصحیح کی ۔

“ تم کیوں میری زندگی تلخ کئے ہوئے ہو۔”

“ اوہو! کیا تمہاری مادہ دوسرے کمرے میں سوئی ہوئی ہے ۔” عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔

“ بکواس مت کرو!....اس وقت کیوں آئے ہو۔”

“ ایک عشقیہ خط دکھانے کے لئے ۔” عمران جیب سے لفافہ نکالتا ہوا بولا ۔” اس کے شوہر نہیں ہے صرف باپ ہے ۔”

“ فیاض نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لے کر جھلاہٹ میں پھاڑنا چاہا ۔‘

“ ہاں ہاں! “ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔ “ ارے پہلو پڑھو تو میری جان مزہ نہ آئے تو محصول ڈاک بذمہ خریدار؟”

فیاض نے طوہا و کررہا خط نکالا....اور پھر جیسے ہی اس کی نظریں اس پر پڑیں ۔ بیزاری کی ساری علامتیں چہرے سے غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ استعجاب نے لے لی خط ٹائپ کیا ہوا تھا ۔

“ عمران!....اگر وہ چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پولیس تک پہنچی تو تمہاری
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

شامت آجائے گی ! اسے واپس کردو....بہتری اسی میں ہے ورنہ کہیں ....کسی جگہ موت سے ملاقات ضرور ہوگی آج رات کو گیارہ بجے ریس کورس کے قریب ملو ہینڈ بیگ تمہارے ساتھ ہونا چاہئے ! ا کیلے ہی آنا ! ورنہ اگر تم پانچ ہزار آدمی بھی ساتھ لاو گے تب بھی گولی تمہارے ہی سینے پر پڑے گی ۔”

فیاض خط پڑھ چکنے کے بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا ۔

“ لاو ....اسے واپس کر آوں ! “ عمران نے کہا ۔

“ پاگل ہوگئے ہو۔”

“ ہاں “

“ تم ڈرگئے ہو۔” فیاض ہنسنے لگا۔

“ ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے ۔” عمران ناک کے بل بولا۔

“ ریوالور ہے تمہار ے پاس۔”

“ ریوالور ! “ عمران اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوئے بولا۔ “ ارے باپ رے۔”

“ اگر نہیں ہے تو میں تمہارے لئے لائسنس حاصل کرلوں گا ۔”

“ بس کرم کرو! “ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔ اس میں آواز بھی ہوتی ہے اوردھواں بھی نکلتا ہے ! میرا دل بہت کمزور ہے لاو ہینڈ بیگ واپس کردو۔”

“ کیا بچوں کی سی باتیں کررہے ہو ۔”

“ اچھا تو تم نہیں دوگے ۔ “ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔

“ فضول مت بکو مجھے نیند آرہی ہے ۔”

“ ارے او....فیاض صاحب! ابھی میری شادی نہیں ہوئی اور میں باپ بنے بغیر مرنا پسند نہیں کروں گا‘۔

“ ہینڈ بیگ تمہارے والد کے آفس میں بھیج دیا گیا ہے ۔”

“ تب انہیں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر آنسو بہانے پڑیں گے ! کنفیوشس نے کہا تھا”

“ جاو یار خدا کے لئے سونے دو۔”

“ گیارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں ۔” عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

“ اچھا چلو تم بھی یہیں سو جاو ۔” فیاض نے بے بسی سے کہا !
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ کچھ دیر خاموشی رہی ۔ پھر عمران نے کہا ۔” کیا اس عمارت کے گرد اب بھی پہرہ ہے ۔

“ ہاں!....کچھ اور آدمی بڑھا دیئے گئے ہیں لیکن آخر تم یہ سب کیوں کررہے ہوں ۔آفیسر مجھ سے اس کا سبب پوچھتے ہیں اور میں ٹالتا رہتا ہوں ۔”

“ اچھا تو اٹھو ! یہ کھیل بھی اسی وقت ختم کردیں ! تیس منٹ میں ہم وہاں پہنچیں گے باقی بچے بیس منٹ ! گیارہ بجے تک سب کچھ ہوجانا چاہیے ! “

“ کیا ہونا چاہیے! “

“ ساڑھےگیارہ بجے بتاوں گا ....!اٹھو !....میں اس وقت عا لم تصور میں تمہارا عہدہ بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں ۔”

“ آخر کیوں ! کوئی خاص بات؟”

“ علی عمران ایم ایس سی پی ایچ ڈی کبھی کوئی عام بات نہیں کرتا ۔ سمجھے ناو گٹ اپ! “ فیاض نے طوہاً دکرہا لباس تبدیل کیا ۔
“ تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل بڑی تیزی سے اس دیہی علاقہ کی طرف جارہی تھی جہاں وہ عمارت تھی !....عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے کہا ۔

“ تمہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ تم اس وقت تک قبر کے مجاور کو باتوں میں الجھائے رکھو جب تک میں واپس نہ آجاوں ! سمجھے ۔ اس کے کمرے میں جاؤ ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنا ! “

اختتام - باب نمبر 10
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 11 -


“ عمارت کے گرد مسلح پہرہ تھا !....دستے کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر سےلوٹ کیا ۔ فیاض نے اس چند سرکاری قسم کی رسمی باتیں کیں اور سیدھا مجاور کے حجرے کی طرف چلا گیا جس کے دروازے کھلے ہوئے تھے اوراندر مجاور غالباً مراقبے میں بیٹھا تھا ۔ فیاض کی آہٹ پر اس نے آنکھیں کھول دیں جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھی ۔

”کیا ہے ؟“اس نے جھلائے ہوئے لہجہ میں کہا ۔

”کچھ نہیں ۔ میں دیکھنے آیا تھا سب ٹھیک ٹھا ک ہے یا نہیں !“فیاض بولا۔

”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے ۔ ان ہی گدھوں کی طرح پولیس بھی دیوانی ہوگئی ہے ۔“

”کن گدھوں کی طرح ۔“

”وہی جو سمجھتے ہیں کہ شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے“۔

”کچھ بھی ہو ۔ “فیاض نے کہا ۔ ”ہم نہیں چاہتے کہ یہاں سے روزانہ لاشیں برآمد ہوتی رہیں اگر ضرورت سمجھ توقبر کھدوائی جائے گی ۔“

”بھسم ہوجاوگے ۔ “فیاض نے کہا ۔مجاور گرج کربولا۔”خون تھوکوگے ....مروگے!“

”کیا سچ مچ اس میں خزانہ ہے ۔“

اس پر مجاور پھر گرجتے برسنے لگا ! فیاض بار بارگھڑی کی طرف دیکھتا جارہا تھا ! عمران کو گئے ہوئے پندرہ منٹ ہوچکے تھے ! وہ مجاور کو باتوں میں الجھائے رہا ! ....اچانک ایک عجیب قسم کی آواز سنائی دی ! مجاور اچھل کرمڑا....اس کی پشت کی طرف دیوار میں ایک بڑا سا خلا نظر آرہا تھا ! فیاض بوکھلا کر کھڑا ہوگیا وہ سوچ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہوگیا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس کمرے میں آچکا تھا لیکن اسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہاں کوئی چور دروازہ بھی ہوسکتا ہے !دفعتاً مجاورچیخ مار کر اس دروازے میں گھستا چلا گیا ! فیاض بری طرح بوکھلا گیا تھا ۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور پھر وہ بھی اسی دروازہ میں داخل ہوگیا ! ....یہاں چاروں طرف اندھیرا تھا ! شائد وہ کسی تہہ خانے میں چل رہا تھا ! کچھ دور چلنے کے بعد سیڑھیاں نظر آئیں ....یہاں قبرستان کی سی خاموشی تھی ! فیاض سیڑھیوں پر چڑھنے لگا اور جب وہ اوپر پہنچا تو اس نے خود کو مرشدمرد کی قبر سے برآمدہوتے پایا جس کا تعویز کسی صندوق کے ڈھکن کی ’طرح سیدھا اٹھا ہوا تھا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

۔
ٹارچ کی روشنی کا دائرہ صحن میں چاروں طرف گردش کررہا تھا پھر فیاض نے مجاور کو وارداتوں والے کمرے سے نکلتے دیکھا ۔

”تم لوگوں نے مجھے برباد کردیا !“وہ فیاض کو دیکھ کر چیخا ۔”آو اپنے کر توت دیکھ لوں ! “وہ پھر کمرے میں گھس گیا ۔ فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا ۔

ٹارچ کی روشنی دیوارپر پڑی ۔ یہاں کا بہت سا پلاسٹرادھڑا ہوا تھا اور اسی جگہ پانچ پانچ انچ کے فاصلے پر تین بڑی چھریاں نصب تھیں ۔ فیاض آگے بڑھا !....ادھڑے ہوئے پلاسٹر کے پیچھے ایک بڑا سا خانہ تھا اور ان چھریوں کے دوسرے سرے اسی میں غائب ہوگئے تھے ۔ ان چھریوں کے علاوہ اس خانے میں اور کچھ نہیں تھا ۔

مجاور قہرآلود نظروں سے فیاض کو گھوررہا تھا !

”یہ سب کیا ہے ؟“فیاض نے مجاور کو گھورتے ہوئے کہا ۔

مجاور نے اسطرح کھنکار کر گلا صاف کیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو لیکن خلاف توقع اسنے فیاض کے سینے پر ایک زوردار ٹکر ماری اور اچھل کر بھاگا ! فیاض چاروں خانے چت گرگیا ۔ سنبھلنے سے پہلے اس کا داہنا ہاتھ ہولسٹر سے ریوالور نکال چکا تھا ! مگر بے کار ، مجاور نے قبر میں چھلانگ لگادی تھی۔

فیاض اٹھ کر قبر کی طرف دوڑا .... لیکن مجاور کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس کانشان نہ ملا ۔ فیاض عمارت کے باہر نکل آیاڈیوٹی کانسٹیبل بدستور اپنی جگہوں پر موجود تھے انہوں نے بھی کسی بھاگتے ہوئے آدمی کے متعلق لاعلمی ظاہر کی ان کا خیال تھا کہ عمارت سے کوئی باہر نکلا ہی نہیں ۔

اچانک اسے عمران کا خیال! آخر وہ کہاں گیا تھا کہیں یہ اسی کی حرکت نہ ہواس خفیہ خانے میں کیا چیز تھی !....اب سارے معاملات فیاض کے ذہن میں صاف ہوگئے تھے ! لاش کا راز، تین زخم ....جن کا درمیانی فاصلہ پانچ پانچ انچ تھا !....دفعتاً کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا ۔فیاض چونک کر مڑا! عمران کھڑا بری طرح بسورہا تھا !

”تو یہ تم تھے !“فیاض اسے نیچے سے اوپر تک گھورتا ہوا بولا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”میں تھا نہیں بلکہ ہوں ! ....توقع ہے کہ ابھی دو چار دن زندہ ہونگا ۔“

”وہاں سے کیا نکالا تم نے “

”چوٹ ہوگئی پیارے فرماو۔“عمران بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔ ”وہ مجھ سے پہلے ہی ہاتھ صاف کرگئے ۔ میں نے تو بعد میں ذرا اس خفیہ خانے کے میکنزم پر غور کرنا چاہا تھا کہ ایک کھٹکے کو ہاتھ لگاتے ہی قور تڑخ گئی! “

”لیکن وہاں تھا کیا !“

”وہ بقیہ کاغذات جواس چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے ۔“

”کیا ! ارے اواحمق پہلے ہی کیوں نہیں بتایا تھا !“فیاض اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔”لیکن وہ اندر گھسے کس طرح ۔“
”آودکھاوں ۔“عمران ایک طرف بڑھتا ہوا بولا ....وہ فیاض کو عمارت کے مغربی گوشے کی سمت لایا! یہاں دیوار سے ملی ہوئی قدآدم جھاڑیاں تھیں ۔ عمران نے جھاڑیاں ہٹا کر ٹارچ روشن کی ور فیاض کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ دیوار میں اتنی بڑی نقب تھی کہ ایک آدمی بیٹھ کر باآسانی اس سے گزر سکتا تھا ۔

”یہ تو بہت برا ہوا ۔“فیاض بڑبڑایا۔

”اوروہ پہنچا ہوا فقیر کہاں ہے !“عمران نے پوچھا ۔

”وہ بھی نکل گیا ! لیکن تم س طرح اندر پہنچے تھے ۔“

”اسی راستے سے آج ہی مجھے ان جھاڑیوں کا خیال آیا تھا ۔“

”اب کیا کروگے بقیہ کاغذات!“فیاض نے بے بسی سے کہا۔

”بقیہ کاغذات بھی انہیں واپس کردوں گا ۔ بھلا آدھے کاغذات کس طرح کام کے ۔ جس کے پاس بھی رہیں پورے رہیں ۔اس کے بعد میں باقی زندگی گزارنے کے لئے قبر اپنے نام الاٹ کرلوں گا۔“

اختتام باب نمبر 11
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 12

Post by سیدتفسیراحمد »

- 12 -


“ ”عمران کے کمرے میں فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی تھی !وہ قریب ہی بیٹھا ہوا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا ۔ اس نے گھنٹی کی طرف دھیان تک نہ دیا پھر آخر گھنٹی جب بجتی ہی چلی گئی تو وہ کتاب میز پر پٹخ کر اپنے نوکر سلیمان کو پکارنے لگا ۔“

”جی سرکار!“سلیمان کمرے میں داخل ہوکر بولا۔

”ابے دیکھ یہ کون الو کا پٹھا گھنٹی بجا رہا ہے ۔“

”سرکارفون ہے ۔“

”فون!“عمران چونک کر فون کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔ ”اسے اٹھا کر سڑک پر پھینک دے۔“

سلیمان نے ریسیوراٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا۔

”ہیلو!“عمران ماوتھ پیس میں بولا۔”ہاں ہاں عمران نہیں تو کیا کتا بھونک رہا ہے ۔“

”تم کل رات ریس کورس کے قریب کیوں نہیں ملے!“دوسری طرف سے آواز آئی ۔

”بھاگ جاو گدھے ۔“عمران نے ماوتھ پیس پر ہاتھ رکھے بغیر سلیمان سے کہا۔

”کیا کہا !“دوسری طرف سے غراہٹ سنائی دی ۔

”اوہ۔ وہ تو میں نے سلیمان سے کہاتھا! ....میرانوکر ہے ....ہاں توکیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات کوریس کورس کیوں نہیں کیا ۔ “
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔“

”تو سنو میرے دوست!“عمران نے کہا ۔”میں نے اتنی محنت مفت نہیں کی ۔ہینڈبیگ قیمت دس ہزار لگ چلی ہے ۔ اگر تم کچھ بڑھوتو میں سودا کرنے کو تیار ہوں۔“

”شامت آگئی ہے تمہاری ۔“

”ہاں ملی تھی ! مجھے بہت پسند آئی ۔ عمران نے آنکھ مار کر کہا ۔“

”آج رات اور انتظا رکیا جائے گا ۔ اس کے بعد کل کسی وقت تمہاری لاش شہر کے کسی گٹر میں بہہ رہی ہوگی ۔ “ارے باپ ! تم نے اچھا کیا کہ بتادیا اب میں کفن ساتھ لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکلوں گا ۔

”میں پھر سمجھتا ہوں ۔“دوسری طرف سے آواز آئی ۔

”سمجھ گیا !عمران نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور سلسلہ منقطع کردیا ۔ “
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اس نے پھر کتاب اٹھالی اور اسی طرح مشغول ہوگیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی پھر بجی عمران نے ریسیور اٹھا لیا اور جھلائی ہوئی آواز میں بولا۔

” اب میں یہ ٹیلیفون کسی یتیم خانے کو پریزنٹ کردوں گا سمجھے ....میں بہت سی مقبول آدمی ہوں....کیا میں نے مقبول کہا تھا مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں۔“

”تم نے ابھی کسی رقم کی بات کی تھی ۔ “دوسری طرف سے آواز آئی ۔
”قلم نہیں فاوئنٹے پین !“عمران نے کہا ۔

”وقت مت برباد کرو ۔“دوسری طرف سے جھلائی ہوئی آواز آئی ۔ ”ہم بھی اس کی قیمت دس ہزار لگاتے ہیں ۔“

”ویری گڈ! “عمران بولا ۔”چلو تو یہ طے رہا! بیک ! بیگ تمہیں مل جائے گا۔“

”آج رات کو ۔“

”کیا تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو ۔“عمران نے پوچھا ۔

”اسی طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو جانتی ہو ۔“


”گڈ“عمران چٹکی جا کر بولا۔”تو تم یہ ابھی جانتے ہوگے کہ میں ازلی احمق ہوں ۔“

”تم !“

”ہاں میں ! ریس کورس بڑی سنسان جگہ ہے اگر بیگ لے کر تم نے مجھے ٹھائیں کردیا تو میں کس سے فریاد کروں گا ۔‘

”ایسانہیں ہوگا۔“دوسری طرف سے آواز آئی ۔

”میں بتاوں ! تم اپنے کسی آدمی کو روپے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں بھیج دو! میں مدہوبالا کی جوانی کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ بیگ واپس کردوں گا“۔

”اگر کوئی شرارت ہوئی تو۔“

”مجھے مرغا بنا دینا۔“

”اچھا! لیکن یہ یاد رہے کہ تم وہاں بھی ریوالورکی نال پر رہو گے ۔“

”فکر نہ کرو ۔ میں نے آج تک ریوالور کی شکل نہیں نہیں دیکھی ۔ “عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا ۔

اختتم باب تمبر 12
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

- 13 -


ٹھیک آٹھ بجے کے قریب عمران اپنی بغل میں ایک چرمی ہینڈ بیگ دبائے ٹپ ٹاپ نائب کلب پہنچ گیا قریب قریب ساری میزیں بھری ہوئی تھیں ۔ عمران نے بار کے قریب کھڑے ہوکر مجمع کا جائزہ لیا آخر اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں جہاں لیڈی جہانگیر ایک نوجوان عورت کے ساتھ بیٹھی زرد رنگ کی شراب پی رہی تھی ۔ عمران آہستہ آہستہ چلتا ہوا میز کے قریب پہنچ گیا ۔

”آہاے....مالی لیڈی ۔“وہ قدرے جھک کر بولا۔

لیڈی جہانگیر نے داہنی بھوں چڑھا کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرانے لگی ۔

”ہل....لو....عمران....!“وہ اپنا داہنا ہاتھ اٹھا کر بولی ۔”تمہارے ساتھ وقت بڑا چھا گزرتا ہے ! یہ ہیں مس تسنیم !خان بہادر ظفر تسنیم کی صاحبزادی ! اور یہ علی عمران ۔“

”ایم۔ ایس ۔ سی ۔ پی ۔ ایچ ۔ ڈی “عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔

”بڑی خوشی ہوئی آ پ سے مل کر !“تسنیم بولی۔لہجہ بے وقوف بنانے کا سا تھا۔

”مجھے افسوس ہوا۔“

”کیوں؟“لیڈی جہانگیر نے حیرت زدہ آواز سے کہا ۔

”میں سمجھتا تھا کہ شائد ان کا نام گلفام ہوگا ۔“

”ےہ کےا بہودگی ہے !“لیڈی جہانگیر جھنجھلا گئی ۔

”سچ کہتا ہوں ! مجھے کچھ ایسا ہی معلوم ہوا تھا.... تسنیم ان کے لئے قطعی موزوں نہیں ....یہ تو کسی ایسی لڑکی کا نام ہوسکتا ہے جو تپ دق میں مبتلا ہو تسنیم ....بس نام کی طرح کمر جھکی ہوئی ۔“

”تم شائد نشے میں ہو۔“لیڈی جہانگیر نے بات بنائی ۔”لو اور پیو!“

”فالودہ ہے ؟“عمران نے پوچھا

”ڈیر تسنیم! لیڈی جہانگیر جلدی سے بولی۔“تم ان کی باتوں کا برامت ماننا یہ بہت پرمذاق آدمی ہیں ! اورعمران ....بیٹھونا ۔’“

”برا ماننے کی کیا بات ہے “عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ۔”میں انہیں گلفام کے نام سے یاد رکھوں گا۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”تسنیم بری طرح جھینپ رہی تھی اورشائد اب اسے اپنے رویہ پر افسوس بھی تھا۔“

”اچھا میں چلی !“تسنیم اٹھتی ہوئی بولی۔

”میں خود چلا....“عمران نے اٹھنے کا ارادہ کرتے ہوئے کہا ۔

”مائی ڈیئرس ! تم دونوں بیٹھو۔“لیڈی جہانگیر دونوں کے ہاتھ پکڑ کر جھومتی ہوئی بولی۔

”نہیں مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے ۔“تسنیم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔

”اور میں !“عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔”تم پر ہزار کام قربان کرسکتا ہوں“

”بکومت ! جھوٹے ....تم مجھے خواہ مخواہ غصہ دلاتے ہو۔“

”میں تمہیں پوجتا ہوں ! سوسائٹی ....مگر اس بڈھے کی زندگی میں....“

”تم پھرمذاق اڑانے لگے ۔“

نہیں ڈیئرسٹ ! میں تیرا چاند تو میری چاندنی ....نہیں دل کا لگا....

”بس بس!....بعض اوقات تم بہت زیادہ چیپ ہوجاتے ہو!“

”آئی ایم سوری۔“عمران نے کہا اوراس کی نظریں قریب ہی کی ایک میز کی طرف اٹھ گئیں ۔ یہان ایک جانی پہچانی شکل کا آدمی اسے گھوررہا تھا ! عمران نے ہینڈ بیگ میز پر سے اٹھا کر بغل میں دبالیا پھر دفعتاً سامنے بیٹھا ہوا آدمی اسے آنکھ مار کر مسکرانے لگا۔ جواب میں عمران نے باری باری اسے دونوں آنکھیں ماردیں ! لیڈی جہانگیر اپنے گلاس کی طرف دیکھ رہی تھی اور شائد اس کے ذہن میں کوئی انتہائی رومان انگیز جملہ کلبلا رہا تھا۔

”میں ابھی آیا!“عمران نے لیڈی جہانگیر سے کہا اور اس آدمی کی میز پر چلا گیا ۔

”لائے ہو ۔“اس نے آہستہ سے کہا۔

”یہ کیا رہا۔“عمران نے ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کیا پھر بولا۔”تم لائے ہو۔“

”ہاں آں!“اس آدمی نے لائے ہوئے ہینڈ بیگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔

”تو ٹھیک ہے!“عمران نے کہا ۔”اسے سنبھالو اور چپ چاپ کھسک جاو۔“

”کیوں ؟“وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

”کپتان فیاض کو مجھ پر شبہ ہوگیا ہے ہوسکتا ہے کہ اس نے کچھ آدمی میری نگرانی کے لئے مقرر کردیئے ہوں۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”کوئی چال!“
”ہرگز نہیں! آج کل مجھے روپوں کی سخت ضرورت ہے ۔“

”اگر کوئی چال ہوئی تو تم بچوگے نہیں ۔ “آدمی ہینڈ بیگ لے کر کھڑا ہوگیا ۔

”یارروپے مین نے اپنا مقبرہ تعمیر کرانے کے لئے نہیں حاصل کئے ۔ “عمران نے آہستہ سے کہا پھر وہ اس آدمی کو باہر جاتے دیکھتا رہا ۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی ۔ وہ اس آدمی کا دیا ہوا ہینڈ بیگ سنبھالتا ہوا پھر لیڈی جہانگیر کے پاس آبیٹھا ۔


اختتام باب نمبر 13
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”