خوفناک عمارت

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”ذرا سوچو تو ۔“عمران پھر بولا ۔ ”ایک عاشق ہی اردو شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بناکر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں ۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرنے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جومزاج یار میںآئے.... “

”پرانی شاعری اورحقیقت میں کیا لگاو ہے ؟“فیاض نے پوچھا ۔

”پتہ نہیں ۔ “عمران پر خیال انداز میں سرہلا کربولا ۔ ”ویسے اب تم پوری غزل سناسکتے ہو۔ مقطع میں عرض کردوں گا۔“

فیاض تھوڑی دیر خاموش رہا پھربولا۔ ”یہ عمارت تقریباً پانچ سال سے خالی رہی ہے!....ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کے لئے اسے کھولا جاتا ہے“

”کیوں ؟“

”یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے ۔“

”چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔“عمران نے پوچھا ۔

”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ جن لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اوران سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کوقبر کی دیکھ بھال کرلیا کرے!....یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی ۔ بہر حال آدمی آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی ۔“

”تالابند تھا !“عمران نے پوچھا ۔

”ہاں ۔اوروہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں ا س قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناءپر کہا جاسکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو“۔
”تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی!“عمران نے سنجیدگی سے کہا۔”بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کروجس کی قبر....
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

فیاض اٹھ کرآگے بڑھا !....دوسرے لمحے میں عمران ڈرائنگ روم میں داخل ہورہا تھا ۔

عورتوں کو دیکھ کر وہ قدرے جھکا اور پھر فیاض سے مصافحہ کرنے لگا ۔

”غالباً مجھے سب سے پہلے یہ کہنا چاہیے کہ آج موسم بڑا خوشگوار ہے ۔“عمران بیٹھتا ہوا بولا ۔

فیاض کی بیوی ہنسنے لگی اور رابعہ نے جلدی سے تاریک شیشوں والی عینک نکالی ۔

”آپ سے ملئے ،آپ مس رابعہ سلیم ہیں ۔ ہمارے پڑوسی جج صاحب کی صاحبزادی اور آپ مسٹر عمران میرے محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب کے صاحبزادے ۔“
”بڑی خوشی ہوئی ۔ “عمران مسکر کر بولا پھر فیاض سے کہنے لگا تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھونستے رہتے ہو۔ جو بہت گراں گزرتے ہیں ....رحمان صاحب کے صاحبزادے دونوں صاحبوں کا ٹکراو برا لگتا ہے ۔ اس کے بجائے رحمان صاحب کے زادے ....یا صرف رحمان زادے کہہ سکتے ہیں ۔

”میں لٹریری آدمی نہیں ہوں ۔ “فیاض مسکرا کر بولا ۔

دونوں خواتین بھی مسکرارہی تھیں ۔ پھر رابعہ نے جھک کر فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اور وہ دونوں اٹھ کرڈرائنگ روم سے چلی گئیں ۔

”بہت برا ہوا ۔“عمران براسامنہ بنا کر بولا ۔

”کیا ؟شائد وہ باورچی خانے کی طرف گئی ہیں ؟ فیاض نے کہا ۔”باورچی کی مدد کے لئے آج کوئی نہیں ہے ۔“

”تو کیا تم نے اسے بھی مدعو کیا ہے ۔“

”ہاں بھئی کیوں نہ کرتا میں نے سوچا کہ اس بہانے سے تمہاری ملاقات بھی ہوجائے ۔“

”مگر مجھے بڑی کوفت ہورہی ہے ۔“عمران نے کہا ۔

”کیوں؟“

”آخر اس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگایا ہے “

”اپنا نقص چھپانے کے لئے ۔“

”سنو میاں ! دو آنکھوں والیاں مجھے بہتیری مل جائیں گی ۔ یہاں تو معاملہ صرف اس آنکھ کا ہے ۔ ہائے کیا چیز ہے ....کسی طرح اس کا چشمہ اترواو ۔ ورنہ میں کھانا کھائے بغیر واپس چلا جاؤ ں گا ۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”مت بکو۔“

”میں چلا !“عمران اٹھتا ہوا بولا ۔

”عجیب آدمی ہو....بیٹھو!“فیاض نے اسے دوبارہ بٹھادیا ۔

”چشمہ اترواو میں اس کا قائل نہیں کہ محبوب سامنے ہو اور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو۔“

”ذرا آہستہ بولو۔“فیاض نے کہا ۔

”میں تو ابھی اسے کہوں گا ۔“

”کیا کہو گے۔“فیاض بوکھلا کر بولا۔

”یہی جو تم سے کہہ رہا ہوں’’۔

”یار خدا کےلئے ....“

”کیا برائی ہے ....اس میں ۔“

”میں نے سخت غلطی کی ۔“فیاض بڑبڑایا۔

”واہ....غلطی تم کرو اور بھکتوں میں !نہیں فیاض صاحب !میں اسے سے کہوں گا کہ براہ کرم چشمہ اتاردیجئے۔ مجھے آپ سے مرمت ہوگئی ہے ....مرمت ....مرمت....شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے ۔ بولو بھئی کیا ہونا چاہیے ۔ “

”محبت ....“فیاض براسا منہ بناکربولا۔

”جینو ! محبت ہوگئی ہے ....تو وہ اس پر کیا کہے گی ۔“

”چانٹا مار دے گی ۔“فیاض جھنجھلا کر بولا۔

”فکر نہ کرو میں چانٹے کو چانٹے پر روک لینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں طریقہ وہی ہوتاہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا ۔“
”یار خدا کے لئے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا “

”عقل مندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی ہوئی توہین ہے اب بلاو ¿نا ....دل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کرسکتا ....وہ کیا ہوتا ہے جدائی میں ....بولو نایار کون سا لفظ ہے ۔“

”میں نہیں جانتا ۔ “فیاض جھنجھلا کر بولا ۔

”خیر ہوتا ہوگا ....ڈکشنری میں دیکھ لوں گا ....ویسے میرا دل دھڑک رہا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے ۔ میں اسے نہیں برداشت کرسکتا ۔“

چند لمحے خاموشیررہی ! عمران میز پر رکھے ہوئے گلدان کو اس طرح گھوررہا تھا جیسے اس نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہو۔
”آج کچھ نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں ۔“فیاض نے کہا۔

”ضرور معلوم ہوئی ہوں گی ۔“عمران احمقوں کی طرح سر ہلاکر بولا۔

”مگر نہیں !پہلے میں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں ۔تمہارا خیال درست نکلا ۔زخموں کی گہرائیاں بالکل برابر ہیں۔“

”کیا تم خواب دیکھ رہے ہو۔ “عمران نے کہا۔

”کیوں؟“

”کن زخموں کی باتیں کررہے ہو؟“

”کیوں ؟“

”کن زخموں کی باتیں کررہے ہو؟“

”دیکھو عمران میں احمق نہیں ہوں ۔“

”پتہ نہیں جب تک تین گواہ نہ پیش کرو یقین نہیں کرسکتا۔“

”کیا تم کل والی لاش بھول گئے۔“

”لاش ....ارے....ہاں یاد آگیا ۔اور وہ تین زخم برابر نکلے ....رہا....“

”اب کیا کہتے ہو ۔ “فیاض نے پوچھا ۔

”سنگ وآہن بے نیاز غم نہیں ....دیکھ کر ہر دیوار دور سے سرنہ ملا ۔“عمران نے گنگنا کر تان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا ۔
”تم سنجیدہ نہیں ہوسکتے ۔ “فیاض اکتا کر بے دلی سے بولا۔

”اس کا چشمہ اتروادینے کا وعدہ کرو تو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں ۔“

”کوشش کروں گا بابا:میں نے اسے ناحق مدعو کیا ۔“

”دوسری بات یہ کہ کھانے میں کتنی دیر ہے !“

”شائد آدھا گھنٹہ ....وہ ایک نوکر بیمار ہوگیا ہے ۔“

”خیر ....وہاں جج صاحب کیا باتیں ہوئیں ؟“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”وہی بتانے جارہا تھا ! کنجی اس کے پاس موجود ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عمارت انہیں اپنے خاندانی ترکے میں نہیں ملی تھی۔“
”پھر “عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا ۔

”وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اس دوست نے ہی اسے خریدا تھا ان کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ۔آج سے پانچ سال قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملاجو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے لہٰذا وہ مرنے سے پہلے ان سے بہت اہم بات کہنا چاہتا ہے ! تقریباً پندرہ سال بعد جج صاحب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا ! ان کا وہاں پہنچنا ضروری تھا بہرحال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے ان کے دوست کا انتقال ہوچکا تھا ۔ معلوم ہوا کہ وہاں تنہاہی رہتا تھا ....ہاں تو جج صاحب کو بعد میں معلوم ہوا کہ مرنے والے نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کردی تھی ۔ لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ وہ ان سے کیا کہنا چاہتا تھا ۔

عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔

”ہاں !....اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق پوچھا تھا ۔“

”جج صاحب نے اس سے لاعلمی ظاہر کی ۔ البتہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان کے دوست کی موت اسی کمرے میں واقع ہوئی تھی۔“
”قتل ۔“عمران نے پوچھا ۔

”نہیں قدرتی موت گاؤ ں والوں کے بیان کے مطابق وہ عرصہ سے بیمار تھا ۔“

”اس نے اس عمارت کو کسی سے خریدا تھا ۔“عمران نے پوچھا ۔

”آخراس سے کیا بحث ! تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑگئے ہو۔“

”محبوبہ یک چشم کے والد بزرگوار سے یہ بھی پوچھو۔“

”ذرا آہستہ !عجیب آدمی ہواگر اس نے سن لیا تو!“

”سننے دو!۔۔ابھی میں ا سے اپنے دل کی حالت بیان کروں گا ۔“

”یار عمران خدا کے لئے ....کیسے آدمی ہوتم !“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”فضول باتیں مت کرو۔“عمران بولا ۔”ذرا جج صاحب سے وہ کنجی مانگ لاو ۔“

”اوہ کیا ابھی ....!“

ابھی اوراسی وقت“۔

فیاض اٹھ کر چلا گیا ! اس کے جاتے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں ۔

”کہاں گئے !“فیاض کی بیوی نے پوچھا۔

”شراب پینے۔“عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

”کیا؟“فیاض کی بیوی منہ پھاڑ کر بولی۔پھر ہنسنے لگی۔

”کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی پیتے ہیں ۔“ عمران نے کہا ۔

”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ....وہ ایک ٹانک ہے ۔“

”ٹانک کی خالی بوتل میں شراب رکھنا مشکل نہیں !“

”لڑانا چاہتے ہیں آپ۔“ فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔

”کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے ۔“عمران نے رابعہ کو مخاطب کیا۔

”جی ....جی....جی نہیں ۔“رابعہ نروس نظر آنے لگی۔

”کچھ نہیں ۔“فیاض کی بیوی جلدی سے بولی۔”عادت ہے تیز روشنی نہیں ہوتی اسی لئے یہ چشمہ ....“

”اوہ اچھا ؟“عمران بڑبڑایا ۔”میں ابھی کیا سوچ رہا تھا۔“

”آپ غالباً یہ سوچ رہے تھے کہ فیاض کی بیوی بڑی پھوہڑ ہے ۔ ابھی تک کھانا بھی نہیں تیار ہوسکا ۔“

”نہیں یہ بات نہیں ہے میرے ساتھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جاتا ہوں ! سوچتے سوچتے بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا تھا ۔ ہوسکتا ہے میں ابھی یہ بھول جاؤں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں ؟ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں ۔“

”مجھے معلوم ہے ۔“فیاض کی بیوی مسکرائی۔

”مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کوئی حماقت سرزد ہوتو بلا تکلف ٹوک دیجئے گا۔“

ابھی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ فیاض واپس آگیا۔

”کھانے میں کتنی دیر ہے ۔“اس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”بس ذراسی۔“

فیاض نے کنجی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عمران کے انداز سے بھی ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہوکہ اسنے فیاض کو کہاں بھیجا تھا ۔

تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا ۔

کھانے کے دوران میں عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ سب نے دیکھا لیکن کسی نے پوچھا نہیں خود فیاض جو عمران کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعوی رکھتا تھا کچھ نہ سمجھ سکا ۔ فیاض کی بیوی اور رابعہ توبار بار کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔ آنسو کسی طرح رکنے کا نام ہی لیتے تھے۔ خود عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے اسے بھی ان آنسوؤں کا علم نہ ہو۔ آخر فیاض کی بیوی سے ضبط نہ ہوسک اور وہ پوچھ ہی بیٹھی۔

”کیا کسی چیز میں مرچیں زیادہ ہیں۔“

”جی نہیں ....نہیں تو۔“

”تو پھر یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں “۔

”آنسو ....کہاں ۔“عمران اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا”لل....لاحوں ولا قوۃ۔ شائد وہی بات ہو....مجھے قطعی احساس نہیں ہوا۔“
”کیا بات؟“فیاض نے پوچھا ۔

”دراصل مرغ مسلم دیکھ کر مجھے اپنے ایک عزیز کی موت یاد آگئی تھی۔“

”کیا ؟ مرغ مسلم دیکھ کر ۔“فیاض کی بیوی حیرت سے بولی۔

”جی ہاں ....“

”بھلا مرغ مسلم دیکھ کر کیوں؟“

”دراصل ذہن میں دوزخ کا تصور تھا ؟ مرغ مسلم دیکھ کر آدمی مسلم کا خیال آگیا ۔ میرے ان عزیز کا نام اسلم ہے مسلم پر اسلم آگیا ....پھر ان کی موت کا خیال آیا ۔ پھر سوچا کہ اگر وہ دوزخ میں پھینکے گئے توا سلم مسلم ....معاذ اللہ....!“

”عجیب آدمی ہو۔“فیاض جھنجھلا کر بولا۔

جج صاحب کی لڑکی رابعہ بے تحاشہ ہنس رہی تھی ۔

”کب انتقال ہوا ان کا ۔“فیاض کی بیوی نے پوچھا ۔۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”ابھی تو نہیں ہوا ۔“ عمران نے سادگی سے کہا اور کھانے میں مشغول ہوگیا ۔

”یار مجھے ڈرہے کہ کہیں تم سچ مچ پاگل نہ ہوجاو۔“

”نہیں جب تک کوکا کولا بازار میں موجود ہے پاگل نہیں ہوسکتا ۔“

”کیوں !“فیاض کی بیوی نے پوچھا ۔

”پتہ نہیں !بہرحال محسوس یہی کرتا ہوں۔“

کھانا ختم ہوجانے کے بعدبھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہاں بیٹھنا چاہتی تھی ۔ لیکن فیاض کی بیوی اسے کسی بہانے سے اٹھالے گئی شائد فیاض نے اسے اشارہ کردیا تھا ۔ ان کے جاتے ہی فیاض نے عمران کو کنجی پکڑادی اور عمران تھوڑی دیرتک اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعد بولا ۔

”ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے ۔ اس کے سوراخ کے اندر موم کے ذرات ہیں ! ۔موم کا سانچہ ....سمجھتے ہونا!“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 4

Post by سیدتفسیراحمد »

باب نمبر4

دوسرے دن کیپٹن فیاض نے عمران کو اپنے گھر میں مدعو کیا ۔ حالانکہ کئی بار کے تجربات نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظاہر کرتا ہے نہ وہ احمق ہے اور نہ خبطی ! لیکن پھر بھی فیاض نے اسے موڈ میں لانے کے لئے جج صاحب کی کانی لڑکی کو بھی مدعو کرلیا تھا ! حالانکہ وہ عمران کی اس افتاد طبع کو بھی مذاق ہی سمجھا تھا لیکن پھر بھی س نے سوچا کہ تھوڑی تفریح ہی رہے گی ۔ فیاض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیاض نے اس اس کے ”عشق “کی داستان سنائی تو ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہوگیا ۔

فیاض اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظارکررہا تھا ۔ اس کی بیوی اور جج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی موجود تھیں
۔
”ابھی تک نہیں آئے عمران صاحب! “فیاض کی بیوی نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
”کیا وقت ہے ۔“فیاض نے پوچھا ۔

”ساڑھے سات“

”بس دو منٹ بعد وہ اس کمرے میں ہوگا ۔ “فیاض مسکرا کر بولا ۔

”کیوں ۔ یہ کیسے؟“

”بس اس کی ہر بات عجیب ہوتی ہے ! وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کرتا ہے ۔ اس نے سات بج کر بیس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا ۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہمارے بنگلے کے قریب کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوگا ۔“

”عجیب آدمی معلوم ہوتے ہیں ۔“رابعہ نے کہا۔

”عجیب ترین کہئے ! انگلینڈ سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کرآیا ہے ۔ لیکن اس کی حرکات وہ بھی دیکھ لیں گی ۔ اس صدی کا سب سے عجیب آدمی ....لیجئے شاہد وہی ہے ۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”مت بکو۔“

”میں چلا !“عمران اٹھتا ہوا بولا ۔

”عجیب آدمی ہو....بیٹھو!“فیاض نے اسے دوبارہ بٹھادیا ۔

”چشمہ اترواو میں اس کا قائل نہیں کہ محبوب سامنے ہو اور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو۔“

”ذرا آہستہ بولو۔“فیاض نے کہا ۔

”میں تو ابھی اسے کہوں گا ۔“

”کیا کہو گے۔“فیاض بوکھلا کر بولا۔

”یہی جو تم سے کہہ رہا ہوں’’۔

”یار خدا کےلئے ....“

”کیا برائی ہے ....اس میں ۔“

”میں نے سخت غلطی کی ۔“فیاض بڑبڑایا۔

”واہ....غلطی تم کرو اور بھکتوں میں !نہیں فیاض صاحب !میں اسے سے کہوں گا کہ براہ کرم چشمہ اتاردیجئے۔ مجھے آپ سے مرمت ہوگئی ہے ....مرمت ....مرمت....شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے ۔ بولو بھئی کیا ہونا چاہیے ۔ “

”محبت ....“فیاض براسا منہ بناکربولا۔

”جینو ! محبت ہوگئی ہے ....تو وہ اس پر کیا کہے گی ۔“

”چانٹا مار دے گی ۔“فیاض جھنجھلا کر بولا۔

”فکر نہ کرو میں چانٹے کو چانٹے پر روک لینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں طریقہ وہی ہوتاہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا ۔“
”یار خدا کے لئے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا “

”عقل مندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی ہوئی توہین ہے اب بلاو نا ....دل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کرسکتا ....وہ کیا ہوتا ہے جدائی میں ....بولو نایار کون سا لفظ ہے ۔“

”میں نہیں جانتا ۔ “فیاض جھنجھلا کر بولا ۔

”خیر ہوتا ہوگا ....ڈکشنری میں دیکھ لوں گا ....ویسے میرا دل دھڑک رہا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے ۔ میں اسے نہیں برداشت کرسکتا ۔“

چند لمحے خاموشیررہی ! عمران میز پر رکھے ہوئے گلدان کو اس طرح گھوررہا تھا جیسے اس نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہو۔
”آج کچھ نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں ۔“فیاض نے کہا۔

”ضرور معلوم ہوئی ہوں گی ۔“عمران احمقوں کی طرح سر ہلاکر بولا۔

”مگر نہیں !پہلے میں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں ۔تمہارا خیال درست نکلا ۔زخموں کی گہرائیاں بالکل برابر ہیں۔“

”کیا تم خواب دیکھ رہے ہو۔ “عمران نے کہا۔

”کیوں؟“

”کن زخموں کی باتیں کررہے ہو؟“

”کیوں ؟“

”کن زخموں کی باتیں کررہے ہو؟“

”دیکھو عمران میں احمق نہیں ہوں ۔“

”پتہ نہیں جب تک تین گواہ نہ پیش کرو یقین نہیں کرسکتا۔“

”کیا تم کل والی لاش بھول گئے۔“

”لاش ....ارے....ہاں یاد آگیا ۔اور وہ تین زخم برابر نکلے ....رہا....“

”اب کیا کہتے ہو ۔ “فیاض نے پوچھا ۔

”سنگ وآہن بے نیاز غم نہیں ....دیکھ کر ہر دیوار دور سے سرنہ ملا ۔“عمران نے گنگنا کر تان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا ۔

”تم سنجیدہ نہیں ہوسکتے ۔ “فیاض اکتا کر بے دلی سے بولا۔

”اس کا چشمہ اتروادینے کا وعدہ کرو تو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں ۔“

”کوشش کروں گا بابا:میں نے اسے ناحق مدعو کیا ۔“

”دوسری بات یہ کہ کھانے میں کتنی دیر ہے !“

”شائد آدھا گھنٹہ ....وہ ایک نوکر بیمار ہوگیا ہے ۔“

”خیر ....وہاں جج صاحب کیا باتیں ہوئیں ؟“

”وہی بتانے جارہا تھا ! کنجی اس کے پاس موجود ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عمارت انہیں اپنے خاندانی ترکے میں نہیں ملی تھی۔“

”پھر “عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا ۔

”وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اس دوست نے ہی اسے خریدا تھا ان کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ۔آج سے پانچ سال قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملاجو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے لہٰذا وہ مرنے سے پہلے ان سے بہت اہم بات کہنا چاہتا ہے ! تقریباً پندرہ سال بعد جج صاحب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا ! ان کا وہاں پہنچنا ضروری تھا بہرحال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے ان کے دوست کا انتقال ہوچکا تھا ۔ معلوم ہوا کہ وہاں تنہاہی رہتا تھا ....ہاں تو جج صاحب کو بعد میں معلوم ہوا کہ مرنے والے نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کردی تھی ۔ لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ وہ ان سے کیا کہنا چاہتا تھا ۔

عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔

”ہاں !....اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق پوچھا تھا ۔“

”جج صاحب نے اس سے لاعلمی ظاہر کی ۔ البتہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان کے دوست کی موت اسی کمرے میں واقع ہوئی تھی۔“
”قتل ۔“عمران نے پوچھا ۔

”نہیں قدرتی موت گاؤ ں والوں کے بیان کے مطابق وہ عرصہ سے بیمار تھا ۔“

”اس نے اس عمارت کو کسی سے خریدا تھا ۔“عمران نے پوچھا ۔

”آخراس سے کیا بحث ! تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑگئے ہو۔“

”محبوبہ یک چشم کے والد بزرگوار سے یہ بھی پوچھو۔“

”ذرا آہستہ !عجیب آدمی ہواگر اس نے سن لیا تو!“

”سننے دو!۔۔ابھی میں ا سے اپنے دل کی حالت بیان کروں گا ۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”یار عمران خدا کے لئے ....کیسے آدمی ہوتم !“

”فضول باتیں مت کرو۔“عمران بولا ۔”ذرا جج صاحب سے وہ کنجی مانگ لاو ۔“

”اوہ کیا ابھی ....!“

ابھی اوراسی وقت“۔

فیاض اٹھ کر چلا گیا ! اس کے جاتے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں ۔

”کہاں گئے !“فیاض کی بیوی نے پوچھا۔

”شراب پینے۔“عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

”کیا؟“فیاض کی بیوی منہ پھاڑ کر بولی۔پھر ہنسنے لگی۔

”کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی پیتے ہیں ۔“ عمران نے کہا ۔

”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ....وہ ایک ٹانک ہے ۔“

”ٹانک کی خالی بوتل میں شراب رکھنا مشکل نہیں !“

”لڑانا چاہتے ہیں آپ۔“فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔

”کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے ۔“عمران نے رابعہ کو مخاطب کیا۔

”جی ....جی....جی نہیں ۔“رابعہ نروس نظر آنے لگی۔

”کچھ نہیں ۔“فیاض کی بیوی جلدی سے بولی۔”عادت ہے تیز روشنی نہیں ہوتی اسی لئے یہ چشمہ ....“

”اوہ اچھا ؟“عمران بڑبڑایا ۔”میں ابھی کیا سوچ رہا تھا۔“

”آپ غالباً یہ سوچ رہے تھے کہ فیاض کی بیوی بڑی پھوہڑ ہے ۔ ابھی تک کھانا بھی نہیں تیار ہوسکا ۔“

”نہیں یہ بات نہیں ہے میرے ساتھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جاتا ہوں ! سوچتے سوچتے بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا تھا ۔ ہوسکتا ہے میں ابھی یہ بھول جاؤں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں ؟ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں ۔“

”مجھے معلوم ہے ۔“فیاض کی بیوی مسکرائی۔

”مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کوئی حماقت سرزد ہو تو بلا تکلف ٹوک دیجئے گا۔“

ابھی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ فیاض واپس آگیا۔

”کھانے میں کتنی دیر ہے ۔“ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”بس ذراسی۔“

فیاض نے کنجی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عمران کے انداز سے بھی ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہوکہ اسنے فیاض کو کہاں بھیجا تھا ۔

تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا ۔

کھانے کے دوران میں عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ سب نے دیکھا لیکن کسی نے پوچھا نہیں خود فیاض جو عمران کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعوی رکھتا تھا کچھ نہ سمجھ سکا ۔ فیاض کی بیوی اور رابعہ توبار بار کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔ آنسو کسی طرح رکنے کا نام ہی لیتے تھے۔ خود عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے اسے بھی ان آنسوؤں کا علم نہ ہو۔ آخر فیاض کی بیوی سے ضبط نہ ہوسک اور وہ پوچھ ہی بیٹھی۔

”کیا کسی چیز میں مرچیں زیادہ ہیں۔“

”جی نہیں ....نہیں تو۔“

”تو پھر یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں “۔

”آنسو ....کہاں ۔“عمران اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا”لل....لاحوں ولا قوۃ۔ شائد وہی بات ہو....مجھے قطعی احساس نہیں ہوا۔“

”کیا بات؟“فیاض نے پوچھا ۔

”دراصل مرغ مسلم دیکھ کر مجھے اپنے ایک عزیز کی موت یاد آگئی تھی۔“

”کیا ؟ مرغ مسلم دیکھ کر ۔“فیاض کی بیوی حیرت سے بولی۔

”جی ہاں ....“

”بھلا مرغ مسلم دیکھ کر کیوں؟“

”دراصل ذہن میں دوزخ کا تصور تھا ؟ مرغ مسلم دیکھ کر آدمی مسلم کا خیال آگیا ۔ میرے ان عزیز کا نام اسلم ہے مسلم پر اسلم آگیا ....پھر ان کی موت کا خیال آیا ۔ پھر سوچا کہ اگر وہ دوزخ میں پھینکے گئے توا سلم مسلم ....معاذ اللہ....!“

”عجیب آدمی ہو۔“فیاض جھنجھلا کر بولا۔

جج صاحب کی لڑکی رابعہ بے تحاشہ ہنس رہی تھی ۔

”کب انتقال ہوا ان کا ۔“فیاض کی بیوی نے پوچھا ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”ابھی تو نہیں ہوا ۔“ عمران نے سادگی سے کہا اور کھانے میں مشغول ہوگیا ۔

”یار مجھے ڈرہے کہ کہیں تم سچ مچ پاگل نہ ہوجاو۔“

”نہیں جب تک کوکا کولا بازار میں موجود ہے پاگل نہیں ہوسکتا ۔“

”کیوں !“فیاض کی بیوی نے پوچھا ۔

”پتہ نہیں !بہرحال محسوس یہی کرتا ہوں۔“

کھانا ختم ہوجانے کے بعدبھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہاں بیٹھنا چاہتی تھی ۔ لیکن فیاض کی بیوی اسے کسی بہانے سے اٹھالے گئی شائد فیاض نے اسے اشارہ کردیا تھا ۔ ان کے جاتے ہی فیاض نے عمران کو کنجی پکڑادی اور عمران تھوڑی دیرتک اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعد بولا ۔

”ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے ۔ اس کے سوراخ کے اندر موم کے ذرات ہیں ! ۔موم کا سانچہ ....سمجھتے ہونا!“

اختتام باب نمبر4
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

باب نمبر 5

ایک بج گیا تھا .... فیاض عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب اتار کر چلا گیا پائیں باغ کا دروزہ بند ہوچکا تھا !عمران پھاٹک ہلانے

لگا ....اونگھتے ہوئے چوکیدار نے ہانک لگائی
۔
“ پیارے چوکیدار.... میں ہوں تمہارا خادم علی عمران ایم ایس سی پی ایچ ڈی لندن ۔ “

“ کون چھوٹےسرکار۔” چوکیدار پھاٹک کے قریب آکر بولا” حضور مشکل ہے ۔”

“ دنیا کا ہر بڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جو آسان ہوجائے ۔”

“ بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھاٹک نہ کھولا جائے ....اب بتائیے ۔”

“ بڑے سرکار تک کنفیوشس کا پیغام پہنچادو۔”

“ جی سرکار ! “ چوکیدار بوکھلا کر بولا۔

“ ان سے کہہ دو کنفیوشس نے کہا ہے کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لئے اپنے دروازے کھول دو۔”

“ مگر بڑے سرکار نے کہا ہے ....”

“ ہا....بڑے سرکار....انہیں چین میں پیدا ہونا تھا ۔خیر تم ان تک کنفیوشس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا ۔”

“ میں کیا بتاوں ۔” چوکیدار کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا ۔ “ اب آپ کہاں جائیں گے” ۔

“ فقیر یہ سہانی رات کسی قبرستان میں بسر کرے گا ۔ “

“ میں آپ کے لئے کیاکروں ۔”

“ دعائے مغفرت ....اچھا ٹاٹا! “ عمران چل پڑا ۔

اور پھر آدھےگھنٹے بعد وہ ٹپ ٹاٹ نائٹ کلب میں داخل ہورہا تھا لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی محکمہ سرغرسانی کہ ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے مڈبھیڑ ہوگئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا ۔

“ اوہو! صاحبزادے تو تم اب ادھر بھی دکھائی دینے لگے ہو؟‘

“ جی ہاں اکثر فلیش کھیلنے کے لئے چلا آتا ہوں ۔ “ عمران نے سرجھکا کر بڑی سعادتمندی سے کہا۔

“ فلیش !تو کیا اب فلیش بھی....؟”

“ جی ہاں ! کبھی کبھی نشے میں دل چاہتا ہے ۔”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ اوہ....تو شراب بھی پینے لگے ہو۔”

“ وہ کیا عرض کروں ....قسم لے لیجئے جو کبھی تنہا پی ہو۔اکثر شرابی طوائفیں بھی مل جاتی ہیں جو پلائے بغیر مانتیں ہی نہیں....! “

“ لا حول ولا قوۃ .... تو تم آج کل رحمن صاحب کا نام اُچھال رہے ہو۔”

“ اب آپ ہی فرمائیے ! “ عمران مایوسی سے بولا ۔” جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے ....ویسے قسم لے لیجئے ۔ جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پرلعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں ۔”

“ شائد رحمن صاحب کو اس کی اطلاع نہیں....خیر....”

“ اگر ان سے ملاقت ہو تو کنفیوشس کا یہ قول دہرادیجئے گا کہ جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتوں سے سازباز کرلیتا ہے ۔ “

ڈپٹی ڈائریکٹر اسے گھوررتا ہوا باہر چلا گیا ۔

عمران نے سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا جائزہ لیا ....اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں ۔ جہاں ایک خوبصورت عورت اپنے سامنے پورٹ کی بوتل رکھے بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی ۔ گلاس آدھے سے زیادہ خالی تھا۔

عمران اس کے قریب پہنچ کر رک گیا ۔

“ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں لیڈی جہانگیر ! “ وہ قدرے جھک کر بولا۔

“ اوہ تم “ لیڈی جہانگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بولی “ نہیں ....ہرگز نہیں۔”

“ کوئی بات نہیں ! “ عمران معصومیت سے مسکراکر بولا۔” کنفیوشس نے کہا تھا ....! “

“ مجھے کنفیوشس سے کوئی دلچسپی نہیں ....” وہ جھنجھلا کر بولی ۔

“ توڈی ایچ لارنس ہی کا ایک جملہ سن لیجئے۔”

“ میں کچھ نہیں سننا چاہتی ....تم یہاں سے ہٹ جاو ۔” لیڈی جہانگیر گلاس اٹھاتی ہوئی بولی۔

“ اوہ اس کا خیال کیجئے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی ہیں ....”

“ شٹ اپ” ۔

“ آپ کی مرضی میں تو صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آج صبح سے موسم بہت خوشگوار تھا ۔

وہ مسکراپڑی ۔

“ بیٹھ جاو “ اس نے کہا اور ایک ہی سانس میں گلاس خالی کرگئی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

وہ تھوڑی دیراپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جمائے رہی پھر سگریٹ کا ایک طویل کش لے کرآگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی۔

“ میں اب بھی تمہاری ہوں۔”

“ مگر ....سر جہانگیر! “ عمران گھبراکر کھڑا ہوگیا ۔

لیڈی جہانگیر ہنس پڑی ۔

“ تمہاری حماقتیں بڑی پیاری ہوتی ہیں ۔ “ وہ اپنی بائیں آنکھ دباکر بولی اور عمران نے شرما کر سرجھکا لیا ۔

“ کیا پیو گے ! “ لیڈی جہانگیر نے تھوڑی دیر بعد پوچھا ۔

“ دہی کی لسی۔”

“ دہی کی لسی!....ہی....ہی....ہی....ہی....شائد تم نشے میں ہو! “

“ ٹھہرئیے ! “ عمران بوکھلا کر بولا۔” میں ایک بجے کے بعد صرف کافی پیتاہوں ....چھ بجے شام سے بارہ بجے رات تک رم پیتا ہوں ۔”

“ رم “ ! لیڈی جہانگیر منہ سکوڑ کر بولی۔” تم اپنے ٹیسٹ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے رم تو صرف گنوارپیتے ہیں ۔”

“ نشے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ میں گنوار نہیں ہوں۔”

“ تم آج کل کیا کررہے ہو۔”

“ صبر! “ عمران نے طویل سانس لے کر کہا ۔

“ تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہوسکتے ۔ “ لیڈی جہانگیر مسکراکربولی۔

“ اوہ آپ بھی یہی سمجھتی ہیں ۔” عمران کی آواز حددرجہ دردناک ہوگئی ۔

“ آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے شادی سے انکار کردیاتھا ۔” لیڈی جہانگیر نے کہا ۔

“ میں نے کب انکار کیا تھا ۔” عمران رونی صورت بناکر بولا۔ “ میں نے تو آپ کے والد صاحب کو صرف دو تین شعر سنائے

تھے ....مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی نہیں۔ ورنہ میں نثر میں گفتگو کرتا۔”


“ والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پر لے سرے کے احمق اور بدتمیز ہو ۔ “ لیڈی جہانگیر نے کہا ۔

“ اور چونکہ سرجہانگیر ان کے ہم عمر ہیں ....لہٰذا ....”
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ شٹ اپ ۔” لیڈی جہانگیر بھنا کر بولی۔

“ بہر حال میں یونہی آپ آپ کر مرجاوں گا ۔” عمران کی آواز پھر دردناک ہوگئی ۔

لیڈی جہانگیر بغوراس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

“ کیا واقعی تمہیں افسوس ہے ۔” اس نے آہستہ سے پوچھا ۔

“ کیا تم پوچھ رہی ہو ؟....اور وہ بھی اس طرح جیسے تمہیں میرے بیان پرشبہ ہو ۔ “ عمران کی آنکھوں میں نہ صرف آنسو چھلک آئے بلکہ بہنے بھی لگے۔

“ ارر....نومائی ڈیئر ....عمران ڈارلنگ کیا کررہے ہوتم ! “ لیڈی جہانگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھایا
۔
“ میں اسی غم میں مرجاوں گا “ وہ آنسو خشک کرتا ہوا بولا۔

“ نہیں تمہیں شادی کرلینی چاہیے ۔ “ لیڈی جہانگیر نے کہا ۔” اور میں ....میں تو ہمیشہ تمہاری ہی رہوں گی ۔” وہ دوسرا گلاس لبریز کررہی تھی ۔

“ سب یہی کہتے ہیں ....کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں ....کئی دن ہوئے جسٹس فاروق کی لڑکی کا رشتہ آیا

تھا ....گھروالوں نے انکار کردیا ۔ لیکن مجھے وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے ۔”

“ پسند ہے۔ لیڈی جہانگیر حیرت سے بولی ۔تم نے ان کی لڑکی کو دیکھا ہے ۔”

“ ہاں !....وہی نا ریٹاہیورتھ اسٹائل کے بال بناتی ہے اور عموماً تاریک چشمہ لگاتے رہتی ہے ۔”

“ جانتے ہو وہ تاریک چشمہ کیوں لگاتی ہے ! “ لیڈی جہانگیر نے پوچھا ۔

“ نہیں ! ....لیکن اچھی لگتی ہے ۔”

لیڈی جہانگیر نے قہقہ لگایا ۔

“ وہ اس لئے تاریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غائب ہے ۔”

“ بائیں ....” عمران اچھل پڑا۔

“ اور غالباً اسی بناءپر تمہارے گھر والوں نے یہ رشتہ منظور نہیں کیا ۔”

“ تم اسے جانتی ہو ! “ عمران نے پوچھا !

“ اچھی طرح سے ! اور آج کل میں اسے بہت خوبصورت آدمی کے ساتھ دیکھتی ہوں ۔ غالباً وہ بھی تمہاری ہی طرح احمق ہوگا ۔”

“ کون ہے وہ میں اس کی گردن توڑ دوں گا ۔ “ عمران بھپر کربولا۔ پھر اچانک چونک کر خود ہی بڑبڑانے لگا ۔” لا حول ولاۃ قو....بھلا مجھ سے کیا مطلب ! “
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

“ مت بور کرو ۔” لیڈی جہانگیر چڑ کر بولی ۔

“ ویسے ہی ....بائی دی وے ....کیا تمہارا رات بھر کا پروگرام ہے ۔”

“ نہیں ایسا تو نہیں ....کیوں ؟”

“ میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رونا چاہتا ہوں ۔”

“ تم بالکل گدھے ہو بلکہ گدھے سے بھی بدتر ۔


“ میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں ....کیا تم مجھے اپنی چھت کے نیچے رونے کا موقع دوگی ۔” کنفیوشس نے کہا ہے ۔

“ عمران ....پلیز ....شٹ اپ۔”

“ لیڈی جہانگیر میں ایک لنڈورے مرغ کی طرح اداس ہوں ۔”

“ چلو اٹھو! لیکن اپنے کنفیوشس کو یہیں چھوڑ چلو۔ بوریت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔”

تقریباً آدھ گھنٹے بعد عمران لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں کھڑا اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا ! لیڈی جہانگیر کے جسم پر صرف شب خوابی کا لباوہ تھا ۔ وہ انگڑائی لے کر مسکرانے لگی ۔

“ کیا سوچ رہے ہو۔ “ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا ۔

“ میں سوچ رہا تھا کہ آخر کسی مثلث کے تینوں زادیوں کا مجموعہ دو زاویہ قائمہ کے برابر کیوں ہوتا ہے ۔”

“ پھر بکواس شروع کردی تم نے ۔” لیڈی جہانگیر کی نشیلی آنکھوں میں جھلاہٹ جھانکنے لگی ۔

“ مائی ڈیئرلیڈی جہانگیر اگر میں یہ ثابت کردوں کہ زاویہ قائمہ کوئی چیز ہی نہیں ہے تو دنیا کا بہت بڑا آدمی ہوسکتا ہوں ۔”

“ جہنم میں جاسکتے ہو! “ لیڈی جہانگیر براسامنہ بناکر بڑبڑائی ۔

“ جہنم ! کیا تمہیں جہنم پر یقین ہے ۔”

“ عمران میں تمہیں دھکے دے کر نکال دوں گی ۔”

“ لیڈی جہانگیر ! مجھے نیند آرہی ہے ۔”

“ سر جہانگیر کی خواب گاہ میں ان کا سلیپنگ سوٹ ہوگا ....پہن لو ۔”

“ شکریہ !....خواب گاہ کدھر ہے ۔”

“ سامنے والا کمرہ! “ لیڈی جہانگیر نے کہا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔

“ عمران نے سرجہانگیر کی خواب گاہ میں گھس کر اندر سے دروازہ بند کرلیا لیڈی جہانگیر ٹہلتی رہی ! دس منٹ گزر گئے ! آخر وہ جھنجھلا کر سرجہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آئی دھکا دیا ۔ لیکن اندر سے چٹخنی چڑھا دی گئی تھی ۔

“ کیا کرنے لگے عمران ؟” اس نے دروازہ تھپتھپانا شروع کردیا ۔ لیکن جواب نہ ملا پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے عمران خراٹے بھر رہا ہو اس نے دروازے سے کان لگادئیے ۔ حیقتاً وہ خراٹوں ہی کی آواز تھی
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

پھر دوسرے لمحے میں وہ ایک کرسی پر کھڑی ہوکر دروازے کے اوپری شیشہ سے کمرے کے اندر جھانک رہی تھی ۔ اس نے دیکھا کہ عمران کپڑے جوتوں سمیت سرجہانگیر کے پلنگ پر خراٹے لے رہا ہے اور اس نے بجلی بھی نہیں بجھائی تھی ۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دائرہ کی شکل میں سکوڑے عمران کو کسی بھوکی بلی کی طرح گھور رہی تھی ۔ پھر اس نے ہاتھ مار کر دروازے کا ایک شیشہ توڑ دیا ....نوکر شاگرد پیشے میں سوئے ہوئے تھے ۔ ورنہ شیشے کے چھناکے ان میں سے ایک آدھ کو ضرور جگادیتے ویسے یہ اور بات ہے کہ عمران کی نیند پر ان کاذرہ بھر اثر نہ پڑا ہو۔

لیڈی جہانگیر نے اندر ہاتھ ڈال کر چٹخنی نیچے گرادی ! نشے میں تو تھی ہی ! جسم کا پورا زوردروازے پر دے رکھا تھا !چٹخنی گرتے ہی دونوں پٹ کھل گئے اور وہ کرسی سمیت خواب گاہمیں جاگری....

عمران نے غنودہ آواز میں کر اہ کر کروٹ بدلی اور بڑبڑانے لگا ....” ہاں ہاں سنتھیلک گیس کی بوکچھ میٹھی میٹھی ہی ہوتی ہے ....؟”

پتہ نہیں وہ جاگ رہا تھا یا خواب میں بڑبڑایا تھا ۔

لیڈی جہانگیر فرش پر بیٹھ اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیر کربسوررہی تھی ! دو تین منٹ بعد وہ اٹھی اور عمران پر ٹوٹ پڑی ۔

“ سور کمینے ....یہ تمہارے باپ کا گھر ہے ؟....اٹھو....نکلو یہاں سے ۔” وہ اسے بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی ۔ عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا ۔

“ ہائیں !کیا سب بھاگ گئے “

“ دور ہوجاویہاں سے ۔” لیڈی جہانگیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا مارا ۔

“ ہاں ۔ہاں ....سب ٹھیک ہے ! “ عمران اپنا گریبان چھڑا کر پھر لیٹ گیا ۔

اس بار لیڈی جہانگیر نے بالوں سے پکڑ کر اسے اٹھایا ۔

“ ہائیں ....کیا ابھی نہیں کیا ! “ عمران جھلا کر اٹھ بیٹھا ۔ سامنے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہوا تھا ۔

“ اوہ تو آپ ہیں ۔” وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بولا....پھر اس طرح مکابنا کراٹھا جیسے اس پر حملے کرے گا ....اس طرح آہستہ آہستہ آئینے کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہو۔ پھر اچانک سامنے سے ہٹ کرایک کنارے پر چلنے لگا آئینے کے قریب پہنچ کر دیوارسے لگ کر کھڑا ہوگیا ....لیڈی جہانگیر کی طرف دیکھ اس طرح ہونٹوں پرانگلی رکھ لی جیسے وہ آئینے کے قریب نہیں بلکہ کسی دروازہ سے لگا کھڑا ہو اور اس بات کا منتظر ہوکہ جیسے ہی دشمن دروازے میں قدم رکھے گا وہ اس پر حملہ کربیٹھے گا ۔ لیڈی جہانگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت دیکھ رہی تھی ....لیکن اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی عمران نے پینترہ بدل کر آئینہ پر ایک گھونسہ رسید ہی کردیا ....ہاتھ میں جو چوٹ لگی تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”